مرکز عقائد شیعه شناسی

ہفتہ، 25 فروری، 2023

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن 

سامعین کرام اسلام علیکم 

سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف عالم دین علامہ غضنفر عباس تونسوی کے حالات زندگی پر۔ جو سات دسمبر دوہزار بائیس کو رحلت فرماگئے تھے۔

ناضرین علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی اپنے وقت کے نامور عالم دین علامہ امیر محمد ہاشمی کے گھر تحصیل میلسی کے قصبہ دروہڑوائن میں پیدا ھوئے آپ اپنے والد کی طرح 

ادب، منطق، فلسفہ، کے میدان میں اپنی مثال آپ تھے۔

علامہ امیر محمد ہاشمی نے ولایت علی ع پر بہت کام کیا۔ چوٹی کے علاقے، ضلع ڈیرہ غازی خان، میں، امیر محمد ہاشمی نے تقریباً چھ ماہ کے بحث مباحثے کے دوران اپنے مناسب دلائل کے ساتھ اسلام و مذھب حقہ کی خدمت کی اور آخر میں آپ جیت گئے اور فاتح چوٹی کے لقب سے لوگوں میں مشہور ہوئے۔

آپ نے ھزاروں لوگوں کو شیعہ کیا ۔

علامہ امیر محمد ہاشمی کے گھر لکھنؤ اور برصغیر سے تعلق رکھنے والے جید علماء اور رہنما آتے رھتے تھے، جن میں مرزا یوسف، حافظ کفایت حسین، مولانا ہدایت حسین، علامہ محمد بشیر ٹیکسلا، راجہ صاحب محمود آباد وغیرہ نمایاں ھیں۔

تحصیل میلسی کے قصبہ درھڑوائن میں جب علامہ امیر محمد ہاشمی پیش نماز تھے تو اس وقت ان کا علم عروج پر تھا،بیس سال کی عمر میں خطابت شروع کی۔اسی دوران بندہ ناچیز کے والد محترم مہر محمد شفیع آرائیں کے ساتھ علامہ امیر محمد ہاشمی صاحب کا اٹھنا بیٹھنا رہتا تھا ان کے علم اور مذھب حقہ کی حقانیت سے متاثر ھو کر والد صاحب نے اھل سنت سے مذھب تشیع اختیار کیا اور ہمارے ڈیرئے پر علامہ امیر محمد ہاشمی صاحب نے ھی پہلی مجلس عزا کا انعقاد اور خطاب کیا۔

علامہ امیر محمد ہاشمی بھی سلطان العلماء کے درجہ پر فائز تھے ان کے متعلق یہ مشھور ھے کہ آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے گھر میں اسی کمرے میں ھی دفن کیا جائے جسمیں آپ رھتے تھے اور اپنی رفیقہ حیات کو تلقین کی کہ انکی قبر کو تنہاء نہ چھوڑا جائے کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ کہیں بعد از وصال انکے دماغ کو نکال نہ لیا جائے۔

علامہ غضنفر عباس تونسوی کی ولادت میلسی کے قصبہ درہڑوائن میں اسی گھر میں ھوئی جو اب ھم آپ کو دکھا رھے علامہ امیر محمد ہاشمی اسی گھر میں رہائش رکھتے تھے یہ گھر دربار حضرت ساجی محمد کے مشرق کی طرف واقع ھے۔

علامہ غضنفر عباس تونسوی بچپن میں ایک کرتہ پہنے درہڑوائن کی گلیوں میں اکثر بچوں کے ساتھ کھیلتے نظر آتے جب زیارات پر علامہ امیر محمد ہاشمی نجف گئے تو انھوں نے اسی ایک کرتے میں کھیلنے والے بچے کیلئے خصوصی دعا کی کہ مولا اسے اتنا علم دے کہ میری جگہ لے سکے ۔

تو مولا علی ع نے دعا قبول فرمائی اور بغیر کسی مستند مدرسہ و مکتب سے پڑھے بغیر آپ اپنے باپ سے ھی علم حاصل کرتے ھوئے بیک وقت 

علم کلام، علم معانی، علم بیان، علم بدیح،علم صرف، علم نحو، علم حدیث،علم فقہ، علم اصول، علم الرجال،علم ابدان،علم نفسیات،علم الاابجد، علم تفسیر سمیت

عربی فارسی ،اردو،سرائیکی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ کمال کے حافظہ کے مالک تھے علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی شہنشاہ خطابت تھے ان کی یہ پہچان تھی کہ ایک دفعہ پڑھی مجلس کو دوسری جگہ نھیں دھراتے تھے ہر مجلس انکی ایک نئی مجلس ھوتی۔برصغیر کے واحد زاکر امام علی علیہ السلام تھے جنھوں نے کبھی نعرہ و صلوات پڑھنے یعنی داد پر اصرار نھیں کیا بلکہ داد انکے جملوں کی تلاش میں رھتی تھی ۔

قبلہ سلطان العلماء تقریبا ساٹھ سال تک زینت منبر رھے ۔

علامہ امیر محمد ہاشمی نے بیس برس میں خطابت شروع کی جبکہ علامہ غضنفر عباس ہاشمی نےسولا سال کی عمر میں خطابت شروع کی۔اپ نے ممعرفت، فضائل و مصائب اھلبیت ع پر تقریباً دس ھزار سے زاید مجالس عزا سے خطاب کیا۔

  توحید العارفیین ۔۔ حقیقت محمدیہ 

حروف مقطعات حقیقت تسبیح حقیت بیت اللہ اسرار خاک شفاء لعاب محمد ذوالفقار اور خاص طور پر بتیس سال مسلسل معرفت امام زمانہ علیہ السلام اور چہاردہ معصومین کی عظمت و فضیلت پر لا تعداد خطبات بیان کیئے ۔ان موضوعات پر مجالسِ اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ھیں۔ 


قرآن مجید ،نہج البلاغہ سمیت سیکڑوں احادیث و روایات کے حافظ بھی تھے۔۔جذباتی استیصال کرتے ہوٸے مجمعے پہ گرفت کر کے داد لینے میں کوٸی خطیب اُن کا ہم پلہ نہ تھا۔۔

وہ اپنے وقت کے ایسے خطیب تھے جب تک زندہ رھے منبر حسین ع پر اپنی برتری برقرار رکھی۔ اپنی مجالس میں مجع پر مضبوط گرفت رکھتے۔

آپ تقریبا اسی سال کے قریب عمر کے باوجود بھی جوانی کا حافظہ رکھتے تھے عربی کے بھت طولانی خطبے بھی مادری زبان کی طرح روانی سے پڑھتے تھے۔ ان کا انداز خطابت و ادائیں کمال کی تھیں۔

انھوں نے میدان علم و انداز خطابت میں کسی بھی عالم کو آگے نھیں بڑھنے دیا مجمع کو فورا سمیٹ لیتے تھے ھند و پاک میں ہزاروں لوگ ان کے عقیدت گزار اور بڑئے بڑئے عالم دین ان کے باکمال علم کے معترف تھے۔

خطابت کے اوائل سے لے کر موت تک انکی مقبولیت میں کمی نھیں پائی۔جہاں بھی جاتے دور دراز سے لوگ انکی مجالس سننے کیلئے آتے تھےپاکستان ،ھںدوستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں اپنے علم و معرفت کے جوہر بکھیرئے۔ 

علامہ غضنفر عباس تونسوی  

 بھت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں الغیب،حروف مقطعات،حقیقت تسبیح،طریق العرفان الی صاحب الزمان، ولایتِ و شرک،اسرار کبریہ،لعاب محمد، شامل ھیں۔

آپ برصغیر ایشیا میں بہت زیادہ مقبول تھے

ان کی تحقیق مختلف شعبوں میں لا محدود تھی یعنی بیک وقت ،

عربی،فارسی،گرائمر سمیت ،ادب ثقافت مذہب فلسفہ، منطق، سائینسی و روحانی علوم پر مکمل عبور تھا۔ وہ سلطان العلما اکیڈمی بہاولپور پاکستان کے سرپرست و بانی تھے۔ وہ اپنے انداز کے پاکستان میں تشیع مذھب کے ہر دلعزیز اور بلند پایہ مقرر تھے ۔

انکےچھاردہ معصومین علیہم السلام سمیت

 اسلام کے ہر موضوع پر پندرہ ہزار سے زائد خطبات و مجالس ھیں۔

انھیں ابو الفصاحت،اور سلطان العلماء کے اعزازات سمیت حیدرآباد سندھ اور لاھور کربلا گامے شاہ میں سونے کے تاج و تمغات سے بھی نوازا گیا ۔


  ان پر انیس سو اٹھاسی میں پہلی دفعہ غالی و مشرک ہونے کا الزام لگا۔پاکستان کے کافی امام بارگاہوں کے منتظمین نے انکی مجالس پر پابندی لگا دی ۔

جبکہ انھوں نے کافی مقامات پر عقیدہ غلو سے انکار اور وضاحت بھی فرمائی۔



ان پر الزام تھا کہ آپ علی اللہ کے قائل ھیں اللہ تعالیٰ کو ھی علی ع سمجھتے ھیں ۔

جبکہ اسکی وضاحت انھوں نے انڈیا کے شہر حیدرآباد دکن میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے بھی دھرائی ۔


آپ ولایت علی ع کے بھت بڑئے داعی تھے ۔ان سے نظریات و عقائد کے اختلاف پر علامہ محمد حسین نجفی المعروف 

 ڈھکو صاحب نے کھل کر مخالفت کی ، علامہ غضنفر عباس تونسوی کی سرپرستی میں صابر شاہ بہل مرحوم سمیت اس وقت کے نامور زاکرین نے علامہ محمد حسین نجفی صاحب پر دوران مجالس عزا میں کھلم کھلا لعنت کرواتے تھے۔ جسکا سلسلہ آج تک جاری ھے۔

یہ تو سوشل میڈیا آنے کے بعد لوگوں کو ڈھکو صاحب کے عقیدہ توحید و ولایت سے آگاہی ھوئی۔

خود علامہ غضنفر عباس تونسوی بھی ڈھکو صاحب کی مخالفت اور مناظرے کے چیلنج کرتے رھتے تھے ۔

وہ اپنے ایک خطاب میں کچھ اس طرح زکر کرتے ھیں۔

علامہ غضنفر عباس فروع دین پر مجالس امام حسین علیہ السلام کو ترجیح دیتے تھے۔زنجیر زنی اور شھادت ثالثہ کا برصغیر میں آغاز اور خوب دفاع اور پرچار کرتے۔

اپنے ایک خطاب میں نماز کے متعلق کچھ اس طرح بیان کیا کہ عزاداری کو روک کر نماز پڑھنا سنت یزید ھے۔


اپنے ایک خطاب میں فروع دین کے متعلق اور فضائلِ مولا علی ع کو بیان کرکے سادہ لوگوں کے دلوں میں ابہام پیدا کیا۔

مولا علی ع کے فضائل کو توحید پر کچھ اس طرح پیش کیا 



علامہ غضنفر عباس تونسوی شاعری میں بھی بھت عروج رکھتے تھے ایک مقام پر حضرت غازی عباس کی شان میں بیان فرماتے 

بلکہ آخری سالوں میں انکے ھر خطاب میں انھیں عقائد کے پرچار کو فوکس کیا گیا۔

بغیر شہادت کے پڑھی جانے والی نماز کو باطل قرار دیتے تھے

ان کی اکثر مجالس و خطاب میں ولایت علی ع کو ہر واجب و اوجب عمل کا اہم حصہ قرار دیتے تھے جبکہ مخالفین سمجھتے تھے کہ آپ مقام توحید کو مسخ اور تقصیر پہنچا رھے ھیں ۔

کائینات کے نظام کی روانی کو آل محمد کے کنٹرول و طابع سمجھتے تھے۔کافی مقامات پر اللہ تعالیٰ کو اھلبیت علیھم السلام میں مجسوم ھے کے عقیدہ حلول کا اظہار کیا ۔ وہ برملا فرماتے تھے کہ اس کائینات کا نظام یھی پانچ مقدس بستیاں چلا رھی ھیں ۔

ولایت تکوینی عقیدہ کے قائل اور ایمان کا حصہ اور 

مولا علی علیہ السلام کی محبت ھی کو نماز کا خشوع و خضوع ھونا سمجھتے تھے

ان کے واضح عقاید کی کچھ ویڈیو کلپ آپ ھماری ویڈیو میں دیکھ سکتے ھیں۔

https://youtube.com/@shiafigure

علامہ غضنفر عباس تونسوی کے شاگردوں میں ان کے ،بیٹے نعلین غضنفر ھاشمی اور بیٹی جو اپنے باپ کے انداز میں مجالس عزا پڑھتی ھیں اور بھانجے ،نیاز عباس ہاشمی اور ناصر سبطین ھاشمی شامل ھیں۔

نعلین غضنفر عباس ہاشمی ملتان اور لاھور میں بھی مجالس عزا پڑھ رھے ھیں۔

  علامہ ناصر نے حوزہ علمیہ قم، حوزہ علمیہ مشہد مقدس، ایران سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اب وہ پاکستان میں اپنی مخصوص تقریروں کی مہارت کی وجہ سے مقبول ہیں۔ اور کافی کتابیں بھی لکھ چکے ھیں۔

اتنا بڑا عالم ربانی اتنا بڑا خطیب اتنا بڑا فصاحت و بلاغت والا مقرر اتنا بڑا عامل و کامل اتنا بڑا انسان اتنا بڑئے غیر معمولی حافظے کا مالک اتنا بڑا نام اتنا بڑا عارف علوم آل محمد اتنا بڑا ذاکر حسین ابن علی ع کہاں سے لاۓ گی دنیا ۔

عقائد پر لاکھ اختلاف سہی مگر ھم انکے علم،و معرفت اھلبیت علیھم السلام اور سلیس خطابت، فصاحت و بلاغت کے قائل ھیں

علامہ غضنفر عباس تونسوی صاحب خطابت کی ایک دانشگاہ کا درجہ رکھتے تھے آپ انکے عقیدے سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن آپ انکے طریقہ خطابت اور سلیس انداز بیان سے اگر مطمئن نہیں ہیں تو پھر آپکا علم و ادب کے ساتھ دور تک کا واسطہ نہیں ۔میں نے بچپن سے آج تک ان کی لاتعداد مجالس سماعت کیں ۔

میں نے انھیں اپنے شہر میلسی سمیت ، علامہ صاحب کا جائے ولادت قصبہ درہڑواین،اور موضع شاہ ستار سمیت دوران تحصیل علم بہاولپور،اور دوران ملازمت لاھور میں۔ بخآری ہاؤس قذافی اسٹیڈیم،شاکر رضوی پانڈوسٹریٹ ،کربلا گامے شاہ سمیت محمدی مسجد گلبرگ انکی کافی مجالس خوب سنیں مگر کبھی دوسری مجلس سے مماثلت نھیں پائی یہی وہ چیز تھی جو انہیں دوسرے زاکرین و علماء سے یکسر ممتاز کرتی ھے۔

سات دسمبر دو ھزار بائیس بروز بدھ کو دل،گردوں اور شوگر کی تکلیف کے باعث فصاحت و بلاغت،علم و عرفان کا یہ سورج معارف اھلبیت ع کے لاتعداد اسرار و رموز اپنے قلب میں لئیے ھمیشہ ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سو گیا۔

اللہ تعالیٰ علامہ غضنفر عباس تونسوی قبلہ کی روح کوسکون عطا کرے اور امام زمانہ ع کے قدموں میں جگہ عطا کرے آمین

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے حالات زندگی پر ھماری ویڈیو آپ ھمارئے چینل 

Shia Figure 

پر دیکھ سکتے ھیں ۔

https://youtube.com/@shiafigure




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں