مرکز عقائد شیعه شناسی

ہفتہ، 25 مئی، 2019

علم غائب اور غالی مسلمان....قسط نمبر:1

:علم غیب والا عقیده

                                 " قرآن اور اھل غلوغلو.     تحریر و تحقیق : " سائیں لوگ

قسط نمبر :1

علم غیب کا مسله اسلام کے آغاز سے ھی متنازه رھا ھے کچھ صدیاں قبل اس میں تب شدت آئی جب مسلمانوں کے دو گروه ایک اھل سنت میں سے اور ایک مذھب تشیع میں آپس میں مقابل آۓ ایک نے پاک نبی ص اور دوسرۓ نے مولا علی ع کی عظمت توحید تک جا ٹکرائی.

 انھیں کے مخالف ایک اور گروه ناصبی, وھابی معرض وجود میں آیا جس نے ان دونوں کے دعوی کی نفی کرتے ھوۓ نبی پاک ص اور آئمه معصومین ع کی تقصیر شروع کر دی.

 غلو والے گروه  جنھوں نے ان کفریه عقائد کی اشاعت شروع کی جو کلام الھی یعنی که قرآن مجید اور کلام پیغمبر ص یا آئمه معصومین ع کی تعلیمات سے یکسر متصادم تھے.

اب یه غلو بڑھتے ھوۓ اوصیاء و اولیاء کرام حتی که فٹ پاتھ یا کسی دربار پر زنجیروں میں جکڑۓ بیٹھے ننگ دھڑنگ زمانے کے یا گھر کے ماحول کے ستاۓ ھوۓ فرضی و نقلی بزرگ تک بھی پهنچ چکی ھے.جو سائل کے حالات جان کر یا دست شناسی سے قیاس پر آنے والے دنوں کے حالات بتا دیتا ھے.

درج زیل سورتوں میں علم غیب کی محکم آیات موجود ھیں:

سوره آل عمران ع:179.
سوره الانعام ع:58.
سوره یونس ع:20.
سوره نحل ع:77.
سوره نمل ع:65.
سوره لقمان ع:34.
سوره فاطر ع:38.
سوره جن ع:26/27.
سوره الانعام ع:73.
سوره الاعراف ع:187.
سوره ھود ع:123.
سوره الکھف ع:26.
سوره سجده ع:6.
سوره الاحزاب ع:63.
سوره سباء ع:48.
سوره الزمر ع:46.
سوره الحجرات ع:18.
سوره التغابن ع:18.
سوره النازعات ع:43/44.

                  ***** علم غیب *****

جہاں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اٹھارہ مختلف اسلوب و انداز سے 341, بار اپنے لئے صفتِ علم کا بیان اور علم غیب علم کُل علم محیط اور علم بسیط کا اثبات فرمایا ہے.

وہاں اپنے سوا کسی برگزیدہ سے برگزیدہ مخلوق کسی فرشتہ یا ولی یا نبی حتیٰ کہ امام الانبیاء و المرسلین حضرت  ﷺ یا آئمه طاھرین ع کے لئے ایک دفعہ بھی اس کا ذکر نہیں فرمایا.

 بلکہ الٹا ان سے علم قیامت وغیرہ علوم کی نفی کی ہے علیٰ ہذا تمام ماسوی اللہ کے لئے علم غیب کی نفی فرمائی.

غیب کے لغوی معنی:

غیب کام معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ ھیں.
المنجد،ص: 892.
چھپی ہوئی اور پوشیدہ باتوں کا علم، پیشن گوئی کا علم، وہ علم جس سے گزشتہ یا آئندہ ہونے والی بات یا حالات معلوم کیے جائیں پوشیدہ باتوں یا چیزوں کاعلم.

اصطلاحی معنی :

علم غیب کے اصطلاحی معنی یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایسی باتوں کا علم جو حواس خمسہ اور اندازے سے معلوم نہ ہوسکیں.

غیب ان امور کے جاننے کو کھتے ھیں جن کے علم و ادراک سے ھر قسم کے مادی حواس و ظاھری زرائغ قاصر ھوں.
ان کا تعلق خواه زمانه حال سے ھو یا ماضی سے اور خواه مستقبل سے.
(شرح اصول کافی از علامه مژندرانی)

غیب کا علم صرف خدا تعالی ھی جانتا ھے مخلوق کا وه علم جو رمل و نجوم وغیره سے حاصل ھو یا کسی دوربین یا کسی اور زرائع سے حاصل ھو وه علم غیب نھیں ھے.

آج ھم قرآن پاک کی ان محکم آیات کا زکر کریں گےجو علم غائب کے متعلق واضح ھیں.

اس کے بعد نھج البلاغه و دیگر آئمه طاھرین ع کے ارشادات مبارکه , بعد میں علماۓ حقه اور عقل سلیم اور انبیاء و آئمه معصومین ع کےمختلف واقعات و حالات کی روشنی میں مکمل وضاحت دیں گے.

     ** علم غیب قرآن کی روشنی میں**

ارشاد باری تعالی ھے:
کھه دو که جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ھیں خدا کے سوا غیب کی باتیں نھیں جانتے اور نه جانتے ھیں که کب زنده کر کے اٹھائے جائیں گے.
سوره نمل آیت :65.

یونس، 10 : 61
’’ اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے.
سوره یونس ع:61.

قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں علم غیب کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ 
اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی، کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ گرتے کو تنکے کا سہارا اور وہ ان لوگوں سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پرامید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ 

اﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئیے قرآن میں فرمایا:

النمل، 27 : 65
’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے.
سوره نمل ع:65 .

وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ
الانعام، ع : 50
’’اور نہ میں اَز خود غیب جانتا ہوں.

ترجمه :
اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے.
سوره نساء ع:113.

(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ 
سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس رسول الله کے آگے اور پیچھے
 (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے.
سوره جن ع:26/27.

تو غیب کے خزانے اور کنجیاں سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ اور کسی کو ان تک رسائی نہیں ٗ غیب صرف اللہ جانتا ہے ٗ اس کے سوااور کسی کو غیب کا علم نہیں۔

سوره الانعام ع:7.

عِلم غیب ٗ عِلم کُل ٗ عِلم محیط و عِلم بسیط صرف  خاصہ خدا ہے۔ اس بارے میں آیات کریمہ توحید درج بالا و درج زیل ملحاظه فرمائیں.

قُل لَا اَمْلِکُٔ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَ لَا ضَرًّا اِلَّا مَاشَاء اللہُ وَ لَوْکُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَکْثَرُتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَآ مَسَّنَی السُّوْئُ ج اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ۔ 

(پارہ,9  سوره اعراف ع:23

آپ کہہ دیجئے میں اپنی ذات کے لئے(بھی) نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتا ٗ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی مضرت مجھے مس نہ کرتی میں تو محض اہل ایمان کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں.

بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی مینہ برساتا ہے۔ اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ بیشک اللہ سب باتوں کا جاننے والا ٗ سب خبر رکھنے والا ہے.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے ان پانچ باتوں کو نہ تو کوئی مُقرب فرشتہ جانتا ہے اور نہ کوئی برگزیدہ نبی ٗ اگر کسی نے دعوی کِیا کہ ان میں سے کوئی بات جانتاہے تو اس نے قرآن کا انکار کیا کیونکہ قرآن کی مخالفت کی ٗ

ھٰذِہٖ خَمْسَۃٌ لَا یَعْلَمُھَا مَلَکُٔ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌ مُصْ.

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo
الجن، 72 : 26۔ 27
’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے.

وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
التکویر، 81 : 24
’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں.
پاک نبی ص کے متعلق بتایا که ھم نے اسے جتنا  علم غیب دیا اتنا وه جانتے ھیں.
یهی بات مولا علی ع فرماتے ھیں میں اتنا علم جانتا ھوں جتنا مجھے رسعل الله ص نے بتایا.
جو ھم اگلی پوسٹ میں واضح کریں گے .

یه سب پوسٹ پڑھنے کے بعد پھر بھی معترض سوال رکھتا ھے تو براه کرم وه ھمارۓ اس سوال کا جواب ضرور دے.
جو سوره نساء ع:105,میں میرا سوال موجود ھے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں