مرکز عقائد شیعه شناسی

جمعہ، 24 مئی، 2019

انبیاء ,آئمه معصومین ع اور اولیاء کی قبور کی زیارت..قسط نمبر:14

انبیاء کرام,آئمه معصومین ع اور اولیاۓ کرام و شھدا کرام کی قبور کی زیارت:

                  قسط نمبر :14

ھم گزشته اقساط میں واضح کیا که ھم زیارت قبور انبیاء و معصومین ع اور بزرگ اولیاء کے خلاف نھیں ھیں  بلکه شعبده باز صوفیه  اور وھاں جو خرافات و بدعات قائم کی جاتی ھیں ان کے خلاف ھیں.

کیونکه اگر ھم سب توقعات انھیں بزرگوں اور اھل قبور سے وابسطه کرلیں تو پھر الله پاک کے وجود و عظمت ھی کی نفی ھو جاتی ھے.
آج ھم کچھ اس موضوع پر وضاحت پیش کریں گے.

یا ایھا الذ ین آمنوا اتقوا اللہ و ابتغوا الیہ الوسیلة.
(اے ایمان والو ! الله سے ڈرو اور قرب خدا کا وسیلہ تلاش کرو ).

لیکن سوال یہ ھے کہ خدا وند عالم کا قرب کس طرح حاصل کریں ؟

اس سلسلہ میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب بیان القرآن میں اس طرح لکھتے ہیں.
     
(اطاعت کے ذریعہ )خدا تعالی ٰ کا تقرب ڈھو نڈو.

وہابی علما ء کہتے ہیں کہ نیک اعمال کے ذریعہ یعنی نماز پڑھنا ، روزے رکھنا ،زکوٰة دینا ، حج کرنا وغیرہ ۔۔۔یہ سب تقرب الھی کا ذریعہ ہیں.

لیکن وہابی علماء یہ بھول گئے کہ خدا وند عالم نے کچھ اور بھی نیک اعمال کا تذکرہ کیا ھے.
 ان میں سے یہ بھی ہے کہ خدا وند عالم کی نشانیوں کی تعظیم کرنا.

خدا وند عالم کی نشانیوں میں صفاء و مروہ ، ناقہ صالح ، وہ اونٹ جو منیٰ کے میدان میں قربانی کے لئے لے جایا جاتا ھے اس کی تعظیم یہ ہے کہ اس قربانی کے اونٹ سے کوئی کا م نہ لیا جائے.اور وقت پر چارہ دیا جائے .
اصحاب کہف کا شمار بھی اللہ کی نشانیوں میں ھوتا ھے.

اور جو ان نشانیوں کا احترام نہ کرے اور ان کی تکذیب کرے اس کے لئے خدا وند عالم نے جہنم کو تیار کر رکھا ھے.

چنانچہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ھے.
ا ایھا الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی (ص) ترجمہ :
ایمان والو خبر دار اپنی آواز کو نبی(ص) کی آواز پر بلند نہ کرو.

یعنی ہمارے حبیب سے گفتگو کرتے وقت تعظیم کاخیال رکھنا بھی تقرب الھیٰ کاذریعہ ھے اگر کوئی اپنے کو رسول (ص) کے غلاموں میں ادنیٰ غلام ظاہر کرے تو اللہ اس شخص سے اتنا خوش ہوگا کہ اس کو فضیلتوں کا پیکر بنا کر علی  ابن ابی طالب بنا دیگا.

رسول اللہ کی تعظیم کرنا بھی نیک اعمال میں سے ایک عمل ھے.

تقرب الھی کے اسباب میںسے ایک سبب یہ ہیکہ ''مسلمانوں کو اعمال کے ساتھ انبیاء اور اولیاء کا وسیلہ بھی ڈھونڈنا چاہئے .

اس لئے کہ اولیاء اور انبیاء ھی خدا تک پہونچنے کے دو ذریعے ہیں اور ان سے متمسک رہنا تقرب الھی کا ذریعہ ھے.

پھر صاحب تفسیر نور العرفان وسیلہ کے سلسلہ میں یوں لکھتے ہیں ''کوئی متقی مومن بغیر وسیلہ کے رب تک نہیں پہونچ سکتاھے.

مندرجہ بالا بیان سے ثابت ہوتا ھے کہ انسان کو خداکی بارگاہ میں وسیلہ ضرور قرار دینا چاہئے .
یہ امر مسلم ھےکہ اللہ نے پیغمبر اکرم  ص کو تمام انبیا ء پر فضیلت اور عظمت بخشی ھے.
 اب سنت کا دم بھرنے والے ذرا سا غور و فکر کریں کہ جب خدا وند عالم نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی سے گفتگو کرتے وقت اتنی تاکید کی ھے تو پھر اگر خود رسول اسلام  کسی کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جائیں .
اور اپنی جگہ پر بٹھائیں تو اس کی عظمت کا کون اندازہ لگا سکتا ھے.

علماء اہلسنت نے اس شخصیت کا نام فاطمہ (س ) لکھا ہے اور اپنی مختلف کتابوں میں مندرجہ بالا حدیث کو نقل کیا ھے.

مگر افسوس !کہ رسول کی آنکھ بند ہوتے ھی امتی ، رسول کی لاڈلی بیٹی فاطمہ (س)کے دروازے پر آگ لے کر آگئے اور ظلم کی انتہا کردی,
 یہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی آپ کو آزار واذیت پہونچا نے کی ہر ممکن کوشش کی گئی چناچہ :
1344,ھ میں جب آل سعودنے مکہ ومدینہ کے گرد و نواح میں اپنا پورا تسلط جما یا تو مقدس مقامات ،جنت البقیع ، اصحاب اور خاندان رسالت کے آثار کو صفحہ ہستی سے محو کر دینے کا عزم کیا.

رسول ص کے زمانے نے اس طرح کروٹ بدلی کہ حضرت امیر المونین  علی  کے حق کو غصب کر لیا گیانبی کی بیٹی فاطمہ (س)کو مرثیہ پڑھنا پڑا ،بعد رسول ۖ امام حسن  کو زہر دیا گیا اور وہ حسین  جس کی وجہ سے رسول ۖ نے سجدہ کو طول دیا تھا رسول ۖجس کے گلہ کا بوسہ لیتے تھے ان ہی کا کلمہ پڑھنے والوں نے سجدے کی حالت میں امام حسین  کا سر کاٹ کر نوک نیزہ پر چڑھادیا ۔
اور اب ظالم (صدام )نے یہاں تک ظلم کیا کہ امام حسین  کے روضہ کی ہر طرح بے حرمتی کی یہ سب کیوں ھو ا.

عام طورپر یہ دیکھا گیا ھے کہ اگر کسی کو کسی سے دشمنی ہوتی ھے تو مرنے کے بعد وہ دشمنی بھی ختم ہو جاتی ھے,لیکن اہلبیت  کے دشمن ، 
آج تک سر گرم عمل ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل بیت  کا وہ عظیم کردار ہے جو لوگوں کو اپنا گرویدہ کئے ہوے ہے اور اس کے آثار آج تک ظالم اور استعمار سے دشمنی کی شکل میں موجود ہیں.

 لہٰذا پوری دنیا کے ظلم اور استعمار ہر ممکن طریقہ سے اہل بیت  اور عوام کے درمیان پائے جانے والے رابطوں کو نابود کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے قسم قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا تے ہیں.

انہیں میں سے ایک ہتھکنڈہ اہل بیت ع کی قبروں کا نام ونشان مٹادینا ہے ،تاکہ ان میں اور عوام میںپائے جانے والے روحانی رابطے منقطع ہو جائیں.

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دشمنان اہل بیت  نے ہمیشہ اہل بیت کو صفحہ ہستی سے ہی ختم کرنا چاہا اور آج بھی یہ کوششیں جاری ہیں.

اب چاہے قبور کو منہدم کرنا پڑے یا دین احمد ص میں تحریف کرکے شرک اور بدعت کے فتوے صادرکرنا پڑیں .

جیسے دشمن اہل بیت ،ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد ابن القیم نے اولیاء خدا نیز پیغمبروں کی قبور پر عمارت بنانا حرام قرار دیا ھے.
 وہ اپنی کتاب ''زاد المعادفی ھدیٰ خیر العباد ''میں لکھتا ھے کہ :

قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو ڈھانا واجب ہے اگر انہدام اور ویرانی ممکن ہو تو ایک دن بھی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے  ۔
سورہ حجرات آیت ٢ کے تحت وہابی علماء نے رسول ص کی تعظیم کا خیال نہیں رکھا یعنی رسول ص کی زیارت کو شرک اور بدعت ثابت کیا ہے (جبکہ زیارت رسول ص کے لئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ جایا کرتے تھے ).

 اور رسول کا اس طرح دل دکھا یا کہ آل رسول ۖکے مزار جو جنت البقیع میں تھے ان کو بے سایہ کر دیا اور یہ امر مسلم ہے کہ رسول کا دل دکھانا عذاب الھی کا ذریعہ ھے.(جاری ھے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں