مرکز عقائد شیعه شناسی

جمعرات، 25 اپریل، 2019

موجوده عزاداری میں ریاکاری کا عمل دخل

موجوده عزاداری,بلبله کر رونا,علموں,پرچموں کا زور,سینه زنی و زنجیر  زنی,ناموری ,

شھرت, ریاکاری,اور بدعمل پیشه ور زاکر و خطباء  کا مرکز ھے.

                  قسط نمبر :6

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو عزاداری کی مضامین میں بھی فرق
 آۓ گا.
اور اس کے تسلسل میں عزاداری کی شکل اور کیفیت میں بھی فرق آتا ھے.

 عزاداری زیاده وسعت پاتی ھے مگر اس کے مضامین اور معانی و مفاہیم گھٹ جاتے ہیں.

 عَلَموں اور پرچموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ھے اور طبل و سنج کی تعداد بڑھ جاتی ھے اور جذبات میں شدت کے ساتھ اضافہ ھوتا ھے.

 اور سینہ زنی میں شدت آتی ھے اور تیغ زنی اور قمہ زنی اور زنجیرزنی میں اضافہ ہوتا ھے، لوگ گلی میں پتی باندھی جاتی ہیں اور عوعو کی صدائیں نکالتی ہیں، کربلا میں ہوں تو حرم کی طرف سینی کی بل رینگ رینگ کر جاتی ہیں.

 اور دسیوں دیگر اعمال بجالاتی ہیں (جن کی دنیا کی معقول ترین مذہب یعنی تشیع میں کوئی گنجائش نہیں ھے.

جب عزاداری ہدف میں بدل جائے تو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کچھ بھی نہیں کہا جاتا بلکہ رلانے کے لئے بولا جاتا ھے.

 اس کے بعد جو کچھ بولا جاتا ھے انسانوں کو سوچنے پر آمادہ نہیں کرتا بلکہ ان کے جذبات کو بہکایا جاتا ھے اور مشتعل کیا جاتا ھے. 
مجلس پڑھنے والے واعظ و مداح و ذاکر یہ نہیں کہتے کہ امام حسین (ع) کیوں قتل ہوئے بلکہ کہتے ہیں کہ کیسے قتل ہوئے. ایسے حال میں یہ نہیں کہا جاتا کہ امام حسین علیہ السلام تاسوعا اور عاشورا سے پہلے بھی تھے اور اس سے پہلے بھی آپ (ع) کا کردار تھا.

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو اس میں منتہائی مقصد چونکہ عزاداری ہی ھے تو اس میں تنوع اور رنگارنگی اپنی عروج کو پہنچتی ھے.

 کیونکہ یہی منتہائی مقصد ھے اور جو کچھ بھی ممکن ھو یہیں انجام دینا چاہئں. اس قسم کی عزاداری کا چونکہ بعد کا کوئی مرحلہ نہیں ھے .
اور کوئی بھی ایسا کام نہیں ھے جو بعد میں انجام دیا جاسکی لہذا تمام تر کوشش اور سوچ و فکر اس کی رنگارنگی اور تنوع (Variety) میں صرف ہوتی ھے. ‎

مگر اگر عزاداری امام حسین علیہ السلام کی مدد کی لئی ھو تو عزاداری کی شکل و صورت نہایت باوقار اور آرام و سکون کی ہمراہ ہوتی ھے.
 ممکن ھے کوئی فرد ایسی عزاداری میں ایک گھنٹی سی زیادہ وقت نہ گذاری لیکن نکلتی ہوئی وہ یہ ضرور جانتا ھے.

 کہ اگر اسی حسینی بننا ہے تو بہت سے کام کرنے پڑیں گے (کیونکہ اس عزاداری کا اختتام یہیں نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد کے مراحل بھی ہیں.

 اور وہ مراحل درحقیقت حسینی اہداف کے حصول کی کوششیں ہیں جو عزادار حسین (ع) کی ذمہ داریوں کے زمرے میں آتے ہیں). 

وہ چونکہ جہان شناس اور وقت شناس ھے لہذا (اہل دانش علماء کی تقریر اور آگاہ و پابند دین شعراء کے اشعار سن کر ان کے کلام کے مفہوم و معانی میں غور و فکر کرکے) جب باہر نکلتا ھے تو انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلوں اور ذرائع ابلاغ کی طرف رجوع کرتا ھے.

 اور سوچتا ہے کہ

: 1- اگر امام حسین علیہ السلام ہماری آج کی دنیا میں ہوتے تو کن مسائل و امور کی طرف توجہ دیتے؟‎

2- آج کی دنیا میں امام حسین علیہ السلام کے افکار کو کس طرح نافذ کیا جاسکتا ھے.
ان سوالات کے جوابات کئی گھنٹوں تک سر و سینہ پیٹنے، زنجیر زنی اور قمہ زنی اور دیگر افعال اور انواع ماتم سے ہرگز باہر نہیں آتے.

 بلکہ اس کے لئے مہینوں اور برسوں کے مطالعے اور تحقیق اور کوشش و جہاد کی ضرورت ھے. 

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو عزاداری کا وقت ماہ محرم الحرام کا پہلا عشرہ اور صفر کا آخری عشرہ ھے .

مگر عزاداری نصرت امام حسین علیہ السلام کے لئے ھو تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تمام دن عزاداری کے ایام ہیں.

 (اور «کل یوم عاشورا اور کل ارض کربلا»

 ایسی ھی عزاداری کا ثبوت ھے). کیونکہ اتنا کام زمین پر پڑا ہے اور امام حسین علیہ السلام کے اہداف کے حصول کے لئے اتنی کوشش,

 اور جدوجہد کی ضرورت ھے کہ سال کے تمام کے تمام اوقات میں ایک لمحہ بھی ضائع کرنا جائز نہیں ھے. 

نتیجہ:
خالص حسینی عزاداری نہ صرف رائج عزاداری سے زیادہ وسیع اور عریض ھے جس میں البتہ بے شمار حدود اور قیود کی رعایت بھی ہوتی ھے.

 اگر ہمارا ہدف یہ ھے کہ امام حسین علیہ السلام کے مکتب کی توسیع و ترویج ہو تو بہت سے معیاروں کا لحاظ رکھنا پڑے گا.

 مگر اگر ہدف صرف دستے روانہ کرنا اور مجلس آرائی ھو تو یہ پھر ہماری بحث کا موضوع ھی نہیں ھے.

                                    (جاری ھے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں