مرکز عقائد شیعه شناسی

بدھ، 26 جون، 2019

تصوف اور اھلبیت علیھم اسلام

تصوف اور اھلبیت ع

                         قسط نمبر :6.    تحریر : سائیں لوگ


ڈاکٹر مصطفی شیبی جو بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر ھیں جنھوں نے تصوف کو شیعت سے نتھی کرنے کی ناکام کوشش کی .
انھوں نے آپنی کتاب الصلة بین التصوف والتشیع میں یه لکھا که صوفیه اھلبیت ع کے ھم مشرب تھے .
چنانچه مشھور صوفی جنید بغدادی کو جو تصوف کے بانیوں میں شمار ھوتے ھیں ان کے خیال که حضرت علی ع جنگوں میں مصروف رھنے کے باوجود بھی ایسے کلمات ارشاد فرماۓ جنھیں لوگ سننے کی طاقت نھیں رکھتے تھے.

 الله تعالی نے انھیں علم,حکمت اور کرامت میں سے وافر حصه عطا فرمایا تھا .

جب حضرت علی ع سے پوچھا گیا که آپ نے خدا کو کیسے پهچانا تو آپ ع نے جواب دیا جب میں نے یه جانا که میں عبد ھوں تو اس سے میں نے اس کے معبود ھونے کو پهچانا اور میں نے جان لیا که وه ایسا معبود ھے که کوئی بھی چیز اس کی مثیل نھیں اور مخلوق کے ساتھ اس کا قیاس نھیں.

جنید بغدادی کے اس اظھار عقیدت پر تصوف کو شیعت سے ڈاکٹر شیبی نے جوڑنے کی کوشش کی.

یه سچ ھے که حضرت علی ع اور اسکی نسل پاک آئمه اھلبیت ع کائینات کے سب سےبڑۓ زاھد تھے لیکن ان کا زھد و اطاعت تقوی صوفیه سے ھٹ کر تھا.

اھلبیت ع کی اطاعت خدا,
 اطاعت  رسول ص کے دائرۓ تک محدود تھی انھوں نے آپنی پوری زندگی غریبوں کی دست گیری کی تھی اور ان کی نظر میں دنیا اس پتے سے بھی زیاده بے وقعت تھی جو کسی ٹڈی کے منه میں ھو اور وه اسے چبا رھی ھو.

اس زھد و اطاعت کے باوجود وه خود بھی رزق حلال کی جستجو کیا کرتے تھے تاکه اس سے وه ضرورت مندوں کی مدد کر سکیں.
آئمه اھلبیت ع ساری زندگی کاھل اور کام چوروں کی مذمت کرتے رھے اور ان کو کام کی ترغیب دیتے رھے.
بلکه رزق حلال کو عبادت قرار دیا مگر صوفیه محنت مشقت کو چھوڑ کر جنگلوں کی طرف بھاگتے ھیں.

کئ صوفیه فرقاقه کو بھی عبادت سمجھتے ھوۓ درختوں کے پتے کھا کر تنھائی میں خلق خدا سے دور ھو کر خدا کو تلاش کرنے  کی کوشش کرتے ھیں.جو سرا سر تعلمیات خداوندی اور معصومین ع کے خلاف ھے.

 جو سراسر سیرت معصومین ع اور تعلیمات خدا کےخلاف ھے.
اگر تنھائی میں جنگلوں میں ره کر خدا کو ڈھونڈھنا ھے تو پھر اس رنگین اور بارونق دنیا کا مقصد فضول ھے.

معصومین ع اچھا کھاتے اور پھنتے تھے جب که صوفیه ایک موٹے کپڑۓ یا جبه میں رھنے کو ترجیح دیتے ھیں.
بلکه چالیس چالیس روز کھانے سے گریز اور کھاتے ھیں تو صرف زنده رھنے کیلۓ,

 عبدالحمن شوستری سے پوچھا گیا آپ کئ کئی کئ دن کھانا نھیں کھاتے وجه ,
جواب دیا الله کا نور میری بھوک مٹا دیتا ھے چالیس روز کے بعد پھر یه صوفیه 72/گھنٹے کی پریکٹس بھی کرتے ھیں. 

پیٹ پر پتھر باندھ کر نعمات خدا وندی سے دور رھتے ھیں جن میں عظمت خدا پوشیدا ھے بلکه سوره رحمان میں سب نعمات خداوندی گنوائیں گئی ھیں .

آئمه اھلبیت ع عورتوں سے نکاح کرتے تھے جبکه صوفیه شادی نه کرکے آپنی جنسی خواھشات کا قتل کرتے ھوۓ الله کے حکم کی عدولی کرتے ھیں .

آئمه ع کسی کے آگے ھاتھ نه پھیلانے والے کو بروز قیامت چودھویں کے چاند کی طرح روشن چھره قرار دیتے ھیں جب صوفیه مریدوں سے نذر نیاز اور ھدیه کے بھانے آستانے پر تاک  لگاۓ بیٹھے رھتے ھیں.

امام علی ع اور دیگر معصومین ع رزق حلال کمانے کو ھرگز معیوب نھیں سمجھتے تھے اور لذت دنیا کو استعمال کرنے کو ممنوع قرار نھیں دیتے تھے.
 البته انھوں نے ھر شخص سے اس بات کا مطالبه ضرور کیا تھا که انسان آپنی انسانیت کے شرف کو برقرار رکھتے ھوۓ دنیا طلب کرۓ مگر انسان کو دنیا طلبی کا آله نھیں بننا چاھیۓ اور نکته نظر یه نه ھو که وه ھر قیمت دولت حاصل کرۓ مگر صوفیه نے جائیدادیں بنائی ھوئی ھیں جتنے بھی مشھور صوفیه یا موجوده گدی نشین ھیں ھزاروں ایکڑ اراضی اور جائدادیں رکھتے ھیں.
موھره شریف,لاثانی سرکار,گولڑه شریف,سلطان باھو,بھاولدین زکریا ملتانی,غلام فرید شکر گنج,وغیره وغیره سب آپنے وقت کے روسا میں سے تھے.

امام علی ع اور آئمه اھلبیت ع نے جو توحید کا تعارف پیش کیا ھے اس میں تصوف کی ھلکی سی بھی تعلیم نھیں جھلکتی آئمه ع کے خطبات توحید صوفیه,غلات,مشبھه اور مجسمه کے عقیده کے بر خلاف ھیں.

جبکه حسین حلاج,شبلی,خطابیه,نصیریه جیسے گمراه فرقوں کے نظریات سے متصادم ھیں.

حضرت علی ع فخر سے کھتے تھے .
انا عبد لمحمد وانا خاصف النعل,
ترجمه:
میں محمد ص کا غلام اور جوتا گانٹھنے والا ھوں.
جبکه صوفی شبلی کھتا تھا میرا مقام شفاعت رسول ص کے مقام شفاعت سے افضل ھے .
امام علی ع نے جس طرح توحید الھی کو بیان کیا وه خطبات توحید نھج البلاغه میں موجود ھیں.
 جبکه صوفیه میں عبدالرحمن سلمی کھتے ھیں خدا کرۓ وه آنکھ اندھی ھو جاۓ جو مجھے دیکھے کیونکه میرۓ اندر غیر معمولی آثار قدرت ھیں.
صوفیه عقیده حلول,اتحاد,تناسخ کے قائل ھیں اور آپنے کو رب اور آپنے نام کے کلمے پڑھاۓ ھیں بلکه صوفیه میں سے یذید بسطامی کھتے تھے آۓ الله پهلے میں تجھے پکارتا تھا اب تو مجھے پکارتا ھے.اب تو میرۓ اندر آپنی صورت دیکھ جبکه پهلے میں تجھ میں آپنی صورت دیکھتا تھا.

صوفیه کے شطحات سے خدا کی وحدانیت اور اس کے اسماء و صفات بھی محفوظ نھیں ھیں.
صوفیه کے مذید کفر اور مشرکانه حقائق جاننے کیلۓ ھم سے جڑۓ رھیۓ.

                          (جاری ھے)

پیر، 24 جون، 2019

تصوف آور تشیع

 :تصوف کی حقیقت

                                    قسط نمبر:5.         تحریر : سائیں لوگ


بدقسمتی سے ھم نے کل اور آج دو پوسٹ تصوف اور اھلبیت ع پر لکھیں مگر دونوں ھی نیٹ کی خرابی کی نذر ھو گئیں.

انشاءالله کل پھر اھلبیت ع اور تصوف پر لکھیں گے آج یه پوسٹ ملحاظه فرمائیں.

دین کا معاملہ یوں ھے کہ جب بهی کوئی چیز بیان ہو گی تو اس کا ماخذ پوچها جائے گا.
ایک عالم آپ کو کہتا ہے نماز فرض ھےآپ پوچهتے ہیں کہاں بیان ہوا کہ فرض ہے…وه آپ کو بتائے گا کہ قرآن میں بیان ہوا..آپ کہتے ہیں قرآن نے توصرف کہا ہے نماز قائم کرو یہ جو آپ نماز بتا رہے ہیں اس کا تو قرآن میں کوئی ذکرنہیں ھے.

وه بتائے گا کہ قرآن محمد مصطفی ﷺ پر اتری اور انہوں نے یہ نماز پڑھ کرسکهائی بهی اور بتائی بهی….آپ پوچهتے ہیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وه ایسی نمازتهی.
وه بتائے گا کہ یہ نماز رسول اللہ ﷺ پڑهاتے تهے…ان کو ہزاروں لوگوں نےپڑهاتے ہوئے دیکها تها .

اور ان کے ساتھ یہ نماز پڑهی تهی…پهر ان لوگوں نے اس نمازکو بالجمیعت نہ صرف امت کو منتقل کیا بلکہ اس کی ایک ایک تفصیل کتابوں میں بهی نقل کر دی……
یہ علم اور دلیل کی دنیا ھے.
 یہ آیت ہے  اس کا مفہوم ھے.
یہ اس کا شان نزول ہے یہ اس کے مخاطبین ہیں..
یہ فلاں حکم ہے اس کا حوالہ قرآن اور محمد رسول اللہ تک پہنچایا جائے گا اور مستند طریقے سے پہنچایا جائے گا تو وه دین قرار پائے گا.

صوفیاء کے یہاں ایسا نہیں ہے….صوفیاء نے جب اپنا فلسفہ کلام مرتب کیا تو اس پر سوال اٹهے….کہ بهئی یہاں تک تو معاملہ ٹهیک تها کہ دین کو اس کےباطن میں دیکهنا چاہیے…بندے کو خدا کے ساتھ ایک تعلق استوار کرنا چاہیے زہد وتقوی کی کوشش کرنی چاہیے…باطنی رزائل سے دور ہونا چاہیے…لیکن یہ جو آپ نے پوراایک فلسفہ بیان کیا کہ صوفیاء کی توحید عوام سے الگ ہے….ان کے نبوت کا کانسیپٹ الگ ہے…ان کا عرش سے براه راست رابطہ ہے…..ان کے پاس لوح محفوظ پڑهنے کی صلاحیتیں ہیں…
یہ آپ نے کہاں سے حاصل کیا؟ تو وه جواب دیتے ہیں.

ابوالقاسم عبدالکریم القشیری اپنی کتاب قشیریہ میں لکهتے ہیں 
اِس راہ کے سالک کو یہ سارا عالم اُس کے اپنے ہی نور سے روشن دکھائی دیتا ہے ، یہاں تک کہ اُس کی کوئی چیز اُس کی نگاہوں سے چھپی نہیں رہتی۔ وہ آسمان سے زمین تک یہ ساری کائنات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے ۔ ہاں ، مگر دل کی آنکھوں کے سامنے .
(ترتیب السلوک 67)
ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہےاُن کے علم کی شان یہ ہوتی ہے کہ اُن میں سے کوئی اگر کسی شخص کا نقش قدم بھی دیکھ لے تو اُسےمعلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اہل جہنم میں سے یا اہل جنت میں سے .

ابن عربی مواقع النجوم” میں لکھتے ہیں…
”صوفیوں میں سے وہ بھی ہیں ، جن کی نگاہیں ہمیشہ لوح محفوظ ہی پر لگی ہوتی ہیں۔ 

شاه ولی اللہ “فیض الحرمین” میں اپنے بارے میں لکهتے ہیں.
‘میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے قائم الزماں کے منصب پر فائزکیا گیا ہے ۔ اِس سے میری مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نظام خیر میں سے کسی چیز کا ارادہ کریں گے تو اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے آلۂ کار مجھے بنائیں گے.

ایک تو دین ہے اور اس کے ماخذ ہیں…اور ایک یہ لطائف فنا و بقا ھیں جو صوفیاء کا ایک مکمل فلسفہ حیات ہے….ان کے بارے میں ان کا استدلال ہے کہ یہ براه راست وہیں سے ہم اخذ کرتے ہیں جہاں سے فرشتے اور انبیاء اخذ کرتے ہیں…ایک تو یہ مکتبہ فکر ہے…ان کی تحاریر پر جب اعتراض ہوتا ہےتو کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے اپنے مشاہدات ہیں جو عوام سے تعلق نہیں رکهتے اور عوام سمجھ بهی نہیں سکتی….
اب اس علم کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچائیں گے تو بات بنے گی…کیسےپہنچاتے ہیں؟صوفی ڈسکورس میں علم تصوف کے سند کا اتصال جسے کم و بیش ہر جگہ نقل کیا گیا هے وه یوں ہے…کہ یہ علم یعنی حقیقت الحقائق تک پہنچنے کا علم رسول اللہ ﷺ سے کیسے منتقل ہوا.

وہ کہتے ہیں یہ علم رسول اللہ ﷺ سے ان کی صحبت کے انوار وبرکات کی وجہ سے صحابہ کرام کو خود بخود منتقل ہوا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اسکے امین ٹھہرے…پهر ان سے خواجہ حسن بصری نے حاصل کیا….
لیکن یہاں محدثین نے اعتراض کیا کہ خواجہ حسن بصری کی تو ان سےملاقات ہی ثابت نہیں ہے….اب کیا کیا جائے؟ یہ سوال قائم رہا حتی کہ تصوف کے آخری بڑے عالم شاه ولی اللہ نے پهر اس کا ایک بالکل دوسرے زاویے سے جواب دیا…
وه اپنی کتاب “الطاف القدس” میں لکهتے ہیں کہ یہ علم سب سے پہلے سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی نے حاصل کیا اور رسول اللہ ﷺ ہی سے حاصل کیا..لیکن کیسے حاصل کیا اس کے لیے وه ایک مثال دیتے ہیں.

وه کہتے ہیں جس طرح خربوزه اپنی نشوونما کے لیے سورج کا محتاج ہوتا ہے اور اپنی نشو ونما کے لیے سورج سے کسب فیض کرتا ہے لیکن اس طرح کہ نہ تو سورج کو پتہ ہوتا ہے کہ وه زمین میں خربوزے کی نشو ونما کر رہا اور نہ ہی خربوزے کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ نشو ونما سورج نے کی ہے….یہ علم جنید بغدادی نے اسی طرح محمد ﷺ رسول اللہ سے حاصل کیا جس طرح خربوزے نے سورج سے فیض حاصل کیا….
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا هے کہ پهر پتہ کیسے چلا کہ یہ علم حاصل ہو گیا…تو شاه صاحب اس کا بهی جواب دیتے ہیں.

وه کہتے ہیں یہی طریقہ ہے جس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے…جب خدا زمین پر اپنا پیغمبر اتارتا ہے تو اس سے دو طرح کے علوم صادر ہوتے ہیں ایک وه علم ہے جو شعوری ہے اور جسے پیغمبر کی شریعت کہا جاتا ہے اور ایک علم وه ہےجو اس کی ذات سے صادر تو ہوتا ہے لیکن اسے نہ خود اس کی خبر ہوتی ہے اور نہ فیضیاب ہونے والے کو…البتہ کائنات میں جو ذکی طبعیتیں ہوتی ہیں وه اس عنایت کو پہچان لیتی ہیں..لیکن یہاں کوئی پیغام و کلام بیچ میں نہیں آتا.

( گویا خود نبیﷺ ذکی طبیعت نہیں ھوتے کہ ان کو خبر نہیں ھوتی کہ ان سے کیا صادر ھو رھا ھے ، نبی سے بھی ذکی طبیعتیں ھو سکتی ھیں . )
یعنی بات یوں ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدور میں یہ آپ کی صحبت ہی سے حاصل ہو جاتا تھا، لیکن آپ کے بعد جب اِس کا حصول لوگوں کے لیے مشکل ہوا تو یہ ارباب تصوف تھے جنھوں نے اپنے اجتہاد سے اِس کے طریقےدریافت کیے ، اور بالآخر ایک فن کی صورت میں اِسے بالکل مرتب کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جسے ہم طریقت کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں.

تصوف آور اسلام

:تصوف اور اسلام 

                              " قسط نمبر :4.       تحریر   "سائیں لوگ


ایک محقق جب بھی تصوف پر بحث کرتا ھے تو اس کیلۓ سب سے پهلی مشکل یه ھوتی ھے که لفظ تصوف کا ماده اشتقاق کیا ھے جس سے یه لفظ وجود میں آیا اور ایک نیا فرقه نمودار ھوا.

 جس نے ابتدائی دور میں وه عقائد و افکار پیش کیۓ جو عامة المسلیمین کے ھاں رائج نھیں تھے.

   “تصوف” درحقیقت“ صوف” سے ہے اور “صوف” کے معنی پشم( اون)  ہیں.

۔یہ ایک ایسا مکتب ہے جس کی بنیاد صوفیوں یا پشمینہ پوشوں نے ڈالی ہے جو معنوی خود سازی اور ظواہر دنیوی سے دوری کا دعوی کرتے ہیں.

 اور پوری تاریخ میں اس طرز تفکر کے گونا گوں فرقے پیدا ھوئے ہیں۔ “ تصوف” کی تعلیمات کو نہ کلی طور پر قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ سو فیصدی مسترد کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی تعلیمات “ صحیح دینی تعلیمات” اور“ غلط سلیقوں کی بدعتوں” پر مشتمل ایک ترکیب ہے.

یہ ترکیب غلط ہے افسوس کہ اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ خود سازی کے مراحل سے گزر کر قرآن مجید کے مطابق صحیح دینی تعلیمات پر عمل کرنے والوں پر، بعض سطحی فکر رکھنے والوں اور ظاہر بینوں کی طرف سے درویش مآبانہ تصوف کا الزام لگایا جاتا ہے.

 لیکن امام خمینی رح  کے بیانات اور اس نظریہ کے بارے میں ان کے موقوف کی تحقیق کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ جس قدر امام خمینی معنوی خودسازی پر تاکید فرماتے ہیں اسی قدر موصوف صوفی نما افراد اور ان کی بدعت پر مشتمل تفکرات کی شدید تنقید کرتے ہیں.

اگر ھم اسکی مکمل تشریح اور صوفیه کی صف بندی پر کھوج لگائیں تو تحریر طول پکڑ جاۓ گی مگر ھم اختصار کا دامن ترک نه کرتے ھوۓ طولانی تحریر جو قاری کیلۓ بوجھ یا پھر نه پڑھنے کی زحمت بن جاتی ھے کوشش کریں گے که جامع اور مختصر لکھا جاۓ.

اگر میں تصوف کی مکمل تشریح بیان کرنا چاھوں تو کئی پوسٹ لکھنی پڑیں گی.
لیکن آپ نے مختصر تشریح میں بھت کچھ سمجھنے کی کوشش کرنی ھے.

لفظ تصوف کے ماده اشتقاق کو تلاش کرنا ایک مشکل معامله ھے اور آج تک صوفیه بھی اسے تلاش کرنے میں کامیاب نھیں ھو سکے.
سیر حاصل تشریح کیلۓ عبدالله بن علی سراج کی اللمع فی تصوف اور علامه ابن جوزی کی "تلبیس ابلیس"کا مطالعه فرمائیں جو بنده نا چیز کے مطالعه سے گزر چکی ھیں.

بعض مولفین اس بات سے اکتفا کرتے ھیں صوفی کا لفظ سب سے پهلے حسن بصری کی زبان سے ادا ھوا ھے.
لیکن کوئی مستند دلیل موجود نھیں.

اگر صوف جسے ریشم کا کرته کھتے ھیں پهننے کی وجه سے اس گروه کا لقب ھے تو پھر اسے اسلام سے قبل بھی ھونا چاھیۓ تھا کیونکه یھود و نصاره کے راھبان و احبار بھی یه لباس پهنا کرتے تھے.

اس عنوان پر خامه فرسائی کرنے والے جمله مولفین اس بات پر متفق ھیں که تصوف ایک فرقے کے طور پر دوسری صدی ھجری یا وسط یا آخر میں منظر عام پر آیا ھے.

عبالقادر سھروردی کی بھی یهی راۓ ھے.
عوارف الموارف ص:59.

کچھ لوگوں کا خیال ھے صوفی صف سے مشتق ھے کیونکه یه لوگ آپنی بلند ھمتی,اخلاص اور قلب اور خدا کے رازوں کے امین ھوتے ھیں اس لیۓ انھیں صوفی اور صوفیه کھا گیا ھے.

لیکن بعض مولف اسے صفویین سے جوڑتے ھیں جو پھر آھسته آھسته صوفی ھو گیا.

کچھ اسے پهلے ابتدا میں لفظ صفوی سے جوڑتے ھیں جو بعد میں صوفی بن گیا.
کچھ اسے اصحاب صفه کی طرف لے جاتے ھیں.جو دور دراز سے مسلمان آۓ اور مدینه میں ٹھرنے والی جگه پر چبوتره بنایا گیا اسے عربی زبان میں صفه کھتے ھیں.

اسی لیۓ ان اصحاب کو اصحاب صفه کھتے ھیں.ان کا زکر قرآن میں آیا ھے.
سوره بقره ع:273,

جھاں تک لفظ صوفیه کا تعلق ھے تو یه اسماء و صفات کا جامع نام ھے.

لفظ صوفیه کی وجه تسمیه جو بھی ھو مگر یه حقیقت ھے که صوفی گروه آپنی تعلیم کے لحاظ سے باقی امت سے جدا ھے یه لفظ اس وقت داخل ھوا جب مسلمانوں میں اجنبی عناصر شامل ھوۓ.

حسن بصری کھتے ھیں که میں نے ایک صوفی کو طواف کرتے دیکھا تو میں نے اسے کچھ رقم دینا چاھی اس نے کھا میرۓ پاس چار دوانیق موجود ھیں لھذا مجھے تمھاری اس سخاوت کی ضرورت نھیں ھے.

ثفیان ثوری کھتا ھے دنیا میں ابو ھاشم صوفی نه ھوتے تو میں ریاکاری کی باریکیاں نه جان سکتا.

عبدالله بن علی سراج نے ایک کتاب لکھی اس میں انھوں نے محمد بن اسحاق بن یسار سے روایت نقل کی که میں مکه میں داخل ھوا تو ایک صوفی دور سے مکه آتا اور کعبه کا طواف کرکے لوٹ جاتا تھا.

بصری اور اس روایت میں لفظ صوفی استعمال ھوا ھے یه درست ھی نھیں کیونکه ماقبل اسلام لفظ صوفی تو تھا ھی نھیں.

اگر پشمینه پوشی کی وجه  سے صوفی کھا جاتا ھے تو پھر بھت سے انبیاء و اصحاب بھی پشمینه پوش تھے اصحاب بھت زاھد بھی تھے انھیں صوفیه کیوں نه کھا گیا.انھوں نے صوفی کی بجاۓ لفظ صحابی کو ترجیح کیوں دی.

استاد عبدالرحمن بدوی تاریخ تصوف میں لکھتے ھیں یه درست نھیں که پهلی یا دوسری صدی میں لفظ صوفی رائج ھوا ھےیه بات البیان والتبیین اور رساله قیشریه میں بھی مرقوم ھے.

ابن جوزی کھتے ھیں ایک جماعت دوسری صدی میں پیدا ھوئی وه زھد و عبادت کی شیدائی بن گئی اور دنیا سے تعلق نه رکھتی تھی وه لوگ غوث بن مره کے مشابه بن گۓ.پھر ان کے پیروکاروں کو یعنی متصوف کو بھی صوفیه کھنے لگے.

لیکن ھندوستان ایران سے بھی اس کا تعلق جوڑتے ھیں که صوفیه کا تعلق ان جوگیوں سے ھے جو ننگ دھڑنگ ایک صحرائی بوٹی پر گزاره کرتے تھے اور کم قیمت نباتات سبزیات کے مقابلے میں زیاده پسند تھی.
بعض اس بوٹی کو صوفانه بھی کھتے ھیں.اسی کی نسبت انھیں صوفی کھا جاتا ھے.
کچھ محقق اسے یونانی لفظ سوفس یا سوفیا سے بھی مشتق کرتے ھیں.

پروفیسر نیکل سن (Nicholson) کھتے ھیں که متصوف کو فارسی میں پشمینه پوش کھتے ھیں یعنی اونی لباس پھننے والا.
قدیم مسلمان زاھد قسم کے افراد موٹا کھردرا لباس پھنتے تھے انھوں نے یه لباس عیسائی راھبوں کی پیروی میں پهنا تھا.

ماسینیو کے بقول لفظ صوفی کا اطلاق دوسری صدی ھجری کے وسط میں شروع ھوا.صوفی کا لفظ صرف اھل کوفه کیلۓ مخصوص تھا.
99/ھجری میں اسکندریا میں ایک چھوٹا سا فتنه پیدا ھوا جس کے بعد صوفی جمع صوفیه کا لفظ منظر عام آیا جب لفظ صوفی کو پچاس برس گزرۓ تو پھر تمام زاھاد  کو صوفیه کھا جانے لگا.

یه ایک حقیقت ھے که لفظ صوفی کے معنی یا ماده اشتقاق کو تلاش کرنا مشکل کام ھے میری نظر میں یه سب آرا حدس اور استحسان پر مبنی ھیں عوارف الموارف میں ان پر بحث قیاس آرائی پر کی گئی ھے.

ھماری نظر میں لفظ صوفی  اور صوفیه کے متعلق قریب ترین احتمال یهی ھے که سابقه ادیان کے بھت پیروکاروں نے ترک دنیا کی اور انھوں نے اونی لباس کو آپنا شعار بنایا اور ان پوشوں میں بدھ مت ,مانوی,زرتشی,اور عیسائی راھب شامل تھے

 میں خود (Saieen Loag)عرصه دراز سے عیسائی,بدھ مت اور ھندوں میں ره رھا ھوں تو اس بات کا میں خود چشم دید گواه ھوں که یه رھبانیت اور ترک دنیا اور جنگلوں میں ریاضت کا تصور ھمارۓ صوفیه نے انھیں قوموں سے لیا ھے

 سری لنکا میں دور دراز پھاڑوں اور جنگلوں میں باقاعده مراکز قائم ھیں جھاں سال کا زیاده عرصه لوگ جا کر دنیا کے اغراض و مقاصد سے لا تعلق ھو کر صرف الله تعالی کی طرف لو لگا کر أنکھیں بند کرکے آپنے مذھب کے مطابق چلتے ھوۓ اور سجده کی حالت میں مختلف طریقوں سے عبادت کرتے ھیں.

 گوشت نھیں کھاتے سبزیات اور درختوں کے پتوں کو ترجیح دیتے ھیں سب کچھ توکل الله کرتے ھیں بلکه میرۓ ایک دوست ھیں وه ھر سال آسٹریلیا کے شھر ایڈیلیڈ کے جنگلوں میں جا کر ایک ماه کیلۓ گمنام عبادت و ریاضت کرتے ھیں.

 یه بدھ ازم میں ھے ھندو اور عیسائی بھی ملتے جلتے ایسے ھی عبادت کرتے ھیں.
چونکه یه بھت قدیمی مذاھب ھیں ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں بھی اون پوش طبقه وجود میں آیا ,
مگر یه لوگ اھلبیت ع کے علم و حکمت سے متاثر ھو کر ان کو زیر اور انکی علمی اھمیت ختم کرنے کیلۓ مقابل کے طور پر ابھرۓ .

کیونکه  تنھائی کی عبادت و ریاضت اور روحانی بیداری سے انسان مراقبه کی منزل پر پهنچ کر یه تمام خوبیاں حاصل کر سکتا ھے.
ان کا دل بینا ھوجاتا ھے وه وه سب کچھ کر اور دیکھ سکتے ھیں جو عام انسان نھیں دیکھ پاتا.

جو یه سب کچھ اپنی دنیاوی شھرت و فائده کیلۓ کرتے ھیں پھر یه شیطانی عمل بن جاتا ھے مگر اس منزل پر آ کر اکثر صوفی گمراه ھوۓ ھیں مرزا غلام احمد ,گوھر شاھی یوسف کذاب فیصل آباد کے مھدی معود بھاولپور کے یونس جنھوں نے نبوت کا دعوی کیا ھے حال میں بلکه ھزاروں مشاھدات موجود ھیں.

ان صوفیه کے جھوٹے اور گمراه کن دعووں پر ھم تفصیلی روشنی ڈالیں گے تو یه سب کچھ جاننے کیلۓ براه کرم ھم سے جڑۓ رھیے.
  
سابقه ادیان قدیمی کے دیکھا دیکھی مسلمان  صوفیه کا باقاعده ایک گروه فرقه وجود میں آ گیا جس کا سلسله آج تک جاری ھے.
مگر جن کی منزل قرب الھی اور تعلیمات اھلبیت ع پر عمل کرتے ھوۓ دنیا سے لا تعلق نه ھوتے ھوۓ عبادت و ریاضت کرنا ھے ان صوفیه کی اسلام میں گنجائش ھے
آنے والی پوسٹوں میں وضاحت پیش کی جاۓ گی.

لیکن ایک بات واضح ھے که موجوده تصوف ان سابقه ادیان اور انکی عادات کا پهیلاؤ ھے.
 ان سابقه ادیان کے چربے نے تصوف کی شکل اختیار کی جس نے اسلامی مملکت کے اکثر شھروں کو آپنی لپیٹ میں لے لیا ھے.

        (لفظ صوفیه پر بحث جاری ھے)

ہفتہ، 22 جون، 2019

صوفیه کی مذمت فرامین معصومین علیھم اسلام کی روشنی میں. قسط نمبر:3

:

صوفیه کی مذمت کلام معصومین ع کی روشنی میں

                         " قسط نمبر:3.          تحریر : "سائیں لوگ

صوفیه کی مذمت میں آئمه طاھرین علیھم اسلام کے اس قدر فرامین ھماری مستند کتابوں میں موجود ھیں که جن کا عدو احصا مشکل ھے.
 پر یھاں بطور نمونه دو چار ارشادات پیش کیۓ جاتے ھیں.

علامه مقدس اردبیلی آپنی جلیل القدر کتاب حدیقة القدر الشیعه میں با سناد خود رقم ھیں که حضرت امام جعفر صادق ع کی خدمت میں عرض کیا گیا که زمانه حاضره میں ماضی قریب میں ایک قوم پیدا ھوئی ھے جسے صوفیه کھا جاتا ھے آپ اس بارۓ میں کیا فرماتے ھیں

 فرمایا انھم ادائنا.ھم عربی متن کی بجاۓ اردو ترجمه پیش کرتے ھیں:

لاریب یه لوگ ھم اھلبیت و رسالت ع کے دشمن ھیں پس جو شخص انکی طرف مائل ھو اور ان سے محبت رکھے وه بھی ان میں سے شمار ھو گا اور وه ان کے ساتھ محشور ھو گا.

فرمایا بھت جلد ھی کچھ ایسے لوگ پیدا ھوں گے جو ھماری محبت اور دوستی کا دعوی کریں گے.
 اور باوجود اس کے وه صوفیوں کی طرف مائل ھوں گے لباس اور اس لقب میں ان کی مشابھت اختیار کریں گے اور ان کے کافرانه اور مشرکانه اقوال کی تاویل کریں گے.
 لھذا وه ھم میں سے نھیں ھوں گے ھم ان سے بیزار ھیں جو شحص ان کی نفرت اور انکار کرۓ گا.

اور جو ان کے اس خیالات کی تردید کرۓ گا اس کا ثواب ایسے شخص کی مانند ھو گا جس نے نبی ص کے ھمراه جھاد کرنے کا شرف حاصل کیا ھے.

(حدیقة الشیعه ص:562/563 طبع جدید)

حضرت امام جعفر صادق علیه اسلام نے یه فرما کر کھا که :
الصوفیه لکھم من اعدائنا و طریقتھم مبائینه بطریقتا.
ترجمه: سب صوفی ھمارۓ دشمن ھیں اور ان کا طریقه ھمارۓ طریقه کے مغائر و منافی ھے .

مولا صادق ع کے اس فرمان نے ان کے مکروه چھره کو بے نقاب کر دیا ھے.

نیز جناب مقدس اردبیلی حضرت شیخ مفید کے حوالا سے یه واقعه نقل کرتے ھیں که امام علی نقی ع مسجد نبوی ص میں آپنے اصحاب کے ھمراه تشریف فرما تھے که اچانک صوفیوں کا ایک گروه وارد ھوا اور مسجد نبوی ص میں ایک طرف دائره کی شکل میں بیٹھ کر تھلیل (لااله الاالله)
کا ورد کرنے میں مشغول ھو گیا تو آپ نے فرمایا ان فریب کاروں کی طرف توجه نه کرو یه شیطان کے خلیفے ھیں.

یه صوفیوں کا پست ترین گروه ھے اور تمام صوفیه ھمارۓ مخالف ھیں اور ان کا راسته ھمارۓ راستے سے جدا ھے اور یه اس امت کے نصاره اور مجوسی ھیں .

حدیقة الشیعه ص602,

تصوف اور تشیع طبع لبنان.

بعض اخبار و آثار سے واضح آشکار ھوتا ھے که خود بانی اسلام ص نے ان بد عقیده و بدعمل گروه کی پیدائش کی پیشگوئی فرما دی تھی.

چنانچه محدث شیخ عباس قمی حضرت شیخ بھائی رح سے روایت کرتے ھیں که پیغمبر اکرم ص نے فرمایا که قیامت سے پهلے  میری امت میں ایک جماعت پیدا ھوگی .

جس کا نام صوفیه ھو گا اور زکر کیلۓ حلقه بنا کر بیٹھیں گے اور آواز بلند کریں گے.
 وه درحقیقت میری امت سے نھیں ھوں گے بلکه وه یھود سے شمار ھوں گے اور وه کفار سے بھی بدتر ھوں گے.

 اور جھنمی ھوں گے اور گدھوں کی طرح آوازیں بلند کریں گے.

سفینة البحار جلد:2,ص:58.
مذید آپ "تشیع اور تصوف میں فرق"
 میں تفصیلی ملحاظه فرما سکتے ھیں.

تصوف آور تشیع قسط نمبر:2

تصوف اور تشیع

"قسط نمبر:2.           تحریر : "سائیں لوگ

فکر و نظر کے اس ظلمت کده میں ھم چراغ طور جلا رھے ھیں تاکه یه دکھا سکیں که تشیع کا دامن ان صفوات سے پاک ھے.
 ھم یه واضح کر چکے ھیں که شیعت کی نشونما اسلام کے ساتھ ھوئی ھوئی ھے اور شیعت اسلام کے علاوه کچھ نھیں.
مخالفین کا یه الزام غلط بیانی ھے که تشیع بھی دوسرۓ فرقوں کی طرح معروضی حالات کا رھین منت ھے.

مگر ھم اس الزام کی تردید کریں گے که شیعت تصوف کا ماخذ نھیں.

تصوف جسے آجکل جدت پسند لوگ

                      "عرفان"

اور بدنامی سے بچنے کیلۓ صوفیه کو عرفاء کھتے ھیں کی عمارت کا سنگ بنیاد وحدت الوجود بلکه وحدت الموجود اور ھمه اوست جیسے غیر اسلامی بلکه سراسر مشرکانه و کافرانه نظریات پر قائم ھے.
 پھر یه اسلام میں تصوف کس طرح داخل ھوا ?
اور اسے کس طرح مشرف با اسلام کیا گیا یه ایک خونچکاں داستان ھے.

جس کا خلاصه یه ھے که وفات نبی ص کے بعد خاندان رسالت سے ظاھری اقتدار چھینے کے بعد بنی امیه کے دور میں اس خانواده عصمت و طھارت کے روحانی اقتدار پر شب خون مارنے کی خاطر بظاھر تارک دنیا اور نه باطن سگ دنیا قسم کا ایک صوف پوش گروه تیار کیا گیا اور اسے حکومتی سرپرستی سے نوازا گیا .

اسکی خود ساخته کشوف و کرامات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تاکه عامة الناس کو خاندان نبوت ص کے دروازه سے ھٹایا جاۓ اور ان لوگوں کے دروازه پر جھکایا جاۓ.
(انوار نعمانیه)
                                           (جاری ھے)

اتصوف,اسلام,شرک و تشیع

:تصوف,اسلام, شیعت اور شرک

                       قسط نمبر:1.             تحریر:  سائیں لوگ

تصوف اسلام کی رگوں میں اتارا جانے والا وه میٹھا زھر ھے جس کا اثر چوده سو سال بعد بھی, پوری قوت سے زوروں پر ھے.

بلکه اب ایک مسلک کا روپ دھار چکا ھے اور مسلمانوں کو خانقاھوں تک محدود کرتے ھوۓ, شرک کی شرعام تبلیخ جاری ھے.
تصوف کیا ھے ?فلسفه یونان کے مرعومات ,یھودیوں کے نظریات,عیسائیوں کے عندیات,ھندوؤں کے خرافات اور جوگیوں کے ریاضات کا ایک ملغوبه ھے .
علامه اقبال اسے وجود اسلام میں ایک اجنبی پودا کھتے ھیں.(اقبال نامه).

کچھ برادران کے کھنے پر ھم نے غیب پر لکھنا  وقتی طور پر بند  کر دیا ھے.
مناسب وقت پر بقیه اقساط ضرور پیش کی جائیں گی تاکه معصوم برادران حقیقی اسلام کی تعلیم جان سکیں.

 حالنکه غلو کھتے ھی اسے ھیں که کسی کی شان میں وه کچھ کھا جاۓ جسکا وه اھل نه ھو.
 مثلا اگر ھم دھوبی کو ڈاکٹر بنا دیں تو یه زیادتی نا انصافی اور غلو ھو گا.
 یا مخلوق کو خالق کی صفات میں شامل کیا جاۓ تو یه سب سے بڑا غلو,ظلم اور شرک ھوگا.

اسی چیز سے امت کو بچانے کیلۓ سوا لاکھ انبیا ءع آۓ مگر بد قسمتی سے انکی قوموں نے بھی ایسا ھی کیا جیسے آج کے چند مسلمان گروه کر رھے ھیں.

 انبیاء ع اور معصومین ع کے ساتھ ساتھ عام انسانوں کی شان میں بھی غلو کرتے ھوۓ درباروں آستانوں پر کھلے عام شرک جاری رکھے ھوۓ ھیں.

بلکه فیصل آباد میں ایک دربار کے متولی پیر کامل جو وعظ کر رھا تھا کے قدموں میں گرتے مرید کا آپنے پیر کو یه کھتے میں نے  سنا که تو ھی میر رب ھے میں تیرا بنده ھوں بالاآخر قدموں کو چومنے کے دوران اس کا رب بھی میک سمیت زمین پر گر پڑتا ھے.

لھذا اب سوچا زرا تصوف پر لکھنا چاھیے که ان  غالیوں کی طرح صوفیه نے بھی توحید پر کاری وار لگایا ھے.

اور ڈائیریکٹ الله تک پهچنے کی کوشش کی بلکه چند صوفیه تو خود زمین پر خدا بن بیٹھے. تفصیلات أنے والی پوسٹوں میں ملحاظه فرمائیں.

 بلکه کھلے عام خدائی دعوی اور آپنے نام کے کلمے جاری کراۓ ھیں.

بدقسمتی سے ان کاموں میں غالی شیعه اور بریلوی مسلک کے لوگ پیش پیش ھیں.

بحث شروع کرنے سے پهلے ھم یه بتا دیں که توحید,عدل,نبوت,معاد, اور ثواب و عقاب جیسے اصولوں کے متعلق شیعه سنی عقائد میں کوئی فرق نھیں ھے اسی طرح نماز ,روزه,حج,اور زکواة اور جھاد کے بارۓ بھی شیعه سنی نظریات میں کوئی تصادم نھیں ھے.

قرآن اور حقائق بارۓ بھی فریقین میں کوئی اختلاف نھیں البته اسلام کے ان بنیادی موضوعات کی تشریح کے متعلق فریقین میں اختلاف ضرور پایا جاتا ھے اور فریقین متفق ھیں که ان اختلافات سے کوئی اسلام سے خارج نھیں ھوتا.

 اسلام سے انسان اس وقت خارج ھوتا ھے جب وه اس طرح کی تشریح کرۓ که جس کے نتیجے میں خدا کے وجود,توحید,نبوت,قرآن, قیامت کے ثواب و عقاب یا نماز و  روزه حج و زکواة وغیره کا انکار کرۓ.

توحید کی اگر ایسی تشریح کی جاۓ جس سے ایک سے زائد معبود یا حلول,اتحاد اور وحدت الوجود کے نظریات لازم آئیں تو ایسی تشریح بھی  "کافرانه" ھو گی.

شیعه اثناۓ عشریه میں خدا کی تقدیس پر بھت زور دیا گیا ھے اور اسی توحید کے دفاع پر ھم یه سب کچھ لکھ رھے ھیں جس توحید کی بقا کیلۓ انبیاء ع اور معصومین ع نے قربانیاں دیں ظلم برداشت کیۓ گھر چھوڑۓ , وطن سے بے وطن ھوۓ اسی توحید کیلۓ ھمارۓ مولا علی ع نے مصیبتیں برداشت کیں جنگیں کی اور اسی توحید کے دفاع پر مسجد کے اندر اور الله کی پسندیده عبادت حالت نماز میں اور نماز کے  پسندیده عمل سجده میں شھادت پیش کی.

 اور اس توحید پرست مولا ع کے فرزندان نے بھی وھی عمل دھرایا اور حالت سجده میں آپنا سر مبارک کٹوا کر توحید کا پرچم بلند کیا ھم ان برگزیده ھستیوں کے اگر خالص عقیدت گزار ھیں تو پھر ھمیں بھی معصومین ع کی سیرت پر ھرحال میں عمل کرنا ھوگا.

اس تصوف کو مسلمانوں میں پیش کرنے والے دشمنان اھلبیت ع و اسلام پیش پیش تھے کیونکه وه اھلبیت ع کی عبادت ,فضیلت,علم و حکمت و عظمت سے نالاں و پریشان تھے تو اھلبیت ع جیسی حکمت و علم و حلم حاصل کرنے کیلۓ تصوف کی طرف رجوع کیا اور کھل کر اھلبیت ع کے مقابل آ گۓ جس کا ھم تفصیلی زکر آنے والی پوسٹوں میں کریں گے.

اس حساس موقع پر اھلبیت ع نے اسلامی نظریات کی بھر پور ترجمانی کی اور اصول اسلام کو مدون کرکے دنیاۓ کے سامنے پیش کیا.

جیسا که سب جانتے ھیں شیعه اثناۓ عشریه روز اول سے ھی رسول خدا ص کی پیش کرده شریعت کے اصولوں کے وفادار رھے ھیں اور وه اصول شریعت کے منافی کسی بھی نظریه کے قائل نھیں رھے خواه اس کا ماخذ کچھ بھی کیوں نه ھو شیعت نےھر دور میں اسلام مخالف نظریات کا ڈٹ کر مقابله کیا ھے.

ھمارا ایمان ھے الله واحد ھے,لا شریک اور بے مثیل ھے,
پاک نبی ص الله کے بندۓ اور پیغمبر و رسول ھیں ان کے سمیت سوا لاکھ انبیاء ع نے یهی ھمیں درس دیا اور قرآن میں سیکنڑوں آیات اس عقیده کو پیش کرتی ھیں.