Saieen loag

جمعہ، 15 فروری، 2019

کیا شب معراج رسول الله ص سے مولا علی ع نے کلام کیا...

شب معراج رسول الله ص سے کس نے کلام کیا:

قسط نمبر :4

تحریر :"سائیں لوگ"

شب معراج عبد و معبود میں جو گفتگو ھوئی کیا وه جناب امیر ع کے لھجه میں ھوئی تھی یا مولا علی ع خود موجود تھے.

شب معراج عبد و معبود کے درمیان جو خاص گفتگو ھوئی وه حضرت امیر ع کے لب و لھجه میں ھی تھی .

بحار الانوار جلد:6,ص:510,مناقب خوارزمی عبدالله بن عمر سے مروی ھے که رسول الله سے دریافت کیا گیا که شب معراج خداوند عالم نے کس لھجه میں آپ سے خطاب فرمایا:

آپ ص نے فرمایا علی ع کے لھجه میں, اس حدیث کی یه وجه بیان کی گئ که خداوند نے فرمایا حبیب میں نے تیرۓ دل کی گھرائیوں پر نظر کی اور جب حضرت علی ع سے بڑھ کر کسی کو محبوب نه پایا تو میں نے ان کے لھجه میں خطاب کیا تاکه تیرا دل مطمعین رھے.

(کذانی علم الیعقین ص:119,کشف الغمه,تفسیر الصافی ص:258)

اب بعض لوگ شک اور قیاس کرتے ھیں که جب آواز علی ع کی تھی تو آپ موجود بھی تھے.

کیونکه کلام کیلۓ جسم,سر,دھڑ, ضروری ھے لھذا مولا علی ع نے یه کام سرانجام دیا
یه محض پیشه ور زاکروں اور خطیبوں کی خطابت اور قیاس ھے,

 حقیقت سے اس کا دور تک واسطه نھیں,یه خیال باطل اور فاسد ھے.

 کیونکه الله کے متکلم ھونے سے یه خیال نھیں کیا جا سکتا که فی الحقیقت مولا علی ع ھی ھوں گے.

خدا کے متکلم ھونے کا مطلب یه ھے که وه جس چیز میں چاھے حروف اور آواز جن سے کلام بنتی ھے پیدا کر سکتا ھے اور اسے یه بھی اختیار ھے اس کلام میں جو لھجه چاھے خلق فرما دے.

انه الله علی کل شی قدیر.

علاوه ازیں یه بات بھی محتاج بیان نھیں که لب و لھجه کی نقل و حکایت سے یه کسی طرح لازم نھیں آتا که وه اصل شخص بھی وھاں موجود ھو.

کسی کے لھجه میں نقل اتارنا اور ھے اور اس شخص کا وھاں موجود ھونا اور ھے.ان کے درمیان کوئی باھمی ربط ھی نھیں.

یه حدیث انس بن مالک سے روایت ھے اور اسے تفسیر برھان,امالی شیخ طوسی نے روایت کیا ھے.
که قاب و قوسین پر مولا علی ع نے ھی کلام کیا.

اس روایت کے ساتھ تمسک کرنا صحیح نھیں کیونکه ایک تو راوی غیر امامی,مجھول الحال ھے دوسرا ناصبی ھے کیونکه اس نے حدیث غدیر کا انکار کیا اور اسی کے نتیجه کی وجه سے برص کے مرض مبتلا ھو کر مرا,

دوسرا اس انس بن مالک نے حضرت علی ع کو چوتھے خلیفه کے طور پر بھی بیعت نه کی .

بعض لوگ یه خیال کرتے ھیں که جب مخالف تسلیم کر رھا ھے تو پھر ھم کیوں ناں اسے قبول کریں.

یه خیال غلط ھے کیونکه معصومین ع نے مخالفین سے ایسی روایات قبول کرنے سے منع فرمایا ھے.
جن کی تائید اھلبیت ع سے نه ھوتی ھو.

 بحار الانوار جلد :7,ص:461.
رجال کشی ص:2/3.

اتنے مضبوط اور محکم اثبات کے باوجود جو برادران  درج بالا اخبار اھلبیت ع کےحقائق کی نفی کرتے ھیں.

اور  نظریه فاسده کے قائیلین ھیں اگر ان میں جرات ھے تو وه قرآن اور کسی امام عالی مقام  ع سے مستند اور صریح الدلالت فرمان پیش کریں.

وگرنه ھماری ان حقائق پر پوسٹ کے آگے سرخم تسلیم کرتے ھوۓ,

 اصل حقائق کو تسلیم کریں اور غالیوں کے خلاف سپر سینه ھو کر اھلبیت ع کی عظمت و محبت کا ثبوت دیتے ھوۓ مذھب و ملت کی ترقی و کامرانی کیلۓ ھماری تحریک کا حصه بنیں.

اسی ھی میں ھماری دنیاوی اور آخرت کی کامیابی اور اھلبیت ع اور مذھب سے مخلص ھونے کا عملی ثبوت ھے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...