Saieen loag

ہفتہ، 25 مئی، 2019

علم غائب اور واقعه افک کی حقیقت...قسط نمبر:7

علم غیب والا عقیده واقعه افک اور غالی مسلمان.  
                                 
"قسط نمبر:7.    تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ


اھل غلو اس واقعه سے بھی حق پهچان سکتے ھیں اگر زره غور کریں تو.

افک بات کو الٹ دینے اور حقیقت کے خلاف کچھ کھ دینے کے معنوں میں ھے.

فرقه امامیه اور غیر امامیه میں اختلاف ھے.
 صاحب تفسیر المیزان کو دونوں روایات میں تامل ھے.

تفسیر قمی میں ھے که یه آیات حضرت عائشه کے متعلق ھیں.

تفسیر مبین میں بھی حضرت عائشه کا بھی اور حضرت ماریه قطبیه  دونوں کے واقعات لکھے ھیں  چاھے جو بھی ھو پر بات غیب پر ھے جب تک وحی نه آئی آپ کو خبر نه ھو سکی.

تفسیر نجفی میں بھی یهی تشریح ھے بلکه سکین بھی لگا دیا ھے.
سوره نور آیت:11.
اھلسنت کی ھر تفسیر اور صحاح سته سمیت معتبر کتب میں حضرت عائشه ھی مراد ھیں.

رسول الله ص غزوه بنی مصطلق سے واپس تشریف لا رھے تھے اس غزوه میں حضرت عائشه بھی قافله کے ھمراه تھیں اور ایک مقام پر وه قافله سے بچھڑ گئیں صفوان بن معطل رض جو قافله کے پیچھے چل رھے تھے انھوں نے حضرت عائشه کو دیکھا اور اونٹ پر بٹھا کر قافله تک پهنچایا .

ایک منافق عبدالله بن ابی نے عزت کی تھمت لگا دی اب آپ ص پر کیا گزری اس تحریر کا مطالعه کریں.

اب غالی کھتے ھیں که آپ ص اس معامله میں بھت پریشانی میں رھے مگر بغیر وحی کچھ فرما نه سکے که یه تھمت صحیح ھے یا غلط بات یه ھے که.
 اگر علم غیب ھوتا تو پھر لگاتار پریشان ھونے کی ضرورت نه ھوتی اور اتنے روز خاموشی کیوں فرمائی.

ھار کی گمشدگی یا رفع حاجت کی وجه سے قافلے سے بچھڑنے والی بی بی کا خالی  ھووج کیوں اونٹ پر اٹھا کر رکھ کے چل دیۓ ھووج کو اٹھانے والے اصحاب یا پیغمبر اکرم ص کو کیوں علم نه ھو سکا که بی بی عائشه تو اس کے اندر ھے ھی نھیں.

وزن تک بھی احساس نه ھوا دوسرا اگر پاک نبی ص کو معلوم تھا که ھار گم ھو گیا ھے یا فلاں جگه پڑا ھے تو بتایا کیوں نھیں.

تیسرا اگر معلوم تھا که ھار تلاش کیلۓ حضرت عائشه دور نکل گئی ھیں تو تیمم کے واقعه کی طرح قافلے کو رکوایا کیوں نھیں.

 کیونکه تیمم والے واقعه میں صرف ایک ھار کی گمشدگی کیلۓ آپ نے ساری رات قافلے کو رکواۓ رکھا.
 مگر یھاں ناں صرف ھار بلکه پیاری اور چھیتی لاڈلی بیوی حضرت عائشه بھی گم ھیں.
مگر پھر بھی آپ قافلے کو لے کر چل دیۓ.

کیا یه عجیب تضاد نھیں ھے کیا.کیا رسول الله ص کو معلوم نھیں تھا که اونٹ پر رکھا ھووج خالی ھے کیا ایک غیرت مند شوھر برداشت کر سکتا ھے که وه آپنی لاڈلی بیوی کو جنگل میں اکیلا چھوڑ کر چلا جاۓ.

اب غالی کا عقیده ھے که نبی ع و معصومین ع عالم الغیب ھوتےھیں .

تو اس قافله میں آپ ص سمیت حضرت علی ع اور معتبر اصحاب بھی موجود ھیں حتی کے حضرت عائشه کے والد محترم بھی ساتھ تھے,
یه سب ھر وقت آپکے علم سے فیض یاب ھوتے رھتے تھے ان کو بھی معلوم نھیں ھو سکا.
جبکه حضرت عائشه کے خود یه الفاظ ھیں که  
           رھم یحسبون انی فیه

وه سمجھتے که میں ھووج کے بیچ میں ھی ھوں.حضرت عائشه سو گئیں اور فرماتی ھیں.

        نظقنت انھم سیفقدون فیرجعون

میرا خیال تھا جب میں انھیں نھیں ملوں گی تو وه میری تلاش میں لوٹیں گے.

تو صفوان بن معطل رض کی راھنمائی میں قافله تک پهنچائیں گئیں.

ام مسطح سے بھی پوچھا گیا انھوں نے آپنی والده سے تصدیق چاھی.
حضرت اسامه سے بھی مشوره ھوا تو انھوں نے جواب دیا:
                             لا نعلمه الا خیرا
میں تو انھیں صحیح سمجھتا ھوں.

اگر پاک نبی ص کو علم تھا تو پھر حقیقت بارۓ معلوم کیوں کرتے رھے.

حضرت زینب سے مشوره کیا تو انھوں نے کھا :
        والله ما علمت الا خیر
بخدا میں انھیں صحیح سمجھتی ھوں.

حضرت علی ع سے پوچھا گیا تو آپ نے مشوره دیا که بیویوں کی کیا کمی ھے.

حضرت بریره سے پوچھا تو انھوں نے کھا ھم نے کوئی قصور کبھی نھیں دیکھا.

حضرت ام ایمن سے بھی پوچھا تو انھوں نے بھی محفو ظ قرار دیا.

اتنے شواھد اکٹھے کرنے کے بعد آپ کچھ مطمعین ھوۓ عرض ھے که اگر آپ عالم الغیب تھے تو ایک ایک شخص سے کرید کرید کر سوال کرنے کی کیا ضرورت تھی.

 عجیب بات ھے جب آپ جن جن سے پوچھ رھے تھے تو انھوں نے یه کیوں ناں کھا که یارسول الله آپ خود ان معاملات سے آگاه ھیں تو ھم سے کیوں پوچھتے ھیں.

 مگر جب سوره نور آیت نمبر :11

 الله تعالی نے اس بھتان کو جھوٹ کھا تو تب جا کے آپ ص مکمل مطمعین و راحت میں آۓ.

اب غالی یه بھی کھتے ھیں که آپ ص کو علم تھا مگر اظھار نه فرمایا.

تو عرض ھے اگر علم غیب تھا تو پھر اس کا انکار کرنے سے حضرت حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثه  اور حضرت حمنه بنت حجش کافر نه ھو گۓ.

 جو اس افواه کو پھیلانے میں پیش پیش تھے کیا شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت وغیره کو اس بات کا علم تھا که آپ ص عالم الاغیب ھیں اور آپ کو ھر بات کا علم ھے تو ھم کیوں خواه مخواه شور مچا رھے ھیں.

اتنی انسانی معلومات سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی.
اگر آپ کو علم یعقینی ھوتا تو آپ ان حضرات سے گواھیاں نه لیتے.

تو اسی لیۓ الله پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:
ترجمه: آۓ ایمان والوں جب تمھارۓ پاس مسلمان مرد اور عورتیں ھجرت کرکے آئیں تو تم ان کا امتحان لیا کرو دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا الله ھی ھے. لیکن اگر وه تمھیں ایماندار معلوم ھوں تو اب تم انھیں کافروں کی طرف واپس نه کرو.
سوره الممتحنه آیت :10.

اس آیت میں الله تعالی کا علم الیعقین  پر اور لوگوں کا علم گمان پر غالب دلالت کر رھا ھے نیز جیسے کوئی رشتے کا خواھش مند  آپ سے پوچھے تو آپ کھتے ھیں که میری معلومات مطابق اچھا ھے.

اسی واقعه کے متعلق آپ نے حضرت عائشه سے کھا اگر تم سچی ھو تو الله تعالی ضرور  برات فرماۓ گا.اور اگر گناه کیا ھے تو پھر الله سے توبه و استغفار کرو.
الله تعالی معاف فرمانے والا ھے.

(اسی موضوع پر مذید بحث جاری ھے انتظار فرمایئے.)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...