مرکز عقائد شیعه شناسی

بدھ، 24 اپریل، 2019

غالی تشیع اور خانقاھی صوفی کے عقائد کا موازنه

.براه کرم یه پوسٹ ضرور مطالعه فرمائیں

            تحقیق و تحریر:"سائیں لوگ"

 اس تحریر نے خانقاھی ایوانوں میں ھلچل اور کھلبلی مچاتے ھوۓ,صوفیه و خانقاھ پرستوں کے عقیده و مقاصد کو تباه و برباد کرکے رکھ دیا ھے.
پاکستان بھر میں منعقد ہونے والے عرسوں کے اعدادو شمار:
                        
قمری مہینوں میں عرسوں کی تعداد: 439/بنتی ھے.
عیسوی مہینوں میں عرسوں کی تعداد  88/بنتی ھے.
بکری مہینوں میں عرسوں کی تعداد 107/بنتی ھے.
قمری ‘عیسوی اور بکری مہینوں کے حساب سے سال بھر میں منعقد ہونے والے عرسوں کی کل تعداد:  634/بنتی ھے.

 یه محکمه اوقاف کے رجسٹر مزاروں کے اعداد و شمار ھیں جو اسلامی قانون کی ڈائری سے نقل کیۓ گۓ ھیں یه اعداد وشمار 1992/ء کے ھیں,
 جو اب ڈبل ٹرپل خانقاھیں وجود میں آ چکی ھوں گی.
کیونکه آبادی کی طرح ان مزاروں کی تعداد میں بھی بڑی تیزی سے اضافه ھو رھا ھے.
        عرسوں کے انعقاد میں قابل ذکر بات یہ ھے کہ یہ سلسلہ دوران رمضان المبارک بھی پورے زور وشور سے جاری رہتا ھے.

 اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ دین خانقاھی میں اسلام کے بنیادی فرائض کا کس قدر احترام پایا جاتا ھے ؟.

یاد رھے رمضان المبارک کے روزوں کے بارے میں حدیث شریف میں ھے کہ نبی اکرم ص نے روزہ خوروں کو جہنم میں اس حالت میں دیکھا کہ الٹے لٹکے ھوئے ہیں ان کے منہ چیرے ھوئے ہیں جن سے خون بہہ رہا ھے.

(ابن خزیمہ) ہندوستان کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت بوعلی قلند کا عرس شریف بھی اسی مبارک مہینے (13/رمضان)میں پانی پت کے مقام پر منعقد ہوتا ھے .

دین خانقاھی میں رمضان کے علاوہ باقی فرائض کا کتنا احترام پایا جاتا ھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ھے کہ صوفیاء کے نزدیک تصور شیخ (تصور شیخ یہ ھے کہ دوران نماز اپنے مرشد کا تصور ذہن میں قائم کیا جائے) کے بغیر ادا کی گئی نماز ناقص ہوتی ھے ‘حج کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ مرشد کی زیارت حج بیت اﷲسے افضل ھے.

دین اسلام کے فرائض کے مقابلے میں دین خانقاھی کے علمبردار کا خانقاھوں‘مزاروں ‘درباروں اور آستانوں کو کیا مقام اور مرتبہ دیتے ہیں اس کا اندازہ خانقاھوں میں لکھے گے کتبوں ‘یا اولیاء کرام کے بارے میں عقیدتمندوں کے لکھے ہوئے اشعار سے لگایا جاسکتا ھے ‘چند مثالیں ملاحظہ ھوں :

1:       مدینہ  بھی  مطہر  ھے  مقدس ھے  علی پور.
        ادھر جائیں تو اچھا ھے ادھر جائیں تو اچھا  ھے.

2:      مخدوم   کا  حجرہ  بھی  گلزار   مدینہ   ھے
        یہ   گنج   فریدی   کا   ا نمول   نگینہ  ھے.

3:      دل تڑپتا ھے جب  روضے کی زیارت کے لئے
        پاک پتن تیرے حجرے کو میں  چوم  آتا  ھوں.

4:      آرزو  ھے کہ موت آئے تیرے  کوچے  میں
        رشک  جنت  تیرے  کلیر  کی  گلی پاتا ھوں.

5:     چاچڑ وانگ  مدینہ دسے تے کوٹ مٹھن بیت ا  ﷲ.

        ظاہر دے وچ پیر فریدن تے باطن دے وچ ا  ﷲ.

ترجمہ:
چاچڑ (جگہ کا نام )مدینہ کی طرح ھے اور کوٹ مٹھن (جگہ کانام)بیت اﷲشریف کی طرح ھے ‘ہمارا مرشد ‘پیر فرید ظاہر میں تو انسان ھے لیکن باطن میں اﷲھے.

         بابا فریدگنج شکر کے مزار پر  زبدۃ الانبیاء (یعنی تمام انبیاء کرام کا سردار) کا کتبہ لکھا گیا ھے.

 سید علاؤ الدین احمد صابری کلیری کے حجرہ شریف (پاک پتن )پر یہ عبارت کندہ ہے سلطان الاولیاء قطب عالم ‘غوث الغیاث ‘ہشت دہ ہزار عالمین (ولیوں کا بادشاہ ‘سارے جہان کا قطب‘اٹھارہ ہزار جہانوں کے فریاد رسوں کا سب سے بڑا فریاد رس).

 حضرت لال حسین لاھور کے مزار پر ’’غوث الاسلام والمسلمین (اسلام اور مسلمانوں کا فریاد رس)کا کتبہ لگا ھوا ھے.

 سید علی ہجویری کے مزار پر لگایا گیا کتبہ قرآنی آیات کی طرح عرسوں میں پڑھا اتا ھے .

گنج بخش ‘فیض عالم ‘مظہر نورِخدا (خزانے عطاکرنے والا ‘ساری دنیا کو فیض پہنچانے والا ‘خدا کے نور کے ظہور کی جگہ).

        غورفرمائیے جس دین میں توحید ‘رسالت‘نماز ‘روزے اور حج کے مقابلے میں پیروں ‘بزرگوں ‘عرسوں ‘مزاروں اور خانقاھوں کو یہ تقدس اور مرتبہ حاصل ھو وہ دین محمد ص سے بغاوت نہیں تو اور کیا ھے .

شاعر مشرق علامہ اقبال رح نے ارمغان حجاز کی ایک طویل نظم :

         "ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘

میں ابلیس کے خطاب کی جو تفصیل لکھی ھے اس میں ابلیس مسلمانوں کو دین اسلام کا باغی بنانے کے لئے اپنی شوری کے ارکان کو جو ہدایت دیتا ھے ان میں سب سے آخری ہدایت دین خانقاہی پر بڑا جامع تبصرہ ھے۔ملاحظہ فرمائیں :

مست رکھو ذکر وفکر صبح گاہ میں اسے پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے
        ہمارے جائزے کے مطابق متذکرہ بالا
364/خانقاھوں یاآستانوں میں سے بیشترگدیاں ایسی ہیں جو وسیع وعریض جاگیروں کے مالک ہیں.

 صوبائی اسمبلی ‘قومی اسمبلی حتی کہ سینیٹ میں بھی ان کی نمائندگی موجود ہوتی ھے .
جیسے گولڑه شریف ,سلطان باھو کے سجاده نشین ,شاه جیونه کے فیصل صالح حیات,مری کے لا ثانی سرکار وغیره.

صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں ان کے مقابل کوئی دوسراآدمی کھڑا ہونے کی جراء ت نہیں کرسکتا .

          کتاب وسنت کے نفاذ کے علمبرداروں اور اسلامی انقلاب کے داعیوں نے اپنے راستے کے اس سنگ گراں کے کے بارے میں بھی کبھی سنجیدگی سے غور کیا ھے یا نھیں ؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں