مرکز عقائد شیعه شناسی

جمعہ، 8 نومبر، 2019

مسلمانوں میں رائج عقیده عصمت

Monday, March 20, 2017

عقیدہ عصمت قرآن کی روشنی میں۔۔ تحریر آیت اللہ برقعی

رایج عصمت کا عقیدہ قرآن مجید کی روشنی میں

تحریر:آیت اللہ العظمی سید ابوالفضل ابن الرضا برقعی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالی نے انبیاء کرام سے تبلیغ رسالت الہی کے متعلق وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو خطا سے محفوظ رکھے گا،اسی لیے پیغمبر اکرم ص سے مخاطب ہو کر سورہ اعلی آیت 6 میں فرمایا:
سَنُقْرِؤُكَ فَلَا تَنسَى
ہم تمہیں پڑھا دیں گے کہ تم بھلا نہ سکو گے
یعنی رسالت الہی کے متعلق آپ کو نسیان نہیں ہوگا۔اور سورہ جن آیت نمبر27 و 28 میں فرمایا:

إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ٭لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا
ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس (کو غیب کی باتیں بتا دیتا اور اس) کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے ۔تاکہ معلوم فرمائے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور (یوں تو) اس نے ان کی سب چیزوں کو ہر طرف سے قابو کر رکھا ہے اور ایک ایک چیز گن رکھی ہے
ان آیات میں اللہ تعالی نے رسول اللہ ص کو حفظ رسالات رسول ص کی ضمانت دی ہے۔
لیکن وہ امور جو کہ تبلیغ رسالت اور وحی سے خارج ہیں ان میں آپ کی عصمت موجود نہیں،جیسا کہ اللہ تعالی نے سورہ محمد آیت نمبر 19 میں رسول اسلام ص سے فرمایاِؔ:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
پس جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔
اور اسی طرح سورہ غافر آیت نمبر 55 میں فرمایا:
وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ
اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو
اور سورہ نساء آیت نمبر 105 و 106 میں ارشاد فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّهُ وَلاَ تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا ٭ وَاسْتَغْفِرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ اللہ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔ اور اللہ سے بخشش مانگنا بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
اور سورہ نصر آیت نمبر 3 میں آپ ص سے فرمایا:
وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے
اور سورہ فتح آیت نمبر 2 میں آپ ص سے فرمایا:
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ
تاکہ(اے محمد ص) اللہ تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے
اور جب رسول ص سے ایک گروہ سے متعلق تحقیق نہیں کیا کہ جو جو جنگ سے بہانے اور عذر تلاش کر کے چلے گئے۔تو اللہ تعالی نے آپ ص کو ملامت اور سرزنش کرتے ہوئے سورہ توبہ آیت 43 میں فرمایا:
عَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
اللہ تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے ہیں جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھوٹے ہیں اُن کو اجازت کیوں دی.
اور دیگر انبیاء ع سے متعلق جیسا کہ جاننا چاہیے کہ سورہ قصص آیت نمبر 16 میں اللہ نے حضرت موسی ع کا قول ذکر کیا ہے۔
قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
بولے کہ اے پروردگار میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے تو اللہ نے اُن کو بخش دیا۔ بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے
اور سورہ انبیاء آیت نمبر 87 میں حضرت یونس کا قول جو اللہ سے انہوں نے ارشاد فرمایا:
لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے (اور) بےشک میں قصوروار ہوں
اور سورہ اعراف آیت نمبر 23 میں حضرت آدم ع کے متعلق ارشاد فرمایاَ
قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے
سورہ طہ آیت نمبر 121 میں ارشاد فرمایا:
وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى
اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم خلاف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے) بےراہ ہو گئے
اور حضرت نوح ع کے متعلق جیسا کہ سورہ ھود آیت نمبر 47 میں ارشاد فرمایا:
وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ

اور اگر تو مجھے نہیں بخشے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں تباہ ہوجاؤں گا
اسی طرح دیگر بہت ساری آیتیں ہیں۔
کیا قرآن اور غیر قرآن میں انبیاء علیھم السلام کی دعائیں جن میں انہوں نے خود کو گناہگار کہا اور اللہ سے بخشش مانگی کیا اس سے ہمیں یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ معصوم نہیں تھے۔
جب انبیاء کرام ع عصمت کے دعویدار نہ ہو تو بہت تعجب کا مقام ہے کہ جو لوگ اپنے بزرگوں اور اماموں کی عصمت کے لیے عصمت ذاتی کے قایل ہوئے ہیں۔حالانکہ یہ امام علیھم السلام اپنے لیے کبھی عصمت ذاتی کے دعویدار نہیں تھے اور نہ وہ اس کے قائل تھے۔بلکہ انہوں نے مکرر اپنے کلمات میں اپنی گناہوں خطاؤں سے اظہار پشیمانی کرتے ہوئے اللہ سے عفوو معافی طلب کیا ہے۔یقینا انہوں نے اسی لیے ایسا کیا ہے تاکہ کوئی ان کی شان میں غلو نہ کرے۔اور اگر کوئی شخص ذاتی طور پر عصمت کے حامل ہو تو یہ اس کی کوئی فضیلت نہیں ہوگی،بلکہ وہ ایک پتھر کی طرح ہے کہ وہ بھی تو خطا نہیں کرسکتا۔لیکن درجہ تو اس شخص کا ہے جو خطا اور گناہ کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے خود کو اس سے بچائے۔اور اس کے علاوہ اگر انبیاء و اولیاء معصوم ہوں تو وہ لوگوں کے لیے اسوہ نہیں بن سکتے کیونکہ ایک شخص جس کا تن اور بدن ہے ،اس سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا کہ تم نوری مخلوق کی پیروی کرو(جو خطا سے پاک ہو٭۔
اللہ تعالی نے سورہ آل عمران آیت 80 میں صریحا ارباب بنانے سے منع کیا ہے۔
وَلاَ يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُواْ الْمَلاَئِكَةَ وَالنِّبِيِّيْنَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ
اور اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو اللہ بنالو بھلا کیا اسے زیبا ہے کہ تمہیں کافر ہونے کو کہے
اور اسی سورہ کی آیت 64 میں فرمایا:
وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ
اور اس کے ساتھ کسی چیز کو ہم شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے

اور سورہ توبہ آیت نمبر 31 میں فرمایا:
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
انہوں نے اپنے احباراور رہبان اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا اللہ بنا لیا حالانکہ اُن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے
ان آیات میں اللہ تعالی نے ہر شخص کو جو انبیاء و اولیاء اور ملائکہ کو رب بنائے ان سے کوئی چیز مانگے ان کو مشرک و کافر کہا ہے۔
بلکہ صریح قرآنی آیات اس کی دلیل ہے کہ انبیاء معصوم نہیں تھے۔اور شیعہ امامیہ کے گیارہ اماموں نے بھی اپنے کلمات اور دعاؤں میں اپنی گناوہوں کا اعتراف اور اقرار کیا ہے۔اور کہا ہے کہ ہم معصوم نہیں ہیں۔دعائے کمیل،صحیفہ علویہ اور صھیفہ سجادیہ ایسی دعاوں سے بھری پڑی ہے جس میں ان کی تضرع و زاری کے ساتھ انہوں نے اللہ کو یاد کیا ہے اور اس ذات سے اپنی گناہوں کے لیے عفو الہی کی درخواست کیا ہے۔اور اپنی خطاؤں سے طلب مغفرت طلب کیا ہے۔
حضرت علی ع خطبہ نمبر 216 میں نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
فَإِنِّی لَسْتُ فِی نَفْسِی بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ وَ لاَ آمَنُ ذَلِکَ مِنْ فِعْلِی
اسی طرح خطبہ نمبر 13 میں آپ ع نے ارشاد فرمایا:
أَصْبَحْتُ عَبْداً مَمْلُوكاً ظَالِماً لِنَفْسِي
عصمت کے متعلق میں صفۃ 36 و 37 اور 17 و 18 پر کافی ؤاضح کرچکا ہوں۔اور اس جگہ میں صرف یہی کہتا ہوں کہ اگر انبیاء کی عصمت ذاتی،جبلی اور تکوینی ہو تو یہ کوئی فضیلت نہیں کیونکہ ہر درخت اور پتھر بھی تکوینی لحاظ سے معصوم ہیں۔اور وہ بھی اللہ تعالی کی نافرمانی،عصیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ،اور بشریت کی فضیلت یہی ہے کہ وہ گناہ کرنے پر قادر ہونے کے باوجود بھی گناہ نہ کرے۔پس انبیاء جن کے متعلق آسمانی کتاب میں کہا گیا کہ ِ
بشر مثلکم
تمہاری طرح بشر ہیں ،یعنی ہر صفت بشر جو ہم میں ہے وہ ان انبیاء میں بھی تھے،مگر ان میں صرف ایک چیز کا فرق ہے وہ یہ کہ سمر رسالت و تبلیغ،میں وہ وحی کے مواطب تھے تاکہ ان سے خطا نہ ہوجائے،لیکن دیگر امور میں دیگر تممام افراد بشر کی طرح وہ بھی تھے۔
بنابریں ان میں بھی گناہ کرنے کا مادہ موجود ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ نقص ہے جیسا کہ فرشتے کی طرح جو گناہ کر ہی نہیں سکتے۔پس نتیجہ یہ ہے کہ وہ گناہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اپنی دعاؤں میں انہوں نے کبھی بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ہم تو معصوم ہیں بلکہ مکرر فرماتے تھے خدایا ہم گناہ گار ہیں اور اللہ سے وہ مغفرت طلب کرتے اور عفو و بخشش مانگتے تھے۔
٭
بہت ساری قرآنی آیت ہیں صریح جس میں یہ کہا گیا ہے کہ انبیاء سے گناہ سرزد ہوئے اور انہوں نے اس سے توبہ کیا۔اسی طرح بہت ساری دعائیں پیغمبر اسلام ص اور دیگر انبیاء اور آئمہ شیعہ اور اہل بیت سے مروی ہیں جن میں وہ اپنی گناہوں کا اللہ کے سامنے اقرار کرتے تھے۔اور اس ذات سے معافی و بخشش مانگتے۔اور جس نے دعا کی کتابیں پڑھی ہوں اس کے لیے یہ باتیں بالکل پوشیدہ نہیں ہے۔

حالانکہ امامیہ یہ کہتے ہیں کہ انبیاء و آئمہ نے ان دعاؤں میں جو گناہوں کا اقرار اور استغفار کیا ہے وہ صرف اور صرف دوسروں کو دعا سکھانے اور یاد کرانے کے لیے کی ہیں،اور وہ خود معصوم تھے؟
اس کا جواب بالکل واضھ ہے کہ اولا یہ محض ایک دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں۔اور محض خیالی باطل دعوی ہے۔
دوسری یہ کہ اگر کوئی شخص ایسا دعوی کرے تو اس سے پوچھنا چاہیے کہ اگر تم اپنے اس بات میں سچے ہو تو تمہیں اس دعا کے بعض حصون کی بجائے پوری دعا کے مضمون کو سر مشق بنانا چاہیے۔مثلا ان دعاؤں میں آیا ہے کہ تمہارے آئمہ ڈائریکٹ اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع و زاری سے مانگتے،اور کہتے کہ ِ
خدایا ہم تیرے سوا کسی اور کو نہیں پکارتے،اور تیرے علاوہ کسی اور سے متوسل یا متوجہ نہیں ہوتے۔اور تیرے سوا کسی کو شفیع نہیں سمجھتے۔اور اس جیسے دیگر کلمات۔
نتیجہ یہ کہ تم اپنے اس دعوے کے مطابق کیوں نہیں عمل کرتے اور ان بزرگوں کی طرح غیر اللہ کو کیوں نہیں پکاتے ہو،اور کیوں ان کی طرح غیر خدا کی بجائے خدا کی طرف متوجہ،توسل،پناہ و زاری نہیں کرتے؟اور وہ توسل جو قرآن کے خلاف ہے اس کو چھوڑتے کیوں نہیں ہو؟اور میں نے عصمت کے موضوع پر اس سے قبل صفحات میں کافی تفصیل بیان کیا ہے۔
٭
علی ع معصوم نہیں تھے جیسا کہ قیس بن سعد بن عباد جو کہ بہادر اور تیز ایک شخص تھا اور آپ نے اس کو مصر کا والی بنایا،اور معاویہ نے اس کو واھمہ کیا ،پس علی ع نے تحریک معاویہ پر اس کو معزول کیا۔اور اس کو معزول کرنے کے سبب مصر علی ع کے تصرف سے نکلا اور معاویہ کے قبضے میں چلا گیا۔اسی طرح علی ع نے ابوموسی کو والی کوفہ بنایا ۔۔۔اور جمل۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کافی غلطیاں علی ع سے ان معاملات میں سرزد ہوئیں جیسا کہ نھج البلاغہ کے مکتوبات سے ظاھر ہیں،مثلا ایک خط منذر بن جارود کو لکھا جس کو آپ نے والی بنایا تھا۔۔۔۔لیکن وہ بھی خائن نکلا۔۔
محمد ص بھی عصمت ذاتی نہیں رکھتے تھے بلکہ اللہ تعالی وہی کے ذریعے آپ ص کو خطاؤں سے محفوظ رکھتے تھے،اور اگر آپ ص پر بھی وحی نازل نہ ہوتا تو آپ بھی غلطیاں کر جاتے۔یہ وحی تھی جس کی وجہ سے آپ ان اشتباھات سے محفوط تھے
تم اپنے اماموں کے لیے عصمت کے قائل ہو ھالانکہ عصمت ایک باطنی امر ہے۔کہ کوئی شخص سوائے اس شخص خود کے کوئی اس سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔تم ہی کہو کیا ان آئمہ نے خود کہا ہے کہ ہم معصوم ہیں یا نہیں؟؟اگر وہ اپنے لیے عصمت کا دعوی کرتے تھے تو یہ دعوی کا ثبوت کہاں ہے؟ان کے بہت سے ثبوت تو یہ کہتے ہیں کہ ہم گناہگار ہیں،اور انہوں نے اپنی دعاؤں میں اپنے لیے گناہوں سے توبہ اور گریہ و زاری کیا ہے اللہ کے حضور۔کیا تم ان کے قول و گفتار کو مانتے ہو؟علی ع خطبہ نمبر 207 نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ

کیا تم جو ان کی پیروی کا دعوی کرتے ہو ان سے زیادہ ان کو پہچان گئے ہو؟
کMUQAS کے تمام حرکات و سکنات میں ان کے ساتھ تھے،اور ان کے باطنی اھوال و صفات نفسانی کا احاطہ کرتے ہو؟؟
وہ تو خود اپنی گناہون سے ڈرتے اور توبہ و اناب کرتے تھے۔لیکن تم لوگ ان کی وفات کے ہزاروں سال بعد ان سے متعلق دوسری چیز کا قائل ہوگئے ہو۔خیالی عصمت کا فائدہ ہی کیا ہے،جب وہ زندہ تھے تو کوئی ان کو معصوم نہیں سمجھتا تھا،حتی وہ خود اپنے کو معصوم نہیں سمجھتے تھے۔
میں نے بار بار اپنی اس کتاب میں ان کی عصمت کے متعلق دھرایا ہے ،اور اس جگہ یہی کہون گا کہ کتاب و سنت میں بالکل بھی اماموں کی عصمت پر دلیل موجود ہی نہیں،رسول خدا ص نے تمہاری معتبر کتاب وسائل الشیعہ وغیرہ میں کہا ہے کہ :
أيها الناس حلالي حلال إلى يوم القيامة وحرامي حرام إلى يوم القيامة إلّا وقد بينهم الله في الكتاب وبينتهما في سيرتي وسنتي وبينهما شبهات من الشيطان وبدع بعدي من تركها صلح له أمر دينه
پس اگر مسلمان عزت رفتہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے کتاب و سنت پر عمل کرنے اور بدعات کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں