مرکز عقائد شیعه شناسی

بدھ، 13 مارچ، 2019

دین بنانے کا اختیار کس کو....

الله کے علاوه کسی کو دین بنانے کا حق نھیں ھے.

الله کا کام دین بنانا ھے لھذا ھدایت کے قانون الله تعالی نے بنانے ھیں انبیاء و آئمه علیھم اسلام نے اس دین کو پھنچانا و نافذ و لاگو کرنا ھے .

علماء نے اس دین کو سمجھنا ھے پھر اس دین کی تبلیخ کرنی ھے.

دھمال کی شرعی حیثیت

دھمال
 :دنیاوی تھکاوٹ اور عذاب آخرت ھے

دھمال کیا ھے اور مولا علی ع نے اس فعل کے متعلق کیا فرمایا ھے.

       " تحریر و تحقیق: "سائیں لوگ                                  

جب امیرالمومینین علی ع کوفه سے دمشق کی طرف شام جنگ کیلۓ لشکر لے کر جا رھے تھے,
راستے میں انبار شھر کے زمینداروں کو جب پتا چلا که امام علی ع کا گزر ھو رھا ھے تو وه لوگ استقبال کیلۓ شھر سے باھر آ گۓ .

اور آپ علی ع کے لشکر کے آگے ترجل شروع کیا,ترجل ,رجل سے ھے رجل ٹانگ کو کھتے ھیں,

 یعنی ٹانگ اٹھا کر زمین پر مارنا جس کو ھم آپنی زبان میں دھمال یا (بھنگڑا ) کھتے ھیں.

انھوں نے امیر المومینین علی ع کے سامنے دھمال ڈالنا شروع کر دیا.

تو علی ع نے پوچھا:

                ماھذه الذی صنعتموه,

 یه لوگ کیا حرکت کر رھے ھیں کھا که آپ ع کا استقبال کر رھے ھیں.
 ھم آپنے امیروں,حکمرانوں اور آئمه کا استقبال اسی طرح کرتے ھیں.

تو حضرت علی ع نے فرمایا :

        والله ماینتفع بھذه امراءکم ,

خدا کی قسم تمھارۓ والی و تمھارۓ حکمران ان باتوں سے کوئی فائده نھیں لیتے ,
یعنی تمھارۓ بھنگڑۓ دھمال مجھے کوئی فائده نھیں دیتے اور نه ھی تمھارۓ لیۓ کوئی فائده ھے.

ھاں یه ضرور ھے که تم دنیا میں آپنی جانوں کو مشقت میں ڈالتے ھو اور آخرت میں اس دھمال کی وجه سے بدبختی اور عزاب میں ره جاؤ گے.

اور وه کتنے گھاٹے کی مشقت ھو گی جسکی تمھیں سزا بھگتنا پڑۓ گی.

مجھے ان طریقوں سے خوش کرنے کیلۓ نه آؤ بلکه  علی دھمال یا بھنگڑۓ سے خوش نھیں ھوتے,
 چونکه علی ع دھمال سے خوش نھیں ھوتے نه ھی دھمال کو پسند کرتے ھیں.

لوگ پریشان ھو گۓ که یه پهلے امیر ھیں جو دھمال کو ناپسند کر رھے ھیں,
 جبکه پهلے جو حکمران آتے تھے وه تعریفیں بھی کرتے تھے.پیسے اور انعام بھی دیتے تھے.  

مولا علی ع نے فرمایا یه دھمال دنیاوی تھکاوٹ اور آخروی شقاوت ھے.

اس دھمال یا بھنگڑۓ سے نه میں خوش ھوتا ھوں اور ناں میرا خدا خوش ھو گا.

اور نه ھی تمھارۓ دھمال کا کوئی فائده ھے. بھنگڑوں دھمالوں کو چھوڑو اور سنو پهلے مجھ سے پوچھو که تمھارا فریضه کیا بنتا ھے .

تمھارا فریضه بھنگڑا اور دھمال نھیں بلکه تمھارا فریضه یه ھے که شمشیر اور ڈھال لو نیزه اور تلوار ھاتھ میں پکڑو اور میرۓ ساتھ میری فوج میں مل کر اس طاغوت اور ظالموں کو کچلو جو اسلام کے دشمن ھیں یه تمھارا فریضه ھے.

فرائض سے مت دور رھو دین شناسی لو توھمات کا مت شکار ھو جاؤ.من گھڑت راھوں پر مت سفر کرو قرب خدا حاصل کرو.

حضرت امیر ع فرماتے تھے میری حسرت تھی کاش میری باتوں کو کوئی سمجھتا.

آج یھی دھمال درباروں میلوں پر عبادت و عقیدت اور قرب حاضر صاحب مزار کے طور پر لوگ ادا کرتے ھیں.

 جیسے شھباز قلندر کی قلندری دھمال اور بھلے شاه بابا کا دھمال مشھور ھے.

یه جھالت ھے که فرائض کو بھلا کر ناچ کر بزرگ یا رضاۓ الھی کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ھے.

جبکه مولا علی ع نے واضح الفاظ میں اس فعل بد کی مذمت دنیاوی تھکاوٹ اور آخروی عزاب سے تعبیر کیا ھے.

یه تحریر ھدایت و اصلاح پر پیش کی گئی ھے ناکه تعصب و نکته چینی پر لھذا بے فائده تنقید و توھین سے پرھیز کیا جاۓ.

مذید یه واقع آپ نھج البلاغه ص نمبر 824/
حکمت نمبر :37 پر تفصیلی ملحاظه فرما سکتے ھیں.

یه فرمان امیر ع ھے ناکه کسی صوفی و عام آدمی کا.

12/ربیع الاول رسول ص کا یوم ولادت یا یوم وصال

12/ربیع الاول رسول الله ص کا یوم ولادت یا یوم وفات:

            " تحریر : "سائیں لوگ                   

 اہلِ فکر کو اس بات پر غور کرنا چاھیے که اھلسنت برادران  کے نذدیک  آنحضرت ص  کی تاریخِ ولادت میں مشھور قول 12/ربیع الاول اور وفات بھی 12/ربیع الاول ھے,

لیکن آئمه معصومین ع و محققین کے نزدیک رائج یه ھے کہ آپ کی ولادت 17/ربیع الاوّل عام الفیل 570,ء  کو ھوئی,

اور آپ کی وفات شریفه رائج  اور مشھور قول کے مطابق 28/صفر سال 11,ق 632 عیسوی کو ھوئی.

 مگر ھمارۓ برادر اھلسنت 12/ربیع الاوّل کے مھینه اور اس کی بارہ تاریخ صرف آپ کا یومِ ولادت نھیں بلکه یوم وفات بھی مناتے ھیں.

 جو لوگ اس مھینے اور اس تاریخ میں جشنِ عید مناتے ھیں انھیں سو بار سوچنا چاہئے که کیا وہ اپنے محبوب نبی ص کی وفات پر تو “جشنِ عید” نھیں منارھے؟.

مسلمان بڑی بھولی بھالی قوم ھے،دشمنان دِین کے خوشنما عنوانات پر فریفتہ ھوجاتی ھے.صفر کے آخری بدھ کو آنحضرت ص کا مرضِ وفات شروع ھوا، دُشمنوں کو اس کی خوشی ھوئی اور اس خوشی میں مٹھائیاں بانٹنا شروع کیں.

 اِدھر مسلمانوں کے کان میں چپکے سے یہ پھونک دیا کہ اس دن آنحضور سرورکون و مکاں ص  نے

                     “غسل صحت”

 فرمایا تھا اور آپ سیر و تفریح کے لئے تشریف لے گئے تھے.

 ناواقف مسلمانوں نے دُشمن کی اُڑائی ھوئی اس ھوائی کو

                    “حرفِ قرآن” 

سمجھ کر قبول کرلیا اور اس دن گھر گھر مٹھائیاں بٹنے لگیں.

 جس طرح “یومِ مرض” کو “یومِ صحت” مشھور کرکے دُشمنانِ رسول نے خود حضور ص کے اُمتی کھلانے والوں سے اس دن مٹھائیاں تقسیم کرائیں,

 اسی طرح آپ ص کے

                “یومِ وفات” کو “یومِ میلاد”

 مشھور کرکے مسلمانوں کو اس دن

                    “جشنِ عید” 

منانے کی راہ پر لگادیا.

شیطان اس قوم سے کتنا خوش ھوگا جو نبی کریم ص کے مرضِ موت پر مٹھائیاں بھنگڑۓ ,دھمال اور جلوس نکالتی ھے اور آپ ص کی وفات کے دن خوشی کاجشن مناتی ھے․․․!

کیا ھم آپنے ماں باپ یا بھن بھائیوں کی وفات کے دن جشن منانا پسند کریں گے.

اگر نھیں تو پھر جناب فاطمه زھرا س کے والد امجد حسنین کریمین ع کے نانا کی وفات پر جشن کیوں کب تک امت رسول ص اور آل رسول ع پر ظلم ڈھاتی رھے گی.

 کیا دُنیا کی کوئی غیرت مند قوم ایسی ھوگی جو اپنے مقتدا و پیشوا کے یومِ وفات پر

                “جشنِ عید” مناتی ھو؟ 

اگر نھیں، تو سوال یہ ھے کہ مسلمان “بارہ وفات” پر “جشنِ عید” کس کے اِشارے پر مناتے ہیں؟

 کیا الله تعالیٰ نے انھیں اس کام کا حکم دیا تھا؟.
 کیا رسول الله ص دُنیا سے تشریف لے جاتے ھوئے فرماگئے تھے کہ میری وفات کے دن کو عید بنالینا ؟ 

کیا آئمه معصومین ع  صحابه و تابعین اور اَئمہ مجتھدین میں سے کسی نے اس دن جشن عید منایا ؟

 کیا حدیث و فقه کی کسی کتاب میں مذکور ھے کہ

             “بارہ وفات” 

کا دن اسلام میں عید کی حیثیت رکھتا ھے؟.

 اور یہ کہ اس دن مسلمانوں کو سرکاری طور پر چھٹی کرنی چاہئے اور

           “جشنِ عید” منانا چاہئے․․․؟

یه ھمارا سوال برادران اھلسنت سے, مجھے معلوم ھے قیامت تک سوال ھی رھے گا جواب ملنا مشکل ھے.

  1. کیونکه ھم لکیر کے فقیر ھیں جو زھن میں بیٹھ جاۓ اسے نکالنا بھت مشکل ھے تحقیق و فکر تو کرنی ھی نھیں.

مولا علی ع کی امام حسن ع کو نصیحت.

شرک سے دور اور مدد صرف الله تعالی
 سے,
حضرت علی ع کی امام حسن ع کو نصیحت:   مکتوب نمبر:31

حضرت علی ع نے امام حسن ع کو میدان صفین سے مختلف نصیحتوں و ھدایات پر خط لکھا,

 جسمیں امام حسن ع کو آپنی مشکلات و مصائب کے متعلق آگاھی اور حالات پر صبر و تحمل اور عورتوں کے متعلق انتباه , دنیا و لذات سے بیزاری, امر بالمعروف ,مختصر زندگی کو یاد خدا اور سیرت رسول الله ص پر بسر,

 اور رزق حلال , اور عاجزی پر زندگی بسر کرنے پر نصیحت و زور دیا.

یه خط بیس 20/صفحات پر ھے اور مکمل طور پر پند و نصائح پر ھے.

جھاں بھت ساری نصحیتیں کی وھاں صرف,

 الله سے مدد مانگنے اور شرک سے بھی دور رھنے کی نصیحت کی.

مولا علی ع نے فرمایا:

 آۓ میری جان پدر میری باتوں پر غور و فکر کرنے سے پهلے آپنے خدا سے کھل کر مدد مانگو,

 اور آپنی توفیقات بارۓ صرف الله کی ھی طرف رجوع کرو اور ایسے ھر دھبه سے دامن چھڑا لو جو تمھیں شبھه (کی کیچڑ) میں ڈال دے.
یا تمھیں گمراھی کے حوالے کر دے.

صفحه /729,پر فرمایا :

آۓ نور نظر,

 غور کرو که اگر تمھارۓ پروردگار کا کوئی شریک ھوتا تو اس کے پیغمبر بھی تمھارۓ پاس آتے,

 اور اس کے ملک کے و سلطنت کے آثار بھی تمھیں دکھائی دیتے ایسا نھیں ھے بلکه بلا شرکت غیرۓ ایک ھی خدا ھے,
  1.  جیسا که اس نے آپنا وصف خود بیان فرمایا,اس کے اقتدار میں اس کا مد مقابل کوئی نھیں ھو سکتا.وھی ھی اول ھے اسے کبھی زوال نھیں.

اگر شیعه حق پر ھیں تو پھر اقلیت میں کیوں?

اکثر یه سوال دھرایا جاتا ھے اگر شیعہ حق پر ھیں تو وہ اقلیت میں کیوں ھیں؟

اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نھیں ماناھے؟
  
جواب: 
کبھی بھی حق اور باطل کی شناخت ماننے والوں کی تعداد میں کمی یا زیادتی کے ذریعہ نھیں ھوتی.

آج اس دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اسلام قبول نہ کرنے والوں کی بہ نسبت ایک پنجم یا ایک ششم ہے جبکہ مشرق بعید میں رہنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ھے.

جو بت اور گائے کی پوجا کرتے ہیں یا ماورائے طبیعت کا انکار کرتے ہیں.
چین جس کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ہے کیمونیزم کا مرکز ھے.

 اور ہندوستان جس کی آبادی تقریباًایک ارب ہے اسکی اکثریت ایسے افراد کی ہے جو گائے اور بتوں کی پوجا کرتی ھے.

اسی طرح یہ ضروری نہیں ہے کہ اکثریت میں ہونا حقانیت کی علامت ھو قرآن مجید نے اکثر و بیشتر اکثریت کی مذمت کی ہے اور بعض اوقات اقلیت کی تعریف کی ہے اس سلسلے میں ہم چند آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:

١۔  (وَلا تَجِدُ َکْثَرَہُمْ شَاکِرِین)
سوره اعراف,17

اور تم اکثریت کو شکر گزار نہ پاؤگے.

٢۔(ِنْ َوْلِیَاؤُہُ ِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَکِنَّ َکْثَرَہُمْ لایَعْلَمُونَ)
 سوره انفال,34.

اس کے ولی صرف متقی اور پرہیزگار افراد ہیں لیکن ان کی اکثریت اس سے بھی بے خبر ھے.

٣۔ (وَقَلِیل مِنْ عِبَادِ الشَّکُورُ)
سوره سبا,13
اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ھیں.

لہذا کبھی بھی حقیقت کے متلاشی انسان کو اپنے آئین کی پیروی کرنے والوں کو اقلیت میں دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیئے.

 اور اسی طرح اگر وہ اکثریت میں ہوجائیں تو فخر ومباہات نہیں کرنا چاہیئے,
 بلکہ بھتر یہ ھے کہ ھر انسان اپناچراغ عقل  روشن کرے اور اس کی روشنی سے بہرہ مند ہو.
ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی  ع کی خدمت میں عرض کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ جنگ جمل میں آپ کے مخالفین اکثریت پر ہونے کے باوجود باطل پر ہوں؟
امام  ع نے فرمایا :

''اِنّ الحق والباطل لایعرفان بأقدارالرجال . اعرف الحق تعرف أھلہ . اعرف الباطل تعرف أھلہ۔ ''
حق اور باطل کی پہچان افراد کی تعداد سے نہیں کی جاتی بلکہ تم حق کو پہچان لو خود بخود اہل حق کو بھی پہچان لو گے اور باطل کو پہچان لوتو خودبخود اہل باطل کو بھی پہچان لوگے .
ایک مسلمان شخص کیلئے ضروری ھے کہ وہ اس مسئلے کو علمی اور منطقی طریقے سے حل کرے اور اس آیۂ شریفہ (وَلاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْم )
سوره آسراء ع ,36.

کو چراغ کی مانند اپنے لئے مشعل راہ قرار دے اس سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو اگرچہ اہل تشیع تعداد میں اہل سنت سے کم ہیں .

 لیکن اگر صحیح طور پر مردم شماری کی جائے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک چوتھائی افراد شیعہ ہیں جوکہ دنیا کے مختلف مسلمان نشین علاقوں میں زندگی بسر کرر ھے ہیں.

واضح رھے کہ ہر دور میں شیعوں کے بڑے بڑے علماء اور مشہور مولفین اور مصنفین رہے ہیں اور یھاں پریہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ اکثر اسلامی علوم کے موجد اور بانی شیعہ ھی تھے جن میں سے چند یہ ھیں :
علم نحو کے موجد ابوالاسود دئلی

زیادہ وضاحت کیلئے ''اعیان الشیعہ''جلد ١بحث١٢اور صفحہ ١٩٤کی طرف مراجعہ کیا جائے.

علم عروض کے بانی خلیل بن احمد
علم صرف کے موجد معاذ بن مسلم بن ابی سارہ کوفی
علم بلاغت کو فروغ دینے والوں میں سے ایک ابوعبداللہ بن عمران کاتب خراسانی
(مرزبانی)

شیعہ علماء اور دانشوروں کی کثیر تالیفات (جن کو شمار کرنا بہت دشوار کا م ھے) کی شناخت

 کے لئے کتاب (الذریعہ الی تصانیف الشیعہ) کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

ازقلم :سائیں لوگ.

منگل، 12 مارچ، 2019

موجوده عزاداری میں بنی امیه کی پروان چڑھتی روش.

لباس عزا میں چھپے دشمن                        
       : عزاداری کو خدارا پهچانیۓ

دشمن عزاداری نے اب روش بدل لی ھے جسکی ایک مثال واقعه راولپنڈی ھے جسمیں تمام گرفتار لوگ کالے لباس میں تھے

بلکه ایک کالے لباس آدمی نے سات آٹھ لوگ قتل کرنے کا اعتراف بھی کیا

یه سب دشمن اھلبیت ع تھے مگر لباس و ظاھری وضح قطع پر ماتم کرتے ھوۓ جلوس میں ماتم داری میں مصروف تھے.

جس سے واضح ھوتا ھے که دشمن نے مذھب اھلبیت ع پر حمله آور ھونے کیلۓ روش کو بدله ھے .

لھذا اب  ھر کالے کپڑۓ پهننے والا,ماتم کرنے والا, 

پگڑی باندھ کر,بال بڑھا کر نام سید رکھ کر وکیل زھرا و بحر المصائب کا حلیه و ٹائیٹل لگا کر ممبر پر آنے والا زاکر حسین ع نھیں.

ان لوگوں کا شیعت سے قطعا تعلق نھیں ھے.
جو بھی بھاری بھاری فیسیں لے کر زکر کربلا بیان کر رھے ھیں یه سب شیعت کے روپ میں دشمن عزا ھیں,

 اور آپنی دیھاڑی لگا کر ھمیں بے وقوف بنا کر پیسه بھی بٹور رھے ھیں اور مومینین,فقھاۓ و مجتھدین عظام,علماۓ کرام اور دیگر مسلم مذاھب کے مقدسات کی توھین کرکے ,

مذھب شیعه حقه اثناۓ عشریه کو تنھاء اور بے قصور مومنین کو زبح و قتل بھی کرا رھے ھیں.

آج بھی چند مشھور زاکر و خطیب ایسے ھیں جن کو اگر کھنگالا جاۓ تو ان کا عقیده و اعتقاد مذھب تشیع پر نھیں ھے.

ان کی پرکھ کا ایک طریقه یه بھی ھے جو بھی زاکر و خطیب ممبر حسین ع پر مومینین و علماۓ حقه اور دوسرۓ مذاھب کے مقدسات کی توھین کرۓ سمجھ جاؤ یھی,

 بدبخت شیعت کے روپ میں دشمن اھلبیت ع کا ایجنٹ ھے

  1. اور آپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ھوۓ شیعت کو کفر و شرک کے فتوۓ لگوا کر تنھاء
  2. .و بدنام کرنا چاھتا ھے
"ازقلم:"سائیں لوگ

پیر، 11 مارچ، 2019

غالی کا عقیده قرآن پر یا جنتری پر

:خود ساخته دین




علم نجوم,سعد و نحس کیلۓ جنتری یا انگوٹھی میں جڑا
فیروزه و عقیق کے زریعے,

  رزق و زندگی اور درباروں سے شفاء و اولاد لینے والوں کا دین:

سوره توبه اور بقره ع:177,میں الله تعالی نے وضاحت دی ھے که دین میں نے بنایا ھے.
دین کے احکامات,میعارات,عبادات,فرائض اور دین کی اقدار سب میں نے ھی بنائی ھیں.

اب جو الله کے مقابلے میں خود دین بناتے ھیں وھی باطل و  رسوماتی دین ھے.

یھی گمراه نظریات و فاسد تعلیمات ھیں.

جیسے ھم قرآن سے ھٹ کر ایک جنتری میں جو کچھ لکھا ھو اس کو واجب العمل سمجھتے ھیں.

لیکن جو قرآن میں لکھا ھے وه صرف برکت و ثواب کیلۓ ھے.

عمل صرف جنتری پر ھی کرنا ھے  یه دیکھنا ھے که یه سفر یا کام سعد ھے یا نحس,زائچه کیا کھتا ھے,نجومی کیا کھتا ھے.

انگوٹھی کیا کھتی ھے,عقیق و فیروزه کیا کھتا ھے.

اکثر مسلمانوں کا اعتقاد و یعقین انھیں چیزوں پر ھے که,
 عقیق و فیروزه سے ھمیں رزق ملتا ھے یه پتھر الله کے درمیان تعاون کا کام کرتے ھیں.

ایران میں جگه جگه صدقے کے بکس لگے ھیں ان پر احادیث لکھی ھوتی ھیں که صدقه موت سے بچاتا ھے.
صدقه (حادثه)ایکسیڈنٹ سے بچاتا ھے تو ایک آدمی چوک کراس کر رھا تھا,

سڑک کنارۓ یھی صدقه کا بکس لگا تھا اس نے جیب سے پیسے نکالے اور بکس میں حسب توفیق ڈال دیۓ ,

اس نے دائیں بائیں نه دیکھا اور یھی سمجھتے ھوۓ که صدقه تو دے دیا ھے اب کاھے کا ڈر.

ساتھ ھی دوسری طرف سے تیز گاڑی آتی ھوئی سے ٹکر ھو گئی اور زخمی ھو گیا,

ابھی اٹھ ھی رھا تھا که دوسرۓ آدمی نے یه پڑھا که صدقه حادثے سے بچاتا ھے.
اس نے پیسے نکالے اور بکس میں ڈالنے لگا تو اس گرۓ ھوۓ شخص نے اشاره کیا که بکس میں پیسے نه ڈالو یه کام نھیں کر رھا.

بعض لوگ انگوٹھیوں میں پھنے پتھروں سے کاروبار میں ترقی چاھتے ھیں,
مگر پھر بھی کاروبار نھیں چلتا رزق کی فراوانی نھیں ھوتی تنگدستی ستاۓ رکھتی ھے.

بعض لوگ پیروں کی درباروں سے طویل مسافت کرکے اولاد و شفاء لینا چاھتے ھیں مگر کچھ حاصل نھیں ھوتا.

یاد رھے یه سب انسان کے خود  ساخته میعارات ھیں الله تعالی کے احکامات میں,
 یه نھیں که الله تعالی کو چھوڑ کر جنتری, پتھروں اور درباروں سے شفاء,زندگی,و رزق تلاش کرتے پھرو,

 جب که کلام مجید میں واضح حکم ھے که الله تعالی کے سوا ان چیزوں پر کسی کو قدرت و اختیار نھیں یه ھمارۓ خودساخته  نظریات و توھمات ھیں.

جیسے الله تعالی نے فرمایا نکاح کرو مگر ھم نکاح سے پھلے رسم مھندی,مایوں ضرور ادا کرتے ھیں.
مولانا صاحب آئیں یا نا آئیں رشته دار تو ھیں مھندی ضرور ھو توتی(شھنائی) و ڈھولک بینڈ باجے ضرور بجیں,

 ریوڑی و تپاسے,چھوھارۓ ضرور ھوں.
نھیں تو شادی میں مشکلات اور پریشانیاں آ سکتی ھیں.

جب اس طرح کی ناقص رسمیں,سوچیں,عقیدۓ اور بدعات کو فروغ دیں گے,

 تو پھر ھم خود بخود اصل تعلیمات سے دور ھوتے جائیں گے.

اور ایک دن ایسا آۓ گا که اصل و خالص تعلیمات الھیه و انبیاء و معصومین ع ڈھونڈنے کو ھی نه ملیں گی.

بلکه اب ایسی حالت پیدا ھو چکی ھے ھمارۓ ھاں اکثر احادیث و روایات کمزور ھیں یا مکمل جھوٹ پر گھڑی گئی ھیں.

یه تو شکر ھے که قرآن عربی عبارت میں ھونے کی وجه سے احکام الھی خالص موجود ھیں نھیں تو سابقه کتب انجیل,تورات  و بائبل کی طرح تحریف کرتے کرتے سب کچھ بدل چکا ھوتا.

اور آپنی مرضی کے عقائد پر لوگ احکام داخل کر چکے ھوتے.

لیکن پھر بھی ملاں نے قرآن کو مشکل بنا کر عام مسلمان کو قرآن سے دور رکھا ھوا ھے,

 ساتھ ترجمه و تفسیر میں مرضی کے مطالب نکال کر گمراه کرنے میں کامیاب رھا ھے.

دعاء ھے الله پاک ھمیں قرآن کی تعلیمات سمجھنے و عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ.

"ازقلم :"سائیں لوگ

غالی,نصیری خطیب و زاکر کا مذھب تشیع سے کوئی تعلق نھیں.

:ضروری وضاحت 
اھلسنت برادران اور مذھب حقه اثناۓ عشریه کے پیروکاران کیلۓکیلۓ


زاکرسیدعطاکاظمی,غضنفرتونسوی,

جعفر جتوئی,,آصف علوی,حافظ تصدق حسین و دیگر وه مولوی و زاکر جو اھلبیت ع میں الوھیت کے قائل ھیں,
 یا یه نظریه پیش کریں که الله تعالی اھلبیت ع میں حلول کر گیا ھے یا الله تعالی چوده معصومین علیھم اسلام میں مختلف مواقع پر ظھور فرماتا رھا ھے.

ایسے لوگوں کا مذھب حقه اثناۓ عشریه سے کوئی تعلق نھیں لھذا ان کے باطل کفرانه و مشرکانه عقائد کو مذھب تشیع کے عقائد کا حصه نه سمجھا جاۓ.

مذھب حقه اثناۓ عشریه کا عقیده توحید و نبوت وامامت واضح ھے.

  
ایک طرف دنیا میں جھاں مذھب حقه تشیع  تیزی سے پھیل رھاھے اور دوسری طرف غالی کفرانه و مشرکانه عقائد لے کر ھر مسلمان کے ذھن میں یہ سوال تیزی سے گردش کررھاھے کہ آخر شیعت  ھے کیا؟.

میں ایک عام سا مسلمان ھوں ،دین کی بھی زیادہ سوجھ بوجھ نھیں رکھتا،کوشش کرتاھوں که جتنا دین و مذھب کی حقیقی تعلیم کو سمجھا ھے اس کی اصل کا دفاع کیا جاۓ.

 جیسے کیسے بھی ھو الله و اھلبیت ع  کے حکم امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا اھتمام کیا جاۓ.

  ھر ممکن حد تک آپ ص کے اہلِ بیت ع  اور آپ کے اصحاب رض کے کردار کو  آپناؤں.

ھر پیروکاران اھلبیت ع سے گزارش ھے که وه اس عالمی سازش کو سمجھیں اور ان فاسد و بیمار زھن لوگوں کے جاھلانه نطریات کا محاسبه کریں,

 اور ان کے گرد گھیرا تنگ کریں اس میں ھمیں مومینین کرام کے ساتھ بانیان مجالس کا اشد تعاون درکار ھے.

زاکر عطا کاظمی کے مشرکانه افکار جنھیں یه فضائل اھلبیت ع سمجھتے ھیں ملحاظه فرمائیں کل کی پوسٹ میں.

ازقلم سائیں لوگ 

نھج البلاغه اور جنتری

نھج البلاغه اور جنتری کی تعلیمات پر پیدا ھونے والی اولاد میں فرق

:
:پیغام فکر
                     
"تحریر:"سائیں لوگ                             

ھم خود حساب لگائیں که ھم نے زندگی میں کتنی مرتبه جنتری پڑھی ھے اور کتنی دفعه نھج البلاغه پڑھی ھے.

آج تک ھم نے نھج البلاغه کے کتنے صفحے پڑھے ھیں اور کتنے جنتری کے پڑھے ھیں

اس سے واضح ھو جاتا ھے که ھم کس کے پیروکار ھیں
اور کس کے اصولوں کے تحت زندگی بسر کر رھے ھیں.

جنتری میں دیۓ سیاروں کے اصول اور منتر کے ٹوٹکوں و عملیات کی بنیاد پر بنائی جانے والی زندگی میں کبھی وه خیر نھیں آتی جو امیر المومینین ع فرما رھے ھیں.

پس اس سے ثابت ھوا که جنتر ومنتر کی بنیاد پر شروع ھونے والی زندگی سے وه اولاد پیدا نھیں ھوتی جو راه جناب  علی علیه اسلام پر چلے

ایسی زندگی میں وه اولاد پیدا نھیں ھوتی جو اس راه پر چلے جس پر مولا علی ع لوگوں کو لے جانا چاھتے ھیں  

بلکه ایسی اولاد پیدا ھوگی جو قطعا آئمه معصومین ع کی تعلیمات سے منحرف ھو کر پلیدی کی حالت میں بے نمازی اچھل اچھل کر زنجیر زنی کرۓ گی,

 درباروں مزاروں پر چرس و بھنگ(ساوی بوٹی) کے گھوٹے اور عقیدت مندوں کی جیبیں کاٹ کر آپنا نشه پورا کرۓ گی.

 اور ایک دن اسی نشه میں زندگی کا خاتمه کردیں گے.

جمعہ، 8 مارچ، 2019

فتنه جمن شاھی

فتنه جمن شاھی کے عقائد مذھب حقه اثناۓ عشریه کی تعلیمات کے خلاف ھیں لھذا ان کو شیعه نه سمجھا جاۓ:

"تحریر و تحقیق:"سائیں لوگ                              

امام زمانه ع نیا قرآن و شریعت لائیں گے,
موجوده قرآن و شریعت منسوخ کر دیں گے.
اور ھمارۓ آستانے پر موجود لڑکیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی کریں گے.

فتنه جمن شاھی کے,
           باطل عقائد کی وضاحت:

ضلع لیه کے علاقه جمن شاه میں سید طالب شاه کے دو بیٹے تھے, سید جعفر الزمان نقوی اور دوسرا ببل شاه,

 سید جعفر الزمان نقوی البخاری  نے مذھب شیعه کے عقائد میں دوسرۓ اخباری غالی گروه کی طرح ردو بدل کی.

 اور آپنی زھنی اختراع پر بدعات و فاسد عقائد کا اضافه اور آپنے مریدوں میں خوب پرچار کیا.

 چونکه یه سید اور پیری مریدی اور تصوف کے قائل تھے,
 اور جنوبی پنجاب کے پسمانده علاقه سے تعلق تھا,

 جھاں تعلیم و تحقیق کا بھت فقدان ھے لھذا مقامی غریب اور ساده ان پڑھ لوگوں میں سید جعفر الزمان النقوی کو آپنے باطل نظریات پھیلانے کا خوب موقع ملا.
اور شاعری کے ساتھ مختلف موضوعات پر کتب بھی لکھیں.

جن میں مجالس المنتظرین علی روضة المظلومین,
تحریم السادات علی غیر سادات,
قلندر نامه,
نھج المعرفت فی اسماء الحجة,
طریق المنتظرین فرائض المومینین,
 کے نام سے نمایاں ھیں. 

لوگوں پر آپنی علمی,شاعری اور مجالس کے زریعے ڈھاک بٹھائی,

جس سے آۓ دن مریدوں کی تعداد میں اضافه ھوتا چلا گیا.

یه تصوف کے قائل تھے اور صوفیه کی طرح چالاکی کرتے ھوۓ شیطانی طاقت(جسے الھی طاقت تصور کیا جاتا ھے),

 سے  الٹی سیدھی جعلی کرامات سے لوگوں میں آپنی حرمت اور  اثر و رسوخ سے گرویده کیا.

 اور دعوی کیا که ان کا رابطه امام زمانه ع سے ھے,
 اور ھر جمعرات امام زمانه ع سے انکی ملاقات اور ھدایات لی جاتی ھیں.

 بلکه مریدوں یا مجالس میں خطاب   کے دوران امام حسین ع سے ملاقات کے جھوٹے دعوے بھی کیۓ,

 تاکه لوگوں کے ایمان و عقیده کو مذید پخته کیا جاۓ.

انھوں نے عزاداری کی رسموں میں بھی آلات موسیقی  توتی(شھنائی)ڈھول اور بینڈ باجوں کو بھی متعارف کروایا.

 شھادت امام حسین ع اور اصحاب حسین ع کے غم,دکھ و کرب کو آلات موسیقی کے زریعے خوشی کے رحجان میں بدل دیا.

ماتم اور زنجیر زنی کو ڈھول اور توتی کی سریلی آواز کے زریعے آپنے أستانے پر لوگوں کو کھینچنے  اور ریاکاری کا ایک نیا حربه ڈھونڈ نکالا.

سید جعفر الزمان نقوی البخاری نے جمن شاه میں نقشه کربلا پر زیارات بنوائیں,

 تاکه کربلا کی بجاۓ یھاں روضه امام حسین ع کی زیارت کا شرف حاصل کیا جا سکے.

اس طرح کی زیارات جھان پور (جلال پور پیر والا) بابا صدا حسین لاھور میں بھی موجود ھیں.
 اور اب زاکر ریاض شاه رتو وال والا بھی بنوا رھا ھے.

جیسے اھلسنت برادران نے کان پور انڈیا اور پاکستان میں شھباز قلندر اور  کچھ دیگر مقامات پر کعبه و روضه رسول ص بنایا ھوا ھے اور یھاں حج کے موسم میں حج بھی کیا جاتا ھے.

جمن شاھی کے استانه پر چاندی کی کرسی بھی رکھی ھے تاکه جب امام زمانه تشریف لائیں تو اس کرسی پر بیٹھیں.

جمن شاھی عقیده میں ھر مرید آپنی ایک لڑکی آستانے پر ضرور چھوڑ جاتا ھے,
جو ساری زندگی اس انتظار میں رھتی ھے که جب امام زمانه آئیں گے ان تمام لڑکیوں میں سے جس سے چاھیں شادی کریں گے.

جمن شاھی دوسرۓ مسلمان کا ھاتھ لگی چیز نھیں کھاتے.

ان کا عقیده ھے الله تعالی نے کائینات بنا کر چوده معصومین ع کے حوالے کر دی ھے,
 اب رزق,موت,زندگی,شفاء الله تعالی نھیں بلکه چھارده معصومین ع دیتے ھیں.

جمن شاھی جو آپنے کو شیعه کھلواتے ھیں یه لوگ مسجد کو جوتے مارتے ھیں که اسی مسجد کی وجه سے مولا علی ع شھید ھوۓ.

جمعه نماز نھیں پڑھتے .

جمن شاھی عقیده کی عورتیں ماتم بلیڈ سے کرتی ھیں.

جمن شاھی کھتے ھیں امام زمانه ھمارۓ ھر پیروکار کے رابطے میں ھیں.

امام مھدی ع کے بعد اور باره امام آئیں گے اور یه قیامت تک تسلسل رھے گا سب کے نام مھدی ھوں گے.

یه لوگ قادیانیوں کی طرح خاتم الانبیاء نبی جیسا عقیده رکھتے ھیں که امام مھدی ع بھی آخری امام نھیں ان کے بعد باره امام اور آئیں گے اور یه  سلسله آئمه معصومین چلتا رھے گا.

جمن شاھی کھتے ھیں یه قرآن پرانا ھو چکا ھے,
 امام مھدی ع نیا قرآن و شریعت لے کر آئیں گے.

جمن شاھی کھتے ھیں یه لوگ گدھے ھیں جو کتابیں اٹھا کر پھر رھے ھیں معرفت صرف امام زمانه ع دے سکتے ھیں کتابیں نھیں.

جمن شاھی والے اصولی و اخباری,غالی کو کافر کھتے ھیں.

یه کھتے ھیں صوفی ازم شیعت کا حصه ھے دنیا میں سب صوفی ولی اور شیعه تھے.

ان کا عقیده ھے اگر امام زمانه  سید علی خامنه ای سے ملاقات کر سکتے ھیں تو ھم سے کیوں نھیں کر سکتے.

یه لوگ بریلویوں کی طرح سگ علی ع اور سگ قلندر کھلواتے ھیں.
بریلوی بھی سگ در رسول ص اور گوھر شاھی کا کتا کھلوانا پسند کرتے ھیں.

جبکه الله پاک نے قرآن میں فرمایا:

یقینآ ھم نے بنی آدم کو عزت عطا کی اور خشکی اور تری میں ان کو سواری دی.
 اور ھم نے ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور انھیں بھت سی مخلوقات پر فضیلت و برتری عنایت کی.
(بنی اسرائیل70)

یاد رھے جمن شاھی جعفر الزمان النقوی البخاری کے عقائد باطله کی مشھور غالی گروه کے سر کرده خطیب غضنفر تونسوی,ڈاکٹر ضمیر اختر نقوی اور شوکت رضا شوکت بھی توثیق کر چکے ھیں.

لھذا برادران اسلام ھم نے حقائق پر چند چیده چیده جمن شاھی گروه کے  عقاید باطله پر معلومات آپ تک پهنچائیں .
اب آپ فیصله کریں که اس طرح کے گمراه لوگ مذھب حقه و اھلبیت ع کیلۓ کتنی بدنامی و رسوائی کا سبب ھیں.

فتنه جمن شاھی کے فاسد,باطل عقائد قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات کے منافی ھیں.
لھذا یه لوگ مذھب حقه شیعه کا حصه نھیں ھم واضح ان سے بیزاری کا اعلان کرتے ھیں.

غالی دفن شده عقل رکھنے والی قوم

جاھل سامعین کی عقل پر ماتم:

جس میں عقل نھیں اس کا کوئی دین نھیں.

علامه شھید مطھری بھت بڑۓ رائٹر ھو گزرۓ ھیں.

انکی زیاده تر کتابیں فارسی سے اردو میں ترجمه ھو چکی ھیں ھمیں حقائق و عقائد خالص تک پهنچنے کیلۓ انکی کتب کا ضرور مطالعه کرنا چاھیۓ.

انھوں نے ایک کتاب میں ایک واقعه لکھا که,

 ایک مولانا نے مجلس پڑھنا چھوڑ دی, اس کے دوست نے پوچھا مولانا خیر تو ھے که آجکل آپ مجلس نھیں پڑھتے,

 انھوں نے جواب دیا ان لوگوں میں مجلس پڑھنے کا کوئی فائده ھی نھیں جو عقل نھیں رکھتے.

دوست نے فرمایا قبله آپ بدگمانی کر رھے ھیں ھمارۓ سامعین میں عقل ھے آپ سوۓ ظن کا شکار ھو گۓ ھیں.

مولانا نے فرمایا آپ بضد ھیں تو میں ثابت کرتا ھوں یه لوگ بے عقل ھیں.

ایک مجلس رکھی گئی اور اعلان ھوا اس مجلس سے مولاناصاحب خطاب فرمائیں گے.

مولانا صاحب منبر پر بیٹھے فضائل کے بعد مصائب پڑھنا شروع کیا.

ان دنوں میں اس علاقے میں شدید سردی تھی لوگ سردی سے کانپ رھے تھے.
پاس هیٹر بھی نه تھے مولانا نے پڑھا کربلا میں سید الشھدا ع پر بھت ظلم ھوا کربلا میں شدت کی سردی تھی برف پڑی ھوئی تھی.

مولا حسین ع کے پاس نه گرم چادریں تھیں اور نه ھی ھیٹر تھے.

جب لوگوں نے یه مصائب سنا تو دھاڑیں مارنے لگے چونکه اس وقت شدید سردی تھی تو لھذا خوب رونے لگے.

جب مصائب لگا تو مولانا صاحب نے مجلس چھوڑ دی.
جب منبر سے نیچے آۓ تو اس دوست کو کھا دیکھا ساری زندگی سنا کربلا میں شدید گرمی تھی.

سورج سوا نیزۓ پر تھا مگر آج میں نے الٹ پڑھا که شدید سردی تھی,
 برف پڑ رھی تھی آل رسول ع کے پاس گرم چادریں بھی نه تھیں آپ نے دیکھا لوگوں نے غور ھی نه کیا اور خوب رونا شروع کر دیا.

 کیونکه ان کے اندر عقل نھیں ھے.

کسی نے مجمع میں اٹھ کر یه نھیں کھا که مولانا کیا پڑھ رھے ھو.
وھاں تو شدت کی گرمی تھی,اب مان جاؤ که ان میں عقل نھیں.

اگر عقل ھوتی تو سوچتے لیکن ان کی عقل ان کے کانوں میں آ گئی ھے.

کوئی بات منبر پر بیٹھ کر کھه دے یه سچ مان جاتے ھیں,

 عقل سے کام نھیں لیتے سوچتے نھیں که کھنے والا کیا کھه رھا ھے.
جھوٹ ھے یا سچ,اگر میں آپ سے آ کر کھوں که قبله یه فصل کاشت کرو بھت فائده ھے آپ فورا  جواب دیں گے که اس فصل کا موسم ھی نھیں ھے,
 اگر کوئی منبر پر آ کے کوئی بات کھه دے سب مان لیتے ھیں.

یھی وجه ھے که آج ھم میں بھت بدعات و خرافات پھیل گئی ھیں منبر پر جس نے جو کھا اس پر عقیده بنا لیا.
کبھی خود تحقیق و غور کرنے کی کوشش نھیں کی کبھی قرآن ترجمه سے پڑھنا اور فکر کرنا گوارا نھیں کیا.
 کبھی معصومین ع کی احادیث و فرامین کی تصدیق نھیں کی انھیں خامیوں اور کم عقلی کی وجه سے صرف اثناۓ عشریه میں 39/فرقے بن چکے ھیں.

فتنه جمن شاھی جن کے ٹوٹل عقائد کفر و شرک پر ھیں صرف پاکستان میں ان کے ماننے والوں کی تعداد 47/لاکھ کے قریب ھے باقی آپ برادران  خود اندازه لگا لیں. 
اور منبر پر بیٹھ کر جھوٹ بولنے والوں کا محاسبه کریں ایک جھوٹے کا سچوں کے منبر پر کیا کام.
انھیں میں سے ایک جھوٹے اور شرکیه عقائد کا پرچار کرنے والے,

 زاکر علامه سید عطا کاظمی,

 کے باطل نظریات پر وضاحت دیں گے که یه بنده کس طرح آپنے قیاس و فلسفه سے  مذھب شیعه کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کر رھا ھے.

"ازقلم:"سائیں لوگ

منبر پر چیخنے کی منطق.

جھوٹ یا سچ پر مبنی آپنی بات منوانے کیلۓ چیخنے و چلانے کا کتنا دخل ھے.

ایک زمانه تھا جب ھر بنده,عالم,زاکر مھذب,خوش اخلاقی,آرام سے آھسته سے سمجھا سمجھا کر خطاب کرتے تھے.

مگر اب جب تک پورا زور اور چیخ کر بات نه کی جاۓ کوئی بات کا وزن ھی نھیں لیتا.

پهلے سپیکر بھی نه تھے اس دور میں زاکر,عالم آرام سے آپنی بات آخری مومن تک پهنچاتے,بات میں اثر ھوتا تھا مومینین سمجھتے اور عمل کرتے تھے.

اب ایک نھیں کئی ساونڈ سپیکر ھوتے ھیں,
 پھر بھی زاکر یا خطیب کھتا ھے ساونڈ سسٹم والے کو که زرا آواز بڑھا دو.

کیونکه وه شور بڑھا کر چیخ چلا کر گرج دار آواز سے خوب داد اور واه واه سمیٹنا چاھتا ھے.

اور حاضرین مجلس بھی چلائی بات پر زیاده توجه  اور یعقین کرتے ھیں.  

بدقسمتی سے ھمارۓ منبروں پر یه روش قائم ھو گئی ھے,

 جب تک آپنی بات پورا پھیپھڑوں کا زور,پیٹ کا زور,

تمام تلی کا زور,دل کا زور,جگر کا زور,معدۓ کا زور اور انتڑیوں کا زور نه لگائیں بات کی اھمیت کو قبول ھی نھیں کیا جاتا.

اس میں خطیب,زاکر اور حاضر سامیعین دونوں عادی ھیں.

یه وه لوگ ھیں جن کی عقل کانوں میں آ گئی ھے.

جو بھت چیخ کر بات کرۓ تو ھم کھتے ھیں که یه سچی بات ھے ورنه اتنا زور نه لگاتا.

ایک زاکر کو طبیب نے کھا اتنا زور کیوں لگاتے ھو تمھاری انتڑیاں پھٹ جائیں گی.
اتنا زور لگانے کی ضرورت نھیں آرام سے بولو اتناکه تمھاری بات آخری بندۓ تک پهنچ جاۓ.

مگر خطیب اتنا زور اس لیۓ لگاتا ھے که اگر ھم زور سے بولیں گے تو حاضرین مجلس متاثر ھوں گے وه سمجھیں گے که بات درست بیان کی جا رھی ھے.

اگر آرام سے بولیں گے تو یه مطلب لیں گے که بات صحیح نھیں کر رھا اس لیۓ ڈھیلی آواز میں بات کر رھا ھے.

مگر برادران آپ سوچیں یه کون لوگ ھیں جو اگر کوئی زور سے بولیں تو مان لیتے ھیں.
اگر زور سے نه بولیں تو نھیں مانتے.

یه وه لوگ ھیں جنکی عقل ان کے کانوں میں آ گئی ھے.
وگرنه اگر عقل میں ھوتے تو پھر سن کے سوچتے که جو کچھ بیان کیا جا رھا ھے یه درست ھے یا غلط.
"
ازقلم :"سائیں لوگ

مسلمان مذاھب کے مقدسات کی توھین حرام ھے.

دوسرے مسالک کے مقدسات کی توھین نھیں کرنا چاھیے،ان کے بزرگوں پر لعنت بھیجنا اور ان کو گالی دینا جائز نھیں ھے ،

اس لیے که یہ چیز ھم  کو اہل بیت ع اور ان کے معارف سے دور کیے جانے کا سبب بن رھی ھے.

ھمیں ایسی چند لوگوں کی  شر پسندی کا دانشمندی اور بصیرت سے مقابله  کرنا ھوگا.

جو اسلام کے مضبوط بازوں شیعه سنی اور مذھب حقه شیعه کے اندر  طاقتوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کرنا چاھتے ھیں.

 قائد اعظم محمد علی جناح شیعه ھو کر بھی سب مسالک کیلۓ محترم رھے.

انھوں نے ایسے پاکستان کے قیام کے لیے جدوجھد کی جس میں تمام مذاھب کو بلاتخصیص مکمل طور پر مذھبی آزادی حاصل ھو.

کچھ  لوگ تکفیری اور غالی  گروھوں کو مضبوط اور سرعام تکفیریت اور چند باھر بیٹھے غالیت کے لوگ  پاکستان کے مسلمانوں میں باھمی نفرت و انتشار کو فروغ دے رھے ھیں.

جو مقامی اور عالمی سطح پر وطن عزیز کی ساکھ کے لیے انتھائی نقصان دہ ھے.ان ملک دشمن عناصر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیۓ سب مسلمان برادران  کو مل کر جدوجھد کرنا ھو گی.

اختلاف رکھیں مگر توھین کا عنصر گفتگو کا حصه نه بنائیں ھماری شروع سے کوشش رھی ھے که علمی بحث مباحثه کے زریعے باھمی اختلاف کو قبول کیا جاۓ مگر چند لوگ آپنے ناقص علم کی وجه سے گالی گلوچ کی مدد سے آپنی بات منوانے کی کوشش کرتے 
ھیں یه عمل سراسر بھت نقصان اور تکلیف ده ھے.
"ازقلم :"سائیں لوگ

رزق کا زمه دار الله تعالی یا انگوٹھی میں جڑا پتھر

مذھب حقه کی اکثریت قرآن و نھج البلاغه جو دراصل قرآن کی تفسیر ھے کو چھوڑ کر اشتھاریوں سے دین شناسی لے رھی ھے.

"تحریر:"سائیں لوگ                              

جھاں غالی شیعت بھت سی خرافات کا مسکن بنا ھے وھاں ایک باطل عقیده رزق کی وسعت  کے متعلق اس پتھر سے جڑا عقیده ھے جو ھم آرائش و زیبائش کیلۓ ھاتھوں کی انگلی میں پھنی انگوٹھی کے متعلق رکھتے ھیں.

یه پتھر اب ایک صنعت کا درجه رکھتے ھیں اور ھزاروں لاکھوں لوگوں کا اس سے روزگار وابسته ھے جو تلاش,تراشنے,اور لگثری شاپ و فٹ  پاتھ شاپ پر پتھر فروش یه نگینے بیچتے ھیں.

بلکه ایران میں مشھد میں ایک بھت بڑا بازار ھے جسمیں کثرت سے انھیں پتھر سے سجی انگوٹھیاں فروخت ھوتی ھیں باقی معصومین ع اور دیگر بزرگوں کے مزاروں پر یه کاروبار اھم شناخت رکھتا ھے.

ھم رزق بڑھانے کیلۓ انگوٹھی خریدتے ھیں که فلاں پتھر کی انگوٹھی پھننے سے ھمارۓ رزق میں وسعت پیدا ھو گی.پتھر بھی حیران ھوتا ھے که مجھے خریده تو نے ھے,

میرۓ پیسے تو نے دیۓ ھیں اور تو اگر مجھے کھیں پھینک دے تو میں گم ھو جاتا ھوں,میں تجھے کس طرح رزق پهنچا سکتا ھوں.

لیکن ھم کھتے ھیں جیسے اس کا رابطه مریخ سے ھے,زھرا سے ھے,اس کا رابطه زحل ,عقرب,مشتری سے ھے ضرور فلاں پتھر پھننے سے رزق کھلا ملے گا.

جنتری یا پتھر فروش نے ھمارا یه دین  بنا دیا ھے.

جبکه الله پاک قرآن میں جا بجا فرماتا ھے که انسان کا رزق میرۓ پاس ھے الله تعالی نے رزق ان خزانوں میں رکھا ھے جسکی چابیاں انسان کے پاس ھیں.

انسان ان چابیوں کو استعمال کرکے  آپنا رزق ان حزانوں سے دریافت کر سکتا ھے.

ایک شخص امام ششم ع کے پاس آیا اور کھنے لگا که میں فقیر ھوں میرۓ پاس کچھ بھی نھیں ھے.

امام ع نے فرمایا که شادی کرلے وه ھنسنے لگا اور کھا  آپ میری بات کو سنجیده نھیں لے رھے !

میں کھه رھا ھوں که میں فقیر ھوں اور پیٹ بھرنے کیلۓ کچھ بھی نھیں ھے اور آپ ع کھه رھے ھیں که شادی کر لوں.

امام ع نے فرمایا  الله تعالی نے رزق آپنے خزانوں میں رکھا ھے اور ان خزانوں کی چابیاں الله تعالی نے تجھےدے دی ھیں.

 تو وه چابیاں لے کر خزانوں سے رزق تلاش کر تیرا رزق تجھے مل جاۓ گا.

تو شادی کر تیرا رزق بڑھ جاۓ گا جب تو رزق کی وجه سے شادی نھیں کرتا یه نحوست تیری زندگی میں رھے گی جب رزق کی وجه سے تو یه کھتا ھے که ابھی یه نھیں بنا وه نھیں بنا,

 تو الله تعالی فرماتا ھے که میں تیرا رازق ھوں تو رزق کی تلاش کر میں تیری  محنت و ھمت مطابق ضرور رزق دوں گا.

ناکه کسی پتھر کو پھن کر گھر میں سوۓ رھنے سے رزق وسیع ھو گا.

سعدو نحس,رزق وشفاء اور کامیابی کا عقیده بھی اکثریت لوگ انھیں پتھروں سے جوڑۓ ھوۓ ھیں,

 اور اس طرح دین اسلام کے ساتھ کھلواڑ جاری ھے جبکه الله تعالی کے احکامات میں قطعا ایسا حکم نھیں ھوا.

حرمت منبر رسول و حسین ع کو بحال کیا جاۓ.

Read My writes & Think :

حرمت منبر رسول و حسین ع کو بحال کیا جاۓ:
                  
"تحریر :"سائیں لوگ                        

منبر رسول,علی و حسین ع پر توحید سمیت ان مقدس ھستیوں کی عظمت, احکامات و فرامین کا تزکره ھونا چاھیۓ.

 ناکه بنو امیه کی طرح جناب امیر و اھلبیت علیھم اسلام پر سب و شتم اور من گھڑت احکامات بدعات صادر ھوں.

 موجوده دور میں بنو امیه کی طرز پر یه فعل غالی حضرات جاری رکھے ھوۓ ھیں.

مخالف مذاھب کے مقدسات پر سب و شتم کے ساتھ توھین مذاھب و تنقید شامل ھے.

اور ناخوانده فیشنی زاکروں نے  انڈین گانوں کی دھن و طرز پر تفریح قلب کا سامان پیدا کیا ھوا ھے.

موجوده مجالس میں دیکھا گیا ھے که ھم مولا علی ع کی سنتے کم اور سناتے زیاده ھیں.

چونکه ھماری مجالس میں منبر پر کچھ پابندیاں ھیں,دوسرۓ کچھ عزاداری کے دشمن مذید پابندیوں کا بھی سوچ رھے ھیں.

 جیسے نو وارد حکومت نے چکوال شھر میں قدغن لگائی ھے. 

مگر یاد رھے عزاداری سید الشھدا ایک ایسا معجزه ھے جسکی شاھد تاریح اسلام کے اوراق ھیں.
 متوکل جیسے ظالم حکمران کو  بھی مایوسی و رسوائی کے سوا کچھ نه ملا.

دشمن عزاداری و تشیع ھماری مجالس و ماتم داری کے جلوسوں کو محدود کرنے کے پلان و تراکیب پر غور و خوض کر رھے ھیں انشاءالله ناکام رھیں گے.

مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑۓ گا که ھمارۓ منبر پر اس گرفت کی نوبت دلانے میں کچھ کم علم اور متعصب علماء و زاکرین کا مرکزی رول ھے جسے فراموش نھیں ڈالا جا سکتا.

کچھ ھمارۓ شیعوں نے بھی پابندی لگوائیں  ھیں وه پابندیاں یه ھیں که منبر علی ع پر جناب علی ع کو بولنے کی اجازت نھیں.

منبر رسول ص پر رسول الله ص کو بولنے کی اجازت نھیں ھے.

منبر حسین ع پر جناب حسین ع کو بولنے کی اجازت نھیں.

بلکه ایسا ھے که منبر رسول ص پر نعت خواه بولے اور جناب رسول ص سنیں.

منبر علی ع پر خطیب بولے اور جناب امیر ع سنیں.
منبر حسین ع پر زاکر بولے اور امام حسین ع سنیں.

نھیں بلکه یه منبر اس لیۓ ھیں که جناب علی ع بولیں یعنی آپ نے جو خطبے دیۓ وه خطبے زینت منبر ھوں.

اور جو حکمتیں آپ ع نے بیان فرمائیں وه زینت منبر ھوں ,
اگر ان منبروں پر امیر المومینین ع بولیں,رسول ص بولیں,امام حسین ع بولیں تو پھر یه نفرت,دشمنیاں,قتل و غارت کے مواقع پیدا نھیں ھوں گے.

پھر سامعین و مومینین کرام بھی روحانی طور پر بیمار نھیں ھوں گے.

 دین آشنائی عام ھوگی پیار و محبت کی فضاء قائم ھوگی ھماری مجالس میں ھر فرقه کے لوگ آئیں گے مقصد کربلا حاصل ھوگا دین الھی ترقی عظمت اھلبیت ع بلند ھوگی.

کاش اگر منبروں سے رسول خدا ص جناب امیر ع بولتے آج کوئی شیعه خواه خود کتنا ھی مغرور و متکبر ,خود بین و خود پسند نه ھوتا ,

آور جب خود پسندی نه ھوتی تو اتنے اختلاف نه ھوتے اتنے گروه اور حزبیں نه ھوتیں.

کیونکه تعلیمات رسول ص اور اھلبیت ع پیار و مجبت اور برداشت کو گفتگو کا بنیادی ماخذ قرار دیتی ھیں.

افسوس جب نادان ,کم علم,مکتب اھلبیت ع سے نفرت اور پدری مضامین پر رٹه لگا کر زیب منبر بننے والے زاکر و گلوکار,

 مفروضوں اور آپنے قیاس و فلسفه کو بیان کریں گے,شھرت و اجرت کے چکر میں تو,
 پھر گروه بھی بنیں گے اور دشمن کو عزاداری پر قدغن لگانے کے مواقع بھی ملیں گے.

مگر جب منبر سے فرامین رسول و اھلبیت  علیھم اسلام بیان ھوں گے تو پھر گمراھوں کو راه ھدایت و نجات ملے گی.

اب وقت آ گیا ھے منبروں سے رسول و علی و حسین علیھم اسلام  و  آئمه آور قرآن کو بولنے دیں پھر دیکھیں یه سب پابندیاں از خود ختم ھو جائیں گی.

منبروں سے قرآن و نھج البلاغه پڑھا جاۓ خطبات سید الشھدا ع بیان ھوں.

کیونکه یھی علوم ھی منبر کی زینت و شان  ھیں.

اگر ان منبروں سے قرآن و  معصومین ع کے کلام نه پڑھیں جائیں گے,

 اور مغز بیمار سے خیالی اور واه واه پر گھڑۓ گۓ جملے دھراتے رھے تو پھر واقعه چکوال کی طرح پابندیاں اور توھین منبر ھوتی رھے گی.

آخر میں گزارش ھے که مومنین و بانی مجالس آپنی زمه داری و مقصد عزاداری کو سمجھیں,

 اور سر,ساز,راگ آور من گھڑت قصه و روایات کے پرچاری منه مانگی اجرتی کم علم زاکروں سے پیچھا چھڑائیں,

 اور از خود بانی حضرات جو عزاداری پر پابندیاں لگاۓ بیٹھے ھیں,
 آھسته آھسته یه پابندیاں اٹھائیں تاکه علماۓ حقه کو بھی جرات ھو,

 که منبر پر آکر قرآن و نھج البلاغه بیان کریں اور دین اسلام و اھلبیت ع کی عظمت بحال ھو.

جمعرات، 7 مارچ، 2019

غالی زاکر و خطیب اھلبیت ع کی حرمت و غربت بیچنے والی قوم.

تاجرآن خون حسین ع,
اھلبیت ع کی حرمت و غربت کو فروحت کرنے والے بدبخت:

                   " تحریر :"سائیں لوگ                                

ویسے تو دنیاوی مفاد کی خاطر آپنے سیاسی و مذھبی لیڈران سے دغا کرنے والے افراد ھر مذھب و گروه میں ھر وقت موجود رھے ھیں مگر ھماری نظر اس وقت ان لوگوں پر ھے جو نام نھاد محبان اھلبیت ع کا بڑۓ زور شور سے دعوی کرتے ھیں.

پاک نبی ص کے ساتھ بھی ایسے لوگ کثیر تعداد میں تھے جو ظاھرا تو محبت کا دم بھرتے تھے ,
مگر باطنی طور پر ساتھ نه تھے بلکه اکثر کفار و مشرکین سے زیاده ربط و مفاد عزیز رکھتے تھے.

ان سب واقعات کا زکر قرآن مجید میں بارھا موجود ھے.

یھی سب کچھ مولا علی ع کے ساتھ ھوا اکثریت نے آپ سے باطنی و ظاھری  اختلاف رکھا,
حالنکه آپکی حقانیت ,صداقت و معصومیت اظھر من الشمس تھی.کئ مرتبه نام نھاد محبان نے کھلا دھوکه و بدعھدی کی.

ایک ایسی ھی جماعت امام حسن ع کے شیعه کی بھی تھی انھوں نے بھی عھد شکنی اور بے وفائی کی,

 تاریخ کھلم کھلا گواه ھے  متلاشیان حق رجوع فرمائیں .

یه سب لوگ آپکو امام برحق اور پیشوا بھی مانتے تھے اور ساتھ بدعھدی بھی کر رھے تھے.
ان میں وه نام نھاد دعویداران محبت بھی تھے جو آپ سے بغاوت کرتے ھوۓ آپکے بستر کی چادریں اور جاۓ نماز بھی لے اڑۓ اور معاویه کی گود میں جا بیٹھے.

یه لوگ اس وقت بھی شیعیوں کے لیڈر بنے ھوۓ تھے آج بھی شیعوں کے لیڈر اور ھیرو ھیں.

یه لوگ امام حسن ع کو رسیوں سے اسیر کرکے شامیوں کے ھاتھوں فروخت کرنے کا منصوبه  رکھتے تھے. 

ان کے اس عزم سے باخبر ھونے پر امام حسن ع نے ایک خطبه فرمایا,

 جسے مرحوم طبرسی رح نے الاحتجاج میں نقل کیا ھے که امام حسن ع نے فرمایا که  ایک منصوبه میرۓ خلاف ھمارۓ ساتھی اور ایک معاویه  نے بنایا ھے,

وه منصوبه یه تھا که ھر حال میں مجبور کرکے امام حسن ع سے اقتدار لیا جاۓ اور ایسا ھوا بھی.

اسی طرح امام حسین ع کے ساتھ بھی ھوا بھت بڑۓ بڑۓ نام وقت مصیبت پر دغا دے گۓ ھزاروں میں صرف 72/اجسام پاکیزه وقت مصیبت کام آۓ.

 باقی سب مفاد و لالچ میں بدعھدی کرتے گۓ.

انھیں لوگوں کی طرح آج کے وه غالی شیعه ھیں جو فضائل و مصائب اھلبیت ع کے زریعے مکمل غیر متعھد اور بے وفائی کرتے ھوۓ ,

دنیا کی خاطر زکر فضائل و مصائب کو بیچ رھے ھیں.

اور محراب و منبر حسین ع کو روزگار کا زریعه بنا کر بڑی بے دردی سے مذھب و ملت کو اھلبیت ع کے نام پر لوٹ رھے ھیں.

یه نام نھاد محبان اھلبیت ع کردار و گفتار سے یکسر سیرت معصومین ع کے متصادم محو سفر ھیں.

ان کے ظاھر اور باطن میں کھلا تضاد ھے لھذا صادق محبان اھلبیت ع کو سامنے آنا چاھیۓ ,
اور ان لوگوں کو بے نقاب کرتے ھوۓ آھنی چٹان ثابت ھوں اور انکا تدارک کریں.

 مذھب حقه کو اصل خطره بیرونی بے نقاب دشمن سے نھیں بلکه اندرونی منافق دشمن سے ھے.

بیماریوں سے گناه بخشوانے والی مفلوج قوم.

بیمار قوم کے نام اھم پیغام,

جو بیماری سے آپنے گناه بخشوا کر نجات حاصل کرنا چاھتی ھے.
                                    
                    " تحریر: "سائیں لوگ                             

مگر امیر المومینین علی ع فرماتے ھیں که بیماریاں کسی مقصد تک نھیں پھنچا سکتیں امام ع نے فرمایا بیماریوں میں ثواب و اجر نھیں رکھا .
چونکه بیماری تمھارا فعل نھیں ھے بلکه ایک آفت ھے جو تمھاری غلطی سے تم پر طاری ھوتی ھے.

غفلت سے ایکسیڈنٹ کرنے سے انسان کو ثواب نھیں ملتا, بلکه موت کے منه میں جاتا ھے.

رسول الله ص فرماتے ھیں قومیں بھی بیمار ھوتی ھیں,

اور بیمار قوم کی یه علامت ھے که اس کے اندر امر بالمعروف ونھی عن المنکر نھیں رھتا.
اس بیمار قوم کے سامنے حق پامال ھوتا رھے اسے کوئی پرواه نھیں.باطل و فاسد عقائد کی زور سے ترویج و تشریح ھوتی رھے بیمار قوم سب خاموشی سے سنتی,دیکھتی اور برداشت کرتی رھتی ھے.

سید الشھدا امام حسین ع نے یھی فرمایا تھا که :

میں جو قیام کر رھا ھوں یه امت کی اصلاح کیلۓ ھے.
میں آپنے جد کی امت کو ٹھیک کرنے جا رھا ھوں.

لوگوں نے کھا یا ابن رسول ص امت کو کیا ھے امت توٹھیک ھے نمازیں پڑھ رھی ھے,حج کر رھی ھے.روزۓ و دیگر احکام پر عمل کر رھی ھے امت کو کیا خرابی ھو گئی ھے.

امام حسین ع نے فرمایا:

کیاتم لوگ عقل کی بینائی کھو بیٹھے ھو حق پامال ھو رھا ھے باطل آگے بڑھ رھا ھے, قرأن و محنت رسول الله ص کو روندا جا رھے ھے.

تم پھر بھی چپ بیٹھے ھو تمھارا یه چپ رھنا تمھارۓ بیمار ھونے کی علامت ھے.
جب انسان بیمار ھوتا ھے تو پھر خاموشی کو ترجیح دیتا ھے .

بیمار زیاده نھیں بولتا اس کے اندر بولنے کی طاقت نھیں رھتی.

مگر قرآن میں الله تعالی فرما رھا ھے که امر بالمعروف و نھی عن المنکر سے امت زنده ھوتی ھے .
(س آل عمران ع:103)

داڑھیاں رکھوانا,منبر پر مختلف فن سے ریاکاری کرنا, بانی کا مال خرچ کرنا.
زاکر کا شھرت و مقبول ھونے کیلۓ قیاسی فضائل و روایات بیان کرنا یه نه اسلام ھے اور نه ھی خدمت اھلبیت ع,

 اور نه ھی فکر کربلا پر عمل اور نه ھی امر بالمعروف .
جب کسی قوم میں یذیدی سوچ و عمل داخل ھو جاۓ اس وقت  امر بالمعروف واجب ھے.

بد بختی سے یھی بدعملی ھماری قوم میں داخل ھو گئی قوم نے قرآن و اھلبیت ع کے فرامین و عمل کو ترک کر دیا شھرت و تجارت عروج پر ھے منبر حسین ع کا تقدس پامال ھو رھا ھے.

مجالس جو درس گاه علم و عمل تھیں آج وه روحانی سکون و اصلاح کی بجاۓ تفریح و سر ساز کا روپ دھار چکی ھیں توحید کی عظمت و سنت اھلبیت ع کو کچلا جا رھا ھے.

باطل و گمراه عقائد کی بھر مار ھے آۓ دن نیا فتنه ابھر رھا ھے.

گانوں کی طرز پر قرآن و اھلبیت ع کے فضائل و مصائب بیچے جا رھے ھیں.

مظلوم لوگ اھلبیت ع کی محبت میں آۓ دن شھید ھو رھے ھیں .کوئٹه ھو یا کراچی,ڈیره اسماعیل خان ھو یا پارا چنار ھر جگه ناحق خون ھو رھا ھے مگر قوم ھے وه سو رھی ھے سب کچھ  دیکھ اور سن رھی ھے مگر تحفظ نھیں کرپاتی احساس ختم ھو چکا ھے.

مگر افسوس قوم میں اکثریت خاموش ھے  بے حس ھو گئی ھے جیسے اس قوم کو فالج ھو گیا ھو.

جسم کا ھر حصه زبان سمیت مفلوج ھو گیا ھے.

اور پھر کچھ لوگ اس بیمار قوم سے امید لگا کر بیٹھے ھیں که کوئی اٹھے اور آگے بڑھے نھیں قطعا نھیں ھم سب کو اب عملی میدان میں آنا ھو گا.

جو خاموش  ھیں جو مجبور ھیں سب بیدار ھوں اور راه امام حسین ع آپناتے ھوۓ جو جتنا کر سکتا ھے قرآن کی اصل تعلیم کو بچاۓ محنت رسول و علی ع بچاۓ,
فکر کربلا کو بچاۓ,

دین و کربلا فروشوں کا تعاقب کریں فتنه پروروں سے بیزاری اختیار کریں.

آپنے کو اکیلا سمجھ کر محدود و روپوشی  نھیں,
بلکه اھل کربلا کی طرح قلیل کو بھی کثیر تصور کرتے ھوۓ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کو آپنائیں.

مرده یذید,شمر ابن زیاد پر لعنت مگر زنده پر کیوں نھیں.

رسمی و آخباری شیعه,

 کی آج کے زنده یذید ابن معاویه,شمر,
خولی سے ھمدردی کیوں...?

                "تحریر :"سائیں لوگ                        

رسمی غلاتی شیعه آج بھی مرده یذید ابن معاویه اور شمر ,خولی کے پیچھے پڑا ھوا ھے که کھیں یه دوباره زنده ھو کر پھر نه کوئی کربلا برپا کر دیں.

یه گروه آپنی تمام تر توانائیاں مرده دشمنان و قاتلان معصومین ع پر صرف کر رھا ھے.

ان کے اس عمل سے حالات مذید ابتر اور روز کھیں نه کھیں معصوم شیعه نوجوان شھید کیۓ جا رھے ھیں شھدا  کے وارثان کیلۓ ھر روز کربلا برپا ھے.

اس درد کا اندازه شھدا کے لواحقین ھی بھتر بیان کر سکتے ھیں.
جن کے خاندان کا واحد روزگار چھن جاۓ جن معصوم بچوں کا باپ نا حق مارا جاۓ.جس بوڑھی ماں کا لخت جگر بے جرم و خطا زبح ھو جاۓ جس خاتون کا سھاگ اجڑ جاۓ.

میں ظالم قاتل شھداۓ کربلا پر لعنت کے خلاف نھیں وه ملعون مستحق ھیں بلکه ان سے نفرت و لعنت برسانا اجر عظیم ھے مگر ھمیں آج کے یذید شمر خولی و حرمله سے بھی نبرد آزما ھونا ھو گا.

ھمیں خود کو وارثان کربلا کی سیرت اختیار کرتے ھوۓ موجوده سنگدل دور میں رسم شبیری ادا کرنی ھو گی.

ھمیں توحید,رسالت,و محنت معصومین علیھم اسلام کا دفاع کرنا ھو گا.

خالی لعن,تعن و تبراء سے نھیں بلکه عملی کردار سے تبدیلی لانا ھو گی تحفظ عقائد و اسلام کیلۓ کمر بسته ھونا ھو گا.

آج کے یذید امریکه,اسرائیل اور آل سعود کے خلاف نکلنا ھو گا.

انھیں کی تیار کرده دھشت گرد تنظیم داعش جس نے ظلم و بربریت کی انتھا کی عراق و شام میں کربلا کو دھرایا گیا.

 خواتین کو بازاروں میں بیچا گیا بے قصور شیعوں کی گردنیں کاٹی گئیں.بچوں ,جوانوں بوڑھوں کی لاشوں کو رونده اور گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا گیا.

شھداۓ کربلا سمیت بی بی زینب و جناب سکینه بنت الحسین سلام الله علیه سمیت مختلف اھلبیت ع اور صحابه کے مزار گراۓ گۓ.کیا یه ظلم ھے.

جبکه حقیقی شیعه نے مرده یذید ,شمر,خولی سمیت زنده یذید ابن معاویه,شمر,خولی کا مقابله کیا داعش سمیت اس کے بنانے والے سعودیه و امریکه  کا جوانمردی سے مقابله کیا اور کر بھی رھے ھیں.

اور شکست فاش دی کھلا انتقام لیا یاد مختار ثقفی تازه کی . 

مگر افسوس رسمی شیعه آج خاموش ھے بلکه آج کے یذید و شمر خولی کے ساتھ تعاون کر رھا ھے.

شیرازی نیٹ ورک مکمل طور پر آج کے یذید و شمر,خولی کی مدد سے حقیقی محبان اھلبیت ع کیلۓ مسائل و مشکلات پیدا کر رھا ھے,

شیعت کیلۓ مسلمانوں کے مقدسات کی توھین کرکے نفرت و قتل و غارت کا ماحول بنا رھے ھیں.

شیرازی نیٹ ورک کے گیاره(11)چینل آج کے یذید ابن معاویه,اور شمر خولی کے تعاون سے چل رھے ھیں.

ایران و عراق میں مجتھدین اور آج کے یذید سے نبرد آزما آقاۓ سید علی خامنه ای اور آقاۓ سیستانی کے خلاف توھین و مشکلات پیدا کر رھے ھیں.

مرده یذید ابن معاویه و شمر سے ھزارھا درجه بدتر آج کا  یذید و شمر (امریکه,سعودیه,اسرائیل) ھے.رسمی شیعه ان کے خلاف کیوں نھیں آتا.

مگر افسوس مرده یذید و شمر خولی پر رات دن لعنت پر لگے ھوۓ ھیں.

ابھی تک انکے دل ٹھنڈۓ نھیں ھوۓ کتنا انتقام لو گے,
 مختار ثقفی رح نے جو انتقام لیا وه کیا تھا.
ابو مسلم خراسانی نے جو انتقام لیا وه کیا تھا.

ایک جرم کا کتنی بار انتقام لو گے اب پھر کس چیز کا انتقام لینا چاھتے ھو بلکه عقیده ھے که امام زمانه بھی آ کر قاتلان حسین ع سے دوباره انتقام لیں گے.

رسمی شیعه کے زھن میں بس یھی ھے که ظالموں کی وه پھلی  اور آخری نسل تھی ان سے پهلے بھی کوئی ظالم پیدا نھیں ھوا اور ان کے بعد بھی ظالموں کی نسل پیدا نھیں ھوئی.

ھماری طرف سے دعوت ھےاشتھاری,
اخباری و رسمی شیعه آپنی روش و عقائد پر نظر ثانی کرتے ھوۓ ,

حقیقی شیعان علی ع و وارثان اسلام و کربلا کا ساتھ دیں.

امامت و ولایت علی ع ایک عظیم نعمت ھے.

امیر المومینین ع نے نھج البلاغه میں جن نعمتوں کا زکر کیا ھے,

"تحریر:"سائیں لوگ                                  
                                       
ان نعمتوں میں سے ایک سب سے بڑی نعمت جو الله تعالی نے انسان کو عطا کی ھے وه نعمت و ولایت اھلبیت علیھم اسلام ھے.

لھذا بدنصیب ھیں وه لوگ جو انھیں پهچان بھی نھیں سکے اور اس نعمت سے دور ھیں.

اور اسی دوری نے انھیں دوسری بھت سی نعمتوں سے دور کر دیا.

اونٹ,گاۓ اور گھوڑۓ کو نجات دھنده سمجھنے والی گمراه قومیں.

اونٹ,گاۓاور گھوڑۓ کو نجات دھنده سمجھنے والی قومیں:
                       
  •  "تحریر : "سائیں لوگ                                                   


مملکت پاکستان کا وجود زوالجناح کے قدموں کے صدقے اور قرآنی آیات کے کفن سے زوالجناح کو دفن کرنے والی قوم کیلۓ کیا ھدایت ممکن ھے.

جنگ جمل میں امیر المومینین ع کے مقابل جو لشکر آیا اس کا مرکز اونٹ تھا.

جس کے اوپر انھوں نے ام المومینین کو بٹھایا ھوا تھا,اس جمل کا نام عسکر تھا.

 اھل لشکر نے جمل کو جھنڈا پھنایا ھوا تھا.اس دوران جھوٹی روایات گھڑ کر تشھیر کی گئی که جو بھی اونٹ کے قدموں  میں رھتے ھوۓ مرۓ گا وه سیدھا جنت میں جاۓ گا.

جتنا زیاده اونٹ کے قریب ره کر مرۓ گا وه اتنا زیاده خالص مومن کی موت مرۓ گا.جو جتنا دور وه اتنا گھٹیا مومن انھیں جھوٹی روایات پر لشکر بڑھتا رھا.

جب جنگ جمل شروع ھوئی لوگ جناب امیر المومینین ع کی سپاه کے ھاتھوں تھه تیغ ھونے لگے توجناب علی ع کو احساس ھوا که انھیں پناه کا موقع دیا جاۓ.

 مگر وه لوگ ھتھیار پھینکنے کیلۓ تیار نه ھوۓ تو جناب علی ع نے فرمایا یه ایسے شکست تسلیم نه کریں گے, لوگوں نے پوچھا مولا وه کیسے آپ جناب علی ع نے فرمایا جب تک یه اونٹ موجود ھے تب تک.

جناب امیر ع نے امام حسن ع کو بلایا اور کھا بیٹا ایک دسته لے کر جاؤ اور اس اونٹ کا شر ختم کر دو ٹانگیں کاٹ ڈالو.

جیسے ھی ٹانگیں کاٹی گئیں اور لشکر سے  ام المومینین آنکھوں سے اوجھل ھوئی سب روتے ھوۓ تتر بتر ھوگۓ اور کھنے لگے اب ھمیں شکست ھو گئی.

یه وه لوگ تھے که جب اونٹ فضله کرتا تھا یه ھاتھ نیچے کر لیتے اور فضلے کیلۓ ایک دوسرۓ سے لڑتے تھے.

اور اسے تبرک سمجھتے ھوۓ خوشبو کے طور پر آپنے پاس رکھتے.اور ناک اور آنکھوں پر لگاتے.

جب لوگ پوچھتے تو کھتے اس میں سے جنت کی خوشبو آتی ھے.

آج بھی سعودیه میں اونٹ کے پیشاب کو شفاء و آتش پیاس بجھانے کے طور پر لگژری پیکنگ میں فروخت اور پیا جاتا ھے.

اور یھی حال ھندو قوم کا ھے یھاں بھی گاۓ کو وھی حرمت ھے جیسی اونٹ کو اور گاۓ کا پیشاب مھنگے داموں متبرک سمجھتے ھوۓ ,

نوش کیا جاتا ھے اور گاۓ سے مرادیں اور منتیں مانگی جاتی ھیں.

جنگ جمل کے موقع پر مولا علی ع نے ایک خطبه دیا که تم لوگ ایک جانور کی فوج بن گۓ ھو, اسے متبرک سمجھتے ھو جب که رسول الله ص کے بھائی جو حق اور نجات کا زریعه ھے اس کی بات نھیں سنتے.

 اور جانور کی لد کو جنت کی خوشبو کھتے ھو جبکه اس کی بو سے  انسان گر جاتا ھے اور عقل ختم ھو جاتی ھے.

تو ان لوگوں کی عقل آنکھوں میں آ گئی تھی .

ایسی ھی ایک  قوم مذھب شیعه میں موجود ھے جو معصومین ع سے محبت کے تو بھت بلند بانگ دعوے کرتے ھیں مگر معصومین ع کی ایک بھی نھیں مانتے.

 جو کربلا کو مخصوص ایام میں رسم کے طور پر تو مناتے ھیں.

(حالنکه میرا عقیده ھے ھمارا ھر یوم ,یوم کربلا ھے)

 مگر فکر کربلا سے عاری ھیں جو نسبت کے لحاظ سے مولا حسین ع کی سواری کی تو بھت عزت و احترام اور مرادیں  لیتے ھیں.

 مگر مولا حسین ع کے فرمان پر توجه نھیں کرتے,

 مولا حسین ع نے شھادت سے قبل نماز کو بروقت ترجیح دی جبکه یه قوم یوم عاشور مصیبت کے دن بھی نماز چھوڑ کر بغیر طھارت کے مراسم عزاداری خوب مناتے ھیں.

یه دن گریه و اعمال کا دن ھے مگر یه بدعمل غالی  قوم سب اعمال چھوڑ کر ٹولیوں کی شکل میں وه مراسم ادا کرتے ھیں,

 جن کا شریعت و معصومین ع کی حیات مبارکه سے دور تک واسطه نه تھا.

امام حسین ع کے گھوڑۓ کی شبھیه مختلف زیورات سے سجا کر اس کے پاؤں سے مٹی اٹھا کر شفاء لینے کی کوشش کرتے ھیں.

 گھوڑۓ پر نظر نیاز چڑھا کر اولاد اور دیگر منتیں فریاد کرتے ھیں.

احترام ضروری نسبت مرتجز سواری امام حسین ع  ھونے کے ناطے,مگر کفریه و شرکیه عقائد سے ناراضگی اھلبیت ع تو حاصل ھو سکتی ھے ناکه خوشنودی اھلبیت ع.

عرض مختصر یه که یه دونوں قومیں حق سے بھت دور ھیں,ھندوؤں کی رسمیں اختیار کیۓ ھوۓ ھیں.

جنکی عقل کی انتھاء ایک جانور سے جنت کا حصول, شفاء و اولاد ھو,
 بھلا وه کیسے منزل حق تک رسائی کر پاۓ گی.

 جس وجه سے ان جانوروں کا تقدس بحال ھے ان برگزیده ھستیوں کے احکامات نه سنتی ھے نه عمل کرتی ھے اور نه غور و فکر .

جبکه واضح فرمان رسول ص ھے جو جتنا میرۓ بھائی,وصی علی ع کے عمل کے قریب ھو گا .
وه اتنا جنت کے قریب ھو گاجو جتنا دور وه اتنا دوزخ کے قریب.

اور یھی بات امام حسین ع کی ھے جو جتنا میری کربلا میں  قربانی کے مقصد پر عقل سے فکر کرۓ گا.

مقصد کربلا سمجھے گا اور کربلا کو آپنی زندگی میں ڈھالے گا وه اتنا حق کے قریب ھو گا جس میں نجات ھی نجات ھے.

الله تعالی ھر مسلمان بھائی کو حق تک پھنچنے میں مدد فرماۓ.(آمین)