علم غایب والا عقیده"قسط نمبر :11. تحریر و تحقیق : "سائیں لوگعالم الغیب صرف الله پاک کی زات ھے واضح اور محکم آیات و مولا علی ع کے خطبات پیش کرنے کے باوجود بھی غالی ھٹ دھرمی پر قائم ھے.ھم نے وضاحت پیش کرنی ھے منوانا نھیں آج کچھ مذید حقائق پیش کرتے ھیں.الله تعالی آپنے کلام مقدس میں فرماتے ھیں :وما کان الله لیطلعکم علی الغیب ولکن الله یحبتیی من رسله من یشاء.ترجمه:اور ناں الله تعالی ایسا ھے که تمھے غیب سے آگاه کر دے بلکه الله تعالی آپنے رسولوں میں سے جس کا چاھے انتخاب کر لیتا ھے.سوره آل عمران ع:179.معلوم ھوا که خدا کا خاص علم غیب پیغمبر پر ظاھر ھوتا ھے .مگر ایک موٹی عقل کا آدمی بھی بخوبی سمجھ سکتا ھے که ایک بات جب تک کسی کو بتلائی نه جاۓ وه یعقینا غیب ھوتی ھے.بتلا دینے کے بعد وه غیب نھیں که لا سکتی.مثلا میں آپنے چند دوستوں میں سے کسی ایک کو منتخب کر کے کوئی پرائیویٹ بات بتلا دیتا ھوں.بتانے کے بعد وه اس کیلۓ غایب نه رھے گی مگر باقی سب کیلۓ بدستور غیب رھے گی وه شخص یا دوست جس کو میں بات بتلا چکا ھوں وه آپ سب کے درمیان یه ڈینگ نھیں مار سکتا.که میں عالم الغیب ھوں کیونکه وه بات مجھ سے معلوم کر چکا ھے.جو تمھے معلوم نھیں کیونکه وه اسے بتلا دی گئی ھے اور دوسروں کو نھیں بتلائی گئی.الله تعالی آپنی پیغمبری کیلۓ جس کو چاھتا ھے چن لیتا ھے پس پھر اس کی طرف وحی فرماتا ھے .اور بعض غیوب کی ان کو خبر دیتا ھے کیا علم غیب اسی کو کھتے ھیں علم غایب تو تب مانا جاۓ اگر الله پاک پیغمبروں کو مستقل طور پر ایسی صفت کے ساتھ متصف فرما دے که پھر انھیں از خود ھر غیبی بات اور ما کان وما یکون کا علم ھو جاۓ اور انھیں وحی کی بھی ضرورت نه رھے .مگر اس کے بعد یه سوال پیدا ھو جاۓ گا که وحی کے بغیر وه پیغمبر کیسے ره سکتے ھیں .کیونکه بغیر وحی کے نبوت کیسی اور دوسری بات یه که عالم الغیب کو وحی کی ضرورت نھیں رھتی.یه تحصیل حاصل ھے اور جس پر وحی نازل نه ھو وه پیغمبر ھی نھیں لھذا ایک بات کنفرم ھے یا تو انبیاء ع کو پیغمبر مانو یا پھر عالم الغیب مانو.بیک وقت دونوں کا ماننا اجتماع النقضین ھے لھذا ثابت ھوا که علم غیب کا عقیده انکار نبوت کو مستلزم ھے.دوسری جگه ارشاد باری تعالی ھے :وعلمک مالم تکن تعلم .سوره نساء ع:113.ترجمه:اور تجھے وه سکھایا جو تو نھیں جانتا تھا.اب غالی اس آیت سے یه معنی نکالتے ھیں که حضور ص کو تمام آئنده اور گزشته واقعات کی خبر دے دی گئی اب کلمهما عربی زبان میں عموم کیلۓ ھوتا ھے .اس میں کوئی شک نھیں الله تعالی نے پاک نبی ص کو بھت علم دیا.لیکن اس سے ماکان ومایکون کے علم غیب پر استدلال کرنا حقیقت کا منه چڑانے کے مترادف ھے یه تو ایسے ھی ھے جیسے الله تعالی نےعلم الا نسان ما لم یعلمسوره علق ع:5.جس نے انسان کو وه سکھایا جو وه نھیں جانتا تھا.اس آیت میں بھی لفظ ما موجود ھےمگر ظاھر ھے انسانوں کو بھی ماکان ومایکون کا علم غیب حاصل نھیں ھے بعض کھتے ھیں علم الا انسان سے مراد نبی ص ھیں جبکه یھی غالیوں کا عقیده ھے آپ بشر (انسان)نھیں نور ھیں.اب غالی کیسے پینترۓ بدلتا ھے اور آپنا دفاع جاھلانه طرز پر ھماری آنکھوں میں دھول ڈالتے ھوۓ ناکام کوشش سے کرتا ھے.مگر سیاق و سباق اس مفھوم کی اجازت نھیں دیتا اس سے پهلے یه آیت ھےالذی علم بالقلم جس نے قلم کے زریعے علم سکھایا.اب نبی پاک ص لکھنا پڑھنا نھیں جانتے تھے خاص طور پر اس وقت جب یه آیت نازل ھوئی .وما کنت تتلوا من قبله من کتب ولا تخطه بیمینک .ترجمه:اس سے پهلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے ناں تھے اور نه کسی کتاب کو آپنے ھاتھ سے لکھتے تھے.سوره عنکبوت ع:48.نیز ارشاد ربانی ھے:ویعلمکم مالم تکونواتعلمون .ترجمه:اور تمھے وه چیزیں سکھاتا ھے جس سے تم بے علم تھے.سوره بقره ع:151کیا نبی ص مسلما نوں کو ماکان ومایکون کا علم غیب سکھاتے تھےوعلمتم مالم تعلموا انتم ولا اباؤ کمترجمه:تم کو ایسی بھت سی باتیں سکھائی گئی ھیں جن کو تم نه جانتے تھے اور نه تمھارۓ بڑۓ.سوره الانعام ع:91.کیا یه مخاطب اور ان کے اباءواجداد سب عالم الغیب ھی تھے حضرت موسی ع نے آپنی قوم سے فرمایا :واتا کم مالم یوت احدا من العالیمین .ترجمه:اور تمھے وه دیا جو تمام عالم میں سے کسی کو نه دیا .تو کیا الله تعالی نے کائینات کی ھر شے کا علم حضرت موسی کو دے دیا اور جو کسی کو بھی نه دیا.کیونکه غالی ما کا مطلب ماکان ومایکون سے مراد لیتا ھے اور یھاں بھی ما کا مطلب بھی یھی ھونا چاھیۓ.کل ھم ماکان ومایکون پر غالی سے وضاحت لیں گے که یه کونسا علم ھے کیونکه قرآن مجید میں ھے .مافرطنا فی الکتاب من شئترجمه:ھم نے کتاب میں کوئی چیز نه چھوڑی .سوره الانعام ع:38.یه کونسی کتاب ھے قرآن مجید یا عالم ھستی سے مراد ھے کیونکه عالم آفرنشین بھی ایک کتاب کی مانند ھے جسمیں تمام چیزیں آ گئی ھیں اور کوئی بھی چیز اس میں فروگزار نھیں ھوئی.یه بھی ھو سکتا ھے اس سے مراد دونوں تفاسیر ھی مراد ھوں کیونکه قرآن میں بھی تمام امور انسانیت کی تربیت کے موجود ھیں اور نه ھی عالم آفر نشین و خلقت میں کوئی نقص,کمی,کسر ره گئی ھے.
اس بلاگ پر مذھب تشیع حقہ اثنائے عشریہ میں گھسے غالی و رسمی،بدعتی شیعہ کے باطل عقائد کے رد پر قرآن و نھج البلاغہ کی روشنی میں علمی بحث کی گئی ھے۔
مرکز عقائد شیعه شناسی
▼
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں