Saieen loag

بدھ، 1 مئی، 2019

حقانیت کی علامت "سائیں لوگ"

چند احباب کا خیال ھے که ھم علماء پرست ھیں

جی بلکل ھم علماۓ حقه جو زھد و تقوی میں غرق ھیں انکی عزت و حرمت کے پابند ھیں بلکه خود خالق اکبر علم اور عالم کے بارۓ میں سوره زمر ع:9,
میں نصیت فرمائی ھے.

باقی پاک نبی ص نے فرمایا:
 شیعیه مذھب کی معتبر کتاب من لا یحضره الفقیه جلد دوم ص:205,
میں روایت ھے که عالم کے چھرۓ کی طرف دیکھنا بھی عبادت ھے.
( بحواله:مفاتیح الحیات از آیت الله جوادی آملی )

بلکه اتنا ثواب که ھزار غلاموں کو آزاد کرنے سے زیاده ھے جامع الاخبار میں بھی یه حدیث موجود ھے.

دوسری وضاحت یه که ھم علماء حقه کی قدر قرآن و احادیث نبوی ص اور ان کےع علم و ھدایت صالح اور تقوی کی بنا پر کرتے ھیں.

کیونکه وه ھمیں جینے,رھنے,سھنے, ادب و معرفت قرآن و اھلبیت ع کے متعلق آگاھی  دیتے ھیں لھذا ان کا ادب و احترام واجب ھے.

باقی کوئی وجه نھیں نه ھی ھمیں علماء کے جم گٹھا میں رھنے کا موقر ملا اور نه ھی علماء کی رفاقت ملی که ھم ان سے متاثر ھو کر انکی حرمت کے قائل ھیں نھیں بلکه ھم قرآن و اھلبیت ع کے فرامین کی روشنی میں انکی عزت و حرمت کے قائل ھیں.

باقی نه   کسی درس میں پڑھے ھیں نه پڑھایا دنیاوی تعلیم حاصل کی اور زریعه معاش کی خاطر آپنے کاروبار پر لگ گۓ.

برادران کیلۓ اصلاح عقائد پر تحریریں لکھنا اس میں کوئی زاتی,دنیاوی مفاد کا راز پوشیده نھیں.

جب وقت ملتا ھے تو آپ برادران کیلۓ کچھ لکھ لیتے ھیں خالی لعن و تعن اور اخباری تحریریں نھیں بلکه مقصد حاصل لکھتے ھیں تاکه مومنین کرام و دیگر مسالک کے برادران کو حق کی طرف غور و فکر پر دعوت دی جاۓ.

کچھ آپنے مذھب میں پیدا شده بدعات و عقائد پر بھی لکھنا لازم ھوتا ھے کیونکه دوسروں کو نیکی یا راه حق دکھلانے سے پهلے خود کو پهلے اس قابل بنایا جاۓ.

چنانچه اگر ھم دوسرۓ مذھب کی عبادات کو بدعت کھتے ھیں جیسے تراویح   و گیارھویں شریف وغیره .

تو لازم ھے که اس طرح کی خرافات ھم میں نه ھوں.

اگر ھم خود ان بدعات میں غرق ھوں تو پھر یه قطعا حق نھیں پهنچتا که ھم دورسروں کی عبادت پر انگلی اٹھائیں یا طنز و تنقید کریں.جبکه وھی عمل ھم خود کر رھے ھوں

اسی راه حق کی نشاندھی کرنے پر ھمیں گالی گلوچ اور لعن تعن کا نشانه بنایا جاتا ھے جو سراسر گناه کے سوا کچھ نھیں.

یه عمل کم علم اور منفی سوچ حضرات کرتے ھیں جن کے پاس علم و آگاھی پر ظرف برداشت کرنے کی صلاحیت بھت کم لیول پر ھوتی ھے.

یھی کثرت مخالفت ھمیں حق پر ھونے کا یعقین دلاتی ھے.

کثرت دشمن و شدت دشمنی یه سب سے بڑی حقانیت کی علامت ھے که ھم درست راه پر جا رھے ھیں.

اگرچه ھمیں یه پسند نھیں که ھمارۓ دشمن زیاده ھوں لیکن اگر دشمن کم کرنے ھوں تو پھر راه حق سے ھٹنا پڑۓ گا تو یعقینی طور پر دشمن کم ھو جائیں گے.

 لیکن دوسری طرف ھمیں حق سے محروم ھونا پڑۓ گا.

لھذا ھم کثرت دشمن سے خوفزده نھیں اور نه ھی فیس بک کی دوستی کو ھم ایمان اور راه فلاح پر قربان کرنے کا سوچ سکتے ھیں.

چونکه کلمه حق ھماری حقانیت کی علامت ھے اور دشمن اھلبیت ع کے آگے سرنگھوں ھونا ایک مومن کے شان شایان نھیں ھے.

بلکه بھولے بھالے برادران کی غیر زمه دارانه اور گالی گلوچ کے کمنٹس کو بالاۓ طاق رکھتے ھوۓ ھم صبر و استقامت سے قرآن و اھلبیت ع کی طرف سے پڑھایا گیا خالص سبق کا پرچار جاری رکھنے کا اعاده کرتے ھیں.

آنے والی ھر مشکلات کا حل بھی پاک پرودگار نے ھمیں دیا ھے ھم اس حل پر یعقین رکھتے ھیں جسکا رسول الله ص ,شھزادی کونینین سلام الله علیهه ,مولا علی ع اور شھداۓ کربلا نے تلاش کیا.

 ھم حقیقی پیروکار ھونے کے ناطے انھیں کی سیرت پر مشکلات کے حل کی تلاش میں ھیں. یعقینا وه دنیا میں ظاھری زلت اور آخروی نجات میں کامیابی کی صورت میں ملے گا.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...