Saieen loag

ہفتہ، 25 فروری، 2023

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن 

سامعین کرام اسلام علیکم 

سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف عالم دین علامہ غضنفر عباس تونسوی کے حالات زندگی پر۔ جو سات دسمبر دوہزار بائیس کو رحلت فرماگئے تھے۔

ناضرین علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی اپنے وقت کے نامور عالم دین علامہ امیر محمد ہاشمی کے گھر تحصیل میلسی کے قصبہ دروہڑوائن میں پیدا ھوئے آپ اپنے والد کی طرح 

ادب، منطق، فلسفہ، کے میدان میں اپنی مثال آپ تھے۔

علامہ امیر محمد ہاشمی نے ولایت علی ع پر بہت کام کیا۔ چوٹی کے علاقے، ضلع ڈیرہ غازی خان، میں، امیر محمد ہاشمی نے تقریباً چھ ماہ کے بحث مباحثے کے دوران اپنے مناسب دلائل کے ساتھ اسلام و مذھب حقہ کی خدمت کی اور آخر میں آپ جیت گئے اور فاتح چوٹی کے لقب سے لوگوں میں مشہور ہوئے۔

آپ نے ھزاروں لوگوں کو شیعہ کیا ۔

علامہ امیر محمد ہاشمی کے گھر لکھنؤ اور برصغیر سے تعلق رکھنے والے جید علماء اور رہنما آتے رھتے تھے، جن میں مرزا یوسف، حافظ کفایت حسین، مولانا ہدایت حسین، علامہ محمد بشیر ٹیکسلا، راجہ صاحب محمود آباد وغیرہ نمایاں ھیں۔

تحصیل میلسی کے قصبہ درھڑوائن میں جب علامہ امیر محمد ہاشمی پیش نماز تھے تو اس وقت ان کا علم عروج پر تھا،بیس سال کی عمر میں خطابت شروع کی۔اسی دوران بندہ ناچیز کے والد محترم مہر محمد شفیع آرائیں کے ساتھ علامہ امیر محمد ہاشمی صاحب کا اٹھنا بیٹھنا رہتا تھا ان کے علم اور مذھب حقہ کی حقانیت سے متاثر ھو کر والد صاحب نے اھل سنت سے مذھب تشیع اختیار کیا اور ہمارے ڈیرئے پر علامہ امیر محمد ہاشمی صاحب نے ھی پہلی مجلس عزا کا انعقاد اور خطاب کیا۔

علامہ امیر محمد ہاشمی بھی سلطان العلماء کے درجہ پر فائز تھے ان کے متعلق یہ مشھور ھے کہ آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے گھر میں اسی کمرے میں ھی دفن کیا جائے جسمیں آپ رھتے تھے اور اپنی رفیقہ حیات کو تلقین کی کہ انکی قبر کو تنہاء نہ چھوڑا جائے کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ کہیں بعد از وصال انکے دماغ کو نکال نہ لیا جائے۔

علامہ غضنفر عباس تونسوی کی ولادت میلسی کے قصبہ درہڑوائن میں اسی گھر میں ھوئی جو اب ھم آپ کو دکھا رھے علامہ امیر محمد ہاشمی اسی گھر میں رہائش رکھتے تھے یہ گھر دربار حضرت ساجی محمد کے مشرق کی طرف واقع ھے۔

علامہ غضنفر عباس تونسوی بچپن میں ایک کرتہ پہنے درہڑوائن کی گلیوں میں اکثر بچوں کے ساتھ کھیلتے نظر آتے جب زیارات پر علامہ امیر محمد ہاشمی نجف گئے تو انھوں نے اسی ایک کرتے میں کھیلنے والے بچے کیلئے خصوصی دعا کی کہ مولا اسے اتنا علم دے کہ میری جگہ لے سکے ۔

تو مولا علی ع نے دعا قبول فرمائی اور بغیر کسی مستند مدرسہ و مکتب سے پڑھے بغیر آپ اپنے باپ سے ھی علم حاصل کرتے ھوئے بیک وقت 

علم کلام، علم معانی، علم بیان، علم بدیح،علم صرف، علم نحو، علم حدیث،علم فقہ، علم اصول، علم الرجال،علم ابدان،علم نفسیات،علم الاابجد، علم تفسیر سمیت

عربی فارسی ،اردو،سرائیکی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ کمال کے حافظہ کے مالک تھے علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی شہنشاہ خطابت تھے ان کی یہ پہچان تھی کہ ایک دفعہ پڑھی مجلس کو دوسری جگہ نھیں دھراتے تھے ہر مجلس انکی ایک نئی مجلس ھوتی۔برصغیر کے واحد زاکر امام علی علیہ السلام تھے جنھوں نے کبھی نعرہ و صلوات پڑھنے یعنی داد پر اصرار نھیں کیا بلکہ داد انکے جملوں کی تلاش میں رھتی تھی ۔

قبلہ سلطان العلماء تقریبا ساٹھ سال تک زینت منبر رھے ۔

علامہ امیر محمد ہاشمی نے بیس برس میں خطابت شروع کی جبکہ علامہ غضنفر عباس ہاشمی نےسولا سال کی عمر میں خطابت شروع کی۔اپ نے ممعرفت، فضائل و مصائب اھلبیت ع پر تقریباً دس ھزار سے زاید مجالس عزا سے خطاب کیا۔

  توحید العارفیین ۔۔ حقیقت محمدیہ 

حروف مقطعات حقیقت تسبیح حقیت بیت اللہ اسرار خاک شفاء لعاب محمد ذوالفقار اور خاص طور پر بتیس سال مسلسل معرفت امام زمانہ علیہ السلام اور چہاردہ معصومین کی عظمت و فضیلت پر لا تعداد خطبات بیان کیئے ۔ان موضوعات پر مجالسِ اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ھیں۔ 


قرآن مجید ،نہج البلاغہ سمیت سیکڑوں احادیث و روایات کے حافظ بھی تھے۔۔جذباتی استیصال کرتے ہوٸے مجمعے پہ گرفت کر کے داد لینے میں کوٸی خطیب اُن کا ہم پلہ نہ تھا۔۔

وہ اپنے وقت کے ایسے خطیب تھے جب تک زندہ رھے منبر حسین ع پر اپنی برتری برقرار رکھی۔ اپنی مجالس میں مجع پر مضبوط گرفت رکھتے۔

آپ تقریبا اسی سال کے قریب عمر کے باوجود بھی جوانی کا حافظہ رکھتے تھے عربی کے بھت طولانی خطبے بھی مادری زبان کی طرح روانی سے پڑھتے تھے۔ ان کا انداز خطابت و ادائیں کمال کی تھیں۔

انھوں نے میدان علم و انداز خطابت میں کسی بھی عالم کو آگے نھیں بڑھنے دیا مجمع کو فورا سمیٹ لیتے تھے ھند و پاک میں ہزاروں لوگ ان کے عقیدت گزار اور بڑئے بڑئے عالم دین ان کے باکمال علم کے معترف تھے۔

خطابت کے اوائل سے لے کر موت تک انکی مقبولیت میں کمی نھیں پائی۔جہاں بھی جاتے دور دراز سے لوگ انکی مجالس سننے کیلئے آتے تھےپاکستان ،ھںدوستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں اپنے علم و معرفت کے جوہر بکھیرئے۔ 

علامہ غضنفر عباس تونسوی  

 بھت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں الغیب،حروف مقطعات،حقیقت تسبیح،طریق العرفان الی صاحب الزمان، ولایتِ و شرک،اسرار کبریہ،لعاب محمد، شامل ھیں۔

آپ برصغیر ایشیا میں بہت زیادہ مقبول تھے

ان کی تحقیق مختلف شعبوں میں لا محدود تھی یعنی بیک وقت ،

عربی،فارسی،گرائمر سمیت ،ادب ثقافت مذہب فلسفہ، منطق، سائینسی و روحانی علوم پر مکمل عبور تھا۔ وہ سلطان العلما اکیڈمی بہاولپور پاکستان کے سرپرست و بانی تھے۔ وہ اپنے انداز کے پاکستان میں تشیع مذھب کے ہر دلعزیز اور بلند پایہ مقرر تھے ۔

انکےچھاردہ معصومین علیہم السلام سمیت

 اسلام کے ہر موضوع پر پندرہ ہزار سے زائد خطبات و مجالس ھیں۔

انھیں ابو الفصاحت،اور سلطان العلماء کے اعزازات سمیت حیدرآباد سندھ اور لاھور کربلا گامے شاہ میں سونے کے تاج و تمغات سے بھی نوازا گیا ۔


  ان پر انیس سو اٹھاسی میں پہلی دفعہ غالی و مشرک ہونے کا الزام لگا۔پاکستان کے کافی امام بارگاہوں کے منتظمین نے انکی مجالس پر پابندی لگا دی ۔

جبکہ انھوں نے کافی مقامات پر عقیدہ غلو سے انکار اور وضاحت بھی فرمائی۔



ان پر الزام تھا کہ آپ علی اللہ کے قائل ھیں اللہ تعالیٰ کو ھی علی ع سمجھتے ھیں ۔

جبکہ اسکی وضاحت انھوں نے انڈیا کے شہر حیدرآباد دکن میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے بھی دھرائی ۔


آپ ولایت علی ع کے بھت بڑئے داعی تھے ۔ان سے نظریات و عقائد کے اختلاف پر علامہ محمد حسین نجفی المعروف 

 ڈھکو صاحب نے کھل کر مخالفت کی ، علامہ غضنفر عباس تونسوی کی سرپرستی میں صابر شاہ بہل مرحوم سمیت اس وقت کے نامور زاکرین نے علامہ محمد حسین نجفی صاحب پر دوران مجالس عزا میں کھلم کھلا لعنت کرواتے تھے۔ جسکا سلسلہ آج تک جاری ھے۔

یہ تو سوشل میڈیا آنے کے بعد لوگوں کو ڈھکو صاحب کے عقیدہ توحید و ولایت سے آگاہی ھوئی۔

خود علامہ غضنفر عباس تونسوی بھی ڈھکو صاحب کی مخالفت اور مناظرے کے چیلنج کرتے رھتے تھے ۔

وہ اپنے ایک خطاب میں کچھ اس طرح زکر کرتے ھیں۔

علامہ غضنفر عباس فروع دین پر مجالس امام حسین علیہ السلام کو ترجیح دیتے تھے۔زنجیر زنی اور شھادت ثالثہ کا برصغیر میں آغاز اور خوب دفاع اور پرچار کرتے۔

اپنے ایک خطاب میں نماز کے متعلق کچھ اس طرح بیان کیا کہ عزاداری کو روک کر نماز پڑھنا سنت یزید ھے۔


اپنے ایک خطاب میں فروع دین کے متعلق اور فضائلِ مولا علی ع کو بیان کرکے سادہ لوگوں کے دلوں میں ابہام پیدا کیا۔

مولا علی ع کے فضائل کو توحید پر کچھ اس طرح پیش کیا 



علامہ غضنفر عباس تونسوی شاعری میں بھی بھت عروج رکھتے تھے ایک مقام پر حضرت غازی عباس کی شان میں بیان فرماتے 

بلکہ آخری سالوں میں انکے ھر خطاب میں انھیں عقائد کے پرچار کو فوکس کیا گیا۔

بغیر شہادت کے پڑھی جانے والی نماز کو باطل قرار دیتے تھے

ان کی اکثر مجالس و خطاب میں ولایت علی ع کو ہر واجب و اوجب عمل کا اہم حصہ قرار دیتے تھے جبکہ مخالفین سمجھتے تھے کہ آپ مقام توحید کو مسخ اور تقصیر پہنچا رھے ھیں ۔

کائینات کے نظام کی روانی کو آل محمد کے کنٹرول و طابع سمجھتے تھے۔کافی مقامات پر اللہ تعالیٰ کو اھلبیت علیھم السلام میں مجسوم ھے کے عقیدہ حلول کا اظہار کیا ۔ وہ برملا فرماتے تھے کہ اس کائینات کا نظام یھی پانچ مقدس بستیاں چلا رھی ھیں ۔

ولایت تکوینی عقیدہ کے قائل اور ایمان کا حصہ اور 

مولا علی علیہ السلام کی محبت ھی کو نماز کا خشوع و خضوع ھونا سمجھتے تھے

ان کے واضح عقاید کی کچھ ویڈیو کلپ آپ ھماری ویڈیو میں دیکھ سکتے ھیں۔

https://youtube.com/@shiafigure

علامہ غضنفر عباس تونسوی کے شاگردوں میں ان کے ،بیٹے نعلین غضنفر ھاشمی اور بیٹی جو اپنے باپ کے انداز میں مجالس عزا پڑھتی ھیں اور بھانجے ،نیاز عباس ہاشمی اور ناصر سبطین ھاشمی شامل ھیں۔

نعلین غضنفر عباس ہاشمی ملتان اور لاھور میں بھی مجالس عزا پڑھ رھے ھیں۔

  علامہ ناصر نے حوزہ علمیہ قم، حوزہ علمیہ مشہد مقدس، ایران سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اب وہ پاکستان میں اپنی مخصوص تقریروں کی مہارت کی وجہ سے مقبول ہیں۔ اور کافی کتابیں بھی لکھ چکے ھیں۔

اتنا بڑا عالم ربانی اتنا بڑا خطیب اتنا بڑا فصاحت و بلاغت والا مقرر اتنا بڑا عامل و کامل اتنا بڑا انسان اتنا بڑئے غیر معمولی حافظے کا مالک اتنا بڑا نام اتنا بڑا عارف علوم آل محمد اتنا بڑا ذاکر حسین ابن علی ع کہاں سے لاۓ گی دنیا ۔

عقائد پر لاکھ اختلاف سہی مگر ھم انکے علم،و معرفت اھلبیت علیھم السلام اور سلیس خطابت، فصاحت و بلاغت کے قائل ھیں

علامہ غضنفر عباس تونسوی صاحب خطابت کی ایک دانشگاہ کا درجہ رکھتے تھے آپ انکے عقیدے سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن آپ انکے طریقہ خطابت اور سلیس انداز بیان سے اگر مطمئن نہیں ہیں تو پھر آپکا علم و ادب کے ساتھ دور تک کا واسطہ نہیں ۔میں نے بچپن سے آج تک ان کی لاتعداد مجالس سماعت کیں ۔

میں نے انھیں اپنے شہر میلسی سمیت ، علامہ صاحب کا جائے ولادت قصبہ درہڑواین،اور موضع شاہ ستار سمیت دوران تحصیل علم بہاولپور،اور دوران ملازمت لاھور میں۔ بخآری ہاؤس قذافی اسٹیڈیم،شاکر رضوی پانڈوسٹریٹ ،کربلا گامے شاہ سمیت محمدی مسجد گلبرگ انکی کافی مجالس خوب سنیں مگر کبھی دوسری مجلس سے مماثلت نھیں پائی یہی وہ چیز تھی جو انہیں دوسرے زاکرین و علماء سے یکسر ممتاز کرتی ھے۔

سات دسمبر دو ھزار بائیس بروز بدھ کو دل،گردوں اور شوگر کی تکلیف کے باعث فصاحت و بلاغت،علم و عرفان کا یہ سورج معارف اھلبیت ع کے لاتعداد اسرار و رموز اپنے قلب میں لئیے ھمیشہ ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سو گیا۔

اللہ تعالیٰ علامہ غضنفر عباس تونسوی قبلہ کی روح کوسکون عطا کرے اور امام زمانہ ع کے قدموں میں جگہ عطا کرے آمین

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے حالات زندگی پر ھماری ویڈیو آپ ھمارئے چینل 

Shia Figure 

پر دیکھ سکتے ھیں ۔

https://youtube.com/@shiafigure




قائد آعظم محمد علی جناح شیعہ تھے یا سنی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن

ناضرین کرام اسلام علیکم 

  آج بات کریں گے بانی پاکستان محمد علی جناح کے مسلک پر جو شروع سے ھی اختلاف کا باعث رھا ھے ،

کیونکہ اگر محمد علی جناح کسی مسلک کی واضح نمائیندگی کرتے ھوئے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کی جدوجہد کرتے تو پھر یہ قطعاً ممکن نھیں تھا کہ تمام مسلک کے لوگ متحد ھو کر اس کوشش میں شامل ھوتے۔ یہ قائد اعظم کی دانشمندی اور دور اندیشی کا نتیجہ ھے کہ تمام فرقوں کے مسلمان ایک غیر مذھبی و لسانی آزاد خیال نوجوان کی قیادت میں متحد ھو کر تحریک پاکستان کا حصہ بنے۔ اس سچ کو قبول کرنے میں آخر قباحت کیا ھے ۔

 قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار دنیا کے ان نیک اور صالح شیعہ مقتدر شخصیات میں ھوتا ھے جو اپنے اچھے کردار اور کارہائے نمایاں کی وجہ سے دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ھیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح صرف ایک سیاستدان نھیں بلکہ ایک اصول پسند ،باکردار،خود دار کراماتی شخصیت کے مالک تھے مگر افسوس ان کے متعلق بھت سے حقائق جیسے عقائد و نظریات کو تعصب و عداوت کی وجہ سے ھمیشہ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔

حالنکہ حقائق چھپانے سے بھت سے سوالات نے جنم لیا ایک نقصان یہ بھی ھوا کہ 

  ملک میں فکری تضادات و چہ مگوئیاں نے جنم لیا ویسے بھی قیام پاکستان کو ستر برس ہوگئے ہیں۔ اس لیے بہت سے معاملات اور متبادل معلومات کو اب منظر عام پر آجانا چاہیے، تاکہ عوام کے ذہنوں میں جومختلف قسم کے شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں، وہ دورہوسکیں

 جیسے اندرون سندھ کے تعلیمی اداروں میں یہ پڑھایا جاتا ھے کہ قائد اعظم کراچی نھیں بلکہ سندھ کے شھر ٹھٹھہ کے گاؤں جھرک میں پیدا ھوئے ان کے والدین کی قبور جو کراچی کے علاقے لی مارکیٹ کے اسماعیلی قبرستان میں واقع ھیں آج تک کسی کو معلوم نھیں۔

اسی طرح قاید اعظم کے عقیدہ کو بھی ہر ممکن چھپانے کی کوشش کی گئی۔شیعہ دشمنی کی وجہ سے دنیائے اسلام کی ایک بڑی مملکت کو وجود میں لانے والے قائد اعظم محمد علی جناح کے واضح مسلک کو بھی اسلام اور شیعہ دشمن قوتوں نے ھمیشہ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جو تحریک پاکستان کے وقت قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے تھے آج اسے اھلسنت دیوبندی ثابت کرنے پر تلے ھیں صرف ستر برس پہلے ایک عام نھیں بلکہ قائد عوام کے مسلک کو لوگ جاننے سے کیسے قاصر ھوئے آج ھم اس پر مکمل ثبوت اور ناقابل حقائق سے پردہ چاک کریں گے،مگر اس سے پہلے اگر آپ نے ابھی تک ہمارے چینل شیعہ فگر کو سبسکرائب نھیں تو سبسکرائب کرلیں تاکہ ھماری اس طرح کی شیعہ مقتدر شخصیات کے حالات زندگی پر ڈاکومنٹریز بنا کسی الجھن کے آپ تک پہنچ سکیں۔،

ناضرین کرام 

محمد علی جناح کے والد جناح پونجا گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ جناح کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے۔اُن کے دادا کا نام جناح میگجی تھا،جوکہ کاٹھیاوار کی ریاست گوندل میں بھاٹیا نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ابتدائی طور پر یہ گھرانہ ہجرت کرکے پنجاب کے شہر منٹگمری میں آباد ہوئے جناح کے آباؤ اجداد ساہیوال، پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہندو راجپوت قوم سے تھے جوکہ بعد میں مسلمان ہوگئے۔ جناح کے دیگر بہن بھائیوں میں تین بھائی اور تین بہنیں تھیں، بھائیوں میں احمد علی، بندے علی اور رحمت علی جبکہ بہنوں میں مریم جناح، فاطمہ جناح اور شیریں جناح شامل تھیں۔ 

قائد اعظم کے خاندان والے شیعہ مذہب کی شاخ کھوجہ شیعہ سے تھے لیکن جناح بعد میں شیعہ مذہب کی ہی دوسری شاخ بارہ امامیہ کی جانب مائل ہوگئے۔ ان کی مادری زبان گجراتی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ کچھی، سندھی، اردو اور انگریزی بھی روانی سے بولتے تھے۔

قائد اعظم نے اپنی زندگی میں لاکھوں لوگوں کی قیادت کی ھزاروں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی چھ لاکھ لوگوں نے نماز جنازہ پڑھا ۔وراثت کیلئے سینکڑوں لوگوں نے کیس سنا ،دسیوں افراد نے شیعہ اثنائے عشریہ عقیدہ پر نکاح ھوتے دیکھا اور تقریب نکاح میں شمولیت کی مگر افسوس پھر بھی شیعہ دشمنی کی وجہ سے بضد ھیں کی قائد اعظم اھلسنت تھے۔

قائد اعظم کا ایک بیان حلفی جو انھوں نے اٹھارہ سو نواسی میں بمبئی کی عدالت میں تبدیلی عقیدہ اسماعیلی سے اثنائے عشریہ جمع کروایا وہ بیان حلفی آج بھی موجود ھے 

جس پر علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط موجود ہیں۔

اسی طرح مشھور صنعتکار ٹاٹا گروپ کے ڈنشا پٹیٹ کی پارسی بیٹی رتی بائی سے شادی کرتے وقت جو نکاح ھوا وہ مذھب اثنائے عشریہ شیعہ کے عقیدہ پر مولانا عباس نجفی صاحب سے پڑھایا۔

اس بیان حلفی پر بھی علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط ہیں۔یہ نکاح نامہ آج بھی بمبئی ہائیکورٹ کے آرکائیو میں موجود ہے

قائد اعظم کی وفات کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے کوشش کی کہ قائد اعظم کے عقیدہ تشیع کو چھپایا جائے لہذا آخری فیصلہ یہی ہوا کہ قائد اعظم کی عوامی اور سرکاری سطح پرنماز جنازہ سنی عقیدہ کے مطابق ادا ہوگی۔ اور مولانا شبیر احمد عثمانی نماز جنازہ پڑھایئں گے- جب محترمہ فاطمہ جناح کو اس سنگین چالاکی کا علم ھوا تو انھوں نے جلدی سے اپنی بہن شیریں بائی کو قائد اعظم کے قریبی شیعہ دوست راجہ صاحب آف محمود آباد کے پاس بھیجا اور قائد اعظم کی اس وصیت کےبارے بتایا کہ ان کی آخری رسومات پہلے شیعہ عقیدے کے مطابق ادا ہونگی اس پر راجہ صاحب مولانا انیس الحسنین رضوی کے گھر خود آئے اور انہیں ساتھ لیکر گورنر جنرل ہاؤس پہنچے جہاں فاطمہ جناح نے بیگم نصرت عبداللہ ہارون، شیریں بائی اور راجہ صاحب کی موجودگی میں قائد اعظم کی وصیت کے مطابق غسل و کفن شیعہ عقیدے کے مطابق انجام دینے کا کہا-

اس واقعہ کے آنکھوں دیکھے گواہ سید انیس الحسنین رضوی کے فرزند بھی ھیں اس وقت انکی عمر تقریباً دس برس تھی آخر میں ھم انکا ویڈیو بیان بھی سنائیں گے جو اج بھی زندہ ھیں

محمد علی جناح کی وفات کے چار دن بعد مولانا سید انیس الحسنین رضوی نے صغیر حسن نقوی کے نام گیارہ ،بارہ ستمبر کی درمیانی رات کو جو خط لکھا اس میں بھی اس سارے ماجرہ کا زکر کیا۔

  کھارادر کے مرکزی امام بارگاہ سے شیعہ غسل و کفن دینے والے حاجی ہدایت اللہ عرف حاجی کلو مرحوم نے خوجہ برادری کے صدر سیٹھ رحیم چھاگلہ اور سیکرٹری غلام رسول ،شبیر حسن اورناظم حسین کی مدد سےقائد اعظم کو غسل و کفن دیا اور قائد اعظم کی نماز جنازہ قائد اعظم کے کمرہ میں نماز فجر کے بعد مولانا انیس الحسنین رضوی نے پڑھائی جس میں کراچی کے اس وقت کے حاضر ایڈمنسٹریٹر ہاشم رضا، کراچی کے انسپکٹر جنرل پولیس سید کاظم رضا، سندھ کے وزیراعلیٰ یوسف ہارون، آفتاب علوی، سیٹھ رحیم چھاگلہ ،غلام رسول ،حاجی کلو اور کھارادر جماعت کے عمائدین سمیت ایک ھزار سے زائد شیعہ مقتدر افراد نے شرکت کی- مگر اس وقت کے میڈیا کو شیعہ نماز جنازہ کی کوریج سے منع دیا گیا- اور ساتھ ھی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کو سختی سے خبردار کیا گیا کہ اس کا ذکر قطعا نہ کیا جائے - شیعہ جنازہ کے وقت کمرئے سے باہر کھڑئے لیاقت علی خان نے بھی اسکی گواہی دی۔

جب قائد اعظم کی شیعہ نماز جنازہ ادا کردی گئی تو جنازہ عوامی نماز جنازہ کے لئے گھر سے اٹھایا گیا ابھی چوکھٹ سے باہر نہیں نکلا تھا کہ محمّد علی جناح کی بہن فاطمہ کو اچانک اپنے بھائی کی مذھبی عقیدت کا خیال آیا کیونکہ محمد علی جناح اکثر مجالس و عزاداری میں شرکت کرتے رھتے تھے۔ جلدی سے جنازہ روکا گیا اور محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے نماز پڑھنے کے کمرے یعنی کے چھوٹی امامبارگاہ کی دیوار پر لگے علم مولا غازی عباس علمدار کو لا کر خوجہ اثنا عشریہ جماعت کے ماتمی و رضاکاروں کے حوالے کر دیا گیا کہ میرے بھائی کا جنازہ انھیں علم غازی عباس ع کے سائے میں جائیگا اور دفن بھی علم پاک کے سائے میں ھی کیا جائے گا ۔

علم دیکھ کر اھلبیت علیھم السلام کے دشمن ناصبیوں کو یہ برداشت نہ ھوا اور شور شرابا برپا کر دیا کہ ہم ایسا نھیں ھونے دیں گے اور پوری جدوجہد کی کہ علم کسی طرح ساتھ نہ جائیں یہ بہانہ بنایا گیا کہ قائد کے میت کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹا گیا ہے یہی کافی ہے اس پر محترمہ فاطمہ جناح اور ان کی شیعہ ہوجانے والی چھوٹی بہن محترمہ شیریں بائی نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ایسا ہے تو جنازہ تو ہو چکا اب قائد اعظم کو اسی گھر میں ھی دفن کردیا جائے۔ناصبی کڑوا گھونٹ بھرتے ھوئے خاموش ہو گئے۔ اور علم حضرت غازی عباس علمدار کے سائے میں قائد کے جسد خاکی کو لے جایا گیا مگر پھر بھی محترمہ فاطمہ جناح شیریں بائی اور دیگر خاندان کے شکوک وشبہات موجود تھے اس لیے ان خواتین نے بھی تدفین میں شامل ہونے کا ارادہ کیا،صبح ھوتے ھی شیعہ سنی مسلمان آمڈ پڑئے اور قائد کے جسد خاکی کی توپ گاڑی کے آگے اور پیچھے بہت سارے علم نظر آنے لگے یہاں تک کہ ماتمی جوان بھی ماتم کرتے چلنے لگے جن میں سب سے نمایاں خوجہ برادری کا ماتمی حلقہ تھا جنھیں پولیس نے روکنے کی کوشش کی مگر کھارادر کے رضاکاروں کی مداخلت اور فاطمہ جناح کے ساتھ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ کو کامیابی نہ ھو سکی

جب قائد کا جنازہ کھارادر کے قریب سے گزرا قائد کی گاڑی کو کھارادر میں ان کے والد کے ہاتھوں نصب شدہ علم کے پاس لے جایا گیا جو قائد کی ولادت پر منت کے طور پر پونجا جناح نے لگایا تھا-یہاں فاطمہ جناح صدمے سے نڈھال و غمزدہ نظر آئیں- جب جنازہ گاہ پہنچے تو میدان یا حسین یا علی ع کی صداؤں،نعروں کے ساتھ ساتھ ماتم سے بھی گونج رہا تھا۔ جس پر مولوی شبیر احمد عثمانی نے خاصی ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور انتظامیہ سے بار بار ان افراد کو خاموش کروانے کا کہتے بھی رھے۔الغرض چھ لاکھ کے قریب لوگوں نے علامہ شبیر احمد عثمانی کی اقتداء میں اھلسنت طریقہ پر دوبارہ نماز جنازہ ادا کی۔’قائداعظم کے دفن کے بعد مولوی سید غلام علی احسن مشہدی اکبر آبادی نے شیعہ طریقہ پر تلقین پڑھی اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی تدفین مکمل ھوئی جنازہ کے ساتھ علم مولا غازی عباس کا ھونا ٹھوس ثبوت ھے کیا کبھی کسی اھلسنت کا جنازہ اس طرح ھوا ھے یہ میرا سوال ھے۔ قیامت تک گزرئے یا ھونے والے اھلسنت کے جنازہ کا ایسا منظر دکھا دیں۔چیلنج چیلنج ھی رھے گا۔

اسی طرح محترمہ فاطمہ جناح کا جب انتقال ہوا، تو ان کی میت کو غسل بھی سابق طالب علم رہنماعلی مختار رضوی مرحوم کی ہمشیرہ نے دیا۔ ان کی پہلی نماز جنازہ شیعہ عقیدے کے مطابق گھر کے لان میں ادا کی گئی تھی،

اس بات کی تصدیق مجھے انیس سو چھیانوے میں میرئے ایک بنگالی دوست بشیر احمد بنگالی نے بھی کی جنھوں نے سات سال تک محترمہ فاطمہ جناح کے ہاں بطور خانساماں کام کیا۔


درج بالاواقعات میں ایسی کون سی بات ہے جو راز میں رکھنی چاھیئے بس یہ تشیع سے دشمنی و نفرت کی وجہ ھے کہ ایک شیعہ مسلمان کی سرپرستی میں دنیا کی ایک بڑی مسلمان مملکت وجود میں کیسے آ ئی۔ قائد اعظم پر برصغیر کے مسلمان اعتماد کرتے تھے، اس لیے وہ ان کی قیادت میں جمع تھے۔ جب وہ اسماعیلی عقیدے سے وابستہ تھے،اس وقت بھی ان کی ذات پر بھارتی مسلمانوں کو اعتماد تھا، جب وہ بارہ امامیہ شیعہ ہوگئے، تب بھی ان کی مقبولیت و چاھت  میں کوئی کمی نہ آئی۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے سربراہ سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا تھے۔ ان کے بعد محمد علی خان آف محمود آباد صدر بنے، جو پہلے سیکریٹری جنرل رہ چکے تھے۔ ان کا تعلق بھی  شیعہ اثنائے عشریہ فرقہ سے تھا۔ اس کے بعد قائد اعظم نے یہ عہدہ سنبھالا وہ بھی شیعہ تھےاور مرتے دم تک اس عہدے پر قائم رہے۔

دراصل عام شہری اپنے رہنماکی مسلکی وابستگی سے زیادہ اس کے کردار کو اہمیت دیتے ہیں۔

ویسے بھی سیاسی لوگ سیاست میں  مسلک کا اظہار نھیں کرتے ۔ مسلک کے دخل سے مقبولیت و اھمیت میں فرق پڑتا ھے۔

آج بھی ہم غور کریں تو پاکستانی شیعہ خاندان سیاست پر چھائے ھیں پر وہ اپنے مسلک کو فوقیت نھیں دیتے کیونکہ سب کو ملا کر چلنا ھوتا ھے۔

اسی وجہ سے کویٹہ میں شیعہ علماء کے وفد نے جب یہ اصرار کیا کہ آپ تو ہمارے شیعہ ھیں قائد اعظم نے جھٹ جواب دیا نو آئی ایم آئے مسلم ۔ ۔قائد اعظم  مسلمانوں میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے ہر گروہ و نسل کے لوگ انھیں چاھتے تھے۔۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور  ہے کہ اس زمانے کے برٹش انڈیا میں ایک سے بڑھ کر ایک معتبر معروف عالم دین موجود تھے۔ مگر ان کی شناخت کسی نہ کسی مخصوص عقیدے یا مسلک سے ضرور تھی۔ اس لیے اپنی تمام تر علمی برتری اور سیاسی بصیرت و شناسی کے باوجود یہ علماء مسلمانوں کی مشترکہ رہنمائی کے لیے قابل قبول نہ تھے، جب کہ قائد اعظم جدید انداز زندگی اور مقامی زبانوں سے ناآشنائی کے باوجود بھی کراچی سے ٹامل ناڈو،چٹاگانگ سے ، بولان تک اور خیبر سے راس کماری تک مسلمانوں کے واحد مقبول ترین رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

اکیس رمضان المبارک کو برِصغیر میں حضرت علی ع کی شہادت کی مناسبت سے یومِ علی کے طور پر سوگ کا دن سمجھا جاتا ہے۔ 1944ء میں مہاتما گاندھی قائدِ اعظم سے مذاکرات کرنے بمبئی آئے  تو قائد نے 7 ستمبر کو حضرت علی کے یومِ شہادت کی وجہ سے ملاقات سے انکار کیا اور مذاکرات نو

 ستمبر سے شروع ہوئے۔ اس بات پر لکھنؤ میں مجلسِ احرار کے ایک چوٹی کے لیڈر مولانا ظفر الملک بھڑک اٹھے اور قائدِ اعظم کو کھلا خط لکھ کر کہا:

“مسلمانوں کا اکیس رمضان سے کوئی تعلق نہیں یہ خالص یوم شیعہ ہے۔ اسلام اس طرح کے تہوار پر کسی قسم کے سوگ و حزن کی اجازت نہیں دیتا۔ درحقیقت اسلام کی روح اس قسم کے یہودی تصورات و نظریات کے بالکل خلاف ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ خوجہ شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن آپ کو مسلمانوں پر ایک شیعہ عقیدہ تھوپنے کا کوئی حق نہیں۔

قائدِ اعظم نے اس خط کے جواب میں لکھا:

“یہ شیعہ عقیدے کی نہیں۔ حضرت علی ؑچوتھے خلیفہ بھی تھے۔ اور میں جانتا ہوں کہ حقیقت میں اکیس رمضان کا دن تمام مسلمان، شیعہ،سنی اختلاف سے بالاتر ہوکر، مناتے ہیں۔مجھے آپ کے رویہ پر حیرانگی ہوئی ہے

 مسلمانوں کے ساتھ اکثر ھندو بھی عقیدت رکھتے ھوئے غم مناتے ھیں ثبوت کے طور پر ایک ھندو بازار میں کس طرح سب کو یاد دھانی کروا رھا ھے مسلمانوں آج یوم شھادت مولا علی ع ھے ویڈیو دیکھیں ۔ 

قائدِ اعظم، ابوالحسن اصفہانی اور راجہ صاحب محمود آباد جیسے رہنماؤں کے شیعہ ہونے کی وجہ سے مجلسِ احرار اور جمعیت علمائے ہند نے مسلم لیگ کے خلاف مہم چلائی حالانکہ مسلم لیگ میں اکثریت سنی لوگوں کی تھی۔ قائدِ اعظم کی مرحومہ زوجہ رتی جناح، جنھوں نے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور جن کی وفات کے بعد ان کو شیعہ طریقے سے بمبئی کے خوجہ اثنا عشریہ قبرستان میں دفن کیا گیا تھا،  

بعد میں مولانا حسین مدنی نے شوشہ چھوڑا کہ وہ غیر مسلم تھیں۔

ان علما  کی یہ حرکتیں نا صرف اخلاقی،مذھبی لحاظ سے گھری ہوئی تھیں بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی جاھلانہ تھیں۔ ۔ عوام جتنے بھی سادہ ہوں، ان کی چھٹی حس انھیں ایسے لوگوں کو رہنما بنانے سے روکتی ہے جو ان کے اصلی مسائل پر بات کرنے کے بجائے اس قسم کی گھٹیا و اختلافی حرکتیں کرتے ہوں۔ بہرحال اس کے جواب میں مسلم لیگ نے محترمہ رتی جناح ؒکے قبولِ اسلام  کے ثبوت شائع کیے اور وہ نکاح نامہ پیش کیا جس میں ان کا مذہب اثنا عشریہ مسلمان ظاہر کیا گیا تھا۔جو اپ سکرین پر دیکھ رھے ھیں۔ حالانکہ اس وقت  خود کانگریس اور جمعیت  کے کئی مسلم ممبران و راہنماؤں نے ہندو خواتین سے شادیاں کر رکھی تھیں۔ مثال کے طور پر جمعیت علمائے ہند کے رکن بیرسٹر آصف علی نے بنگالی ہندو خاتون، محترمہ ارونا، سے سول میرج ایکٹ کے تحت شادی کر رکھی تھی

جو کبھی بھی کلمہ نہ پڑھا تھا ۔ باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے بھی ایک انگریز خاتون  سے شادی کر رکھی تھی اور ان کی بیٹی نے ایک سکھ لڑکے سے سول میرج 

ایکٹ کے تحت  شادی کی تھی۔

بانی پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو رجل ِ فاجر (گنہگار انسان) کہنے والےجماعت اسلامی کے مودودی صاحب  اور کافر اعظم کہنے والے جماعت احرار کے مظہر علی اظہر بھی اھلسنت دیوبندی 

 تھے۔

فتویٰ میں یہ واضح لکھا کہ مسٹر جناح  ایک شیعہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور شیعہ اسلام سے خارج ہیں ۔ (کفایت المفتی جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 401 دارالاشاعت کراچی  میں دیکھ سکتے ھیں۔

 یہ لوگ پاکستان کو پلیدستان اور ایک بازاری عورت کہتے تھے اور تحریک پاکستان کےلیئے تحریک چلانے والوں اور انہیں ووٹ دینے والوں کو سور (یعنی خنزیر) کہتے تھے ۔افسوس یہ ھے کہ  آج یہی لوگ پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور قائد اعظم کو اھلسنت ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ اہلِ وطن انہیں پہچانیئے اور پاکستان کو دشمنانِ پاکستان سے بچایئے ۔

جماعت الاحرار میں عطا الله شاہ بخاری، حبیب الرحمن لدھیانوی، مظہر علی اظہر سمیت سب انتہا درجہ کے تکفیری دیوبندی فرقہ پرست تھے اور قائد اعظم کے خلاف شدید بغض و نفرت رکھتے تھے، ان منافق تکفیری دیوبندیوں کی حمایت ابو الکلام آزاد اور دار العلوم دیوبند کے حسین احمد مدنی جیسے خوارج کے علاوہ جماعت اسلامی کے مودودی صاحب، موجودہ متحرک سیاستدان مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود صاحب سمیت دیگر سرکردہ اھلسنت  بھی کرتے تھے ۔

ان میں مولانا شبلی نعمانی دیوبندی بھی پیش پیش اور آخر تک کانگریس سے وابستہ رھے جماعت احرار کے

مولانا مظہر علی اظہر دیوبندی نے قائد اعظم کے خلاف کافر اعظم کا فتویٰ دیا۔  اور  اس فتویٰ کو جماعت اسلامی کے ترجمان القران میں حوصلہ افزائی کے ساتھ شائع بھی کیا گیا

مولانا مودودی، “مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش”، 1943

ترجمان القرآن فروری 1946 ص -154-153


یہاں پر میں دیوبندیوں سے  سوال کرتا ھوں   : جب تمہارے مفتی کے فتوے کے مطابق قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ شیعہ مسلک سے تھے تو تمہارا فتویٰ ہے کافر کافر شیعہ کافر جو نہ مانے وہ بھی کافر تو بقول تمہارے علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ پڑھاتو کیا مولانا شبیر احمد عثمانی بھی کافر ھو گئے تھے۔


مفتی محمود دیوبندی نے کہا : ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے (ماھنامہ ترجمان سواد اعظم لاہور اگست  انیس سو نواسی نظریہ پاکستان صفحہِ نمبر سینتیس  کل پاکستان سنی کانفرنس ملتان عبدالحکیم شرف قادری،مکتبہ قادریہ لاہور صفحہ چودہ


کچھ سال قبل جامعہ بنوریہ کے لیٹر پیڈ پر مولویوں کے ایک گروہ نےمفتی نعیم مرحوم کی سربراہی میں قائداعظم سمیت تمام شیعہ مسلمانوں کو کافر اور اسلام سے خارج قرار دینے کا فتویٰ بھی جاری کیا تھا

سپاہ صحابہ نے تاریخ شیعت نامی کتاب لکھی اس میں بھی قائد اعظم کو شیعہ بارہ امامی لکھا اور ثابت کیا ھے۔

مفتی محمود صاحب کے حوالہ سے فتاویٰ محمودیہ میں مولانا فضل الرحمان نے  کتاب جلد نمبر تھری میں بطور پیش لفظ یہ لکھا کہ قاید اعظم شیعہ تھے اور مفتی شبیر عثمانی صاحب نے جنازہ پڑھایا۔ ساتھ یہ بھی لکھا کہ مولانا شبیر عثمانی نے غلط کیا انھیں دیوبندی قیادت و امامت سے ہٹا دینا چاھیئے تھا۔


کتاب کا نام قائد اعظم کا مسلک مصنف صابر حسین اور دوسری کتاب کا نام قائد اعظم کا مذھب و عقیدہ مصنف منشی عبد الرحمن یہ بھی دیوبندیوں نے لکھی اور یھاں بھی قائد اعظم کا مسلک شیعہ بارہ امامیہ لکھا ھے ۔

جناح آف پاکستان اس کے مصنف  سٹنلے والپرٹ انھوں نے پیج چھتیس پر واضح لکھا ھے کہ قائد اعظم اسماعیلی فرقہ سے بارہ امامیہ شیعہ قبول کیا۔

اب کتاب ھے جناح انڈین پارٹیشن انڈپنڈنس 

سابق وزیر خارجہ ھندوستان جسونت سنگھ اس میں قائد اعظم کا مسلک خوجہ شیعہ اثنائے عشریہ لکھا ھے۔

دیوبندی عالم کی کتاب کفائت المدنی صفحہ تین سو پچانوے پر بھی قائد اعظم کا مسلک شیعہ پر ھونا یقینی لکھا ھے بلکہ اس پر خاصی لمبی بحث بھی کی گئی ھے۔

ایک اور کتاب ھے سیکٹیرین وار میں جو خالد احمد نے لکھی اس کے صفحہ اٹھارہ پر بھی قائد اعظم کے مذھب اور تدفین اور نماز جنازہ سید انیس الحسنین رضوی کی امامت پر ھونے کا مکمل واقعہ 

اور میراث پر بھی شیریں جناح نے  فاطمہ جناح کی وفات کے بعد انیس سو اڑسٹھ میں عدالت میں جو ثبوت دیے کہ قاید اعظم کا عقیدہ شیعہ اثنائے عشریہ تھا اسکی گواھی قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر مطلوب حسن سید جو انیس سو چالیس سے انیس چوالیس تک رھے نے بھی دی۔

اب ھم کچھ ویڈیو ثبوت پیش کرتے ھیں وہ بھی شیعہ علماء نھیں بلکہ اھلسنت کے علماء کی زبانی ۔

اھلسنت مشھور عالم شیخ الاسلام ڈاکٹر طاھر القادری


اھلسنت کے ھی مشھور عالم منظور مینگل اس بارئے کیا کہتے ھیں یہ سنیں۔


ایم کیو ایم کے بانی کی تحقیق کیا کہتی ھے۔یہ سنیں ۔

مولانا انیس الحسنین کے بیٹے حسن رضوی جو اس وقت دس سال کے تھے وہ حقیقت کچھ اس طرح بتاتے ھیں۔


پاکستان کی پارلیمنٹ کے وزیر دفاع خواجہ آصف شیعہ کلنگ پر قاید اعظم کے متعلق کیا کہتے ھیں۔



امید ھے اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد اب یہ سوال بے معنی اور ھٹ دھرمی کے سوا کچھ نھیں  کہ علامہ شبیر احمد عثمانی کے نماز جنازہ پڑھوانے کے باعث قاید اعظم کو اھلسنت بنا دیا جائے ۔اج بھی اگر کوئی سیاسی یا اھم شیعہ زمیندار وفات پاتا ھے تو اس کے دونماز جنازہ ادا کیئے جاتے ھیں  ۔

افسوس جن اھلسنت علماء نے قائد اعظم کو شیعہ کی بنا پر کافر اعظم کہا، وہی لوگ آج اسے اھلسنت ثابت کرنے پر تلے ھیں۔مجھے نھیں امید کہ اتنے ٹھوس ثبوت کے بعد مزید کسی ابہام کی گنجائش باقی ھے۔





شیعہ سائنسدان ابونصرفارابی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تحریر و تحقیق:آغا ایم جے محسن

ناضرین کرام آج ھم بات کریں مذھب حقہ کی عظیم شخصیات کی ڈاکومنٹریز کے عنوان سے شیعہ مذھب کے عظم سائنسدان دنیائے اسلام کا فخر 

 مشھور عالم ابونصرفارابی پر جنھیں معلم ثانی بھی کہا جاتا ھے ترکستان کے شہر فاراب کے گاؤں وسیج میں آٹھ سو بھتر عیسوی اور دو سو اٹھاون ھجری میں پیدا ھوئے آپکی زندگی نہایت غربت میں گزری مگر اس کے باوجود بھی آپ نے اپنی تعلیم جاری رکھی،

جوانی میں آپ بغداد عراق چلے گئے پھر مصر اور شام بھی گئے آپکی نسل پر اختلاف ھے کچھ کہتے ھیں ترک تھے کچھ فارسی تزکرہ کرتے ھیں۔

آپکے والد ایک جرنیل تھے،

ایک دفعہ کا زکر ھے کہ فارابی رات کو پڑھ رھا تھا تو ان کے چراغ کا تیل ختم ہوگیا اور چراغ بجھ گیا اب اتنی غربت و افلاس غالب تھی کہ چراغ کیلئے تیل نہ خرید سکے انھوں نے کتاب پکڑی اور گلی میں گشت کرتے چوکیدار کے لالٹین کی مدد سے بقایا سبق یاد کیا،

دوسرے دن بھی پہرئے دار سے درخواست کی کہ اسے پڑھنے کی سہولت دے مگر چوکیدار نہ مانا جبکہ فارابی نے کہا کہ آپ چلتے رھیں میں آپکے پیچھے لالٹین کی روشنی کی مدد سے اپنا سبق یاد کر لوں گا۔

اس طرح چوکیدار نے تعلیم میں دلچسپی دیکھ کر فارابی کو نیا لالٹین خرید دیا تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔

فارابی کا یہ واقعہ رھتی دنیا تک ھمارئے لیئے بھترین مثال ھے۔

آپ نے مسلسل پچاس سال تک علم کی تحصیل میں گزار دئیے

سب سے پہلے

زبان،گرائمر،اور میٹرکس پر توجہ دی، ارسطو کے بعد فارابی کا بھت زیادہ احترام کیا جاتا ھے۔

انھوں نے ایک مسیحی استاد ماھر طب یوحنا بن حیان سے بھی علم حاصل کیا بعد میں سیف الدولہ کے پاس پہنچ کر دربار سے وابستہ ھوگئے۔ فارابی علم طب،فلسفہ،ریاصی،موسیقی،منطق،عمرانیات،ساسیات اور طبیعیات،سمیت خلا کے وجود پر بھت تحقیقات کیں انھیں ارسطو کے بعد دوسرا بڑا فلسفی تصور کیا جاتا ھے۔ فارابی صرف فلسفی یا طبیب نہ تھے بلکہ انھوں نے موسیقی اور سائنسی علوم پر بھی عبور حاصل کیا۔ صوفی ازم پر بھی گہری دلچسپی تھی اور باطنی علم کو ترجیح دیتے تھے۔۔ وہ سینکڑوں کتب کے مصنف تھے انکی کتب میں الموسیقی ،الکبیرہ، معافی العقل اور آرا بھت مشھور ھیں

فارابی اپنے وقت کے عمدہ شاعر بھی تھے انکی ایک طویل دعاء جنھیں بعض مورخین نے بھی زکر کیا ھے۔ بھت مشھور ھے،

فارابی پہلے منطق دان تھے ابو بشر بن یونس نے انھیں اس طرف متوجہ کیا۔

فارابی کو اسلامی دنیا میں فلسفہ کا بانی تصور کیا جاتاھے مگر اس وقت کے الکندی،الرازی بھی موجود تھے مگر فارابی کو ان پر فوقیث دی جاتی تھی۔

یونانی زبان اور فکر میں دلچسپی کی وجہ سے انھوں نے بازنطیم میں بھی تعلیم حاصل کی،اجکل فارابی کے متعلق اس بات پر بحث کی جاتی ھے کہ وہ کس علم میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے تو معلوم ھوتا ھے سیاست پر انکی گہری نظر تھی کیونکہ محسن مھدی اور چارلس بٹرورتھ نے انکی جن کتابوں کے زیادہ ترجمے کیئے وہ اسی موضوع پر ھیں انکی یہ کتب انگلش میں وافر مقدار میں آسانی سے دستیاب ھیں۔

فارابی نے دوسرے علوم کے ساتھ اسلامی موضوعات جیسے قانون ،نبوت،فقہ،سیاست ،جاںنشینی پر بھی لکھا فارابی کی تحقیقات چوتھی،پانچویں اور گیارھویں صدی تک مشرق میں پھیل گئیں بعد میں یورپ و مغرب نے خوب استفادہ لیا،یورپ کی کافی زبانوں میں انکی کتب کے تراجم ھوئے استنبول کے کتب خانے میں کافی کتب اس وقت بھی موجود ھیں۔


نبوت کے متعلق فارابی کا عقیدہ تھا کہ اس پر الہام ھونا چاھئے معجزات کو بھی نبوت کی پہچان سمجھتے تھے تمام امام اور اولیاء کرام کو نبوت سے کم درجہ پر رکھتے تھے۔

تفسیر قرآن کے زمن میں کچھ عقاید کو روائیتی سمجھتے ھیں ایسے سامعات جو ناقابل بیان ھیں قیامت،جزا سزا کو ایمان کا لازم جزو سمجھتے تھے۔

اخری زندگی میں بدامنی کی وجہ بیس سال رھنے کے بعد بغداد عراق چھوڑ کر دمشق کے شھر حلب چلے گئے اور ادھر ھی وفات پائی،

فارابی سیف الدولہ کے دربار میں اھم مقام رکھتے ٹھے کیونکہ انکے جنازہ میں خاص طور پر کر شرکت کی

دنیائے اسلام کے عظیم شیعہ سائنسدان ابو نصر فارابی کی وفات نوسوپچاس عیسوی اور ھجری کے تین سو انتالیس سن میں ھوئی۔۔

ان سائنسدانوں کی ویڈیوز آپ ھمارئے چینل 

Shia Figure 

https://youtube.com/@shiafigure

پر دیکھ سکتے ھیں 

 

 

مبلغ اسلام مولانا محمد اسماعیل سابقہ دیوبندی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ناضرین کرام اسلام علیکم

تحریر و تحقیق:آغا ایم جے محسن 

ناضرین کرام دنیائے جہاں کے عظیم شیعہ سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ اس دوسری سیریز میں ھم پیش کر رھے ھیں شیعہ ھونے والے اھلسنت کے علمائے جہاں کے متعلق مکمل اور تازہ ترین معلومات کے ساتھ حالات زندگی پر جنکی بدولت مذھب شیعہ کی مقبولیت و حقانیت میں اضافہ ھوا۔ اور لاکھوں لوگوں نے شیعہ مذہب قبول کیا ۔

مولانا محمد اسماعیل دیوبندی مولانا سلطان علی کے گھر

دسمبر کے مہینے انیس سو ایک میں انڈین ریاست کپور کےضلع جالندھر کے گاؤں سلطان پور میں پیدا ھوئے۔ آپ دیوبندی محمدی کے نام سے مشھور خطیب،معلم، مصنف اور مناظر ھو گزرئے ھیں گل نسل سے تعلق رکھتے تھے اور آپ نے،قران و حدیث اور فقہ کی ابتدائی تعلیم والد کے بعد میثم پور کے مولانا میثم علی میثم پوری سے لی اس کے بعد تیرہ سو نوے ھجری میں دیوبند کے مدرسہ خیر المدارس

جالندھر چلے گئے ، پھر بھی حصول علم و تحقیق کی آتش نہ بجھی تو آپ رائے پور کے دیوبند کے مشھور عالم مولانا فقیر محمد اور محمد علی جالندھری سے خوب استفادہ کیا،

حصول علم کے بعد آپ دیوبندیوں کے بانی مدرسہ دیوبند چلے گئے وھاں آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید انور شاہ کاشمیری اور شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی سے مزید علم حاصل کرنے کے بعد آپ ڈابھیل شھر کا رخ کیا وھاں سے آپ نے مفسر القرآن حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی سے قرآن پاک کی تفسیر پڑھی۔

جب مولانا محمد اسماعیل دیوبندی گوجروی مرحوم نے سمجھا کہ اب آپ مکمل اقسام علوم دینی حاصلِ کر چکے ھیں تو پھر آپ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مسجد اکبری میں خطابت و امامت شروع کر دی ۔

اس دوران ھی مولانا اسماعیل کی قسمت و نصیب کا ستارہ چمکا اور راہ گزرتے ایک شیعہ مومن سے اتفاقاً ملاقات ھو گئی اور مذھبی بحث چل پڑی چونکہ آپ تاریخ اسلام آور قرآن و حدیث پر مکمل عبور رکھتے تھے اس لئیے حقائق کے موتی دماغ میں اثر کرتے گئے بس اسی مومن کی مدلل و ٹھوس گفتگو کا نتیجہ ھی تھا کہ آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔

انھیں دنوں ایک مناظرے کا بھی اہتمام تھا جس میں ایسے جملے و دلائل دئیے کہ فتح حاصل کی لوگ آپکے ھاتھ پاؤں چوم رھے تھے کہ منتظمین میں سے ایک شخص بڑھا اور اصرار کیا کہ ہمارے گاؤں کا ایک بزرگ شیعہ آپ سے ملنا چاھتا ھے آپ نے کہا میں اور شیعہ سے ملوں ممکن نھیں کہ ایک کافر کے ساتھ بیٹھوں پر اصرار کے بعد ملاقات کیلئے تیار ھوئے شیعہ سید بزرگ نے سلام کے بعد معزرت کے ساتھ صرف تین سوالات کے جواب مانگے اور اپنی کم علمی بھی دھرائی۔

مولانا محمد اسماعیل رح نے کہا پوچھو بزرگ سید نے کہا قبلہ میرا آپ سے علمی مقابلہ تو نھیں پر تحمل سے مجھے میرئے تین سوالات کا جواب دے دیں مختصراً ہاں یا ناں میں، سید نے سر جھکا کر سوال کیئے مولانا مجھے یہ بتائیں کیا آخری رسول ص کی وفات کے بعد آنکی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زھرا س کیا خیلفہ اول کے دربار گئیں ۔مولانا صاحب نے تفصیلا جواب دینا چاھ مگر بزرگ سید نے مداخلت کرتے ھوئے کہا نھیں ہاں یا ناں۔

مولانا محمد اسماعیل نے کہا جی گئیں تھیں۔

دوسرا سوال کہ انھوں نے کچھ مانگا تھا 

کہا ہاں،

تیسرا اور آخری سوال جو مانگا وہ ملا یا نھیں۔ مولانا محمد اسماعیل رح نے جواب دیا نھیں، باپ کی وراثت میں سے صرف ایک لوٹا ملا تھا۔

سر جھکائے سید نے جب سر اٹھایا تو آنکی آنکھوں میں آنسو تھے، بزرگ سید نے کہا بس مجھے یھی دریافت کرنا تھا۔

مولانا اسماعیل رح فرماتے ھیں میرئے عقیدہ تبدیلی کا یھی اہم موقع تھا اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

اسی دن سے کھوج میں پڑ گیا اور وہ وقت آ گیا کہ میں نے مسجد اکبری میں اپنے عقیدہ تبدیلی کا بھرئے مجمع میں شیعہ ھونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔

 

اعلان ھوتے ھی ادھر آپکے عزیز و اقربا ۔مدرسہ کے جگری دوست احباب حتی کہ آپکے والد مولانا سلطان علی صاحب نے بھی۔ لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔

جب آدمی حق کی طرف چل نکلتا ھے تو پھر سولی گھاٹ کی طرف بھی ھنستے ھوئے تختہ پر چڑھ جاتا ھے اسی دوران ھی آپ کے دو جوان بیٹے محبوب عالم اور بدر عالم یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے، درد و غم کی اس گھڑی میں آپ تن تنہاء ثابت قدم رھے گھبرائے نھیں اور اپنے کیئے فیصلے پر چٹان کی طرح ڈٹے رھے۔

چونکہ آپ سیاسی طور پر مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے جب عقیدہ بدلہ تو سب کچھ چھوڑ کر تقریریں کرنا شروع کر دیں،

آپ نے خطابت کے وہ جزباتی و علمی جوھر دکھائے کہ آپکو مبلغ اسلام وکیل مذھب حقہ اور عظیم مناظر اسلام کے القابات سے نوازا گیا۔

آپ نے ختم نبوت پر انیس و چوھتر میں قومی اسمبلی کے سیشن کے دوران جب سارے اھلسنت علماء مرزائیوں کو لاجواب کرنے میں ٹھس ھو گئے تو آپ نے چاروں شانے قادیانیوں کو چت کیا۔۔

آپ نے سات سو کے قریب مناظرے کیئے 

 مولانا عبد الستار تونسوی سے جو مناظرہ بہاولپور کے قصبہ کلانچ والا میں ھوا اس میں بندہ ناچیز کے والد محترم بھی موجود تھے ۔یہ مناظرہ باغ فدک کے موضوع پرھوا جو مولانا اسماعیل رح جیت گئے, اس جیت کا اعلان باقاعدہ کمشنر نے کیا تھا اسی طرح قاصی سعیدالرحمان سے بھی مظفر گڑھ میں مناظرہ ھوا جو آپ جیت گئے اور اسی جگہ اسی جگہ قاضی سعید الرحمان صاحب نےشیعہ ھونے کا اعلان بھی کیا، آپکے جن اھلسنت علماء کرام سے مناظرے ھوئے ان میں 

عبد الستار تونسوی،قاضی سعید الرحمان، دوست محمد قریشی،مولانا عبدالعزیز، مولانا عمر اچھروی،مفتی محمد رفیق میانوی،مولانا اکرم شاہ بھیروی ،مولانا افتخار بھگوی،مولانا عبد الستار جھنگوی،مولانا پروفیسر محمد حسین سمیت دسیوں اھلسنت کے اس وقت کے چوٹی کے علماء شاملِ ھیں۔اپ نے گھنگ ضلع لاھور، سنکھترہ ضلع ،سیالکوٹ ،بھاولپور کلانچ والا،باگڑ سرگانہ،ستارہ شاہ ضلع مظفرگڑھ،احسان پور ضلع رحیم یار خان،چک بیالیس چشتیاں،مناظرہ جیہ ضلع گجرات،مناظرہ دو چک زخیرہ، ان شہروں میں خوب مناظرے کیئے اور اپنے علم سے شکست دی،اس طرح آپکو مذھب تشیع کی حقانیت اور بے ھودہ بہتان و الزامات کے متعلق وضاحت دینے کا سنہری موقع بھی ملا۔ اھلسنت سے شیعہ ھونے والے مشہور عالم اور مصنف علامہ عبد الکریم مشتاق نے آپکے متعلق فرمایا تھا کہ کسی ماں نے آج تک ایسا عالم جمیا ھی نھیں جو مولانا محمد اسماعیل رح کے علم و زہانت کے آگے زبان دراز ھو سکے۔

  آپ بارعب شخصیت ، اور گرج دار آواز کے مالک تھے، آپ نے قاضی سعید الرحمان دیوبندی سمیت ھزاروں لوگوں کو شیعہ کیا اور خوب مذھب حقہ کی خدمت کی آپ شیعہ لوگوں سے پرزور اپیل اکثر کیا کرتے تھے کہ آپ بھت خوش نصیب ھیں کہ اھلبیت علیھم السلام کی محبت و اطاعت سے سرشار ھیں اور مذھب حقہ جیسے مذھب پر قائم ھیں۔ 

آپکے والد اہل حدیث عقیدہ کے مشھور عالم دین تھے آپکے والد سلطان علی کا انتقال ایک سو بارہ سال کی عمر میں مولانا اسماعیل کی وفات سے چند سال قبل ھوا،

آپ ھر تقریر و خطاب کے دوران کتابوں کا صندوق ساتھ رکھتے۔ تاکہ مخالفیں کو فوری انھیں کی کتب سے ثبوت فراہم کرسکیں اور انھیں مزید پھڑکنے کی مہلت ھی نہ ملے۔

ایک جگہ بس میں سفر کر رھے تھے کہ راستے میں ایک میلے کچیلے چولے میں رھنے والا بابا جسکے منہ سے رال ٹپک رھی تھی بس میں جیسے ھی سوار ھوا مسافروں میں تھرتھلی مچ گئی اور ایک دوسرے کے اوپر گرتے ھوئے اسے جھک کے سلام اور پاؤں چھونے لگے اور منہ نکلی رال ہاتھوں پہ لگا کر بدن پر ملنے لگے۔یہ سب ماجرہ دیکھ کر آپ طیش میں آگئے اور بس ڈرائیور کو للکارا کہ بس روکو اپنے ہاتھ میں بر وقت رھنے والا کھونٹے کی ضرب بس پر لگا کر سب مسافروں کی جہالت و دقیانوسی کو چیلنج کرتے ھوئے کہا کہ افسوس تم لوگوں پر جب نہ ماننے کو آؤ تو علی جیسے مطہر و کامل مجسم انسان کو نھیں مانتے جنکی طہارت کی گواھی قرآن میں ھے۔ اگر ماننے کو آؤ تو ایک گندئے ننگے بابا کو چوم اور پلکوں پر بٹھا رھے ھو جسے اپنی پاکیزگی و،پلیدگی کا بھی احساس نھیں۔

مولانا فاضل علوی سمیت مولانا فضل عباس جیسے مقرر و خطیب تیار کیئے،

آپ نے ساری زندگی نواسہ رسول ص کے فضائل و مصائب اور حق زھرا س کی وکالت کرتے ھوئے بسر کی۔

مولانا محمد اسماعیل رح اپنے ہر خطاب کے دوران خصوصاً بوقت قرب المرگ شیعہ مسلمانوں کو ایک پرزور نصیحت کر گئے کہ اگر میں مر جاؤں بے شک میری مجالس،مناظرئے،تقریں،کتابیں یاد نہ رکھنا مگر یہ یاد رکھنا کہ 

میں تمہاری قوم کا مشہور مبلغ و مناظر رھا ہوں میری یہ دو وصیتیں کبھی نہ بھولنا :-


ایک خون حسین علیہ السلام نہ بھولنا

دوسرا چادر زینب سلام اللہ علیہا نہ بھولنا

ملت تشیع کا یہ درخشاں ستارہ چودہ جون انیس سو چھہتر

پندرہ جمادی الثانی تیرہ سو چھانوئے ھجری

 کو اس دار فانی سے ھمیشہ کیلئے کوچ فرما گئے آللہ پاک بحق چہاردہ معصومین علیھم السلام ان کے درجات بلند اور جنت الفردوس میں مقام اعلی عطا فرمائے۔





علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...