Saieen loag

جمعہ، 24 مئی، 2019

خانقاھیں شرک کی بارگاھیں آور ھماری زمه داریاں.

خانقاھیت(شرک) کی ترویج و ترقی میں ھمارۓ حکمران بھی شامل ھیں.پوری تفصیل جاننے کیلۓ مکمل پوسٹ کا مطالعه کریں:

                        قسط نمبر :8

 سرزمین ہندمیں تشریف لانے والے صحابہ کرام رض کی تعداد 25, تابعین کی تعداد 37/اور تبع تابعین کی تعداد 15/بتائی جاتی ھے.

گویا پہلی صدی ہجری کے آغاز میں ھی اسلام برصغیر پاک وہند میں خالص کتاب وسنت کی شکل میں پہنچ گیا تھا اور ہندو مت کے ہزاروں سالہ پرانے اور گہرے اثرات کے باوجود صحابہ کرام رض تاریخی اور تبع تابعین رح کی سعی جمیلہ کے نتیجہ میں مسلسل وسعت پذیر تھا,

جو بات تاریخی حقائق سے ثابت ھے وہ یہ کہ جب کبھی موحد اورمومن افراد برسر اقتدار آئے تو وہ اسلام کی شان وشوکت میں اضافے کا باعث بنے محمد بن قاسم کے سلطان سبکتگین ۔سلطان محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین غوری کا عہد (986 تا 1175ء )اس بات کا واضح ثبوت ھے ,
کہ اس دور میں اسلام برصغیر کی ایک زبردست سیاسی اور سماجی قوت بن گیا تھا اس کے برعکس جب کبھی ملحد اور بے دین قسم کے لوگ سریر آرائے حکومت ہوئے تو وہ اسلام کی پسپائی اور رسوائی کا باعث بنے.

 اس کی ایک واضح مثال عہدِ اکبری ھے جس میں سرکاری طور پر لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ  أَکْبرُ خَلِیْفَۃُ اﷲِ مسلمانوں کا کلمہ قرار دیا گیا.

اکبر کو دربار میں باقاعدہ سجدہ کیاجاتا ‘نبوت ‘وحی ‘حشر نشراور جنت دوزخ کا مذاق اڑایا جاتا ‘نماز ‘روزہ حج اور دیگر اسلامی شعائر پر کھل کھلا اعتراضات کئے جاتے ,
سود‘جوا اور شراب حلال ٹھہرائے گئے سور کو ایک مقدس جانور قرار دیا گیا ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے گائے کا گوشت حرام قرار دیا گیا .

دیوالی ‘دسہرہ‘راکھی‘پونم ‘شیوراتری جیسے تہوار ہندوانہ رسوم کے ساتھ سرکاری سطح پر منائے جاتے ہیں.

ہندومذہب کے احیاء اور شرک کے پھیلاؤ کا اصل سبب ایسے ھی بے دین اور اقتدار پرست مسلمان حکمران تھے .

          تقسیم ہند کے بعد جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت اور بھی واضح ھوکر سامنے آتی ھے کہ شرک وبدعت اور لادینیت کو پھیلانے یا روکنے میں حکمرانوں کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ھے ہمارے نزدیک ہر پاکستانی کو اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاھیے,
 کہ آخر کیا وجہ ھے کہ دنیاکی وہ واحد ریاست جو کم وبیش نصف صدی قبل محض کلمہ توحید  لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُکی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئی تھی اس میں آج بھی کلمہ توحید کے نفاذ کا دور تک کوئی امکان نھیں.

ملاحظہ ہو ’’اقلیم ہند میں اشاعت اسلام ‘‘از گازی عزیر .
  تجدید واحیائے دین از سید ابوالاعلیٰ مودودی صفحہ :80.

اگر اس کا سبب جہالت قرار دیا جائے تو جہالت ختم کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں پر تھی اگر اس کا سبب نظام تعلیم قرار دیا جائے تو دین خانقاھی کے علمبرداروں کو راہ راست پر لانا بھی حکمرانوں کی ذمہداری تھی.

 لیکن المیہ تو یہ ھے کہ توحید کے نفاذ کے مقدس فریضہ کی بجاآوری تو رھی دور کی بات ‘ہمارے حکمران خود کتاب وسنت کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے آئے ہیں,
سرکاری سطح پر شرعی حدود کو ظالمانہ قرار دینا ‘قصاص ‘دیت اور قانون شہادت کو دقیانوسی کہنا ‘اسلامی شعائر کامذاق اڑانا ‘سودی نظام کے تحفظ ے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا,

عائلی قوانین اور فیملی پلاننگ جیسے غیر اسلامی منصوبے زبردستی مسلط کرنا ‘ثقافتی طائفوں ‘قوالوں ‘مغنیوں اور موسیقاروں کو پذیرائی بخشنا.

سال نو او رجشن آزادی, جیسی تقاریب کے بہانے شراب وشباب کی محفلیں منعقد کرنا ہمارے عزت مآب حکمرانوں کا معمول بن چکا ھے.
 دوسری طرف خدمت اسلام کے نام پر حکمران(الا ماشاء اﷲ)جو کارنامے سرانجام دیتے چلے آرھے ہیں ان میں سب سے نمایا اور سرفہرست,

 دین خانقاھی سے عقیدت کا اظہار اور اس کا تحفظ شاید ہمارے حکمرانوں کے نزدیک اسلام کا سب سے امتیازی وصف یہی ھے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح رح سے لے کر زولفقار علی بھٹو,جنرل ضیاء الحق اعر بے نظیر بھٹو تک اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال رح سے لے کر حفیظ جالندھری تک تمام قومی لیڈروں کے خوبصوت سنگ مرمر کے منقش مزار تعمیر کرائے جائیں,

 ان پر مجاور (گارڈ)متعین کیے جائیں قومی دنوں میں ان مزاروں پر حاضری دی جائے .
پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں سلامی دی جائے فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کے ذریعے انہیں ثواب پہنچانے کا شغل فرمایا جائے تو یہ دین اسلام کی بہت بڑی خدمت ھے .

          یاد رھے بانی پاکستان محمد علی جناح رح کے مزار کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے باقاعدہ ایک الگ مینجمنٹ بورڈ قائم ھے جسکے ملازمین سرکاری خزانے سے تنخواہ پاتے ہیں.

 گزشتہ برس مزار کے تقدس کے خاطر سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے مزار کے اردگرد 6/فرلانگ کے علاقہ میں مزار سے بلند کسی بھی عمارت کی تعمیر پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا .
(روزنامہ جنگ 13/اگست 1991 ء.
اور کل 27/فروری 2017 ء کو پھر نۓ سرۓ سے 2,کلو میٹر کے اندر ےمام اونچی عمارتوں کو گرانے کا سندھ حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ھے.

ایک ضیافت میں وزیر اعظم نے پولیس بینڈ کی دلکش دھنوں سے خوش ہوکر بینڈ ماسٹر کو پچاس ہزار روپیہ  انعام دیا ۔(الاعتصام 5/جون 1992ء).

یاد رھے مکہ معظمہ میں بیت اﷲشریف کی عمارت کے اردگرد بیت اﷲشریف سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں جو مسجد الحرام کے بالکل  قریب واقع ہیں.

 اسی طرح مدینہ منورہ میں روضه رسول ص کے اردگرد روضہ مبارک سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں,

 جن میں عام لوگ رہائش پذیر ہیں ۔علماء کرام کے نزدیک ان رہائشی عمارتوں کی وجہ سے نہ تو بیت االله شریف کا تقدس مجروح ہوتا ھے نہ روضه رسول ص کا. 

   1975ء میں شہنشاہ ایران نے سونے کا دروازہ سید علی ہجویری کے مزارکی نذر کیا .
جسے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نے اپنے ہاتھوں سے دربار میں نصب فرمایا 1989ء میں وفاقی گورنمنٹ نے جھنگ میں ایک مزار کی تعمیر وتزئین کے لئے 68/لاکھ روپیہ کا عطیہ سرکاری خزانے سے ادا کیا.

1991ء میں سید علی ہجویری کے عرس کے افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب نے مزار کو 40/من عرق گلاب سے غسل دے کر کیا.

 جبکہ امسال ’’داتا صاحب‘‘کے 975/ویں عرس کے افتتاح کے لئے جناب وزیر اعظم صاحب بنفس نفیس تشریف لے گئے مزارپر پھولوں کی چادر چڑھائی ‘فاتحہ خوانی کی ‘مزار سے متصل مسجد میں نماز عشاء ادا کی.

 اور دودھ کی سبیل کاافتتاح کیا نیز ملک میں شریعت کے نفاذ کشمیر اور فلسطین کی آزادی افغانستان,عراق,شام میں امن واستحکام اور ملک کی یک جہتی ترقی اور خوشحالی کے لئے دعائیں کیں.

 گزشتہ دنوں وزیر اعظم صاحب ازبکستان تشریف لے گئے جہاں انہوں نے چالیس لاکھ ڈالر (تقریبا ایک کروڑ روپیہ پاکستانی )امام بخاری رحمہ اﷲ کے مزار کی تعمیر کے لئے بطور عطیہ عنایت فرمائے.
 (۴)
          مذکورہ بالا چند مثالوں کے بین السطور ‘اہل بصیر ت کے سمجھنے کے لئے بہت کچھ موجود ھے ایسی سرزمین جس کے فرمانروا خود ’’خدمتِ اسلام‘‘سر انجام دے  رھے ھوں وہاں کے عوام کی اکثریت اگر گلی گلی ‘محلہ محلہ ‘گاؤں گاؤں ‘شب وروز مراکز شرک قائم کرنے میں مصروف عمل ھوں ,
تو اس میں تعجب کی کونسی بات ھے کہاجاتا ہے  الناس علی دین ملوکھم (یعنی عوام اپنے حکمرانوں کے دین پر چلتے ہیں)
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ھے.

   صنم کدہ ھے جہاں لاالہ الاﷲ.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...