مرکز عقائد شیعه شناسی

جمعہ، 8 نومبر، 2019

مسلمانوں میں رائج عقیده عصمت

Monday, March 20, 2017

عقیدہ عصمت قرآن کی روشنی میں۔۔ تحریر آیت اللہ برقعی

رایج عصمت کا عقیدہ قرآن مجید کی روشنی میں

تحریر:آیت اللہ العظمی سید ابوالفضل ابن الرضا برقعی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالی نے انبیاء کرام سے تبلیغ رسالت الہی کے متعلق وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو خطا سے محفوظ رکھے گا،اسی لیے پیغمبر اکرم ص سے مخاطب ہو کر سورہ اعلی آیت 6 میں فرمایا:
سَنُقْرِؤُكَ فَلَا تَنسَى
ہم تمہیں پڑھا دیں گے کہ تم بھلا نہ سکو گے
یعنی رسالت الہی کے متعلق آپ کو نسیان نہیں ہوگا۔اور سورہ جن آیت نمبر27 و 28 میں فرمایا:

إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ٭لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا
ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس (کو غیب کی باتیں بتا دیتا اور اس) کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے ۔تاکہ معلوم فرمائے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور (یوں تو) اس نے ان کی سب چیزوں کو ہر طرف سے قابو کر رکھا ہے اور ایک ایک چیز گن رکھی ہے
ان آیات میں اللہ تعالی نے رسول اللہ ص کو حفظ رسالات رسول ص کی ضمانت دی ہے۔
لیکن وہ امور جو کہ تبلیغ رسالت اور وحی سے خارج ہیں ان میں آپ کی عصمت موجود نہیں،جیسا کہ اللہ تعالی نے سورہ محمد آیت نمبر 19 میں رسول اسلام ص سے فرمایاِؔ:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
پس جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔
اور اسی طرح سورہ غافر آیت نمبر 55 میں فرمایا:
وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ
اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو
اور سورہ نساء آیت نمبر 105 و 106 میں ارشاد فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّهُ وَلاَ تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا ٭ وَاسْتَغْفِرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ اللہ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔ اور اللہ سے بخشش مانگنا بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
اور سورہ نصر آیت نمبر 3 میں آپ ص سے فرمایا:
وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے
اور سورہ فتح آیت نمبر 2 میں آپ ص سے فرمایا:
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ
تاکہ(اے محمد ص) اللہ تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے
اور جب رسول ص سے ایک گروہ سے متعلق تحقیق نہیں کیا کہ جو جو جنگ سے بہانے اور عذر تلاش کر کے چلے گئے۔تو اللہ تعالی نے آپ ص کو ملامت اور سرزنش کرتے ہوئے سورہ توبہ آیت 43 میں فرمایا:
عَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
اللہ تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے ہیں جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھوٹے ہیں اُن کو اجازت کیوں دی.
اور دیگر انبیاء ع سے متعلق جیسا کہ جاننا چاہیے کہ سورہ قصص آیت نمبر 16 میں اللہ نے حضرت موسی ع کا قول ذکر کیا ہے۔
قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
بولے کہ اے پروردگار میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے تو اللہ نے اُن کو بخش دیا۔ بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے
اور سورہ انبیاء آیت نمبر 87 میں حضرت یونس کا قول جو اللہ سے انہوں نے ارشاد فرمایا:
لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے (اور) بےشک میں قصوروار ہوں
اور سورہ اعراف آیت نمبر 23 میں حضرت آدم ع کے متعلق ارشاد فرمایاَ
قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے
سورہ طہ آیت نمبر 121 میں ارشاد فرمایا:
وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى
اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم خلاف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے) بےراہ ہو گئے
اور حضرت نوح ع کے متعلق جیسا کہ سورہ ھود آیت نمبر 47 میں ارشاد فرمایا:
وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ

اور اگر تو مجھے نہیں بخشے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں تباہ ہوجاؤں گا
اسی طرح دیگر بہت ساری آیتیں ہیں۔
کیا قرآن اور غیر قرآن میں انبیاء علیھم السلام کی دعائیں جن میں انہوں نے خود کو گناہگار کہا اور اللہ سے بخشش مانگی کیا اس سے ہمیں یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ معصوم نہیں تھے۔
جب انبیاء کرام ع عصمت کے دعویدار نہ ہو تو بہت تعجب کا مقام ہے کہ جو لوگ اپنے بزرگوں اور اماموں کی عصمت کے لیے عصمت ذاتی کے قایل ہوئے ہیں۔حالانکہ یہ امام علیھم السلام اپنے لیے کبھی عصمت ذاتی کے دعویدار نہیں تھے اور نہ وہ اس کے قائل تھے۔بلکہ انہوں نے مکرر اپنے کلمات میں اپنی گناہوں خطاؤں سے اظہار پشیمانی کرتے ہوئے اللہ سے عفوو معافی طلب کیا ہے۔یقینا انہوں نے اسی لیے ایسا کیا ہے تاکہ کوئی ان کی شان میں غلو نہ کرے۔اور اگر کوئی شخص ذاتی طور پر عصمت کے حامل ہو تو یہ اس کی کوئی فضیلت نہیں ہوگی،بلکہ وہ ایک پتھر کی طرح ہے کہ وہ بھی تو خطا نہیں کرسکتا۔لیکن درجہ تو اس شخص کا ہے جو خطا اور گناہ کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے خود کو اس سے بچائے۔اور اس کے علاوہ اگر انبیاء و اولیاء معصوم ہوں تو وہ لوگوں کے لیے اسوہ نہیں بن سکتے کیونکہ ایک شخص جس کا تن اور بدن ہے ،اس سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا کہ تم نوری مخلوق کی پیروی کرو(جو خطا سے پاک ہو٭۔
اللہ تعالی نے سورہ آل عمران آیت 80 میں صریحا ارباب بنانے سے منع کیا ہے۔
وَلاَ يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُواْ الْمَلاَئِكَةَ وَالنِّبِيِّيْنَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ
اور اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو اللہ بنالو بھلا کیا اسے زیبا ہے کہ تمہیں کافر ہونے کو کہے
اور اسی سورہ کی آیت 64 میں فرمایا:
وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ
اور اس کے ساتھ کسی چیز کو ہم شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے

اور سورہ توبہ آیت نمبر 31 میں فرمایا:
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
انہوں نے اپنے احباراور رہبان اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا اللہ بنا لیا حالانکہ اُن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے
ان آیات میں اللہ تعالی نے ہر شخص کو جو انبیاء و اولیاء اور ملائکہ کو رب بنائے ان سے کوئی چیز مانگے ان کو مشرک و کافر کہا ہے۔
بلکہ صریح قرآنی آیات اس کی دلیل ہے کہ انبیاء معصوم نہیں تھے۔اور شیعہ امامیہ کے گیارہ اماموں نے بھی اپنے کلمات اور دعاؤں میں اپنی گناوہوں کا اعتراف اور اقرار کیا ہے۔اور کہا ہے کہ ہم معصوم نہیں ہیں۔دعائے کمیل،صحیفہ علویہ اور صھیفہ سجادیہ ایسی دعاوں سے بھری پڑی ہے جس میں ان کی تضرع و زاری کے ساتھ انہوں نے اللہ کو یاد کیا ہے اور اس ذات سے اپنی گناہوں کے لیے عفو الہی کی درخواست کیا ہے۔اور اپنی خطاؤں سے طلب مغفرت طلب کیا ہے۔
حضرت علی ع خطبہ نمبر 216 میں نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
فَإِنِّی لَسْتُ فِی نَفْسِی بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ وَ لاَ آمَنُ ذَلِکَ مِنْ فِعْلِی
اسی طرح خطبہ نمبر 13 میں آپ ع نے ارشاد فرمایا:
أَصْبَحْتُ عَبْداً مَمْلُوكاً ظَالِماً لِنَفْسِي
عصمت کے متعلق میں صفۃ 36 و 37 اور 17 و 18 پر کافی ؤاضح کرچکا ہوں۔اور اس جگہ میں صرف یہی کہتا ہوں کہ اگر انبیاء کی عصمت ذاتی،جبلی اور تکوینی ہو تو یہ کوئی فضیلت نہیں کیونکہ ہر درخت اور پتھر بھی تکوینی لحاظ سے معصوم ہیں۔اور وہ بھی اللہ تعالی کی نافرمانی،عصیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ،اور بشریت کی فضیلت یہی ہے کہ وہ گناہ کرنے پر قادر ہونے کے باوجود بھی گناہ نہ کرے۔پس انبیاء جن کے متعلق آسمانی کتاب میں کہا گیا کہ ِ
بشر مثلکم
تمہاری طرح بشر ہیں ،یعنی ہر صفت بشر جو ہم میں ہے وہ ان انبیاء میں بھی تھے،مگر ان میں صرف ایک چیز کا فرق ہے وہ یہ کہ سمر رسالت و تبلیغ،میں وہ وحی کے مواطب تھے تاکہ ان سے خطا نہ ہوجائے،لیکن دیگر امور میں دیگر تممام افراد بشر کی طرح وہ بھی تھے۔
بنابریں ان میں بھی گناہ کرنے کا مادہ موجود ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ نقص ہے جیسا کہ فرشتے کی طرح جو گناہ کر ہی نہیں سکتے۔پس نتیجہ یہ ہے کہ وہ گناہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اپنی دعاؤں میں انہوں نے کبھی بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ہم تو معصوم ہیں بلکہ مکرر فرماتے تھے خدایا ہم گناہ گار ہیں اور اللہ سے وہ مغفرت طلب کرتے اور عفو و بخشش مانگتے تھے۔
٭
بہت ساری قرآنی آیت ہیں صریح جس میں یہ کہا گیا ہے کہ انبیاء سے گناہ سرزد ہوئے اور انہوں نے اس سے توبہ کیا۔اسی طرح بہت ساری دعائیں پیغمبر اسلام ص اور دیگر انبیاء اور آئمہ شیعہ اور اہل بیت سے مروی ہیں جن میں وہ اپنی گناہوں کا اللہ کے سامنے اقرار کرتے تھے۔اور اس ذات سے معافی و بخشش مانگتے۔اور جس نے دعا کی کتابیں پڑھی ہوں اس کے لیے یہ باتیں بالکل پوشیدہ نہیں ہے۔

حالانکہ امامیہ یہ کہتے ہیں کہ انبیاء و آئمہ نے ان دعاؤں میں جو گناہوں کا اقرار اور استغفار کیا ہے وہ صرف اور صرف دوسروں کو دعا سکھانے اور یاد کرانے کے لیے کی ہیں،اور وہ خود معصوم تھے؟
اس کا جواب بالکل واضھ ہے کہ اولا یہ محض ایک دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں۔اور محض خیالی باطل دعوی ہے۔
دوسری یہ کہ اگر کوئی شخص ایسا دعوی کرے تو اس سے پوچھنا چاہیے کہ اگر تم اپنے اس بات میں سچے ہو تو تمہیں اس دعا کے بعض حصون کی بجائے پوری دعا کے مضمون کو سر مشق بنانا چاہیے۔مثلا ان دعاؤں میں آیا ہے کہ تمہارے آئمہ ڈائریکٹ اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع و زاری سے مانگتے،اور کہتے کہ ِ
خدایا ہم تیرے سوا کسی اور کو نہیں پکارتے،اور تیرے علاوہ کسی اور سے متوسل یا متوجہ نہیں ہوتے۔اور تیرے سوا کسی کو شفیع نہیں سمجھتے۔اور اس جیسے دیگر کلمات۔
نتیجہ یہ کہ تم اپنے اس دعوے کے مطابق کیوں نہیں عمل کرتے اور ان بزرگوں کی طرح غیر اللہ کو کیوں نہیں پکاتے ہو،اور کیوں ان کی طرح غیر خدا کی بجائے خدا کی طرف متوجہ،توسل،پناہ و زاری نہیں کرتے؟اور وہ توسل جو قرآن کے خلاف ہے اس کو چھوڑتے کیوں نہیں ہو؟اور میں نے عصمت کے موضوع پر اس سے قبل صفحات میں کافی تفصیل بیان کیا ہے۔
٭
علی ع معصوم نہیں تھے جیسا کہ قیس بن سعد بن عباد جو کہ بہادر اور تیز ایک شخص تھا اور آپ نے اس کو مصر کا والی بنایا،اور معاویہ نے اس کو واھمہ کیا ،پس علی ع نے تحریک معاویہ پر اس کو معزول کیا۔اور اس کو معزول کرنے کے سبب مصر علی ع کے تصرف سے نکلا اور معاویہ کے قبضے میں چلا گیا۔اسی طرح علی ع نے ابوموسی کو والی کوفہ بنایا ۔۔۔اور جمل۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کافی غلطیاں علی ع سے ان معاملات میں سرزد ہوئیں جیسا کہ نھج البلاغہ کے مکتوبات سے ظاھر ہیں،مثلا ایک خط منذر بن جارود کو لکھا جس کو آپ نے والی بنایا تھا۔۔۔۔لیکن وہ بھی خائن نکلا۔۔
محمد ص بھی عصمت ذاتی نہیں رکھتے تھے بلکہ اللہ تعالی وہی کے ذریعے آپ ص کو خطاؤں سے محفوظ رکھتے تھے،اور اگر آپ ص پر بھی وحی نازل نہ ہوتا تو آپ بھی غلطیاں کر جاتے۔یہ وحی تھی جس کی وجہ سے آپ ان اشتباھات سے محفوط تھے
تم اپنے اماموں کے لیے عصمت کے قائل ہو ھالانکہ عصمت ایک باطنی امر ہے۔کہ کوئی شخص سوائے اس شخص خود کے کوئی اس سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔تم ہی کہو کیا ان آئمہ نے خود کہا ہے کہ ہم معصوم ہیں یا نہیں؟؟اگر وہ اپنے لیے عصمت کا دعوی کرتے تھے تو یہ دعوی کا ثبوت کہاں ہے؟ان کے بہت سے ثبوت تو یہ کہتے ہیں کہ ہم گناہگار ہیں،اور انہوں نے اپنی دعاؤں میں اپنے لیے گناہوں سے توبہ اور گریہ و زاری کیا ہے اللہ کے حضور۔کیا تم ان کے قول و گفتار کو مانتے ہو؟علی ع خطبہ نمبر 207 نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ

کیا تم جو ان کی پیروی کا دعوی کرتے ہو ان سے زیادہ ان کو پہچان گئے ہو؟
کMUQAS کے تمام حرکات و سکنات میں ان کے ساتھ تھے،اور ان کے باطنی اھوال و صفات نفسانی کا احاطہ کرتے ہو؟؟
وہ تو خود اپنی گناہون سے ڈرتے اور توبہ و اناب کرتے تھے۔لیکن تم لوگ ان کی وفات کے ہزاروں سال بعد ان سے متعلق دوسری چیز کا قائل ہوگئے ہو۔خیالی عصمت کا فائدہ ہی کیا ہے،جب وہ زندہ تھے تو کوئی ان کو معصوم نہیں سمجھتا تھا،حتی وہ خود اپنے کو معصوم نہیں سمجھتے تھے۔
میں نے بار بار اپنی اس کتاب میں ان کی عصمت کے متعلق دھرایا ہے ،اور اس جگہ یہی کہون گا کہ کتاب و سنت میں بالکل بھی اماموں کی عصمت پر دلیل موجود ہی نہیں،رسول خدا ص نے تمہاری معتبر کتاب وسائل الشیعہ وغیرہ میں کہا ہے کہ :
أيها الناس حلالي حلال إلى يوم القيامة وحرامي حرام إلى يوم القيامة إلّا وقد بينهم الله في الكتاب وبينتهما في سيرتي وسنتي وبينهما شبهات من الشيطان وبدع بعدي من تركها صلح له أمر دينه
پس اگر مسلمان عزت رفتہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے کتاب و سنت پر عمل کرنے اور بدعات کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے،

ہفتہ، 31 اگست، 2019


زنجیر زنی کے متعلق مختلف مراجع کرام کی راۓ 

.
مختلف مراجع کرام کے نذدیک زنجیر زنی کے بارۓ کیا حکم ھے

جمعہ، 26 جولائی، 2019

کیا پنجتن پاک ع سے خالی الفاظی,زبانی دعوی محبت
ولایت تک پهنچا سکتا ھے

ایک فکر انگیز تحریر ضرور مطالعه کریں.

قسط نمبر:19 ------- تحریر:    سائیں لوگ


اثناۓ عشریه شیعوں کا اعتقاد ھے که حضور نبی ص کے باره وصی ھیں جو سب کے سب قریش میں حضرت ھاشم کی نسل سے ھیں ,
جیسا که آپ نے فرمایا تھا ان میں سے پهلے حضرت علی ع اور آخری حضرت مھدی معود ع ھیں.

نیز ان کے نذدیک شریعت کا ظاھری پهلو درست اور ناقابل تنسیخ ھے.
تو جب ان مقدس ھستیوں سے اگر کسی کا تعلق ھو تو پھر اسے غیر معصوم کی کیا ضرورت ھے جن میں غلطی کا احتمال ھو ساتھ ان کا کردار بھی مشکوک ھو.

اھل تصوف بھی پنجتن پاک کا بھت زکر و محبت کا دعوی کرتے ھیں اس لیۓ ھم ان برادران کے اس شبے کو بھی دور کرنا چاھتے ھیں اگر یه بات ھے تو پھر غیر مذھب کے لوگ بھی اھلبیت ع سے بھت محبت کرتے ھیں اور سیرت پر عمل بھی,

ھندو,سکھ,انگریز,یھود سب مذاھب کے لوگ شامل ھیں.

 تو پھر کیا وه بھی ولی ھیں یا بغیر اسلام قبول کیۓ جنت چلے جائیں گے,
 نھیں قطعا نھیں ھاں اس محبت کا صله انھیں ان کے عذاب میں تخفیف کا سبب ضرور بن سکتا ھے.

لھذا صوفیه کی ظاھری خالی محبت کوئی معنی نھیں رکھتی, اور نه ھی شیعه اثناۓ عشریه سے صوفیه کے تعلق کو جوڑا جا سکتا ھے ,
صرف یا علی ع کا نعره لگانے والا ولی نھیں بن سکتا ولی بننے کیلۓ توحید کا پرچار اور احکام پر کاربند رھنا  لازم ھے ,

مگر ان صوفیه میں تو شرک ھی شرک شامل ھے.

اگرچه صوفیه حضرت علی ع کی روحانی ولایت کا اقرار تو کرتے ھیں مگر سیاسی ولایت کے انکاری ھیں.
وه آپنے سلسلوں کو حضرت علی ع سے تو جوڑتے ھیں مگر وه اھلبیت رسول ص کے حق امامت و زعامت کے قائل نھیں ھیں.

صوفیه تو یه دعوی بھی کرتے ھیں که جب ھم ولایت لینے کیلۓ پاک نبی ص کی بارگاه میں پهنچتے ھیں تو وھاں حضرت ابوبکر ,عمر,عثمان اور مولا علی ع کے ساتھ حضرت عائشه کے ساتھ محفل جمی ھوتی ھے پاک نبی ص ابوبکر سے تعارف کراتے ھوۓ حضرت علی ع تک جاتے ھیں پھر ولایت کی سند مولا علی ع سے لے کر دیتے ھیں.

اب ھم کیسے مان لیں گے که باغ فدک کے غاصب  آج بھی روحانی طور پر آپ ص کے ساتھ ھیں اور شیخین کی رفاقت پر فخر محسوس کرتے ھیں.

دیکھیۓ کتاب چنبے دی بوٹی آوائل صفحات میں.

صوفیه کی فقه بھی فقه اھلبیت ع نھیں ھے,
 ھاں نزاری البته مرشد,شیخ,پیر یا قطب کھلاتے تھے وه شاه قلندر اور شاه غریب جیسے نام آپناتے تھے یا آپنے ناموں کے ساتھ اکثر شاه  جیسے صوفیه لقب کا اضافه کرتے تھے.تو لوگوں نے سمجھا سب اولاد اھلبیت ع سے سید ھیں .

اثناۓ عشریه شیعه معرفت الھی کیلۓ معرفت نفس کا درس دیتی ھے.

خالص اسلامی عرفان یھودیت,عیسائیت,مجوسیت,بدھ مت,اور ھندو مت کے عرفان سے قطعا محتلف چیز ھے,

 اس کے روحانی پیغام کا خلاصه بس یه ھے که ھم الله کو پهچانیں.

امام علی ع کا قول ھے:
 من عرف نفسه فقد عرف ربه.
ایک عارف کے شب و روز توحید کے جلال میں بسر ھوتے ھیں,
 اور وه خدا اور کائینات کے بارۓ تفکر ,تلاوت قرآن اور اس میں تدبر ,شب زنده داری ,دعا,مناجات,توبه و استغفار,کے زریعے نفس اور روح کی اصلاح و تربیت کرتا ھے.

اور روح کے دونوں مراکز یعنی دل و دماغ کے راھوار کی باگ کو آپنے قابو میں رکھتا ھے.شریعت محمدی کی پانبدی کرتا ھے.

ناں که آستانوں خانقاھوں پر بیٹھ کر یا بیوی بچے و خاندان کو چھوڑ کر جنگل کا رخ کرتا ھے,

 اور بغیر محنت و مزدوری کے توکل الله ترک دنیا کرتا ھے.
نه مسجد کے کونے میں حلقے بنا کر زکر کرتے ھیں نه مراقبے,چلے,نه سماع,نه تارو طنبور نه قوالی و دھمال کے زریعے خدا کی تلاش ,
بلکه یه سب غیر شرعی افعال ھیں نه نبی پاک نه اھلبیت ع اور نه ھی صحابه سے ثابت ھیں.

تو پھر ان صوفیه کے سامنے اس کائینات کی حقیقت کیسے آشکار ھو جاتی ھے .اور دیدار خداوندی جو ایک نبی ع برداشت نھیں کر سکتا ایک ریاضت والا انسان کیسے قابل ھو جاتا ھے.
لوح محفوظ کا مطالعه کوئی نبی نه کرسکا یه صوفیه کیسے کر لیتے ھیں ایک نبی الله کی وحی کے بغیر غیب نھیں جان سکتے تو یه گنھگار صوفی تمام کائینات کا مشاھده کر لیتا ھے.

لگتا ھے ان صوفیه کے عقیده میں ضرور کچھ گڑ بڑ  ھے یه سب کچھ جاننے کیلۓ ھم سے جڑۓ رھیۓ ھم ان صوفیوں کو ضرور بے نقاب کر کے رھیں گے.

یه زلفاں والی سرکار,کمبل والی سرکار,نانگا پیا,سنگله والی سرکار,
مجنوں سائیں یه سب کیا تماشه ھے کیا ان سب میں ھندو رنگ نھیں ھے.

                           (جاری ھے)

صوفیه آپنے نام کے کلمے بھی پڑھواتے رھے ھیں.

صوفیه کے کفرانه اور مشرکانه دعوۓ

               
قسط نمبر:18 ---------تحریر: "سائیں لوگ

ھم چاھتے تھے که ایک دفعه تو مکمل تصوف کے بارۓ برادران اسلام کو آگاھی دیں.
 جسمیں یه ثابت کریں که دین اسلام (شیعه) میں اسکی کوئی گنجائش نھیں یه عمل صرف دشمنان اسلام و اھلبیت ع نے صرف منزلت اھلبیت اطھار علیھم اسلام کو زک پهنچانے کیلۓ اغیار سے لیا.

تو آج ھم ان صوفیه کا زکر کرتے ھیں جنھوں نے واضح پیغمبر ی خدائی  دعوی کیا.
کل سے ھم پهلے عرب کے مشھور صوفیه پھر برصغیر کے چند نامور صوفیه کے حالات زندگی پر لکھیں گے.

آخر میں چند اقساط تعلیمات اھلبیت ع کے فرامین کی روشنی میں تصوف کی مذمت پر بیان کریں گے.

مذھب حنفیه میں سے بریلوی اور مذھب شیعه میں سے نصیری غالی,
(شیعه اثناۓ عشریه سے ان کا کوئی تعلق نھیں)
 کا یه عقیده ھے که یه صوفی الله کی تقدیر کی تبدیلی کے ساتھ لوح محفوظ کا مطالعه تک کر سکتے ھیں اور سائل(مرید) کی ھر مشکل آسان بھی .

ساتھ ان مذاھب کے لوگ یه بھی جائز سمجھتے ھیں که انھیں رسول الله تک بھی کھا جا سکتا ھے.

بلکه علامه ابن جوزی ان گمراه صوفیه کے متعلق لکھتے ھیں که ابوبکر بن موسی فرغانی صوفی کھتے ھیں جس شخص نے زکر الھی کیا اس نے بھتان باندھا اور جس نے صبر کیا اس نے جرات کی ,

ساتھ یه بھی کھا که خبر دار جس حالت میں مشاھده الھی کا طریقه ھاتھ آ جاۓ تو حبیب,کلیم,یا خلیل کا لحاظ نه کرو یه سن کر کسی نے پوچھا درود بھی نه پڑھیں جواب دیا درود پڑھیں مگر کچھ وقار نه سمجھو.
اسی لیۓ یه صوفیه مقام رسالت کو اتنی اھمیت و عظمت نھیں دیتے کھتے ھیں جب الله خود ھمارۓ اجسام میں حلول و اتحاد کر جاۓ تو پھر بشر کی اھمیت نھیں رھتی,
 ملحاظه فرمائیں چند صوفیه کے حقیقی دعوے.

جیسے ایک شخص نے خواجه معین الدین چشتی  کے پاس آیا اور عرض کی که مجھے آپنا مرید بنا لیں فرمایا کھو لااله الاالله چشتی رسول الله.
دیکھیۓ فوائد فریدیه ص:83.
معرکه حق و باطل ص:735

ابوبکر شبلی بھی آپنے بیعت ھونے والے شخص سے یھی کھتے تھے که لا اله الا الله شبلی رسول الله.
دیکھیۓ 
تذکره غوثیه ص:320,
از مولانا شاه گل حسن.

تصوف اور تشیع میں فرق,

تلبیس ابلیس علامه ابن جوزی.

معرکه حق و باطل ص:735.

رسول الله کھلانا تو کجا ان صوفیه کے نذدیک کسی کا خدا کھوانا بھی جائز ھے 
حسین بن منصور حلاج سے کسی نے پوچھا آپ آپنے کو پیغمبر کھلواتے ھو فرمایا افسوس ھے تجھ پر تو نے میری قدر ھی کم کردی,
 میں تو خدائی دعوی کرتا ھوں .

فوائد فریدیه ص:76.

معرکه حق و باطل ص:735.

تصوف اور تشیع میں فرق.

تلبیس ابلیس از ابن جوزی.

مولوی اشرف علی تھانوی کے ایک مرید نے مولوی موصوف کو لکھا که میں نے خواب کی حالت میں اس طرح کلمه پڑھا لااله الا الله اشرف علی رسول الله.

چاھتا تھا کلمه صحیح پڑھوں مگر منه سے یهی نکلتا تھا.
پھر بیدار ھوا تو درود شریف پڑھا تو یوں 
اللھم صلی علی سید نا و نبینا و مولانا اشرف علی.
 بیدار ھوں مگر دل بے اختیار ھے اور اس کا جواب مولانا اشرف علی صاحب نے یه دیا که اس واقعه میں تسلی تھی که جس طرف رجوع کرتے ھو وه بعونه تعالی متبع سنت ھے .

24/شوال 1335/ھ ماخوز رساله الامداد بابت ماه صفر 1336/ھ,ص:35.

ایک اور صوفی با یذید بسطامی جس پر ھم سابقه پوسٹ میں بھی بھت لکھ چکے ھیں اور اس بزرگ کی میدان تصوف میں بھت انوکھے کارنامے  موجود ھیں ساتھ صوفیه میں ایک اعلی درجه بھی رکھتے ھیں .
یه عقیده حلول کے قائل تھے کھتے تھے جس نے خدا کو پانا ھو مجھے دیکھ لے .

وه یه دعوی بھی کرتے تھے که میرا جھنڈا پاک نبی ص کے جھنڈۓ سے زیاده بلند ھے .

فوائد فریدیه ص:73.

معرکه حق و باطل ص:784.

فضیل بن عیاض ایک مشھور صوفی بزرگ ھو گزرۓ ھیں انکی کرامات کے بھت واقعات تاریخ میں درج ھیں.

وه کھتے تھے که میں عرش کرسی,لوح اور قلم ھوں.
میں ھی جبرائیل و میکائیل اسرافیل و عزرائیل ھوں میں ھی موسی و محمد ھوں.
دیکھیۓ :
معرکه حق و باطل
 از حافظ محمد خواجه ص:784.
مکتبه قدوسیه اردو بازار لاھور.

بایذید بسطامی فرماتے ھیں:

اگر تجھ کو صفات آدم ,قدس جبرائیل, خلعت ابراھیم, شوق موسی, پاکیزگی عیسی اور جب محمد ص سب کچھ عطا ھو جاۓ جب بھی خوش نه ھونا کیونکه یه سب حجابات ھیں .

دیکھیۓ تزکره اولیاء ص:92.
معرکه حق وباطل ص:786.

درج بالا صوفیه کے کیۓ گۓ دعوی کو دیکھیۓ پھر قرآن پاک کی سوره یسین کی آیت: 18.کا ترجمه پڑھیۓ.

جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ,کیا وه ان جیسوں کے پیدا کرنے پر قادر نھیں ,
بے شک قادر ھے اور وھی تو پیدا کرنے والا بڑۓ علم والا ھے.
نیز فرمایا سوره زمر ع:65.
ترجمه:اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبه تیرا عمل ضائع ھو جاۓ گا اور بالایعقین تو زیاں کاروں میں سے ھو جاۓ گا.

جو توحید کی صفات و زات میں خود کو شامل کرۓ وه مشرک ھے.

اب قرآن میں واضح ھے که آپ ص الله کے آخری نبی ھیں آپکے بعد کوئی نبی نھیں اب عرض یه ھے که ان صوفیه کے معتقد و محب بتائیں ,

درج بالا صوفیه جن کا زکر ھم نے کیا انھوں نے آپنے نبی ھونے کے کلمے پڑھا کر کفر نھیں کیا  کیا.

اسی لیۓ ھم بر ملا کھتے ھیں که صوفیه جنھوں نے تعلیمات الھی و معصومین ع کے برعکس شیطانی طاقت سے روح کو بیدار کرکے توحید و نبوت کے دعوی  ھیں.

                                 (جاری ھے)

صوفیه کے مجمل عقائد

تصوف کی تاریخ پر مذاھب عالم کی روشنی میں  سرسری نظر

                 
قسط نمبر :17 ----------تحریر: "سائیں لوگ

تاریخ تصوف کے گھرۓ مطالعه اور دوسری قوموں کے عقائد کا وسیع مطالعه کرنے کے بعد انسان اس نتیجے پر پهنچتا ھے که اس کا سب سے بڑا ماخذ چینی,ھندو اور بدھ مت فلسفه ھے جو که اسلام اور مسیحت سے صدیوں پهلے منظر عام پر آیا تھا.

اگر ھم ایمانداری سے ھر مذھب کا مطالعه کریں تو آسانی سے سمجھ سکتے ھیں که تصوف کی ابتدا کب سے ھوئی اور اسلامی تعلیمات میں اس کے نظریات سے اختلاف کیوں ھے ,

ھندو اپنشدوں میں روحانی منازل پانچ ھیں جبکه اسلامی تصوف میں تین روحانی منازل ھیں علم الیعقین,عین الیعقین ,حق الیعقین .
صوفیه کی ریاضت و مجاھدات سے تمام خواھشات نفسانیه کو کچل کر آپنے تئیں روح کے اندر مدغم کرکے صوفیه کی اصطلاح میں فنا فی الله کا مقام ھے مقام فنا فی الله کے بعد بقا بالله کا مقام بیان کیا جاتا ھے.
جب ایک صوفی صفات الھی کا لباس زیب تن کر لیتا ھے تو پھر اسے حیات نو کا لباس پهنایا جاتا ھے.
اور ایک نئی زندگی پاتا ھے.جبکه ھندو مذھب میں یھاں خدا اس انسان میں حلول کر جاتا ھے جو که اکثر مسلم صوفیه مثلا بسطامی,حلاج,ابن عربی وغیره کا عقیده ھے.

انشاءالله آنے والی پوسٹوں میں اس پر ضرور روشنی ڈالیں گے.

چینی فلسفه(551 قبل مسیح)

 کے بعد تصوف پر ھندوستانی فلسفے(ڈاکٹر ھاگ 1400/2000,قبل مسیح)
پروفیسر انباش چندورت 8000/10,000/قبل مسیح.
اور مھاتما تلک کی راۓ میں 4000,5000/قبل مسیح .
پروفیسر میکس ملر کی تحقیقات میں 1,000/قبل مسیح بتاتے ھیں.
ملحاظه فرمائیں .
قدیم سنسکرت لٹریچر 1562/ترجمه رگوید جلد:4--ھیپرٹ لیکچرز ص:240.

اسلام سے ھزاروں سال قبل مذاھب میں تصوف موجود تھا آج کا بدبخت کازب اور دشمن اھلبیت ع  مسلمان کیسے اسلام سے منسوب کرتا ھے.

اسلام میں داخل کرنے والے وه دشمنان  اھلبیت ع شامل تھے,
 جو اھلبیت ع کے علم و حکمت سے متعصب و حسد رکھتے تھے اور اھلبیت ع کے زھد وتقوی و فضیلت و عظمت سے 
متاثر ھوتے ھوۓ اھلبیت ع کی عظمت و اھمیت کو کم کرنے کیلۓ اس شیطانی و مشرکانه  عمل کو پروان چڑھایا.

اسلامی تصوف پر بالخصوص بدھ فلسفے(563,قبل مسیح) کی گھری چھاپ دکھائی دیتی ھے.

(براه کرم مکمل تفصیلات کیلۓ مھاتما گوتم بدھ کی حیات کا مطالعه فرمائیں پھر اسلامی صوفیه کے نظریات و عقیده سے موازنه کریں).

بعد ازاں اس میں یونانی فلسفه نو فلاطونیت کی بھی کافی جھلک نمایاں ھے اس کے ساتھ ساتھ قدیم ایران کے دو مذھب زرتشتی (660,قبل مسیح)

اور مانوی(215, ء) عقائد کی بھی تصوف میں بازگشت سنائی دیتی ھے,

 البته تصوف میں چینی اور ھندوستانی فلسفه نمایاں ھے.

بلاد فارس کے شیوخ نے جن کے چین اور ھندوستان سے روابط تھے دونوں فلسفوں کا معجون تیار کیا اور اس مجعون کے مرکب کو اسلامی سر زمین کو منتقل کیا.

صوفیه کے عقائد ایسے امور پر مشتمل ھیں جن کا اسلام سے دور تک کا واسطه نھیں ھے,

 ان کے عقائد کا خلاصه یه ھے حلول,اتحاد,وحدت الوجود,حقیقت محمدیه,اولیاء,نظام کائینات,جنت دوزخ,_کرامات,عمل و جھاد,علم و رھبانیت اور تفسیر قرآن.

درج بالا مسائل میں صوفیه آپنا مخصوص زاویه فکر پیش کیا تھا اور انھوں نے مسائل کی ایسی تاویلات کی تھیں جو اسلامی نظریات سے بھت دور تھیں.

مسلمانوں اور ان کے آئمه اھلبیت ع نے صوفیه کیلۓ کفر اور الحاد,زندیقی کے فتوۓ جاری کیۓ ھیں.

لفظ زندیق کا اطلاق سب سے پهلے صوفیه پر کیا جاتا تھا.
سنی شیعه علماء و فقھاء جب بھی لفظ زندیق کا اطلاق کرتے تو اس سے صوفیه ھی مراد ھوتے تھے.

بعض لوگ ایسے بھی گزرۓ ھیں جو صوفیه کے شعبده بازوں سے متاثر ھو کر ان کی جمارت میں داخل ھوۓ تھے.

ان لوگوں پر غباوت اور جھالت غالب آ گئی تھی وه آپنی سادگی اور کم فھمی کی وجه سے ان کے دام میں پھنسے تھے,

 انھیں صوفیه کے اصل اھداف کا علم نھیں تھا ان میں سے بعض افراد ایسے ناھل اور کودن تھے که انھوں نے اسلامی نصوص و اصلاحات کی ایسی تشریحات کیں جو صوفیه کے عقائد کے مطابق تھیں .

وه آپنی سادگی سے یه سمجھتے تھے که اسلام کی خدمت کر رھے ھیں اور لوگوں کے سامنے اسلام کے ایسے اھداف و مقاصد منکشف کر رھے ھیں جو ان کی نگاھوں سے اوجھل ھیں.

                           (جاری ھے)

تصوف,تزکیه تھذیب نفس

یه مختصر تحریر ان بھائیوں کیلۓ جو تصوف پر ھماری پوسٹوں سے اختلاف رکھتے ھیں

جس طرح غالی,نصیری کا شیعت اور اسلام سے کوئی تعلق نھیں اسی طرح صوفیه کا بھی تعلیمات اھلبیت ع و اسلام سے کوئی تعلق نھیں


بلکه ان کے عقائد اور غالی نصیری کے عقائد میں مشرکانه و کافرانه اعمال ھیں.
صوفیه کا عقیده ھے که ھمیں دیدار الھی نصیب ھوتا ھے. 

یه دعوی غلط ھے جب حضرت موسی ع  دیدار الھی کے قابل نھیں یا سکت نھیں رکھ سکتے جو اولاالعظم نبی ھیں وه بے ھوش ھو جاتے ھیں ایک عام انسان ریاضت کے زور پر کیسے.

دوسرا صوفیه کھتے ھیں که جب ھم مراقبه تک پهنچ جاتے ھیں تو خدا ھم میں حلول,اتحادکر جاتا ھے.
یه مشرکانه دعوی ھے.

تیسرا صوفیه کھتے ھیں قرب الھی دنیا سے لا تعلق, بیوی بچے چھوڑ کر جنگل پهاڑوں میں جسم کو ازیت دے کر حاصل کیا جاتا ھے,
 یه طریقه بھی قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات کے خلاف ھے.
صوفیه عقیده تناسخ کے بھی قائل ھیں جو قرآن و سنت سے متصادم ھے.

اھلبیت ع نے نه ھی ترک دنیا اختیار کیا اور نه ھی بیوی بچوں سے دوری بلکه عام معاشرۓ میں ره کر ھی تزکیه نفس اور قرب الھی حاصل کیا.

اسلام انسان کو گناه سے فرار ھونے کیلۓ گوشه نشینی اور مصروفیات کے ترک کرنے کی نصیحت نھیں کرتا بلکه انسان سے چاھتا ھے که اجتماعی زمه داریوں کو قبول کرۓ,
 اور اسے قابو میں رکھے اور گناه اور کجروی سے آپنے آپ کو دور رکھے.

الله تعالی کے بندوں کی خدمت کرو اور الله کی رضا کی خاطر نفسانی خواھشات اور شھوات سے دور رھو.

اسلام نھیں کھتا که تقوی حاصل کرنے کیلۓ کام اور کسب سے لاتعلق ھو جاؤ.
جب اھلبیت ع نے رزق حلال کیلۓ محنت و مزدوری کی ھے تو صوفیه کیوں کام کرنے سے جی چراتے ھوۓ جنگل اور تنھائی کا رخ اختیار کرتے ھیں. 

اسلام نھیں کھتا که دنیا کو ترک کرتے ھوۓ عبادت میں مشغول رھو اور الله کی نعمات سے محروم رکھو.

اور بھی بھت سی مثالیں ھیں جو تصوف اور تزکیه نفس کے طریقه عوامل کو جدا کرتی ھیں .
خدا ھمیں انسانیت کے سیدھے راستے اور کمال مدارج کے طے کرنے کی ھدایت فرماتا ھے.
خود پسندی,تکبر,نفسانی خواھشات اور آرزوں کے پردوں کو ھٹانے کی تعلیم کرتا ھے.
تزکیه نفس اور خود سازی تھذیب کیلۓ قرآن میں کافی آیات اور پیغمبر اکرم ص اور اھلبیت طاھرین ع کے فرامین موجود ھیں تو پھر ھم کیوں دوسرۓ مذاھب سے اخذ صوفیانه طرز عبادت , ریاضت و رھبانیت کو فوقیت دیتے ھیں.

ھماری 15/پوسٹ تصوف پر تعلیمات اھلبیت ع کی روشنی میں وضاحت پیش کی گئیں ھیں جو ابھی جاری ھیں جن کے ماخذ بھی 
تین مختلف مسالک کے مصنفین کی مدد سے ھیں تاکه کوئی ابھام نه رھے اھل تشیع کی معروف کتب,ابن جوزی,اور جا الحق کے رد میں لکھی جانے والی کتاب و دیگر مختلف مفکرین کی راۓ سے جیسے مشھور صوفی حضرت سلطان باھو نے بھی ان صوفیوں کی مذمت کی ھے اور انھیں شیطانی علم کا حامل کھا ھے.
 پڑھیۓ عین الفقر.

لھذا تصوف کا اسلام میں کوئی مقام نھیں اھلبیت ع نے ان صوفیوں کے بارۓ سختی سے احادیث فرمائی ھیں.اور انھیں شیطانی منبه قرار دیا ھے.

خداوند عالم قرآن میں فرماتے ھیں وه دنیاوی زندگی کا علم تو رکھتے ھیں لیکن اخروی زندگی(باطنی)سے غافل ھیں.

امیرالمومینین ع روح کے بارۓ فرمایا ایک در نایاب ھے جس نے اس کی حفاظت کی اسے وه اعلی مرتبه تک پهنچاۓ گی اور جس نے اسکی حفاظت میں کوتاھی کی یه اسے پستی کی طرف لے جاۓ گی.

حضرت علی ع نے فرمایا که ھمیشه الله کا زکر کرنا روح کی غزا ھے نیز فرمایا الله کے زکر کو فراموش نه کرو کیونکه دل نور ھے.

قرآن و حدیث میں قلب کے متعلق بھت زیاده تعلیم دی گئی ھے.قلب سے مراد دل ھے جس کی بیداری اور زکر الھی میں مشغول رکھنا ھی انسانیت ھے.
قرآن میں ھے الله تعالی نے دلوں میں ایمان قرار دیا ھے.اور آپنی خاص روح سے ان کی تائید کی ھے.
امام جعفر صادق ع نے آپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ھے آپ نے گرمایا که قلب کیلۓ گناه سے بدتر کوئی چیز بدتر نھیں.قلب گناه کا سامنا کرتا ھے اور اس سے مقابله  کرتا ھے یهاں تک که گناه قلب پر غالب آ جاتا ھے اور وه قلب کو الٹا کر دیتا ھے.
مذید ھم تصوف پر لکھنے کے بعد انشاءالله خود سازی,تذکیه نفس پر لکھیں گے تاکه تصوف کو تذکیه نفس اور خودسازی کو جدا کیا جا سکے.

نوٹ:ھماری تحریریں قرآن و تعلیمات اھلبیت ع سےاخوز ھوتی ھیں.
جھاں اختلاف کی گنجائش نھیں ھاں پھر بھی اختلاف ھر بھائی کا حق ھے جو علمی ھونا چاھیۓ ناں که تنقیدی و تعصب.

جمعرات، 25 جولائی، 2019

تصوف پر کنفیوشس کے اثرات.

تصوف دراصل کنفیوشیس,بدھ مت,اور ھندوؤں سے ماخوز ھے

 مذید عیسائیت اور یھودی غالی فلسفه کا بھی اثر موجود ھے.

"قسط نمبر:15 ---------تحریر:  "سائیں لوگ

مگر تصوف پر آج ھم چینی فلسفه کے اثرات کا درست جائزه لیں گے.
کچھ محقیقین یه دعوی کرتے ھیں که تصوف پر چینی فلسفه کے گھرۓ اثرات ھیں چنانچه ڈاکٹر عمر فروخ آپنی کتاب التصوف الاسلامی میں لکھتے ھیں که چین کا سب سے بڑا فلسفی کنفیوشیس (Confucius)تھا.
وه عملی مفکر اور اجتماعی مصلح تھا وه صرف نظریاتی اور دینی فقیھه نھیں تھا البته اس کے پیروں نے اس کے بعد الھیات کے مسائل اور فلسفی اختلافات پر بھت سی کتابیں لکھیں تھیں.

چین میں ایک اور شخص بھی تھا اس کا نام لی آره یا لا ؤ ٹسے لکھا ھے وه عمر میں کنفیوشیس سے چھوٹا تھا.

یه سات سو سال قبل مسیح کا واقعه ھے اس نے چین میں صوفیانه نظریات پیش کیۓ تھے.
اس نے بشری لذات سے کناره کشی اختیار کر لی تھی اور لوگوں  سے میل جول ختم کر لیا تھا حد تو یه ھے که وه لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کوبھی منافقت سمجھتا تھا.

اس نے دو حصوں پر ایک کتاب لکھی Tao,اور Te,کی تشریح کی جس میں پانچ ھزار الفاظ یا زیاده لکھے.
وه کتاب محافظ کے حوالے کرکے چین کی حدود سے نکل گیا اور دنیا جھاں کی نظروں سے غائب ھو گیا.

برادران اسی سے ھی ملتا جلتا عمل ابراھیم بن ادھم کا ھے انھوں نے بھی بلخ کی حکومت چھوڑی اور بلاد فارس کو خیر باد کھه کر سیاحت کرتے رھے,

 طویل عرصه بعد جا کے اسے گوھر مقصود ملا .

جیسے مھاتما گوتم بدھ نے کیا  بادشاه کا بیٹا ھونے کے ناطے سلطنت چھوڑ کر 23/25 یا 27/سال جنگلووں میں ریاضت و عبادت کرتا رھا تب جا کے مراقبه کی منزل پر پهنچا.

لفظ ٹاؤ سے مراد راسته اور ٹی سے مراد دروازه ھے اسکی تشریح ھزاروں سال بعد بابی فرقه کے بانی علی محمد شیرازی نے آپنی جھوٹی نبوت کی بنیاد رکھی.

کچھ فلاسفه کھتے ھیں اس سے مراد سالک ھے.

چینی صوفی اور اسلامی صوفی دونوں کی نظر میں زندگی کی حیثیت ایک سفر کی سی ھے .

اسلامی صوفی کھتے ھیں زات حق ھی موجودات کی علت العلل اور غایت الغایات ھے.
صوفیه زندگی میں کسی کی تقلید نھیں کرنی چاھیۓ.
چینی فلسفه کا تزکیه نفس اور تطھیر نفس کا نظریه مسلمانوں کے توبه اور تقوی سے ملتا ھے.
چینی جسے اشراق کھتے ھیں مسلمان صوفی اسے کشف کھتے ھیں.

چینی جسے اتحاد و اتصال کھتے ھیں مسلمان صوفی اسے بقاء کھتے ھیں.

چینی تصوف اور مسلم تصوف کی مشترکات کی تائید کتاب المذاھب الکبری فی التاریخ میں سے بھی ھوتی ھے.

قدیم چینی صوفیه جسم کو ناپسندیده اشیاء کا مجموعه سمجھتے تھے.وه کھتے تھے که نفس کشی ضروری ھے اور یھی فلسفه مسلم صوفی کا ھے.

چینی صوفیه نے حیات,نفس,روح کے متعلق جو نظریات پیش کیۓ تھے وھی نظریات دوسری اور تیسری صدی ھجری کے صوفیه کے ھاں بھی پاۓ جاتے ھیں.

چینی تصوف عربی تاجروں کے قبل از مسیح تعلقات تھے اسی وجه سے یه تصوف عرب ممالک میں روشناس ھوا.
اگر اس دوران کچھ مسلم حکمران ایکشن یا تدارک نه کرتے تو آج اسلام مکمل طور پر ترک عمل کے دین کے طور پر متعارف ھوتا .
جیسا که آجکل غالی نصیریوں نے مذھب شیعه اثناۓ عشریه کی پهچان مشکل بنا دی ھے.

چینی تصوف کے ساتھ ساتھ برھمنی اور بدھ نظریات حلول ,اتحاد اور تناسخ کو بھی درآمد کرکے اسلامی تصوف کا حصه بنا دیا.

اگر موقع ملا تو ھم دیگر مذاھب کے تصوف اور اسلامی تصوف پر وضاحت پیش کریں گے.

                        (جاری ھے)

صوفیه کی حقیقت

:صوفیه, موسیقی اور امرد پرستی

(نوخیز بغیر مونچھ داڑھی کے لڑکوں سے دوستی)

 پوسٹ طولانی ضرور ھے پر پڑھیں ضرور اور صوفیوں کی اصلیت سے باخبر ھوں

"قسط نمبر :14---------تحریر:  "سائیں لوگ

صوفیه بڑۓ حساس ھوتے ھیں وه راگ سے بھت متاثر ھوتے ھیں اور سماع سے ان کے شوق میں اضافه ھوتا ھے.

وه وجد میں آ کے رقص کرنے لگ جاتے ھیں اور یوں لگتا ھے جیسے کوئی غیر مرئی قوت ان کے ارادۓ کے بغیر انھیں حرکت دے رھی ھے.

ایک صوفی ابوالحسن نوری سے منقول ھے که میں صوفیه کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھا سب خاموش تھے پر ایک صوفی   نے سر اٹھایا اور یه اشعار پڑھے,

 ترجمه:جلتی دھوپ میں محبت مارۓ ایک درخت سے آواز آئی که میرۓ رونے نے اسے جگاۓ رکھا اور اس کے رونے نے مجھے جگا دیا وه محبت شکوه کرتی ھے تو میں اسے سمجھ نھیں پاتا.

جیسے ھی اشعار ختم ھوۓ حاضرین نے اٹھ کر ناچنا شروع کردیا
اور آپنے ھوش حواس میں نه رھے.
(عبدالله ابن علی سراج مصنف اللمع فی التصوف)

جنید بغدادی سے کسی نے پوچھا آپ پهلے تو بھت موسیقی سنتے تھے اور وجد میں رقص بھی کیا کرتے تھے لیکن آجکل خاموش ھیں آخر کیوں جواب دیا.
ترجمه آیت:
تمھیں پهاڑ ایک جگه جمے ھوۓ دکھائی دیتے ھیں یه بادلوں کی طرح اڑ رھے ھوں گے.یه اسی کی صنعت ھے جس نے ھر چیز کومحکم کیا ھے.(سوره نمل ع:88).

عبدالله سھروردی عوارف المعارف میں لکھتے ھیں روح کو نغمات سے لذت حاصل ھوتی ھے.
کیونکه نغمات دراصل نفس کی روح سے خفیه بات چیت کا وسیله ھیں.یه عاشقوں کو خفیه پیغامات پهنچاتے ھیں.

نفس اور روح ایک دوسرۓ کے عاشق ھیں جیسے الله نے آدم سے اسکی زوجه کو بنایا تاکه اس سے راحت حاصل کرۓ.
سوره اعراف ع:189.

تصوف بین الحق والخلق کے مصنف لکھتے ھیں کسی گلو کاره نے شعر پڑھا اس محفل میں ابوالفتح صوفی بھی موجود تھے شعر سے متاثر ھو کر وجد میں آ گۓ اور دھاڑیں مار کر سینا پیٹتے ھوۓ بے ھوش ھو گۓ.
جب محفل ختم ھوئی لوگوں نے اٹھایا تو انکی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی.

ایک دن ابن الفارض قاھره کے بازار سے گزرۓ دیکھا که شاھی محافظوں کا دسته ناقود بجا کر گانا گا رھا ھے ابن فارس نے جب سنا تو وجد میں آ گۓ اور بیچ بازار ناچنا شروع کر دیا.
انکی دیکھا دیکھی سب راه گیر بھی ناچنے لگے.
جب ناچتے ناچتے سب بے ھوش ھو گۓ تو شیخ نے کپڑۓ اتار کر گانے والوں کی طرف اچھال دیۓ.

ڈاکٹر زکی مبارک لکھتے ھیں زولنون مصری کھتے ھیں موسیقی مخاطبات اور اشارۓ کے وسائل میں شامل ھیں اور اس سے انسان خدا سے متصل ھو جاتا ھے.

یحیی بن معاز صوفی کھتے ھیں موسیقی ھر اس ایک کیلۓ جس میں خدا کی محبت موجود ھے راحت و خوشی کا پیغام ھے.

آجکل جو ھم کھتے که موسیقی روح کی غذا ھے غالبا یه صوفیوں سے ماخوز ھے.

ابن جابر اشبیلی کے ایک شاگرد نے ایک خوبصورت جوان سے کھا خدا کیلۓ مجھے آپنے چھرۓ کا بوسه لینے دو لڑکے نے بوسه نه لینے دیا,
 اور شیخ کے پاس جا کر شاگرد کی  شکایت کی شیخ نے لڑکے سے پوچھا تو نے اسکی خواھش پوری کی لڑکے نے جواب دیا نھیں شیح نے کھا تو اسکی خواھش ٹھکرا کر اسے سزا دےچکا ھے اب ادھر کیا کرنے آیا ھے.

ڈاکٹر زکی مبارک کھتے ھیں میں خود محفل سماع میں کئی دفعه شامل ھوا کھنے کو تو یه محفل سماع ھوتی ھے مگر حقیقت میں محفل موسیقی ھوتی ھے.

ابن جوزی نے تلبیس ابلیس میں لکھا ھے,
جب صوفیه دوران  محفل سماع طرب کی کیفیت طاری ھوتی ھے تو رقص کرنے لگتے ھیں,
 اور آپنے کپڑۓ اتار کر گلوکاره یا گلوکار کی نظر کرتے ھیں کچھ صوفی جوش میں آ کر کپڑۓ پھاڑ بھی دیتے ھیں.

ابن قیم کے مطابق اس طرح غنا کی حرمت شراب سے بھی زیاده ھے.ابن قیم نے کھا ھے که شراب کے نشے کی عشق کے نشے سے کوئی نسبت ھی نھیں ھے.
شراب کا نشه ایک دو روز میں اتر جاتا ھے مگر عشق کا نشه اترنے کا نام ھی نھیں لیتا.یه اس وقت اترتا ھے جب عاشق مر جاتا ھے.

ابو عبدالله بن بطه عکبری نے کھا ھے که ایک شخص نے مجھ سے غنا کے متعلق سوال کیا تو میں نے اس سے کھا علماء اسے حرام اور صوفیه اسے جائز سمجھتے ھیں.اور آپنی خود ساخته شریعت کی پیروی کرتے ھیں.

غزالی جو فقیه کم اور صوفی زیاده تھے صوفیه کے موقف کی حمایت کی ھے.

ابن جوزی مذید لکھتے ھیں که صوفیه, امرد کو (یعنی ان لڑکوں کو جن کی داڑھی مونچھ نھیں نکلی ھوئی ھو )آپنے ساتھ رکھتے ھیں.

اور انھیں دیکھ کر لذت حاصل کرتے ھیں وه کھتے ھیں خدا ان کے جسم میں حلول کر چکا ھے.
اور ھم اس کے زریعے سے حسن خالق کو دیکھتے ھیں اور بصورت انسان دراصل خدا کا مشاھده کرتے ھیں.

ایک مشھور صوفی ابو نظر غنوی کے متعلق بیان کیا جاتا ھے که ایک مرتبه انھوں نے خو برو لڑکے کو دیکھا تو دیکھتے ھی ره گۓ جب لڑکا جانے لگا تو ابو نظر نے کھا تجھے خدا وند سمیع کی بلند عزت کا واسطه کچھ دیر رک جاتے میری آنکھیں جی بھر کر تجھے دیکھ لیتیں.

عبدالله فرازی بیان کرتے ھیں ھم احرام باندھے مسجد خیف میں بیٹھے تھے که ھمارۓ پهلو میں مراکشی لڑکا آ کر بیٹھ گیا میں نے محارب احسان سے کھا جو اس خوبصورت لڑکے کو گھور رھا تھا که بھائی حرمت والے مھینے اور حالت احرام میں اور محترم شھر میں ھیں اس کے باوجود تم لڑکے پر لٹو ھو گۓ.

ابو حمزه صوفی کھتے ھیں که میں نے بیت المقدس میں ایک صوفی کو دیکھا جو آپنے ساتھ ایک خوبصورت لڑکا رکھتا تھا.
صوفی اور لڑکے کی رفاقت کافی عرصه جاری رھی.
پھر اچانک صوفی مر گیا تو فراق میں لڑکا بھی سوکھ کر کانٹا ھو گیا.

ابن جوزی لکھتے ھیں ابی عبدالله حسین محمد دامغانی سے نقل کیا ھے بلاد فارس میں ایک بلند مرتبه صوفی نے ایک خوبرو لڑکے کو ساتھ رکھتا تھا ایک دن شیطان نے دبوچ لیا اور اس کے ساتھ بدفعلی کر بیٹھا بعد میں سخت ندامت ھوئی اس کا گھر سمندر کنارۓ تھا بالاخر چھت سے کود گیا خودکشی کے وقت یه آیت پڑھ رھا تھا .

فتو بوا الی باریکم فاقتلو انفسکم.
ترجمه آپنے رب کے حضور توبه کرو اور آپنے کو قتل کردو.(سوره بقره ع:54)

ابن جوزی کھتا ھے اگر وه لڑکا آپنے پاس نه رکھتا تو یه گناه ھی نه کرتا.

خودکشی گناه کبیره ھے  پاک نبی ص نے فرمایا جو ایسا کرۓ گا ساری زندگی دوزخ کی آگ میں جلتا رھے گا.

اسی طرح صوفی حسن نوازی بھی لڑکا پرستی میں بھت بدنام تھا.

ایک صوفی یوسف بن حسین آپنے ساتھیوں سے کھتا تھا میرۓ ھر فعل کی تقلید کرنا پر خوبصورت لڑکوں کی صحبت اختیار نه کرنا.

محمد بن اسباط صوفی ایک نو خیز لڑکے کے چھره کو دیکھنے میں منھمک تھا .

اسود بن طالوت صوفی بھی خوبصورت لڑکوں کو دیکھنے میں مگن رھتا تھا.
ابو عمر صوفی نے کئی بار اسے ڈانٹا.

قیشری نے بھی ان واقعات کو خوب لکھا ھے.
دیکھیۓ رساله قیشریه ص:184.

ایک کم بخت صوفی کھا کرتا تھا که ھر بھلائی خوبصورت چھروں میں چھپی ھے.
کیونکه رسول الله ص کا فرمان ھے خوبصورت چھروں سے بھلائی طلب کرو.
عقیل اور یحیی معین کھتے ھیں یه حدیث خودساخته ھے اور صوفیوں کی اختراع ھے.

ابراھیم بن ادھم کھتے ھیں جو عورتوں کی رانوں کا شیدائی ھو جاۓ وه کبھی فلاح نھیں پاتا.

صوفیه شادی کو معیوب سمجھتے ھیں لھذا جب فطری زریعه سے خواھش پوری نه ھو تو پھر خوبصورت لڑکوں سے جنسی تسکین لیتے ھیں.

تلبیس ابلیس کے مصنف ابن جوزی جو شیعه مذھب کے بھت مخالف تھے انھوں نے تلبیس ابلیس میں لکھا ھے که شیراز میں صوفیوں کی محفل ھوتی تھی سب صوفی جاتے تھے .
ایک دن دوران سماع صوفی مر گیا تو سب صوفی تعزیت کیلۓ بیوه کے پاس گۓ اور تصوف کی زبان میں تعزیت کی سب صوفی عورتیں بھی جمع تھیں ابن خفیف صوفی نے کھا یھاں کوئی اور ھے بیوه نے کھا نھیں تو ابن خفیف نے کھا بتائیں غم و رنج اور عذاب دینے کا کیا مقصد ھے ھم باھمی ملاپ کو کیوں چھوڑ رھے ھیں حالنکه باھمی ملاپ سے انوار ایک دوسرۓ سے ملتے ھیں.صفائی پیدا ھوتی ھے اور برکت میں اضافه ھوتا ھے.

وھاں پر موجود خواتین نے کھا جیسے حکم کریں ھم تعمیل کریں گے.
اس کے بعد ساری رات زنا ھوتا رھا صبح سب آپنے گھروں کو چلے گۓ.

ابن جوزی نے یه روایت محسن تنوخی سے نقل کی ھے.

اس طرح کے واقعات صوفیه  میں عام ھیں.

خدا بھلا کرۓ عضد الدوله دیلمی کا جس نے آپنے عھد سلطنت میں صوفیوں کی جماعتوں کو گرفتار کیا اور انھیں کوڑۓ مرواۓ اور ان کی جماعتوں کو منتشر کیا.

اگر صوفیه کی اس بات کو سچ مان لیا جاۓ تو بھی صوفیه کی ھلاکت میں کوئی شک نھیں دل  خدا کا عرش ھے, دل خدا کی جلوه گاه ھے.
جس دل میں خدا کی محبت ھونی چاھیۓ تھی وه ان صوفیوں نے حسینوں کی محبت کا مرکز بنا دیا ھے.

فرض کریں اگر ایک شخص درندوں میں بھٹ جاتا ھت اور دیکھتا ھے درندۓ سوۓ ھوۓ ھیں تو انھیں جگاتا ھے اور انھیں جوش دلاتا ھے پھر اگر وھاں سے زنده آ بھی جاۓ تو زخمی تو ضرور ھو گا.

جس طرح درندوں سے چھیڑ چھاڑ اچھی نھیں اسی طرح لشکر حسن سےبھی اچھی نھیں .
(بحواله تبلیس ابلیس ابن جوزی ص:270)

صوفیه کو اس بات کا اندازه نھیں تھا که لوگوں نے ان کے چھوٹے بڑۓ عمل پر نگاھیں رکھے ھوۓ ھیں اور وه ان کا احتساب کریں گے .

ھم اھلسنت کے مشھور مورخ ابن جوزی کے مشکور ھیں جس نے ان صوفیوں کو بری طرح بے نقاب کیا ھے.

ھم نے صوفیه کے چند تاریک پهلو آپنے قاری برادران  کے سامنے پیش کیۓ ھیں تاکه آپ کو اندازه ھو که ان کا پورا نظام مکاری,دھوکه,اور ریاکاری پر مبنی ھے.

ان کا اندرون انتھائی تاریک اور بھیانک ھے ظاھری طور پر حق کے داعی اور اعلی کردار کے لگتے ھیں.

باقی میڈیا بھی آجکل ان کی حقیقت دکھاتا رھتا ھے.

ھم بھی ابن جوزی اور سید ھاشم معروف الحسنی کی تحقیقی تحریروں سے آپ برادران کو صوفیوں کے حقیقی روپ سے روشناس کرا رھے ھیں.

                            (جاری ھے)