مرکز عقائد شیعه شناسی

اتوار، 27 نومبر، 2022

بابا بلھے کی مکمل حالات زندگی

 بابا بلھے شاہ کی مکمل تاریخ 

صوفی شاعر اور فلسفی گزرے ہیں۔  آپ 3 مارچ

 1680ء میں پنجاب کے قدیم تاریخی شہر بہاولپور کے گاؤں اوچ گیلانیاں میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اپنے معلم والد گرامی سخی شاہ محمد درویش سے حاصل کی۔ 

ایک انگریز افسر سی ایف آسبورن نے حضرت بلھے شاہ کی زندگی اور شاعری پر ایک کتابچہ جس میں ان کا سن پیدائش 1680اور سن وفات1753 بتائی ہے۔ 

حضرت بابا بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا ھے۔ حضرت بلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ھے کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے ۔ روایت ہے کہ بعض برے حالات کی وجہ سے وہ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنادیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ روایت ہے کہ موضع پانڈوکے  کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی ملک وال میں بیاہی ہوئی تھی وہ ملک وال میں حضرت بلھے شاہ کے والد سید سخی سے ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈوکے کی مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی اس فرمائش پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈوکا میں بمعہ خاندان کے منتقل ہوگئے۔ 

پانڈوکے لاہور سے اٹھائیس کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا حضرت بلھے شاہ کے زمانے میں تھا۔ گاﺅں کے وسط سے قدرے ہٹ کےحضرت بلھے شاہ کا موروثی گھر ہے جس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ایک بڑا سا طویلہ ہے جسے دو تین کمروںمیں تقسیم کیا گیا ہے اس میں 103 سالہ متولی درباری رہتا ہے جو بلھے شاہ کے خاندان کے بارے میں بہت سی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس نے بڑوں سے سنی تھیں۔

حضرت بلھے شاہ کی وجہ سے یہ گمنام قصبہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے اس کی اہمیت کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ یہاں حضرت بلھے شاہ کی جوانی کا کچھ حصہ بسر ہوا تھا، یہاں وہ مسجد بھی موجود ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے اور جس کی تعمیر پانڈو خاں نے کی تھی حضرت بلھے شاہ اور اس کی دونوں بہنوں نے شادی نہیں کی تھی اس لئے اس کے خاندان کا کوئی وارث نہیں ہے پانڈو میں ایک چھوٹا سا عماراتی کمپلیکس ہے۔ قدرے بلند جگہ پر ایک بڑا سا ہال ہے جس کے اندر تین قبریں ہیں، درمیان کی قبر حضرت بلھے شاہ کے والدہ کی ہے جس کا نام فاطمہ بی بی تھا اس کے دائیں اور بائیں اس کی دو بہنوں صغراں بی بی اور سکینہ بی بی کی قبریں ہیں ۔حضرت بلھے شاہ کی مسجد کے عقبی جانب ایک سبز گنبد ہے جس کے نیچے بلھے شاہ کے والد دفن ہیں ۔ اس سے ملحقہ پانڈوکے خاں کی مسجد ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے۔ مسجد کے احاطے میں چھوٹی اینٹ کا بنا ہوا ایک خستہ سا کنواں ہے سنا ھےکہ وہ کنواں آج بھی جاری ہے

حضرت بلھے شاہ پانڈوکے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے ایک اجنبی سکھ گھوڑے پر سوار پانڈوکے میں سے گزررہا تھا کہ اہل دیہات نے اعتراض کیا کہ وہ گھوڑے سے نیچے اتر کر گاﺅں میں سے گزرے۔ اس بات پر تکرار شروع ہوگئی حضرت بلھے شاہ نے مصالحت کرانے کی کوشش کی تو اہل دیہات نے حضرت بلھے شاہ پر پتھراﺅ شروع کردیا، اس سکھ اور حضرت بلھے شاہ نے ایک قریبی گاﺅں دفتور کے گردوارے میں جان بچائی۔ بعد میں سکھوں نے پانڈوکے پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ اہل دیہات نے حضرت بلھے شاہ کی منت سماجت کی کہ وہ اپنے گاﺅں واپس آجائے لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ 

پانڈوکے آج بھی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ گاﺅں کے درمیان ایک چھوٹی سی نیم پختہ گلی ہے جس کے اردگرد کچے پکے مکان ہیں، چند ایک دکانوں کے علاوہ وہاں کوئی کاروبار نہیں ہے، آج کے پانڈو کے اور حضرت بلھے شاہ کے پانڈوکے میں کوئی فرق نہیں ہے۔

حضرت بلھے شاہ ایک امام مسجد کی واحد نرینہ اولاد تھے۔ اس لئے اپنے باپ کی گدی سنبھالنی کوئی مشکل نہیں تھی لیکن وہ کسی اور راہ کے مسافر تھے۔

 حضرت بلھے شاہ کے والد نے انہیں چرواہا بنایا لیکن حضرت بلھے شاہ کو یہ پیشہ منظور نہیں تھا۔ حضرت بلھے شاہ کی اپنے والد کے خلاف یہ بغاوت تھی وہ مسجد کا امام بھی نہیں بنناچاہتے تھے۔

وہ مذہب کو اپنے وجدانی تجربے کے ذریعے دریافت کرناچاہتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک مرشد کی تلاش میں قصور چلے گئے۔اس زمانے میں قصور کا حاکم ایک پٹھان نواب تھا جس کی بداعمالیوں کی وجہ سے قصور ایک بے برکت شہر تھا جہاں بد امنی تھی 

حضرت بلھے شاہ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کیلئے قصور بھیج دیا گیا جہاں وہ اس علاقے کے مشہور عالم حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے جن سے حضرت بلھے شاہ نے مذہبی تعلیم کے علاوہ عربی فارسی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ حافظ غلام مرتضیٰ سے حضرت بلھے شاہ کے علاوہ وارث شاہ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ روایت ہے کہ حافظ غلام مرتضیٰ نے ان دونوں کے بارے میں کہا تھا۔

 مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں، ان میں ایک بلھے شاہ ہے جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑ لی دوسرا وارث شاہ ہے جو عالم بن کے ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا۔

قرآن و حدیث، صرف و نحو، منطق، فقہ، گلستان بوستان اور بہت سے علوم حاصل کرنے کے بعد مزید علم حاصل کرنے پر سکون قلب کی خاطر اللہ کی تلاش کو فوقیت دی۔ آپ علم بغیر عمل کو ناپسند فرماتے۔ آپ عقیدہ وحدت الوجود پر پکا یقین رکھتے تھے۔

آپ نے اپنے وقت کی تعلیمی زبانوں عربی اور فارسی پر مکمل دسترس کے باوجود پنجابی زبان کو اپنی شاعری کے لئے پسند فرمایا اور پنجاب کے بابائے بصیرت کہلانے لگے۔آپ سچل سرمست اور سندھی صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے ہم عصر تھے۔ آپ نے پنجابی اور سندھی شاعری کی ۔

بلھے شاہ کا نام آپ نے اپنے لئے خود پسند فرمایا یعنی بھولا ہوا مطلب انا کی نفی کر کے وہ اپنی ذات کو بھول چکا ہے، جسے آپ نے اپنی شاعری میں تخلص کے طور پر استعمال کیا۔ اور آج تک آپ کو بابا بلھے شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت بابا بلھے شاہ

 اپنے عہد کی زندگی سے منحرف تھے اور اس انحراف کی ایک وجہ شریعت سے دوری تھی، وہ اپنے عہد کے مولویوں، پارساﺅں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا ھے، یوں لگتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ اپنے گاﺅں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے وہ نہ صرف پانڈوکے سے بلکہ قصور سے بھی ناخوش تھے۔

 حضرت بلھے شاہ کا قصور کی ایک طوائف سے رقص سیکھنا پھر گوالیار کی ایک طوائف سے رقص کی تربیت حاصل کرنا، قصور کی ایک متمول بیوہ کا بلھے شاہ پر فریفتہ ہونا، پھر ہیجڑوں کے ساتھ رقص کرنا، لاہور میں اچی مسجدکے باہر حضرت شاہ عنایت کے انتظار میں عورتوں کے کپڑے پہن کر عالم سکر میں رقص کرنا، گدھے خرید کر ان پر سوار ہوکر گاﺅں میں پھرنے کا مقصد لوگوں کو زچ کرنا تھا جو حضرت بلھے شاہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔وہ امام مسجد کے بیٹے تھے اور ان سے بہتر رویے کی توقع کی جاتی تھی۔  

آپ مغلیہ سلطنت کے عروج کے دور میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے پر عہد عالمگیری کی بےجا مذہبی جنونیت اور خانہ جنگی کے کافی خلاف تھے۔ آپ درویش صفت انسان تھے۔ آپ باہمی مساوات، ہمدردی اور انسان دوستی کے قائل تھے۔ آپ ذات پات، رنگ و نسل،دین و مذہب اور جنس پر انسانی تفریق کو انتہائی بُرا سمجھتے، اور اپنے وقت کے باغی اور انقلابی سوچ کے مالک تھے۔

آپ منافقت کے سخت خلاف تھے اور ملاؤں اور پنڈتوں کے گھڑے رام رحیم کے پرانے جھگڑوں کو بے معنی قرار دے کر رَد کیا

بابا بلھے شاہ خود سیّد زادے تھے لیکن انہوں نے بیعت شاہ عنایت کے ہاتھ پر کی جو ذات کے آرائیں تھے۔ اس وجہ سے اہل خانہ اور اہل علاقہ آپ کو طعنے دینے لگے مگر بابا بلّھے شاہ ذات پات، اُونچ نیچ کے سب بندھن توڑ کر کہتے ہیں۔ 

بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں

من لے بُلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلہ رائیاں

آل نبی اولاد علی دی، نوں کیوں لیکاں لائیاں

جیہڑا سانوں سیّد آ کھے، دوزخ ملن سزائیاں

جیہڑا سانوں رائیں آ کھے، بہشتی پینگاں پائیاں

اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اب بھی ہم لوگ ذات پات کے چکروں سے باہر نہیں نکلے۔ 

بابا بلھے شاہ اپنے عہد کے باغی تھے۔ مگر وہ باغی تھے غلط نظریات سے، فضول رسوم و رواج سے اور علم کے جھوٹے دعویداروں سے۔ بابا بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں کی جانے والی سخت تنقید کے باعث اپنے مرشد شاہ عنایت کو بھی ناراض کرلیا تھا۔ کچھ لوگ شاہ عنایت کے خفا ہونے کی وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آپ نے ایک موقع پر شاہ عنایت کے ایک مرید کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا تھا۔ اس وجہ سے شاہ عنایت آپ سے کافی عرصہ ناراض رہے۔

وہ اپنے عہدے کے مولویوں، پارساؤں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا، یوں لگتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ اپنے گاؤں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے۔

بابا بلھے شاہ کے مطابق ہم لوگ بناوٹی ہیں، ملمع ساز ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ جب تک دل صاف نہیں ہوتا، تب تک ہمارے دکھاوے کی مذہبی زندگی کا کیا فائدہ؟

عمر گوائی وچ مسیتی

اندر بھریا نال پلیتی


ایک طرف مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دور میں لڑائی جھگڑے عروج پر تھے اور دوسری طرف ایسا انسان جو اپنی زات کی نفی کر چکا تھا ،کائنات کے سارے رنگ اس کی زندگی میں جھلک رہے تھے ۔بلھا اورنگزیب عالم گیر کے دور کا چشم دید گواہ تھا ،اس لئے مفتی اور ملاں اس کے خلاف فتوے دے رہے تھے ،اسے کافر کہہ رہے تھے ۔ہر طرف افراتفری تھے ،مغل سکھوں کا قتل عام کررہے تھے اور سکھ مغلوں کو مار رہے تھے ۔بلھے شاہ نے صوفیانہ شاعری کے زریعے اوررنگزیب عالمگیر کی حکمرانی کو چیلنج کردیا ۔ادھر سے مفتیوں نے فتوے دیئے کہ اس کی شاعری کافرانہ ہے ،اس لئے اسے ملک بدر کیا جائے ۔فتوے بھی جاری تھے اور بلھے شاہ کا انسانیت سے بھرپور کلام بھی اپنے جوبن پر تھا ۔اب بابا بلھے شاہ قصور کو خیر باد کہہ کر لاہور آگئے ۔عوام کو عشق ،آزادی ،امن ،انسانیت اور محبت کا درس دینا شروع کردیا ۔

ریاست کے حکمرانوں اور ٹھیکیداروں کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کردی ۔اب ایک طرف اس دور کے انتہا پسند تھے اور دوسری طرف انسانیت سے مزین تصوف کا راستہ تھا ۔جس سے حکمران اور انتہا پسند خوف زدہ تھے ۔بابا بلھے شاہ نے لاہور کے بعد گوالیار کا رخ کیا ،وہاں انہوں نے رقص ،سنگیت اور راگ رنگ کی تربیت حاصل کی ،اس سے اپنے مرشد کو منایا ۔جیسے وہ کہتے ہیں کنجری بنیا میری عزت نہ گھٹدی ،مینوں نچ کے یار مناون دے ۔اصل میں بلھے شاہ کے اس کلام کے یہ معانی ہیں کہ کوئی کمتر نہیں ہوتا ،کیونکہ طوائف کو ،ناچنے گانے والوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے ،انہیں مراسی کہا جاتا ہے،ان سے نفرت کی جاتی ہے تو بابا بلھے شاہ ان سب کی آواز بن گئے اور کہا کوئی انسان بڑا چھوٹا ،اعلی و ادنی نہیں ہوتا ،انسان سب برابر ہوتے ہیں ۔

بُلھے شاہ کو پنجاب کا سب سے بڑا صوفی شاعر کہا جاتا ہےاور آپ کے کلام کو صوفی کلام کی "چوٹی” کا درجہ حاصل ہے. انہوں نےاشعار، کافیاں، دوہڑے، سی حرفی اور بارہ ماہے لکھے جن کو روحانی اعتبار کے ساتھ ساتھ ادبی نقطہ نظر سے بھی فن کی بلند ترین سطح پر رکھا جا سکتا ہے.

بُلھے شاہؒ کے انقلابی فکر و عمل اور مذہبی ٹھیکیداروں سے ٹکر لینے کی وجہ سے انہیں کافر قرار دیا گیا. 

بُلھے شاہ مذہبی ٹھیکیدار یعنی مُلّا کی حقیقت کھولتے ہوئے اس سے مخاطب ہیں کہ تُو نے لوگوں کو دین کی فرضی الجھنوں میں الجھا رکھا ہے اور الٹے سیدھے نکتے نکالتا رہتا ہے تا کہ تُو جاہل اور بے علم لوگوں کو مذہب کے نام پر لُوٹ لُوٹ کر کھاتا رہے،ان لوگوں سے جنت میں لے جانے کے جھوٹے سچے وعدے کرتا رہتا ہے حالانکہ تیرا اپنا علم محدود اور بیکار ہے. کتابیں پڑھ پڑھ کر تو عالم کہلوانے لگا ہے مگر اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ علم ان کتابوں میں نہیں ہے، علم کی وسعت تو ایک الف یعنی اللہ کی یکتائی میں سمائی ہوئی ہے. جس نے اپنے اللہ کو پہچان لیا، اس کی قدرت کا اندازہ لگا لیا تو اس کے علم کے سامنے پوری دنیا کی کتب ہیچ ہیں۔

اپنے رب کو پہچاننا ہی علم کی معراج ہے. بے عمل مُلا کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں

مُلّا تے مشالچی دوہاں اِکّو چِت

لوکاں لئی کر دے چاننا تے آپ ہنیرے وِچ

(مُلّا اور مشعل بردار دونوں ایک جیسے ہیں، لوگوں کو روشنی دکھاتے ہیں مگر خود اندھیرے میں رہتے ہیں)

——۔۔

بُلھے شاہ نے لوگوں کو مذہبی جبر کے خوف سے نکالا. رنگ، نسل، ذات برادری، قوم، ملک اور مذہب کے نام پر انسانوں کی تقسیم کے عمل کے خلاف آواز بلند کی اور بین الاقوامی بھائی چارے کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ اپنے آپ کو کس نام سے پکاروں؟ یہ میں نہیں جانتا. میں نہ تو ایسا مومن ہوں جس کا مذہب صرف مسجد میں پانچوں وقت کی حاضری تک محدود ہے، جسے دین کے دیگر فرائض کا کچھ علم نہیں، جو حقوق العباد سے یکسر غافل ہے.

میں کفر کے رسم و رواج میں جکڑا ہوا کافر بھی نہیں ہوں. میں فرسودہ روایات کا باغی ضرور ہوں مگر مجھے کافر نہیں کہا جا سکتا. میں مُلّاؤں اور پنڈتوں کی لاگو کی ہوئی خود ساختہ رسوم و قیود کو مسترد کرتا ہوں.

مجھے اپنی پارسائی کا بھی کوئی زعم اور دعویٰ نہیں ہے. میں گنہگاروں میں نیک کہلوانے کا آرزومند نہیں ہوں. میں دوسروں کو نفرت سے ناپاک کہہ کر اپنے آپ کو پاکباز ثابت نہیں کرتا. میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح پیغمبر بھی نہیں ہوں. لوگ نبوت کے دعویدار بن کر سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں مگر میں ایسا نہیں کرتا.

میں فرعون کی طرح خدائی کا دعویٰ بھی نہیں کرتا اور نہ جبرو ستم سے لوگوں کی زندگی اجیرن کرتا ہوں. میں اپنی حقیقت سے بے خبر ہوں کہ آخر میں کون ہوں؟


اسی وجہ سے آپ اپنے وقت کے مولویوں سے کافی بیزار تھے اور ان کو اس روش پر اکثر تنقید کا نشانہ بناتے۔ اس لئے جب آپ انتقال فرما گئے تو قصور کے مولویوں نے آپ کو غیر مسلم قرار دے کر آپ کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ جبکہ بعد میں قصور ہی کی ایک بڑی مذہبی شخصیت قاضی حافظ سید زاہد ہمدانی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

بلھے شاہ کو شہر کے سرکردہ لوگوں نے شہر میں تدفین کی بھی اجازت نہ دی اور انہیں پرانے شہر سے دور دفن کیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کافی روز تک آپ کا جنازہ بھی نہیں پڑھایا گیا پھر شہر سے باہر گئے ہوئے ایک مرید نے قصور واپسی پر آپ کا جنازہ پڑھایا اور تدفین کی۔

آپ کی انسانیت، عشق اور آزادی کا سفر 77 سال کی عمر میں 1757ء کو تمام ہوا۔ آپ قصور میں مدفون ہیں۔ ہر سال آپ کے عقیدت مند حضرات آپ کے مزار پر آپ کا کلام گا گا کر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

تعصب پسند اور اقتدار پسند حضرات کے لئے بابا بلھے شاہ نے کہا تھا کہ

نہ کر بندیا میری میری

نہ تیری نہ میری

چار دناں دا میلہ

دنیا فیر مٹی دی ڈھیری


بابا بلھے شاہ کو سرحد کے دونوں جانب رہنے والے پنجابی، عظیم شاعر و دانشور مانتے ہیں۔ تقسیم ہند نے پنجاب کی دھرتی کو تو تقسیم کردیا گیا مگر آج بھی دونوں جانب رہنے والے جُڑے ہوئے ہیں۔ بُلھے کے چاہنے والوں نے ہندوستان میں بھی بابا بلھے شاہ کے دو مزار بنا رکھے ہیں۔ ایک مزار مسوری میں ہے جہاں کئی برس سے بُلھے شاہ کا میلہ منعقد ہوتا ہے۔ دوسرا مزار گاؤں کند والا حاضر خان میں ہے۔ اس مزار کے منتظمین کے مطابق40 سال قبل یہاں کے کچھ لوگ قصور دربار سے ایک اینٹ لے آئے اور یہاں بابا جی کا علامتی دربار بنایا گیا۔ تب سے یہاں ہر سال میلہ لگتا ہے۔


آپ کا صوفیانہ کلام نیاز مند سٹریٹ سنگرز سے لے کر نامور صوفی سنگرز اور قوال نصرت فتح علی خاں، پٹھانے خاں، عابدہ پروین، سائیں ظہور، نور جہاں اور پاکستانی راک بینڈ جنون اور ہندوستان کے نامور گلوکاروں نے نہایت عقیدت کے ساتھ گایا ھے


بلھے شاہ کا کلام آج بھی ذوق شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ مزار پر بھی ہمیشہ رَش ہوتا ہے۔ مگر کلام کو سمجھنے کی کوشش شاید کم ہی کی جاتی ہے۔ ”آپ کے کلام میں بجلی جیسی تاثیر ہے جس کو سن کر لوگوں پر وجد کا عالم طاری ہوجاتا ہے اور ان کے اندر اللہ تعالٰی کی یاد تازہ ہو اٹھتی ہے۔

اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر جدوجہد کرتے رہے ۔۔۔ آپ کی اعلی انسانی اقدار اور فکر و عمل کے باعث ہندو، مسلمان، سکھ اور مختلف عقیدوں سے تعلق رکھتے والے لوگ اُن سے یکساں محبت رکھتے ہیں۔ بُلّھے شاہ کی موت کے وقت اُن کے انقلابی فکر و عمل کے باعث ملّاؤں نے انھیں برادری

کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اُن پر کفر کا فتویٰ لگا کر اُن کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ویسے بھی بُلھے شاہ کو ان مداریوں کی ان بیہودہ رسومات کی ضرورت بھی کہاں تھی۔ وہ تو آج بھی اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ وہ تو خود کہتا ہے۔ ” بّلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور "

 دین فروش مداری ملاں کے متعلق اپنے کلام میں کچھ یوں حقیقت بیان کی ھے۔

حج وی کیتی جاندے او

لہو وی پیتی جاندے او

کھا کے مال یتیماں دا

بھیج مسیتی جاندے او

پھٹ دلاں دے سیندے نئیں

ٹوپیاں سیتی جاندے او

چھری نہ پھیری نفساں تے

زبح دنبے کیتی جاندے او

دل دے پاک پوتر حجرے

بھری پلیتی جاندے او

فرض بھلائی بیٹھے او

نفلاں نیتی جاندے او

دسو نہ کچھ حضرت جی

ایہہ کی کیتی جاندئے او۔

 بلھے شاہ اس کائنات کی ایسی ہستی ہے جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے ،

قصور میں آپ کے مزار کو نئے سرے سے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ مزار کا درمیانی گنبد قدرے ارفع ہے جو بابا بلھے شاہ کا علامتی عمارتی اظہار ہے جب کہ چاروں کونوں پر چار چھوٹے گنبد اس کے مقلدین اور مریدین کو ظاہر کرتے ہیں۔ گنبد پر کلس نہیں ہے اور ڈیزائن بھی بابا بلھے شاہ کی شاعری کی طرح الگ اور منفرد مگر جدید عہد کا مظہر ہے، گول قوسیں بابا بلھے شاہ کی شاعری میں استعمال ہونے والے چرخہ کی علامت ہیں جب کہ چاروں جانب بڑی قوسیں زائرین کو خوش آمدید کہتی ہیں، مزار کا غیر روایتی ڈیزائن بلھے شاہ کی شاعری کی طرح اپنے عہد میں جدیدیت کی علامت ہے۔ “

مزار کے ساتھ ایک خوبصورت جامع مسجد بھی ہے۔ بابا بلھے شاہ کے مزار پر ہمیشہ رونق ہوتی ہے۔  


بابا بلھے شاہ کی قبر کے پاس دیگر کئی لوگوں کی قبور بھی ہیں۔ جب جاکر نام پڑھے تو کوئی قبر کسی ایم پی اے کی تھی تو کوئی ایم این اے اور کوئی قبر کسی سیٹھ کی۔ تو سوچنے کی بات ہے کہ جس بلھے شاہ کو شہر کے سرکردہ لوگوں نے تدفین کی اجازت نہ دی تھی آج اس کے مزار میں سرکردہ لوگ دفن ہونے کی خواہش کرتے ہیں۔ لیکن شاید یہ بھی بلھے شاہ کی جیت نہیں۔ بلھے شاہ کی جیت تو اُس دن ہو گی جب اس کے مزار پر قوالی و دیے جلانے کی بجائے لوگ اس کے کلام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جب لوگ بُلھے کا بتائےراستہ کو اپنائیں گئے۔

مزار کے احاطے میں ایک طرف شیشے کے کیس میں بابا بلھے شاہ کا عمامہ شریف اور ستار بھی موجود ہے۔ ایک حصے میں ان کے کلام کو گا کر سنایا جاتا ہے اور لوگ بڑے اشتیاق سے سنتے ہیں۔ سارا دن لوگوں کے ہجوم آتے جاتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کیلئے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ اس دنیا کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں وہ کبھی بھی نہیں مرتے۔ قصوری میتھی ایک خاص سوغات ہے جو ان کے مزار پر لوگ کثرت سے خریدتے ہیں۔ ہم نے بھی فاتحہ خوانی بھی کی اور آپ دوستوں کیلئے ویڈیو بھی شوٹ کی۔


بابا بلھے شاہ پورے رقص و سرور کے ساتھ تصوف پسند لوگوں کے دلوں میں اب تک زندہ ہیں اور رہیں گے۔

سِر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی

لینا کی سِر ٹوپی تَرھ کے؟

تسبیح پھِری پر دِل نہ پھِریا

لینا کی تسبیح ہتھ پَھڑ کے

چلِے کیتے پر رب نہ ملیا

لینا کی چِلیاں وِچ وَڑھ کے

بُلھے شاہ جاگ بِنا دُدھ نہیں جمندا

پانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا

کدے اپنڑے آپ نوں پڑھیا نہیں

جا جا وَڑدا مسجداں مندراں اندر

کدی اپنڑے اندر توں وَڑیا ای نہیں




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں