مرکز عقائد شیعه شناسی

جمعہ، 26 جولائی، 2019

کیا پنجتن پاک ع سے خالی الفاظی,زبانی دعوی محبت
ولایت تک پهنچا سکتا ھے

ایک فکر انگیز تحریر ضرور مطالعه کریں.

قسط نمبر:19 ------- تحریر:    سائیں لوگ


اثناۓ عشریه شیعوں کا اعتقاد ھے که حضور نبی ص کے باره وصی ھیں جو سب کے سب قریش میں حضرت ھاشم کی نسل سے ھیں ,
جیسا که آپ نے فرمایا تھا ان میں سے پهلے حضرت علی ع اور آخری حضرت مھدی معود ع ھیں.

نیز ان کے نذدیک شریعت کا ظاھری پهلو درست اور ناقابل تنسیخ ھے.
تو جب ان مقدس ھستیوں سے اگر کسی کا تعلق ھو تو پھر اسے غیر معصوم کی کیا ضرورت ھے جن میں غلطی کا احتمال ھو ساتھ ان کا کردار بھی مشکوک ھو.

اھل تصوف بھی پنجتن پاک کا بھت زکر و محبت کا دعوی کرتے ھیں اس لیۓ ھم ان برادران کے اس شبے کو بھی دور کرنا چاھتے ھیں اگر یه بات ھے تو پھر غیر مذھب کے لوگ بھی اھلبیت ع سے بھت محبت کرتے ھیں اور سیرت پر عمل بھی,

ھندو,سکھ,انگریز,یھود سب مذاھب کے لوگ شامل ھیں.

 تو پھر کیا وه بھی ولی ھیں یا بغیر اسلام قبول کیۓ جنت چلے جائیں گے,
 نھیں قطعا نھیں ھاں اس محبت کا صله انھیں ان کے عذاب میں تخفیف کا سبب ضرور بن سکتا ھے.

لھذا صوفیه کی ظاھری خالی محبت کوئی معنی نھیں رکھتی, اور نه ھی شیعه اثناۓ عشریه سے صوفیه کے تعلق کو جوڑا جا سکتا ھے ,
صرف یا علی ع کا نعره لگانے والا ولی نھیں بن سکتا ولی بننے کیلۓ توحید کا پرچار اور احکام پر کاربند رھنا  لازم ھے ,

مگر ان صوفیه میں تو شرک ھی شرک شامل ھے.

اگرچه صوفیه حضرت علی ع کی روحانی ولایت کا اقرار تو کرتے ھیں مگر سیاسی ولایت کے انکاری ھیں.
وه آپنے سلسلوں کو حضرت علی ع سے تو جوڑتے ھیں مگر وه اھلبیت رسول ص کے حق امامت و زعامت کے قائل نھیں ھیں.

صوفیه تو یه دعوی بھی کرتے ھیں که جب ھم ولایت لینے کیلۓ پاک نبی ص کی بارگاه میں پهنچتے ھیں تو وھاں حضرت ابوبکر ,عمر,عثمان اور مولا علی ع کے ساتھ حضرت عائشه کے ساتھ محفل جمی ھوتی ھے پاک نبی ص ابوبکر سے تعارف کراتے ھوۓ حضرت علی ع تک جاتے ھیں پھر ولایت کی سند مولا علی ع سے لے کر دیتے ھیں.

اب ھم کیسے مان لیں گے که باغ فدک کے غاصب  آج بھی روحانی طور پر آپ ص کے ساتھ ھیں اور شیخین کی رفاقت پر فخر محسوس کرتے ھیں.

دیکھیۓ کتاب چنبے دی بوٹی آوائل صفحات میں.

صوفیه کی فقه بھی فقه اھلبیت ع نھیں ھے,
 ھاں نزاری البته مرشد,شیخ,پیر یا قطب کھلاتے تھے وه شاه قلندر اور شاه غریب جیسے نام آپناتے تھے یا آپنے ناموں کے ساتھ اکثر شاه  جیسے صوفیه لقب کا اضافه کرتے تھے.تو لوگوں نے سمجھا سب اولاد اھلبیت ع سے سید ھیں .

اثناۓ عشریه شیعه معرفت الھی کیلۓ معرفت نفس کا درس دیتی ھے.

خالص اسلامی عرفان یھودیت,عیسائیت,مجوسیت,بدھ مت,اور ھندو مت کے عرفان سے قطعا محتلف چیز ھے,

 اس کے روحانی پیغام کا خلاصه بس یه ھے که ھم الله کو پهچانیں.

امام علی ع کا قول ھے:
 من عرف نفسه فقد عرف ربه.
ایک عارف کے شب و روز توحید کے جلال میں بسر ھوتے ھیں,
 اور وه خدا اور کائینات کے بارۓ تفکر ,تلاوت قرآن اور اس میں تدبر ,شب زنده داری ,دعا,مناجات,توبه و استغفار,کے زریعے نفس اور روح کی اصلاح و تربیت کرتا ھے.

اور روح کے دونوں مراکز یعنی دل و دماغ کے راھوار کی باگ کو آپنے قابو میں رکھتا ھے.شریعت محمدی کی پانبدی کرتا ھے.

ناں که آستانوں خانقاھوں پر بیٹھ کر یا بیوی بچے و خاندان کو چھوڑ کر جنگل کا رخ کرتا ھے,

 اور بغیر محنت و مزدوری کے توکل الله ترک دنیا کرتا ھے.
نه مسجد کے کونے میں حلقے بنا کر زکر کرتے ھیں نه مراقبے,چلے,نه سماع,نه تارو طنبور نه قوالی و دھمال کے زریعے خدا کی تلاش ,
بلکه یه سب غیر شرعی افعال ھیں نه نبی پاک نه اھلبیت ع اور نه ھی صحابه سے ثابت ھیں.

تو پھر ان صوفیه کے سامنے اس کائینات کی حقیقت کیسے آشکار ھو جاتی ھے .اور دیدار خداوندی جو ایک نبی ع برداشت نھیں کر سکتا ایک ریاضت والا انسان کیسے قابل ھو جاتا ھے.
لوح محفوظ کا مطالعه کوئی نبی نه کرسکا یه صوفیه کیسے کر لیتے ھیں ایک نبی الله کی وحی کے بغیر غیب نھیں جان سکتے تو یه گنھگار صوفی تمام کائینات کا مشاھده کر لیتا ھے.

لگتا ھے ان صوفیه کے عقیده میں ضرور کچھ گڑ بڑ  ھے یه سب کچھ جاننے کیلۓ ھم سے جڑۓ رھیۓ ھم ان صوفیوں کو ضرور بے نقاب کر کے رھیں گے.

یه زلفاں والی سرکار,کمبل والی سرکار,نانگا پیا,سنگله والی سرکار,
مجنوں سائیں یه سب کیا تماشه ھے کیا ان سب میں ھندو رنگ نھیں ھے.

                           (جاری ھے)

صوفیه آپنے نام کے کلمے بھی پڑھواتے رھے ھیں.

صوفیه کے کفرانه اور مشرکانه دعوۓ

               
قسط نمبر:18 ---------تحریر: "سائیں لوگ

ھم چاھتے تھے که ایک دفعه تو مکمل تصوف کے بارۓ برادران اسلام کو آگاھی دیں.
 جسمیں یه ثابت کریں که دین اسلام (شیعه) میں اسکی کوئی گنجائش نھیں یه عمل صرف دشمنان اسلام و اھلبیت ع نے صرف منزلت اھلبیت اطھار علیھم اسلام کو زک پهنچانے کیلۓ اغیار سے لیا.

تو آج ھم ان صوفیه کا زکر کرتے ھیں جنھوں نے واضح پیغمبر ی خدائی  دعوی کیا.
کل سے ھم پهلے عرب کے مشھور صوفیه پھر برصغیر کے چند نامور صوفیه کے حالات زندگی پر لکھیں گے.

آخر میں چند اقساط تعلیمات اھلبیت ع کے فرامین کی روشنی میں تصوف کی مذمت پر بیان کریں گے.

مذھب حنفیه میں سے بریلوی اور مذھب شیعه میں سے نصیری غالی,
(شیعه اثناۓ عشریه سے ان کا کوئی تعلق نھیں)
 کا یه عقیده ھے که یه صوفی الله کی تقدیر کی تبدیلی کے ساتھ لوح محفوظ کا مطالعه تک کر سکتے ھیں اور سائل(مرید) کی ھر مشکل آسان بھی .

ساتھ ان مذاھب کے لوگ یه بھی جائز سمجھتے ھیں که انھیں رسول الله تک بھی کھا جا سکتا ھے.

بلکه علامه ابن جوزی ان گمراه صوفیه کے متعلق لکھتے ھیں که ابوبکر بن موسی فرغانی صوفی کھتے ھیں جس شخص نے زکر الھی کیا اس نے بھتان باندھا اور جس نے صبر کیا اس نے جرات کی ,

ساتھ یه بھی کھا که خبر دار جس حالت میں مشاھده الھی کا طریقه ھاتھ آ جاۓ تو حبیب,کلیم,یا خلیل کا لحاظ نه کرو یه سن کر کسی نے پوچھا درود بھی نه پڑھیں جواب دیا درود پڑھیں مگر کچھ وقار نه سمجھو.
اسی لیۓ یه صوفیه مقام رسالت کو اتنی اھمیت و عظمت نھیں دیتے کھتے ھیں جب الله خود ھمارۓ اجسام میں حلول و اتحاد کر جاۓ تو پھر بشر کی اھمیت نھیں رھتی,
 ملحاظه فرمائیں چند صوفیه کے حقیقی دعوے.

جیسے ایک شخص نے خواجه معین الدین چشتی  کے پاس آیا اور عرض کی که مجھے آپنا مرید بنا لیں فرمایا کھو لااله الاالله چشتی رسول الله.
دیکھیۓ فوائد فریدیه ص:83.
معرکه حق و باطل ص:735

ابوبکر شبلی بھی آپنے بیعت ھونے والے شخص سے یھی کھتے تھے که لا اله الا الله شبلی رسول الله.
دیکھیۓ 
تذکره غوثیه ص:320,
از مولانا شاه گل حسن.

تصوف اور تشیع میں فرق,

تلبیس ابلیس علامه ابن جوزی.

معرکه حق و باطل ص:735.

رسول الله کھلانا تو کجا ان صوفیه کے نذدیک کسی کا خدا کھوانا بھی جائز ھے 
حسین بن منصور حلاج سے کسی نے پوچھا آپ آپنے کو پیغمبر کھلواتے ھو فرمایا افسوس ھے تجھ پر تو نے میری قدر ھی کم کردی,
 میں تو خدائی دعوی کرتا ھوں .

فوائد فریدیه ص:76.

معرکه حق و باطل ص:735.

تصوف اور تشیع میں فرق.

تلبیس ابلیس از ابن جوزی.

مولوی اشرف علی تھانوی کے ایک مرید نے مولوی موصوف کو لکھا که میں نے خواب کی حالت میں اس طرح کلمه پڑھا لااله الا الله اشرف علی رسول الله.

چاھتا تھا کلمه صحیح پڑھوں مگر منه سے یهی نکلتا تھا.
پھر بیدار ھوا تو درود شریف پڑھا تو یوں 
اللھم صلی علی سید نا و نبینا و مولانا اشرف علی.
 بیدار ھوں مگر دل بے اختیار ھے اور اس کا جواب مولانا اشرف علی صاحب نے یه دیا که اس واقعه میں تسلی تھی که جس طرف رجوع کرتے ھو وه بعونه تعالی متبع سنت ھے .

24/شوال 1335/ھ ماخوز رساله الامداد بابت ماه صفر 1336/ھ,ص:35.

ایک اور صوفی با یذید بسطامی جس پر ھم سابقه پوسٹ میں بھی بھت لکھ چکے ھیں اور اس بزرگ کی میدان تصوف میں بھت انوکھے کارنامے  موجود ھیں ساتھ صوفیه میں ایک اعلی درجه بھی رکھتے ھیں .
یه عقیده حلول کے قائل تھے کھتے تھے جس نے خدا کو پانا ھو مجھے دیکھ لے .

وه یه دعوی بھی کرتے تھے که میرا جھنڈا پاک نبی ص کے جھنڈۓ سے زیاده بلند ھے .

فوائد فریدیه ص:73.

معرکه حق و باطل ص:784.

فضیل بن عیاض ایک مشھور صوفی بزرگ ھو گزرۓ ھیں انکی کرامات کے بھت واقعات تاریخ میں درج ھیں.

وه کھتے تھے که میں عرش کرسی,لوح اور قلم ھوں.
میں ھی جبرائیل و میکائیل اسرافیل و عزرائیل ھوں میں ھی موسی و محمد ھوں.
دیکھیۓ :
معرکه حق و باطل
 از حافظ محمد خواجه ص:784.
مکتبه قدوسیه اردو بازار لاھور.

بایذید بسطامی فرماتے ھیں:

اگر تجھ کو صفات آدم ,قدس جبرائیل, خلعت ابراھیم, شوق موسی, پاکیزگی عیسی اور جب محمد ص سب کچھ عطا ھو جاۓ جب بھی خوش نه ھونا کیونکه یه سب حجابات ھیں .

دیکھیۓ تزکره اولیاء ص:92.
معرکه حق وباطل ص:786.

درج بالا صوفیه کے کیۓ گۓ دعوی کو دیکھیۓ پھر قرآن پاک کی سوره یسین کی آیت: 18.کا ترجمه پڑھیۓ.

جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ,کیا وه ان جیسوں کے پیدا کرنے پر قادر نھیں ,
بے شک قادر ھے اور وھی تو پیدا کرنے والا بڑۓ علم والا ھے.
نیز فرمایا سوره زمر ع:65.
ترجمه:اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبه تیرا عمل ضائع ھو جاۓ گا اور بالایعقین تو زیاں کاروں میں سے ھو جاۓ گا.

جو توحید کی صفات و زات میں خود کو شامل کرۓ وه مشرک ھے.

اب قرآن میں واضح ھے که آپ ص الله کے آخری نبی ھیں آپکے بعد کوئی نبی نھیں اب عرض یه ھے که ان صوفیه کے معتقد و محب بتائیں ,

درج بالا صوفیه جن کا زکر ھم نے کیا انھوں نے آپنے نبی ھونے کے کلمے پڑھا کر کفر نھیں کیا  کیا.

اسی لیۓ ھم بر ملا کھتے ھیں که صوفیه جنھوں نے تعلیمات الھی و معصومین ع کے برعکس شیطانی طاقت سے روح کو بیدار کرکے توحید و نبوت کے دعوی  ھیں.

                                 (جاری ھے)

صوفیه کے مجمل عقائد

تصوف کی تاریخ پر مذاھب عالم کی روشنی میں  سرسری نظر

                 
قسط نمبر :17 ----------تحریر: "سائیں لوگ

تاریخ تصوف کے گھرۓ مطالعه اور دوسری قوموں کے عقائد کا وسیع مطالعه کرنے کے بعد انسان اس نتیجے پر پهنچتا ھے که اس کا سب سے بڑا ماخذ چینی,ھندو اور بدھ مت فلسفه ھے جو که اسلام اور مسیحت سے صدیوں پهلے منظر عام پر آیا تھا.

اگر ھم ایمانداری سے ھر مذھب کا مطالعه کریں تو آسانی سے سمجھ سکتے ھیں که تصوف کی ابتدا کب سے ھوئی اور اسلامی تعلیمات میں اس کے نظریات سے اختلاف کیوں ھے ,

ھندو اپنشدوں میں روحانی منازل پانچ ھیں جبکه اسلامی تصوف میں تین روحانی منازل ھیں علم الیعقین,عین الیعقین ,حق الیعقین .
صوفیه کی ریاضت و مجاھدات سے تمام خواھشات نفسانیه کو کچل کر آپنے تئیں روح کے اندر مدغم کرکے صوفیه کی اصطلاح میں فنا فی الله کا مقام ھے مقام فنا فی الله کے بعد بقا بالله کا مقام بیان کیا جاتا ھے.
جب ایک صوفی صفات الھی کا لباس زیب تن کر لیتا ھے تو پھر اسے حیات نو کا لباس پهنایا جاتا ھے.
اور ایک نئی زندگی پاتا ھے.جبکه ھندو مذھب میں یھاں خدا اس انسان میں حلول کر جاتا ھے جو که اکثر مسلم صوفیه مثلا بسطامی,حلاج,ابن عربی وغیره کا عقیده ھے.

انشاءالله آنے والی پوسٹوں میں اس پر ضرور روشنی ڈالیں گے.

چینی فلسفه(551 قبل مسیح)

 کے بعد تصوف پر ھندوستانی فلسفے(ڈاکٹر ھاگ 1400/2000,قبل مسیح)
پروفیسر انباش چندورت 8000/10,000/قبل مسیح.
اور مھاتما تلک کی راۓ میں 4000,5000/قبل مسیح .
پروفیسر میکس ملر کی تحقیقات میں 1,000/قبل مسیح بتاتے ھیں.
ملحاظه فرمائیں .
قدیم سنسکرت لٹریچر 1562/ترجمه رگوید جلد:4--ھیپرٹ لیکچرز ص:240.

اسلام سے ھزاروں سال قبل مذاھب میں تصوف موجود تھا آج کا بدبخت کازب اور دشمن اھلبیت ع  مسلمان کیسے اسلام سے منسوب کرتا ھے.

اسلام میں داخل کرنے والے وه دشمنان  اھلبیت ع شامل تھے,
 جو اھلبیت ع کے علم و حکمت سے متعصب و حسد رکھتے تھے اور اھلبیت ع کے زھد وتقوی و فضیلت و عظمت سے 
متاثر ھوتے ھوۓ اھلبیت ع کی عظمت و اھمیت کو کم کرنے کیلۓ اس شیطانی و مشرکانه  عمل کو پروان چڑھایا.

اسلامی تصوف پر بالخصوص بدھ فلسفے(563,قبل مسیح) کی گھری چھاپ دکھائی دیتی ھے.

(براه کرم مکمل تفصیلات کیلۓ مھاتما گوتم بدھ کی حیات کا مطالعه فرمائیں پھر اسلامی صوفیه کے نظریات و عقیده سے موازنه کریں).

بعد ازاں اس میں یونانی فلسفه نو فلاطونیت کی بھی کافی جھلک نمایاں ھے اس کے ساتھ ساتھ قدیم ایران کے دو مذھب زرتشتی (660,قبل مسیح)

اور مانوی(215, ء) عقائد کی بھی تصوف میں بازگشت سنائی دیتی ھے,

 البته تصوف میں چینی اور ھندوستانی فلسفه نمایاں ھے.

بلاد فارس کے شیوخ نے جن کے چین اور ھندوستان سے روابط تھے دونوں فلسفوں کا معجون تیار کیا اور اس مجعون کے مرکب کو اسلامی سر زمین کو منتقل کیا.

صوفیه کے عقائد ایسے امور پر مشتمل ھیں جن کا اسلام سے دور تک کا واسطه نھیں ھے,

 ان کے عقائد کا خلاصه یه ھے حلول,اتحاد,وحدت الوجود,حقیقت محمدیه,اولیاء,نظام کائینات,جنت دوزخ,_کرامات,عمل و جھاد,علم و رھبانیت اور تفسیر قرآن.

درج بالا مسائل میں صوفیه آپنا مخصوص زاویه فکر پیش کیا تھا اور انھوں نے مسائل کی ایسی تاویلات کی تھیں جو اسلامی نظریات سے بھت دور تھیں.

مسلمانوں اور ان کے آئمه اھلبیت ع نے صوفیه کیلۓ کفر اور الحاد,زندیقی کے فتوۓ جاری کیۓ ھیں.

لفظ زندیق کا اطلاق سب سے پهلے صوفیه پر کیا جاتا تھا.
سنی شیعه علماء و فقھاء جب بھی لفظ زندیق کا اطلاق کرتے تو اس سے صوفیه ھی مراد ھوتے تھے.

بعض لوگ ایسے بھی گزرۓ ھیں جو صوفیه کے شعبده بازوں سے متاثر ھو کر ان کی جمارت میں داخل ھوۓ تھے.

ان لوگوں پر غباوت اور جھالت غالب آ گئی تھی وه آپنی سادگی اور کم فھمی کی وجه سے ان کے دام میں پھنسے تھے,

 انھیں صوفیه کے اصل اھداف کا علم نھیں تھا ان میں سے بعض افراد ایسے ناھل اور کودن تھے که انھوں نے اسلامی نصوص و اصلاحات کی ایسی تشریحات کیں جو صوفیه کے عقائد کے مطابق تھیں .

وه آپنی سادگی سے یه سمجھتے تھے که اسلام کی خدمت کر رھے ھیں اور لوگوں کے سامنے اسلام کے ایسے اھداف و مقاصد منکشف کر رھے ھیں جو ان کی نگاھوں سے اوجھل ھیں.

                           (جاری ھے)

تصوف,تزکیه تھذیب نفس

یه مختصر تحریر ان بھائیوں کیلۓ جو تصوف پر ھماری پوسٹوں سے اختلاف رکھتے ھیں

جس طرح غالی,نصیری کا شیعت اور اسلام سے کوئی تعلق نھیں اسی طرح صوفیه کا بھی تعلیمات اھلبیت ع و اسلام سے کوئی تعلق نھیں


بلکه ان کے عقائد اور غالی نصیری کے عقائد میں مشرکانه و کافرانه اعمال ھیں.
صوفیه کا عقیده ھے که ھمیں دیدار الھی نصیب ھوتا ھے. 

یه دعوی غلط ھے جب حضرت موسی ع  دیدار الھی کے قابل نھیں یا سکت نھیں رکھ سکتے جو اولاالعظم نبی ھیں وه بے ھوش ھو جاتے ھیں ایک عام انسان ریاضت کے زور پر کیسے.

دوسرا صوفیه کھتے ھیں که جب ھم مراقبه تک پهنچ جاتے ھیں تو خدا ھم میں حلول,اتحادکر جاتا ھے.
یه مشرکانه دعوی ھے.

تیسرا صوفیه کھتے ھیں قرب الھی دنیا سے لا تعلق, بیوی بچے چھوڑ کر جنگل پهاڑوں میں جسم کو ازیت دے کر حاصل کیا جاتا ھے,
 یه طریقه بھی قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات کے خلاف ھے.
صوفیه عقیده تناسخ کے بھی قائل ھیں جو قرآن و سنت سے متصادم ھے.

اھلبیت ع نے نه ھی ترک دنیا اختیار کیا اور نه ھی بیوی بچوں سے دوری بلکه عام معاشرۓ میں ره کر ھی تزکیه نفس اور قرب الھی حاصل کیا.

اسلام انسان کو گناه سے فرار ھونے کیلۓ گوشه نشینی اور مصروفیات کے ترک کرنے کی نصیحت نھیں کرتا بلکه انسان سے چاھتا ھے که اجتماعی زمه داریوں کو قبول کرۓ,
 اور اسے قابو میں رکھے اور گناه اور کجروی سے آپنے آپ کو دور رکھے.

الله تعالی کے بندوں کی خدمت کرو اور الله کی رضا کی خاطر نفسانی خواھشات اور شھوات سے دور رھو.

اسلام نھیں کھتا که تقوی حاصل کرنے کیلۓ کام اور کسب سے لاتعلق ھو جاؤ.
جب اھلبیت ع نے رزق حلال کیلۓ محنت و مزدوری کی ھے تو صوفیه کیوں کام کرنے سے جی چراتے ھوۓ جنگل اور تنھائی کا رخ اختیار کرتے ھیں. 

اسلام نھیں کھتا که دنیا کو ترک کرتے ھوۓ عبادت میں مشغول رھو اور الله کی نعمات سے محروم رکھو.

اور بھی بھت سی مثالیں ھیں جو تصوف اور تزکیه نفس کے طریقه عوامل کو جدا کرتی ھیں .
خدا ھمیں انسانیت کے سیدھے راستے اور کمال مدارج کے طے کرنے کی ھدایت فرماتا ھے.
خود پسندی,تکبر,نفسانی خواھشات اور آرزوں کے پردوں کو ھٹانے کی تعلیم کرتا ھے.
تزکیه نفس اور خود سازی تھذیب کیلۓ قرآن میں کافی آیات اور پیغمبر اکرم ص اور اھلبیت طاھرین ع کے فرامین موجود ھیں تو پھر ھم کیوں دوسرۓ مذاھب سے اخذ صوفیانه طرز عبادت , ریاضت و رھبانیت کو فوقیت دیتے ھیں.

ھماری 15/پوسٹ تصوف پر تعلیمات اھلبیت ع کی روشنی میں وضاحت پیش کی گئیں ھیں جو ابھی جاری ھیں جن کے ماخذ بھی 
تین مختلف مسالک کے مصنفین کی مدد سے ھیں تاکه کوئی ابھام نه رھے اھل تشیع کی معروف کتب,ابن جوزی,اور جا الحق کے رد میں لکھی جانے والی کتاب و دیگر مختلف مفکرین کی راۓ سے جیسے مشھور صوفی حضرت سلطان باھو نے بھی ان صوفیوں کی مذمت کی ھے اور انھیں شیطانی علم کا حامل کھا ھے.
 پڑھیۓ عین الفقر.

لھذا تصوف کا اسلام میں کوئی مقام نھیں اھلبیت ع نے ان صوفیوں کے بارۓ سختی سے احادیث فرمائی ھیں.اور انھیں شیطانی منبه قرار دیا ھے.

خداوند عالم قرآن میں فرماتے ھیں وه دنیاوی زندگی کا علم تو رکھتے ھیں لیکن اخروی زندگی(باطنی)سے غافل ھیں.

امیرالمومینین ع روح کے بارۓ فرمایا ایک در نایاب ھے جس نے اس کی حفاظت کی اسے وه اعلی مرتبه تک پهنچاۓ گی اور جس نے اسکی حفاظت میں کوتاھی کی یه اسے پستی کی طرف لے جاۓ گی.

حضرت علی ع نے فرمایا که ھمیشه الله کا زکر کرنا روح کی غزا ھے نیز فرمایا الله کے زکر کو فراموش نه کرو کیونکه دل نور ھے.

قرآن و حدیث میں قلب کے متعلق بھت زیاده تعلیم دی گئی ھے.قلب سے مراد دل ھے جس کی بیداری اور زکر الھی میں مشغول رکھنا ھی انسانیت ھے.
قرآن میں ھے الله تعالی نے دلوں میں ایمان قرار دیا ھے.اور آپنی خاص روح سے ان کی تائید کی ھے.
امام جعفر صادق ع نے آپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ھے آپ نے گرمایا که قلب کیلۓ گناه سے بدتر کوئی چیز بدتر نھیں.قلب گناه کا سامنا کرتا ھے اور اس سے مقابله  کرتا ھے یهاں تک که گناه قلب پر غالب آ جاتا ھے اور وه قلب کو الٹا کر دیتا ھے.
مذید ھم تصوف پر لکھنے کے بعد انشاءالله خود سازی,تذکیه نفس پر لکھیں گے تاکه تصوف کو تذکیه نفس اور خودسازی کو جدا کیا جا سکے.

نوٹ:ھماری تحریریں قرآن و تعلیمات اھلبیت ع سےاخوز ھوتی ھیں.
جھاں اختلاف کی گنجائش نھیں ھاں پھر بھی اختلاف ھر بھائی کا حق ھے جو علمی ھونا چاھیۓ ناں که تنقیدی و تعصب.

جمعرات، 25 جولائی، 2019

تصوف پر کنفیوشس کے اثرات.

تصوف دراصل کنفیوشیس,بدھ مت,اور ھندوؤں سے ماخوز ھے

 مذید عیسائیت اور یھودی غالی فلسفه کا بھی اثر موجود ھے.

"قسط نمبر:15 ---------تحریر:  "سائیں لوگ

مگر تصوف پر آج ھم چینی فلسفه کے اثرات کا درست جائزه لیں گے.
کچھ محقیقین یه دعوی کرتے ھیں که تصوف پر چینی فلسفه کے گھرۓ اثرات ھیں چنانچه ڈاکٹر عمر فروخ آپنی کتاب التصوف الاسلامی میں لکھتے ھیں که چین کا سب سے بڑا فلسفی کنفیوشیس (Confucius)تھا.
وه عملی مفکر اور اجتماعی مصلح تھا وه صرف نظریاتی اور دینی فقیھه نھیں تھا البته اس کے پیروں نے اس کے بعد الھیات کے مسائل اور فلسفی اختلافات پر بھت سی کتابیں لکھیں تھیں.

چین میں ایک اور شخص بھی تھا اس کا نام لی آره یا لا ؤ ٹسے لکھا ھے وه عمر میں کنفیوشیس سے چھوٹا تھا.

یه سات سو سال قبل مسیح کا واقعه ھے اس نے چین میں صوفیانه نظریات پیش کیۓ تھے.
اس نے بشری لذات سے کناره کشی اختیار کر لی تھی اور لوگوں  سے میل جول ختم کر لیا تھا حد تو یه ھے که وه لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کوبھی منافقت سمجھتا تھا.

اس نے دو حصوں پر ایک کتاب لکھی Tao,اور Te,کی تشریح کی جس میں پانچ ھزار الفاظ یا زیاده لکھے.
وه کتاب محافظ کے حوالے کرکے چین کی حدود سے نکل گیا اور دنیا جھاں کی نظروں سے غائب ھو گیا.

برادران اسی سے ھی ملتا جلتا عمل ابراھیم بن ادھم کا ھے انھوں نے بھی بلخ کی حکومت چھوڑی اور بلاد فارس کو خیر باد کھه کر سیاحت کرتے رھے,

 طویل عرصه بعد جا کے اسے گوھر مقصود ملا .

جیسے مھاتما گوتم بدھ نے کیا  بادشاه کا بیٹا ھونے کے ناطے سلطنت چھوڑ کر 23/25 یا 27/سال جنگلووں میں ریاضت و عبادت کرتا رھا تب جا کے مراقبه کی منزل پر پهنچا.

لفظ ٹاؤ سے مراد راسته اور ٹی سے مراد دروازه ھے اسکی تشریح ھزاروں سال بعد بابی فرقه کے بانی علی محمد شیرازی نے آپنی جھوٹی نبوت کی بنیاد رکھی.

کچھ فلاسفه کھتے ھیں اس سے مراد سالک ھے.

چینی صوفی اور اسلامی صوفی دونوں کی نظر میں زندگی کی حیثیت ایک سفر کی سی ھے .

اسلامی صوفی کھتے ھیں زات حق ھی موجودات کی علت العلل اور غایت الغایات ھے.
صوفیه زندگی میں کسی کی تقلید نھیں کرنی چاھیۓ.
چینی فلسفه کا تزکیه نفس اور تطھیر نفس کا نظریه مسلمانوں کے توبه اور تقوی سے ملتا ھے.
چینی جسے اشراق کھتے ھیں مسلمان صوفی اسے کشف کھتے ھیں.

چینی جسے اتحاد و اتصال کھتے ھیں مسلمان صوفی اسے بقاء کھتے ھیں.

چینی تصوف اور مسلم تصوف کی مشترکات کی تائید کتاب المذاھب الکبری فی التاریخ میں سے بھی ھوتی ھے.

قدیم چینی صوفیه جسم کو ناپسندیده اشیاء کا مجموعه سمجھتے تھے.وه کھتے تھے که نفس کشی ضروری ھے اور یھی فلسفه مسلم صوفی کا ھے.

چینی صوفیه نے حیات,نفس,روح کے متعلق جو نظریات پیش کیۓ تھے وھی نظریات دوسری اور تیسری صدی ھجری کے صوفیه کے ھاں بھی پاۓ جاتے ھیں.

چینی تصوف عربی تاجروں کے قبل از مسیح تعلقات تھے اسی وجه سے یه تصوف عرب ممالک میں روشناس ھوا.
اگر اس دوران کچھ مسلم حکمران ایکشن یا تدارک نه کرتے تو آج اسلام مکمل طور پر ترک عمل کے دین کے طور پر متعارف ھوتا .
جیسا که آجکل غالی نصیریوں نے مذھب شیعه اثناۓ عشریه کی پهچان مشکل بنا دی ھے.

چینی تصوف کے ساتھ ساتھ برھمنی اور بدھ نظریات حلول ,اتحاد اور تناسخ کو بھی درآمد کرکے اسلامی تصوف کا حصه بنا دیا.

اگر موقع ملا تو ھم دیگر مذاھب کے تصوف اور اسلامی تصوف پر وضاحت پیش کریں گے.

                        (جاری ھے)

صوفیه کی حقیقت

:صوفیه, موسیقی اور امرد پرستی

(نوخیز بغیر مونچھ داڑھی کے لڑکوں سے دوستی)

 پوسٹ طولانی ضرور ھے پر پڑھیں ضرور اور صوفیوں کی اصلیت سے باخبر ھوں

"قسط نمبر :14---------تحریر:  "سائیں لوگ

صوفیه بڑۓ حساس ھوتے ھیں وه راگ سے بھت متاثر ھوتے ھیں اور سماع سے ان کے شوق میں اضافه ھوتا ھے.

وه وجد میں آ کے رقص کرنے لگ جاتے ھیں اور یوں لگتا ھے جیسے کوئی غیر مرئی قوت ان کے ارادۓ کے بغیر انھیں حرکت دے رھی ھے.

ایک صوفی ابوالحسن نوری سے منقول ھے که میں صوفیه کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھا سب خاموش تھے پر ایک صوفی   نے سر اٹھایا اور یه اشعار پڑھے,

 ترجمه:جلتی دھوپ میں محبت مارۓ ایک درخت سے آواز آئی که میرۓ رونے نے اسے جگاۓ رکھا اور اس کے رونے نے مجھے جگا دیا وه محبت شکوه کرتی ھے تو میں اسے سمجھ نھیں پاتا.

جیسے ھی اشعار ختم ھوۓ حاضرین نے اٹھ کر ناچنا شروع کردیا
اور آپنے ھوش حواس میں نه رھے.
(عبدالله ابن علی سراج مصنف اللمع فی التصوف)

جنید بغدادی سے کسی نے پوچھا آپ پهلے تو بھت موسیقی سنتے تھے اور وجد میں رقص بھی کیا کرتے تھے لیکن آجکل خاموش ھیں آخر کیوں جواب دیا.
ترجمه آیت:
تمھیں پهاڑ ایک جگه جمے ھوۓ دکھائی دیتے ھیں یه بادلوں کی طرح اڑ رھے ھوں گے.یه اسی کی صنعت ھے جس نے ھر چیز کومحکم کیا ھے.(سوره نمل ع:88).

عبدالله سھروردی عوارف المعارف میں لکھتے ھیں روح کو نغمات سے لذت حاصل ھوتی ھے.
کیونکه نغمات دراصل نفس کی روح سے خفیه بات چیت کا وسیله ھیں.یه عاشقوں کو خفیه پیغامات پهنچاتے ھیں.

نفس اور روح ایک دوسرۓ کے عاشق ھیں جیسے الله نے آدم سے اسکی زوجه کو بنایا تاکه اس سے راحت حاصل کرۓ.
سوره اعراف ع:189.

تصوف بین الحق والخلق کے مصنف لکھتے ھیں کسی گلو کاره نے شعر پڑھا اس محفل میں ابوالفتح صوفی بھی موجود تھے شعر سے متاثر ھو کر وجد میں آ گۓ اور دھاڑیں مار کر سینا پیٹتے ھوۓ بے ھوش ھو گۓ.
جب محفل ختم ھوئی لوگوں نے اٹھایا تو انکی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی.

ایک دن ابن الفارض قاھره کے بازار سے گزرۓ دیکھا که شاھی محافظوں کا دسته ناقود بجا کر گانا گا رھا ھے ابن فارس نے جب سنا تو وجد میں آ گۓ اور بیچ بازار ناچنا شروع کر دیا.
انکی دیکھا دیکھی سب راه گیر بھی ناچنے لگے.
جب ناچتے ناچتے سب بے ھوش ھو گۓ تو شیخ نے کپڑۓ اتار کر گانے والوں کی طرف اچھال دیۓ.

ڈاکٹر زکی مبارک لکھتے ھیں زولنون مصری کھتے ھیں موسیقی مخاطبات اور اشارۓ کے وسائل میں شامل ھیں اور اس سے انسان خدا سے متصل ھو جاتا ھے.

یحیی بن معاز صوفی کھتے ھیں موسیقی ھر اس ایک کیلۓ جس میں خدا کی محبت موجود ھے راحت و خوشی کا پیغام ھے.

آجکل جو ھم کھتے که موسیقی روح کی غذا ھے غالبا یه صوفیوں سے ماخوز ھے.

ابن جابر اشبیلی کے ایک شاگرد نے ایک خوبصورت جوان سے کھا خدا کیلۓ مجھے آپنے چھرۓ کا بوسه لینے دو لڑکے نے بوسه نه لینے دیا,
 اور شیخ کے پاس جا کر شاگرد کی  شکایت کی شیخ نے لڑکے سے پوچھا تو نے اسکی خواھش پوری کی لڑکے نے جواب دیا نھیں شیح نے کھا تو اسکی خواھش ٹھکرا کر اسے سزا دےچکا ھے اب ادھر کیا کرنے آیا ھے.

ڈاکٹر زکی مبارک کھتے ھیں میں خود محفل سماع میں کئی دفعه شامل ھوا کھنے کو تو یه محفل سماع ھوتی ھے مگر حقیقت میں محفل موسیقی ھوتی ھے.

ابن جوزی نے تلبیس ابلیس میں لکھا ھے,
جب صوفیه دوران  محفل سماع طرب کی کیفیت طاری ھوتی ھے تو رقص کرنے لگتے ھیں,
 اور آپنے کپڑۓ اتار کر گلوکاره یا گلوکار کی نظر کرتے ھیں کچھ صوفی جوش میں آ کر کپڑۓ پھاڑ بھی دیتے ھیں.

ابن قیم کے مطابق اس طرح غنا کی حرمت شراب سے بھی زیاده ھے.ابن قیم نے کھا ھے که شراب کے نشے کی عشق کے نشے سے کوئی نسبت ھی نھیں ھے.
شراب کا نشه ایک دو روز میں اتر جاتا ھے مگر عشق کا نشه اترنے کا نام ھی نھیں لیتا.یه اس وقت اترتا ھے جب عاشق مر جاتا ھے.

ابو عبدالله بن بطه عکبری نے کھا ھے که ایک شخص نے مجھ سے غنا کے متعلق سوال کیا تو میں نے اس سے کھا علماء اسے حرام اور صوفیه اسے جائز سمجھتے ھیں.اور آپنی خود ساخته شریعت کی پیروی کرتے ھیں.

غزالی جو فقیه کم اور صوفی زیاده تھے صوفیه کے موقف کی حمایت کی ھے.

ابن جوزی مذید لکھتے ھیں که صوفیه, امرد کو (یعنی ان لڑکوں کو جن کی داڑھی مونچھ نھیں نکلی ھوئی ھو )آپنے ساتھ رکھتے ھیں.

اور انھیں دیکھ کر لذت حاصل کرتے ھیں وه کھتے ھیں خدا ان کے جسم میں حلول کر چکا ھے.
اور ھم اس کے زریعے سے حسن خالق کو دیکھتے ھیں اور بصورت انسان دراصل خدا کا مشاھده کرتے ھیں.

ایک مشھور صوفی ابو نظر غنوی کے متعلق بیان کیا جاتا ھے که ایک مرتبه انھوں نے خو برو لڑکے کو دیکھا تو دیکھتے ھی ره گۓ جب لڑکا جانے لگا تو ابو نظر نے کھا تجھے خدا وند سمیع کی بلند عزت کا واسطه کچھ دیر رک جاتے میری آنکھیں جی بھر کر تجھے دیکھ لیتیں.

عبدالله فرازی بیان کرتے ھیں ھم احرام باندھے مسجد خیف میں بیٹھے تھے که ھمارۓ پهلو میں مراکشی لڑکا آ کر بیٹھ گیا میں نے محارب احسان سے کھا جو اس خوبصورت لڑکے کو گھور رھا تھا که بھائی حرمت والے مھینے اور حالت احرام میں اور محترم شھر میں ھیں اس کے باوجود تم لڑکے پر لٹو ھو گۓ.

ابو حمزه صوفی کھتے ھیں که میں نے بیت المقدس میں ایک صوفی کو دیکھا جو آپنے ساتھ ایک خوبصورت لڑکا رکھتا تھا.
صوفی اور لڑکے کی رفاقت کافی عرصه جاری رھی.
پھر اچانک صوفی مر گیا تو فراق میں لڑکا بھی سوکھ کر کانٹا ھو گیا.

ابن جوزی لکھتے ھیں ابی عبدالله حسین محمد دامغانی سے نقل کیا ھے بلاد فارس میں ایک بلند مرتبه صوفی نے ایک خوبرو لڑکے کو ساتھ رکھتا تھا ایک دن شیطان نے دبوچ لیا اور اس کے ساتھ بدفعلی کر بیٹھا بعد میں سخت ندامت ھوئی اس کا گھر سمندر کنارۓ تھا بالاخر چھت سے کود گیا خودکشی کے وقت یه آیت پڑھ رھا تھا .

فتو بوا الی باریکم فاقتلو انفسکم.
ترجمه آپنے رب کے حضور توبه کرو اور آپنے کو قتل کردو.(سوره بقره ع:54)

ابن جوزی کھتا ھے اگر وه لڑکا آپنے پاس نه رکھتا تو یه گناه ھی نه کرتا.

خودکشی گناه کبیره ھے  پاک نبی ص نے فرمایا جو ایسا کرۓ گا ساری زندگی دوزخ کی آگ میں جلتا رھے گا.

اسی طرح صوفی حسن نوازی بھی لڑکا پرستی میں بھت بدنام تھا.

ایک صوفی یوسف بن حسین آپنے ساتھیوں سے کھتا تھا میرۓ ھر فعل کی تقلید کرنا پر خوبصورت لڑکوں کی صحبت اختیار نه کرنا.

محمد بن اسباط صوفی ایک نو خیز لڑکے کے چھره کو دیکھنے میں منھمک تھا .

اسود بن طالوت صوفی بھی خوبصورت لڑکوں کو دیکھنے میں مگن رھتا تھا.
ابو عمر صوفی نے کئی بار اسے ڈانٹا.

قیشری نے بھی ان واقعات کو خوب لکھا ھے.
دیکھیۓ رساله قیشریه ص:184.

ایک کم بخت صوفی کھا کرتا تھا که ھر بھلائی خوبصورت چھروں میں چھپی ھے.
کیونکه رسول الله ص کا فرمان ھے خوبصورت چھروں سے بھلائی طلب کرو.
عقیل اور یحیی معین کھتے ھیں یه حدیث خودساخته ھے اور صوفیوں کی اختراع ھے.

ابراھیم بن ادھم کھتے ھیں جو عورتوں کی رانوں کا شیدائی ھو جاۓ وه کبھی فلاح نھیں پاتا.

صوفیه شادی کو معیوب سمجھتے ھیں لھذا جب فطری زریعه سے خواھش پوری نه ھو تو پھر خوبصورت لڑکوں سے جنسی تسکین لیتے ھیں.

تلبیس ابلیس کے مصنف ابن جوزی جو شیعه مذھب کے بھت مخالف تھے انھوں نے تلبیس ابلیس میں لکھا ھے که شیراز میں صوفیوں کی محفل ھوتی تھی سب صوفی جاتے تھے .
ایک دن دوران سماع صوفی مر گیا تو سب صوفی تعزیت کیلۓ بیوه کے پاس گۓ اور تصوف کی زبان میں تعزیت کی سب صوفی عورتیں بھی جمع تھیں ابن خفیف صوفی نے کھا یھاں کوئی اور ھے بیوه نے کھا نھیں تو ابن خفیف نے کھا بتائیں غم و رنج اور عذاب دینے کا کیا مقصد ھے ھم باھمی ملاپ کو کیوں چھوڑ رھے ھیں حالنکه باھمی ملاپ سے انوار ایک دوسرۓ سے ملتے ھیں.صفائی پیدا ھوتی ھے اور برکت میں اضافه ھوتا ھے.

وھاں پر موجود خواتین نے کھا جیسے حکم کریں ھم تعمیل کریں گے.
اس کے بعد ساری رات زنا ھوتا رھا صبح سب آپنے گھروں کو چلے گۓ.

ابن جوزی نے یه روایت محسن تنوخی سے نقل کی ھے.

اس طرح کے واقعات صوفیه  میں عام ھیں.

خدا بھلا کرۓ عضد الدوله دیلمی کا جس نے آپنے عھد سلطنت میں صوفیوں کی جماعتوں کو گرفتار کیا اور انھیں کوڑۓ مرواۓ اور ان کی جماعتوں کو منتشر کیا.

اگر صوفیه کی اس بات کو سچ مان لیا جاۓ تو بھی صوفیه کی ھلاکت میں کوئی شک نھیں دل  خدا کا عرش ھے, دل خدا کی جلوه گاه ھے.
جس دل میں خدا کی محبت ھونی چاھیۓ تھی وه ان صوفیوں نے حسینوں کی محبت کا مرکز بنا دیا ھے.

فرض کریں اگر ایک شخص درندوں میں بھٹ جاتا ھت اور دیکھتا ھے درندۓ سوۓ ھوۓ ھیں تو انھیں جگاتا ھے اور انھیں جوش دلاتا ھے پھر اگر وھاں سے زنده آ بھی جاۓ تو زخمی تو ضرور ھو گا.

جس طرح درندوں سے چھیڑ چھاڑ اچھی نھیں اسی طرح لشکر حسن سےبھی اچھی نھیں .
(بحواله تبلیس ابلیس ابن جوزی ص:270)

صوفیه کو اس بات کا اندازه نھیں تھا که لوگوں نے ان کے چھوٹے بڑۓ عمل پر نگاھیں رکھے ھوۓ ھیں اور وه ان کا احتساب کریں گے .

ھم اھلسنت کے مشھور مورخ ابن جوزی کے مشکور ھیں جس نے ان صوفیوں کو بری طرح بے نقاب کیا ھے.

ھم نے صوفیه کے چند تاریک پهلو آپنے قاری برادران  کے سامنے پیش کیۓ ھیں تاکه آپ کو اندازه ھو که ان کا پورا نظام مکاری,دھوکه,اور ریاکاری پر مبنی ھے.

ان کا اندرون انتھائی تاریک اور بھیانک ھے ظاھری طور پر حق کے داعی اور اعلی کردار کے لگتے ھیں.

باقی میڈیا بھی آجکل ان کی حقیقت دکھاتا رھتا ھے.

ھم بھی ابن جوزی اور سید ھاشم معروف الحسنی کی تحقیقی تحریروں سے آپ برادران کو صوفیوں کے حقیقی روپ سے روشناس کرا رھے ھیں.

                            (جاری ھے)

تصوف آور بھنگ نوشی و کھانت وغیره.

:کرامات صوفی ,بھنگ,اور غالی

                    "قسط نمبر:13 ---------------تحریر:  "سائیں لوگ

ڈاکٹر  زکی مبارک نے آپنی تصنیف "التصوف الاسلامی" میں شیخ حیدر صوفی کے متعلق ایک عجیب و غریب واقعه نقل کیا ھےوه لکھتے ھیں که یه بزرگوار خراسان میں رھتے تھے.

انھوں نے پهاڑ میں آپنے لیۓ خانقاه بنوائی تھی جس میں وه دس سال قیام پذیر رھے دس سال بعد ایک سخت گرم دن میں وه آپنی خانقاه سے نکلے اور صحرا میں اکیلے چل پڑۓ.

گرمی کی شدت تھی اور ھوا بھی بند تھی کچھ دیر کے بعد آپ خوش خوش واپس آۓ آپ کے چھرۓ پر طمانیت تھی مریدوں نے اس بشاشت کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا که میں آپنی خانقاه میں بیٹھا تھا که اچانک میرۓ دل میں خیال آیا که مجھے  خانقاه سے نکل کر صحرا کی طرف جانا چاھیۓ .

چنانچه میں صحرا میں گیا که صحرا کی ھر بوٹی پر سکوت مرگ سا چھایا ھوا ھے.

میں بوٹیوں کو دیکھتا جا رھا تھا که میں نےایک بوٹی دیکھی جس کے پتے چکنے چکنے تھے,
 اور وه آرام سے هل رھی تھی میں نے اس کے پتے چنے اور کھا گیا اس بوٹی کے پتے کھانے سے میں ھشاش بشاش ھو گیا .
پھر میں نے وه بوٹی آپنے مریدوں کو دکھائی اور ان سے کھا که عوام سے اس راز کو مخفی رکھا جاۓ خدا نے اس بوٹی کے پتے تمھارۓ لیۓ بناۓ ھیں.اس سے تمھارۓ غم زائل ھوں گے,

اور تمھیں فکری جلا نصیب ھوگی پھر شیخ حیدر صوفی نے فرمایا که جب میں مر جاؤں تو میری قبر کے ارد گرد اس بوٹی کو کاشت کرنا 
(اور وه بھنگ بوٹی تھی).

شعرا نے بھی اس بھنگ بوٹی پر بڑی نظمیں لکھیں ھیں.
انھوں نے اس کا نام شیخ حیدر کا مشروب رکھا ھے.
محمود شقی لکھتے ھیں نظم کا ترجمه عرض ھے .
مقصد یه ھے که شراب چھوڑ دو اور شیخ  حیدر کی بھنگ استعمال کرو.

جب تم خوبصورت ساقی لڑکے کے ھاتھ سے بھنگ کا پیالا لو گے تو تمھیں یوں لگے گا جیسے گلابی رخسار پر کوئی عبارت لکھی ھو.

کتاب التصوف الاسلامی کے مصنف لکھتے ھیں که صوفیه کی محافل میں بھنگ کو فروغ حاصل ھوا,
 اور صوفیه نے بھنگ کو مصر سے لے کر فارس تک رائج کیا.

یه بھی تاریخ میں ملتا ھے که مصر کے  ارباب منبر خطبه جمعه سے پهلے بھنگ پیتے تھے.

صوفیه کی انوکھی کرامات سے اسلام کے خلاف جگ ھنسائی کی مذموم کوشش کی گئی ھے.
دشمنان اسلام کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع دیا.

شعرانی نے آپنی کتاب میں صوفیه ابراھیم ,_مبتولی,شیخ عمری,شمس الدین حنفی,بدوی,_فرغلی,دسوتی,یوسف,
شوستری,جیسے صوفیه کی کرامات سے سینکڑوں صفحات سیاه کیۓ ھیں.

صوفیه کی کچھ کرامات کا تعلق کھانت اور کچھ کا تعلق ھپناٹزم سے ھے.

مگر ھماری نظر میں یه سب کچھ جھوٹ ھے جھاں ھم صوفیه کی کرامات کے منکر ھیں وھاں ھم انبیاء ع کے معجزات کے قائل ھیں.
کیونکه انبیاء ع کے معجزات کی قرآن سے تصدیق ھوتی ھے.اور قرآن ھی ھمارۓ لیۓ حجت ھے.

انبیاء ع کے بعد اھلبیت ع کے ھاتھوں سے بھی 
 معجزات ظاھر ھوۓ تھے.آئمه اھلبیت ع نے جب بھی الله تعالی سے دعاء کرتے تو الله تعالی ان کی دعاء قبول فرماتے لیکن اھلبیت ع نے بھی اس وقت معجزات پیش کیۓ جب اس کے بغیر کوئی چاره نه ھوتا.

دوسرا ھم یه بھی تسلیم کرتے ھیں که اھل تشیع میں معجزات کے موضوع پر جتنی بھی کتب لکھی گئی ھیں ان میں غلو اور اسراف پایا جاتا ھے .

اگر ھم اس غلو کی نشاندھی کریں تو جو ھوش سنبھالتے ھی زاکرین سے معجزات و واقعات سنتے آ رھے ھیں وه بھلا کب اب حق سمجھ پائیں گے بلکه نیا طوفان کھڑا ھو جاۓ گا.
جس سے ھم آپنی پوسٹوں میں لکھنے سے گریز کر رھے ھیں.

اسلام نے دعوت الی الله کا سارا دارو مدار معجزات پر نھیں رکھا.

رسول خدا ص نے تو خلاف فطرت معجزات نھیں دکھاۓ تھے لیکن صوفیه آپنی شیطانی طاقت سے عجیب و غریب کرامات  دکھا کر لوگوں کو گرویده بناتے ھیں.

اسلام آپنے پیروں کا معجزات کی دعوت کے بجاۓ کون و مکان میں غور و فکر کی دعوت دیتا ھے,

اور توجه دلاتا ھے که کائینات کی تنظیم و ترتیب کسی مدبر اور حکیم خالق کے بغیر ممکن نھیں ھے.
                               (جاری ھے)

صوفیه کے مشرکانه و کفرانه نظریات.

:صوفیه اور عجیب و غریب کرامات

"قسط نمبر :12--------- تحریر : "سائیں لوگ

سراج ,کتاب اللمع فی تصوف کے
 صفحه :382,پر لکھتے ھیں که بایذید بسطامی کھا کرتے تھے که خدا نے ایک مرتبه مجھے بلند کیا اور سامنے لا کھڑا کیا اور فرمایا که میری مخلوق تجھے دیکھنا چاھتی ھے .
دوسری جگه لکھتے ھیں که بایذید بسطامی کھتے ھیں جب میں مقام وحدانیت پر پهنچا تو سب پهلے میں نے ایسے پرندۓ کی شکل اختیار کی جس کا جسم احدیت کا تھا اور پر دیموت (ھمیشگی )کے تھے.
دس برس میں اسی کیفیت میں محو پرواز  رھا.اس کے بعد ایسی ھوا میں هھنچا جو اس سے ایک لاکھ گنا زیاده طاقتور تھی.
چنانچه اس میں اڑتا رھا یھاں تک که مقام ازلیت میں پهنچا اور شجر احدیت کا مشاھده کیا.

ابو بکر شبلی صوفیه کے مشھور قطب ھو گزرۓ ھیں.یه فقه مالکیه کے پیروکار تھے اور بغداد میں دفن ھیں.
یه بھی بسطامی اور حلاج جیسی شطحات منقول ھیں جو حلول و اتحاد پر قائم ھیں.

جابان بھی ایک صوفی تھے وه کھتے ھیں شبلی مریدوں کو کھا کرتے تھے که میں وقت ھوں اور میرا وقت بھت قیمتی ھے اور وقت میں میرۓ سوا کچھ بھی نھیں.

جنید بغدادی بھی کھتے که تصوف یه ھے که حق تجھے تجھ سے موت دے دے اور پھر اس کے زریعے تجھے زندگی عطا کرۓ.

سھیل شوستری صوفی کھتے تھے که جو چالیس دن تک دنیا سے بے رغبت ھو جاۓ تو الله کی طرف سے ھاتھوں پر کرامت کا اظھار ضروری ھو جاتا ھے.

کتاب اللمع فی تصوف کے مصنف نے اولیاۓ صوفیه کی ایک ھزار عجیب و غریب حکایات و کرامات جمع کی ھیں.  
شعرانی آپنی کتاب طبقات میں ابو العباس احمد نقاب پوش صوفیه کے کتب ھیں انکی ھر پشین گوئی پوری ھوا کرتی تھی.

شعرانی نے ایک اور صوفی ابو عبدالله قرشی کے بارۓ لکھتے ھیں که وه حضرت خضر سے ملا کرتے تھے.
ابو عبدالله قریشی کے دوست نے بیوی سے کھا آج کیا کھاؤ گی تمھاری خواھش پوری ھو گی بیوی نے کھا بیٹی سے پوچھتی ھوں بیٹی نے جواب دیا اگر خواھش پوری کرنی ھے تو میری شادی ابو عبدالله قرشی سے کردو جو نابینا اور جذام کا مریض تھا کوئی بھی عورت اس سے شادی نھیں کرنا چاھتی تھی مگر اس لڑکی کی شادی کر دی گئی.
جب تمام عورتیں چلی گئیں میاں بیوی ره گۓ تو جب قرشی باتھ روم میں گیا واپس آیا تو بھت حسین و جمیل بے ریش نوجوان شکل کے تھے.

 دلھن نے جوان کو دیکھا تو منه چھپا لیا عبدالله قرشی نے کھا منه نه چھپاؤ میں تمھارا خاوند ھوں.جب قسم کھا کر  یعقین دلوایا .
تو دلھن کو کھا که گھر میں میں اسی شکل میں رھوں گا اور باھر نابینا شکل میں.
بشرط لوگوں کو نه بتانا.
تو بیوی نے کھا نھیں مجھے تم نابینا,جزام,برص کی شکل میں ملو جیسے دوسرۓ لوگوں سے ملتے ھو.

ایک اور صوفی احمد طابرانی سر خسی سے کسی نے کھا که کوئی کرامت دکھاؤ.
کھتے ھیں ایک دفعه مجھے استنجا کیلۓ ڈھیلے کی ضرورت پڑ گئی تو ڈھیلا نظر نه آیا میں نے مٹھی میں ھوا کو پکڑ لیا اور استنجا کرکے پھینک دیا تو وه موتی بن گۓ.

ابوالحس بصری کھتے ھیں که ابادان میں ایک سیاه فام رھتا تھا وه انتھائی مفلس تھا میں کچھ دینے کیلۓ اس کے گھر گیا تو میرۓ اراده کو بھانپ کر زمین کی طرف اشاره کیا تو سب سونا چمکتا دکھائی دیا.

ابو سلمان الخواص صوفی کھتا ھے مین ایک مرتبه گدھے پر سوار ھو کر کھیں جا رھا تھا گدھے کو مکھیاں تنگ کر رھیں تھیں میں اسے مارنا چا رھا تھا که گدھے نے مجھے دیکھ کر کھا جتنا مرضی مار لے یه ڈنڈے تیرۓ سر پر بھی لگیں گے.

زرا ابن سبعین صوفی کھا کرتے تھے که پاک نبی ص نے لانبی بعدی کھه کر وسیع چیز کو محدود کر دیا ھے.
ابن کثیر کھتے ھیں ابن سبعین غار حرا میں جا کر اعتکاف کرتے تھے که شاید کھیں ان پر وحی آ جاۓ اور نبی بن کر باھر آ جاۓ.

زوالنون بھی صوفیه کے ولی تھے وه کھا کرتے تھے که الله نے صوفیه کیلۓ ساری کائینات کو مسخر کر دیا ھے.
زولنون کھتے ھیں انھوں نے مگر مچھ کے پیٹ سے ایک بچه نکلوایا تھا.

ابراھیم بن ادھم کھتے ھیں که امام جعفر صادق ع درندوں کو لوگوں کیلۓ راستے سے ھٹا دیتے تھے.

معروف کرخی میلوں کا فاصله چند منٹوں میں کر لتے تھے.

مختصر یه که صوفیه کی داستان بھت طویل ھے اگر سب لکھنے پر آؤں تو پھر سینکڑوں پوسٹ لگانا پڑیں گی.
صوفیه نے آپنے اولیاء کیلۓ ایسے ایسے معجزات و کرامات بیان کیں ھیں که ایسے معجزات انبیاء ع اور اھلبیت ع نے بھی صادر نھیں فرماۓ.

الغرض صوفیه نے واردات کے زریعے خورشید اسلام کو گھنا دیا اور اسلام جو که حقائق مبنی دین ھے .پر اسے صوفیه نے بازیچه اطفال بنا دیا.
جو تصوف کو  شیعه سے جوڑنا چاھتے ھیں وه سچ بیان نھیں کرتے تصوف دوسری صدی ھجری کے نصف اول میں شروع ھوا اور اھلسنت ھی کی صفوں سے نمودار ھوا تھا.
پھر آھسته آھسته اس میں الحاد,شعبده بازی,اور اسلام کے بنیادی عقائد سے انحراف شامل ھو گیا.

                        (جاری ھے)

کرامات اھلبیت علیھم ,صوفیه آور غالی شیعه

کرامات اھلبیت ع و صوفیه

پوسٹ نمبر:11-------------- تحریر : سائیں لوگ

کرامات صوفیه ایک ایسا عنوان ھے جس پر بھت سے مولفین نے کتابیں لکھی ھیں اور صوفیه کی محبت میں ڈوب کر ایسی ایسی باتیں نقل کی ھیں که ان کی کرامات کے سامنے انبیاء ع کے معجزات اھمیت نھیں رکھتے.

اور نه ھی کسی غالی نے بھی اھلبیت ع سے ایسے معجزات بیان کیۓ ھوۓ ھوں سب صوفیه پرست حوالا دیتے ھیں چشم دید گواھی نھیں دے پاتے که فلاں بزرگ یا ولی نے ایسے انوکھی کرامات دکھائیں کچھ شعبده باز صوفی مریدوں کو گمراه بھی شعبده بازی سے کرتے ھوۓ ان کے دلوں پر آپنی فضیلت کی ڈھاک بٹھاتے ھیں.

میرۓ خود زاتی تجربه میں بھی ایسے واقعات گزرۓ ھیں.
کافی عرصه مجھے میرۓ احباب مختلف گندی گالی دینے والے پیروں کے آستانے پر لے کے جاتے رھے ھیں میں بھی تجربه کیلۓ ان کے ساتھ خوشی سے چل پڑتا تھا.

 وھاں جاکر جن مشرکانه افعال کا مشاھده کیا وه میری ھدایت کا سبب بنے.

انبیاء ع نے جو معجزات باامر مجبوری پیش کیۓ وه کلام الھی میں درج ھیں.
ایسے نھیں تھا که جو بھی کافر,مشرک معجزه چاھتا اور انبیاء ع پیش کر دیتے .

سوره بنی اسرائیل میں مشرکین مکه کا یه مطالبه ضرور ھے که آپ مکے کی طبیعی حالت بدل دیں اور پھاڑ ھٹ جائیں یھاں درخت اور نھریں وجود میں آ جائیں.

آپ کیلۓ سونے کا گھر ھو آپ ھمارۓ سامنے آسمان کی جانب پرواز کریں وغیره 
تو آپ ص نے جواب میں یھی کھا تھا که 
سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا.

میرا رب پاک ھے میں تو بس ایک بشر ھوں جسے رسول بنا کر بھیجا گیا ھے.
سوره بنی اسرائیل ع:93..

مگر جھاں سخت ضرورت پڑی آپ ص نے الله پاک کے حضور درخوست کی اور معجزات پیش ھوۓ.
اسی طرح اھلبیت ع نے بھی لوگوں کے سامنے معجزات پیش کیۓ تھے جو شیعه معتبر کتب بشمول یعقوب کلینی رح نے آپنی کتابوں میں رقم کیۓ ھیں.

اھلبیت ع نے جو معجزات دکھاۓ سو دکھاۓ لیکن افسانه طرازیوں غالیوں نے صحیح معجزات کے پهلو به پهلو سینکڑوں غلط معجزات تراش لیۓ اور اھلبیت ع کی طرف منسوب کر دیۓ.

اس نظریه سے تشیع پر کاری ضرب لگائی گئی اور نه ھی اھلبیت ع کے ساتھ بھلائی کی ھے.
اور دشمنان تشیع و اھلبیت ع کو بھت کچھ کھنے کے مواقع فراھم کیۓ ھیں.
اور شیعت کا مذاق آڑایا ھے.

یه بھی حقیقت ھے یه روایات زیاده تر غالی اور کازب راویوں سے منسوب ھیں.
ایسی بھت سی روایات اھلبیت ع کے دور میں بھی شروع ھو گئیں تھیں.
اور اھلبیت ع نے آپنے حقیقی ماننے والوں ثقه ساتھیوں کو ھوشیار کر دیا اور ان کازب لوگوں سے دور رھنے کی نصیت کی.
اور بیزاری کا اعلان کیا.

اس موضوع پر اھل تشیع کے نامور عالم سید ھاشم معروف الحسنی کی کتاب "الموضاعات" کا مطالعه کریں.

مختصر گزارش یه ھے که اھلبیت ع خدا کی قدرت سے معجزات دکھاۓ اور جھاں حالات کا تقاضه ھوتا الله تعالی سے دعاء کرتے اور خدا ان کے ھاتھوں پر ھی معجزات ظاھر کر دیتے.

دوسرا یه که معجزات و کرامات کا عقیده مذھب تشیع کی ضروریات سے نھیں ھے.
اھلبیت ع کی سوانح حیات پڑھنے والا شخص جانتا ھے که وه آپنے دور کے عظیم اور ممتاز ترین افراد تھے.

مگر افسوس ھے دشمنان شیعت نے اھلبیت ع کے معجزات و کرامات کو صوفیه کے کرامات سے جوڑنے کی کوشش کی ھے.
جیسے ڈاکٹر شیبی نے شیعت سے اور قیشری نے کرامات صوفیه کو انبیاء ع سے جوڑا ھے.
مذید رساله قیشری ص:664,کا مطالعه کریں.

قیشری کھتا ھے معجزه انبیاء ع کا خاصه اور کرامات صوفیه کا خاصه ھیں.

انھوں نے حضرت عمر کا ایک واقعه لکھا که مدینه میں ممبر پر بیٹھے ھوۓ دوران خطبه کھا یا ساریه الجبل الجبل 
ساریه پهاڑ کی طرف دیکھو پوچھا گیا آپ نے بے ربط جملے کیوں کھے فرمایا خطبے کے دوران میری نظر ایرانی لشکر پر پڑی جو پهاڑ کی سمت مسلمانوں کی طرف بڑھ رھا تھا.
مسلمانوں کی فوج کا سالار ساریه اس سے غافل تھا اس لیۓ میں نے آواز دی.
اور اس نے ھزاروں میل دور سے آواز سنی.

اسی زمن میں ڈاکٹر شیبی مولا علی ع پر لکھی کتاب خصائص امیرالمومینین ع کے حوالے سے لکھا که یهی عقیده شیعه رکھتے ھیں ایک مرتبه کسی مجبوری کی وجه سے آپکی نماز قضا ھو گئی تو آپ نے اسم آعظم پڑھا اور سورج ظھر کے مقام پر پلٹ آیا.

حالنکه اس طرح کا واقعه حضرت موسی ع کے جانشین و وصی یوشع بن نون کے ساتھ پیش آیا تھا.

یه سچ ھے که شیعه علماء نے یه روایت کثرت سے نقل کی ھے مگر امام علی کی فضیلت اس کرامت کی محتاج نھیں اور نه ھی تصوف کا سر چشمه ولایت آئمه قرار پا سکتی ھے.

اب ڈاکٹر شیبی اسے حضرت موسی ع کے وصی کی طرف منسوب کرتے ھیں مگر اھلسنت کی اکثریت اسے رسول الله ص سے منسوب کرتے ھیں جبکه شیعه امام علی ع کی طرف.

مگر افسوس ھے کافی اھلسنت مولفین نے رد شمس کے کئی واقعات لکھے ھیں جیسے حضرت ابوبکر کیلۓ سورج لوٹ آیا.عمر کیلۓ اور کئی صوفیه و شیوخ کیلء بھی روایات ھیں.
ایک بات واضح ھے که شیعه مذھب محتاج معجزات نھیں .

جبکه صوفیه کیلۓ کرامات پر ایمان رکھنا لازم ھے اور کرامات بھی ایسی که انبیاء و اھلبیت ع بھی نه دکھا سکے جو صوفیه نے دکھائیں.

وه اس لیۓ که صوفی الله سے براه راست فیض لیتے ھیں وحی کا چکر نھیں ھوتا خدا سے متحد اور خدا ان میں حلول کر جاتا ھے.

اسی وجه سے ساری کائینات ان صوفیوں کے تصرف میں آ جاتی ھے.
جیسے سراج ,شبلی,بسطامی,غوث آعظم,اور حلاج جیسے صوفی بزرگ .

ان صوفیه کی انوکھی کرامات کی تفصیل اگلی پوسٹ میں ملحاظه فرمائیں.

                       (جاری ھے)

تصوف اور نظریه حلول کفر و شرک پر عقیده

تصوف ایک باطل عقیده ھے

                    "قسط نمبر:10.            تحریر:  "سائیں لوگ

پوری کائینات کا علم اور لوح محفوظ کا مطالعه کرنے والے صوفیه اس لفظ کے اشتقاق پر اختلاف رکھتے ھیں اور درست مفھوم نھیں جان پاۓ

                           قسط نمبر:10

 بعض کے مطابق صحابہ میں سے جو لوگ اہلِ صفہ کہلاتے تھے، یہ ان کی طرف منسوب ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا ماخذ صفا ہے.
 بعض کے نزدیک صف، لیکن قاعدہ اشتقاق کی رو سے یہ تینوں باتیں غلط ہیں۔ شبلی کہتے ہیں تصوف صوف سے ماخوذ ھے.
 جس کے معنی پشمینہ کے ہیں.

لیکن پشمینی پوش ہونا اس فرقے کی کوئی خصوصیت نہیں۔ علی ہجویری کی رائے ان سب سے مختلف ہے.
 ان کی تحقیق کے مطابق لباس صوف، اہلِ تصوف کا امتیازی نشان تھا۔ اس سلسلے میں وہ مشہور اصحاب رسول کا ذکر کر کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ سب لباس صوف کو محبوب رکھتے تھے.

 شیخ سہروردی بھی اسی خیال کی تاکید کرتے ہوئے حسن بصری کا قول پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ستر اہلِ صفا کو دیکھا تھا (گویا وہ صوفی تھے) جن کی پوشاک صوف تھی.

پھر کشف المحجوب میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ ہمیشہ صالحین اور زہاد اور متقین اور عباد کو صوف کا ہی لباس مرغوب اور مطبوع رہا ہے.
اس کے یہ معنی ہوئے کہ گر عہدِ نبوی کے عزلت نشیں اور زہد پسند بزرگوں کو اولین صوفیاء میں تسلیم کر لیا جائے تو تصوف آسانی کے ساتھ صوف سے مشتق قرار دیا جا سکتا ہے.

مشترقانِ یورپ نے بھی زیادہ تر اسی نظریہ کی حمایت کی ہے.
لیکن تصوف کا لفظ اصل میں ‘سین’ سے تھا۔ جس کا مادہ سوف تھا۔ جس کے معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں.
 دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کا ترجمہ ہوا تو یہ لفظ عربی زبان میں آیا۔

اور چونکہ حضراتِ صوفیا میں اشراقی حکماء (اشراقیت جدید neo-platonism کے صوفیاء) کا انداز پایا جاتا تھا.

 اس لئے لوگوں نے ان کو سوفی یعنی حکیم کہنا شروع کر دیا.
 رفتہ رفتہ سوفی سے صوفی ہو گیا.

 مرکس (merx) کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ لفظ یونانی (sogos) سے پیدا ہوا ہے.
یعنی سوف سے صوف ہوا۔ پھر بعد میں صوفہ ہو گیا۔ علامہ ابو ریحان البیرونی نے اس بات کی تائید کی.
ڈاکٹر نکلسن نے بھی تصوف کو صوف سے مشتق قرار دیا ہے۔ اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایران میں صوفی کو پشمینہ پوش بھی کہتے ہیں اور یہ محض صوف کی رعایت ھے.
100/سو ہجری تک لباسِ صوف کو اسی بنا پر مذہبی عیسوی کا نشان سمجھ کر عرب میں سخت ناپسند کیا گیا. لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں ‘تصوف’ اور ‘صوفی’ اشراقیت جدید سے متاثر ہو کر وارد ہوئے،

 جس بنا پر پہلے پہل صوفی اور تصوف کو عالمِ اسلام میں سخت نا پسند کیا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ انہیں قبول
 کر لیا گیا.

تصوف کو ایک روحانی اور وجدانی مسلک کی صورت میں پھیلانے کی کامیاب کوشش کی گئی.
 اسلام کا تصوف اسلام کا اپنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس تصوف کو اسلامی کرنے میں غزالی جیسے علماء کا ہاتھ ہے.

جنہوں نے عقلیت پسندی کا راستہ مثالیت پسندی سے روکنا چاہا، اور اس میں کامیاب بھی رھے.

تصوف میں عجیب و غریب قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں، مثلاً اکثر صوفیا نظریہ حلول کے قائل ہیں، کے کائنات میں رواں دواں ایک سرمدی ہستی ان میں حلول کر گئی ہے.

 چنانچہ اب کائنات امور وہ سرمدی ہستی انہی میں بیٹھ کر سر انجام دے رہی ہے. یعنی وہ خود کو خدا بتاتے ہیں.

 وہ سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کوئی آسمانی شے ان میں ہمہ وقت موجود رہتی ھے.
خدا ان کے جسم میں تشریف فرما ہے.

 مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی گدھے کا تصور کرے، دن رات گدھے کے مقدس خیال میں ڈوبا رہے، تو کیا وہ گدھا ہو گیا؟ یقیناً نہیں۔ پھر ان تصوف کے نمائندوں کا کہنا ہے کے انہیں کُل کائناتی امور کا بدرجہ اتم علم ہے.
 کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا علم ان کے اندر سما گیا ہے، ہستیِ مطلق نے انہیں کل کائنات کے ہر قسم کے علم کی کنجی تھما دی ہے، اور وہ علم کیا ہے؟ لاتعداد عجیب و غریب واقعات، بے سروپا باتیں، علامات، فرشتوں اور خدا سے ہمکلامی، ملاقات، ولیوں سے شبِ وصل،

 پیغمبروں کی غائبانہ محافل میں دو زانو ہو کر ‘تعلیم’ حاصل کرنا، غرض جنہیں عقل بے ہنگم باتیں قرار دے دے.

 اس پر طرہ یہ کے اس ‘علم’ کو خواص تک محدود رکھا جائے۔ عام نہ کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ.

جس طرح تصوف کی تعریف ناقابلِ یقین ہے، اسی طرح اس کی وجہ تسمیہ بھی اختلافِ خیال کا مرکز بنی ہوئی ہے.
ڈیوڈ  بیریٹ کہتے ہیں:

‘تصوف باطنی اسلام ہے لیکن حقیقت میں اس سے زیادہ کچھ ہے.
صوفیوں نے راسخ العقیدہ مسلمانوں میں احترام اور خوف کا ایک غیر راحت بخش جذبہ پیدا کیا.

صوفی کے لفظ کا مطلب عربی زبان میں ‘صوف نامی کھردرا کپڑا پہننے والا’ بنتا ہے۔۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی مرتض اور باطن پرست بھی کھردرا اونی چغہ پہنا کرتے تھے.

عربی کے ‘صفا’ یعنی پاکیزگی کے ساتھ بھی لفظ صوفی کا تعلق ہوگا.
عبرانی میں ‘عین صوف’ کا مطلب ھے اختتام’ ھے جو ناقابلِ معلوم خدا کیلیے اقبالی اصطلاح تھی.

 قرآن کی صوفی تفسیر باطنی اور تشبیہاتی ھے.
 صوفیا نے تمام چیزوں سے برتر خدا کے شخصی و انفرادی وصال کی خواہش کے ذریعے خود کو رسمی اسلام کی درجہ بندیوں کے کنٹرول سے ماوراء کر لیا.              
                 (جاری ھے)

صوفیه,غالی تشیع اور دجالی عیسائیت میں گھری مماثلت

غالی صوفیه اور دجالی عیسائیت


قسط نمبر :9.         تحریر : سائیں لوگ

ڈاکٹر  زکی مبارک آپنی کتاب,
 التوف الاسلامی فی الادب والاخلاق
میں لکھتے ھیں که غالی صوفیه کے ھاں "حقیقت محمدیه" کا جو نظریه پیش کیا گیا ھے وه نصرانیت کے اصول سے ماخوز ھے .

نصرانی حضرت عیسی ع کو ابن الله مانتے ھیں اور اس سے مراد یه ھے که وه خدا اور وجود کے درمیان واسطه ھیں .

میں برسوں کی سوچ بچار کے بعد اس نتیجه پر پهنچا ھوں که صوفیه نے  آپنے تئیں یه کوشش کی تھی که حضرت عیسی ع کیلۓ عیسائیوں نے جو اعزاز تراشا تھا وه اس اعزاز کو حضرت عیسی ع سے لے کر حضرت رسول خدا ص کو دیدیں جب عیسائیوں نے حضرت عیسی ع کو یه اعزاز دیا ھے تو رسول خدا ص کو اس اعزاز سے کیوں محروم رکھا جاۓ حالنکه آپ ص حضرت عیسی سے افضل ھیں,

اس اعزاز پر ھم پوسٹ نمبر :8 میں مختصرا وضاحت پیش کر چکے ھیں.

چنانچه صوفیه نے یه عقیده آپنایا که رسول خدا ص ھر چیز پر قادر ھیں اور آپکی زات اصل وجود ھے.

اگر آپ نه ھوتے تو کائینات میں کچھ بھی نه ھوتا.
یه روایت سلمان بن عساکر سے مروی ھے.
لوامع انوار الکوکب الدری جلد:1,ص:15.
الخصائص الکبری جلد:1ص:7.
کنزالعمال حدیث نمبر:32025.
الانوار نعمانیی جلد:1,ص243.

اب شیعه عالم علامه محمد حسن جعفری جس نے تصوف اور تشیع میں فرق ,
کتاب کا ترجمه کیا ھے وه لکھتے ھیں حدیث لولاک اس کا متن اور حوالاجات ملتے ھیں .
مگر اسکی اسناد حدیث رجال کے علماء کی تحقیق سے دستیاب نھیں ھو سکی اس بات سے علامه عسکری اور شیخ معتصم سید احمد سوڈانی بھی متفق ھیں.بلکه نھج البلاغه میں عظمت اھلبیت ع کے خطبات میں بھی یه بات پڑھنے کو نھیں ملی.

اس سے معلوم ھوتا ھے که یه نظریه حقیقت محمدیه ص صوفیه کا خود ساخته پرداخته اور عیسائی نظریه کا چربه  ھے .
صفئیوں نے یه نظریه فلاسفه یونان سے لیا تھا.

جنھوں نے قوتوں کو عقول میں تقسیم کیا تھا ظاھری طور پر یه بات قرین قیاس دکھائی نھیں دیتی که صوفیه یونانی فلاسفے سے متاثر ھوۓ ھوں .
لیکن جس کسی نے بھی فلسفیانه افکار کا مطالعه کیا ھے اس کیلۓ اس میں کوئی اچنبا نھیں پایا جاتا.

صوفیه میں یونانیوں اور مصریوں کے کچھ ادھام دانسته یا نا دانسته داخل ھو گۓ ھیں.

اھل یونان یه خیال کرتے ھیں که ھر وقت کا علیحیده علیحده دیوتا ھے اور مصری بت پرستوں کا  اعتقاد تھا که سورج کو ایک دیوتا  یا ایک فرشتے نے اٹھا رکھا ھے اور وه اسے مشرق سے مغرب کی طرف دھکیلتا ھے.
 یهی مصری عقیده تصوف میں بھی پایا جاتا ھے صوفیه کھتے ھیں اولیاء اور صوفیه کی کبھی کبھی سورج پر ڈیوٹی لگا دی جاتی ھے.اور وه اسے کھینچتے رھتے ھیں.

طبقه غلات شیعوں اور صوفیوں دونوں میں پایا جاتا ھے اور باطنی امور ان دونوں کے ملتے جلتے ھیں.

جیسے ڈاکٹر شیبی نے غلو کے پس منظر میں جو علل و اسباب لکھے ھیں ان میں یه واقعه بھی لکھا که پاک نبی ص کے وصال پر حضرت عمر نے بھی غلو کیا اور تلوار لے کر باھر آ گۓ اور کھا جس نے بھی وصال پیغمبر ص کا کھا اس کی گردن اڑا دی جاۓ گی.
 کیونکه آنحضرت عام انسانوں کی طرح نھیں ان پر عام افراد کی طرح موت واقع نھیں ھو سکتی.

یه کیفیت دیکھ کر حضرت ابو بکر نے انھیں سمجھایا اور قرآن کی ایک آیت پڑھی کل نفس زائقةالموت پھر انھیں جا کر کھیں تسلی ھوئی.

حضرت عمر کے اس غالیانه رویۓ سے بعد میں مسلمانوں میں یه رویه عام ھو گیا اور ھر طرف سے معجزات پر کتابیں لکھیں گئیں جن میں یه بتایا گیا که سنگریزۓ آپکے ھاتھ پر تسبیح اور درخت آپ ص سے کلام کرتے تھے.
جھاں تک که ڈاکٹر شیبی خود تسلیم کرتے ھیں.

جھاں تک ھماری تحقیق ھے که امام علی ع اور اولاد علی ع کے متعلق غلو بعد میں شروع ھوا غلو کی شروعات امام علی ع کے مخالفین سے ھوئیں.

جیسے جب جنگ جمل میں حضرت عائشه جس اونٹنی پر سوار ھو کر آئیں تو قبیله ضبه اور قبیله ازد کے لوگ جو حفاظت پر مامور تھے .اور اونٹ کے چاروں طرف حصار بناۓ ھوۓ تھے .
وه اس اونٹ کی مینگنیاں اٹھا اٹھا کر کھتے که کتنی اچھی خوشبو ھے مشک سے بھی زیاده خوشبودار.

جب امام علی ع کے حامیوں نے مخالفین کے اس غلو عمل کو دیکھا تو وه بھلا کیسے پیچھے ره سکتے تھے.
 جبکه مولا علی ع کے حق میں بے شمار مناقب و فضائل بھی تھے چنانچه انھوں نے بھی ان مقدس ھستیوں کی شان میں غلو کرنا شروع کر دیا.

اگر تاریخی حقیقت دیکھی جاۓ تو غالی شیعه بھی برملا امیر شام معاویه ملعون کو کافر اور حضرت عثمان و دیگر منافقوں پر لعنت کرتے ھیں جو موحول کو خراب اور قتل غارت کی طرف لے جاتے ھیں.

بعد میں حضرت مختار ثقفی کے رویۓ سے ان افکار کو فروغ ملا تو کوفیوں نے آئمه اھلبیت ع کو علیحده روح کا حامل ,علم الدنی کا مالک اور صفات الھیه سے متصف قرار دیا.
پھر محمد بن حنفیه رض اور ان کے بعد ان کے فرزند ابو ھاشم آۓ تو انھوں نے علم مخفی سے آئمه اھلبیت ع کو متصف قرار دیا.
انھیں عقائد کی وجه سے حضرت زید  بن امام زین العابدین ع اور محمد بن حنفیه میں اختلاف ھوا.

اور کھا ھر ظاھر کا کچھ نا کچھ  باطن ھوتا ھے .
ابو ھاشم کے بعد محمد بن علی بن عبدالله بن عباس کی ولی عھدی کے بعد منظم غلو کا آغاز ھوا.
                            (جاری ھے)

کیا بعض صوفی شیعه تھے.....

:کیا بعض صوفیه شیعه تھے

                 قسط نمبر:8.         تحریر : سائیں لوگ

اھلسنت کے مشھور مورخ اور بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر کامل مصطفی شیبی جنھوں نے آپنی 
کتاب" الصلة بین التصوف والتشیع "میں
 یه الزام لگایا,

 که تصوف شیعه مذھب کی پیداوار ھے مگر ان کی اس کوشش کو مذھب شیعه کے بلند پایه عالم سید ھاشم معروف الحسنی (لبنان)
نے تار و پود بکھیر کے رکھ دیا.

 پروفیسر شیبی نے حسن بصری کو امام علی ع اور معروف کرخی کو امام رضا ع کے ھاتھوں مسلمان اور باطنی تعلیم دینے کا استاد مانا ھے کیونکه کرخی پهلے مجوسی یا عیسائی المذھب تھا.

صوفی کھتے ھیں معروف کرخی کرامات کے بزرگ تھے اور یه تمام کرامات امام رضا ع کی برکت سے نصیب ھوئیں.

ڈاکٹر شیبی کے علاوه علامه سلمی نے طبقات صوفیه میں ,شعرانی نے آپنی طبقات اور سید محمود ابوالفیض نے جمھرة الاولیاء میں بھی یهی بات نقل کی ھے که یه فیض امام رضا ع سے حاصل کیا.

مگر معروف کرخی نے 200/ھجری میں وفات پائی اور بغداد میں دفن ھوۓ جبکه اس دوران امام رضا ع آپنے والد کی شھادت کے بعد 200/ھجری تک مدینه میں قیام پذیر رھے.

کسی مصنف نے نھیں لکھا که آپ بغداد آۓ ھوں.
بعض صوفیه با یذید بسطامی کو بھی جنھوں نے شرک و کفر کی تمام حدیں کراس کیں ھیں انھیں امام جعفر صادق سے ملاقات جوڑنے کی کوشش کی ھے تاکه تصوف کو ھر ممکن شیعت سے جوڑا جاۓ .

بسطامی نے 261/ھجری میں وفات پائی تیس سال سفر کیا 103/مشائخ کی خدمت کی ,
مگر 148/ھجری میں امام جعفر صادق ع وفات پا گۓ تھے.
احمد محمود صبحی کی کتاب نظریة الامامة.
بسطامی کی عمر 120/سال تھی ساری زندگی چاک و چوبند رھے اگر دیکھا جاۓ تو سات سال بنتے ھیں اس عمر میں ایک بچه کتنا شعور مند ھوتا ھے اور کتنا فیض یاب ھو سکتا دوسرا بسطامی کا ھر دعوی توحید کے رد اور شرکیه ھے.
زوالنون مصری صوفیه کا اسماعیلی فرقه کے چند لوگوں سے اٹھنا بیٹھنا تھا اسے بھی شیعه ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ھے.یه ماھر کیمیا تھا.

جابر بن حیان بھی امام جعفر صادق ع کا شاگرد تھا اور وه شیعه تھا لھذا زوالنون بھی ماھر کیمیا تھا لھذا وه بھی شیعه ھوا
ان لوگوں نے ھر ممکن تصوف کو جھوٹ پر شیعه سے جوڑنے کی سر توڑ کوشش کی ھے مگر صوفیه کا عقیده اھلبیت ع کے عقیده کے بر خلاف ھے.

حسین بن منصور حلاج جو غالی اسماعیلی تھا اور یه شخص شعبده باز تھا اسے بھی شیعه بنانے کی کوشش کی ھے مگر ان لوگوں کو معلوم ھونا چاھیۓ اسماعیلی غالیوں کو شیعه کافر قرار دیتے ھیں.

یه حلول کا عقیده رکھتا تھا اس نے الوھیت اور مھدویت کا دعوی بھی کیا تھا
حسین بن منصور کا مشھور جمله ھے 
انا الحق لیس فی جبتی غیر الله.
یعنی میں حق ھوں اور میرۓ جبے میں الله کے سوا کچھ نھیں.

حلاج نے یه بھی دعوی کیا که میں نے آپنے رب کو آپنی رب کی نگاه سے دیکھا تو میں نے پوچھا تو کون ھے اس نے کھا میں تو ھی ھوں.

حلاج نے کھا تھا که میں نے ھی عاد و ثمود کو ھلاک کیا جیسے غالی کھتے ھیں که مولا علی ع نے عاد و ثمود کو ھلاک کیا .

مختصر یه که حلاج ,بسطامی وغیره عقیده حلول کے قائل تھے جبکه اھلبیت ع عقیده حلول کو کفر قرار دیتے ھیں.

یھی وجه ھے شیعه علما ء نے اس وقت ان کے عقیده حلول پر کفر کا فتوی دیا تھا.

مذید تفصیل کیلۓ اداره مطبوعه جامع تعلیمات اسلامی کی شائع کرده کتاب سیرت آئمه اھلبیت ع جلد دوم کا مطالعه کریں.جسمیں ان شعبده بازوں کا تفصیلی زکر ھے.

ابن عربی کا عقیده بھی شیعه سے جوڑا جاتا ھے حالنکه یه سراسر بھتان ھے.
شیعه آج بھی ان لوگوں سے نفرت اور مشرک جانتے ھیں.

ان صوفیه کا عقیده تخلیق رسول الله ص  غلو پر ھے ابن عربی کھتا ھے سب سے پهلے روح محمد ص کو مدبر کے طور پر پیدا کیا اسکی حرکات کے نتیجے میں دوسری ارواح پیدا ھوئیں.ان ارواح کا وجود عالم الغیب میں تھا.تمام ارواح نے محمد ص کے آنے کی بشارت دی.

ساتھ الله نے تمام انبیاء پر واضح کیا که وجود محمد ص تم سب سے پهلے کا ھے.
وه سائل بھی خود تھا مسول بھی خود داعی بھی اور مجیب بھی خود تھا.عطاکنده بھی عطا حاصل بھی حقیقت محمدیه کو آپنے فیصلے کی صورت میں پایا.پھر اسے شب غیبت میں سے کھینچ لیا.
پھر دن کی شکل دی پھر اس میں سے چشمے دریا جاری ھوۓ پھر عالم کو برآمد کیا تو وه بارش برسانے والا آسمان بن گیا پھر اس کے نور چشم سے جو متصل تھا ایک ٹکڑا جدا کیا پھر جب وه وه ٹکڑا صورت کے  مقابل آیا تو اس سے حضرت  محمد ص کو پیدا کیا.

ابن عربی نے یه نظریه شیعه مذھب کی معتبر کی کتاب اصول کافی کی ایک حدیث سے لیا اسی لیۓ اسے شیعه مذھب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ھے.

که آسمان  و زمین کی پیدائش سے پهلے پاک نبی ص اور حضرت علی ع کو روح بلا بدن  کی شکل میں پیدا کیا.
پھر دونوں کی روح کو جمع کرکے ایک روح بنا دیا پھر وه روح خدا کی تھلیل و تمجید و تقدیس کرتی رھی پھر اسے تقسیم کیا مذید دو روحیں بنائیں اور وه چار ھوگئیں محمد ص علی ع حسن ع حسین ع پھر الله نے ایک اور نور سے فاطمه زاھر س روح بلا بدن کی صورت میں پیدا کیا پھر اس نے ھمیں آپنے دائیں ھاتھ سے مس کیا تو نور چمکنے لگا.

 ڈاکٹر شیبی کھتا ھے اس طرح ابن عربی,کلینی ,اور جیلی کا نظریه یکساں ھے لھذا شیعه اور صوفیه کا عقیده مشترک ھے که نفس محمد ص غیر فانی ھے بلکه غالی شیعوں میں یه نظریه بھی ھے که آئمه اھلبیت ع بھی غیر فانی ھیں یه غالیوں کا اھم عقیده ھے.

حالنکه غالی شیعه اور غالی صوفیه نے حقیقت محمدیه کا جو عقیده پیش کیا ھے.یه اصول اسلام سے متصادم ھے اور اصول دین کے ساتھ عقائد اسلامی کو مسخ کرتا ھے.

یه شیعه اثناۓ عشریه کا نھیں نصیریوں کا عقیده ھے.

کیونکه قرآن نے بڑی وضاحت سے واضح کیا ھے که پیغمبر اسلام ص بھی دوسرۓ انسانوں کی طرح ایک افضل انسان ھیں کھاتے پیتے اور بازار بھی جاتے ھیں.

خدا نے بنی نوح انسان میں سے انتخاب کیا اور انھیں ھر طرح کی ناپاکی سے دور رکھا اور آپنی رسالت عظمی کی تبلیخ کی زمه داری سونپی.

سوره آل عمران ع:144,

سوره کھف ع:110

سوره ق ع:2

سوره جمعه ع:2,

سوره بنی اسرائیل ع:93.

ابن عربی اور پیرو عبدالکریم جیلی کا عقیده ان آیات کے مفھوم سے متصادم ھے.
اور کلینی رح کی حدیث کو درست نھیں سمجھا گیا.
                         (جاری ھے)
:کیا بعض صوفیه شیعه تھے

                
قسط نمبر:8.    تحریر:  "سائیں لوگ

اھلسنت کے مشھور مورخ اور بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر کامل مصطفی شیبی جنھوں نے آپنی 
کتاب" الصلة بین التصوف والتشیع "میں
 یه الزام لگایا,

 که تصوف شیعه مذھب کی پیداوار ھے مگر ان کی اس کوشش کو مذھب شیعه کے بلند پایه عالم سید ھاشم معروف الحسنی (لبنان)
نے تار و پود بکھیر کے رکھ دیا.

 پروفیسر شیبی نے حسن بصری کو امام علی ع اور معروف کرخی کو امام رضا ع کے ھاتھوں مسلمان اور باطنی تعلیم دینے کا استاد مانا ھے کیونکه کرخی پهلے مجوسی یا عیسائی المذھب تھا.

صوفی کھتے ھیں معروف کرخی کرامات کے بزرگ تھے اور یه تمام کرامات امام رضا ع کی برکت سے نصیب ھوئیں.

ڈاکٹر شیبی کے علاوه علامه سلمی نے طبقات صوفیه میں ,شعرانی نے آپنی طبقات اور سید محمود ابوالفیض نے جمھرة الاولیاء میں بھی یهی بات نقل کی ھے که یه فیض امام رضا ع سے حاصل کیا.

مگر معروف کرخی نے 200/ھجری میں وفات پائی اور بغداد میں دفن ھوۓ جبکه اس دوران امام رضا ع آپنے والد کی شھادت کے بعد 200/ھجری تک مدینه میں قیام پذیر رھے.

کسی مصنف نے نھیں لکھا که آپ بغداد آۓ ھوں.
بعض صوفیه با یذید بسطامی کو بھی جنھوں نے شرک و کفر کی تمام حدیں کراس کیں ھیں انھیں امام جعفر صادق سے ملاقات جوڑنے کی کوشش کی ھے تاکه تصوف کو ھر ممکن شیعت سے جوڑا جاۓ .

بسطامی نے 261/ھجری میں وفات پائی تیس سال سفر کیا 103/مشائخ کی خدمت کی ,
مگر 148/ھجری میں امام جعفر صادق ع وفات پا گۓ تھے.
احمد محمود صبحی کی کتاب نظریة الامامة.
بسطامی کی عمر 120/سال تھی ساری زندگی چاک و چوبند رھے اگر دیکھا جاۓ تو سات سال بنتے ھیں اس عمر میں ایک بچه کتنا شعور مند ھوتا ھے اور کتنا فیض یاب ھو سکتا دوسرا بسطامی کا ھر دعوی توحید کے رد اور شرکیه ھے.
زوالنون مصری صوفیه کا اسماعیلی فرقه کے چند لوگوں سے اٹھنا بیٹھنا تھا اسے بھی شیعه ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ھے.یه ماھر کیمیا تھا.

جابر بن حیان بھی امام جعفر صادق ع کا شاگرد تھا اور وه شیعه تھا لھذا زوالنون بھی ماھر کیمیا تھا لھذا وه بھی شیعه ھوا
ان لوگوں نے ھر ممکن تصوف کو جھوٹ پر شیعه سے جوڑنے کی سر توڑ کوشش کی ھے مگر صوفیه کا عقیده اھلبیت ع کے عقیده کے بر خلاف ھے.

حسین بن منصور حلاج جو غالی اسماعیلی تھا اور یه شخص شعبده باز تھا اسے بھی شیعه بنانے کی کوشش کی ھے مگر ان لوگوں کو معلوم ھونا چاھیۓ اسماعیلی غالیوں کو شیعه کافر قرار دیتے ھیں.

یه حلول کا عقیده رکھتا تھا اس نے الوھیت اور مھدویت کا دعوی بھی کیا تھا
حسین بن منصور کا مشھور جمله ھے 
انا الحق لیس فی جبتی غیر الله.
یعنی میں حق ھوں اور میرۓ جبے میں الله کے سوا کچھ نھیں.

حلاج نے یه بھی دعوی کیا که میں نے آپنے رب کو آپنی رب کی نگاه سے دیکھا تو میں نے پوچھا تو کون ھے اس نے کھا میں تو ھی ھوں.

حلاج نے کھا تھا که میں نے ھی عاد و ثمود کو ھلاک کیا جیسے غالی کھتے ھیں که مولا علی ع نے عاد و ثمود کو ھلاک کیا .

مختصر یه که حلاج ,بسطامی وغیره عقیده حلول کے قائل تھے جبکه اھلبیت ع عقیده حلول کو کفر قرار دیتے ھیں.

یھی وجه ھے شیعه علما ء نے اس وقت ان کے عقیده حلول پر کفر کا فتوی دیا تھا.

مذید تفصیل کیلۓ اداره مطبوعه جامع تعلیمات اسلامی کی شائع کرده کتاب سیرت آئمه اھلبیت ع جلد دوم کا مطالعه کریں.جسمیں ان شعبده بازوں کا تفصیلی زکر ھے.

ابن عربی کا عقیده بھی شیعه سے جوڑا جاتا ھے حالنکه یه سراسر بھتان ھے.
شیعه آج بھی ان لوگوں سے نفرت اور مشرک جانتے ھیں.

ان صوفیه کا عقیده تخلیق رسول الله ص  غلو پر ھے ابن عربی کھتا ھے سب سے پهلے روح محمد ص کو مدبر کے طور پر پیدا کیا اسکی حرکات کے نتیجے میں دوسری ارواح پیدا ھوئیں.ان ارواح کا وجود عالم الغیب میں تھا.تمام ارواح نے محمد ص کے آنے کی بشارت دی.

ساتھ الله نے تمام انبیاء پر واضح کیا که وجود محمد ص تم سب سے پهلے کا ھے.
وه سائل بھی خود تھا مسول بھی خود داعی بھی اور مجیب بھی خود تھا.عطاکنده بھی عطا حاصل بھی حقیقت محمدیه کو آپنے فیصلے کی صورت میں پایا.پھر اسے شب غیبت میں سے کھینچ لیا.
پھر دن کی شکل دی پھر اس میں سے چشمے دریا جاری ھوۓ پھر عالم کو برآمد کیا تو وه بارش برسانے والا آسمان بن گیا پھر اس کے نور چشم سے جو متصل تھا ایک ٹکڑا جدا کیا پھر جب وه وه ٹکڑا صورت کے  مقابل آیا تو اس سے حضرت  محمد ص کو پیدا کیا.

ابن عربی نے یه نظریه شیعه مذھب کی معتبر کی کتاب اصول کافی کی ایک حدیث سے لیا اسی لیۓ اسے شیعه مذھب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ھے.

که آسمان  و زمین کی پیدائش سے پهلے پاک نبی ص اور حضرت علی ع کو روح بلا بدن  کی شکل میں پیدا کیا.
پھر دونوں کی روح کو جمع کرکے ایک روح بنا دیا پھر وه روح خدا کی تھلیل و تمجید و تقدیس کرتی رھی پھر اسے تقسیم کیا مذید دو روحیں بنائیں اور وه چار ھوگئیں محمد ص علی ع حسن ع حسین ع پھر الله نے ایک اور نور سے فاطمه زاھر س روح بلا بدن کی صورت میں پیدا کیا پھر اس نے ھمیں آپنے دائیں ھاتھ سے مس کیا تو نور چمکنے لگا.

 ڈاکٹر شیبی کھتا ھے اس طرح ابن عربی,کلینی ,اور جیلی کا نظریه یکساں ھے لھذا شیعه اور صوفیه کا عقیده مشترک ھے که نفس محمد ص غیر فانی ھے بلکه غالی شیعوں میں یه نظریه بھی ھے که آئمه اھلبیت ع بھی غیر فانی ھیں یه غالیوں کا اھم عقیده ھے.

حالنکه غالی شیعه اور غالی صوفیه نے حقیقت محمدیه کا جو عقیده پیش کیا ھے.یه اصول اسلام سے متصادم ھے اور اصول دین کے ساتھ عقائد اسلامی کو مسخ کرتا ھے.

یه شیعه اثناۓ عشریه کا نھیں نصیریوں کا عقیده ھے.

کیونکه قرآن نے بڑی وضاحت سے واضح کیا ھے که پیغمبر اسلام ص بھی دوسرۓ انسانوں کی طرح ایک افضل انسان ھیں کھاتے پیتے اور بازار بھی جاتے ھیں.

خدا نے بنی نوح انسان میں سے انتخاب کیا اور انھیں ھر طرح کی ناپاکی سے دور رکھا اور آپنی رسالت عظمی کی تبلیخ کی زمه داری سونپی.

سوره آل عمران ع:144,

سوره کھف ع:110

سوره ق ع:2

سوره جمعه ع:2,

سوره بنی اسرائیل ع:93.

ابن عربی اور پیرو عبدالکریم جیلی کا عقیده ان آیات کے مفھوم سے متصادم ھے.
اور کلینی رح کی حدیث کو درست نھیں سمجھا گیا.
                         (جاری ھے)