مرکز عقائد شیعه شناسی

ہفتہ، 16 فروری، 2019

کیا انبیاء و معصومین ع ھر جگه حاضر ناصر ھیں ..حصه اول



تحریر :"سائیں لوگ"

 حصه : اول
           
آنبیاء ع و آئمه معصومین ع کیا حاضر ناضر ھیں:

کچھ شر پسند عناصر دشمن کے ھاتھوں ڈالر کے عوض ایمان و ضمیر بیچ کر مذھب حقه کو بدنام اور شرپسندی کو ھوا دینے پر لگے ھیں.

سینکڑوں سالوں سے جن مسائل پر اختلاف نھیں تھا وه شدت اختیار کرتے جارھے ھیں.
اور اس طرح معصوم مومن بھائیوں کے ایمان و عقائد برباد کر کے غلو,شرک کی طرف دھکیل کر جھنم میں جھونکا جا رھا ھیں.

جھاں ھمارۓ دو سوال پهلے ھی Pending, ھیں وھاں آج ایک اور سوال کا اضافه کر رھے ھیں.
تاکه غالی ان سوالوں کے بوجھ تلے دب کر معاویه کے ساتھ واصل جھنم ھو.

 حاضر و ناضر جسکا حقیقت سے کوسوں دور تک تعلق نھیں اور قرآن و احادیث معصومین ع کے ساتھ عقلی طور پر بھی نا قابل فھم ھے.

حاضر ناضر دو الگ مستقل موضوع ھیں.

پهلے موضوع کا تعلق بدن و جسم کے ساتھ ھے دوسرۓ کا علم و ادراک کے ساتھ اس لیۓ ھم ان دونوں موضوعات پر علیحده علیحده بحث کرنے کی کوشش کریں گے.

آج پهلا حصه پیش کر رھے ھیں.

اکثر لوگ تو حاضر کا مفھوم یه سمجھتے ھیں که یه بزرگوار  آن واحد میں جس دورۓ دور مقام پر بھی حاضر ھونا چاھیۓ فورا حاضر ھو سکتے ھیں.

اگر یه بات ھے تو ھم کھتے ھیں عام دور مقامات کا کیا زکر یه وه زوات مقدسه ھیں که اگر چاھیں تو چشم زدن میں باره ھزار عوالم امکانیه کی سیر کرکے واپس آپنے مقام پر پهنچ سکتے ھیں.
 (بحارج ص 373)

اگر اس امر کا محل نزاع سے کوئی تعلق نھیں ھے.
یه سرعت سیر سے متعلق ھیں.
اسی طرح اجسام مثالیه کے ساتھ آن واحد میں امکنه متعدده میں حاضر ھو سکنے میں بھی کوئی اختلاف نھیں.

ھاں البته جو چیز محل بحث ھے وه یه ھے که آیا یه بزرگوار آپنے جسم اصلی کے ساتھ ایک ھی وقت میں ایک سے زائد جگه پر موجود ھو سکتے ھیں.

مثلا آنحضرت ص یا آئمه معصومین ع  آپنے اصلی جسم مقدس کے ساتھ جس وقت مکه میں تشریف رکھتے ھوں اسی وقت مدینه میں بھی تشریف فرماں  ھوں.

اور بلکل اسی لمحے عرش پر بھی اور اسی ساعت فرش پر بھی موجود ھوں.
بلکه اسی آن میں کائینات کی ھر جگه پر حاضر ھوں ھم یه کھتے ھیں که یه بات اس طرح عقلا محال و نا ممکن ھے که عقل انسانی بھی تصور کرنے سے بھی قاصر ھے.
اس پر ھم بھٹکے ھوۓ اھل غلو کیلۓ قرآن و آئمه معصومین ع کی مستند  روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کریں گے اور غالیوں کو ھماری للکار ھے که وه ھماری اس پوسٹ کا رد پیش کرۓ ناں تو باطل عقائد کی تشریح و ترویج ترک کر کے الله کے حضور مغفرت کےطلبگار ھوں.

حاضر ھونے کی نفی پهلے قرآن مجید میں سے دیکھتے ھیں:

سوره قصص,ع,44/46.
ترجمہ: 
اور جب ہم نے موسٰی کی طرف حکم بھیجا تو تم (طور کی) غرب کی طرف نہیں تھے اور نہ اس واقعے کے دیکھنے والوں میں تھے۔ لیکن ہم نے (موسٰی کے بعد) کئی اُمتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گذر گئی اور نہ تم مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے۔ اور نہ تم اس وقت جب کہ ہم نے (موسٰی کو) آواز دی طور کے کنارے تھے بلکہ (تمہارا بھیجا جانا) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے تاکہ تم اُن لوگوں کو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں آیا ہدایت کرو تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔

سوره انفال ع 33.
ترجمہ:
 اور خدا ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں سے تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور ایسا نہ تھا کہ وہ بخششیں مانگیں اور انہیں عذاب دے۔

معلوم ہوا کہ نبی ص کی موجودگی کی وجہ سے لوگوں پر عذاب نہیں آ سکتا۔ اب چونکہ آپ موجود نہیں ہیں اس لئے طرح طرح کے عذاب نازل ھو رھے ھیں.سونامی,زلزلے,و موزی امراض جیسے عذاب آنے کا مطلب یه که آپ ص حاضر ناضر نھیں ھیں.

سوره نساء ع,102
ترجمہ:
 اور اے پیغمبر ص جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ  جب موجود ہوں تو آپ ہی لوگوں کو نماز پڑھائیں گے اور اب چونکہ آپ موجود نہیں ہیں اس لئے دوسرے امام لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں مزید حوالاجات کے لئے ملاحضہ فرمائیں:
سورۃ یوسف آیت 102.

ھود آیت 49 .

آل عمران آیت 44.

وغیرہ ۔ اگر رسول اللہ ص کو حاضر و ناظر مان لیا جائے تو پھر معراج اور ہجرت کے تمام واقعات باطل قرار پاتے ہیں۔
 معراج میں نبی ص مکہ سے بیت المقدس تشریف لے گئے .

( سورۃ بنی اسرآئیل آیت 1)

 اور پھر آپ زمین سے آسمان اور سدرۃ المنتھی تک تشریف لے گئے۔ 
(سورۃ النجم آیات 13/ 18)

یعنی جب آپ مسجد اقصی تشریف لے گئے تو پھر آپ مکہ میں موجود نہ تھے اور جب آپ آسمانوں پر تشریف لے گئے تو زمین پر موجود نہ تھے اسی طرح جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو آپ مکہ مکرمہ میں موجود نہ تھے.

 حالانکہ مشرکین مکہ آپ کو سرگرمی سے تلاش کر رہے تھے۔ 
تو معلوم ہوا کہ حاظر و ناظر کا عقیدہ اہل اسلام کا نہیں
 بلکہ چودھویں صدی کے مشرک غالیوں  کا ایجاد کردہ ہے۔ 

  تنبیہ: 
شیطان مردود کے علم وغیرہ کا ذکر، نبی ص کے ساتھ کرنا آپ ص کی گستاخی ہے۔
الله تعالی نبی ص کی گستاخی سے ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین
                       (جاری ھے)
نوٹ:
کل ھم آئمه معصومین ع کے فرامین,علماء مستند اور عقلی دلائل سے ثابت کریں گے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں