Saieen loag

تصوف اور اسلام۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تصوف اور اسلام۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 25 فروری، 2023

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن 

سامعین کرام اسلام علیکم 

سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف عالم دین علامہ غضنفر عباس تونسوی کے حالات زندگی پر۔ جو سات دسمبر دوہزار بائیس کو رحلت فرماگئے تھے۔

ناضرین علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی اپنے وقت کے نامور عالم دین علامہ امیر محمد ہاشمی کے گھر تحصیل میلسی کے قصبہ دروہڑوائن میں پیدا ھوئے آپ اپنے والد کی طرح 

ادب، منطق، فلسفہ، کے میدان میں اپنی مثال آپ تھے۔

علامہ امیر محمد ہاشمی نے ولایت علی ع پر بہت کام کیا۔ چوٹی کے علاقے، ضلع ڈیرہ غازی خان، میں، امیر محمد ہاشمی نے تقریباً چھ ماہ کے بحث مباحثے کے دوران اپنے مناسب دلائل کے ساتھ اسلام و مذھب حقہ کی خدمت کی اور آخر میں آپ جیت گئے اور فاتح چوٹی کے لقب سے لوگوں میں مشہور ہوئے۔

آپ نے ھزاروں لوگوں کو شیعہ کیا ۔

علامہ امیر محمد ہاشمی کے گھر لکھنؤ اور برصغیر سے تعلق رکھنے والے جید علماء اور رہنما آتے رھتے تھے، جن میں مرزا یوسف، حافظ کفایت حسین، مولانا ہدایت حسین، علامہ محمد بشیر ٹیکسلا، راجہ صاحب محمود آباد وغیرہ نمایاں ھیں۔

تحصیل میلسی کے قصبہ درھڑوائن میں جب علامہ امیر محمد ہاشمی پیش نماز تھے تو اس وقت ان کا علم عروج پر تھا،بیس سال کی عمر میں خطابت شروع کی۔اسی دوران بندہ ناچیز کے والد محترم مہر محمد شفیع آرائیں کے ساتھ علامہ امیر محمد ہاشمی صاحب کا اٹھنا بیٹھنا رہتا تھا ان کے علم اور مذھب حقہ کی حقانیت سے متاثر ھو کر والد صاحب نے اھل سنت سے مذھب تشیع اختیار کیا اور ہمارے ڈیرئے پر علامہ امیر محمد ہاشمی صاحب نے ھی پہلی مجلس عزا کا انعقاد اور خطاب کیا۔

علامہ امیر محمد ہاشمی بھی سلطان العلماء کے درجہ پر فائز تھے ان کے متعلق یہ مشھور ھے کہ آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے گھر میں اسی کمرے میں ھی دفن کیا جائے جسمیں آپ رھتے تھے اور اپنی رفیقہ حیات کو تلقین کی کہ انکی قبر کو تنہاء نہ چھوڑا جائے کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ کہیں بعد از وصال انکے دماغ کو نکال نہ لیا جائے۔

علامہ غضنفر عباس تونسوی کی ولادت میلسی کے قصبہ درہڑوائن میں اسی گھر میں ھوئی جو اب ھم آپ کو دکھا رھے علامہ امیر محمد ہاشمی اسی گھر میں رہائش رکھتے تھے یہ گھر دربار حضرت ساجی محمد کے مشرق کی طرف واقع ھے۔

علامہ غضنفر عباس تونسوی بچپن میں ایک کرتہ پہنے درہڑوائن کی گلیوں میں اکثر بچوں کے ساتھ کھیلتے نظر آتے جب زیارات پر علامہ امیر محمد ہاشمی نجف گئے تو انھوں نے اسی ایک کرتے میں کھیلنے والے بچے کیلئے خصوصی دعا کی کہ مولا اسے اتنا علم دے کہ میری جگہ لے سکے ۔

تو مولا علی ع نے دعا قبول فرمائی اور بغیر کسی مستند مدرسہ و مکتب سے پڑھے بغیر آپ اپنے باپ سے ھی علم حاصل کرتے ھوئے بیک وقت 

علم کلام، علم معانی، علم بیان، علم بدیح،علم صرف، علم نحو، علم حدیث،علم فقہ، علم اصول، علم الرجال،علم ابدان،علم نفسیات،علم الاابجد، علم تفسیر سمیت

عربی فارسی ،اردو،سرائیکی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ کمال کے حافظہ کے مالک تھے علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی شہنشاہ خطابت تھے ان کی یہ پہچان تھی کہ ایک دفعہ پڑھی مجلس کو دوسری جگہ نھیں دھراتے تھے ہر مجلس انکی ایک نئی مجلس ھوتی۔برصغیر کے واحد زاکر امام علی علیہ السلام تھے جنھوں نے کبھی نعرہ و صلوات پڑھنے یعنی داد پر اصرار نھیں کیا بلکہ داد انکے جملوں کی تلاش میں رھتی تھی ۔

قبلہ سلطان العلماء تقریبا ساٹھ سال تک زینت منبر رھے ۔

علامہ امیر محمد ہاشمی نے بیس برس میں خطابت شروع کی جبکہ علامہ غضنفر عباس ہاشمی نےسولا سال کی عمر میں خطابت شروع کی۔اپ نے ممعرفت، فضائل و مصائب اھلبیت ع پر تقریباً دس ھزار سے زاید مجالس عزا سے خطاب کیا۔

  توحید العارفیین ۔۔ حقیقت محمدیہ 

حروف مقطعات حقیقت تسبیح حقیت بیت اللہ اسرار خاک شفاء لعاب محمد ذوالفقار اور خاص طور پر بتیس سال مسلسل معرفت امام زمانہ علیہ السلام اور چہاردہ معصومین کی عظمت و فضیلت پر لا تعداد خطبات بیان کیئے ۔ان موضوعات پر مجالسِ اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ھیں۔ 


قرآن مجید ،نہج البلاغہ سمیت سیکڑوں احادیث و روایات کے حافظ بھی تھے۔۔جذباتی استیصال کرتے ہوٸے مجمعے پہ گرفت کر کے داد لینے میں کوٸی خطیب اُن کا ہم پلہ نہ تھا۔۔

وہ اپنے وقت کے ایسے خطیب تھے جب تک زندہ رھے منبر حسین ع پر اپنی برتری برقرار رکھی۔ اپنی مجالس میں مجع پر مضبوط گرفت رکھتے۔

آپ تقریبا اسی سال کے قریب عمر کے باوجود بھی جوانی کا حافظہ رکھتے تھے عربی کے بھت طولانی خطبے بھی مادری زبان کی طرح روانی سے پڑھتے تھے۔ ان کا انداز خطابت و ادائیں کمال کی تھیں۔

انھوں نے میدان علم و انداز خطابت میں کسی بھی عالم کو آگے نھیں بڑھنے دیا مجمع کو فورا سمیٹ لیتے تھے ھند و پاک میں ہزاروں لوگ ان کے عقیدت گزار اور بڑئے بڑئے عالم دین ان کے باکمال علم کے معترف تھے۔

خطابت کے اوائل سے لے کر موت تک انکی مقبولیت میں کمی نھیں پائی۔جہاں بھی جاتے دور دراز سے لوگ انکی مجالس سننے کیلئے آتے تھےپاکستان ،ھںدوستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں اپنے علم و معرفت کے جوہر بکھیرئے۔ 

علامہ غضنفر عباس تونسوی  

 بھت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں الغیب،حروف مقطعات،حقیقت تسبیح،طریق العرفان الی صاحب الزمان، ولایتِ و شرک،اسرار کبریہ،لعاب محمد، شامل ھیں۔

آپ برصغیر ایشیا میں بہت زیادہ مقبول تھے

ان کی تحقیق مختلف شعبوں میں لا محدود تھی یعنی بیک وقت ،

عربی،فارسی،گرائمر سمیت ،ادب ثقافت مذہب فلسفہ، منطق، سائینسی و روحانی علوم پر مکمل عبور تھا۔ وہ سلطان العلما اکیڈمی بہاولپور پاکستان کے سرپرست و بانی تھے۔ وہ اپنے انداز کے پاکستان میں تشیع مذھب کے ہر دلعزیز اور بلند پایہ مقرر تھے ۔

انکےچھاردہ معصومین علیہم السلام سمیت

 اسلام کے ہر موضوع پر پندرہ ہزار سے زائد خطبات و مجالس ھیں۔

انھیں ابو الفصاحت،اور سلطان العلماء کے اعزازات سمیت حیدرآباد سندھ اور لاھور کربلا گامے شاہ میں سونے کے تاج و تمغات سے بھی نوازا گیا ۔


  ان پر انیس سو اٹھاسی میں پہلی دفعہ غالی و مشرک ہونے کا الزام لگا۔پاکستان کے کافی امام بارگاہوں کے منتظمین نے انکی مجالس پر پابندی لگا دی ۔

جبکہ انھوں نے کافی مقامات پر عقیدہ غلو سے انکار اور وضاحت بھی فرمائی۔



ان پر الزام تھا کہ آپ علی اللہ کے قائل ھیں اللہ تعالیٰ کو ھی علی ع سمجھتے ھیں ۔

جبکہ اسکی وضاحت انھوں نے انڈیا کے شہر حیدرآباد دکن میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے بھی دھرائی ۔


آپ ولایت علی ع کے بھت بڑئے داعی تھے ۔ان سے نظریات و عقائد کے اختلاف پر علامہ محمد حسین نجفی المعروف 

 ڈھکو صاحب نے کھل کر مخالفت کی ، علامہ غضنفر عباس تونسوی کی سرپرستی میں صابر شاہ بہل مرحوم سمیت اس وقت کے نامور زاکرین نے علامہ محمد حسین نجفی صاحب پر دوران مجالس عزا میں کھلم کھلا لعنت کرواتے تھے۔ جسکا سلسلہ آج تک جاری ھے۔

یہ تو سوشل میڈیا آنے کے بعد لوگوں کو ڈھکو صاحب کے عقیدہ توحید و ولایت سے آگاہی ھوئی۔

خود علامہ غضنفر عباس تونسوی بھی ڈھکو صاحب کی مخالفت اور مناظرے کے چیلنج کرتے رھتے تھے ۔

وہ اپنے ایک خطاب میں کچھ اس طرح زکر کرتے ھیں۔

علامہ غضنفر عباس فروع دین پر مجالس امام حسین علیہ السلام کو ترجیح دیتے تھے۔زنجیر زنی اور شھادت ثالثہ کا برصغیر میں آغاز اور خوب دفاع اور پرچار کرتے۔

اپنے ایک خطاب میں نماز کے متعلق کچھ اس طرح بیان کیا کہ عزاداری کو روک کر نماز پڑھنا سنت یزید ھے۔


اپنے ایک خطاب میں فروع دین کے متعلق اور فضائلِ مولا علی ع کو بیان کرکے سادہ لوگوں کے دلوں میں ابہام پیدا کیا۔

مولا علی ع کے فضائل کو توحید پر کچھ اس طرح پیش کیا 



علامہ غضنفر عباس تونسوی شاعری میں بھی بھت عروج رکھتے تھے ایک مقام پر حضرت غازی عباس کی شان میں بیان فرماتے 

بلکہ آخری سالوں میں انکے ھر خطاب میں انھیں عقائد کے پرچار کو فوکس کیا گیا۔

بغیر شہادت کے پڑھی جانے والی نماز کو باطل قرار دیتے تھے

ان کی اکثر مجالس و خطاب میں ولایت علی ع کو ہر واجب و اوجب عمل کا اہم حصہ قرار دیتے تھے جبکہ مخالفین سمجھتے تھے کہ آپ مقام توحید کو مسخ اور تقصیر پہنچا رھے ھیں ۔

کائینات کے نظام کی روانی کو آل محمد کے کنٹرول و طابع سمجھتے تھے۔کافی مقامات پر اللہ تعالیٰ کو اھلبیت علیھم السلام میں مجسوم ھے کے عقیدہ حلول کا اظہار کیا ۔ وہ برملا فرماتے تھے کہ اس کائینات کا نظام یھی پانچ مقدس بستیاں چلا رھی ھیں ۔

ولایت تکوینی عقیدہ کے قائل اور ایمان کا حصہ اور 

مولا علی علیہ السلام کی محبت ھی کو نماز کا خشوع و خضوع ھونا سمجھتے تھے

ان کے واضح عقاید کی کچھ ویڈیو کلپ آپ ھماری ویڈیو میں دیکھ سکتے ھیں۔

https://youtube.com/@shiafigure

علامہ غضنفر عباس تونسوی کے شاگردوں میں ان کے ،بیٹے نعلین غضنفر ھاشمی اور بیٹی جو اپنے باپ کے انداز میں مجالس عزا پڑھتی ھیں اور بھانجے ،نیاز عباس ہاشمی اور ناصر سبطین ھاشمی شامل ھیں۔

نعلین غضنفر عباس ہاشمی ملتان اور لاھور میں بھی مجالس عزا پڑھ رھے ھیں۔

  علامہ ناصر نے حوزہ علمیہ قم، حوزہ علمیہ مشہد مقدس، ایران سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اب وہ پاکستان میں اپنی مخصوص تقریروں کی مہارت کی وجہ سے مقبول ہیں۔ اور کافی کتابیں بھی لکھ چکے ھیں۔

اتنا بڑا عالم ربانی اتنا بڑا خطیب اتنا بڑا فصاحت و بلاغت والا مقرر اتنا بڑا عامل و کامل اتنا بڑا انسان اتنا بڑئے غیر معمولی حافظے کا مالک اتنا بڑا نام اتنا بڑا عارف علوم آل محمد اتنا بڑا ذاکر حسین ابن علی ع کہاں سے لاۓ گی دنیا ۔

عقائد پر لاکھ اختلاف سہی مگر ھم انکے علم،و معرفت اھلبیت علیھم السلام اور سلیس خطابت، فصاحت و بلاغت کے قائل ھیں

علامہ غضنفر عباس تونسوی صاحب خطابت کی ایک دانشگاہ کا درجہ رکھتے تھے آپ انکے عقیدے سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن آپ انکے طریقہ خطابت اور سلیس انداز بیان سے اگر مطمئن نہیں ہیں تو پھر آپکا علم و ادب کے ساتھ دور تک کا واسطہ نہیں ۔میں نے بچپن سے آج تک ان کی لاتعداد مجالس سماعت کیں ۔

میں نے انھیں اپنے شہر میلسی سمیت ، علامہ صاحب کا جائے ولادت قصبہ درہڑواین،اور موضع شاہ ستار سمیت دوران تحصیل علم بہاولپور،اور دوران ملازمت لاھور میں۔ بخآری ہاؤس قذافی اسٹیڈیم،شاکر رضوی پانڈوسٹریٹ ،کربلا گامے شاہ سمیت محمدی مسجد گلبرگ انکی کافی مجالس خوب سنیں مگر کبھی دوسری مجلس سے مماثلت نھیں پائی یہی وہ چیز تھی جو انہیں دوسرے زاکرین و علماء سے یکسر ممتاز کرتی ھے۔

سات دسمبر دو ھزار بائیس بروز بدھ کو دل،گردوں اور شوگر کی تکلیف کے باعث فصاحت و بلاغت،علم و عرفان کا یہ سورج معارف اھلبیت ع کے لاتعداد اسرار و رموز اپنے قلب میں لئیے ھمیشہ ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سو گیا۔

اللہ تعالیٰ علامہ غضنفر عباس تونسوی قبلہ کی روح کوسکون عطا کرے اور امام زمانہ ع کے قدموں میں جگہ عطا کرے آمین

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے حالات زندگی پر ھماری ویڈیو آپ ھمارئے چینل 

Shia Figure 

پر دیکھ سکتے ھیں ۔

https://youtube.com/@shiafigure




جمعہ، 26 جولائی، 2019

صوفیه کے مجمل عقائد

تصوف کی تاریخ پر مذاھب عالم کی روشنی میں  سرسری نظر

                 
قسط نمبر :17 ----------تحریر: "سائیں لوگ

تاریخ تصوف کے گھرۓ مطالعه اور دوسری قوموں کے عقائد کا وسیع مطالعه کرنے کے بعد انسان اس نتیجے پر پهنچتا ھے که اس کا سب سے بڑا ماخذ چینی,ھندو اور بدھ مت فلسفه ھے جو که اسلام اور مسیحت سے صدیوں پهلے منظر عام پر آیا تھا.

اگر ھم ایمانداری سے ھر مذھب کا مطالعه کریں تو آسانی سے سمجھ سکتے ھیں که تصوف کی ابتدا کب سے ھوئی اور اسلامی تعلیمات میں اس کے نظریات سے اختلاف کیوں ھے ,

ھندو اپنشدوں میں روحانی منازل پانچ ھیں جبکه اسلامی تصوف میں تین روحانی منازل ھیں علم الیعقین,عین الیعقین ,حق الیعقین .
صوفیه کی ریاضت و مجاھدات سے تمام خواھشات نفسانیه کو کچل کر آپنے تئیں روح کے اندر مدغم کرکے صوفیه کی اصطلاح میں فنا فی الله کا مقام ھے مقام فنا فی الله کے بعد بقا بالله کا مقام بیان کیا جاتا ھے.
جب ایک صوفی صفات الھی کا لباس زیب تن کر لیتا ھے تو پھر اسے حیات نو کا لباس پهنایا جاتا ھے.
اور ایک نئی زندگی پاتا ھے.جبکه ھندو مذھب میں یھاں خدا اس انسان میں حلول کر جاتا ھے جو که اکثر مسلم صوفیه مثلا بسطامی,حلاج,ابن عربی وغیره کا عقیده ھے.

انشاءالله آنے والی پوسٹوں میں اس پر ضرور روشنی ڈالیں گے.

چینی فلسفه(551 قبل مسیح)

 کے بعد تصوف پر ھندوستانی فلسفے(ڈاکٹر ھاگ 1400/2000,قبل مسیح)
پروفیسر انباش چندورت 8000/10,000/قبل مسیح.
اور مھاتما تلک کی راۓ میں 4000,5000/قبل مسیح .
پروفیسر میکس ملر کی تحقیقات میں 1,000/قبل مسیح بتاتے ھیں.
ملحاظه فرمائیں .
قدیم سنسکرت لٹریچر 1562/ترجمه رگوید جلد:4--ھیپرٹ لیکچرز ص:240.

اسلام سے ھزاروں سال قبل مذاھب میں تصوف موجود تھا آج کا بدبخت کازب اور دشمن اھلبیت ع  مسلمان کیسے اسلام سے منسوب کرتا ھے.

اسلام میں داخل کرنے والے وه دشمنان  اھلبیت ع شامل تھے,
 جو اھلبیت ع کے علم و حکمت سے متعصب و حسد رکھتے تھے اور اھلبیت ع کے زھد وتقوی و فضیلت و عظمت سے 
متاثر ھوتے ھوۓ اھلبیت ع کی عظمت و اھمیت کو کم کرنے کیلۓ اس شیطانی و مشرکانه  عمل کو پروان چڑھایا.

اسلامی تصوف پر بالخصوص بدھ فلسفے(563,قبل مسیح) کی گھری چھاپ دکھائی دیتی ھے.

(براه کرم مکمل تفصیلات کیلۓ مھاتما گوتم بدھ کی حیات کا مطالعه فرمائیں پھر اسلامی صوفیه کے نظریات و عقیده سے موازنه کریں).

بعد ازاں اس میں یونانی فلسفه نو فلاطونیت کی بھی کافی جھلک نمایاں ھے اس کے ساتھ ساتھ قدیم ایران کے دو مذھب زرتشتی (660,قبل مسیح)

اور مانوی(215, ء) عقائد کی بھی تصوف میں بازگشت سنائی دیتی ھے,

 البته تصوف میں چینی اور ھندوستانی فلسفه نمایاں ھے.

بلاد فارس کے شیوخ نے جن کے چین اور ھندوستان سے روابط تھے دونوں فلسفوں کا معجون تیار کیا اور اس مجعون کے مرکب کو اسلامی سر زمین کو منتقل کیا.

صوفیه کے عقائد ایسے امور پر مشتمل ھیں جن کا اسلام سے دور تک کا واسطه نھیں ھے,

 ان کے عقائد کا خلاصه یه ھے حلول,اتحاد,وحدت الوجود,حقیقت محمدیه,اولیاء,نظام کائینات,جنت دوزخ,_کرامات,عمل و جھاد,علم و رھبانیت اور تفسیر قرآن.

درج بالا مسائل میں صوفیه آپنا مخصوص زاویه فکر پیش کیا تھا اور انھوں نے مسائل کی ایسی تاویلات کی تھیں جو اسلامی نظریات سے بھت دور تھیں.

مسلمانوں اور ان کے آئمه اھلبیت ع نے صوفیه کیلۓ کفر اور الحاد,زندیقی کے فتوۓ جاری کیۓ ھیں.

لفظ زندیق کا اطلاق سب سے پهلے صوفیه پر کیا جاتا تھا.
سنی شیعه علماء و فقھاء جب بھی لفظ زندیق کا اطلاق کرتے تو اس سے صوفیه ھی مراد ھوتے تھے.

بعض لوگ ایسے بھی گزرۓ ھیں جو صوفیه کے شعبده بازوں سے متاثر ھو کر ان کی جمارت میں داخل ھوۓ تھے.

ان لوگوں پر غباوت اور جھالت غالب آ گئی تھی وه آپنی سادگی اور کم فھمی کی وجه سے ان کے دام میں پھنسے تھے,

 انھیں صوفیه کے اصل اھداف کا علم نھیں تھا ان میں سے بعض افراد ایسے ناھل اور کودن تھے که انھوں نے اسلامی نصوص و اصلاحات کی ایسی تشریحات کیں جو صوفیه کے عقائد کے مطابق تھیں .

وه آپنی سادگی سے یه سمجھتے تھے که اسلام کی خدمت کر رھے ھیں اور لوگوں کے سامنے اسلام کے ایسے اھداف و مقاصد منکشف کر رھے ھیں جو ان کی نگاھوں سے اوجھل ھیں.

                           (جاری ھے)

تصوف,تزکیه تھذیب نفس

یه مختصر تحریر ان بھائیوں کیلۓ جو تصوف پر ھماری پوسٹوں سے اختلاف رکھتے ھیں

جس طرح غالی,نصیری کا شیعت اور اسلام سے کوئی تعلق نھیں اسی طرح صوفیه کا بھی تعلیمات اھلبیت ع و اسلام سے کوئی تعلق نھیں


بلکه ان کے عقائد اور غالی نصیری کے عقائد میں مشرکانه و کافرانه اعمال ھیں.
صوفیه کا عقیده ھے که ھمیں دیدار الھی نصیب ھوتا ھے. 

یه دعوی غلط ھے جب حضرت موسی ع  دیدار الھی کے قابل نھیں یا سکت نھیں رکھ سکتے جو اولاالعظم نبی ھیں وه بے ھوش ھو جاتے ھیں ایک عام انسان ریاضت کے زور پر کیسے.

دوسرا صوفیه کھتے ھیں که جب ھم مراقبه تک پهنچ جاتے ھیں تو خدا ھم میں حلول,اتحادکر جاتا ھے.
یه مشرکانه دعوی ھے.

تیسرا صوفیه کھتے ھیں قرب الھی دنیا سے لا تعلق, بیوی بچے چھوڑ کر جنگل پهاڑوں میں جسم کو ازیت دے کر حاصل کیا جاتا ھے,
 یه طریقه بھی قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات کے خلاف ھے.
صوفیه عقیده تناسخ کے بھی قائل ھیں جو قرآن و سنت سے متصادم ھے.

اھلبیت ع نے نه ھی ترک دنیا اختیار کیا اور نه ھی بیوی بچوں سے دوری بلکه عام معاشرۓ میں ره کر ھی تزکیه نفس اور قرب الھی حاصل کیا.

اسلام انسان کو گناه سے فرار ھونے کیلۓ گوشه نشینی اور مصروفیات کے ترک کرنے کی نصیحت نھیں کرتا بلکه انسان سے چاھتا ھے که اجتماعی زمه داریوں کو قبول کرۓ,
 اور اسے قابو میں رکھے اور گناه اور کجروی سے آپنے آپ کو دور رکھے.

الله تعالی کے بندوں کی خدمت کرو اور الله کی رضا کی خاطر نفسانی خواھشات اور شھوات سے دور رھو.

اسلام نھیں کھتا که تقوی حاصل کرنے کیلۓ کام اور کسب سے لاتعلق ھو جاؤ.
جب اھلبیت ع نے رزق حلال کیلۓ محنت و مزدوری کی ھے تو صوفیه کیوں کام کرنے سے جی چراتے ھوۓ جنگل اور تنھائی کا رخ اختیار کرتے ھیں. 

اسلام نھیں کھتا که دنیا کو ترک کرتے ھوۓ عبادت میں مشغول رھو اور الله کی نعمات سے محروم رکھو.

اور بھی بھت سی مثالیں ھیں جو تصوف اور تزکیه نفس کے طریقه عوامل کو جدا کرتی ھیں .
خدا ھمیں انسانیت کے سیدھے راستے اور کمال مدارج کے طے کرنے کی ھدایت فرماتا ھے.
خود پسندی,تکبر,نفسانی خواھشات اور آرزوں کے پردوں کو ھٹانے کی تعلیم کرتا ھے.
تزکیه نفس اور خود سازی تھذیب کیلۓ قرآن میں کافی آیات اور پیغمبر اکرم ص اور اھلبیت طاھرین ع کے فرامین موجود ھیں تو پھر ھم کیوں دوسرۓ مذاھب سے اخذ صوفیانه طرز عبادت , ریاضت و رھبانیت کو فوقیت دیتے ھیں.

ھماری 15/پوسٹ تصوف پر تعلیمات اھلبیت ع کی روشنی میں وضاحت پیش کی گئیں ھیں جو ابھی جاری ھیں جن کے ماخذ بھی 
تین مختلف مسالک کے مصنفین کی مدد سے ھیں تاکه کوئی ابھام نه رھے اھل تشیع کی معروف کتب,ابن جوزی,اور جا الحق کے رد میں لکھی جانے والی کتاب و دیگر مختلف مفکرین کی راۓ سے جیسے مشھور صوفی حضرت سلطان باھو نے بھی ان صوفیوں کی مذمت کی ھے اور انھیں شیطانی علم کا حامل کھا ھے.
 پڑھیۓ عین الفقر.

لھذا تصوف کا اسلام میں کوئی مقام نھیں اھلبیت ع نے ان صوفیوں کے بارۓ سختی سے احادیث فرمائی ھیں.اور انھیں شیطانی منبه قرار دیا ھے.

خداوند عالم قرآن میں فرماتے ھیں وه دنیاوی زندگی کا علم تو رکھتے ھیں لیکن اخروی زندگی(باطنی)سے غافل ھیں.

امیرالمومینین ع روح کے بارۓ فرمایا ایک در نایاب ھے جس نے اس کی حفاظت کی اسے وه اعلی مرتبه تک پهنچاۓ گی اور جس نے اسکی حفاظت میں کوتاھی کی یه اسے پستی کی طرف لے جاۓ گی.

حضرت علی ع نے فرمایا که ھمیشه الله کا زکر کرنا روح کی غزا ھے نیز فرمایا الله کے زکر کو فراموش نه کرو کیونکه دل نور ھے.

قرآن و حدیث میں قلب کے متعلق بھت زیاده تعلیم دی گئی ھے.قلب سے مراد دل ھے جس کی بیداری اور زکر الھی میں مشغول رکھنا ھی انسانیت ھے.
قرآن میں ھے الله تعالی نے دلوں میں ایمان قرار دیا ھے.اور آپنی خاص روح سے ان کی تائید کی ھے.
امام جعفر صادق ع نے آپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ھے آپ نے گرمایا که قلب کیلۓ گناه سے بدتر کوئی چیز بدتر نھیں.قلب گناه کا سامنا کرتا ھے اور اس سے مقابله  کرتا ھے یهاں تک که گناه قلب پر غالب آ جاتا ھے اور وه قلب کو الٹا کر دیتا ھے.
مذید ھم تصوف پر لکھنے کے بعد انشاءالله خود سازی,تذکیه نفس پر لکھیں گے تاکه تصوف کو تذکیه نفس اور خودسازی کو جدا کیا جا سکے.

نوٹ:ھماری تحریریں قرآن و تعلیمات اھلبیت ع سےاخوز ھوتی ھیں.
جھاں اختلاف کی گنجائش نھیں ھاں پھر بھی اختلاف ھر بھائی کا حق ھے جو علمی ھونا چاھیۓ ناں که تنقیدی و تعصب.

جمعرات، 25 جولائی، 2019

تصوف پر کنفیوشس کے اثرات.

تصوف دراصل کنفیوشیس,بدھ مت,اور ھندوؤں سے ماخوز ھے

 مذید عیسائیت اور یھودی غالی فلسفه کا بھی اثر موجود ھے.

"قسط نمبر:15 ---------تحریر:  "سائیں لوگ

مگر تصوف پر آج ھم چینی فلسفه کے اثرات کا درست جائزه لیں گے.
کچھ محقیقین یه دعوی کرتے ھیں که تصوف پر چینی فلسفه کے گھرۓ اثرات ھیں چنانچه ڈاکٹر عمر فروخ آپنی کتاب التصوف الاسلامی میں لکھتے ھیں که چین کا سب سے بڑا فلسفی کنفیوشیس (Confucius)تھا.
وه عملی مفکر اور اجتماعی مصلح تھا وه صرف نظریاتی اور دینی فقیھه نھیں تھا البته اس کے پیروں نے اس کے بعد الھیات کے مسائل اور فلسفی اختلافات پر بھت سی کتابیں لکھیں تھیں.

چین میں ایک اور شخص بھی تھا اس کا نام لی آره یا لا ؤ ٹسے لکھا ھے وه عمر میں کنفیوشیس سے چھوٹا تھا.

یه سات سو سال قبل مسیح کا واقعه ھے اس نے چین میں صوفیانه نظریات پیش کیۓ تھے.
اس نے بشری لذات سے کناره کشی اختیار کر لی تھی اور لوگوں  سے میل جول ختم کر لیا تھا حد تو یه ھے که وه لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کوبھی منافقت سمجھتا تھا.

اس نے دو حصوں پر ایک کتاب لکھی Tao,اور Te,کی تشریح کی جس میں پانچ ھزار الفاظ یا زیاده لکھے.
وه کتاب محافظ کے حوالے کرکے چین کی حدود سے نکل گیا اور دنیا جھاں کی نظروں سے غائب ھو گیا.

برادران اسی سے ھی ملتا جلتا عمل ابراھیم بن ادھم کا ھے انھوں نے بھی بلخ کی حکومت چھوڑی اور بلاد فارس کو خیر باد کھه کر سیاحت کرتے رھے,

 طویل عرصه بعد جا کے اسے گوھر مقصود ملا .

جیسے مھاتما گوتم بدھ نے کیا  بادشاه کا بیٹا ھونے کے ناطے سلطنت چھوڑ کر 23/25 یا 27/سال جنگلووں میں ریاضت و عبادت کرتا رھا تب جا کے مراقبه کی منزل پر پهنچا.

لفظ ٹاؤ سے مراد راسته اور ٹی سے مراد دروازه ھے اسکی تشریح ھزاروں سال بعد بابی فرقه کے بانی علی محمد شیرازی نے آپنی جھوٹی نبوت کی بنیاد رکھی.

کچھ فلاسفه کھتے ھیں اس سے مراد سالک ھے.

چینی صوفی اور اسلامی صوفی دونوں کی نظر میں زندگی کی حیثیت ایک سفر کی سی ھے .

اسلامی صوفی کھتے ھیں زات حق ھی موجودات کی علت العلل اور غایت الغایات ھے.
صوفیه زندگی میں کسی کی تقلید نھیں کرنی چاھیۓ.
چینی فلسفه کا تزکیه نفس اور تطھیر نفس کا نظریه مسلمانوں کے توبه اور تقوی سے ملتا ھے.
چینی جسے اشراق کھتے ھیں مسلمان صوفی اسے کشف کھتے ھیں.

چینی جسے اتحاد و اتصال کھتے ھیں مسلمان صوفی اسے بقاء کھتے ھیں.

چینی تصوف اور مسلم تصوف کی مشترکات کی تائید کتاب المذاھب الکبری فی التاریخ میں سے بھی ھوتی ھے.

قدیم چینی صوفیه جسم کو ناپسندیده اشیاء کا مجموعه سمجھتے تھے.وه کھتے تھے که نفس کشی ضروری ھے اور یھی فلسفه مسلم صوفی کا ھے.

چینی صوفیه نے حیات,نفس,روح کے متعلق جو نظریات پیش کیۓ تھے وھی نظریات دوسری اور تیسری صدی ھجری کے صوفیه کے ھاں بھی پاۓ جاتے ھیں.

چینی تصوف عربی تاجروں کے قبل از مسیح تعلقات تھے اسی وجه سے یه تصوف عرب ممالک میں روشناس ھوا.
اگر اس دوران کچھ مسلم حکمران ایکشن یا تدارک نه کرتے تو آج اسلام مکمل طور پر ترک عمل کے دین کے طور پر متعارف ھوتا .
جیسا که آجکل غالی نصیریوں نے مذھب شیعه اثناۓ عشریه کی پهچان مشکل بنا دی ھے.

چینی تصوف کے ساتھ ساتھ برھمنی اور بدھ نظریات حلول ,اتحاد اور تناسخ کو بھی درآمد کرکے اسلامی تصوف کا حصه بنا دیا.

اگر موقع ملا تو ھم دیگر مذاھب کے تصوف اور اسلامی تصوف پر وضاحت پیش کریں گے.

                        (جاری ھے)

تصوف آور بھنگ نوشی و کھانت وغیره.

:کرامات صوفی ,بھنگ,اور غالی

                    "قسط نمبر:13 ---------------تحریر:  "سائیں لوگ

ڈاکٹر  زکی مبارک نے آپنی تصنیف "التصوف الاسلامی" میں شیخ حیدر صوفی کے متعلق ایک عجیب و غریب واقعه نقل کیا ھےوه لکھتے ھیں که یه بزرگوار خراسان میں رھتے تھے.

انھوں نے پهاڑ میں آپنے لیۓ خانقاه بنوائی تھی جس میں وه دس سال قیام پذیر رھے دس سال بعد ایک سخت گرم دن میں وه آپنی خانقاه سے نکلے اور صحرا میں اکیلے چل پڑۓ.

گرمی کی شدت تھی اور ھوا بھی بند تھی کچھ دیر کے بعد آپ خوش خوش واپس آۓ آپ کے چھرۓ پر طمانیت تھی مریدوں نے اس بشاشت کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا که میں آپنی خانقاه میں بیٹھا تھا که اچانک میرۓ دل میں خیال آیا که مجھے  خانقاه سے نکل کر صحرا کی طرف جانا چاھیۓ .

چنانچه میں صحرا میں گیا که صحرا کی ھر بوٹی پر سکوت مرگ سا چھایا ھوا ھے.

میں بوٹیوں کو دیکھتا جا رھا تھا که میں نےایک بوٹی دیکھی جس کے پتے چکنے چکنے تھے,
 اور وه آرام سے هل رھی تھی میں نے اس کے پتے چنے اور کھا گیا اس بوٹی کے پتے کھانے سے میں ھشاش بشاش ھو گیا .
پھر میں نے وه بوٹی آپنے مریدوں کو دکھائی اور ان سے کھا که عوام سے اس راز کو مخفی رکھا جاۓ خدا نے اس بوٹی کے پتے تمھارۓ لیۓ بناۓ ھیں.اس سے تمھارۓ غم زائل ھوں گے,

اور تمھیں فکری جلا نصیب ھوگی پھر شیخ حیدر صوفی نے فرمایا که جب میں مر جاؤں تو میری قبر کے ارد گرد اس بوٹی کو کاشت کرنا 
(اور وه بھنگ بوٹی تھی).

شعرا نے بھی اس بھنگ بوٹی پر بڑی نظمیں لکھیں ھیں.
انھوں نے اس کا نام شیخ حیدر کا مشروب رکھا ھے.
محمود شقی لکھتے ھیں نظم کا ترجمه عرض ھے .
مقصد یه ھے که شراب چھوڑ دو اور شیخ  حیدر کی بھنگ استعمال کرو.

جب تم خوبصورت ساقی لڑکے کے ھاتھ سے بھنگ کا پیالا لو گے تو تمھیں یوں لگے گا جیسے گلابی رخسار پر کوئی عبارت لکھی ھو.

کتاب التصوف الاسلامی کے مصنف لکھتے ھیں که صوفیه کی محافل میں بھنگ کو فروغ حاصل ھوا,
 اور صوفیه نے بھنگ کو مصر سے لے کر فارس تک رائج کیا.

یه بھی تاریخ میں ملتا ھے که مصر کے  ارباب منبر خطبه جمعه سے پهلے بھنگ پیتے تھے.

صوفیه کی انوکھی کرامات سے اسلام کے خلاف جگ ھنسائی کی مذموم کوشش کی گئی ھے.
دشمنان اسلام کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع دیا.

شعرانی نے آپنی کتاب میں صوفیه ابراھیم ,_مبتولی,شیخ عمری,شمس الدین حنفی,بدوی,_فرغلی,دسوتی,یوسف,
شوستری,جیسے صوفیه کی کرامات سے سینکڑوں صفحات سیاه کیۓ ھیں.

صوفیه کی کچھ کرامات کا تعلق کھانت اور کچھ کا تعلق ھپناٹزم سے ھے.

مگر ھماری نظر میں یه سب کچھ جھوٹ ھے جھاں ھم صوفیه کی کرامات کے منکر ھیں وھاں ھم انبیاء ع کے معجزات کے قائل ھیں.
کیونکه انبیاء ع کے معجزات کی قرآن سے تصدیق ھوتی ھے.اور قرآن ھی ھمارۓ لیۓ حجت ھے.

انبیاء ع کے بعد اھلبیت ع کے ھاتھوں سے بھی 
 معجزات ظاھر ھوۓ تھے.آئمه اھلبیت ع نے جب بھی الله تعالی سے دعاء کرتے تو الله تعالی ان کی دعاء قبول فرماتے لیکن اھلبیت ع نے بھی اس وقت معجزات پیش کیۓ جب اس کے بغیر کوئی چاره نه ھوتا.

دوسرا ھم یه بھی تسلیم کرتے ھیں که اھل تشیع میں معجزات کے موضوع پر جتنی بھی کتب لکھی گئی ھیں ان میں غلو اور اسراف پایا جاتا ھے .

اگر ھم اس غلو کی نشاندھی کریں تو جو ھوش سنبھالتے ھی زاکرین سے معجزات و واقعات سنتے آ رھے ھیں وه بھلا کب اب حق سمجھ پائیں گے بلکه نیا طوفان کھڑا ھو جاۓ گا.
جس سے ھم آپنی پوسٹوں میں لکھنے سے گریز کر رھے ھیں.

اسلام نے دعوت الی الله کا سارا دارو مدار معجزات پر نھیں رکھا.

رسول خدا ص نے تو خلاف فطرت معجزات نھیں دکھاۓ تھے لیکن صوفیه آپنی شیطانی طاقت سے عجیب و غریب کرامات  دکھا کر لوگوں کو گرویده بناتے ھیں.

اسلام آپنے پیروں کا معجزات کی دعوت کے بجاۓ کون و مکان میں غور و فکر کی دعوت دیتا ھے,

اور توجه دلاتا ھے که کائینات کی تنظیم و ترتیب کسی مدبر اور حکیم خالق کے بغیر ممکن نھیں ھے.
                               (جاری ھے)

صوفیه کے مشرکانه و کفرانه نظریات.

:صوفیه اور عجیب و غریب کرامات

"قسط نمبر :12--------- تحریر : "سائیں لوگ

سراج ,کتاب اللمع فی تصوف کے
 صفحه :382,پر لکھتے ھیں که بایذید بسطامی کھا کرتے تھے که خدا نے ایک مرتبه مجھے بلند کیا اور سامنے لا کھڑا کیا اور فرمایا که میری مخلوق تجھے دیکھنا چاھتی ھے .
دوسری جگه لکھتے ھیں که بایذید بسطامی کھتے ھیں جب میں مقام وحدانیت پر پهنچا تو سب پهلے میں نے ایسے پرندۓ کی شکل اختیار کی جس کا جسم احدیت کا تھا اور پر دیموت (ھمیشگی )کے تھے.
دس برس میں اسی کیفیت میں محو پرواز  رھا.اس کے بعد ایسی ھوا میں هھنچا جو اس سے ایک لاکھ گنا زیاده طاقتور تھی.
چنانچه اس میں اڑتا رھا یھاں تک که مقام ازلیت میں پهنچا اور شجر احدیت کا مشاھده کیا.

ابو بکر شبلی صوفیه کے مشھور قطب ھو گزرۓ ھیں.یه فقه مالکیه کے پیروکار تھے اور بغداد میں دفن ھیں.
یه بھی بسطامی اور حلاج جیسی شطحات منقول ھیں جو حلول و اتحاد پر قائم ھیں.

جابان بھی ایک صوفی تھے وه کھتے ھیں شبلی مریدوں کو کھا کرتے تھے که میں وقت ھوں اور میرا وقت بھت قیمتی ھے اور وقت میں میرۓ سوا کچھ بھی نھیں.

جنید بغدادی بھی کھتے که تصوف یه ھے که حق تجھے تجھ سے موت دے دے اور پھر اس کے زریعے تجھے زندگی عطا کرۓ.

سھیل شوستری صوفی کھتے تھے که جو چالیس دن تک دنیا سے بے رغبت ھو جاۓ تو الله کی طرف سے ھاتھوں پر کرامت کا اظھار ضروری ھو جاتا ھے.

کتاب اللمع فی تصوف کے مصنف نے اولیاۓ صوفیه کی ایک ھزار عجیب و غریب حکایات و کرامات جمع کی ھیں.  
شعرانی آپنی کتاب طبقات میں ابو العباس احمد نقاب پوش صوفیه کے کتب ھیں انکی ھر پشین گوئی پوری ھوا کرتی تھی.

شعرانی نے ایک اور صوفی ابو عبدالله قرشی کے بارۓ لکھتے ھیں که وه حضرت خضر سے ملا کرتے تھے.
ابو عبدالله قریشی کے دوست نے بیوی سے کھا آج کیا کھاؤ گی تمھاری خواھش پوری ھو گی بیوی نے کھا بیٹی سے پوچھتی ھوں بیٹی نے جواب دیا اگر خواھش پوری کرنی ھے تو میری شادی ابو عبدالله قرشی سے کردو جو نابینا اور جذام کا مریض تھا کوئی بھی عورت اس سے شادی نھیں کرنا چاھتی تھی مگر اس لڑکی کی شادی کر دی گئی.
جب تمام عورتیں چلی گئیں میاں بیوی ره گۓ تو جب قرشی باتھ روم میں گیا واپس آیا تو بھت حسین و جمیل بے ریش نوجوان شکل کے تھے.

 دلھن نے جوان کو دیکھا تو منه چھپا لیا عبدالله قرشی نے کھا منه نه چھپاؤ میں تمھارا خاوند ھوں.جب قسم کھا کر  یعقین دلوایا .
تو دلھن کو کھا که گھر میں میں اسی شکل میں رھوں گا اور باھر نابینا شکل میں.
بشرط لوگوں کو نه بتانا.
تو بیوی نے کھا نھیں مجھے تم نابینا,جزام,برص کی شکل میں ملو جیسے دوسرۓ لوگوں سے ملتے ھو.

ایک اور صوفی احمد طابرانی سر خسی سے کسی نے کھا که کوئی کرامت دکھاؤ.
کھتے ھیں ایک دفعه مجھے استنجا کیلۓ ڈھیلے کی ضرورت پڑ گئی تو ڈھیلا نظر نه آیا میں نے مٹھی میں ھوا کو پکڑ لیا اور استنجا کرکے پھینک دیا تو وه موتی بن گۓ.

ابوالحس بصری کھتے ھیں که ابادان میں ایک سیاه فام رھتا تھا وه انتھائی مفلس تھا میں کچھ دینے کیلۓ اس کے گھر گیا تو میرۓ اراده کو بھانپ کر زمین کی طرف اشاره کیا تو سب سونا چمکتا دکھائی دیا.

ابو سلمان الخواص صوفی کھتا ھے مین ایک مرتبه گدھے پر سوار ھو کر کھیں جا رھا تھا گدھے کو مکھیاں تنگ کر رھیں تھیں میں اسے مارنا چا رھا تھا که گدھے نے مجھے دیکھ کر کھا جتنا مرضی مار لے یه ڈنڈے تیرۓ سر پر بھی لگیں گے.

زرا ابن سبعین صوفی کھا کرتے تھے که پاک نبی ص نے لانبی بعدی کھه کر وسیع چیز کو محدود کر دیا ھے.
ابن کثیر کھتے ھیں ابن سبعین غار حرا میں جا کر اعتکاف کرتے تھے که شاید کھیں ان پر وحی آ جاۓ اور نبی بن کر باھر آ جاۓ.

زوالنون بھی صوفیه کے ولی تھے وه کھا کرتے تھے که الله نے صوفیه کیلۓ ساری کائینات کو مسخر کر دیا ھے.
زولنون کھتے ھیں انھوں نے مگر مچھ کے پیٹ سے ایک بچه نکلوایا تھا.

ابراھیم بن ادھم کھتے ھیں که امام جعفر صادق ع درندوں کو لوگوں کیلۓ راستے سے ھٹا دیتے تھے.

معروف کرخی میلوں کا فاصله چند منٹوں میں کر لتے تھے.

مختصر یه که صوفیه کی داستان بھت طویل ھے اگر سب لکھنے پر آؤں تو پھر سینکڑوں پوسٹ لگانا پڑیں گی.
صوفیه نے آپنے اولیاء کیلۓ ایسے ایسے معجزات و کرامات بیان کیں ھیں که ایسے معجزات انبیاء ع اور اھلبیت ع نے بھی صادر نھیں فرماۓ.

الغرض صوفیه نے واردات کے زریعے خورشید اسلام کو گھنا دیا اور اسلام جو که حقائق مبنی دین ھے .پر اسے صوفیه نے بازیچه اطفال بنا دیا.
جو تصوف کو  شیعه سے جوڑنا چاھتے ھیں وه سچ بیان نھیں کرتے تصوف دوسری صدی ھجری کے نصف اول میں شروع ھوا اور اھلسنت ھی کی صفوں سے نمودار ھوا تھا.
پھر آھسته آھسته اس میں الحاد,شعبده بازی,اور اسلام کے بنیادی عقائد سے انحراف شامل ھو گیا.

                        (جاری ھے)

تصوف اور نظریه حلول کفر و شرک پر عقیده

تصوف ایک باطل عقیده ھے

                    "قسط نمبر:10.            تحریر:  "سائیں لوگ

پوری کائینات کا علم اور لوح محفوظ کا مطالعه کرنے والے صوفیه اس لفظ کے اشتقاق پر اختلاف رکھتے ھیں اور درست مفھوم نھیں جان پاۓ

                           قسط نمبر:10

 بعض کے مطابق صحابہ میں سے جو لوگ اہلِ صفہ کہلاتے تھے، یہ ان کی طرف منسوب ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا ماخذ صفا ہے.
 بعض کے نزدیک صف، لیکن قاعدہ اشتقاق کی رو سے یہ تینوں باتیں غلط ہیں۔ شبلی کہتے ہیں تصوف صوف سے ماخوذ ھے.
 جس کے معنی پشمینہ کے ہیں.

لیکن پشمینی پوش ہونا اس فرقے کی کوئی خصوصیت نہیں۔ علی ہجویری کی رائے ان سب سے مختلف ہے.
 ان کی تحقیق کے مطابق لباس صوف، اہلِ تصوف کا امتیازی نشان تھا۔ اس سلسلے میں وہ مشہور اصحاب رسول کا ذکر کر کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ سب لباس صوف کو محبوب رکھتے تھے.

 شیخ سہروردی بھی اسی خیال کی تاکید کرتے ہوئے حسن بصری کا قول پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ستر اہلِ صفا کو دیکھا تھا (گویا وہ صوفی تھے) جن کی پوشاک صوف تھی.

پھر کشف المحجوب میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ ہمیشہ صالحین اور زہاد اور متقین اور عباد کو صوف کا ہی لباس مرغوب اور مطبوع رہا ہے.
اس کے یہ معنی ہوئے کہ گر عہدِ نبوی کے عزلت نشیں اور زہد پسند بزرگوں کو اولین صوفیاء میں تسلیم کر لیا جائے تو تصوف آسانی کے ساتھ صوف سے مشتق قرار دیا جا سکتا ہے.

مشترقانِ یورپ نے بھی زیادہ تر اسی نظریہ کی حمایت کی ہے.
لیکن تصوف کا لفظ اصل میں ‘سین’ سے تھا۔ جس کا مادہ سوف تھا۔ جس کے معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں.
 دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کا ترجمہ ہوا تو یہ لفظ عربی زبان میں آیا۔

اور چونکہ حضراتِ صوفیا میں اشراقی حکماء (اشراقیت جدید neo-platonism کے صوفیاء) کا انداز پایا جاتا تھا.

 اس لئے لوگوں نے ان کو سوفی یعنی حکیم کہنا شروع کر دیا.
 رفتہ رفتہ سوفی سے صوفی ہو گیا.

 مرکس (merx) کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ لفظ یونانی (sogos) سے پیدا ہوا ہے.
یعنی سوف سے صوف ہوا۔ پھر بعد میں صوفہ ہو گیا۔ علامہ ابو ریحان البیرونی نے اس بات کی تائید کی.
ڈاکٹر نکلسن نے بھی تصوف کو صوف سے مشتق قرار دیا ہے۔ اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایران میں صوفی کو پشمینہ پوش بھی کہتے ہیں اور یہ محض صوف کی رعایت ھے.
100/سو ہجری تک لباسِ صوف کو اسی بنا پر مذہبی عیسوی کا نشان سمجھ کر عرب میں سخت ناپسند کیا گیا. لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں ‘تصوف’ اور ‘صوفی’ اشراقیت جدید سے متاثر ہو کر وارد ہوئے،

 جس بنا پر پہلے پہل صوفی اور تصوف کو عالمِ اسلام میں سخت نا پسند کیا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ انہیں قبول
 کر لیا گیا.

تصوف کو ایک روحانی اور وجدانی مسلک کی صورت میں پھیلانے کی کامیاب کوشش کی گئی.
 اسلام کا تصوف اسلام کا اپنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس تصوف کو اسلامی کرنے میں غزالی جیسے علماء کا ہاتھ ہے.

جنہوں نے عقلیت پسندی کا راستہ مثالیت پسندی سے روکنا چاہا، اور اس میں کامیاب بھی رھے.

تصوف میں عجیب و غریب قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں، مثلاً اکثر صوفیا نظریہ حلول کے قائل ہیں، کے کائنات میں رواں دواں ایک سرمدی ہستی ان میں حلول کر گئی ہے.

 چنانچہ اب کائنات امور وہ سرمدی ہستی انہی میں بیٹھ کر سر انجام دے رہی ہے. یعنی وہ خود کو خدا بتاتے ہیں.

 وہ سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کوئی آسمانی شے ان میں ہمہ وقت موجود رہتی ھے.
خدا ان کے جسم میں تشریف فرما ہے.

 مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی گدھے کا تصور کرے، دن رات گدھے کے مقدس خیال میں ڈوبا رہے، تو کیا وہ گدھا ہو گیا؟ یقیناً نہیں۔ پھر ان تصوف کے نمائندوں کا کہنا ہے کے انہیں کُل کائناتی امور کا بدرجہ اتم علم ہے.
 کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا علم ان کے اندر سما گیا ہے، ہستیِ مطلق نے انہیں کل کائنات کے ہر قسم کے علم کی کنجی تھما دی ہے، اور وہ علم کیا ہے؟ لاتعداد عجیب و غریب واقعات، بے سروپا باتیں، علامات، فرشتوں اور خدا سے ہمکلامی، ملاقات، ولیوں سے شبِ وصل،

 پیغمبروں کی غائبانہ محافل میں دو زانو ہو کر ‘تعلیم’ حاصل کرنا، غرض جنہیں عقل بے ہنگم باتیں قرار دے دے.

 اس پر طرہ یہ کے اس ‘علم’ کو خواص تک محدود رکھا جائے۔ عام نہ کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ.

جس طرح تصوف کی تعریف ناقابلِ یقین ہے، اسی طرح اس کی وجہ تسمیہ بھی اختلافِ خیال کا مرکز بنی ہوئی ہے.
ڈیوڈ  بیریٹ کہتے ہیں:

‘تصوف باطنی اسلام ہے لیکن حقیقت میں اس سے زیادہ کچھ ہے.
صوفیوں نے راسخ العقیدہ مسلمانوں میں احترام اور خوف کا ایک غیر راحت بخش جذبہ پیدا کیا.

صوفی کے لفظ کا مطلب عربی زبان میں ‘صوف نامی کھردرا کپڑا پہننے والا’ بنتا ہے۔۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی مرتض اور باطن پرست بھی کھردرا اونی چغہ پہنا کرتے تھے.

عربی کے ‘صفا’ یعنی پاکیزگی کے ساتھ بھی لفظ صوفی کا تعلق ہوگا.
عبرانی میں ‘عین صوف’ کا مطلب ھے اختتام’ ھے جو ناقابلِ معلوم خدا کیلیے اقبالی اصطلاح تھی.

 قرآن کی صوفی تفسیر باطنی اور تشبیہاتی ھے.
 صوفیا نے تمام چیزوں سے برتر خدا کے شخصی و انفرادی وصال کی خواہش کے ذریعے خود کو رسمی اسلام کی درجہ بندیوں کے کنٹرول سے ماوراء کر لیا.              
                 (جاری ھے)

صوفیه,غالی تشیع اور دجالی عیسائیت میں گھری مماثلت

غالی صوفیه اور دجالی عیسائیت


قسط نمبر :9.         تحریر : سائیں لوگ

ڈاکٹر  زکی مبارک آپنی کتاب,
 التوف الاسلامی فی الادب والاخلاق
میں لکھتے ھیں که غالی صوفیه کے ھاں "حقیقت محمدیه" کا جو نظریه پیش کیا گیا ھے وه نصرانیت کے اصول سے ماخوز ھے .

نصرانی حضرت عیسی ع کو ابن الله مانتے ھیں اور اس سے مراد یه ھے که وه خدا اور وجود کے درمیان واسطه ھیں .

میں برسوں کی سوچ بچار کے بعد اس نتیجه پر پهنچا ھوں که صوفیه نے  آپنے تئیں یه کوشش کی تھی که حضرت عیسی ع کیلۓ عیسائیوں نے جو اعزاز تراشا تھا وه اس اعزاز کو حضرت عیسی ع سے لے کر حضرت رسول خدا ص کو دیدیں جب عیسائیوں نے حضرت عیسی ع کو یه اعزاز دیا ھے تو رسول خدا ص کو اس اعزاز سے کیوں محروم رکھا جاۓ حالنکه آپ ص حضرت عیسی سے افضل ھیں,

اس اعزاز پر ھم پوسٹ نمبر :8 میں مختصرا وضاحت پیش کر چکے ھیں.

چنانچه صوفیه نے یه عقیده آپنایا که رسول خدا ص ھر چیز پر قادر ھیں اور آپکی زات اصل وجود ھے.

اگر آپ نه ھوتے تو کائینات میں کچھ بھی نه ھوتا.
یه روایت سلمان بن عساکر سے مروی ھے.
لوامع انوار الکوکب الدری جلد:1,ص:15.
الخصائص الکبری جلد:1ص:7.
کنزالعمال حدیث نمبر:32025.
الانوار نعمانیی جلد:1,ص243.

اب شیعه عالم علامه محمد حسن جعفری جس نے تصوف اور تشیع میں فرق ,
کتاب کا ترجمه کیا ھے وه لکھتے ھیں حدیث لولاک اس کا متن اور حوالاجات ملتے ھیں .
مگر اسکی اسناد حدیث رجال کے علماء کی تحقیق سے دستیاب نھیں ھو سکی اس بات سے علامه عسکری اور شیخ معتصم سید احمد سوڈانی بھی متفق ھیں.بلکه نھج البلاغه میں عظمت اھلبیت ع کے خطبات میں بھی یه بات پڑھنے کو نھیں ملی.

اس سے معلوم ھوتا ھے که یه نظریه حقیقت محمدیه ص صوفیه کا خود ساخته پرداخته اور عیسائی نظریه کا چربه  ھے .
صفئیوں نے یه نظریه فلاسفه یونان سے لیا تھا.

جنھوں نے قوتوں کو عقول میں تقسیم کیا تھا ظاھری طور پر یه بات قرین قیاس دکھائی نھیں دیتی که صوفیه یونانی فلاسفے سے متاثر ھوۓ ھوں .
لیکن جس کسی نے بھی فلسفیانه افکار کا مطالعه کیا ھے اس کیلۓ اس میں کوئی اچنبا نھیں پایا جاتا.

صوفیه میں یونانیوں اور مصریوں کے کچھ ادھام دانسته یا نا دانسته داخل ھو گۓ ھیں.

اھل یونان یه خیال کرتے ھیں که ھر وقت کا علیحیده علیحده دیوتا ھے اور مصری بت پرستوں کا  اعتقاد تھا که سورج کو ایک دیوتا  یا ایک فرشتے نے اٹھا رکھا ھے اور وه اسے مشرق سے مغرب کی طرف دھکیلتا ھے.
 یهی مصری عقیده تصوف میں بھی پایا جاتا ھے صوفیه کھتے ھیں اولیاء اور صوفیه کی کبھی کبھی سورج پر ڈیوٹی لگا دی جاتی ھے.اور وه اسے کھینچتے رھتے ھیں.

طبقه غلات شیعوں اور صوفیوں دونوں میں پایا جاتا ھے اور باطنی امور ان دونوں کے ملتے جلتے ھیں.

جیسے ڈاکٹر شیبی نے غلو کے پس منظر میں جو علل و اسباب لکھے ھیں ان میں یه واقعه بھی لکھا که پاک نبی ص کے وصال پر حضرت عمر نے بھی غلو کیا اور تلوار لے کر باھر آ گۓ اور کھا جس نے بھی وصال پیغمبر ص کا کھا اس کی گردن اڑا دی جاۓ گی.
 کیونکه آنحضرت عام انسانوں کی طرح نھیں ان پر عام افراد کی طرح موت واقع نھیں ھو سکتی.

یه کیفیت دیکھ کر حضرت ابو بکر نے انھیں سمجھایا اور قرآن کی ایک آیت پڑھی کل نفس زائقةالموت پھر انھیں جا کر کھیں تسلی ھوئی.

حضرت عمر کے اس غالیانه رویۓ سے بعد میں مسلمانوں میں یه رویه عام ھو گیا اور ھر طرف سے معجزات پر کتابیں لکھیں گئیں جن میں یه بتایا گیا که سنگریزۓ آپکے ھاتھ پر تسبیح اور درخت آپ ص سے کلام کرتے تھے.
جھاں تک که ڈاکٹر شیبی خود تسلیم کرتے ھیں.

جھاں تک ھماری تحقیق ھے که امام علی ع اور اولاد علی ع کے متعلق غلو بعد میں شروع ھوا غلو کی شروعات امام علی ع کے مخالفین سے ھوئیں.

جیسے جب جنگ جمل میں حضرت عائشه جس اونٹنی پر سوار ھو کر آئیں تو قبیله ضبه اور قبیله ازد کے لوگ جو حفاظت پر مامور تھے .اور اونٹ کے چاروں طرف حصار بناۓ ھوۓ تھے .
وه اس اونٹ کی مینگنیاں اٹھا اٹھا کر کھتے که کتنی اچھی خوشبو ھے مشک سے بھی زیاده خوشبودار.

جب امام علی ع کے حامیوں نے مخالفین کے اس غلو عمل کو دیکھا تو وه بھلا کیسے پیچھے ره سکتے تھے.
 جبکه مولا علی ع کے حق میں بے شمار مناقب و فضائل بھی تھے چنانچه انھوں نے بھی ان مقدس ھستیوں کی شان میں غلو کرنا شروع کر دیا.

اگر تاریخی حقیقت دیکھی جاۓ تو غالی شیعه بھی برملا امیر شام معاویه ملعون کو کافر اور حضرت عثمان و دیگر منافقوں پر لعنت کرتے ھیں جو موحول کو خراب اور قتل غارت کی طرف لے جاتے ھیں.

بعد میں حضرت مختار ثقفی کے رویۓ سے ان افکار کو فروغ ملا تو کوفیوں نے آئمه اھلبیت ع کو علیحده روح کا حامل ,علم الدنی کا مالک اور صفات الھیه سے متصف قرار دیا.
پھر محمد بن حنفیه رض اور ان کے بعد ان کے فرزند ابو ھاشم آۓ تو انھوں نے علم مخفی سے آئمه اھلبیت ع کو متصف قرار دیا.
انھیں عقائد کی وجه سے حضرت زید  بن امام زین العابدین ع اور محمد بن حنفیه میں اختلاف ھوا.

اور کھا ھر ظاھر کا کچھ نا کچھ  باطن ھوتا ھے .
ابو ھاشم کے بعد محمد بن علی بن عبدالله بن عباس کی ولی عھدی کے بعد منظم غلو کا آغاز ھوا.
                            (جاری ھے)
:کیا بعض صوفیه شیعه تھے

                
قسط نمبر:8.    تحریر:  "سائیں لوگ

اھلسنت کے مشھور مورخ اور بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر کامل مصطفی شیبی جنھوں نے آپنی 
کتاب" الصلة بین التصوف والتشیع "میں
 یه الزام لگایا,

 که تصوف شیعه مذھب کی پیداوار ھے مگر ان کی اس کوشش کو مذھب شیعه کے بلند پایه عالم سید ھاشم معروف الحسنی (لبنان)
نے تار و پود بکھیر کے رکھ دیا.

 پروفیسر شیبی نے حسن بصری کو امام علی ع اور معروف کرخی کو امام رضا ع کے ھاتھوں مسلمان اور باطنی تعلیم دینے کا استاد مانا ھے کیونکه کرخی پهلے مجوسی یا عیسائی المذھب تھا.

صوفی کھتے ھیں معروف کرخی کرامات کے بزرگ تھے اور یه تمام کرامات امام رضا ع کی برکت سے نصیب ھوئیں.

ڈاکٹر شیبی کے علاوه علامه سلمی نے طبقات صوفیه میں ,شعرانی نے آپنی طبقات اور سید محمود ابوالفیض نے جمھرة الاولیاء میں بھی یهی بات نقل کی ھے که یه فیض امام رضا ع سے حاصل کیا.

مگر معروف کرخی نے 200/ھجری میں وفات پائی اور بغداد میں دفن ھوۓ جبکه اس دوران امام رضا ع آپنے والد کی شھادت کے بعد 200/ھجری تک مدینه میں قیام پذیر رھے.

کسی مصنف نے نھیں لکھا که آپ بغداد آۓ ھوں.
بعض صوفیه با یذید بسطامی کو بھی جنھوں نے شرک و کفر کی تمام حدیں کراس کیں ھیں انھیں امام جعفر صادق سے ملاقات جوڑنے کی کوشش کی ھے تاکه تصوف کو ھر ممکن شیعت سے جوڑا جاۓ .

بسطامی نے 261/ھجری میں وفات پائی تیس سال سفر کیا 103/مشائخ کی خدمت کی ,
مگر 148/ھجری میں امام جعفر صادق ع وفات پا گۓ تھے.
احمد محمود صبحی کی کتاب نظریة الامامة.
بسطامی کی عمر 120/سال تھی ساری زندگی چاک و چوبند رھے اگر دیکھا جاۓ تو سات سال بنتے ھیں اس عمر میں ایک بچه کتنا شعور مند ھوتا ھے اور کتنا فیض یاب ھو سکتا دوسرا بسطامی کا ھر دعوی توحید کے رد اور شرکیه ھے.
زوالنون مصری صوفیه کا اسماعیلی فرقه کے چند لوگوں سے اٹھنا بیٹھنا تھا اسے بھی شیعه ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ھے.یه ماھر کیمیا تھا.

جابر بن حیان بھی امام جعفر صادق ع کا شاگرد تھا اور وه شیعه تھا لھذا زوالنون بھی ماھر کیمیا تھا لھذا وه بھی شیعه ھوا
ان لوگوں نے ھر ممکن تصوف کو جھوٹ پر شیعه سے جوڑنے کی سر توڑ کوشش کی ھے مگر صوفیه کا عقیده اھلبیت ع کے عقیده کے بر خلاف ھے.

حسین بن منصور حلاج جو غالی اسماعیلی تھا اور یه شخص شعبده باز تھا اسے بھی شیعه بنانے کی کوشش کی ھے مگر ان لوگوں کو معلوم ھونا چاھیۓ اسماعیلی غالیوں کو شیعه کافر قرار دیتے ھیں.

یه حلول کا عقیده رکھتا تھا اس نے الوھیت اور مھدویت کا دعوی بھی کیا تھا
حسین بن منصور کا مشھور جمله ھے 
انا الحق لیس فی جبتی غیر الله.
یعنی میں حق ھوں اور میرۓ جبے میں الله کے سوا کچھ نھیں.

حلاج نے یه بھی دعوی کیا که میں نے آپنے رب کو آپنی رب کی نگاه سے دیکھا تو میں نے پوچھا تو کون ھے اس نے کھا میں تو ھی ھوں.

حلاج نے کھا تھا که میں نے ھی عاد و ثمود کو ھلاک کیا جیسے غالی کھتے ھیں که مولا علی ع نے عاد و ثمود کو ھلاک کیا .

مختصر یه که حلاج ,بسطامی وغیره عقیده حلول کے قائل تھے جبکه اھلبیت ع عقیده حلول کو کفر قرار دیتے ھیں.

یھی وجه ھے شیعه علما ء نے اس وقت ان کے عقیده حلول پر کفر کا فتوی دیا تھا.

مذید تفصیل کیلۓ اداره مطبوعه جامع تعلیمات اسلامی کی شائع کرده کتاب سیرت آئمه اھلبیت ع جلد دوم کا مطالعه کریں.جسمیں ان شعبده بازوں کا تفصیلی زکر ھے.

ابن عربی کا عقیده بھی شیعه سے جوڑا جاتا ھے حالنکه یه سراسر بھتان ھے.
شیعه آج بھی ان لوگوں سے نفرت اور مشرک جانتے ھیں.

ان صوفیه کا عقیده تخلیق رسول الله ص  غلو پر ھے ابن عربی کھتا ھے سب سے پهلے روح محمد ص کو مدبر کے طور پر پیدا کیا اسکی حرکات کے نتیجے میں دوسری ارواح پیدا ھوئیں.ان ارواح کا وجود عالم الغیب میں تھا.تمام ارواح نے محمد ص کے آنے کی بشارت دی.

ساتھ الله نے تمام انبیاء پر واضح کیا که وجود محمد ص تم سب سے پهلے کا ھے.
وه سائل بھی خود تھا مسول بھی خود داعی بھی اور مجیب بھی خود تھا.عطاکنده بھی عطا حاصل بھی حقیقت محمدیه کو آپنے فیصلے کی صورت میں پایا.پھر اسے شب غیبت میں سے کھینچ لیا.
پھر دن کی شکل دی پھر اس میں سے چشمے دریا جاری ھوۓ پھر عالم کو برآمد کیا تو وه بارش برسانے والا آسمان بن گیا پھر اس کے نور چشم سے جو متصل تھا ایک ٹکڑا جدا کیا پھر جب وه وه ٹکڑا صورت کے  مقابل آیا تو اس سے حضرت  محمد ص کو پیدا کیا.

ابن عربی نے یه نظریه شیعه مذھب کی معتبر کی کتاب اصول کافی کی ایک حدیث سے لیا اسی لیۓ اسے شیعه مذھب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ھے.

که آسمان  و زمین کی پیدائش سے پهلے پاک نبی ص اور حضرت علی ع کو روح بلا بدن  کی شکل میں پیدا کیا.
پھر دونوں کی روح کو جمع کرکے ایک روح بنا دیا پھر وه روح خدا کی تھلیل و تمجید و تقدیس کرتی رھی پھر اسے تقسیم کیا مذید دو روحیں بنائیں اور وه چار ھوگئیں محمد ص علی ع حسن ع حسین ع پھر الله نے ایک اور نور سے فاطمه زاھر س روح بلا بدن کی صورت میں پیدا کیا پھر اس نے ھمیں آپنے دائیں ھاتھ سے مس کیا تو نور چمکنے لگا.

 ڈاکٹر شیبی کھتا ھے اس طرح ابن عربی,کلینی ,اور جیلی کا نظریه یکساں ھے لھذا شیعه اور صوفیه کا عقیده مشترک ھے که نفس محمد ص غیر فانی ھے بلکه غالی شیعوں میں یه نظریه بھی ھے که آئمه اھلبیت ع بھی غیر فانی ھیں یه غالیوں کا اھم عقیده ھے.

حالنکه غالی شیعه اور غالی صوفیه نے حقیقت محمدیه کا جو عقیده پیش کیا ھے.یه اصول اسلام سے متصادم ھے اور اصول دین کے ساتھ عقائد اسلامی کو مسخ کرتا ھے.

یه شیعه اثناۓ عشریه کا نھیں نصیریوں کا عقیده ھے.

کیونکه قرآن نے بڑی وضاحت سے واضح کیا ھے که پیغمبر اسلام ص بھی دوسرۓ انسانوں کی طرح ایک افضل انسان ھیں کھاتے پیتے اور بازار بھی جاتے ھیں.

خدا نے بنی نوح انسان میں سے انتخاب کیا اور انھیں ھر طرح کی ناپاکی سے دور رکھا اور آپنی رسالت عظمی کی تبلیخ کی زمه داری سونپی.

سوره آل عمران ع:144,

سوره کھف ع:110

سوره ق ع:2

سوره جمعه ع:2,

سوره بنی اسرائیل ع:93.

ابن عربی اور پیرو عبدالکریم جیلی کا عقیده ان آیات کے مفھوم سے متصادم ھے.
اور کلینی رح کی حدیث کو درست نھیں سمجھا گیا.
                         (جاری ھے)

بدھ، 26 جون، 2019

تصوف اور اھلبیت علیھم اسلام

تصوف اور اھلبیت ع

                         قسط نمبر :6.    تحریر : سائیں لوگ


ڈاکٹر مصطفی شیبی جو بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر ھیں جنھوں نے تصوف کو شیعت سے نتھی کرنے کی ناکام کوشش کی .
انھوں نے آپنی کتاب الصلة بین التصوف والتشیع میں یه لکھا که صوفیه اھلبیت ع کے ھم مشرب تھے .
چنانچه مشھور صوفی جنید بغدادی کو جو تصوف کے بانیوں میں شمار ھوتے ھیں ان کے خیال که حضرت علی ع جنگوں میں مصروف رھنے کے باوجود بھی ایسے کلمات ارشاد فرماۓ جنھیں لوگ سننے کی طاقت نھیں رکھتے تھے.

 الله تعالی نے انھیں علم,حکمت اور کرامت میں سے وافر حصه عطا فرمایا تھا .

جب حضرت علی ع سے پوچھا گیا که آپ نے خدا کو کیسے پهچانا تو آپ ع نے جواب دیا جب میں نے یه جانا که میں عبد ھوں تو اس سے میں نے اس کے معبود ھونے کو پهچانا اور میں نے جان لیا که وه ایسا معبود ھے که کوئی بھی چیز اس کی مثیل نھیں اور مخلوق کے ساتھ اس کا قیاس نھیں.

جنید بغدادی کے اس اظھار عقیدت پر تصوف کو شیعت سے ڈاکٹر شیبی نے جوڑنے کی کوشش کی.

یه سچ ھے که حضرت علی ع اور اسکی نسل پاک آئمه اھلبیت ع کائینات کے سب سےبڑۓ زاھد تھے لیکن ان کا زھد و اطاعت تقوی صوفیه سے ھٹ کر تھا.

اھلبیت ع کی اطاعت خدا,
 اطاعت  رسول ص کے دائرۓ تک محدود تھی انھوں نے آپنی پوری زندگی غریبوں کی دست گیری کی تھی اور ان کی نظر میں دنیا اس پتے سے بھی زیاده بے وقعت تھی جو کسی ٹڈی کے منه میں ھو اور وه اسے چبا رھی ھو.

اس زھد و اطاعت کے باوجود وه خود بھی رزق حلال کی جستجو کیا کرتے تھے تاکه اس سے وه ضرورت مندوں کی مدد کر سکیں.
آئمه اھلبیت ع ساری زندگی کاھل اور کام چوروں کی مذمت کرتے رھے اور ان کو کام کی ترغیب دیتے رھے.
بلکه رزق حلال کو عبادت قرار دیا مگر صوفیه محنت مشقت کو چھوڑ کر جنگلوں کی طرف بھاگتے ھیں.

کئ صوفیه فرقاقه کو بھی عبادت سمجھتے ھوۓ درختوں کے پتے کھا کر تنھائی میں خلق خدا سے دور ھو کر خدا کو تلاش کرنے  کی کوشش کرتے ھیں.جو سرا سر تعلمیات خداوندی اور معصومین ع کے خلاف ھے.

 جو سراسر سیرت معصومین ع اور تعلیمات خدا کےخلاف ھے.
اگر تنھائی میں جنگلوں میں ره کر خدا کو ڈھونڈھنا ھے تو پھر اس رنگین اور بارونق دنیا کا مقصد فضول ھے.

معصومین ع اچھا کھاتے اور پھنتے تھے جب که صوفیه ایک موٹے کپڑۓ یا جبه میں رھنے کو ترجیح دیتے ھیں.
بلکه چالیس چالیس روز کھانے سے گریز اور کھاتے ھیں تو صرف زنده رھنے کیلۓ,

 عبدالحمن شوستری سے پوچھا گیا آپ کئ کئی کئ دن کھانا نھیں کھاتے وجه ,
جواب دیا الله کا نور میری بھوک مٹا دیتا ھے چالیس روز کے بعد پھر یه صوفیه 72/گھنٹے کی پریکٹس بھی کرتے ھیں. 

پیٹ پر پتھر باندھ کر نعمات خدا وندی سے دور رھتے ھیں جن میں عظمت خدا پوشیدا ھے بلکه سوره رحمان میں سب نعمات خداوندی گنوائیں گئی ھیں .

آئمه اھلبیت ع عورتوں سے نکاح کرتے تھے جبکه صوفیه شادی نه کرکے آپنی جنسی خواھشات کا قتل کرتے ھوۓ الله کے حکم کی عدولی کرتے ھیں .

آئمه ع کسی کے آگے ھاتھ نه پھیلانے والے کو بروز قیامت چودھویں کے چاند کی طرح روشن چھره قرار دیتے ھیں جب صوفیه مریدوں سے نذر نیاز اور ھدیه کے بھانے آستانے پر تاک  لگاۓ بیٹھے رھتے ھیں.

امام علی ع اور دیگر معصومین ع رزق حلال کمانے کو ھرگز معیوب نھیں سمجھتے تھے اور لذت دنیا کو استعمال کرنے کو ممنوع قرار نھیں دیتے تھے.
 البته انھوں نے ھر شخص سے اس بات کا مطالبه ضرور کیا تھا که انسان آپنی انسانیت کے شرف کو برقرار رکھتے ھوۓ دنیا طلب کرۓ مگر انسان کو دنیا طلبی کا آله نھیں بننا چاھیۓ اور نکته نظر یه نه ھو که وه ھر قیمت دولت حاصل کرۓ مگر صوفیه نے جائیدادیں بنائی ھوئی ھیں جتنے بھی مشھور صوفیه یا موجوده گدی نشین ھیں ھزاروں ایکڑ اراضی اور جائدادیں رکھتے ھیں.
موھره شریف,لاثانی سرکار,گولڑه شریف,سلطان باھو,بھاولدین زکریا ملتانی,غلام فرید شکر گنج,وغیره وغیره سب آپنے وقت کے روسا میں سے تھے.

امام علی ع اور آئمه اھلبیت ع نے جو توحید کا تعارف پیش کیا ھے اس میں تصوف کی ھلکی سی بھی تعلیم نھیں جھلکتی آئمه ع کے خطبات توحید صوفیه,غلات,مشبھه اور مجسمه کے عقیده کے بر خلاف ھیں.

جبکه حسین حلاج,شبلی,خطابیه,نصیریه جیسے گمراه فرقوں کے نظریات سے متصادم ھیں.

حضرت علی ع فخر سے کھتے تھے .
انا عبد لمحمد وانا خاصف النعل,
ترجمه:
میں محمد ص کا غلام اور جوتا گانٹھنے والا ھوں.
جبکه صوفی شبلی کھتا تھا میرا مقام شفاعت رسول ص کے مقام شفاعت سے افضل ھے .
امام علی ع نے جس طرح توحید الھی کو بیان کیا وه خطبات توحید نھج البلاغه میں موجود ھیں.
 جبکه صوفیه میں عبدالرحمن سلمی کھتے ھیں خدا کرۓ وه آنکھ اندھی ھو جاۓ جو مجھے دیکھے کیونکه میرۓ اندر غیر معمولی آثار قدرت ھیں.
صوفیه عقیده حلول,اتحاد,تناسخ کے قائل ھیں اور آپنے کو رب اور آپنے نام کے کلمے پڑھاۓ ھیں بلکه صوفیه میں سے یذید بسطامی کھتے تھے آۓ الله پهلے میں تجھے پکارتا تھا اب تو مجھے پکارتا ھے.اب تو میرۓ اندر آپنی صورت دیکھ جبکه پهلے میں تجھ میں آپنی صورت دیکھتا تھا.

صوفیه کے شطحات سے خدا کی وحدانیت اور اس کے اسماء و صفات بھی محفوظ نھیں ھیں.
صوفیه کے مذید کفر اور مشرکانه حقائق جاننے کیلۓ ھم سے جڑۓ رھیۓ.

                          (جاری ھے)

پیر، 24 جون، 2019

تصوف آور تشیع

 :تصوف کی حقیقت

                                    قسط نمبر:5.         تحریر : سائیں لوگ


بدقسمتی سے ھم نے کل اور آج دو پوسٹ تصوف اور اھلبیت ع پر لکھیں مگر دونوں ھی نیٹ کی خرابی کی نذر ھو گئیں.

انشاءالله کل پھر اھلبیت ع اور تصوف پر لکھیں گے آج یه پوسٹ ملحاظه فرمائیں.

دین کا معاملہ یوں ھے کہ جب بهی کوئی چیز بیان ہو گی تو اس کا ماخذ پوچها جائے گا.
ایک عالم آپ کو کہتا ہے نماز فرض ھےآپ پوچهتے ہیں کہاں بیان ہوا کہ فرض ہے…وه آپ کو بتائے گا کہ قرآن میں بیان ہوا..آپ کہتے ہیں قرآن نے توصرف کہا ہے نماز قائم کرو یہ جو آپ نماز بتا رہے ہیں اس کا تو قرآن میں کوئی ذکرنہیں ھے.

وه بتائے گا کہ قرآن محمد مصطفی ﷺ پر اتری اور انہوں نے یہ نماز پڑھ کرسکهائی بهی اور بتائی بهی….آپ پوچهتے ہیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وه ایسی نمازتهی.
وه بتائے گا کہ یہ نماز رسول اللہ ﷺ پڑهاتے تهے…ان کو ہزاروں لوگوں نےپڑهاتے ہوئے دیکها تها .

اور ان کے ساتھ یہ نماز پڑهی تهی…پهر ان لوگوں نے اس نمازکو بالجمیعت نہ صرف امت کو منتقل کیا بلکہ اس کی ایک ایک تفصیل کتابوں میں بهی نقل کر دی……
یہ علم اور دلیل کی دنیا ھے.
 یہ آیت ہے  اس کا مفہوم ھے.
یہ اس کا شان نزول ہے یہ اس کے مخاطبین ہیں..
یہ فلاں حکم ہے اس کا حوالہ قرآن اور محمد رسول اللہ تک پہنچایا جائے گا اور مستند طریقے سے پہنچایا جائے گا تو وه دین قرار پائے گا.

صوفیاء کے یہاں ایسا نہیں ہے….صوفیاء نے جب اپنا فلسفہ کلام مرتب کیا تو اس پر سوال اٹهے….کہ بهئی یہاں تک تو معاملہ ٹهیک تها کہ دین کو اس کےباطن میں دیکهنا چاہیے…بندے کو خدا کے ساتھ ایک تعلق استوار کرنا چاہیے زہد وتقوی کی کوشش کرنی چاہیے…باطنی رزائل سے دور ہونا چاہیے…لیکن یہ جو آپ نے پوراایک فلسفہ بیان کیا کہ صوفیاء کی توحید عوام سے الگ ہے….ان کے نبوت کا کانسیپٹ الگ ہے…ان کا عرش سے براه راست رابطہ ہے…..ان کے پاس لوح محفوظ پڑهنے کی صلاحیتیں ہیں…
یہ آپ نے کہاں سے حاصل کیا؟ تو وه جواب دیتے ہیں.

ابوالقاسم عبدالکریم القشیری اپنی کتاب قشیریہ میں لکهتے ہیں 
اِس راہ کے سالک کو یہ سارا عالم اُس کے اپنے ہی نور سے روشن دکھائی دیتا ہے ، یہاں تک کہ اُس کی کوئی چیز اُس کی نگاہوں سے چھپی نہیں رہتی۔ وہ آسمان سے زمین تک یہ ساری کائنات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے ۔ ہاں ، مگر دل کی آنکھوں کے سامنے .
(ترتیب السلوک 67)
ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہےاُن کے علم کی شان یہ ہوتی ہے کہ اُن میں سے کوئی اگر کسی شخص کا نقش قدم بھی دیکھ لے تو اُسےمعلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اہل جہنم میں سے یا اہل جنت میں سے .

ابن عربی مواقع النجوم” میں لکھتے ہیں…
”صوفیوں میں سے وہ بھی ہیں ، جن کی نگاہیں ہمیشہ لوح محفوظ ہی پر لگی ہوتی ہیں۔ 

شاه ولی اللہ “فیض الحرمین” میں اپنے بارے میں لکهتے ہیں.
‘میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے قائم الزماں کے منصب پر فائزکیا گیا ہے ۔ اِس سے میری مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نظام خیر میں سے کسی چیز کا ارادہ کریں گے تو اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے آلۂ کار مجھے بنائیں گے.

ایک تو دین ہے اور اس کے ماخذ ہیں…اور ایک یہ لطائف فنا و بقا ھیں جو صوفیاء کا ایک مکمل فلسفہ حیات ہے….ان کے بارے میں ان کا استدلال ہے کہ یہ براه راست وہیں سے ہم اخذ کرتے ہیں جہاں سے فرشتے اور انبیاء اخذ کرتے ہیں…ایک تو یہ مکتبہ فکر ہے…ان کی تحاریر پر جب اعتراض ہوتا ہےتو کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے اپنے مشاہدات ہیں جو عوام سے تعلق نہیں رکهتے اور عوام سمجھ بهی نہیں سکتی….
اب اس علم کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچائیں گے تو بات بنے گی…کیسےپہنچاتے ہیں؟صوفی ڈسکورس میں علم تصوف کے سند کا اتصال جسے کم و بیش ہر جگہ نقل کیا گیا هے وه یوں ہے…کہ یہ علم یعنی حقیقت الحقائق تک پہنچنے کا علم رسول اللہ ﷺ سے کیسے منتقل ہوا.

وہ کہتے ہیں یہ علم رسول اللہ ﷺ سے ان کی صحبت کے انوار وبرکات کی وجہ سے صحابہ کرام کو خود بخود منتقل ہوا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اسکے امین ٹھہرے…پهر ان سے خواجہ حسن بصری نے حاصل کیا….
لیکن یہاں محدثین نے اعتراض کیا کہ خواجہ حسن بصری کی تو ان سےملاقات ہی ثابت نہیں ہے….اب کیا کیا جائے؟ یہ سوال قائم رہا حتی کہ تصوف کے آخری بڑے عالم شاه ولی اللہ نے پهر اس کا ایک بالکل دوسرے زاویے سے جواب دیا…
وه اپنی کتاب “الطاف القدس” میں لکهتے ہیں کہ یہ علم سب سے پہلے سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی نے حاصل کیا اور رسول اللہ ﷺ ہی سے حاصل کیا..لیکن کیسے حاصل کیا اس کے لیے وه ایک مثال دیتے ہیں.

وه کہتے ہیں جس طرح خربوزه اپنی نشوونما کے لیے سورج کا محتاج ہوتا ہے اور اپنی نشو ونما کے لیے سورج سے کسب فیض کرتا ہے لیکن اس طرح کہ نہ تو سورج کو پتہ ہوتا ہے کہ وه زمین میں خربوزے کی نشو ونما کر رہا اور نہ ہی خربوزے کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ نشو ونما سورج نے کی ہے….یہ علم جنید بغدادی نے اسی طرح محمد ﷺ رسول اللہ سے حاصل کیا جس طرح خربوزے نے سورج سے فیض حاصل کیا….
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا هے کہ پهر پتہ کیسے چلا کہ یہ علم حاصل ہو گیا…تو شاه صاحب اس کا بهی جواب دیتے ہیں.

وه کہتے ہیں یہی طریقہ ہے جس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے…جب خدا زمین پر اپنا پیغمبر اتارتا ہے تو اس سے دو طرح کے علوم صادر ہوتے ہیں ایک وه علم ہے جو شعوری ہے اور جسے پیغمبر کی شریعت کہا جاتا ہے اور ایک علم وه ہےجو اس کی ذات سے صادر تو ہوتا ہے لیکن اسے نہ خود اس کی خبر ہوتی ہے اور نہ فیضیاب ہونے والے کو…البتہ کائنات میں جو ذکی طبعیتیں ہوتی ہیں وه اس عنایت کو پہچان لیتی ہیں..لیکن یہاں کوئی پیغام و کلام بیچ میں نہیں آتا.

( گویا خود نبیﷺ ذکی طبیعت نہیں ھوتے کہ ان کو خبر نہیں ھوتی کہ ان سے کیا صادر ھو رھا ھے ، نبی سے بھی ذکی طبیعتیں ھو سکتی ھیں . )
یعنی بات یوں ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدور میں یہ آپ کی صحبت ہی سے حاصل ہو جاتا تھا، لیکن آپ کے بعد جب اِس کا حصول لوگوں کے لیے مشکل ہوا تو یہ ارباب تصوف تھے جنھوں نے اپنے اجتہاد سے اِس کے طریقےدریافت کیے ، اور بالآخر ایک فن کی صورت میں اِسے بالکل مرتب کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جسے ہم طریقت کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں.

تصوف آور اسلام

:تصوف اور اسلام 

                              " قسط نمبر :4.       تحریر   "سائیں لوگ


ایک محقق جب بھی تصوف پر بحث کرتا ھے تو اس کیلۓ سب سے پهلی مشکل یه ھوتی ھے که لفظ تصوف کا ماده اشتقاق کیا ھے جس سے یه لفظ وجود میں آیا اور ایک نیا فرقه نمودار ھوا.

 جس نے ابتدائی دور میں وه عقائد و افکار پیش کیۓ جو عامة المسلیمین کے ھاں رائج نھیں تھے.

   “تصوف” درحقیقت“ صوف” سے ہے اور “صوف” کے معنی پشم( اون)  ہیں.

۔یہ ایک ایسا مکتب ہے جس کی بنیاد صوفیوں یا پشمینہ پوشوں نے ڈالی ہے جو معنوی خود سازی اور ظواہر دنیوی سے دوری کا دعوی کرتے ہیں.

 اور پوری تاریخ میں اس طرز تفکر کے گونا گوں فرقے پیدا ھوئے ہیں۔ “ تصوف” کی تعلیمات کو نہ کلی طور پر قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ سو فیصدی مسترد کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی تعلیمات “ صحیح دینی تعلیمات” اور“ غلط سلیقوں کی بدعتوں” پر مشتمل ایک ترکیب ہے.

یہ ترکیب غلط ہے افسوس کہ اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ خود سازی کے مراحل سے گزر کر قرآن مجید کے مطابق صحیح دینی تعلیمات پر عمل کرنے والوں پر، بعض سطحی فکر رکھنے والوں اور ظاہر بینوں کی طرف سے درویش مآبانہ تصوف کا الزام لگایا جاتا ہے.

 لیکن امام خمینی رح  کے بیانات اور اس نظریہ کے بارے میں ان کے موقوف کی تحقیق کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ جس قدر امام خمینی معنوی خودسازی پر تاکید فرماتے ہیں اسی قدر موصوف صوفی نما افراد اور ان کی بدعت پر مشتمل تفکرات کی شدید تنقید کرتے ہیں.

اگر ھم اسکی مکمل تشریح اور صوفیه کی صف بندی پر کھوج لگائیں تو تحریر طول پکڑ جاۓ گی مگر ھم اختصار کا دامن ترک نه کرتے ھوۓ طولانی تحریر جو قاری کیلۓ بوجھ یا پھر نه پڑھنے کی زحمت بن جاتی ھے کوشش کریں گے که جامع اور مختصر لکھا جاۓ.

اگر میں تصوف کی مکمل تشریح بیان کرنا چاھوں تو کئی پوسٹ لکھنی پڑیں گی.
لیکن آپ نے مختصر تشریح میں بھت کچھ سمجھنے کی کوشش کرنی ھے.

لفظ تصوف کے ماده اشتقاق کو تلاش کرنا ایک مشکل معامله ھے اور آج تک صوفیه بھی اسے تلاش کرنے میں کامیاب نھیں ھو سکے.
سیر حاصل تشریح کیلۓ عبدالله بن علی سراج کی اللمع فی تصوف اور علامه ابن جوزی کی "تلبیس ابلیس"کا مطالعه فرمائیں جو بنده نا چیز کے مطالعه سے گزر چکی ھیں.

بعض مولفین اس بات سے اکتفا کرتے ھیں صوفی کا لفظ سب سے پهلے حسن بصری کی زبان سے ادا ھوا ھے.
لیکن کوئی مستند دلیل موجود نھیں.

اگر صوف جسے ریشم کا کرته کھتے ھیں پهننے کی وجه سے اس گروه کا لقب ھے تو پھر اسے اسلام سے قبل بھی ھونا چاھیۓ تھا کیونکه یھود و نصاره کے راھبان و احبار بھی یه لباس پهنا کرتے تھے.

اس عنوان پر خامه فرسائی کرنے والے جمله مولفین اس بات پر متفق ھیں که تصوف ایک فرقے کے طور پر دوسری صدی ھجری یا وسط یا آخر میں منظر عام پر آیا ھے.

عبالقادر سھروردی کی بھی یهی راۓ ھے.
عوارف الموارف ص:59.

کچھ لوگوں کا خیال ھے صوفی صف سے مشتق ھے کیونکه یه لوگ آپنی بلند ھمتی,اخلاص اور قلب اور خدا کے رازوں کے امین ھوتے ھیں اس لیۓ انھیں صوفی اور صوفیه کھا گیا ھے.

لیکن بعض مولف اسے صفویین سے جوڑتے ھیں جو پھر آھسته آھسته صوفی ھو گیا.

کچھ اسے پهلے ابتدا میں لفظ صفوی سے جوڑتے ھیں جو بعد میں صوفی بن گیا.
کچھ اسے اصحاب صفه کی طرف لے جاتے ھیں.جو دور دراز سے مسلمان آۓ اور مدینه میں ٹھرنے والی جگه پر چبوتره بنایا گیا اسے عربی زبان میں صفه کھتے ھیں.

اسی لیۓ ان اصحاب کو اصحاب صفه کھتے ھیں.ان کا زکر قرآن میں آیا ھے.
سوره بقره ع:273,

جھاں تک لفظ صوفیه کا تعلق ھے تو یه اسماء و صفات کا جامع نام ھے.

لفظ صوفیه کی وجه تسمیه جو بھی ھو مگر یه حقیقت ھے که صوفی گروه آپنی تعلیم کے لحاظ سے باقی امت سے جدا ھے یه لفظ اس وقت داخل ھوا جب مسلمانوں میں اجنبی عناصر شامل ھوۓ.

حسن بصری کھتے ھیں که میں نے ایک صوفی کو طواف کرتے دیکھا تو میں نے اسے کچھ رقم دینا چاھی اس نے کھا میرۓ پاس چار دوانیق موجود ھیں لھذا مجھے تمھاری اس سخاوت کی ضرورت نھیں ھے.

ثفیان ثوری کھتا ھے دنیا میں ابو ھاشم صوفی نه ھوتے تو میں ریاکاری کی باریکیاں نه جان سکتا.

عبدالله بن علی سراج نے ایک کتاب لکھی اس میں انھوں نے محمد بن اسحاق بن یسار سے روایت نقل کی که میں مکه میں داخل ھوا تو ایک صوفی دور سے مکه آتا اور کعبه کا طواف کرکے لوٹ جاتا تھا.

بصری اور اس روایت میں لفظ صوفی استعمال ھوا ھے یه درست ھی نھیں کیونکه ماقبل اسلام لفظ صوفی تو تھا ھی نھیں.

اگر پشمینه پوشی کی وجه  سے صوفی کھا جاتا ھے تو پھر بھت سے انبیاء و اصحاب بھی پشمینه پوش تھے اصحاب بھت زاھد بھی تھے انھیں صوفیه کیوں نه کھا گیا.انھوں نے صوفی کی بجاۓ لفظ صحابی کو ترجیح کیوں دی.

استاد عبدالرحمن بدوی تاریخ تصوف میں لکھتے ھیں یه درست نھیں که پهلی یا دوسری صدی میں لفظ صوفی رائج ھوا ھےیه بات البیان والتبیین اور رساله قیشریه میں بھی مرقوم ھے.

ابن جوزی کھتے ھیں ایک جماعت دوسری صدی میں پیدا ھوئی وه زھد و عبادت کی شیدائی بن گئی اور دنیا سے تعلق نه رکھتی تھی وه لوگ غوث بن مره کے مشابه بن گۓ.پھر ان کے پیروکاروں کو یعنی متصوف کو بھی صوفیه کھنے لگے.

لیکن ھندوستان ایران سے بھی اس کا تعلق جوڑتے ھیں که صوفیه کا تعلق ان جوگیوں سے ھے جو ننگ دھڑنگ ایک صحرائی بوٹی پر گزاره کرتے تھے اور کم قیمت نباتات سبزیات کے مقابلے میں زیاده پسند تھی.
بعض اس بوٹی کو صوفانه بھی کھتے ھیں.اسی کی نسبت انھیں صوفی کھا جاتا ھے.
کچھ محقق اسے یونانی لفظ سوفس یا سوفیا سے بھی مشتق کرتے ھیں.

پروفیسر نیکل سن (Nicholson) کھتے ھیں که متصوف کو فارسی میں پشمینه پوش کھتے ھیں یعنی اونی لباس پھننے والا.
قدیم مسلمان زاھد قسم کے افراد موٹا کھردرا لباس پھنتے تھے انھوں نے یه لباس عیسائی راھبوں کی پیروی میں پهنا تھا.

ماسینیو کے بقول لفظ صوفی کا اطلاق دوسری صدی ھجری کے وسط میں شروع ھوا.صوفی کا لفظ صرف اھل کوفه کیلۓ مخصوص تھا.
99/ھجری میں اسکندریا میں ایک چھوٹا سا فتنه پیدا ھوا جس کے بعد صوفی جمع صوفیه کا لفظ منظر عام آیا جب لفظ صوفی کو پچاس برس گزرۓ تو پھر تمام زاھاد  کو صوفیه کھا جانے لگا.

یه ایک حقیقت ھے که لفظ صوفی کے معنی یا ماده اشتقاق کو تلاش کرنا مشکل کام ھے میری نظر میں یه سب آرا حدس اور استحسان پر مبنی ھیں عوارف الموارف میں ان پر بحث قیاس آرائی پر کی گئی ھے.

ھماری نظر میں لفظ صوفی  اور صوفیه کے متعلق قریب ترین احتمال یهی ھے که سابقه ادیان کے بھت پیروکاروں نے ترک دنیا کی اور انھوں نے اونی لباس کو آپنا شعار بنایا اور ان پوشوں میں بدھ مت ,مانوی,زرتشی,اور عیسائی راھب شامل تھے

 میں خود (Saieen Loag)عرصه دراز سے عیسائی,بدھ مت اور ھندوں میں ره رھا ھوں تو اس بات کا میں خود چشم دید گواه ھوں که یه رھبانیت اور ترک دنیا اور جنگلوں میں ریاضت کا تصور ھمارۓ صوفیه نے انھیں قوموں سے لیا ھے

 سری لنکا میں دور دراز پھاڑوں اور جنگلوں میں باقاعده مراکز قائم ھیں جھاں سال کا زیاده عرصه لوگ جا کر دنیا کے اغراض و مقاصد سے لا تعلق ھو کر صرف الله تعالی کی طرف لو لگا کر أنکھیں بند کرکے آپنے مذھب کے مطابق چلتے ھوۓ اور سجده کی حالت میں مختلف طریقوں سے عبادت کرتے ھیں.

 گوشت نھیں کھاتے سبزیات اور درختوں کے پتوں کو ترجیح دیتے ھیں سب کچھ توکل الله کرتے ھیں بلکه میرۓ ایک دوست ھیں وه ھر سال آسٹریلیا کے شھر ایڈیلیڈ کے جنگلوں میں جا کر ایک ماه کیلۓ گمنام عبادت و ریاضت کرتے ھیں.

 یه بدھ ازم میں ھے ھندو اور عیسائی بھی ملتے جلتے ایسے ھی عبادت کرتے ھیں.
چونکه یه بھت قدیمی مذاھب ھیں ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں بھی اون پوش طبقه وجود میں آیا ,
مگر یه لوگ اھلبیت ع کے علم و حکمت سے متاثر ھو کر ان کو زیر اور انکی علمی اھمیت ختم کرنے کیلۓ مقابل کے طور پر ابھرۓ .

کیونکه  تنھائی کی عبادت و ریاضت اور روحانی بیداری سے انسان مراقبه کی منزل پر پهنچ کر یه تمام خوبیاں حاصل کر سکتا ھے.
ان کا دل بینا ھوجاتا ھے وه وه سب کچھ کر اور دیکھ سکتے ھیں جو عام انسان نھیں دیکھ پاتا.

جو یه سب کچھ اپنی دنیاوی شھرت و فائده کیلۓ کرتے ھیں پھر یه شیطانی عمل بن جاتا ھے مگر اس منزل پر آ کر اکثر صوفی گمراه ھوۓ ھیں مرزا غلام احمد ,گوھر شاھی یوسف کذاب فیصل آباد کے مھدی معود بھاولپور کے یونس جنھوں نے نبوت کا دعوی کیا ھے حال میں بلکه ھزاروں مشاھدات موجود ھیں.

ان صوفیه کے جھوٹے اور گمراه کن دعووں پر ھم تفصیلی روشنی ڈالیں گے تو یه سب کچھ جاننے کیلۓ براه کرم ھم سے جڑۓ رھیے.
  
سابقه ادیان قدیمی کے دیکھا دیکھی مسلمان  صوفیه کا باقاعده ایک گروه فرقه وجود میں آ گیا جس کا سلسله آج تک جاری ھے.
مگر جن کی منزل قرب الھی اور تعلیمات اھلبیت ع پر عمل کرتے ھوۓ دنیا سے لا تعلق نه ھوتے ھوۓ عبادت و ریاضت کرنا ھے ان صوفیه کی اسلام میں گنجائش ھے
آنے والی پوسٹوں میں وضاحت پیش کی جاۓ گی.

لیکن ایک بات واضح ھے که موجوده تصوف ان سابقه ادیان اور انکی عادات کا پهیلاؤ ھے.
 ان سابقه ادیان کے چربے نے تصوف کی شکل اختیار کی جس نے اسلامی مملکت کے اکثر شھروں کو آپنی لپیٹ میں لے لیا ھے.

        (لفظ صوفیه پر بحث جاری ھے)

ہفتہ، 22 جون، 2019

صوفیه کی مذمت فرامین معصومین علیھم اسلام کی روشنی میں. قسط نمبر:3

:

صوفیه کی مذمت کلام معصومین ع کی روشنی میں

                         " قسط نمبر:3.          تحریر : "سائیں لوگ

صوفیه کی مذمت میں آئمه طاھرین علیھم اسلام کے اس قدر فرامین ھماری مستند کتابوں میں موجود ھیں که جن کا عدو احصا مشکل ھے.
 پر یھاں بطور نمونه دو چار ارشادات پیش کیۓ جاتے ھیں.

علامه مقدس اردبیلی آپنی جلیل القدر کتاب حدیقة القدر الشیعه میں با سناد خود رقم ھیں که حضرت امام جعفر صادق ع کی خدمت میں عرض کیا گیا که زمانه حاضره میں ماضی قریب میں ایک قوم پیدا ھوئی ھے جسے صوفیه کھا جاتا ھے آپ اس بارۓ میں کیا فرماتے ھیں

 فرمایا انھم ادائنا.ھم عربی متن کی بجاۓ اردو ترجمه پیش کرتے ھیں:

لاریب یه لوگ ھم اھلبیت و رسالت ع کے دشمن ھیں پس جو شخص انکی طرف مائل ھو اور ان سے محبت رکھے وه بھی ان میں سے شمار ھو گا اور وه ان کے ساتھ محشور ھو گا.

فرمایا بھت جلد ھی کچھ ایسے لوگ پیدا ھوں گے جو ھماری محبت اور دوستی کا دعوی کریں گے.
 اور باوجود اس کے وه صوفیوں کی طرف مائل ھوں گے لباس اور اس لقب میں ان کی مشابھت اختیار کریں گے اور ان کے کافرانه اور مشرکانه اقوال کی تاویل کریں گے.
 لھذا وه ھم میں سے نھیں ھوں گے ھم ان سے بیزار ھیں جو شحص ان کی نفرت اور انکار کرۓ گا.

اور جو ان کے اس خیالات کی تردید کرۓ گا اس کا ثواب ایسے شخص کی مانند ھو گا جس نے نبی ص کے ھمراه جھاد کرنے کا شرف حاصل کیا ھے.

(حدیقة الشیعه ص:562/563 طبع جدید)

حضرت امام جعفر صادق علیه اسلام نے یه فرما کر کھا که :
الصوفیه لکھم من اعدائنا و طریقتھم مبائینه بطریقتا.
ترجمه: سب صوفی ھمارۓ دشمن ھیں اور ان کا طریقه ھمارۓ طریقه کے مغائر و منافی ھے .

مولا صادق ع کے اس فرمان نے ان کے مکروه چھره کو بے نقاب کر دیا ھے.

نیز جناب مقدس اردبیلی حضرت شیخ مفید کے حوالا سے یه واقعه نقل کرتے ھیں که امام علی نقی ع مسجد نبوی ص میں آپنے اصحاب کے ھمراه تشریف فرما تھے که اچانک صوفیوں کا ایک گروه وارد ھوا اور مسجد نبوی ص میں ایک طرف دائره کی شکل میں بیٹھ کر تھلیل (لااله الاالله)
کا ورد کرنے میں مشغول ھو گیا تو آپ نے فرمایا ان فریب کاروں کی طرف توجه نه کرو یه شیطان کے خلیفے ھیں.

یه صوفیوں کا پست ترین گروه ھے اور تمام صوفیه ھمارۓ مخالف ھیں اور ان کا راسته ھمارۓ راستے سے جدا ھے اور یه اس امت کے نصاره اور مجوسی ھیں .

حدیقة الشیعه ص602,

تصوف اور تشیع طبع لبنان.

بعض اخبار و آثار سے واضح آشکار ھوتا ھے که خود بانی اسلام ص نے ان بد عقیده و بدعمل گروه کی پیدائش کی پیشگوئی فرما دی تھی.

چنانچه محدث شیخ عباس قمی حضرت شیخ بھائی رح سے روایت کرتے ھیں که پیغمبر اکرم ص نے فرمایا که قیامت سے پهلے  میری امت میں ایک جماعت پیدا ھوگی .

جس کا نام صوفیه ھو گا اور زکر کیلۓ حلقه بنا کر بیٹھیں گے اور آواز بلند کریں گے.
 وه درحقیقت میری امت سے نھیں ھوں گے بلکه وه یھود سے شمار ھوں گے اور وه کفار سے بھی بدتر ھوں گے.

 اور جھنمی ھوں گے اور گدھوں کی طرح آوازیں بلند کریں گے.

سفینة البحار جلد:2,ص:58.
مذید آپ "تشیع اور تصوف میں فرق"
 میں تفصیلی ملحاظه فرما سکتے ھیں.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...