مرکز عقائد شیعه شناسی

ہفتہ، 25 فروری، 2023

مبلغ اسلام مولانا محمد اسماعیل سابقہ دیوبندی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ناضرین کرام اسلام علیکم

تحریر و تحقیق:آغا ایم جے محسن 

ناضرین کرام دنیائے جہاں کے عظیم شیعہ سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ اس دوسری سیریز میں ھم پیش کر رھے ھیں شیعہ ھونے والے اھلسنت کے علمائے جہاں کے متعلق مکمل اور تازہ ترین معلومات کے ساتھ حالات زندگی پر جنکی بدولت مذھب شیعہ کی مقبولیت و حقانیت میں اضافہ ھوا۔ اور لاکھوں لوگوں نے شیعہ مذہب قبول کیا ۔

مولانا محمد اسماعیل دیوبندی مولانا سلطان علی کے گھر

دسمبر کے مہینے انیس سو ایک میں انڈین ریاست کپور کےضلع جالندھر کے گاؤں سلطان پور میں پیدا ھوئے۔ آپ دیوبندی محمدی کے نام سے مشھور خطیب،معلم، مصنف اور مناظر ھو گزرئے ھیں گل نسل سے تعلق رکھتے تھے اور آپ نے،قران و حدیث اور فقہ کی ابتدائی تعلیم والد کے بعد میثم پور کے مولانا میثم علی میثم پوری سے لی اس کے بعد تیرہ سو نوے ھجری میں دیوبند کے مدرسہ خیر المدارس

جالندھر چلے گئے ، پھر بھی حصول علم و تحقیق کی آتش نہ بجھی تو آپ رائے پور کے دیوبند کے مشھور عالم مولانا فقیر محمد اور محمد علی جالندھری سے خوب استفادہ کیا،

حصول علم کے بعد آپ دیوبندیوں کے بانی مدرسہ دیوبند چلے گئے وھاں آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید انور شاہ کاشمیری اور شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی سے مزید علم حاصل کرنے کے بعد آپ ڈابھیل شھر کا رخ کیا وھاں سے آپ نے مفسر القرآن حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی سے قرآن پاک کی تفسیر پڑھی۔

جب مولانا محمد اسماعیل دیوبندی گوجروی مرحوم نے سمجھا کہ اب آپ مکمل اقسام علوم دینی حاصلِ کر چکے ھیں تو پھر آپ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مسجد اکبری میں خطابت و امامت شروع کر دی ۔

اس دوران ھی مولانا اسماعیل کی قسمت و نصیب کا ستارہ چمکا اور راہ گزرتے ایک شیعہ مومن سے اتفاقاً ملاقات ھو گئی اور مذھبی بحث چل پڑی چونکہ آپ تاریخ اسلام آور قرآن و حدیث پر مکمل عبور رکھتے تھے اس لئیے حقائق کے موتی دماغ میں اثر کرتے گئے بس اسی مومن کی مدلل و ٹھوس گفتگو کا نتیجہ ھی تھا کہ آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔

انھیں دنوں ایک مناظرے کا بھی اہتمام تھا جس میں ایسے جملے و دلائل دئیے کہ فتح حاصل کی لوگ آپکے ھاتھ پاؤں چوم رھے تھے کہ منتظمین میں سے ایک شخص بڑھا اور اصرار کیا کہ ہمارے گاؤں کا ایک بزرگ شیعہ آپ سے ملنا چاھتا ھے آپ نے کہا میں اور شیعہ سے ملوں ممکن نھیں کہ ایک کافر کے ساتھ بیٹھوں پر اصرار کے بعد ملاقات کیلئے تیار ھوئے شیعہ سید بزرگ نے سلام کے بعد معزرت کے ساتھ صرف تین سوالات کے جواب مانگے اور اپنی کم علمی بھی دھرائی۔

مولانا محمد اسماعیل رح نے کہا پوچھو بزرگ سید نے کہا قبلہ میرا آپ سے علمی مقابلہ تو نھیں پر تحمل سے مجھے میرئے تین سوالات کا جواب دے دیں مختصراً ہاں یا ناں میں، سید نے سر جھکا کر سوال کیئے مولانا مجھے یہ بتائیں کیا آخری رسول ص کی وفات کے بعد آنکی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زھرا س کیا خیلفہ اول کے دربار گئیں ۔مولانا صاحب نے تفصیلا جواب دینا چاھ مگر بزرگ سید نے مداخلت کرتے ھوئے کہا نھیں ہاں یا ناں۔

مولانا محمد اسماعیل نے کہا جی گئیں تھیں۔

دوسرا سوال کہ انھوں نے کچھ مانگا تھا 

کہا ہاں،

تیسرا اور آخری سوال جو مانگا وہ ملا یا نھیں۔ مولانا محمد اسماعیل رح نے جواب دیا نھیں، باپ کی وراثت میں سے صرف ایک لوٹا ملا تھا۔

سر جھکائے سید نے جب سر اٹھایا تو آنکی آنکھوں میں آنسو تھے، بزرگ سید نے کہا بس مجھے یھی دریافت کرنا تھا۔

مولانا اسماعیل رح فرماتے ھیں میرئے عقیدہ تبدیلی کا یھی اہم موقع تھا اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

اسی دن سے کھوج میں پڑ گیا اور وہ وقت آ گیا کہ میں نے مسجد اکبری میں اپنے عقیدہ تبدیلی کا بھرئے مجمع میں شیعہ ھونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔

 

اعلان ھوتے ھی ادھر آپکے عزیز و اقربا ۔مدرسہ کے جگری دوست احباب حتی کہ آپکے والد مولانا سلطان علی صاحب نے بھی۔ لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔

جب آدمی حق کی طرف چل نکلتا ھے تو پھر سولی گھاٹ کی طرف بھی ھنستے ھوئے تختہ پر چڑھ جاتا ھے اسی دوران ھی آپ کے دو جوان بیٹے محبوب عالم اور بدر عالم یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے، درد و غم کی اس گھڑی میں آپ تن تنہاء ثابت قدم رھے گھبرائے نھیں اور اپنے کیئے فیصلے پر چٹان کی طرح ڈٹے رھے۔

چونکہ آپ سیاسی طور پر مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے جب عقیدہ بدلہ تو سب کچھ چھوڑ کر تقریریں کرنا شروع کر دیں،

آپ نے خطابت کے وہ جزباتی و علمی جوھر دکھائے کہ آپکو مبلغ اسلام وکیل مذھب حقہ اور عظیم مناظر اسلام کے القابات سے نوازا گیا۔

آپ نے ختم نبوت پر انیس و چوھتر میں قومی اسمبلی کے سیشن کے دوران جب سارے اھلسنت علماء مرزائیوں کو لاجواب کرنے میں ٹھس ھو گئے تو آپ نے چاروں شانے قادیانیوں کو چت کیا۔۔

آپ نے سات سو کے قریب مناظرے کیئے 

 مولانا عبد الستار تونسوی سے جو مناظرہ بہاولپور کے قصبہ کلانچ والا میں ھوا اس میں بندہ ناچیز کے والد محترم بھی موجود تھے ۔یہ مناظرہ باغ فدک کے موضوع پرھوا جو مولانا اسماعیل رح جیت گئے, اس جیت کا اعلان باقاعدہ کمشنر نے کیا تھا اسی طرح قاصی سعیدالرحمان سے بھی مظفر گڑھ میں مناظرہ ھوا جو آپ جیت گئے اور اسی جگہ اسی جگہ قاضی سعید الرحمان صاحب نےشیعہ ھونے کا اعلان بھی کیا، آپکے جن اھلسنت علماء کرام سے مناظرے ھوئے ان میں 

عبد الستار تونسوی،قاضی سعید الرحمان، دوست محمد قریشی،مولانا عبدالعزیز، مولانا عمر اچھروی،مفتی محمد رفیق میانوی،مولانا اکرم شاہ بھیروی ،مولانا افتخار بھگوی،مولانا عبد الستار جھنگوی،مولانا پروفیسر محمد حسین سمیت دسیوں اھلسنت کے اس وقت کے چوٹی کے علماء شاملِ ھیں۔اپ نے گھنگ ضلع لاھور، سنکھترہ ضلع ،سیالکوٹ ،بھاولپور کلانچ والا،باگڑ سرگانہ،ستارہ شاہ ضلع مظفرگڑھ،احسان پور ضلع رحیم یار خان،چک بیالیس چشتیاں،مناظرہ جیہ ضلع گجرات،مناظرہ دو چک زخیرہ، ان شہروں میں خوب مناظرے کیئے اور اپنے علم سے شکست دی،اس طرح آپکو مذھب تشیع کی حقانیت اور بے ھودہ بہتان و الزامات کے متعلق وضاحت دینے کا سنہری موقع بھی ملا۔ اھلسنت سے شیعہ ھونے والے مشہور عالم اور مصنف علامہ عبد الکریم مشتاق نے آپکے متعلق فرمایا تھا کہ کسی ماں نے آج تک ایسا عالم جمیا ھی نھیں جو مولانا محمد اسماعیل رح کے علم و زہانت کے آگے زبان دراز ھو سکے۔

  آپ بارعب شخصیت ، اور گرج دار آواز کے مالک تھے، آپ نے قاضی سعید الرحمان دیوبندی سمیت ھزاروں لوگوں کو شیعہ کیا اور خوب مذھب حقہ کی خدمت کی آپ شیعہ لوگوں سے پرزور اپیل اکثر کیا کرتے تھے کہ آپ بھت خوش نصیب ھیں کہ اھلبیت علیھم السلام کی محبت و اطاعت سے سرشار ھیں اور مذھب حقہ جیسے مذھب پر قائم ھیں۔ 

آپکے والد اہل حدیث عقیدہ کے مشھور عالم دین تھے آپکے والد سلطان علی کا انتقال ایک سو بارہ سال کی عمر میں مولانا اسماعیل کی وفات سے چند سال قبل ھوا،

آپ ھر تقریر و خطاب کے دوران کتابوں کا صندوق ساتھ رکھتے۔ تاکہ مخالفیں کو فوری انھیں کی کتب سے ثبوت فراہم کرسکیں اور انھیں مزید پھڑکنے کی مہلت ھی نہ ملے۔

ایک جگہ بس میں سفر کر رھے تھے کہ راستے میں ایک میلے کچیلے چولے میں رھنے والا بابا جسکے منہ سے رال ٹپک رھی تھی بس میں جیسے ھی سوار ھوا مسافروں میں تھرتھلی مچ گئی اور ایک دوسرے کے اوپر گرتے ھوئے اسے جھک کے سلام اور پاؤں چھونے لگے اور منہ نکلی رال ہاتھوں پہ لگا کر بدن پر ملنے لگے۔یہ سب ماجرہ دیکھ کر آپ طیش میں آگئے اور بس ڈرائیور کو للکارا کہ بس روکو اپنے ہاتھ میں بر وقت رھنے والا کھونٹے کی ضرب بس پر لگا کر سب مسافروں کی جہالت و دقیانوسی کو چیلنج کرتے ھوئے کہا کہ افسوس تم لوگوں پر جب نہ ماننے کو آؤ تو علی جیسے مطہر و کامل مجسم انسان کو نھیں مانتے جنکی طہارت کی گواھی قرآن میں ھے۔ اگر ماننے کو آؤ تو ایک گندئے ننگے بابا کو چوم اور پلکوں پر بٹھا رھے ھو جسے اپنی پاکیزگی و،پلیدگی کا بھی احساس نھیں۔

مولانا فاضل علوی سمیت مولانا فضل عباس جیسے مقرر و خطیب تیار کیئے،

آپ نے ساری زندگی نواسہ رسول ص کے فضائل و مصائب اور حق زھرا س کی وکالت کرتے ھوئے بسر کی۔

مولانا محمد اسماعیل رح اپنے ہر خطاب کے دوران خصوصاً بوقت قرب المرگ شیعہ مسلمانوں کو ایک پرزور نصیحت کر گئے کہ اگر میں مر جاؤں بے شک میری مجالس،مناظرئے،تقریں،کتابیں یاد نہ رکھنا مگر یہ یاد رکھنا کہ 

میں تمہاری قوم کا مشہور مبلغ و مناظر رھا ہوں میری یہ دو وصیتیں کبھی نہ بھولنا :-


ایک خون حسین علیہ السلام نہ بھولنا

دوسرا چادر زینب سلام اللہ علیہا نہ بھولنا

ملت تشیع کا یہ درخشاں ستارہ چودہ جون انیس سو چھہتر

پندرہ جمادی الثانی تیرہ سو چھانوئے ھجری

 کو اس دار فانی سے ھمیشہ کیلئے کوچ فرما گئے آللہ پاک بحق چہاردہ معصومین علیھم السلام ان کے درجات بلند اور جنت الفردوس میں مقام اعلی عطا فرمائے۔





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں