مرکز عقائد شیعه شناسی

اتوار، 24 فروری، 2019

غلو کیا ھے .


 غلو کیا ھے اور اسلام میں اس سے کتنا خبردار کیا گیا ھے.

"تحریر و تحقیق:"سائیں لوگ

اللله پاک سوره مائده ع,76/77,میں غلو سے منع اور ھر چیز کو ایک حد میں رکھنے کا حکم دے رھے ھیں دوسری طرف غالی کهتا ھے کوئی حد ھو تو قائم کریں.

اقوام عالم کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ھوتا ھے که ابتداۓ آفر نشین سے لے کر آج تک ھمیشه عالم لوگ بزرگان دین و راھنمایان ایمان و یعقین کے بارۓ افراط و تفریط کا شکار رھے ھیں ھمیشه یه ھوتا رھا ھے که ان کے بعض نادان دوست انھیں ان کے حقیقی مرتبه سے بڑھاتے رھے اور بعض احمق دشمن ان کو اصلی مقام سے گراتے رھے اس لیۓ ھم وضاحت دے رھے ھیں,

 گزشته کئی دنوں سے که غالی اور مقصر کے موضوع پر بات ھو رھی ھے میرۓ نذدیک دونوں گمراه ھیں.

اس غلط جذبه محبت و عقیدت نے یهودیوں و نصرانیوں کو حضرت عیسی ع اور حضرت موسی ع کےمتعلق  "ابن اللله " ھونے کا فاسد نظریه قائم کرنے پر آماده کیا .

     "قالت الیهود عزیز بن اللله"
  وقالت  النصاره المسیح ابن اللله

اسی لیۓ خداۓ لم یزل نے ان نادانوں کو تنبیح فرمائی :یا اھل الکتاب لا تغلو فی دینکم ولا تقولو اعلی اللله اله الاحق.

آۓ اھل کتاب آپنے دینی معاملات میں    "غلو" (حد سے تجاوز) نه کرو.اور خدا کے متعلق وھی بات کھو جو حق ھے .

مقصر:

اس کے مقابل ان کے نابکار دشمن ان زوات مقدسه کو من جمیع الجھات آپنے جیسا آدمی(مقصر) نه صرف ان کے علم و فضل اور عصمت و طھارت کا بلکه انکی نبوت و رسالت کا بھی انکار کر بیٹھے .

مقصر آل محمد ع کو صرف آپنے جیسا انسان سمجھتے اگر دیکھا جاۓ ھمارۓ اس معاشرۓ میں بھی ھر انسان دولت سے نھیں عباد ت و تقوی کے لحاظ سے برابری نھیں رکھتے اھلبیت ع کیسے عام انسان کی طرح ھو گۓ.یه لوگ (مقصر)بھت قلیل تعداد میں ھیں اور انگلیوں پر گنے جا سکتے ھیں.

جنھوں نے اعتدال کا دامن ھاتھ سے نه چھوڑا .اور غلو اور افراط و تفویض کی آلائش آپنے دامن کو ملوث نه ھونے دیا .اور ھادیان دین کی محبت و مودت کے نازک مسله میں "صراط مستقیم "پر گامزن رھے.
محمد و آل محمد ع کے متعلق لوگ تین حصوں میں تقسیم ھو گۓ.

غالی:

کچھ کم توفیق اور کم عقل لوگ ان بزرگوں اور فضائل و کمالات اور مناقب و معجزات کی تاب نه لا کر غلو و تفویض کے گھرۓ سمندر میں ڈوب کر غرق ھو گۓ.
اور کئی قسم کے غلط نظریات ان بزرگوارں کے متعلق از خود قائم کر لیۓ.
بعض ایسے بھی شقی القلب بدبخت ان کے نه صرف صحیح فصائل و کمالات بلکه انکی خلافت و امامت تک کا انکار کرکے ضلالت و گمراھی و ھلاکت کے ابدی گڑھے میں جا گرے اور یه دونوں قسم کے وه لوگ تھے جنھوں نے انتھائی نازک مرحله و مقام میں ان منا الرحمن و ھادیان دین و ایمان کی مقدس تعلیمات سے روگردانی کرکے خود آپنی ناقص عقلوں اور فاسد رایوں پر اعتماد کیا لھذا نتیجه یه نکلا که ضلو او ضلو (خود گمراه ھوۓ دوسروں کو بھی گمراه کیا).

متوسط طبقه:

تیسرا گروه وه تھا جس نے دیگر تمام عقائد و اعمال کی طرح اس مقام معرفت نبی و امام پر بھی انھی جج الھیه کی مقدس تعلیمات و ارشادات کو آپنے لیۓ خضر راه مشعل ھدایت بنایا اس لیۓ وه ھمیشه جاده اعتدال پر گامزن رھے.اور افراط و غلو تفویض کی ھلاکت  خیزیوں اور  قالی و غالی ھر دور کی فتنه انگیزیوں سے محفوظ و مصعون رھے .

امیر المومینین مولا علی ع کے متعلق عام لوگوں میں تین گروه تقسیم ھو جانے اور پھر دو گروھوں کے ھلاک اور تیسرۓ گروه کے ناجی ھونے بارۓ جناب رسول خدا ص کا ارشاد :
بحار الانوار جلد ھفتم ص 330,
پر موجود ھے.

بلکه نھج البلاغه جلد 1ترجمه رئیس احمد جعفری میں امام علی ع کا فرمان بھی موجود ھے.

اب غالیوں و تفویض کے قائل افراد کو فکر کرنے کی ضرورت ھے امام ع متوسط طبقه کو کامیاب قرار دے رھیں ھیں جبکه غالی بے حد کھنے پر  بضد ھے .



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں