مرکز عقائد شیعه شناسی

پیر، 25 فروری، 2019

بے نمازی شیعه کو معصومین ع کا اھم پیغام

بے نمازی شیعه کو معصومین ع کا اھم پیغام:

"تحریر :"سائیں لوگ                              

                      

زنجیر زنی میں خوشنودی آل محمد ع کو ڈھونڈنے والوں کو سیرت معصومین ع نظر کیوں نھیں آتی.

امام زین العابدین علیہ السلام کی عبادت:

حضرت امام سجاد علیہ السلام جب نماز کیلیے تیار ہونے لگتے اور وضو کرتے تو رخساروں کی رنگت تبدیل ہونے لگتی’’جب امام علیہ السلام سے اس صورتحال کی وجہ پوچھی جاتی تو فرماتے:‘‘کیا جانتے ہو کی میں کس بزرگترین ہستی کی آستان پر حاضر ہونے لگا ہوں اور کس کے سامنے جارہا ہوں.

نماز کے انتظار میں خضوع و خشوع کی شدت اور بارگاہ ربوبی میں احساس بندگی سے بدن کانپنے لگتا اور اعضاء و جوارح خوف خدا سے تھرتھرانے لگتے(۸)
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے ایک صحابی طاؤس بن زید یمانی نقل کرتا ہے:

میں نے حجر اسماعیل میں امام علیہ السلام کو مشاہدہ کیا کہ وہ پروردگار متعال کے حضور عبادت و مناجات میں مشغول تھے جب بھی نماز کیلیے کھڑے ہوتے تو چہرۂ مبارک کا رنگ کبھی زرد اور کبھی سرخ ہوجاتا،خوفِ خدا کی تلیو حضرت میں قابل دید تھی اور ایسے نماز پڑھ رہے تھے گویا آخری نماز پڑھ رہے ہوں،جب سجدے میں جاتے تھے تو بہت دیر تک سجدے میں ہی رہتے اور جب سجدے سے سرمبارک اٹھاتے تو پسینے کے قطرے بدن پر جاری ہوجاتے.

حضرت سید الشہدا علیہ السلام کی خاک شفا ہمیشہ آپ کے پاس رہتی تھی اور فقط خاک شفا پر ہی سجدے کرتے تھے۔

سجدوں کی کثرت اور ہر سجدے کے طولانی ہونے کی وجہ سے حضرت علی ابن الحسین علیہما السلام کو سید الساجدین کا لقب دیا گیا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:میرے والد بزرگوار جس نعمت کا بھی ذکر کرتے تو فوراً خداوند کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاتے(یعنی فوراً نعمت بخش ہستی کے سجدے میں گرجاتے)اسی طرح جب قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہوتے اور آیات سجدہ پر پہنچتے ،خطرے کے وقت،ناگوار حادثے کے موقع پر اور اسی طرح واجب نمازیں ادا کرلینے کے بعد یا جب بھی کوئی خدمت انجام دیتے ،دو مومن بھائیوں کے درمیان جب اصلاح کرواتے؛سر سجدہ ٔمعبود میں رکھ دیتے اور خدا کا شکریہ ادا کرتے۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا ایک خادم حضرت کو یوں یاد کرتا ہے: ایک دن میرے مولا صحرا کی طرف تشریف لے گئے،میں بھی حضرت کے ساتھ ہولیا،صحرا کے ایک گوشے میں عبادت میں مشغول ہوگئے،سجدہ کرتے ہوئے سخت پتھروں پر پیشانی مبارک رکھتے تھے اور گریہ و تضرع کے ساتھ خداوندمتعال کو یاد کرتے ،میں نے کوشش کی کہ حضرت جس ذکر میں مشغول ہیں وہ سن سکوں،اس دن میں نے گنتی کی کہ امام عالمیمقام علیہ السلام نے سجدے میں ایک ہزار مرتبہ یہ ذکر پڑھا:
‘‘لا الہ الا اللہ حقاً حقا،لا الہ الا اللہ تعبداً و رقا،لا الہ الا اللہ ایماناً و تصدیقاً’’
جب امام علیہ السلام نے سرمبارک سجدے سے اٹھایا تو حضرت کا چہرہ مبارک اور محاسن (ریش)آنسوؤں میں شرابور تھے۔

طاؤس یمانی نے روایت کی ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک رات خانہ کعبہ کے حجرہ میں تشریف لے گئے اور بہت نمازیں پڑھیں،پھر سجدہ کیا،رخسار مبارک خاک پر رکھے اور ہتھیلیاں آسمان کی طرف بلند کیں،میں نے سنا کہ آہستہ سے اس ذکر میں مشغول تھے:

عبیدک بفنائک،فقیرک بفنائک،سائلک بفنائک مسکینک بفنائک
یعنی تیرا چھوٹا سابندہ تیرے حضور حاضر ہے،تیرا مسکین تیری خدمت میں حاضر ہے،تیرا فقیر تیری آستان پر حاضر ہے،تیرا گدا تیری چوکھٹ پر حاضر ہے’’
طاؤس کا کہنا ہے کہ :میں نے یہ دعا یاد کرلی،پھر مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی،میں اسی دعا سے خداوندمتعال کو پکارتا تھا اور وہ میری ہر مشکل حل فرمادیتا تھا۔

بہت زیادہ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام ہردن رات میں ایک ہزار رکعت نماز(واجب اور نوافل واجب کے علاوہ)ادا کرتے تھے(۱۲)
حدیث لوح میں جب چوتھے امام علیہ السلام کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں بھی اسی لقب سے ملقب ہیں یعنی‘‘زین العابدین.

عبادت گزاروں کی زینت امام علیہ السلام لسان رسالت میں بھی اسی لقب سے یاد کیے گئے،جابر ابن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں:میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہواتھا جبکہ امام حسین ابن علی (علیہما السلام) حضور کی آغوش میں تھے،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسے سے پیار و نوازش فرمارہے تھے،پس میری طرف دیکھ کر فرمایا:
اے جابر!میرے بیٹے حسین کا مستقبل میں ایک فرزند ہوگا جس کا نام علی ہے،جب قیامت کا دن ہوگا تو حق تعاليٰ کی طرف سے ایک منادی عرش سے دے گا:سید العابدین تشریف لے آئیں،پس اس وقت علی ابن الحسین محشر میں داخل ہوں گے.
معلوم ہوگیا کہ یہ مقدس وجود اس طرح سے عبودیت و بندگی میں محو تھا کہ دوست و دشمن انھیں زین العابدین،سجاد اور سید العابدین جیسے القاب سے یاد کرتے تھے۔

سید العابدین سے مراد عبادت گزاروں کے سید و سردار ہیں۔اس بات اور ظریف نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ ان مقدس ہستیوں کی حقیقت ایک نور ہے وہی ایک نور،دوا نوار میں اور پھر ہوتے ہوتے چودہ انوار میں تقسیم ہوگیا سب کی اصل ایک ہے اور وہ ہیں حبیب خدا حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؛جن کی ذات میں عبودیت اور ہر صفت کے خزانے موجود ہیں یہ تمام اوصاف و فضائل وراثت کی جہت سے آئمہ ہديٰ علیہم السلام میں جاری و ساری ہیں۔

ہر امام علیہ السلام کے اندر ہر صفت و خوبی اپنے اوج و کمال پر موجود ہے خلق ِخالق کی حاجت روائی کی صفت ہو یا انعام واکرام اور اہداء و امتنان یا بندگی کی معراج ؛ جملہ صفات حسنہ،ان ہستیوں میں موجود ہیں سید العابدین کی تعبیر اور لقب کا مطلب یہ ہے کہ یہ معصوم ہستی باقی تمام عبادت گزار مخلوقات سے برتر،اشرف اور افضل ہیں یہاں قطعاً مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس تعبیر سے خود معصومین علیہم السلام کے اندر بعض کی بعض پر سیادت بتلائی جارہی ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ تمام افراد بشری اس فضیلت اور دیگر فضائل میں بہت پیچھے ہیں اور ان ہستیوں کی آپس میں درجات کی تفکیک بالکل مراد نہیں اور نہ ہی اس درجے پر کسی بشر کو قضاوت کا یارا ہے۔یہ تمام ہستیاں اخلاص اور للٰھیت میں اعليٰ مقامات رکھتی ہیں اس کے باوجود خداوندمتعال کے محضر میں اپنے آپ کو کمترین شمار کرتی ہیں،یہ امر اُس خالق حقیقی کی مطلق عظمتوں کے پیش نظر ہے۔اُس عظمت مطلق میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ پاؤں میں لگا ہوا تیر نماز پڑھنے کی حالت میں پاؤں سے باہر کھینچ لیا جاتا ہےپھر بھی نہ تیر پر توجہ ہے اور نہ تیر نکالے جانے پر اور یہاں بھی علی کے علی فرزند(علیہما السلام)کی معرفت اور عبادت کی ایسی کیفیت نظر آتی ہے کہ نماز ادا کررہے ہیں گھر میں آگ لگ جاتی ہے شور و غل اٹھتا ہے لیکن نماز جیسے پڑھ رہے تھے ،پڑھتے رہے۔یہاں تک کہ آگ کوبجھا دیا گیا.

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے اہلبیت میں اُن کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت رکھنے والی شخصیت حضرت زین العابدین علیہ السلام ہیں جو عبادت کے باب میں اس قدر بڑھے کہ ان کے فرزند بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی توجہات کا مرکز بن گئے ،امام محمد باقر علیہ السلام نے عبادت کا اثر حضرت کے چہرۂ مبارک پر آشکار دیکھا،والد بزرگوار کے حال پر رونا شروع ہوگئے۔حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کے رونے کا سبب بھانپ لیا پس فرمایا:بیٹا وہ صحیفہ اٹھا کر یہاں لے آئیں جس میں حضرت علی علیہ السلام کی عبادات کی تفصیل ثبت و ضبط ہے،جب امام باقر علیہ السلام وہ صحیفہ لائے .

حضرت اُس کے مطالعہ میں مشغول ہوگئے،تھوڑا سا مطالعہ فرمانے کے بعد ٹھہر گئے،سینے کی گہرائی سے ایک آہ بھری اور فرمانے لگے:حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام جیسی اتنی عبادت کرنے والا کون ہوسکتا ہے.

حضرت امام سجاد علیہ السلام کی اس قدر عاشقانہ عبادات دیکھ کر جب اُن سے کہا جاتا تھا کہ آپ اپنے جد بزرگوار علی علیہ السلام سے کہیں زیادہ عبادت گذار ہیں تو حضرت اظہار فرماتے تھے:
‘‘مَہ انّی نظرت فی عمل علی صلوات اللہ علیہ یوما واحداً فما استطعت أن اعدلہ من الحول الی الحول’’
یعنی میں نے حضرت علی صلوات اللہ علیہ کے ایک دن کے اعمال میں نظر کی تو مجھ پر واضح ہوگیا کہ میں سال بھر میں بھی حضرت کے ایک روز کے اعمال کی برابری نہیں کرسکتا.

واضح ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادات کا وہ عالم تھا کہ خود خداوند متعال نے قرآن کریم میں فرمایا کہ اپنے آپ کو اس قدر تھکا نہیں دیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:امت اسلامی میں کوئی شخص بھی سوائے حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی عبادات انجام نہیں دے سکا.

حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نہ فقط جانشین و وارث بلا فصل ہیں بلکہ نفس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ بھی ہیں لہٰذا اس مطلب کو سمجھا جاسکتا ہے اور حضرت امام زین العابدین و حضرت امیرالمؤمنین علیہما السلام کی عبادات کا وہی عالم ہے کہ جیسے معروف حدیث نبوی میں موجود ہے کہ دونوں شہزادے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور اس کے فوراً بعد ذکر فرمایا کہ وابوہما افضلہما کہ ان دونوں شہزادوں کے والد بزرگوار(علی ابن ابیطالب علیہ السلام)ان دونوں سے افضل ہیں۔

یہاں یہ بھی ایسا ہی ہے کہ عبادت اور عبادت گزاروں کی زینت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہیں جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ لوح والی حدیث میں بھی حضرت کو اسی لقب سے ذکر فرمایا گیا لیکن ظاہر ہے کہ حضرت امیرعلیہ السلام بہرحال ہر باب اور ہر میدان میں امیر ہی ہیں اور حقیقت امر تو وہی ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا کہ ان سب معصومین علیہم السلام کی حقیقت ایک ہی ہے۔حقیقت واحدہ رکھنے والی یہ مقدس و مقرب ہستیاں ایک نور خدا سے ہیں جب حقیقت ایک ہے تو عبادات بھی ایک ہیں یہ علیحدہ بات کہ کثرات میں مختلف صفات خداوند متعال کی رضا وارادے کے مطابق کس طرح سے علیحدہ علیحدہ ظہور پذیر ہوئی ہیں۔حقیقت کی گہرائی میں جانے کی توفیق رفیق ہوتو کہہ اٹھیں گے کہ خداوندمتعال کی بھیجی ہوئی نمونہ ہستیاں یہی ہیں،اگر ان سب کا اوج شہامت و شجاعت ملاحظہ کرنا ہو تو شیر خدا کو دیکھ لو،اگر معراج شہادت مشاہدہ کرنا چاہو تو سید الشہدا کو دیکھ لو،اگر عروج و زین عبادت کا نظارہ کرنا ہو تو زین العابدین ،سید الساجدین حضرت امام علی ابن الحسین ابن علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی زیارت کرلو۔

کیونکہ ان میں سے ایک کی شجاعت وہی سب کی شجاعت ہے،ایک کی شہادت سب کی شہادت ہے،ایک کی عبادت سب کی عبادت ہے۔۔۔۔اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ اقمار منیرہ ایک ہی شمس طالعہ کی نورانیت سے بھر پور ہیں،سب فضائل کا خلاصہ ہر ایک میں ہے،اس وقت بھی سب فضائل و شمائل کے آئینہ دارحجت کردگار مہدی نامدار صلوات اللہ علیہ کی صورت میں موجود ہے کیونکہ زمین خدا حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی،بقیۃ اللہ کا وجود،ان سب ہستیوں کا نمائندہ وجود ہے جیسا کہ ان سب ہستیوں کی نمائندگی ہر دور میں بدرجۂ اتم ایک ظہور میں رہی ہے۔
یہ مظاہر ہیں اوصافِ حق کے سبھی ،ساری مخلوق ان کی ثناء خوان ہے
ان کے اوصاف کی کنہ تک جاسکے اتنی فکر بشر کی رسائی نہیں.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں