Saieen loag

علم غائب کی حقیقت ۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
علم غائب کی حقیقت ۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 25 مئی، 2019

علم غائب اور واقعه افک کا مسله ...قسط نمبر:9

علم غیب والا عقیده 
                             اور واقه افک کی حقیقت


قسط نمبر:9.    تحریر و تحقیق : "سائیں لوگلوگ

واقعه چاھے حضرت عائشه کے متعلق ھو یا حضرت ماریه قطبیه کے متعلق مگر موضوع نذاع علم غائب ھے .

مگر آج ھم شیعه مذھب کی تفاسیر اور معتبر سیرت و تاریخ کی کتب سے ثابت کریں گے که یه واقعه حضرت عائشه کے متعلق ھے .

جمھور کی روایت ھے که وه خاتون جس کی وجه سے سرکار رسول پیغمبر ص ایک ماه سے زائد پریشان رھے اور حضرت عائشه اس الزام کی وجه سے بیمار ھو گئیں ایسا کیوں ھوا اگر رسول الله ص علم غائب جانتے تھے تو
اتنے دنوں اس واقعه کی تفتیش اور مختلف اصحاب کرام بمعه ابو الائمه سرکار مولا علی ع سے راۓ کیوں لیتے رھے.
جو بالاخر ایک ماه سے زائد گزر جانے پر جب الله تعالی نے
 سوره نور آیت نمبر 11. تا. 27,
میں تفصیلی حضرت عائشه کی پاکدامنی پر وضاحت دی تب جا کے حالات چاه مگویاں وسوسے اور شوشوں اور غلط قیاس سے جان چھوٹی.

غالی یھاں آ کر جھوٹا ثابت ھو جاتا ھے اگر انکار کرتا ھے تو منکر قرآن بنتا ھے اگر عالم الغیب نھیں مانتا تو اس کے فاسد عقیده کی نفی ھوتی ھے.

ھماری آنے والی پوسٹ میں مذید انکشاف ھوں گے لھذا براه کرم ھم سے جڑۓ رھیۓ.

زیاده تر شیعه مفسرین اس بارۓ جمھور ھی کے ھم آواز ھیں که یه واقعه غزوه بنی مصطلق سے واپسی میں جناب عائشه رفع حاجت کیلۓ اونٹ سے اتری تھیں اور ان کے گلے کا ھار گم ھو گیا تھا جسکی تلاش کی وجه سے قافلے سے بچھڑ گئیں اور منافقین کو بھتان لگانے کا موقع میسر آیا.
ان اصحاب میں عبدالله بن ابی سمیت معتبر صحابه بھی موجود تھے جو جنگ بدر میں بھی شرکت کر چکے تھے اور اس بھتان کو ھوا دینے پر بعد میں انھیں کوڑوں کی سزا بھی دی گئی.

اب یه واقعه آپ شیعه مذھب کی تفاسیر
تفسیر نجفی

 تفسیر نمونه ع:11/27,

تفسیر قمی,

تفسیر المیزان

تفسیر فصل الخطاب جلد ,2ع:11,

تفسیر المبین ع:11,

تاریخ اسلام (واقعه افک)ص:330,

چوده ستارۓ غزوه بنی مصطلق ص:29.

سیرت صادق الاامین ص:431,

رحیق المختوم ص:452.

ترمذی جلد دوم,تفسیر سوره نور,ص398

بخاری شریف تفصیلی زکر ھے مختلف مقامات پر  ان کتب میں ھم نے خود یھی واقعه ملحاظه کیا عکس لگا دیۓ ھیں.

علم غائب اور واقعه افک کی حقیقت...قسط نمبر :8

علم غایب والا عقیده آور واقعه افک
                                   
قسط نمبر :6/2.   تحریر و تحقیق : سائیں لوگ

.

کل کی پوسٹ سے تحریر کا بقیه حصه جس میں غالیوں کے بھتان کا کلام مقدس کی روشنی میں رد پیش کیا گیا.

اب غالی کھتا ھے که خود رب نے بھی بھت روز اس واقعه کے متعلق آیات نه اتاریں تو کیا الله پاک بھی نھیں جانتے تھے.

غالی ھمیشه الله پاک کے افعال میں رسول الله ص کو مقابلے میں لے آتے ھیں انھیں خدا کا خوف کرنا چاھیۓ الله تعالی نے جب مناسب سمجھا خبر دے دی.

 نبی پاک ص نے آخری وقت تک یھی فرمایا که عائشه اگر گناه ھوا ھے تو الله تعالی سے توبه و استغفار کر لو وه غفور و رحیم ھے اگر پاک نبی ص کو علم تھا تو آخری وقت تک اظھار کیوں نه فرمایا
 جب تک آیات نازل نه ھو گئیں.

 کیا پاک نبی ص پر کوئی پانبدی تھی دوسرا غالیوں کا عقیده ھے که آپ ص اور آئمه معصومین ع ھر جگه حاضر و ناضر ھوتےھیں اگر یه سچ ھے تو پھر آپ ص حضرت عائشه کی گمشدگی کے دوران ان کے ساتھ ھی ھوں گے تو پھر صحابه کرام سے کیوں حضرت عائشه کی عصمت کا پوچھتے رھے اور الله پاک کے اس فرمان کی کیوں مخالفت کی که 

لا تکمو الشھادة ومن یکتبھا فانه اثمه قلبه.

ترجمه: اور تم گواھی کو نه چھپاؤ جو اسے چھپاۓ گا وه گنھگار دل والا ھے.
سوره بقره آیت :283.

حالنکه غالیوں نے آپنی تفاسیر میں بھی تسلیم کیا ھے که خود حضرت عائشه بھی بار بار سب کو بتاتی رھیں که میں بے قصور ھو کیونکه انھیں تو یعقین تھا که میں پاکدامن ھوں پھر بھی رسول الله ص سمیت کسی نے ان کی بات کا یعقین نه کیا.

  لیکن حضرت عائشه متواتر کھتی رھیں که خدارا میری عصمت و عزت کی بات ھے اس کا ڈھنڈورا نه پیٹو میرا کوئی جرم نھیں.میں بے قصور ھوں.

حضرت عائشه کی اس بات سے یعقین ھوتا ھے که آپ ص عالم الغیب نھیں.

دوسرا جب تک الله تعالی نے قرآن میں واضح نه فرمایا کسی نے بھی حضرت عائشه کی بات پر یعقین نه کیا.

سوره نور ع:12
میں الله پاک فرماتا ھے    ترجمه:
اور سنتے ھی مومن مردوں و عورتوں نے آپنے حق میں نیک گمانی کیوں نه کی اور کیوں نه کھه دیا که یه تو کھم کھلا صریح بھتان ھے.

اس آیت سے معلوم ھوتا ھے که نزول برات سے پهلے مسلمان پر نیک گمانی واجب اور بد گمانی حرام تھی.

اس بھتان کے خالق عبدالله بن ابی منافق کو ان آیات کے نذول کے بعد حضرت سعد بن معاز جیسے سچے اصحاب عبدالله بن ابی منافق کو قتل کرنے تک کیلۓآماده ھو گۓ.

بات سوچنے کی یه ھے که اگر پاک نبی ص عالم الغیب ھیں تو صاحبه کرام کی محفل میں اس سچ کا اظھار کیوں نه فرمایا اور جو عصمت کی دھجیاں منافقین و مشرکین کی طرف سے آڑائی گئیں ان کا توڑ کیوں نه کیا اور اس غیب کا کیا فائده جو عزت کی رسوائی کو بے نقاب نه کر سکے.اور حقیقت سامنے نه لائی جا سکے.

یه کیسی میعاد ھے جو ایک ماه سے اوپر گزر جانے پر وحی خداوند سے حقیقت واضح ھوئی.

بڑی حیرت کی بات ھے آج چوده سو سال بعد غالی آپ ص اور آئمه معصومین ع پر عالم الغیب کا جھوٹ باندھ رھا ھے.

اس واقعه میں سچے مخلص اصحاب سمیت خود ابو الائمه حضرت علی ع بھی موجود تھے خود انھوں نے بھی پاک نبی ص کی کوئی مدد نه فرمائی.بلکه یهاں تک کهه دیا که آپ کو بیویوں کی کیا کمی ھے جبکه سوره تحریم میں خود الله پاک بھی دوسری شادیوں کی اجازت فرما چکے تھے.

مقام حیرت ھے اتنی برگزیده ھستیوں کو بھی توفیق نه ھوئی که کھه دیتے که آپ تو لوح محفوظ کے حافظ ھیں.
 عالم الغیب ھیں  ماکان وما یکون کا علم آپکے علمی سمندر کا ایک قطره ھے.

 ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبر اور تمام ملائکه آپکے شاگرد ھیں پانچ کروڑ برس دریا خاص میں آپ کی حاضری رھی ھے آپ سے تو کچھ بھی مخفی نھیں لھذا کیوں خود آپنی غیرت و عزت کی رسوائی کرا رھے ھیں.
8
مگر یھاں معامله الٹ ھے شاعر رسول الله ص جناب حسان بن ثابت,جن کیلۓ آپ ممنبر رکھوایا کرتے تھے  وه اور حضرت مسطح بن اثاثه اور ام المومینین حضرت زینب کی ھمشیره اور رسول ص کی پھوپھی زاد حمنه بنت حجش اس بھتان کی تشھیر میں زور شور سے شریک تھے آیات نذول برات کے بعد سزا کے طور ان سب کو کوڑۓ لگاۓ گۓ.

جب ھم اتنے واضح اور محکم آیات و مستند دلائل سے غالیوں کے دعوی کو رد کرتے ھیں تو پھر یه بدبخت ھمیں وھابی,کافر,مرتد وغیره جیسے القابات و خطابات سے نوازتے ھیں.
جبکه یه گمراه لوگ ھماری پوسٹ پر آ کر علمی گفتگو سے بات نھیں کرتے بلکه معاویه کی طرح گالی گلوچ اور لعن تعن کے کمنٹس کر کے بھاگ جاتے ھیں.

علم غائب اور واقعه افک کی حقیقت...قسط نمبر:7

علم غیب والا عقیده واقعه افک اور غالی مسلمان.  
                                 
"قسط نمبر:7.    تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ


اھل غلو اس واقعه سے بھی حق پهچان سکتے ھیں اگر زره غور کریں تو.

افک بات کو الٹ دینے اور حقیقت کے خلاف کچھ کھ دینے کے معنوں میں ھے.

فرقه امامیه اور غیر امامیه میں اختلاف ھے.
 صاحب تفسیر المیزان کو دونوں روایات میں تامل ھے.

تفسیر قمی میں ھے که یه آیات حضرت عائشه کے متعلق ھیں.

تفسیر مبین میں بھی حضرت عائشه کا بھی اور حضرت ماریه قطبیه  دونوں کے واقعات لکھے ھیں  چاھے جو بھی ھو پر بات غیب پر ھے جب تک وحی نه آئی آپ کو خبر نه ھو سکی.

تفسیر نجفی میں بھی یهی تشریح ھے بلکه سکین بھی لگا دیا ھے.
سوره نور آیت:11.
اھلسنت کی ھر تفسیر اور صحاح سته سمیت معتبر کتب میں حضرت عائشه ھی مراد ھیں.

رسول الله ص غزوه بنی مصطلق سے واپس تشریف لا رھے تھے اس غزوه میں حضرت عائشه بھی قافله کے ھمراه تھیں اور ایک مقام پر وه قافله سے بچھڑ گئیں صفوان بن معطل رض جو قافله کے پیچھے چل رھے تھے انھوں نے حضرت عائشه کو دیکھا اور اونٹ پر بٹھا کر قافله تک پهنچایا .

ایک منافق عبدالله بن ابی نے عزت کی تھمت لگا دی اب آپ ص پر کیا گزری اس تحریر کا مطالعه کریں.

اب غالی کھتے ھیں که آپ ص اس معامله میں بھت پریشانی میں رھے مگر بغیر وحی کچھ فرما نه سکے که یه تھمت صحیح ھے یا غلط بات یه ھے که.
 اگر علم غیب ھوتا تو پھر لگاتار پریشان ھونے کی ضرورت نه ھوتی اور اتنے روز خاموشی کیوں فرمائی.

ھار کی گمشدگی یا رفع حاجت کی وجه سے قافلے سے بچھڑنے والی بی بی کا خالی  ھووج کیوں اونٹ پر اٹھا کر رکھ کے چل دیۓ ھووج کو اٹھانے والے اصحاب یا پیغمبر اکرم ص کو کیوں علم نه ھو سکا که بی بی عائشه تو اس کے اندر ھے ھی نھیں.

وزن تک بھی احساس نه ھوا دوسرا اگر پاک نبی ص کو معلوم تھا که ھار گم ھو گیا ھے یا فلاں جگه پڑا ھے تو بتایا کیوں نھیں.

تیسرا اگر معلوم تھا که ھار تلاش کیلۓ حضرت عائشه دور نکل گئی ھیں تو تیمم کے واقعه کی طرح قافلے کو رکوایا کیوں نھیں.

 کیونکه تیمم والے واقعه میں صرف ایک ھار کی گمشدگی کیلۓ آپ نے ساری رات قافلے کو رکواۓ رکھا.
 مگر یھاں ناں صرف ھار بلکه پیاری اور چھیتی لاڈلی بیوی حضرت عائشه بھی گم ھیں.
مگر پھر بھی آپ قافلے کو لے کر چل دیۓ.

کیا یه عجیب تضاد نھیں ھے کیا.کیا رسول الله ص کو معلوم نھیں تھا که اونٹ پر رکھا ھووج خالی ھے کیا ایک غیرت مند شوھر برداشت کر سکتا ھے که وه آپنی لاڈلی بیوی کو جنگل میں اکیلا چھوڑ کر چلا جاۓ.

اب غالی کا عقیده ھے که نبی ع و معصومین ع عالم الغیب ھوتےھیں .

تو اس قافله میں آپ ص سمیت حضرت علی ع اور معتبر اصحاب بھی موجود ھیں حتی کے حضرت عائشه کے والد محترم بھی ساتھ تھے,
یه سب ھر وقت آپکے علم سے فیض یاب ھوتے رھتے تھے ان کو بھی معلوم نھیں ھو سکا.
جبکه حضرت عائشه کے خود یه الفاظ ھیں که  
           رھم یحسبون انی فیه

وه سمجھتے که میں ھووج کے بیچ میں ھی ھوں.حضرت عائشه سو گئیں اور فرماتی ھیں.

        نظقنت انھم سیفقدون فیرجعون

میرا خیال تھا جب میں انھیں نھیں ملوں گی تو وه میری تلاش میں لوٹیں گے.

تو صفوان بن معطل رض کی راھنمائی میں قافله تک پهنچائیں گئیں.

ام مسطح سے بھی پوچھا گیا انھوں نے آپنی والده سے تصدیق چاھی.
حضرت اسامه سے بھی مشوره ھوا تو انھوں نے جواب دیا:
                             لا نعلمه الا خیرا
میں تو انھیں صحیح سمجھتا ھوں.

اگر پاک نبی ص کو علم تھا تو پھر حقیقت بارۓ معلوم کیوں کرتے رھے.

حضرت زینب سے مشوره کیا تو انھوں نے کھا :
        والله ما علمت الا خیر
بخدا میں انھیں صحیح سمجھتی ھوں.

حضرت علی ع سے پوچھا گیا تو آپ نے مشوره دیا که بیویوں کی کیا کمی ھے.

حضرت بریره سے پوچھا تو انھوں نے کھا ھم نے کوئی قصور کبھی نھیں دیکھا.

حضرت ام ایمن سے بھی پوچھا تو انھوں نے بھی محفو ظ قرار دیا.

اتنے شواھد اکٹھے کرنے کے بعد آپ کچھ مطمعین ھوۓ عرض ھے که اگر آپ عالم الغیب تھے تو ایک ایک شخص سے کرید کرید کر سوال کرنے کی کیا ضرورت تھی.

 عجیب بات ھے جب آپ جن جن سے پوچھ رھے تھے تو انھوں نے یه کیوں ناں کھا که یارسول الله آپ خود ان معاملات سے آگاه ھیں تو ھم سے کیوں پوچھتے ھیں.

 مگر جب سوره نور آیت نمبر :11

 الله تعالی نے اس بھتان کو جھوٹ کھا تو تب جا کے آپ ص مکمل مطمعین و راحت میں آۓ.

اب غالی یه بھی کھتے ھیں که آپ ص کو علم تھا مگر اظھار نه فرمایا.

تو عرض ھے اگر علم غیب تھا تو پھر اس کا انکار کرنے سے حضرت حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثه  اور حضرت حمنه بنت حجش کافر نه ھو گۓ.

 جو اس افواه کو پھیلانے میں پیش پیش تھے کیا شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت وغیره کو اس بات کا علم تھا که آپ ص عالم الاغیب ھیں اور آپ کو ھر بات کا علم ھے تو ھم کیوں خواه مخواه شور مچا رھے ھیں.

اتنی انسانی معلومات سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی.
اگر آپ کو علم یعقینی ھوتا تو آپ ان حضرات سے گواھیاں نه لیتے.

تو اسی لیۓ الله پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:
ترجمه: آۓ ایمان والوں جب تمھارۓ پاس مسلمان مرد اور عورتیں ھجرت کرکے آئیں تو تم ان کا امتحان لیا کرو دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا الله ھی ھے. لیکن اگر وه تمھیں ایماندار معلوم ھوں تو اب تم انھیں کافروں کی طرف واپس نه کرو.
سوره الممتحنه آیت :10.

اس آیت میں الله تعالی کا علم الیعقین  پر اور لوگوں کا علم گمان پر غالب دلالت کر رھا ھے نیز جیسے کوئی رشتے کا خواھش مند  آپ سے پوچھے تو آپ کھتے ھیں که میری معلومات مطابق اچھا ھے.

اسی واقعه کے متعلق آپ نے حضرت عائشه سے کھا اگر تم سچی ھو تو الله تعالی ضرور  برات فرماۓ گا.اور اگر گناه کیا ھے تو پھر الله سے توبه و استغفار کرو.
الله تعالی معاف فرمانے والا ھے.

(اسی موضوع پر مذید بحث جاری ھے انتظار فرمایئے.)

علم غائب اور اھل غلو....قسط نمبر:6

  • علم غیب والا عقیده آور اھل غلو کی خرافات
    1.                          
    2. قسط نمبر:6.         تحریر و تحقیق  : سائیں لوگ

    3. ویسے تو غلو ھر مذھب میں پایا جاتا ھے مگر اسلام میں اھلسنت بریلوی اور شیعه مذھب آپنا ثانی نھیں رکھتے جن میں ایک واقعه ھم درج کر رھے ھیں.

    4. تفسیر روح البیان میں ایک حدیث ھے که حضرت آدم علیه اسلام کو سات لاکھ زبانیں سکھائی گئیں .

    5. مگر جب ھم نے  اس مبالغه آمیز گپ کا حوالا کتاب تلاش کرنا چاھا تو نھیں مل پایا.

    6. اھل غلو ایک بات یه بھی کھتے ھیں که رسول الله ص کے علم کے دریا کے یا میدان کے مقابلے میں حضرت آدم ع کا علم کا ایک زره بھی نھیں ,

    7. بے شک ھمارا اس پر ایمان ھے مگر غالی کی اس خرافت کا کیابنے گا.

    8. اگر حضرت آدم ع کو سات لاکھ زبانیں سکھلائی گئیں تھیں تو پاک نبی ص کو تو لازما کھربوں زبانیں سکھائی گئیں ھوں گی .

    9. مگر امر واقع یه ھوا که آپ ص نے حضرت زید بن ثابت رض کو یھود کی سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا مجھے یھود پر اعتماد نھیں ھے.

    10.  چنانچه زید بن ثابت کھتے ھیں که میں نے نصف ماه سے کم مدت میں ان کی زبان سیکھ لی حضرت زید کھتے ھیں که اب میں ھی یھود سے خط و کتابت کرتا تھا.

    11. (بحوالا ترمذی باب العلم سریانی)
    12. اگر پاک نبی ص کو سریانی زبان آتی تھیں تو پھر یھود پر بداعتمادی کرتے ھوۓ حضرت زید کو زبان سیکھنے کا کیوں کھا.

    13.        ( غلو اور غالی مو ضوع جاری ھے)

    علم غائب کا عقیده اور عقلی دلائل ...قسط نمبر :5

    علم غائب والا دعوی آور عقلی دلائل  
                                      
    قسط نمبر :5.      تحریر و تحقیق: سائیں لوگ

    نوٹ : تحریر عقلی دلائل پر ھے لھذا فکر کر کے جواب دیا جاۓ ناکه تنقید اور ھٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ھوۓ پرانی فطرت گالی گلوچ کا تبادله نھیں.

    اب چیده چیده چند آیات کی وضاحت آپنے عقلی دلائل سے اھل غلو سے جاننے کی توقع رکھتے ھیں.

    علم غائب کے ثبوت میں اھل غلو فرماتے ھیں.
     وعلم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملائکة.
     (سوره بقره ع :31)

    ترجمه :
    الله تعالی نے آدم کو تمام نام سکھا کر فرشتوں کے سامنے پیش کیۓ.

    اس بحث سے پهلے ھم
      اس روایت پر بحث کرتے ھیں که سارۓ انبیاء کرام ع کا علم اور مخلوق کا علم حضور ص کو دیا گیا.

    تو جس چیز کا علم کسی مخلوق کو ھے وه سب رسول الله ص کو بھی ضرور ھے 
    بلکه سب کو جو علم ملا ھے وه حضور ص کی تقسیم سے ملا .

    جو علم شاگرد استاد سے لے ضروری ھے که استاد بھی اس کے جاننے والا ھو.

    قرآن کی آیت کا اھل غلو کچھ اس طرح مطلب لیتے ھیں که.

     وما ھوا علی الغیب بضنین.

     کا ترجمه یه کرتے ھیں که اور یه نبی ص غیب بتانے میں بخیل نھیں ھے.

    اب گزارش ھے که اگر حضور ص کو ساری مخلوقات کے علوم کا بھی علم تھا تو لازما آپ کو سائینسی ایجادت کا علم بھی ھوگا اور ایٹمی ھتھیاروں کا علم بھی ھو گا.

     تو پھر آپ ص نے یه سب کچھ اھلبیت ع یا صحابه کرام رض کو کیوں نه بتلا دیا تاکه پیھه جلدی ایجاد ھو جاتا اور مسلمان جلدی ترقی کر جاتے اور قرآن کی اس أیت کا حکم بھی پورا ھو جاتا .

    وعدو والھم ما استطتعتم من قوة .

    ترجمه : تم ان کے مقابله کیلۓ آپنی بھر پور 
    طاقت کی تیاری کرو.
    (سوره انفال ع :60.

    تو اس حکم کے بعد مسلمان کلاشنکوف بناتے,ایٹم بم بناتے,ھائیڈروجن بم بناتے بلکه اس آیت میں من قوة کے آگے ومن رباط الخیل کی بجاۓ یه ھونا چاھیۓ تھا ایف 16,جے ایف 17,7 تھنڈر بناؤ,بناؤ طیاره شکن توپیں بناؤ ,ٹینک بناؤ آبدوزیں بناؤ .

    بلکه حضرت آدم سے لے کر تمام انبیاء کرام اگر رسول الله ص شاگرد تھے اور آپ ان کے استاد تھے تو یه کام بهت پهلے کیا ھونا چاھیۓ تھا.

    اور کچھ نه ھی بناتے کم از کم دو نالی بندوق ھی بنا کر پاک نبی ص کفار و مشرکین سے مقابله کرتے کیونکه الله پاک دشمن کے مقابلے میں  بھر پور قوت کی تیاری کا حکم دے رھے ھیں.

     خلق خدا کو ایک جانے بوجھے علم سے محروم رکھنا کوئی خوبی نھیں ھے.

    یه تھی اس آیت کے زمن میں وضاحت که نبی ص غیب کے علم بتانے میں بخیل نھیں ھے.

    گزارش ھے که الله تعالی وحی بھیجنے والا ھے جبرائیل ع پهنچانے والے ھیں اور انبیاء کرام ع وصول کرنے والے ھیں درمیان میں نبی ص کی استاد والی بات کیسی کیا کسی جگه پر کسی نبی ع نے اعتراف کیا ھے که ھم آخری نبی ص کے شاگرد رھے ھیں.

    لیکن اھل غلو کھتے ھیں که علم غیب کامنکر آپنے دعوی پر دلائل قائم کرۓ تو ان باتوں کا خیال رکھے .

    1. :وه آیت قطعی الدلالت ھو جس کے معنی میں احتمال نه نکل سکتے ھوں. یعنی آیت محکم ھو جس کا مطلب غیر واضح نه ھو.

    2. :اور حدیث ھو تو متواتر ھو یه بھت اچھی بات ھے علم غیب کے مدعی خود بھی اس بات کا ادراک رکھتے ھوۓ  درج بالا تحریر کا رد پیش کریں.

    علم غائب اور علماۓ حقه.

    علم غیب والا عقیده اور علماۓ حقه
                                        
    "قسط نمبر :3.        تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ



    علم غیب کے موضوع پر یه آج تیسری قسط ھے.
    ھم نے جھاں تک اس موضوع کے تمام پهلوں پر ٹھنڈۓ دل و دماغ کے ساتھ غور خوض کیا ھے اور فریقین کے دلائل و براھین کا پوری دیانتداری اور غیر جانبداری سے جائزه لیا ھے تو ھم اس نتیجه پر پهنچے ھیں.

     که یه تمام ھاؤ ھو اور بحث و تمیحص صرف نذاع لفظی ھے یعنی فقط الفاظ کا ھیر پھیر اور تعبیر کا چکر ھے.

    وگرنه کوئی باھمی اختلاف و افتراق نھیں چاھے جیسے ھی سمجھ لو یه علم دین الله تعالی کی زات سے ھے.

    بعض افراد کی طرف سے عقیده غلو کے زمن میں اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ھے تاکه کچھ Awareness, دی جاۓ.

     کیونکه امام جعفر صادق ع کا فرمان ھے که شرک شرک ھے چاھے رائی برابر ھی کیوں نه ھو.

    اس موضوع پر بھت جید علماء حقه نے حقیقت کی ترجمانی کرتے ھوۓ اس کی وضاحت دی ھے. اور نبی و امام ع سے علم غیب کی نفی فرمائی ھے.

    ویسے تو جید علماء میں سے ایک کثیر تعداد ھے مگر ھم اختصار کے پیش نظر زیل میں چند علماء کی راۓ پیش کرنے کی کوشش کرتے ھیں:

    شیخ مفید رح نے آپنی کتاب اوائل المقالات ص,77,/طبع ایران میں تحریر فرماتے ھیں .
    ترجمه :یعنی یه کھنا که آئمه علیهم اسلام عالم الغیب ھیں بالکل فاسد اور باطل قول ھے. کیونکه اس وصف (عالم الاغیب ھونے)کا حقدار صرف الله کی زات ھے.وھی عالم ھو سکتا ھے.

    اسی عقیده پر مسلک شیعه  اثناۓ عشریه کا عقیده ھے ھاں غالی اور مفوضه اس کے قائل نھیں ھیں.
    یھی بات علامه مجلسی نے بھی بحار الانوار جلد ھفتم ص,415,
    پر بھی رقم کی ھے.

    حضرت سید مرتضی علم المھدی قدس سره نے آپنی کتاب الشافی میں قاضی عبدالجبار کا جواب دیتے ھوۓ لکھا ھے که ترجمه: یعنی قاضی نے یه بات تو درست کھی که جن چیزوں کا تعلق منصب امامت سے ھے ان کو جاننا امام کیلۓ ضروری نھیں ھے لیکن قاضی کا یه گمان غلط ھے ھم امام کیلۓ اس قسم کے علوم کو جاننا ضروری سمجھتے ھیں.

    علامه ابو الفتح کراجکی رح نے آپنی کتاب کنز اکفوائد ص,109 طبع ایران پر اعتقادات ایمانیه میں اپنا ایک مختصر رساله موسومه به البیان عن جمل اعتقاد اھل ایمان درج کیا ھے اس کے صفحه 110,میں لکھا که اھلبیت ع علم غیب نھیں جانتے مگر جس قدر خالق انھیں بتلا دے.

    فاضل جلیل جناب ابن قبه جو بھت بڑۓ علماء میں سے ھیں شرح الاصول من الکافی میں لکھتے ھیں یعنی جو آئمه اھلبیت ع کے متعلق علم غیب کا دعوی کرتا ھے وه مشرک ھے.

    عالم ربانی جناب شھر آشوب مازاندرانی آپنی کتاب متشابھات القرآن جلد 1,ص211,پر ایت مبارکه ولا اعلمه الغیب کے زمن میں لکھتے ھیں.

    ترجمه :امام علیھم اسلام کیلۓ عقلا شرعا یه واجب ھے که وه تمام علوم دین و شریعت کے عالم ھوں لیکن ان کیلۓ یه لازم نھیں که علم غیب اور ماکان ومایکون کا علم بھی رکھتے ھوں.
    کیونکه اس پر لازم آتا ھے که تمام معلومات خدا کے ساتھ شریک ھوں.حالنکه خدا کے علوم غیر متناھی ھیں.

    مجاھد کبیر علامه محسن الامین الحسینی قدس سره اعیان الشیعه آپنی کتاب مسطاب معاون الجواھر فی علوم الاوائل والااخراج ص,343,

    میں امام ع کے متعلق شیخ مفید اور سید مرتضی اور علامه حلی رح 
    کا کلام حق نقل کرنے کے بعد خود افاده فرماتے ھیں که امام سواۓ احکام کے تمام مایکون کے عالم نھیں ھوتے .

    سید مھدی الکاظمی القروزینی نے آپنی کتاب ظھور الحقیقیة طبع نجف اشرف ص,198 سے لے کر 214,تک آئمه اھلبیت ع کے عالم الغیب ھونے کی اور صاحب علم حضوری ھونے کی نفی پر علمی بحث فرمائی ھے.

    حضرت الفاضل شیخ محمد رضا المظفر النجفی نے رساله عقائد شیعه ص45,پر علم امام کے بارۓ لکھتے ھیں که جھاں تک  امام کا تعلق ھے وه معارف دینیه احکام الھیه اور دیگر تمام معاملات کو جناب رسول خدا اور سابق امام ع کے زریعے جانتے ھیں.اور جب نئ صورت حال رونما ھو تو قوت قدسیه کے زریعے الھام کے زریعه معلوم کر لیتے ھیں.

    مولا شیخ محمف اعجاز حسن بدایونی لکھنو آپنے رساله شمس الاعتقاد ص,56/57,
    طبع سرفراز لکھنو  ایجنسی,علم نبی و امام ع کے بارۓ لکھتے ھیں خدا نے واسطه مخلوق آپنے حبیب کو تعلیم عطا فرمائی اور اب سلسله فیض جاری ھے.
    اور آئنده بھی جاری رھے گا.آپنے رسول اور اھلبیت ع کو بقدر ضرورت و مشیت تعلیم دی.

    بعض لوگ علم تفصیلی کو معصومین ع کیلۓ کمال بتاتے ھیں یه انکی غلط فھمی ھے وگرنه اگر علم مذکوره کو باعث کمال مانا جاۓ گاتو کسی وقت بھی یه کمال متصور نه ھوں گے.
    اس لیۓ علم تفصیل کی تعلیم کسی بھی وقت بھی ختم نھیں ھوئی اور نه آئنده ختم ھو گی وجه اسکی وھی ھے که علوم الھیه غیر متناھی ھیں.
    پس جب تک تعلیم ختم نه ھو کمال حاصل نھیں ھو سکتا ھاں اجمالی تعلیم موجب کمال ھے وه بقدر ضرورت و مصلحت ھر زمانه میں جاری رھی جسکا خلاصه قرآن کی ایک آیت میں بیان ھوا یعنی علمک مالم تکن تعلم وکان فضل الله علیک عظیما,
     ترجمه:
    آۓ رسول تم کو الله نے وه چیزیں سکھا دیں جو تم نھیں جانتے تھے اور خدا کا فضل تم پر عظیم ھے.(القرآن)
    مذید اس عقیده کی درج زیل علماء تائید و توسیع فرماتے ھیں.

    سرکار نجم العلماء سید نجم الحسن صاحب.

    مولانا دید محمد باقر صاحب.

    حضرت مولا سید آقا حسن صاحب.

    جناب مولا ھادی رضوی صاحب.

    دید ابو الحسن صاحب.

    مفتی محمد علی صاحب قبله.

    مولانا سید ابن حسن اعلی الله مقامه

    آیت الله شیخ محمد حسین النجفی.

    آیت الله شیخ محسن النجفی قبله.

    حجةالاسلام سید محمد تقی نقوی قبله.

    اس سے ظاھر ھے که یه عقیده  متحده ھندوستان کے تمام علماء کا بھی ھے.

          (اگلی پوسٹ کا انتظار کیجیۓ)

    علم غائب کا عقیده ...قسط نمبر:2

    :علم غائب والا عقیده اور آئمه طاھرین
                                        
    "قسط نمبر :2.           تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ

    ھم نے آج سے کچھ عرصه قبل ایک پوسٹ کی تھی که یه باریکی اور متنازعه مسائل ھیں جو بدقسمتی سے چند غلو پسند علماء نے اسلام کی اصل کو بگاڑنے اور اختلاف کو اجاگر اور آپنے دنیاوی مقاصد کی خاطر شخصی شھرت اور واه واه اور پیسے بٹورنے کی خاطر پیدا کیۓ ھیں.

     بدقسمتی س کم علم اور لکیر فقیر قسم کی اکثریت عوام من و عن تسلیم کرتی گئی.
     اب یه مسائل اتنے سرایت اور  گھمبیر رخ اختیار کر چکے ھیں که اگر علماۓ حقه اسے چھیڑتے ھیں تو ان کا ٹکر پانی بند ھوتا ھے ساتھ کفر اور لعن تعن کا طبق بھی برداشت کرنا پڑتا ھے.

    ھماری پوسٹ پر وه بھائی کمنٹس کرۓ جو دینی معاملات میں تھوڑی بھت سمجھ بوجھ رکھتا ھو یا نھیں تو سوال معقول کرتے ھوۓ ھم سے آگاھی لے.

    میں نے دیکھا ھے اکثر بھائی پوسٹ پڑھے بغیر تنقید شروع کر دیتے ھیں وه لکھنے والے کو دیکھتے ھیں یه نھیں دیکھتے که لکھا کیا ھے.
      اس عمل بد سے پرھیز کریں.

    فضول اور پوسٹ کے غیر متعلقه  کمنٹس سے براه کرم پرھیز کیا جاۓ.

    کل ھم نے علم غیب پر قرآن مجید کی روشنی میں,19/ محکم آیات پیش کیں اور ایک آیت سوال کے طور پر چھوڑی.

     مگر بدقسمتی سے کسی نے رد نھیں پیش کیا بلکه پوسٹ سے ھٹ کر آپنی خرافات اور ھمیں تعن و تشنیع کے ساتھ فضول چیلنج کرتے رھے.

    جب ھم نے للکار دی تو سب گیدڑ کی طرح انتشاری کیفیت پیدا کرکے رفوچکر ھوگۓ.

    الحمد لله ھمارۓ پاس الله کا کلام اور مولا علی ع کا فرمان ھے ھمیں کوئی ڈر نھیں.

    علم غیب :

    نھج البلاغه میں مولا علی ع کے کئی خ
    طبات میں علم غیب کے متعلق بیان موجود ھیں.
    جن سے واضح ھوتا ھے که مولا ع نے جو دعوے کیۓ علم غیب کے ان کا اقرار بھی کیا که یه سب علم مجھے رسول الله ص سے ملا اور انھیں الله تعالی نے دیا.

    سب سے پهلے ھم رسول الله ص کا ارشاد مبارک پیش کریں گے.
    سوره الانعام کی آیت کی تفسیر کے زمن میں جو مفسر قرآن جلیل طبرسی نے مجمع البیان جلد 1,ص/377
    میں بیان کی ھے.

    یعنی میں وه علم غیب نھیں جانتا جس کا جاننا خدا کے ساتھ مختص ھے.
    ھاں میں تو اتنی مقدار میں جانتا ھوں جتنا خدا مجھے بتاتا ھے.
    جیسے بعث و نشور اور جنت و جھنم وغیره.
    کذافی الصافی میں ص/55.

    آیا اس علان رسول کو سن کر بھی کسی کلمه گو کو یه حق پهنچتا ھے که وه نفی غیب کی بجاۓ اثبات غیب کا اعتقاد رکھےصادق رسول ص نے کیسی وضاحت سے بیان کر دیا ھے که میں علم غیب نھیں جانتا.

    اب  ھم آتے ھیں علم غیب کے متعلق نھج البلاغه میں دیۓ گۓ مولا علی ع کے خطبات کی طرف.
    مولا علی ع سے سوال ھوا که مولا آپکو تو علم غیب عطا ھے.
    اس سوال پر مولا ھنس پڑۓ اور اس سے فرمایا:
    آۓ کلبی یه علم غیب نھیں بلکه یه رسول ص سے حاصل کی ھوئی باتیں ھیں.

    جو خزانه علم الھی تھے علم غیب تو قیامت کا وقت.ماں کے پیٹ میں کیا ھے بچی ھے یا بچه, سخی ھے یا بخیل شقی ھے یا نیک جنت جاۓ گا یا جھنم پس وھی علم غیب ھے جسے کوئی نھیں جانتا.
    رھا دوسری چیزوں کا علم وه مجھے رسول ص اور انکو الله نے عطا کیں.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :128.ص,446/445.

    اگر مجھ سے غیب کی خبریں سنو تو اشاره ایک دوسرۓ کی طرف نه کیا کرو میں یه سب نبی ص کی جانب سے خبر دیتا ھوں نه خبر دینے والا رسول جھوٹا ھے اور ناں سننے والا جاھل تھا.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :101,ص/370/371.

    مولا علی ع الله تعالی کی حمد و ثنا بیان کرتے ھوۓ فرماتے ھیں اس کا علم غیب پردوں میں سرایت کیۓ ھوۓ ھے اور عقیده کی گھرایوں کا احاطه کیۓ ھوۓ ھے.
    نھج البلاغه خطبه نمبر:108,ص:381.

    اس خطبه میں امام حق علی ع سردار دو جھان کی نعت بیان کرتے ھوۓ فرماتے ھیں .
    جو چیزیں تم سے پرده غیب میں لپیٹ کر رکھ دی ھیں اگر تم بھی جان لیتے جس طرح میں جانتا ھوں تو یعقینا بد اعمالیوں پر روتے ھوۓ سینے پیٹتے.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :116,ص/406/407.

    اس خطبه میں الله تعالی کی حمد و ثنا بیان کی ھے حالنکه وه مخلوقات جو ھماری نگاھوں سے اوجھل ھے اور جن تک پهنچنے سے نظریں عاجز اور عقلیں سیرانداخته ھیں اور ھمارے اور ان کے درمیان غیب کے پردے حائل ھیں وه ان سے کھیں زیاده عظیم و بزرگ ھیں.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :159,ص:482/483.

    اس خطبه میں مولا علی ع نے کھا که خدا کی قسم اگر میں چاھوں تو ھر ایک شخص کو بتا سکتا ھوں که وه کھاں سے آیا ھے اور جاۓ گا.
    مجھے رسول ص نے ان تمام حالات اور ھلاک ھونے والوں کی ھلاکت اور نجات پانے والوں کی نجات اور اس امر خلافت کے انجام کی خبر دی ھے.

    نھج البلاغه خطبه نمبر
     :174,ص/517/518.

    مذکوره بالا ارشادات کے بعد اب ھم ایک واقعه پیش کرتے ھیں جسمیں مذکور ھے که ایک مرتبه امیر علیه اسلام خطبه دے رھے تھے که حسب معمول دعوی سلونی فرمایا تو حاضرین سے ایک شخص نے پوچھا این جبرائیل ھذا الوقت,
    تو امام ع نے فرمایا وعنی انظر  مجھے اتنی مھلت دو که میں دیکھ لوں  .
    آپ علیه ادلام فتنظر الی فوق والی الارض یمینه و یساره  :اوپر نیچے دائیں بائیں دیکھا اور فرمایا انت جبرائیل تو ھی جبرائیل ھے. نعره تکبیر  بلند ھوا اور پوچھا گیا حاضرین میں سے کسی نے یا امام ع آپ کو کیسے معلوم ھوا .

    ترجمه :امام علی ع نے جواب دیا  جب میں نے آسمان کی طرف پھر زمین اور دائیں بائیں دیکھا تو جبرائیل ع نظر نه آۓ اور فرمایا که یعقین ھو گیا که یھی جبرائیل ھیں.(انوار نعمانیه ص:13)

    اس سے ظاھر ھوتا ھے که امام کا علم توجه اور التفات کا محتاج ھوتا ھے تو یھاں پر ان غالی لوگوں کے گمان باطله بھی عیاں ھو جاتا ھے که عالم امکان کا زره زره ھر وقت امام کے سامنے حاضر ھے.
    بلکه یھاں واضح ھے که با علام الله اس طرح با آسانی سے معلوم کر لیتے ھیں.

    اب ھم آتے ھیں دیگر معصومین ع کے ارشاد مبارکه کی طرف که وه علم غیب کے متعلق کیا فرماتے ھیں.

    امام رضا علیه اسلام سے دریافت کیا گیا اتعلمون  الغیب ,کیا آپ علم غیب کے متعلق جانتے ھیں آپ آنجناب ع نے ارشاد فرمایا که ھمارۓ لیۓ جب علم کشاده کیا جاتا ھے تو جانتے ھیں جب بسته کر دیا جاتا ھے تو نھیں جانتے.

    اصول کافی میں پورا ایک باب ھے علم غیب کے متعلق جن میں ایک حدیث یه بھی ھے که سدیر بیان کرتے ھیں که ابو بصیر یحیی بزاز  اور داود کثیر امام جعفر صادق ع کی خدمت میں حاضر تھے که اچانک آنجناب ع آپنے دولت کده سے غضب ناک حالت میں برآمد ھوۓ جب آپنی نشست گاه پر بیٹھ گۓ تو فرمایا تعجب ھے ان لوگوں په جو یه گمان کرتے ھیں که ھم علم غیب جانتے ھیں.
     حالنکه خدا وند کے بغیر کوئی بھی نھیں جانتا.
    میں نے فلاح کنیز کو کسی جرم پر مارنا چاھا تو وه بھاگ کر گھر کے کسی کونے میں چھپ گئی اب معلوم نھیں که کس جگه ھے. 
    اصول کافی ص:128.

    امام عصر  والزمان علیه اسلام فرماتے ھیں اۓ محمد بن سمری رض یه غالی لوگ جو الله کی وصف بیان کرتے ھیں وه اس سے بلند و برتر ھے ھم تو اس کے علم میں اسکے شریک ھیں اور نه قدرت میں بلکه حقیقت یه ھے که علم غائب الله کے سوا کوئی نھیں جانتا.

    قرآن کی روشنی میں اور اب معصومین ع کے ارشاد مبارکه جامع اور محکم آیات و روایات سے ھم نے وضاحت دی .
    اس سلسله میں مذید کسی حدیث کے پیش کرنے کی ضرورت نھیں ھے .
    لھذا کل ھم علماۓ حقه کے علم کی روشنی میں علم غیب پر روشنی ڈالیں گے.
                                                           شکریه.

    جمعہ، 24 مئی، 2019

    عرس ,مزار اور بیت رضوان کے درخت کی کٹائی.

    مزار,عرس اور بیعت رضوان کے درخت کی کٹائی :

                       قسط نمبر 13.

    جس درخت کے نیچے بیعت رضوان ھوئی تھی لوگوں نے اس کو زیارت گاه بنا لیا تھا اس وجه سے حضرت عمر نے  اس کو کٹوا دیا.

    اگر حضرت عمر نے اس وجه سے کٹوایا که وھاں لوگو ں نے حاجات کی مشکل کشائی  کا وسیله بنا لیا تو پھر ان بزرگوں کی قبروں کو حاجات کا مداوا سمجھنا فعل عمر کے خلاف ھے.

    ایک وجه یه بھی پیش کی جاتی ھے که اس درخت کو کٹوایا نھیں تھا بلکه لوگوں کی نگاھوں سے غائب ھو گیا لوگوں نے دھوکے میں دوسرۓ درخت کی زیارت شروع کر دی تھی .

    اب خانقاه پرست اس غلطی سے بچانے کیلۓ حضرت عمر تبرکات کی زیارت کے مخالف ھوتے تو حضور ص کے بال مبارک تهبند شریف اور قبر انور سب ھی تو زیارت گاه بنی ھوتی تھیں .ان کو کیوں باقی رھنے دیا.

    مگر یه جواب خود ان کے گلے پڑتا ھے اگر درخت کٹوایا ھی نھیں بلکه الله تعالی نے غائب کر دیا تو اس سے معلوم ھوا که الله پاک بھی نھیں چاھتے تھے که یه درخت زیارت گاه بنے.

    اگر حضرت عمر نے کٹوایا تھا تو وه بھی نھیں چاھتے تھے.
    درخت کا مخفی ھونا بھی یه نشانی ھے که یه فعل الله تعالی کو پسند نھیں تھا.

    اگر ولیوں کی قیام گاھوں کو زیارت بنانا الله تعالی کے نذدیک محبوب ھوتا تو پھر ایسا نه ھوتا.

    تبرکات کی بات دوسری ھے ان سے صرف حسین یادیں وابسطه ھوتی ھیں.

    زیارت گاھیں تو مرده ایام سے خانقاھیں بن جاتی ھیں اور آھسته آھسته غیر الله کو ماتھا ٹیکنا شروع ھو جاتا ھے .

    آنحضرت ص بھی اس سے محتاط تھے بلکه ایک سفر میں صحابه نے عرض کیا که

     اجعل لنا زات انواط کمالھم زات انوات.
    ھمارۓ لیۓ ایک زات انواط مقرر فرما دیجیۓ جیسے ان کیلۓ زات انواط ھے.

    تو آپ ص نے فرمایا جیسے قوم موسی نے کھا تھا .
    که ھمارۓ لیۓ ایک معبود مقرر کر دیجیۓ جیسے ان کیلۓ معبود ھے.
    تفسیر ابن کثیر جلد 3ص:242.

    اسی لیۓ تو حضرت عمر نے حجر اسود کو بوسه دیتے ھوۓ کھا اگر میں نے رسول الله ص کو بوسه دیتے ھوۓ نه دیکھا ھوتا تو میں تجھے بوسه نه دیتا.
    بخاری شریف.
    قبروں کی زیارت مسنون ھے ھاں ان پر میلا لگانا اور اس کیلۓ دور دراز کا سفر کرنا منع ھے.

    علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

     بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...