مرکز عقائد شیعه شناسی

اتوار، 21 اپریل، 2019

تحریف قرآن ,تشیع پر الزام کا جواب

شیعه مذھب
 میں تحریف قرآن ناممکن ھے
علمی,تاریخی تحقیق ملحاظه فرمائیں

" قسط نمبر:2.           تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ

تحریف ِ قرآن کو اجاگر کرنے والی روایات کو کیسے سمجھا جائے ؟

شیعہ عالم ِ دین جناب سید شریف الدین عاملی (المتوفی 1377 ھ) تحریر کرتے ہیں:

سُنی و شیعہ علماء کی کتب میں لکھی گئی احادیث کی کتابوں میں ایسی روایت موجود ہیں جو کہ اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن میں کمی واقع ہوئی ہے یعنی موجودہ قرآن اصل قرآن سے کچھ کم ہے لیکن یہ حدیثیں سُنی و شیعہ علماء کی نزدیک معتبر نہیں ہیں کیونکہ یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور اس کے علاوہ ان حدیثوں کے مدمقابل ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جو کہ سند کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ و وثاقت پر ہیں اور عدد و دلالت کے اعتبار سے بھی اکژ اور واضح ہیں ۔ لہٰذا ان بےشمار اور واضح حدیثوں کی موجودگی میں جو کہ تحریف ِ قراآن کی نفی کرتی ہیں ان ضعیف حدیثوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔
اور پھر تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی حدیثیں خبر ِ واحد ( ظن کا فائدہ دیتی ہیں) بھی ہیں اور خبر ِ واحد اگر مقام ِ عمل میں مفید نہ ہو تو وہ حجت اور دلیل نہیں ہیں پس ایک طرف قطعی اور یقینی دلیلوں سے ثابت ہیں کہ موجودہ قرآن تحریف سے منزہ ہے اور دوسری جانب بعض غیر معتبر حدیثوں کی وجہ سے قرآن میں تحریف کا گمان پیدہ ہوتا ہے ۔ واضح ہے کہ قطعی اور یقینی امر کو ظن و گمان کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا ۔ نتیجتاً قرآن کریم میں تحریف کو ثابت کرنے والی حدیثوں کو دور پھینکا جائےگا
اجوبت المسائل جار اللہ

تین اہم نکات

شیعہ علماء کی جانب سے تحریف کے عنوان پر مبنی روایات پر گفتگو اور ان روایات کا تجزیہ کرنے سے قبل ہم اپنے قارئین کی توجہ ان تین اہم نکات کی جانب مبذول کرنا چاہینگے ۔

پہلا نکتہ: کسی شیعہ عالم نے اپنی حدیث کی کتاب کو سوفیصد صحیح قرار نہیں دیا

وہ لوگ جو شیعہ کتب میں موجود چند روایات کو پڑھنے کے بعد اُن کتب کے مصنفین اور عام شیعہ حضرات کو برا بھلا کہتے ہیں وہ دراصل تعصب کا کُھلا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ کسی شیعہ مٰولف، مصنف یا عالم نے کبھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ اس کی کتاب میں موجود تمام روایات صحیح ہیں۔ اسی طرح شیعہ محدثین اور فقہاء میں سے بھی کسی نے کسی مخصوص کتاب کے صحیح ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اسی طرح استاد شیخ محمد جواد معتیہ فرماتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ ہمارے مسلک کی حدیث کی کتب مثلاً الکافی، الاسبصار ، التہذیب ، من لا ہحضرہ الفقہ میں صحیح اور ضعیف حدیثیں موجود ہیں۔ اسی طرح ہمارے علماء کی جانب سے لکھی گئی فقہی کتابوں میں بھی خطا اور صواب پر مشتمل مواد موجود ہے بلکہ یوں کہنا ذیادہ مناسب ہوگا کہ شیعان ِ علی (ع) کے عقیدہ میں قرآن مجید کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں جو کہ اول سے آخر تک لاریب اور بےعیب ہو۔

لہٰذا شیعہ علماء کی جانب سے لکھی گئی احادیث کی کتابوں میں موجود کسی حدیث کو شیعان ِ علی (ع) پر اُس وقت تک حجت اور دلیل کے اعتبار سے پیش نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ شیعہ شخص اس حدیث کے حدیث واقعی ہونے کا قائل نہ ہو۔

ہمارے ان مطالب کی تائید و تصدیق کے لئے یہ کافی ہے کہ شیخ محمد یعقوب کلینی (المتوفی 1329ھ) نے کتاب "الکافی" سولہ ہزار دو سو (16200) احادیث جمع کیں۔ کتاب کافی میں موجود ان حدیثوں کو علماء علم رجال و حدیث کی اصطلاح میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے یعنی صحیح ، موثق ، قوی ، حسن اور ضعیف۔ واضح امر ہے کہ جب الکافی جیسی معتبر اور احکام ِ شرعی کے لئے منبع اور سرچشمہ کی حیثیت رکھنے والی مرکزی کتاب کے متعلق علماء اس نظریے کے قائل ہیں تو دیگر کتابوں کی وضعیت خود بخود معلوم ہوجاتی ہیے۔

دوسرا نکتہ: شیعہ کتاب میں موجود حدیث کو مصنف کا عقیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا

اگر کسی مصنف کی کتابِ حدیث میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی حدیث موجود ہوں تو فقط اس اعتبار سے اس مصنف کے متعلق یہ نظریہ قائم کرنا کہ وہ تحریف ِ قرآن کا قائل تھا درست نہیں ۔ اور اگر اسی طرح ہر مصنف کے عقیدہ کو مشخص کرنا شروع کردیا گیا تو مسئلہ انتہائی مشکل ہوجائگا۔ کیونکہ حدیث کی کتابوں میں ایسی احادیث بھی تو ہیں جو کہ ایک دوسرے سے متناقض ہیں یعنی ایک حدیث کا مضمون دوسری حدیث کے مضمون کے ساتھ بالکل بھی قابل ِ جمع نہیں ہے۔ شیعہ علماء کی کتب ِ احادیث میں اس قسم کی احادیث کا موجود ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ کتاب میں موجود حدیث کو اس کے مصنف کا عقیدہ قرار دینا درست نہیں۔

تیسرا نکتہ: ایک فرد کے نظریہ کو اس فرقہ کے تمام لوگوں کا نظریہ بیان کرنا ناانصافی ہے

اگر کسی مذہب و مسلک کا معتقد شخص ایک نظریہ اختیار کرتا ہے تو اس نظریے کو پورے مسلک کی طرف منسوب کردینا کسی اعتبار سے بھی درست نہیں ہیں۔ بلخصوص جب اس مسلک کے معتبر علماء ایک شخص کے نظریہ ِ شخصی کی واضح مخالفت کریں تو پھر بھی اس کے نظریے کو ایک مسلک کا نظریہ قرار دینا تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ دنیا ِ علم میں آپ کو ایسی کئ کتابیں مل جائینگی جن میں مذکور نظریات فقط مصنف کی شخصی رائے ہوتے ہیں ان کے پورے مسلک کے عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اسی طرح شیخ نوری طبرسی (المتوفی 1320 ھ ) نے اگر تحریف ِ قرآن کا نظریہ اختیار کیا بھی ہو تو بھی اس نظریے کو شیخ نوری کی ذاتی رائے تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس نظریے کو تمام شیعان ِ علی (ع) کے جانب منسوب کرنا سراسر ظلم ہوگا۔

کون نہیں جانتا کے ابن تیمیہ کی کتابوں میں موجود خرافات اباطیل کو اہل سنت کے محققین شدت سے رد کرتے ہیں اس شدید تردید کے بعد اگر ابن تیمیہ کے عقائد کو تمام اہل سنت کا عقیدہ کہا جائے تو کیسا رہے گا ؟

ان تمام حقائق اور واضح دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص ایک فرد واحد کی رائے کو پورے شیعہ مسلک اور مذہب کا عقیدہ کہتا ہے تو ایسا شخص تعصب اور نفسانی خواہشات کی موجوں کے تھپیڑے کھاتا ہوا حق سے کوسوں دور ایک مذہب کو بدنام کرنے کا مجرم ہے۔

تحریف ِ قرآن سے متعلق روایات کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ

معروف شیعہ علماء و محققین نے ایسی روایات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے جن سے تحریف ِ قرآن کا شبہ پیدا ہوتا ہو اور انہوں نے اس بات پر بلاشک و شبہ اقرار کیا ہے کہ موجودہ قرآن ہی اصل قرآن ہے جو کہ کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی سے پاک ہے۔

تحریف ِ قرآن سے متعلق شیعہ کتب ِ حدیث میں موجود دو اقسام کی روایات

اول :۔ اس قسم کی احادیث کی اکثریت ضعیف ، مرسل اور مقطوع ہونے کی وجہ سے حجیت سے سا قط ہیں۔

دوم :۔ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کی سند میں موجود افراد معتبر ہیں لہٰذا اس قسم کی احادیث کی سند کے بارے میں تو سوال نہیں کیا جاسکتا البتہ ان احادیث کی تاویل و توجیہ کرنا ضروری ہے جیسا کہ اس قسم کی احادیث کے بارے میں علماء نے یہ فرمایا ہے کہ ان حدیثوں میں بعض تفسیر ِ قرآن و تاویل اور بعض سبب ِ نزول و قرئت اور کچھ تحریف ِ معنی سے متعلق ہیں۔ اور اگر ضعیف ، مرسل اور مقطوع احادیث کے متعلق بھی اس قسم کی تاویل و توجیہ اختیار کی جائے تو ان احادیث کے متعلق بھی اعتبار پیدا ہوسکتا ہے ۔ لیکن ضعیف احادیث میں توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا ضعیف ہونا ہی ان کے اعتبار کو ساقط کرنے کے لئے کافی ہے۔

ان معتبر اور سند کے اعتبار سے صحیح احادیث میں بعض احادیث ایسی بھی ہیں جو کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے میں اس قدر ظاہر اور صریح ہیں کہ ان میں کسی قسم کی تاویل و توجیہ بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس قسم کی احادیث کے بارے میں علماء نے واضح نظریہ اختیار کیا ہے کہ یہ منسوب اور گڑھی ہوئی احادیث ہیں لہٰذا انہیں ترک کردینا ہی مناسب ہے اور اپنے اس نظریے کو بیان کر نے کے لئے علماء نے درج ذیل دلیلیں بھی ذکر کی ہیں:
مستحکم ادلہ اور متواتر نقلوں سے ثابت ہے کہ قرآن مجید رسول اللہ (ص) کے دور میں ہی جمع ہوچکا تھا اور تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی یہ احادیث اس حکم ِ ضروری کی مخالف ہیں ۔ ان احادیث کا اس حکم ِ ضروری کے مخالف ہونا ہی دلیل ہے کہ یہ احادیث گڑھی گئی ہیں۔
یہ احادیث قرآن کریم کی اس آیت ِ کریمہ کے مخالف ہیں 'ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﻮ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﮨﯿﮟ' اور جو روایت قرآن کریم کے مخالف ہے وہ دور پھینک دینے کے ہی قابل ہے۔
تحریف ِقرآن کو ثابت کرنے والی یہ احادیث تعداد کے اعتبار سے بہت کم ہیں جبکہ قرآن ِ مفید کو تحریف سے محفوظ ثابت کرنے والی احادیث متواتر اور مشہور ہیں اور اس کے علاوہ مقابل میں آنے والی یہ احادیث دلالت اور سند کے اعتبار سے بھی (تحریف قرآن کو ثابت کرنے والی) حدیثوں سے قوی ہیں۔
قرآن مجید میں تحریف کو ثابت کرنے والی احادیث فقط حفید ظن ہیں جبکہ قرآن مجید کی قرآنیت کو یقینی اور قطعی احادیث سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جن آیتوں کے متعلق یہ احادیث قرآن کا جز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں ان آیات کی قرآنیت ان احادیث سے ثابت نہیں ہو سکتی اور ظنی احادیث پر شیعہ علماء کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں جبکہ بعض شیعہ علماء نے یہ نظریہ دیا ہے کہ خبر ِ واحد دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اگر ہم اس کی حجیت کے قائل بھی ہوں تو خبر ِواحد صرف اسی صورت میں دلیل ہے جب مقام ِ عمل میں مفید ہو خصوصاً عقائد کے باب میں خبر ِ واحد پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عقیدہ تو علم و یقین کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔

                            (جاری ھے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں