Saieen loag

منگل، 19 مئی، 2020

"سائیں لوگ کا تعارف : .About Saieen Loag

  سوشل میڈیا پر "سائیں لوگ" کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نھیں۔

مذھبی حوالے سے انکی علمی و تحقیقی خدمات پر تقریباھرمنصف و مثبت سوچ حامل اھل علم معترف ھیں۔

آپ کا اصل نام محمد جمیل محسن ھے جبکہ علمی احباب میں آپ ایم جے محسن کے نام سے معروف ھیں۔آپ 1972/میں موضع جلیل پور آرائیں تحصیل کہروڑپکا میں پیدا ھوئے ۔
آپ کےوالد گرامی کا نام مھر محمد شفیع آرائیں تھا۔جن کا شمار علاقہ و برادری کے معززین میں ھوتا تھاجو انسانیت کیلئے ایک خدا ترس و شریف و النفس انسان تھے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم آپنے آبائی علاقہ سے حاصل کی میٹرک تحصیل میلسی ضلع و ھاڑی سے آور ڈی کام بہاول پور کامرس کالج سے پاس کیا۔
اس دوران کچھ عرصہ مقامی اخبار روزنامہ "وفا "اور ھفت روزہ "زبان خلق" میں بطور رپورٹر بھی کام کیا ۔
ساتھ ھی  تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا الجامعہ حکمتہ السلامیہ یونیورسٹی فیصل آباد سے ڈی ای ایچ ایم کی ڈگری لی ساتھ ھی ایم بی ایس ٹی کیلئے بھی اپلائی کردیا۔آر- اے-سی انجینیئرنگ  کا امتحان امتیازی نمبروں سے لندن  انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد سے  
پاس کیا۔
Amouse College Washington DC     ۔
  ایماوس  کالج  واشنگٹن امریکہ سے کارسپانڈنس کے ذریعے ڈی-بی-سی انگلش میں ڈپلومہ حاصل کیا۔جبکہ ایف جی اے ملتان اور فیصل آباد سے ھی  اردو میں بائیبل پر ریسرچ کی آپ بیقوقت فیصل آباد،ملتان اور راولپنڈی کے بائیبل سنٹر سے منسلک رھے۔

آٹھ سال بائیبل سوسائٹی کے ممبر رھے اور دو دفعہ بین المذاھب  سات روزہ  بین الاقوامی  کانفرنسز جس میں امریکہ،آسٹریلیا 'برطانیہ،شکاگو سمیت ملک کے طول و عرض سے 70/ کے قریب مبران منعقدہ راولپنڈی کے پرفضا مقام مری ھلز میں بطور رکن خاص مدعو ھوئے، 
ان سیمینارز میں شرکت فرما کر دین اسلام کا بطور امن و سلامتی کے مذھب پر خوب دفاع کیا۔
 سائیں لوگ کے آباواجداد اھلسنت بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے والد محترم کا درھڑوائن موجودہ حسین آباد تحصیل میلسی میں جب آبادکاری ھوئی تو وھاں علامہ غضنفر عباس تونسوی صاحب کے والد محترم جناب امیر حسین صاحب جو اس علاقہ میں پیش نماز تھے ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع ھوا اس عرصہ میں علامہ امیر حسین صاحب سے علمی گفتگو ھوتی رھی ساتھ ھی مذھب حقہ کی حقانیت روز بروز افشاں ھوتی گئی اور آپ حق کے قریب آتے گئے دو تین سال کی رفاقت ھی میں والد محترم پر حق واضح ھو گیا ۔
اور آپ نےعملی طور پر مذھب حقہ قبول کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ھی آپنے ڈیرے پر اس علاقہ میں پہلی مرتبہ مجلس عزا امام حسین ع کا اھتمام کیا اس مجلس میں علامہ امیر حسین صاحب نے ھی خطاب کیا اس طرح علامہ صاحب کو بھی ناصبی علاقہ میں مذید مذھب حقہ کی تشریح و تبلیغ کرنے کا بہترین موقعہ میسر آیا۔
سائیں لوگ نے جب جوش سنبھالہ تو مذھب تشیع کے متعلق مشھور غلط فہمیوں و افواہوں جو ھمارے معاشرے میں عام ھیں اور جنکو بدولت مذھب حقہ کے خلاف استعمال کرکے نفرت و دشمنی کو فروغ دیا جاتا ھے۔ان باتوں پر غور و فکر اور مشاہدہ و تحقیق کیلئے عملی طور پر کھوج شروع کیا یاد رھے سائیں لوگ پدری شیعہ نھیں بلکہ طویل عرصہ کی تحقیق و مشاہدات کا نتیجہ ھے۔
سائیں لوگ کی مذھب حقہ پر پہلی بحث زمانہ طالب علمی کے دوران کالج کے اسلامیات کے پروفیسرصاحب سے ھوئی جس نے دوران لیکچر تشیع پر کافر ھونے کا الزام لگایااس وقت خاموش رھنے کے بعد دوسرے دن دوران لیکچر  جب کافر ھونے کی وضاحت طلب کی ساتھ ھی کلاس میں کسی مذھب پر تنقید و تکفیر کرنےکی تعلیمی اصول کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا تو اس لمحہ دیگر طلباء و پروفیسر صاحب کچھ لمحہ کیلئے سکتہ گئے ۔
چونکہ میں کلاس میں واحد شیعہ طالب علم تھا۔جسکی وجہ سے شور و غوغا کی مدد سے یکتا آواز کو دبانے کی کوشش کی مگر میں نے الزام تکفیر کی وضاحت پر بضد رھا۔
اسی طرح اور بھی بےشمار مواقع ملے جسمیں مذھب حقہ پر لگے الزامات پر خوب دفاع کیا۔
اس موضوع پر تقریبا 50/کے قریب پوسٹ لگ چکی ھیں ۔بعنون سائیں لوگ نے مذھب شیعہ کیوں قبول کیا۔
سائیں لوگ نے فیس بک پر مذھب حقہ پر لگے الزامات کا بھرپور جواب دیا ھے ساتھ ھی بنیادی عقائد پر وضاحت بھی پیش کی قرآن و سنت پر ٹھوس ثبوت پیش کیے اور مذھب حقہ کے عقائد و رسومات پر تنقید کرنے والوں انکے آپنے مذھب میں شامل خرافات پر جواب بھی طلب کیا۔
نماز و روزہ،ماتم و عذاداری پر اٹھنے والے الزامات کا بھر پور دفاع کیا اور مذھب حقہ کے عقائد کو قرآن مجید آور  سنت رسول ص سےثابت بھی کیا اور سینکڑوں تحریریں پیش کرکے دسیوں اھلسنت برادران کیلئے راہ حق کے تعین میں معاون بھی ھوے ۔
اسلام میں خاندان بنوامیہ کی گنڈا گردی پر پچاس کے قریب تحقیقی تحریریں لکھیں جن میں معاویہ بن سفیان  کے عملی کردار و روپ کو اھلسنت کی ھی معتبر کتب کی مدد سے بے نقاب کیا۔
2013/
 میں جب ایک عیسائی رایئٹر نے صحیح بخاری کی مدد سے رسول اللہ ص کے خلاف ھرزہ سرائی کی اس الزام میں ایک صحابیہ کو رسول اللہ ص کا پیشاب پینے پر درد شکم ختم
ھونے والی اس حدیث کو جواز بنایا۔
اس طرح اس عیسائی مفتی ضیاء کو چیلنج بھی کیا اور اور دجالی عیسائیت میں داخل بے شمار خرافات پر وضاحت بھی چابی اس طرح تقریبا ان کے عقائد باطہ پر ساٹھ کے قریب تحریریں اور 70/کے قریب اھم سوالات کے جواب بھی مانگے۔
شان رسالت ص پر لکھی گیئں سینکڑوں حدیثیں جو صحیح بخاری سمیت دیگر ستہ و معتبر اھلسنت کی کتابوں میں درج ھیں  کو کوڈ کرتے ھوے بخاری شریف کا آپریشن  کے ٹائیٹل سے آپریشن کا آغاز کیا۔اس طرح اھلسنت برادران کی کتب خاص میں لگے بے بنیاد الزامات و توھین رسالت ص کو بے نقاب کیا ان لوگوں کی ھی کتب نے دشمنیاں اسلام و رسول اللہ ص کو جواز و موقع پیش کیا ھے۔
سائیں لوگ کی شخصیت 2013/ میں اس وقت تنازعہ کا شکار ھوئی جب انھوں نے تشیع ھی میں باطل عقائد و علاقائی رسومات پر لکھنا شروع کیا۔(جاری ھے)ے


جمعہ، 15 مئی، 2020

حضرت سعد بن عبادہ کو کس نے قتل کیا۔؟


:حضرت سعد بن عابدہ کا قتل
 "تحریر و تحقیق :
"سائیں لوگ
پاک نبی ص انصار سے محبت کا کهه رھے ھیں جبکه حضرت عمر قتل کر رھے ھیں۔

حضرت سعد بن عباده بھی انصار ھی میں سے تھے محبت تو کجا حضرت عمر نے قتل کردیا.

بخاری شریف کے آپریشن کے سلسله میں پهلی حدیث جو منتخب کی گئی اس حدیث میں انصار صحابه کی محبت علامت ایمان کامل بتائی گئی ھے.
بلکه اس حدیث کی تشریح میں بھی وضاحت ھے ملحاظه فرما سکتے ھیں.
مگر محبت تو کجا حضرت عمر نے صرف ابوبکر کی خلافت کو ھر طرح کے خطره سے بچانے کیلۓ اس صحابی کا خون کیا جو خود سقیفه میں خلافت کا امیدوار تھا.

اصحاب رسول ص کے متعلق اھل تشیع کا عقیدہ۔

صحابۂ کرام کے بارے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟

شیعوں کے نزدیک پیغمبرخدا  ۖ کو دیکھنے اورانکی مصاحبت سے شرفیاب ہونے والے افراد چند گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں لیکن اس بات کی وضاحت سے قبل بہتر  یہ ہے کہ لفظ ''صحابی'' کو واضح کردیا جائے صحابی پیغمبرۖ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں.

 یہاں ہم ان میں سے بعض تعریفوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

١۔سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ: ''صحابی'' وہ ہے جو ایک یا دو سال تک پیغمبر خداۖ کی خدمت میں رہا ہو اور اس نے آنحضرت ۖ کی ہمراہی میں ایک یا دو جنگیں بھی لڑی ہوں.
٢۔واقدی کہتے ہیں کہ:علماء کے نزدیک ہر وہ شخص رسولۖ کا صحابی شمار ہوتا ہے جس نے آنحضرتۖ  کودیکھاہو اور اسلام کی طرف مائل ہو اور اس نے دین اسلام کے سلسلے میں غور وفکر کرنے کے بعد اسے قبول کرلیا ہو اگرچہ وہ گھنٹہ بھر ہی آنحضرت ۖ کے ہمراہ رہا ہو. 

(١) اسد الغابة جلد١ ص ١١ ، ١٢ طبع مصر
(٢)گذشتہ حوالہ
٣۔محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ: مسلمانوں میں سے ہر وہ شخص جو آنحضرتۖ کی مصاحبت میں رہا ہو یا اس نے آپۖ کو دیکھا ہو وہ آنحضرتۖ کے اصحاب میں شمار ہوگا.
٤۔احمد ابن حنبل کہتے ہیں کہ: ہر وہ شخص جو ایک ماہ یا ایک دن یا چند گھڑیاں پیغمبر اکرمۖ  کے ہمراہ رہا ہو یا اس نے آنحضرتۖ کو دیکھا ہو وہ ان کے اصحاب میں شمار ہوگا.
علمائے اہل سنت کے نزدیک ''عدالت صحابہ'' ایک متفق علیہ مسئلہ ہے اس کے مطابق جس شخص کو بھی پیغمبراکرمۖ کی مصاحبت حاصل ہوئی ہو وہ عادل ہے! 
یہاں پر ضروری ہے کہ اس نظریہ کا قرآنی آیات کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس بارے میں وحی الہی کے سرچشمہ سے حاصل شدہ  شیعوں کے نکتہ نظر کا بھی تذکرہ کیا جائے ۔
تاریخ نے بارہ ہزار سے زیادہ افراد کے نام اصحاب پیغمبرۖ  کی فہرست میں درج کئے ہیں جنکے درمیان مختلف قسم کے چہرے دکھائی پڑتے ہیں بے شک آنحضرتۖ کی مصاحبت ایک بہت بڑا افتخارتھا جو صرف چند افراد ہی کو نصیب ہوا اور امت اسلامی نے ہمیشہ ایسے افراد کو ادب و احترام کی نگاہوں سے دیکھا ہے کیونکہ انہی بزرگان نے

(١) اسدالغابة جلد١ ص ١١ ، ١٢
(٢)گذشہ حوالہ
(٣) الاستعیاب فی اسماء الاصحاب جلد١ ص٢ ''الاصابة'' کے حاشیے میں اسدالغابة جلد١ صفحہ ٣ میں ابن اثیر
سے نقل کرتے ہوئے.
آئین اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے سب سے پہلے اسلام کی عزت اور شوکت کے پرچم کو لہرایا ہے.
قرآن مجید نے بھی ان کی تعریف کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے:
( لایَسْتَوِ مِنْکُمْ مَنْ َنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ُوْلٰئِکَ َعْظَمُ دَرَجَةً مِنْ الَّذِینَ َنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا)(١)
اور تم میں سے فتح سے پہلے انفاق کرنے والا اور جہاد کرنے والا اس کے جیسا نہیں ہوسکتا جو فتح کے بعد انفاق اور جہاد کرے پہلے جہاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے.
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کرلینا چاہیئے کہ پیغمبر خداۖ کی مصاحبت کوئی ایسا کیمیاوی نسخہ نہیں تھا جو انسانوں کی حقیقت کو بدل دیتا اور عمر کے آخری حصے تک ان کی زندگی کی ضمانت لیتا نیز انہیں ہمیشہ کے لئے عادلوں کی صف میں کھڑا کردیتا.
اس مسئلے کی وضاحت کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان قابل اعتماد کتاب قرآن مجید کا مطالعہ کریںاور اس سلسلے میں اس سے مدد حاصل کریں.

صحابی قرآن مجید کی نگاہ میں
قرآن کے نکتہ نظر سے نبی اکرمۖ  کی خدمت میں حاضر ہونے اور آپۖ کی مصاحبت

(١) سورہ حدید آیت: ١٠
اختیار کرنے والوں کی دوقسمیں ہیں:

پہلی قسم
وہ ایسے اصحاب ہیں جن کی قرآن مجید کی آیتیں مدح و ستائش کرتی ہیں اور انہیں شوکت اسلام کا بانی قرار دیتی ہیں یہاں پر ہم صحابہ کرام کے ایسے گروہ سے متعلق چند آیتوں کا ذکر کرتے ہیں:
١۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے
(وَالسَّابِقُونَ الَْوَّلُونَ مِنْ الْمُہَاجِرِینَ وَالَْنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِِحْسَانٍ رَضَِ اﷲُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وََعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ  من تَحْتِہَا الَْنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا َبَدًا ذَٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ)

اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اورخدا نے ان کے لئے وہ باغات مہیا کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے.

(١) سورہ توبہ آیت:١٠٠


٢۔درخت کے نیچے بیعت کرنے والے
( لَقَدْ رَضَِ اﷲُ عَنْ الْمُؤْمِنِینَ ِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِ قُلُوبِہِمْ فََنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْہِمْ وََثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیبًا) 

یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جوان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی.

٣۔مہاجرین

( لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِینَ الَّذِینَ ُخْرِجُوا مِنْ دِیارِہِمْ وََمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُونَ اﷲَ وَرَسُولَہُ ُوْلٰئِکَ ہُمْ الصَّادِقُونَ)(٢)
یہ مال ان مہاجر فقراء کے لئے بھی ہے جنہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور ان کے اموال سے انہیں دور کردیا گیا اور وہ

(١)سورہ فتح آیت:١٨
(٢)سورہ حشر آیت:٨
صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خدا اور رسول کی مدد کرنے والے ہیں یہی لوگ دعوائے ایمان میں سچے ہیں.

٤۔اصحابِ فتح

(مُحَمَّد رَسُولُ اﷲِ وَالَّذِینَ مَعَہُ َشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِ وُجُوہِہِمْ مِنْ َثَرِ السُّجُودِ)
محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں تم ان کودیکھو گے کہ بارگاہ احدیت میں سرخم کئے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل وکرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں کثرت سجود کی وجہ سے ان کے چہروں پر سجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیں.

دوسری قسم
بزم رسالت میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جنہیں پیغمبر خداۖ کی مصاحبت تو حاصل ہوئی

(١)سورہ فتح آیت:٢٩
تھی مگر وہ یا تو منافق تھے یا پھر ان کے دل میں مرض تھا قرآن مجید نے پیغمبر اسلامۖ کے لئے ایسے افراد کی حقیقت کو نمایاں کیا ہے اور آنحضرتۖ کو یہ تاکید کی ہے کہ ان سے محتاط رہیں یہاں پر ہم اس سلسلے میں نازل ہونے والی آیتوں کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

١۔معروف منافقین

(ِذَا جَائَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ ِنَّکَ لَرَسُولُ اﷲِ وَاﷲُ یَعْلَمُ ِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَاﷲُ یَشْہَدُ ِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَکَاذِبُونَ)

اے پیغمبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں.

٢۔غیر معروف منافقین:

(وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنْ الَْعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ َہْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لاَتَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ )

(١)سورہ منافقون آیت:١
(٢)سورہ توبہ آیت: ١٠١

اور تم لوگوں کے گرد، دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم لوگ ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں.

٣۔دل کے کھوٹے:

( وَِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِ قُلُوبِہِمْ مَرَض مَا وَعَدَنَا اﷲُ وَرَسُولُہُ ِلاَّ غُرُورًا )
اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رہے تھے کہ خدا اور رسول نے ہم سے صرف دھوکا دینے والا وعدہ کیا ہے.

٤۔گناہ گار:

( وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَی اﷲُ َنْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ ِنَّ اﷲَ غَفُور رَحِیم )(٢)
اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا کہ انہوں نے نیک اور بد اعمال مخلوط کردئیے ہیں عنقریب خدا

(١)سورہ احزاب آیت :١٢.
(٢)سورہ توبہ آیت : ١٠٢.
ان کی توبہ قبول کر لے گا وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.
قرآن مجید کی آیات کے علاوہ پیغمبر اکرمۖ سے بھی بعض صحابہ کی مذمت میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ان میں سے ہم صرف دو روایتوں کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :
١۔ابوحازم،سہل بن سعد سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر خداۖ نے ارشاد فرمایا :
''أنا فرطکم علیٰ الحوض مَن ورد شرب و مَن شرب لم یظمأ أبداً و لیردنّ علّ أقوام أعرفھم و یعرفونن ثم یحال بین و بینھم.''
میں تم سب کو حوض کی طرف بھیجوں گا جو شخص بھی اس حوض تک پہنچے گا وہ اس میں سے ضرور پئے گا اور جو بھی اس سے پئے گا پھر وہ تاابد پیاس محسوس نہیںکرے گا پھر ایک گروہ میرے پاس آئے گا جسے میں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانتے ہوں گے اس کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے جدا کردیا جائے گا .''
ابو حازم کا بیان ہے کہ جس وقت میں نے نعمان ابن ابی عیاش کے سامنے یہ حدیث پڑھی تو انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تم نے یہ حدیث سھل سے اسی طرح سنی ہے ؟ میں نے کہا ہاں اس وقت نعمان بن ابی عیاش نے کہا کہ ابوسعید خدری نے بھی اس حدیث کو ان کلمات کے اضافے کے ساتھ پیغمبر اکرمۖ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتۖ فرماتے ہیں :
''اِنھم من فیقال: نک لاتدر ما أحدثوا بعدک فأقول سحقًا سحقًا لمن بدل بعد''
یہ افراد مجھ سے ہیںپس کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کام انجام دیئے ہیں ! پس میں کہوں گا ایسے لوگوں سے خدا کی رحمت دور ہوجائے جنہوں نے میرے بعد (احکام دین میں ) تبدیلی کی.
پیغمبر اسلامۖ کی اس حدیث میں ان دو جملوں'' جنہیں میں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وہ سب بھی مجھے پہچانتے ہونگے ''اور ''میرے بعد تبدیلی کی'' سے صاف واضح ہے کہ آنحضرتۖ کی مراد آپکے وہ اصحاب ہیں جو کچھ مدت آنحضرتۖ کے ہمراہ رہے ہیں (اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے بھی نقل کیاہے)
٢۔بخاری اور مسلم ،پیغمبر خداۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتۖ نے فرمایا ہے:
''یرد علَّ یوم القیامة رھط من أصحاب أو قال من أمت فیحلون عن الحوض فأقول یارب أصحاب فیقول اِنّہ لاعلم لک بما أحدثوا بعدک أنھم ارتدوا علیٰ أدبارھم القھقری. 

(١)جامع الاصول (ابن اثیر) جلد١ ١ کتاب الحوض فی ورود الناس علیہ ص ١٢٠ حدیث نمبر ٧٩٧٢.
(٢)جامع الاصول جلد ١١ ص ١٢٠ حدیث ٧٩٧٣
قیامت کے دن میرے اصحاب میں سے یا فرمایا میری امت میں سے ایک گروہ میرے پاس آئے گاپس ان کو حوض کوثر سے دور کردیا جائے گا اس وقت میں کہوں گا اے میرے پروردگار! یہ میرے اصحاب ہیں تو خدا فرمائے گا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیسے کیسے کام انجام دئیے ہیںبے شک یہ لوگ اپنی سابقہ حالت (زمانہ جاہلیت) پر لوٹ کر مرتد ہوگئے تھے.
نتیجہ:قرآنی آیات اور سنت پیغمبر  ۖ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب اور وہ افراد جنہیں آنحضرتۖ کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے وہ سب ایک ہی درجہ کے نہیں تھے ان میں بعض ایسے بلند مقام افراد تھے جن کی خدمات نے اسلام کے پھیلانے میں انتہائی مؤثر کردار ادا کیا ہے لیکن بعض ایسے بھی تھے جو ابتداء ہی سے منافق، دل کے مریض اور گمراہ تھے. (١)
اسی بیان کے ساتھ صحابۂ پیغمبرۖ کے بارے میں شیعوں کا نظریہ (جو درحقیقت قرآن اور سنت کا نظریہ ہے) واضح ہوجاتا ہے۔

(١) اس بارے میں مزید وضاحت کے لئے سورہ منافقون ملاحظہ کریں.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...