مرکز عقائد شیعه شناسی

جمعہ، 19 اپریل، 2019

مقصد عزاداری

پیغام فکر,و مقصد عزاداری




"تحریر:"سائیں لوگ                                                    

عزاداری امام مظلوم کا یہ سلسلہ 14 سو سال سے جاری ہے
 لیکن ایک سوال چاہے وہ عزاداری کے حامی ہوں یا مخالف ہر ذہن میں اور ہر محفل میں اٹھتا ہے کہ:

عزاداری کا یہ لا متناہی سلسلہ یہ بلند
دو بالا سیاہ پرچم ، یہ گریہ و فغاں یہ آہ و بکا کس لیے ھےاور اس کا مقصد کیا ہے.
اور یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا.

اس سوال کا جواب ہر شخص چاہے وہ بانی عزا ہو یا مقرر و خطیبوں کا گروہ، اپنی اپنی فکری سطح کے مطابق مختلف انداز میں دینے اور ذہنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 کوی کہتا ہے کہ یہ سیاہ پرچم مجالس حزن و غم ہمیں اپنے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ملے ہیں ہمیں بہرحال اسے جاری رکھنا ہے۔
کوی کہتا ہے کہ ہم عاطی اور گنہ گار ہیں اور اطاعت خداوندی بجا لانے کی استطاعت و توفیق تو ہم نہیں رکھتے اس لیے ہم گناہوں کو اپنے آنسوؤں سے ہی دھو لیتے ہیں۔

اور کوی اس راہ میں کیے گۓ اپنے مالی اخراجات کو اپنے گناہوں کا فدیہ قرار دیتا ہے ۔

یہاں تک کہ بعض افراد تو غلط و ناجایز ذرایع سے پیسہ کما کر اور اسے عزاداری میں خرچ کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا باقی مال و جایداد حلال کر لیا ہے۔

جب کہ کچھ لوگوں کا مقصد اس عزاداری کے توسل سے اپنے کسب و کاروبار اور رزق میں وسعت حاصل کرنا ہے۔۔
بہرحال اپنی اپنی فکری سطح کے مطابق مختلف جوابات دیے جاتے ہیں۔

لیکن عزاداری مظلوم کا فلسفہ اور اصل ہدف کیا ہے یہ جاننے کیلیے ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں خود آیمہء اطہار سے رجوع کیا جاے کیونکہ انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے اور خود شیعت کا طرہ امتیاز بھی یہی ہونا چاہيۓ کہ ہمارے اعمال و افعال گفتار و کردار خود ہماری پسند اور راۓ کے تابع ہونے کی بجاۓ ایمہ اطہار علیہم السلام کے احکام و فرامین کے تابع ہوں، لہزا ہماری عزاداری کے مقاصد اور اصل ہدف کو بھی نص ایم اطہارء اور ان کی ہدایت کے مطابق ہونا چاہیۓ۔

یہ عزاداری جو ہم برپا کرتے ہیں تو صرف اور صرف اس لیے کہ یہ معصوم کا فرمان ہے۔ ہمارے ایمہّ اطہارء نے ان مجالس عزا کو برپا کرنے اور نظم و نثر کے ذریعے ان مجالس عزا کو رونق دینے کی تاکید فرمای ہے۔ اور انہی کے فرمان و ہدایت ہم نے اس عزاداری کو باقی رکھا ہے اور آیندہ بھی انشاءاللہ باقی رکھیں گے۔

لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ایمہّ اطہارء نے ہمیں جب اس عزاداری کو قایم اور برپا کرنے کی دعوت دی تو کیا معاذاللہ انہوں نے اس عزاداری کے رخ اور اس کے سمت و جہت کو پیش نہیں کیا ؟
نہیں ! ہر گز نہیں .
عزاداری امام حسینء کس انداز سے ہو اور اس کا رخ اور سمت و جہت کیا ہو ۔ اس مسئلے کو ہمارے ائمہ علیہم السلام نے ہر گز نظر انداز نہیں کیا ۔

اس سلسلے میں امام صادقء اور امام رضاء کی دو روایات یہاں پیش کرتی ہوں :

امام جعفر صادقء نے فضیل ابن یسار سے پوچھا:
اے فضیل کیا تم لوگ ہمارے جدّبزرگوار امام حسيئن کی مصیبت پر مجالس منعقد کرتے ہو اور ان کی مصیبت کا ذکر کرتے ہو.

فضيل نے جواب دیا :
"ہاں مولا ! ہماری جانیں آپ پر فدا ہوں۔ ہم ایسی مجالس برپا کرتے ہیں۔
امامء نے فرمایا :
ہم ان مجالس سے محبت کرتے ہیں، ہمارے امر کو زندہ کرو ۔ خدا اس شخص پر رحم فرماۓ جو ہمارے امر کو زندہ کرے. (المجالس الفاخرۃ ماتم العترۃ الطاہرۃ ص 240)

علی ابن بابویہ فمی نے امام رضاء سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا :

جو ہماری مصیبت کا ذکر کرے گا اور ہمارے مصایئب پر روۓ گا وہ روز محشر ہمارے ساتھ ہمارے ہی درجہ میں ہو گا۔ ہماری مصیبت پر جس کی آنکھیں رویئں گی ، اس کی آنکھیں قیامت کے دن، کہ جب ہر آنکھ روتی ہو گی.

نہیں رويئں گی اور جو شخص کسی ایسی مجلس میں بیٹھے گا کہ جہاں ہمارے امر کا احياء ہوتا ہو تو اس کا دل روز قیامت زندہ ہو گا جب کہ اس روز ہر دل مردہ ہو گا۔ (نقل از نفس المھموم ص 40)

ان دو روایات سے واضح ہوا کہ ہر دوایمہ معصومین ع نے عزاداری کو امر ائمہء کے احیاء کرنے سے تعبیر فرمایا ہے اور عزاداری کو ان کے امر کو زندہ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ تم ایسی مجالس عزا برپا کرو ۔ یقینّا ہم ایسی مجالس کو پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے امر کا احیاء ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں