Saieen loag

جمعہ، 24 مئی، 2019

بزرگوں کے مزاروں پر عرس برائی کے مرکز ...قسط نمبر:1

یه درست ھے جھاں صوفیه نے آپنی زندگی میں اسلامی شریعت کا دیا پاچا ایک کیا اور بدعات و خرافات کی بھرمار کی وھاں انکے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی یه سلسله نه تھما ,

اور ان کے ھڈ حرام کام چور مریدوں چیلوں نے کوئی کسر نه چھوڑی.

صوفیه اور ان کے مزاروں پر عرس:
 کیونکه لازم و ملزوم ھیں لھذا چاھا صوفیه کے بعد اب ان پر لکھ کر ناسمجھ مسلمانوں کو اس گمراھی کے مراکز کے بارۓ قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات کی روشنی میں باخبر کیا جاۓ.

ھم اولیاء الله کےمزاروں پر ھدایت و عبرت کیلۓجانے والوں کے خلاف نھیں بلکه وھاں ھونے والی فرسوده بدراه رسومات کے خلاف ھیں.

ھماری ان تحریروں کا مقصد کسی کی توھین و تضحیک نھیں بلکه اصلاح کا راز پوشیده ھے.
                
                 قسط نمبر :1

              بسم اللہ الرحمن الرحیم​
جب تک مسلمان دینِ اسلام کی اصل قرآن و حدیث پر رھے متحد اور مجتمع رھے.

 جیسے ھی لوگوں کے فہم و فلسفہ کو اپنایا تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور دینِ محمد ص میں اپنی من مانی جب بھی کی جائے گی اس اُمت میں انتشار کا ھی باعث بنے گی.

ایک لمبے عرصہ تک ہم لوگ ہندؤوں کے ساتھ رھےہیں جس کی وجہ سے ہندؤوں کے مذہب کی کافی باتیں اور رسم و رواج کو اسلام سمجھ چکے ہیں.

 اور ان پر بہت سختی کے ساتھ کاربند بھی ہیں اور جو ایسے رسم و رواج کے خلاف بات کرئے اس پر فتوے لگ جاتے ہیں جہاں اور بھی بہت سی جاہلانہ رسمیں ہیں ان میں ایک رسم ھے درگاھوں,درباروں آستانوں پر میلوں کا انقاد،
 ہمارے مولوی لوگ اس کو اسلام کا نام دیتے ہیں مگر جب ان سے کہا جاے کہ مولوی صاحب یہ کہاں کا اسلام ہے کہ جہاں گانے باجے بجتے ھوں، کھسرے تو کھسرے عورتیں اور مرد بھی ڈانس کرتے ھوں.

جہاں اذان و اقامت اور نماز کے اوقات میں بھی گانے، قوالیاں بجتی رہتی ہیں قبرستانوں کے اندر موت کے کنوئیں لگا کر نور جھاں اور نصیبو لال کے سیکسی گانوں کی کان کے پردۓ پھاڑ سپیکروں کی آواز میں کھسرۓ ناچتے ھوں.
اور لواطت و زنا کا بازار گرم ھو کیا یه اسلام کی تعلیمات ھیں.

عرس کے لغوی معنی ھیں,شادی,اسی لیۓ دولھا دلھن کو عروس کھتے ھیں .بزرگان کی تاریخ وفات کو اس لیۓ عرس کھتے ھیں که مشکواة باب اثبات عذاب القبر ص:25, جب نکیرین میت کا امتحان لیتے ھیں اور وه کامیاب ھوتا ھے تو کھتے ھیں :
ثم کنو مة العروس الذی لا یو قظه الا احب اھله الیه .
ترجمه پیش ھے:
سو جا اس دولھا کی طرح جسے صرف اس کا محبوب جگاتا ھے.

تو چونکه اس دن نکیرین نے عروس کھا اس لیۓ وه دن روز عروس کھلایا.

عرض یه که نکیرین میت کی نیند کو عروس کی نیند سے تشبیه دیتے ھیں.

عرس یعنی بزرگان کی شادی میں شرکت کے شائقین آنے والے دولھا یا دلھن کیلۓ دولھا بھی ثابت کرنا پڑے گا.
پھر جب وه شب زفاف منائیں گے پھر غسل جنابت کیلۓ انکی قبر میں پانی کا پائپ بھی لگانا پڑۓ گا.

پھر دعوت ولیمه بھی ھو گی پھر بچے بھی پیدا ھوں گے اور ان کے ختنے عقیقے وغیره کا بندوبست بھی کرنا پڑۓ  گا وغیره وغیره.
پھر یه بزرگوں یا سجاده نشینوں تک محدود نھیں رھے گی.
نکیرین تو ھر موحد اور متبع سنت مسلمان کو یه خوشخبری سناتے ھیں .

لھذا آپنے مسلک کے مطابق انھیں چاھیۓ که ھر مسلمان کی قبر پر ھر سال اس کے روز وفات پر عرس منایا کریں.

کیونکه وه اس کی شادی کا دن ھوتا ھے صرف بزرگوں کا عرس منانا کانی ونڈ ھے....
عجیب بات ھے زندگی میں تو یه لوگ بزرگوں کی شادی والے دن سالانه عرس نھیں مناتے مرنے والے دن کا عرس مناتے ھیں.

اس سے معلوم ھوا عرس منانے والوں کو جینے کی نھیں مرنے کی خوشی زیاده ھوتی ھے. 
شاید اس لیۓ ان استخواں فروشوں کے نذدیک مرنے والے کی ھڈیاں زیاده نفع کا سودا ھوتی ھیں.
پھر ان مخصوص قسم کے بزرگوں کو سمجھ لینا بھی تو محل نظر ھے.ھو سکتا ھے جنھیں یه بزرگ سمجھتے ھوں وه محض ان کا حسن ظن ھو اور جن کو انھوں نے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا درحقیقت وه اولیاءالله  ھوں.

شرح فقه اکبر ص:131 پر ھے ترجمه:
پیغمبر اکرم ص کے علاوه علماء اور صلحاء کی بابت متعین طور پر بالجزم یه نھیں کھه سکتے که انکی موت ایمان پر ھوئی ھے.
اگرچه ان خوارق عادات کمال حالات اور جمال انواع طاعات ظھور پذیر ھوۓ ھوں.
کیونکه یعقینی خبر کی بنیاد مشاھده پر ھے اور یه مشاھده انسانی افراد سے مستور ھے.
نکیرین کسی کو عروس کی نیند سلاتے ھیں اور کسی کی ھڈی پسلی ایک کر دیتے ھیں یه برزخی ھے اسے جاننا شائقین عرس کے بس کی بات نھیں ھے عین ممکن ھے بزرگوں نے کان پکڑۓ ھوۓ ھوں اور یه براتی ان پر شھنائیاں بجا کر انھیں زھنی طور پر دوھری ازیت میں مبتلا کر رھے ھوں.
ملحاظه کیجیۓ شرح فقه اکبر ص:131.
شاه عبدالعزیز صاحب نے فتاوی عزیزیه ص:45/ پر لکھتے ھیں یه قسم (یعنی عرس) رسول الله ص اور خلفاۓ راشدین کے دور میں مروج نه تھی اگر کوئی کرۓ  تو حرج نھیں.
زبدة النصائح فی مسائل الزبائح میں بھی کچھ اسی طرح کی تشریح موجود ھے.

عرس کی مناسبت سے مجھے ایک واقعه یاد آیا ھے 1994/ء میں ھمارۓ اسلامیات کے پروفیسر نے ایک واقعه سنایا جو جلال پور پیروالا میں پیش آیا.
ایک آدمی کا گدھا بھت ھی لائق اور فرمانبردار سمجھ والا, مالک اور گدھا ایک دوسرۓ سے بھت مانوس تھے یه فطری عمل تھا دوران سفر کسی وجه سے گدھا راستے میں مر گیا.

 چونکه مالک کو بھت پیارا تھا اس نے اسکی لاش کو کھیتوں میں عریاں پھینکنے کی بجاۓ ایک گڑھا کھود کر سڑک کنارۓ دفن کر دیا ,
تاکه اسکی تذلیل نه ھو.

کچھ عرصه بعد وھاں سے اس شخص کا دوباره گزر ھوا کیا دیکھتا ھے قبر بناکر سبز رنگ کی چادر ڈالے ایک باریش بنده بیٹھا ھے اور آنے جانے والوں پر دم کر رھا ھے اور لوگ منتیں مان رھے ھیں شرینیاں تقسیم ھو رھی ھیں چڑھاوۓ چڑھاۓ جا رھے ھیں نذر نیاز کا زور ھے .

اس نے مختلف لوگوں سے پوچھا ماجرا کیا ھے کچھ عرصه پهلے یھاں کچھ نه تھا اب سب کچھ ھے لوگوں نے بتایا یه بزرگ بیٹھے ھیں ان کے والد کا مزار ھے اور وه آپنے وقت کے پهنچے ھوۓ ولی تھے بیٹے کو زیارت ھوئی ھے که میری قبر کی نشاندھی کی جاۓ اور روزنه ختم قرآن پڑھا جاۓ.

ایک دفعه تو وه شخص چونک گیا پھر اس جگه کا تعین کرنے لگا که واقعی یھی جگه ھے جھاں اس نے آپنا پیارا گدھا دفن کیا تھا یعقین ھونے پر اور نذر نیاز اور چڑھاوۓ دیکھ کر,
 اس کے جی میں بھی لالچ پیدا ھوا اس نے مجاور کو کھا که یهاں  تو میرا باپ دفن تھا متولی نے کھا بھائی یه تو میرۓ ابا جی تھے معامله بڑھ گیا ,
مجبورا متعلقه تھانه کو اطلاع کی گئی اب دونوں دعوی دار تھے اور بضد تھے که اس کے والد مدفن ھیں تو فیصله کیا گیا که قبر کشائی کی جاۓ .
تاکه معامله کو سلجھایا جاۓ جب قبر کشائی ھوئی تو عوام کی کثیر تعداد جمع ھو گئی که آج روحانی بابا کی قبر کھودی جا رھی تو آج بابا کے چھره انور کی زیارت ھوگی.
اب پریشان دونوں دعویدار تھے که معامله کو نه دبایا جا سکتا ھے اور نه ھی منحرف ھوا جا سکتا ھے.
جب قبر کھودنا شروع ھوئی تو ھر آدمی کی زبان پر کلمه اور درود کا ورد تھا جیسے ھی تھوڑی گھرائی پر گۓ تو سیاه بال اور لمبی لمبی ھڈیاں برأمد ھونا شروع ھو گئیں مگر جب گدھے کے سر کو باھر نکالا گیا اس وقت ھر انسان انگشت حیرت بدنداں تھا که یه کیا ماجرا ھوا .

تشویش پر گدھے کے مالک نے سب حقیقت بیان کر دی .
اب یه تو حالت ھے ان بزرگ پرست مسلمانوں کی جو گدھوں کو پوجنا شروع کر دیا ھے.                     (جاری ھے.)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...