مرکز عقائد شیعه شناسی

ہفتہ، 27 اپریل، 2019

تحریف قرآن کی کوششوں میں خود حضرت عمر ملوث ھیں.(السیوطی)
                            قسط نمبر :3
تحریف قرآن ناممکن ھے.
قرآن میں تحریف اس لیۓ ناممکن ھے که اس کی معجزاتی ترکیب آپنے اندر کسی قسم کی تحریف قبول نھیں کرتی.ساتھ اللله پاک نے خود اس کتاب کی حفاظت کا زمه لیا ھے.(سوره حجر ع 9)

دیگر مکاتب فکر کی معتبرکتب کی شیعه کتب میں بھی روایات موجود ھیں جن میں سے بعض سے بادی النظر میں تحریف کا مفھوم ظاھر ھوتا ھے اور کچھ میں صراحت موجود ھے مگر شیعه ان روایات کے تحت نسخ کا نظریه قائم نھیں کرتے بلکه ان روایات یا تو توجیه کرتے ھیں که ان سے مراد تحریفی لفظی نھیں اور اگر قابل توجیه نھیں ھیں تو ایسی روایات کو مخالف قرآن سمجھ کر مسترد کرتے ھیں.

متحرک اجتھاد :
اھل تشیع کے ھاں اجتھاد کا دروازه کھلا ھے لھذا انکی نظر میں متحرک و زنده اجتھاد کی وجه سے کوئی کتاب حرف آخر نھیں ھے,بلکه ھر کتاب ھر روایت قابل بحث و تحقیق ھے اور تمام اسلامی نصوص تحقیق و تدقیق کے قابل ھیں.
چنانچه اصول کافی اگرچه کتب شیعه میں سے مشھور کتاب سمجھی جاتی ھے مگر اس میں مختلف احادیث موجود ھیں بعض احادیث اگر کچھ مجتھدین کے نذدیک صحیح السند ھیں تو ضروری نھیں که دوسرۓ مجتھدین کی نظر میں بھی وه صحیح السند ھوں .
جو مسلمان صحاح سته کی روایات کا صحیح السند ھونا ضروری اور لازمی تصور کرتے ھیں ان کیلۓ ممکن ھے که صحاح سته میں کسی روایت کا موجود ھونا اس روایت کے مضمون  کا ضمنی اعتراف تصور نھیں کیا جا سکتا چنانچه علامه باقر مجلسی نے اس سلسلے میں سب سے زیاده روایات نقل کی ھیں اس کے باوجود انھوں نے بحارالانوار میں صریحا کهاھے که قرآن میں قطعا کوئی تحریف نھیں ھوئی.

اب ھم آتے ھیں ان راویوں کی طرف جن سے یه روایات لی گئیں .

ناقابل اعتبار روایات:
تحریف قرآن کے بارۓ میں اکثر شیعه روایات ضعیف راویوں سے منقول  ھیں   .
چنانچه ان روایات میں ایک قابل توجه سلسله روایت احمد بن محمد السیاری پر منتھی ھوتا ھے.
علماۓ شیعه فرماتے ھیں که تحریف قرآن سے مربوط تین سو(300),روایات احمد بن محمد السیاری سے مربوط ھیں.

احمد بن محمد السیاری :

السیاری کون ھیں شیعه کتب رجال میں احمد بن محمد السیاری کے بارۓ درج زیل الفاظ استعمال ھوۓ ھیں.وه ضعیف الحدیث,فاسد المذاھب,غالی,اور منحرف راوی ھیں.ملحاظه فرمائیں,

قاموس الرجال جلد 1, ص 403,طبع ایران.
رجال نجاشی ص 58,طبع بمبی.
نقد الرجال ص 32,طبع ایران قدیم .
معجم الحدیث جلد 2, ص 29,طبع نجف.

یونس بن ظبیان :

یونس بن ظبیان  کا نام بھی جھوٹے راویوں میں آتا ھے .
که یه شخص بھی نھایت ضعیف,ناقابل توجه,غالی,کذاب اور احادیث گھڑنے والا تھا.
ملحاظه فرمائیں.
نقد الرجال ص 381.

منخل بن جمیل الاسدی :

ان لوگوں میں منخل بن جمیل الاسدی کوفی کا نام بھی آیا ھے جس کے بارۓ میں علماۓ رجال نے لکھا ھے که یه شخص بھی ضعیف,غالی,فاسد الراویه اور منحرف  ھے.
ملحاظه فرمائیں:
  دراسات فی الحدیث والمحد ثین ,نقد الرجال ص 354.

محمد بن حسن جمھور :

یه بھی ان راویوں میں شامل ھے جس کے بارۓ علماۓ رجال نے کها ھے که یه بھی جھوٹے راویوں میں شامل ھے.یه بھی  جھوٹی اور ضعیف احادیث ,غالی,فاسد الراویه ,ناقابل توجه راوی ھے.

ملحاظه فرمائیں.نقد الرجال ص 299,رجال نجاشی ص338,طبع بمبی بھارت.
یهاں ھم نے وضاحت پیش کی ان غالی اور کذاب راویوں پر جن کی بدولت مذکوره کتب میں زکر ھے که قرآن میں تحریف ھوئی ھے لیکن انکی صحت پر سوالیه نشان ھے جو علم رجال کے ماھر علماء نے آپنی کتب میں پیش کی لھذا ان روایات پر شیعه مذھب کو تحریف قرآن کا الزام نھیں لگایا جا سکتا.ھم ان راویوں کی روایات سے بری الزمه ھیں.
بلکه ان میں سے کچھ روایات اھلسنت کی کتب سےبھی  ماخوز ھیں جیسے بحار الانوار میں علامه مجلسی نے ابن ماجه سے لیں پھر انھوں نے تحریف کو خارج از امکان بھی قرار دیا.

اب ھم آتے ھیں قرآن کو جمع کرنے میں اھلسنت برادران کی بخاری کے مطابق حمص جهاں مقداد بن اسود کا نسخه چلتا تھا وھاں سوره یوسف کی تلاوت پر حضرت عبداللله بن مسعود کو ایک شرابی نے اعتراض کیا آپ نے جواب دیا رسول اللله ص نے اسے درست کها تھا جیسے میں نے پڑھی ھے. 

حضرت عبداللله چھٹے شخص تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا انھیں سادس سته یعنی چھٹا کهتے تھے ان کے مصحف کو خاص شھرت حاصل تھی بخاری میں کافی حدیث آئی ھیں که یه قاری بھی تھے ساتھ پورا قرآن ان کے پاس موجود تھا مگر بدقسمتی سے ان سےبھی قرآن نه لیا گیا جیسے حضرت علی ع سے نه لیا گیا.

ان کے علاوه حضرت علی ع کا نسخه بھی تھا جو خود پاک نبی ص نے مرض الموت کے دوران پیش کیا تھا اور وصیت فرمائی تھی که یه مکمل کتاب اللله ھے.آۓ علی ع یه آپنے پاس لے جاؤ چنانچه حضرت علی ع نے ایک کپڑۓ میں جمع کرکے آپنے گھر لے آۓ اور وفات پیغمبر ص کے بعد قرآن کو اسی طرح مرتب فرمایا جیسے اللله نے نازل کیا تھا اور آپ ھی اسے بخوبی جانتے تھے.اس بات کی گواھی خود بخاری شریف جلد,6.ص530, دے رھی ھے که آپکا مصحف ترتیب نزول پر تھا.

جب خلافت پر قبضه ھوا تو اس دوران آپ یه نسخه اونٹ پر لاد کر مسجد نبوی میں اصحاب کے سامنے پیش کیا اور کها پاک نبی ص نے فرمایا میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑۓ جا رھا ھوں کتاب اللله اور عترت کتاب یه حاضر ھے اور عترت میں ھوں .

جواب ملا اگر آپ کے پاس کتاب ھے تو ھمارۓ پاس بھی ھے چنانچه آپ حجت تمام کرکے واپس تشریف لے آۓ.
افسوس اصحاب نے نسخه محمدی کو رد کردیا.
یه کیسے ممکن ھو سکتا ھے  که ان کے پاس کامل نسخه موجود ھو.

حضرت علی ع کا نسخه محمدی ص کے انکار کے بعد حضرت عمر کے اصرار کے بعد حضرت زید بن ثابت انصاری کو بلایا گیا اور ان سے کها که قرآن کو جمع کرنے کا کام شروع کرو .بڑی مشکل سے حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ھوۓ یه زمه داری قبول کرلی اور پچیس رکنی کمیٹی تشکیل دی اور اعلان کیا جس کے پاس بھی قرآن کا کچھ حصه ھو وه یهاں جمع کراۓ ساتھ دو گواه بھی لے آۓ اسی اثناء میں حضرت عمر یه عبارت لے کر آ گۓ .

(الشیخ والشیخة اذا زنیا فار جمو ھا البتة نکالا من اللله)

زید نے حضرت عمر کو پیش کرده عبارت کو قرآن کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکه حضرت عمر کے پاس مطلوبه گواه موجود نه تھے.
(السیوطی الاتقان فی علوم القرآن جلد-1 ص118)

حالنکه حضرت زید سے بھتر اور واضح مقام حضرت عبداللله بن مسعود کا تھا جس کا زکر بخاری جلد ششم ص 519,میں بھی ملتا ھے که ان کا نسخه پاک نبی سے تسلیم شده تھا.حفظ و قرات میں بھی انکا ثانی کوئی نه تھا.
لیکن حضرت عمر کے اصرار پر زید بن ثابت کو یه زمه داری دی گئی اس مقصد کیلۓ که مرضی سے آپنے حق میں قرآن میں عبارتیں داخل کروائی جا سکیں مگر حضرت عمر کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب حضرت ذید نے عبارت شامل کرنے سے انکار کردیا .
ٹھیک اس طرح جس طرح فاروق لغاری نے بے نظیر اور جسٹس وجھیه نے عمران خان کی امیدوں پر پانی پھیرا.

                                    (جاری ھے).

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں