مرکز عقائد شیعه شناسی

ہفتہ، 25 فروری، 2023

قائد آعظم محمد علی جناح شیعہ تھے یا سنی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن

ناضرین کرام اسلام علیکم 

  آج بات کریں گے بانی پاکستان محمد علی جناح کے مسلک پر جو شروع سے ھی اختلاف کا باعث رھا ھے ،

کیونکہ اگر محمد علی جناح کسی مسلک کی واضح نمائیندگی کرتے ھوئے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کی جدوجہد کرتے تو پھر یہ قطعاً ممکن نھیں تھا کہ تمام مسلک کے لوگ متحد ھو کر اس کوشش میں شامل ھوتے۔ یہ قائد اعظم کی دانشمندی اور دور اندیشی کا نتیجہ ھے کہ تمام فرقوں کے مسلمان ایک غیر مذھبی و لسانی آزاد خیال نوجوان کی قیادت میں متحد ھو کر تحریک پاکستان کا حصہ بنے۔ اس سچ کو قبول کرنے میں آخر قباحت کیا ھے ۔

 قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار دنیا کے ان نیک اور صالح شیعہ مقتدر شخصیات میں ھوتا ھے جو اپنے اچھے کردار اور کارہائے نمایاں کی وجہ سے دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ھیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح صرف ایک سیاستدان نھیں بلکہ ایک اصول پسند ،باکردار،خود دار کراماتی شخصیت کے مالک تھے مگر افسوس ان کے متعلق بھت سے حقائق جیسے عقائد و نظریات کو تعصب و عداوت کی وجہ سے ھمیشہ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔

حالنکہ حقائق چھپانے سے بھت سے سوالات نے جنم لیا ایک نقصان یہ بھی ھوا کہ 

  ملک میں فکری تضادات و چہ مگوئیاں نے جنم لیا ویسے بھی قیام پاکستان کو ستر برس ہوگئے ہیں۔ اس لیے بہت سے معاملات اور متبادل معلومات کو اب منظر عام پر آجانا چاہیے، تاکہ عوام کے ذہنوں میں جومختلف قسم کے شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں، وہ دورہوسکیں

 جیسے اندرون سندھ کے تعلیمی اداروں میں یہ پڑھایا جاتا ھے کہ قائد اعظم کراچی نھیں بلکہ سندھ کے شھر ٹھٹھہ کے گاؤں جھرک میں پیدا ھوئے ان کے والدین کی قبور جو کراچی کے علاقے لی مارکیٹ کے اسماعیلی قبرستان میں واقع ھیں آج تک کسی کو معلوم نھیں۔

اسی طرح قاید اعظم کے عقیدہ کو بھی ہر ممکن چھپانے کی کوشش کی گئی۔شیعہ دشمنی کی وجہ سے دنیائے اسلام کی ایک بڑی مملکت کو وجود میں لانے والے قائد اعظم محمد علی جناح کے واضح مسلک کو بھی اسلام اور شیعہ دشمن قوتوں نے ھمیشہ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جو تحریک پاکستان کے وقت قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے تھے آج اسے اھلسنت دیوبندی ثابت کرنے پر تلے ھیں صرف ستر برس پہلے ایک عام نھیں بلکہ قائد عوام کے مسلک کو لوگ جاننے سے کیسے قاصر ھوئے آج ھم اس پر مکمل ثبوت اور ناقابل حقائق سے پردہ چاک کریں گے،مگر اس سے پہلے اگر آپ نے ابھی تک ہمارے چینل شیعہ فگر کو سبسکرائب نھیں تو سبسکرائب کرلیں تاکہ ھماری اس طرح کی شیعہ مقتدر شخصیات کے حالات زندگی پر ڈاکومنٹریز بنا کسی الجھن کے آپ تک پہنچ سکیں۔،

ناضرین کرام 

محمد علی جناح کے والد جناح پونجا گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ جناح کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے۔اُن کے دادا کا نام جناح میگجی تھا،جوکہ کاٹھیاوار کی ریاست گوندل میں بھاٹیا نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ابتدائی طور پر یہ گھرانہ ہجرت کرکے پنجاب کے شہر منٹگمری میں آباد ہوئے جناح کے آباؤ اجداد ساہیوال، پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہندو راجپوت قوم سے تھے جوکہ بعد میں مسلمان ہوگئے۔ جناح کے دیگر بہن بھائیوں میں تین بھائی اور تین بہنیں تھیں، بھائیوں میں احمد علی، بندے علی اور رحمت علی جبکہ بہنوں میں مریم جناح، فاطمہ جناح اور شیریں جناح شامل تھیں۔ 

قائد اعظم کے خاندان والے شیعہ مذہب کی شاخ کھوجہ شیعہ سے تھے لیکن جناح بعد میں شیعہ مذہب کی ہی دوسری شاخ بارہ امامیہ کی جانب مائل ہوگئے۔ ان کی مادری زبان گجراتی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ کچھی، سندھی، اردو اور انگریزی بھی روانی سے بولتے تھے۔

قائد اعظم نے اپنی زندگی میں لاکھوں لوگوں کی قیادت کی ھزاروں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی چھ لاکھ لوگوں نے نماز جنازہ پڑھا ۔وراثت کیلئے سینکڑوں لوگوں نے کیس سنا ،دسیوں افراد نے شیعہ اثنائے عشریہ عقیدہ پر نکاح ھوتے دیکھا اور تقریب نکاح میں شمولیت کی مگر افسوس پھر بھی شیعہ دشمنی کی وجہ سے بضد ھیں کی قائد اعظم اھلسنت تھے۔

قائد اعظم کا ایک بیان حلفی جو انھوں نے اٹھارہ سو نواسی میں بمبئی کی عدالت میں تبدیلی عقیدہ اسماعیلی سے اثنائے عشریہ جمع کروایا وہ بیان حلفی آج بھی موجود ھے 

جس پر علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط موجود ہیں۔

اسی طرح مشھور صنعتکار ٹاٹا گروپ کے ڈنشا پٹیٹ کی پارسی بیٹی رتی بائی سے شادی کرتے وقت جو نکاح ھوا وہ مذھب اثنائے عشریہ شیعہ کے عقیدہ پر مولانا عباس نجفی صاحب سے پڑھایا۔

اس بیان حلفی پر بھی علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط ہیں۔یہ نکاح نامہ آج بھی بمبئی ہائیکورٹ کے آرکائیو میں موجود ہے

قائد اعظم کی وفات کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے کوشش کی کہ قائد اعظم کے عقیدہ تشیع کو چھپایا جائے لہذا آخری فیصلہ یہی ہوا کہ قائد اعظم کی عوامی اور سرکاری سطح پرنماز جنازہ سنی عقیدہ کے مطابق ادا ہوگی۔ اور مولانا شبیر احمد عثمانی نماز جنازہ پڑھایئں گے- جب محترمہ فاطمہ جناح کو اس سنگین چالاکی کا علم ھوا تو انھوں نے جلدی سے اپنی بہن شیریں بائی کو قائد اعظم کے قریبی شیعہ دوست راجہ صاحب آف محمود آباد کے پاس بھیجا اور قائد اعظم کی اس وصیت کےبارے بتایا کہ ان کی آخری رسومات پہلے شیعہ عقیدے کے مطابق ادا ہونگی اس پر راجہ صاحب مولانا انیس الحسنین رضوی کے گھر خود آئے اور انہیں ساتھ لیکر گورنر جنرل ہاؤس پہنچے جہاں فاطمہ جناح نے بیگم نصرت عبداللہ ہارون، شیریں بائی اور راجہ صاحب کی موجودگی میں قائد اعظم کی وصیت کے مطابق غسل و کفن شیعہ عقیدے کے مطابق انجام دینے کا کہا-

اس واقعہ کے آنکھوں دیکھے گواہ سید انیس الحسنین رضوی کے فرزند بھی ھیں اس وقت انکی عمر تقریباً دس برس تھی آخر میں ھم انکا ویڈیو بیان بھی سنائیں گے جو اج بھی زندہ ھیں

محمد علی جناح کی وفات کے چار دن بعد مولانا سید انیس الحسنین رضوی نے صغیر حسن نقوی کے نام گیارہ ،بارہ ستمبر کی درمیانی رات کو جو خط لکھا اس میں بھی اس سارے ماجرہ کا زکر کیا۔

  کھارادر کے مرکزی امام بارگاہ سے شیعہ غسل و کفن دینے والے حاجی ہدایت اللہ عرف حاجی کلو مرحوم نے خوجہ برادری کے صدر سیٹھ رحیم چھاگلہ اور سیکرٹری غلام رسول ،شبیر حسن اورناظم حسین کی مدد سےقائد اعظم کو غسل و کفن دیا اور قائد اعظم کی نماز جنازہ قائد اعظم کے کمرہ میں نماز فجر کے بعد مولانا انیس الحسنین رضوی نے پڑھائی جس میں کراچی کے اس وقت کے حاضر ایڈمنسٹریٹر ہاشم رضا، کراچی کے انسپکٹر جنرل پولیس سید کاظم رضا، سندھ کے وزیراعلیٰ یوسف ہارون، آفتاب علوی، سیٹھ رحیم چھاگلہ ،غلام رسول ،حاجی کلو اور کھارادر جماعت کے عمائدین سمیت ایک ھزار سے زائد شیعہ مقتدر افراد نے شرکت کی- مگر اس وقت کے میڈیا کو شیعہ نماز جنازہ کی کوریج سے منع دیا گیا- اور ساتھ ھی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کو سختی سے خبردار کیا گیا کہ اس کا ذکر قطعا نہ کیا جائے - شیعہ جنازہ کے وقت کمرئے سے باہر کھڑئے لیاقت علی خان نے بھی اسکی گواہی دی۔

جب قائد اعظم کی شیعہ نماز جنازہ ادا کردی گئی تو جنازہ عوامی نماز جنازہ کے لئے گھر سے اٹھایا گیا ابھی چوکھٹ سے باہر نہیں نکلا تھا کہ محمّد علی جناح کی بہن فاطمہ کو اچانک اپنے بھائی کی مذھبی عقیدت کا خیال آیا کیونکہ محمد علی جناح اکثر مجالس و عزاداری میں شرکت کرتے رھتے تھے۔ جلدی سے جنازہ روکا گیا اور محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے نماز پڑھنے کے کمرے یعنی کے چھوٹی امامبارگاہ کی دیوار پر لگے علم مولا غازی عباس علمدار کو لا کر خوجہ اثنا عشریہ جماعت کے ماتمی و رضاکاروں کے حوالے کر دیا گیا کہ میرے بھائی کا جنازہ انھیں علم غازی عباس ع کے سائے میں جائیگا اور دفن بھی علم پاک کے سائے میں ھی کیا جائے گا ۔

علم دیکھ کر اھلبیت علیھم السلام کے دشمن ناصبیوں کو یہ برداشت نہ ھوا اور شور شرابا برپا کر دیا کہ ہم ایسا نھیں ھونے دیں گے اور پوری جدوجہد کی کہ علم کسی طرح ساتھ نہ جائیں یہ بہانہ بنایا گیا کہ قائد کے میت کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹا گیا ہے یہی کافی ہے اس پر محترمہ فاطمہ جناح اور ان کی شیعہ ہوجانے والی چھوٹی بہن محترمہ شیریں بائی نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ایسا ہے تو جنازہ تو ہو چکا اب قائد اعظم کو اسی گھر میں ھی دفن کردیا جائے۔ناصبی کڑوا گھونٹ بھرتے ھوئے خاموش ہو گئے۔ اور علم حضرت غازی عباس علمدار کے سائے میں قائد کے جسد خاکی کو لے جایا گیا مگر پھر بھی محترمہ فاطمہ جناح شیریں بائی اور دیگر خاندان کے شکوک وشبہات موجود تھے اس لیے ان خواتین نے بھی تدفین میں شامل ہونے کا ارادہ کیا،صبح ھوتے ھی شیعہ سنی مسلمان آمڈ پڑئے اور قائد کے جسد خاکی کی توپ گاڑی کے آگے اور پیچھے بہت سارے علم نظر آنے لگے یہاں تک کہ ماتمی جوان بھی ماتم کرتے چلنے لگے جن میں سب سے نمایاں خوجہ برادری کا ماتمی حلقہ تھا جنھیں پولیس نے روکنے کی کوشش کی مگر کھارادر کے رضاکاروں کی مداخلت اور فاطمہ جناح کے ساتھ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ کو کامیابی نہ ھو سکی

جب قائد کا جنازہ کھارادر کے قریب سے گزرا قائد کی گاڑی کو کھارادر میں ان کے والد کے ہاتھوں نصب شدہ علم کے پاس لے جایا گیا جو قائد کی ولادت پر منت کے طور پر پونجا جناح نے لگایا تھا-یہاں فاطمہ جناح صدمے سے نڈھال و غمزدہ نظر آئیں- جب جنازہ گاہ پہنچے تو میدان یا حسین یا علی ع کی صداؤں،نعروں کے ساتھ ساتھ ماتم سے بھی گونج رہا تھا۔ جس پر مولوی شبیر احمد عثمانی نے خاصی ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور انتظامیہ سے بار بار ان افراد کو خاموش کروانے کا کہتے بھی رھے۔الغرض چھ لاکھ کے قریب لوگوں نے علامہ شبیر احمد عثمانی کی اقتداء میں اھلسنت طریقہ پر دوبارہ نماز جنازہ ادا کی۔’قائداعظم کے دفن کے بعد مولوی سید غلام علی احسن مشہدی اکبر آبادی نے شیعہ طریقہ پر تلقین پڑھی اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی تدفین مکمل ھوئی جنازہ کے ساتھ علم مولا غازی عباس کا ھونا ٹھوس ثبوت ھے کیا کبھی کسی اھلسنت کا جنازہ اس طرح ھوا ھے یہ میرا سوال ھے۔ قیامت تک گزرئے یا ھونے والے اھلسنت کے جنازہ کا ایسا منظر دکھا دیں۔چیلنج چیلنج ھی رھے گا۔

اسی طرح محترمہ فاطمہ جناح کا جب انتقال ہوا، تو ان کی میت کو غسل بھی سابق طالب علم رہنماعلی مختار رضوی مرحوم کی ہمشیرہ نے دیا۔ ان کی پہلی نماز جنازہ شیعہ عقیدے کے مطابق گھر کے لان میں ادا کی گئی تھی،

اس بات کی تصدیق مجھے انیس سو چھیانوے میں میرئے ایک بنگالی دوست بشیر احمد بنگالی نے بھی کی جنھوں نے سات سال تک محترمہ فاطمہ جناح کے ہاں بطور خانساماں کام کیا۔


درج بالاواقعات میں ایسی کون سی بات ہے جو راز میں رکھنی چاھیئے بس یہ تشیع سے دشمنی و نفرت کی وجہ ھے کہ ایک شیعہ مسلمان کی سرپرستی میں دنیا کی ایک بڑی مسلمان مملکت وجود میں کیسے آ ئی۔ قائد اعظم پر برصغیر کے مسلمان اعتماد کرتے تھے، اس لیے وہ ان کی قیادت میں جمع تھے۔ جب وہ اسماعیلی عقیدے سے وابستہ تھے،اس وقت بھی ان کی ذات پر بھارتی مسلمانوں کو اعتماد تھا، جب وہ بارہ امامیہ شیعہ ہوگئے، تب بھی ان کی مقبولیت و چاھت  میں کوئی کمی نہ آئی۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے سربراہ سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا تھے۔ ان کے بعد محمد علی خان آف محمود آباد صدر بنے، جو پہلے سیکریٹری جنرل رہ چکے تھے۔ ان کا تعلق بھی  شیعہ اثنائے عشریہ فرقہ سے تھا۔ اس کے بعد قائد اعظم نے یہ عہدہ سنبھالا وہ بھی شیعہ تھےاور مرتے دم تک اس عہدے پر قائم رہے۔

دراصل عام شہری اپنے رہنماکی مسلکی وابستگی سے زیادہ اس کے کردار کو اہمیت دیتے ہیں۔

ویسے بھی سیاسی لوگ سیاست میں  مسلک کا اظہار نھیں کرتے ۔ مسلک کے دخل سے مقبولیت و اھمیت میں فرق پڑتا ھے۔

آج بھی ہم غور کریں تو پاکستانی شیعہ خاندان سیاست پر چھائے ھیں پر وہ اپنے مسلک کو فوقیت نھیں دیتے کیونکہ سب کو ملا کر چلنا ھوتا ھے۔

اسی وجہ سے کویٹہ میں شیعہ علماء کے وفد نے جب یہ اصرار کیا کہ آپ تو ہمارے شیعہ ھیں قائد اعظم نے جھٹ جواب دیا نو آئی ایم آئے مسلم ۔ ۔قائد اعظم  مسلمانوں میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے ہر گروہ و نسل کے لوگ انھیں چاھتے تھے۔۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور  ہے کہ اس زمانے کے برٹش انڈیا میں ایک سے بڑھ کر ایک معتبر معروف عالم دین موجود تھے۔ مگر ان کی شناخت کسی نہ کسی مخصوص عقیدے یا مسلک سے ضرور تھی۔ اس لیے اپنی تمام تر علمی برتری اور سیاسی بصیرت و شناسی کے باوجود یہ علماء مسلمانوں کی مشترکہ رہنمائی کے لیے قابل قبول نہ تھے، جب کہ قائد اعظم جدید انداز زندگی اور مقامی زبانوں سے ناآشنائی کے باوجود بھی کراچی سے ٹامل ناڈو،چٹاگانگ سے ، بولان تک اور خیبر سے راس کماری تک مسلمانوں کے واحد مقبول ترین رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

اکیس رمضان المبارک کو برِصغیر میں حضرت علی ع کی شہادت کی مناسبت سے یومِ علی کے طور پر سوگ کا دن سمجھا جاتا ہے۔ 1944ء میں مہاتما گاندھی قائدِ اعظم سے مذاکرات کرنے بمبئی آئے  تو قائد نے 7 ستمبر کو حضرت علی کے یومِ شہادت کی وجہ سے ملاقات سے انکار کیا اور مذاکرات نو

 ستمبر سے شروع ہوئے۔ اس بات پر لکھنؤ میں مجلسِ احرار کے ایک چوٹی کے لیڈر مولانا ظفر الملک بھڑک اٹھے اور قائدِ اعظم کو کھلا خط لکھ کر کہا:

“مسلمانوں کا اکیس رمضان سے کوئی تعلق نہیں یہ خالص یوم شیعہ ہے۔ اسلام اس طرح کے تہوار پر کسی قسم کے سوگ و حزن کی اجازت نہیں دیتا۔ درحقیقت اسلام کی روح اس قسم کے یہودی تصورات و نظریات کے بالکل خلاف ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ خوجہ شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن آپ کو مسلمانوں پر ایک شیعہ عقیدہ تھوپنے کا کوئی حق نہیں۔

قائدِ اعظم نے اس خط کے جواب میں لکھا:

“یہ شیعہ عقیدے کی نہیں۔ حضرت علی ؑچوتھے خلیفہ بھی تھے۔ اور میں جانتا ہوں کہ حقیقت میں اکیس رمضان کا دن تمام مسلمان، شیعہ،سنی اختلاف سے بالاتر ہوکر، مناتے ہیں۔مجھے آپ کے رویہ پر حیرانگی ہوئی ہے

 مسلمانوں کے ساتھ اکثر ھندو بھی عقیدت رکھتے ھوئے غم مناتے ھیں ثبوت کے طور پر ایک ھندو بازار میں کس طرح سب کو یاد دھانی کروا رھا ھے مسلمانوں آج یوم شھادت مولا علی ع ھے ویڈیو دیکھیں ۔ 

قائدِ اعظم، ابوالحسن اصفہانی اور راجہ صاحب محمود آباد جیسے رہنماؤں کے شیعہ ہونے کی وجہ سے مجلسِ احرار اور جمعیت علمائے ہند نے مسلم لیگ کے خلاف مہم چلائی حالانکہ مسلم لیگ میں اکثریت سنی لوگوں کی تھی۔ قائدِ اعظم کی مرحومہ زوجہ رتی جناح، جنھوں نے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور جن کی وفات کے بعد ان کو شیعہ طریقے سے بمبئی کے خوجہ اثنا عشریہ قبرستان میں دفن کیا گیا تھا،  

بعد میں مولانا حسین مدنی نے شوشہ چھوڑا کہ وہ غیر مسلم تھیں۔

ان علما  کی یہ حرکتیں نا صرف اخلاقی،مذھبی لحاظ سے گھری ہوئی تھیں بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی جاھلانہ تھیں۔ ۔ عوام جتنے بھی سادہ ہوں، ان کی چھٹی حس انھیں ایسے لوگوں کو رہنما بنانے سے روکتی ہے جو ان کے اصلی مسائل پر بات کرنے کے بجائے اس قسم کی گھٹیا و اختلافی حرکتیں کرتے ہوں۔ بہرحال اس کے جواب میں مسلم لیگ نے محترمہ رتی جناح ؒکے قبولِ اسلام  کے ثبوت شائع کیے اور وہ نکاح نامہ پیش کیا جس میں ان کا مذہب اثنا عشریہ مسلمان ظاہر کیا گیا تھا۔جو اپ سکرین پر دیکھ رھے ھیں۔ حالانکہ اس وقت  خود کانگریس اور جمعیت  کے کئی مسلم ممبران و راہنماؤں نے ہندو خواتین سے شادیاں کر رکھی تھیں۔ مثال کے طور پر جمعیت علمائے ہند کے رکن بیرسٹر آصف علی نے بنگالی ہندو خاتون، محترمہ ارونا، سے سول میرج ایکٹ کے تحت شادی کر رکھی تھی

جو کبھی بھی کلمہ نہ پڑھا تھا ۔ باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے بھی ایک انگریز خاتون  سے شادی کر رکھی تھی اور ان کی بیٹی نے ایک سکھ لڑکے سے سول میرج 

ایکٹ کے تحت  شادی کی تھی۔

بانی پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو رجل ِ فاجر (گنہگار انسان) کہنے والےجماعت اسلامی کے مودودی صاحب  اور کافر اعظم کہنے والے جماعت احرار کے مظہر علی اظہر بھی اھلسنت دیوبندی 

 تھے۔

فتویٰ میں یہ واضح لکھا کہ مسٹر جناح  ایک شیعہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور شیعہ اسلام سے خارج ہیں ۔ (کفایت المفتی جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 401 دارالاشاعت کراچی  میں دیکھ سکتے ھیں۔

 یہ لوگ پاکستان کو پلیدستان اور ایک بازاری عورت کہتے تھے اور تحریک پاکستان کےلیئے تحریک چلانے والوں اور انہیں ووٹ دینے والوں کو سور (یعنی خنزیر) کہتے تھے ۔افسوس یہ ھے کہ  آج یہی لوگ پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور قائد اعظم کو اھلسنت ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ اہلِ وطن انہیں پہچانیئے اور پاکستان کو دشمنانِ پاکستان سے بچایئے ۔

جماعت الاحرار میں عطا الله شاہ بخاری، حبیب الرحمن لدھیانوی، مظہر علی اظہر سمیت سب انتہا درجہ کے تکفیری دیوبندی فرقہ پرست تھے اور قائد اعظم کے خلاف شدید بغض و نفرت رکھتے تھے، ان منافق تکفیری دیوبندیوں کی حمایت ابو الکلام آزاد اور دار العلوم دیوبند کے حسین احمد مدنی جیسے خوارج کے علاوہ جماعت اسلامی کے مودودی صاحب، موجودہ متحرک سیاستدان مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود صاحب سمیت دیگر سرکردہ اھلسنت  بھی کرتے تھے ۔

ان میں مولانا شبلی نعمانی دیوبندی بھی پیش پیش اور آخر تک کانگریس سے وابستہ رھے جماعت احرار کے

مولانا مظہر علی اظہر دیوبندی نے قائد اعظم کے خلاف کافر اعظم کا فتویٰ دیا۔  اور  اس فتویٰ کو جماعت اسلامی کے ترجمان القران میں حوصلہ افزائی کے ساتھ شائع بھی کیا گیا

مولانا مودودی، “مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش”، 1943

ترجمان القرآن فروری 1946 ص -154-153


یہاں پر میں دیوبندیوں سے  سوال کرتا ھوں   : جب تمہارے مفتی کے فتوے کے مطابق قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ شیعہ مسلک سے تھے تو تمہارا فتویٰ ہے کافر کافر شیعہ کافر جو نہ مانے وہ بھی کافر تو بقول تمہارے علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ پڑھاتو کیا مولانا شبیر احمد عثمانی بھی کافر ھو گئے تھے۔


مفتی محمود دیوبندی نے کہا : ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے (ماھنامہ ترجمان سواد اعظم لاہور اگست  انیس سو نواسی نظریہ پاکستان صفحہِ نمبر سینتیس  کل پاکستان سنی کانفرنس ملتان عبدالحکیم شرف قادری،مکتبہ قادریہ لاہور صفحہ چودہ


کچھ سال قبل جامعہ بنوریہ کے لیٹر پیڈ پر مولویوں کے ایک گروہ نےمفتی نعیم مرحوم کی سربراہی میں قائداعظم سمیت تمام شیعہ مسلمانوں کو کافر اور اسلام سے خارج قرار دینے کا فتویٰ بھی جاری کیا تھا

سپاہ صحابہ نے تاریخ شیعت نامی کتاب لکھی اس میں بھی قائد اعظم کو شیعہ بارہ امامی لکھا اور ثابت کیا ھے۔

مفتی محمود صاحب کے حوالہ سے فتاویٰ محمودیہ میں مولانا فضل الرحمان نے  کتاب جلد نمبر تھری میں بطور پیش لفظ یہ لکھا کہ قاید اعظم شیعہ تھے اور مفتی شبیر عثمانی صاحب نے جنازہ پڑھایا۔ ساتھ یہ بھی لکھا کہ مولانا شبیر عثمانی نے غلط کیا انھیں دیوبندی قیادت و امامت سے ہٹا دینا چاھیئے تھا۔


کتاب کا نام قائد اعظم کا مسلک مصنف صابر حسین اور دوسری کتاب کا نام قائد اعظم کا مذھب و عقیدہ مصنف منشی عبد الرحمن یہ بھی دیوبندیوں نے لکھی اور یھاں بھی قائد اعظم کا مسلک شیعہ بارہ امامیہ لکھا ھے ۔

جناح آف پاکستان اس کے مصنف  سٹنلے والپرٹ انھوں نے پیج چھتیس پر واضح لکھا ھے کہ قائد اعظم اسماعیلی فرقہ سے بارہ امامیہ شیعہ قبول کیا۔

اب کتاب ھے جناح انڈین پارٹیشن انڈپنڈنس 

سابق وزیر خارجہ ھندوستان جسونت سنگھ اس میں قائد اعظم کا مسلک خوجہ شیعہ اثنائے عشریہ لکھا ھے۔

دیوبندی عالم کی کتاب کفائت المدنی صفحہ تین سو پچانوے پر بھی قائد اعظم کا مسلک شیعہ پر ھونا یقینی لکھا ھے بلکہ اس پر خاصی لمبی بحث بھی کی گئی ھے۔

ایک اور کتاب ھے سیکٹیرین وار میں جو خالد احمد نے لکھی اس کے صفحہ اٹھارہ پر بھی قائد اعظم کے مذھب اور تدفین اور نماز جنازہ سید انیس الحسنین رضوی کی امامت پر ھونے کا مکمل واقعہ 

اور میراث پر بھی شیریں جناح نے  فاطمہ جناح کی وفات کے بعد انیس سو اڑسٹھ میں عدالت میں جو ثبوت دیے کہ قاید اعظم کا عقیدہ شیعہ اثنائے عشریہ تھا اسکی گواھی قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر مطلوب حسن سید جو انیس سو چالیس سے انیس چوالیس تک رھے نے بھی دی۔

اب ھم کچھ ویڈیو ثبوت پیش کرتے ھیں وہ بھی شیعہ علماء نھیں بلکہ اھلسنت کے علماء کی زبانی ۔

اھلسنت مشھور عالم شیخ الاسلام ڈاکٹر طاھر القادری


اھلسنت کے ھی مشھور عالم منظور مینگل اس بارئے کیا کہتے ھیں یہ سنیں۔


ایم کیو ایم کے بانی کی تحقیق کیا کہتی ھے۔یہ سنیں ۔

مولانا انیس الحسنین کے بیٹے حسن رضوی جو اس وقت دس سال کے تھے وہ حقیقت کچھ اس طرح بتاتے ھیں۔


پاکستان کی پارلیمنٹ کے وزیر دفاع خواجہ آصف شیعہ کلنگ پر قاید اعظم کے متعلق کیا کہتے ھیں۔



امید ھے اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد اب یہ سوال بے معنی اور ھٹ دھرمی کے سوا کچھ نھیں  کہ علامہ شبیر احمد عثمانی کے نماز جنازہ پڑھوانے کے باعث قاید اعظم کو اھلسنت بنا دیا جائے ۔اج بھی اگر کوئی سیاسی یا اھم شیعہ زمیندار وفات پاتا ھے تو اس کے دونماز جنازہ ادا کیئے جاتے ھیں  ۔

افسوس جن اھلسنت علماء نے قائد اعظم کو شیعہ کی بنا پر کافر اعظم کہا، وہی لوگ آج اسے اھلسنت ثابت کرنے پر تلے ھیں۔مجھے نھیں امید کہ اتنے ٹھوس ثبوت کے بعد مزید کسی ابہام کی گنجائش باقی ھے۔





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں