Saieen loag

اتوار، 27 نومبر، 2022

بابا بلھے کی مکمل حالات زندگی

 بابا بلھے شاہ کی مکمل تاریخ 

صوفی شاعر اور فلسفی گزرے ہیں۔  آپ 3 مارچ

 1680ء میں پنجاب کے قدیم تاریخی شہر بہاولپور کے گاؤں اوچ گیلانیاں میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اپنے معلم والد گرامی سخی شاہ محمد درویش سے حاصل کی۔ 

ایک انگریز افسر سی ایف آسبورن نے حضرت بلھے شاہ کی زندگی اور شاعری پر ایک کتابچہ جس میں ان کا سن پیدائش 1680اور سن وفات1753 بتائی ہے۔ 

حضرت بابا بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا ھے۔ حضرت بلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ھے کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے ۔ روایت ہے کہ بعض برے حالات کی وجہ سے وہ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنادیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ روایت ہے کہ موضع پانڈوکے  کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی ملک وال میں بیاہی ہوئی تھی وہ ملک وال میں حضرت بلھے شاہ کے والد سید سخی سے ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈوکے کی مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی اس فرمائش پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈوکا میں بمعہ خاندان کے منتقل ہوگئے۔ 

پانڈوکے لاہور سے اٹھائیس کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا حضرت بلھے شاہ کے زمانے میں تھا۔ گاﺅں کے وسط سے قدرے ہٹ کےحضرت بلھے شاہ کا موروثی گھر ہے جس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ایک بڑا سا طویلہ ہے جسے دو تین کمروںمیں تقسیم کیا گیا ہے اس میں 103 سالہ متولی درباری رہتا ہے جو بلھے شاہ کے خاندان کے بارے میں بہت سی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس نے بڑوں سے سنی تھیں۔

حضرت بلھے شاہ کی وجہ سے یہ گمنام قصبہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے اس کی اہمیت کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ یہاں حضرت بلھے شاہ کی جوانی کا کچھ حصہ بسر ہوا تھا، یہاں وہ مسجد بھی موجود ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے اور جس کی تعمیر پانڈو خاں نے کی تھی حضرت بلھے شاہ اور اس کی دونوں بہنوں نے شادی نہیں کی تھی اس لئے اس کے خاندان کا کوئی وارث نہیں ہے پانڈو میں ایک چھوٹا سا عماراتی کمپلیکس ہے۔ قدرے بلند جگہ پر ایک بڑا سا ہال ہے جس کے اندر تین قبریں ہیں، درمیان کی قبر حضرت بلھے شاہ کے والدہ کی ہے جس کا نام فاطمہ بی بی تھا اس کے دائیں اور بائیں اس کی دو بہنوں صغراں بی بی اور سکینہ بی بی کی قبریں ہیں ۔حضرت بلھے شاہ کی مسجد کے عقبی جانب ایک سبز گنبد ہے جس کے نیچے بلھے شاہ کے والد دفن ہیں ۔ اس سے ملحقہ پانڈوکے خاں کی مسجد ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے۔ مسجد کے احاطے میں چھوٹی اینٹ کا بنا ہوا ایک خستہ سا کنواں ہے سنا ھےکہ وہ کنواں آج بھی جاری ہے

حضرت بلھے شاہ پانڈوکے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے ایک اجنبی سکھ گھوڑے پر سوار پانڈوکے میں سے گزررہا تھا کہ اہل دیہات نے اعتراض کیا کہ وہ گھوڑے سے نیچے اتر کر گاﺅں میں سے گزرے۔ اس بات پر تکرار شروع ہوگئی حضرت بلھے شاہ نے مصالحت کرانے کی کوشش کی تو اہل دیہات نے حضرت بلھے شاہ پر پتھراﺅ شروع کردیا، اس سکھ اور حضرت بلھے شاہ نے ایک قریبی گاﺅں دفتور کے گردوارے میں جان بچائی۔ بعد میں سکھوں نے پانڈوکے پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ اہل دیہات نے حضرت بلھے شاہ کی منت سماجت کی کہ وہ اپنے گاﺅں واپس آجائے لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ 

پانڈوکے آج بھی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ گاﺅں کے درمیان ایک چھوٹی سی نیم پختہ گلی ہے جس کے اردگرد کچے پکے مکان ہیں، چند ایک دکانوں کے علاوہ وہاں کوئی کاروبار نہیں ہے، آج کے پانڈو کے اور حضرت بلھے شاہ کے پانڈوکے میں کوئی فرق نہیں ہے۔

حضرت بلھے شاہ ایک امام مسجد کی واحد نرینہ اولاد تھے۔ اس لئے اپنے باپ کی گدی سنبھالنی کوئی مشکل نہیں تھی لیکن وہ کسی اور راہ کے مسافر تھے۔

 حضرت بلھے شاہ کے والد نے انہیں چرواہا بنایا لیکن حضرت بلھے شاہ کو یہ پیشہ منظور نہیں تھا۔ حضرت بلھے شاہ کی اپنے والد کے خلاف یہ بغاوت تھی وہ مسجد کا امام بھی نہیں بنناچاہتے تھے۔

وہ مذہب کو اپنے وجدانی تجربے کے ذریعے دریافت کرناچاہتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک مرشد کی تلاش میں قصور چلے گئے۔اس زمانے میں قصور کا حاکم ایک پٹھان نواب تھا جس کی بداعمالیوں کی وجہ سے قصور ایک بے برکت شہر تھا جہاں بد امنی تھی 

حضرت بلھے شاہ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کیلئے قصور بھیج دیا گیا جہاں وہ اس علاقے کے مشہور عالم حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے جن سے حضرت بلھے شاہ نے مذہبی تعلیم کے علاوہ عربی فارسی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ حافظ غلام مرتضیٰ سے حضرت بلھے شاہ کے علاوہ وارث شاہ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ روایت ہے کہ حافظ غلام مرتضیٰ نے ان دونوں کے بارے میں کہا تھا۔

 مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں، ان میں ایک بلھے شاہ ہے جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑ لی دوسرا وارث شاہ ہے جو عالم بن کے ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا۔

قرآن و حدیث، صرف و نحو، منطق، فقہ، گلستان بوستان اور بہت سے علوم حاصل کرنے کے بعد مزید علم حاصل کرنے پر سکون قلب کی خاطر اللہ کی تلاش کو فوقیت دی۔ آپ علم بغیر عمل کو ناپسند فرماتے۔ آپ عقیدہ وحدت الوجود پر پکا یقین رکھتے تھے۔

آپ نے اپنے وقت کی تعلیمی زبانوں عربی اور فارسی پر مکمل دسترس کے باوجود پنجابی زبان کو اپنی شاعری کے لئے پسند فرمایا اور پنجاب کے بابائے بصیرت کہلانے لگے۔آپ سچل سرمست اور سندھی صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے ہم عصر تھے۔ آپ نے پنجابی اور سندھی شاعری کی ۔

بلھے شاہ کا نام آپ نے اپنے لئے خود پسند فرمایا یعنی بھولا ہوا مطلب انا کی نفی کر کے وہ اپنی ذات کو بھول چکا ہے، جسے آپ نے اپنی شاعری میں تخلص کے طور پر استعمال کیا۔ اور آج تک آپ کو بابا بلھے شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت بابا بلھے شاہ

 اپنے عہد کی زندگی سے منحرف تھے اور اس انحراف کی ایک وجہ شریعت سے دوری تھی، وہ اپنے عہد کے مولویوں، پارساﺅں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا ھے، یوں لگتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ اپنے گاﺅں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے وہ نہ صرف پانڈوکے سے بلکہ قصور سے بھی ناخوش تھے۔

 حضرت بلھے شاہ کا قصور کی ایک طوائف سے رقص سیکھنا پھر گوالیار کی ایک طوائف سے رقص کی تربیت حاصل کرنا، قصور کی ایک متمول بیوہ کا بلھے شاہ پر فریفتہ ہونا، پھر ہیجڑوں کے ساتھ رقص کرنا، لاہور میں اچی مسجدکے باہر حضرت شاہ عنایت کے انتظار میں عورتوں کے کپڑے پہن کر عالم سکر میں رقص کرنا، گدھے خرید کر ان پر سوار ہوکر گاﺅں میں پھرنے کا مقصد لوگوں کو زچ کرنا تھا جو حضرت بلھے شاہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔وہ امام مسجد کے بیٹے تھے اور ان سے بہتر رویے کی توقع کی جاتی تھی۔  

آپ مغلیہ سلطنت کے عروج کے دور میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے پر عہد عالمگیری کی بےجا مذہبی جنونیت اور خانہ جنگی کے کافی خلاف تھے۔ آپ درویش صفت انسان تھے۔ آپ باہمی مساوات، ہمدردی اور انسان دوستی کے قائل تھے۔ آپ ذات پات، رنگ و نسل،دین و مذہب اور جنس پر انسانی تفریق کو انتہائی بُرا سمجھتے، اور اپنے وقت کے باغی اور انقلابی سوچ کے مالک تھے۔

آپ منافقت کے سخت خلاف تھے اور ملاؤں اور پنڈتوں کے گھڑے رام رحیم کے پرانے جھگڑوں کو بے معنی قرار دے کر رَد کیا

بابا بلھے شاہ خود سیّد زادے تھے لیکن انہوں نے بیعت شاہ عنایت کے ہاتھ پر کی جو ذات کے آرائیں تھے۔ اس وجہ سے اہل خانہ اور اہل علاقہ آپ کو طعنے دینے لگے مگر بابا بلّھے شاہ ذات پات، اُونچ نیچ کے سب بندھن توڑ کر کہتے ہیں۔ 

بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں

من لے بُلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلہ رائیاں

آل نبی اولاد علی دی، نوں کیوں لیکاں لائیاں

جیہڑا سانوں سیّد آ کھے، دوزخ ملن سزائیاں

جیہڑا سانوں رائیں آ کھے، بہشتی پینگاں پائیاں

اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اب بھی ہم لوگ ذات پات کے چکروں سے باہر نہیں نکلے۔ 

بابا بلھے شاہ اپنے عہد کے باغی تھے۔ مگر وہ باغی تھے غلط نظریات سے، فضول رسوم و رواج سے اور علم کے جھوٹے دعویداروں سے۔ بابا بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں کی جانے والی سخت تنقید کے باعث اپنے مرشد شاہ عنایت کو بھی ناراض کرلیا تھا۔ کچھ لوگ شاہ عنایت کے خفا ہونے کی وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آپ نے ایک موقع پر شاہ عنایت کے ایک مرید کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا تھا۔ اس وجہ سے شاہ عنایت آپ سے کافی عرصہ ناراض رہے۔

وہ اپنے عہدے کے مولویوں، پارساؤں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا، یوں لگتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ اپنے گاؤں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے۔

بابا بلھے شاہ کے مطابق ہم لوگ بناوٹی ہیں، ملمع ساز ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ جب تک دل صاف نہیں ہوتا، تب تک ہمارے دکھاوے کی مذہبی زندگی کا کیا فائدہ؟

عمر گوائی وچ مسیتی

اندر بھریا نال پلیتی


ایک طرف مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دور میں لڑائی جھگڑے عروج پر تھے اور دوسری طرف ایسا انسان جو اپنی زات کی نفی کر چکا تھا ،کائنات کے سارے رنگ اس کی زندگی میں جھلک رہے تھے ۔بلھا اورنگزیب عالم گیر کے دور کا چشم دید گواہ تھا ،اس لئے مفتی اور ملاں اس کے خلاف فتوے دے رہے تھے ،اسے کافر کہہ رہے تھے ۔ہر طرف افراتفری تھے ،مغل سکھوں کا قتل عام کررہے تھے اور سکھ مغلوں کو مار رہے تھے ۔بلھے شاہ نے صوفیانہ شاعری کے زریعے اوررنگزیب عالمگیر کی حکمرانی کو چیلنج کردیا ۔ادھر سے مفتیوں نے فتوے دیئے کہ اس کی شاعری کافرانہ ہے ،اس لئے اسے ملک بدر کیا جائے ۔فتوے بھی جاری تھے اور بلھے شاہ کا انسانیت سے بھرپور کلام بھی اپنے جوبن پر تھا ۔اب بابا بلھے شاہ قصور کو خیر باد کہہ کر لاہور آگئے ۔عوام کو عشق ،آزادی ،امن ،انسانیت اور محبت کا درس دینا شروع کردیا ۔

ریاست کے حکمرانوں اور ٹھیکیداروں کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کردی ۔اب ایک طرف اس دور کے انتہا پسند تھے اور دوسری طرف انسانیت سے مزین تصوف کا راستہ تھا ۔جس سے حکمران اور انتہا پسند خوف زدہ تھے ۔بابا بلھے شاہ نے لاہور کے بعد گوالیار کا رخ کیا ،وہاں انہوں نے رقص ،سنگیت اور راگ رنگ کی تربیت حاصل کی ،اس سے اپنے مرشد کو منایا ۔جیسے وہ کہتے ہیں کنجری بنیا میری عزت نہ گھٹدی ،مینوں نچ کے یار مناون دے ۔اصل میں بلھے شاہ کے اس کلام کے یہ معانی ہیں کہ کوئی کمتر نہیں ہوتا ،کیونکہ طوائف کو ،ناچنے گانے والوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے ،انہیں مراسی کہا جاتا ہے،ان سے نفرت کی جاتی ہے تو بابا بلھے شاہ ان سب کی آواز بن گئے اور کہا کوئی انسان بڑا چھوٹا ،اعلی و ادنی نہیں ہوتا ،انسان سب برابر ہوتے ہیں ۔

بُلھے شاہ کو پنجاب کا سب سے بڑا صوفی شاعر کہا جاتا ہےاور آپ کے کلام کو صوفی کلام کی "چوٹی” کا درجہ حاصل ہے. انہوں نےاشعار، کافیاں، دوہڑے، سی حرفی اور بارہ ماہے لکھے جن کو روحانی اعتبار کے ساتھ ساتھ ادبی نقطہ نظر سے بھی فن کی بلند ترین سطح پر رکھا جا سکتا ہے.

بُلھے شاہؒ کے انقلابی فکر و عمل اور مذہبی ٹھیکیداروں سے ٹکر لینے کی وجہ سے انہیں کافر قرار دیا گیا. 

بُلھے شاہ مذہبی ٹھیکیدار یعنی مُلّا کی حقیقت کھولتے ہوئے اس سے مخاطب ہیں کہ تُو نے لوگوں کو دین کی فرضی الجھنوں میں الجھا رکھا ہے اور الٹے سیدھے نکتے نکالتا رہتا ہے تا کہ تُو جاہل اور بے علم لوگوں کو مذہب کے نام پر لُوٹ لُوٹ کر کھاتا رہے،ان لوگوں سے جنت میں لے جانے کے جھوٹے سچے وعدے کرتا رہتا ہے حالانکہ تیرا اپنا علم محدود اور بیکار ہے. کتابیں پڑھ پڑھ کر تو عالم کہلوانے لگا ہے مگر اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ علم ان کتابوں میں نہیں ہے، علم کی وسعت تو ایک الف یعنی اللہ کی یکتائی میں سمائی ہوئی ہے. جس نے اپنے اللہ کو پہچان لیا، اس کی قدرت کا اندازہ لگا لیا تو اس کے علم کے سامنے پوری دنیا کی کتب ہیچ ہیں۔

اپنے رب کو پہچاننا ہی علم کی معراج ہے. بے عمل مُلا کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں

مُلّا تے مشالچی دوہاں اِکّو چِت

لوکاں لئی کر دے چاننا تے آپ ہنیرے وِچ

(مُلّا اور مشعل بردار دونوں ایک جیسے ہیں، لوگوں کو روشنی دکھاتے ہیں مگر خود اندھیرے میں رہتے ہیں)

——۔۔

بُلھے شاہ نے لوگوں کو مذہبی جبر کے خوف سے نکالا. رنگ، نسل، ذات برادری، قوم، ملک اور مذہب کے نام پر انسانوں کی تقسیم کے عمل کے خلاف آواز بلند کی اور بین الاقوامی بھائی چارے کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ اپنے آپ کو کس نام سے پکاروں؟ یہ میں نہیں جانتا. میں نہ تو ایسا مومن ہوں جس کا مذہب صرف مسجد میں پانچوں وقت کی حاضری تک محدود ہے، جسے دین کے دیگر فرائض کا کچھ علم نہیں، جو حقوق العباد سے یکسر غافل ہے.

میں کفر کے رسم و رواج میں جکڑا ہوا کافر بھی نہیں ہوں. میں فرسودہ روایات کا باغی ضرور ہوں مگر مجھے کافر نہیں کہا جا سکتا. میں مُلّاؤں اور پنڈتوں کی لاگو کی ہوئی خود ساختہ رسوم و قیود کو مسترد کرتا ہوں.

مجھے اپنی پارسائی کا بھی کوئی زعم اور دعویٰ نہیں ہے. میں گنہگاروں میں نیک کہلوانے کا آرزومند نہیں ہوں. میں دوسروں کو نفرت سے ناپاک کہہ کر اپنے آپ کو پاکباز ثابت نہیں کرتا. میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح پیغمبر بھی نہیں ہوں. لوگ نبوت کے دعویدار بن کر سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں مگر میں ایسا نہیں کرتا.

میں فرعون کی طرح خدائی کا دعویٰ بھی نہیں کرتا اور نہ جبرو ستم سے لوگوں کی زندگی اجیرن کرتا ہوں. میں اپنی حقیقت سے بے خبر ہوں کہ آخر میں کون ہوں؟


اسی وجہ سے آپ اپنے وقت کے مولویوں سے کافی بیزار تھے اور ان کو اس روش پر اکثر تنقید کا نشانہ بناتے۔ اس لئے جب آپ انتقال فرما گئے تو قصور کے مولویوں نے آپ کو غیر مسلم قرار دے کر آپ کی نمازہ جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ جبکہ بعد میں قصور ہی کی ایک بڑی مذہبی شخصیت قاضی حافظ سید زاہد ہمدانی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

بلھے شاہ کو شہر کے سرکردہ لوگوں نے شہر میں تدفین کی بھی اجازت نہ دی اور انہیں پرانے شہر سے دور دفن کیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کافی روز تک آپ کا جنازہ بھی نہیں پڑھایا گیا پھر شہر سے باہر گئے ہوئے ایک مرید نے قصور واپسی پر آپ کا جنازہ پڑھایا اور تدفین کی۔

آپ کی انسانیت، عشق اور آزادی کا سفر 77 سال کی عمر میں 1757ء کو تمام ہوا۔ آپ قصور میں مدفون ہیں۔ ہر سال آپ کے عقیدت مند حضرات آپ کے مزار پر آپ کا کلام گا گا کر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

تعصب پسند اور اقتدار پسند حضرات کے لئے بابا بلھے شاہ نے کہا تھا کہ

نہ کر بندیا میری میری

نہ تیری نہ میری

چار دناں دا میلہ

دنیا فیر مٹی دی ڈھیری


بابا بلھے شاہ کو سرحد کے دونوں جانب رہنے والے پنجابی، عظیم شاعر و دانشور مانتے ہیں۔ تقسیم ہند نے پنجاب کی دھرتی کو تو تقسیم کردیا گیا مگر آج بھی دونوں جانب رہنے والے جُڑے ہوئے ہیں۔ بُلھے کے چاہنے والوں نے ہندوستان میں بھی بابا بلھے شاہ کے دو مزار بنا رکھے ہیں۔ ایک مزار مسوری میں ہے جہاں کئی برس سے بُلھے شاہ کا میلہ منعقد ہوتا ہے۔ دوسرا مزار گاؤں کند والا حاضر خان میں ہے۔ اس مزار کے منتظمین کے مطابق40 سال قبل یہاں کے کچھ لوگ قصور دربار سے ایک اینٹ لے آئے اور یہاں بابا جی کا علامتی دربار بنایا گیا۔ تب سے یہاں ہر سال میلہ لگتا ہے۔


آپ کا صوفیانہ کلام نیاز مند سٹریٹ سنگرز سے لے کر نامور صوفی سنگرز اور قوال نصرت فتح علی خاں، پٹھانے خاں، عابدہ پروین، سائیں ظہور، نور جہاں اور پاکستانی راک بینڈ جنون اور ہندوستان کے نامور گلوکاروں نے نہایت عقیدت کے ساتھ گایا ھے


بلھے شاہ کا کلام آج بھی ذوق شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ مزار پر بھی ہمیشہ رَش ہوتا ہے۔ مگر کلام کو سمجھنے کی کوشش شاید کم ہی کی جاتی ہے۔ ”آپ کے کلام میں بجلی جیسی تاثیر ہے جس کو سن کر لوگوں پر وجد کا عالم طاری ہوجاتا ہے اور ان کے اندر اللہ تعالٰی کی یاد تازہ ہو اٹھتی ہے۔

اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر جدوجہد کرتے رہے ۔۔۔ آپ کی اعلی انسانی اقدار اور فکر و عمل کے باعث ہندو، مسلمان، سکھ اور مختلف عقیدوں سے تعلق رکھتے والے لوگ اُن سے یکساں محبت رکھتے ہیں۔ بُلّھے شاہ کی موت کے وقت اُن کے انقلابی فکر و عمل کے باعث ملّاؤں نے انھیں برادری

کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اُن پر کفر کا فتویٰ لگا کر اُن کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ویسے بھی بُلھے شاہ کو ان مداریوں کی ان بیہودہ رسومات کی ضرورت بھی کہاں تھی۔ وہ تو آج بھی اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ وہ تو خود کہتا ہے۔ ” بّلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور "

 دین فروش مداری ملاں کے متعلق اپنے کلام میں کچھ یوں حقیقت بیان کی ھے۔

حج وی کیتی جاندے او

لہو وی پیتی جاندے او

کھا کے مال یتیماں دا

بھیج مسیتی جاندے او

پھٹ دلاں دے سیندے نئیں

ٹوپیاں سیتی جاندے او

چھری نہ پھیری نفساں تے

زبح دنبے کیتی جاندے او

دل دے پاک پوتر حجرے

بھری پلیتی جاندے او

فرض بھلائی بیٹھے او

نفلاں نیتی جاندے او

دسو نہ کچھ حضرت جی

ایہہ کی کیتی جاندئے او۔

 بلھے شاہ اس کائنات کی ایسی ہستی ہے جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے ،

قصور میں آپ کے مزار کو نئے سرے سے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ مزار کا درمیانی گنبد قدرے ارفع ہے جو بابا بلھے شاہ کا علامتی عمارتی اظہار ہے جب کہ چاروں کونوں پر چار چھوٹے گنبد اس کے مقلدین اور مریدین کو ظاہر کرتے ہیں۔ گنبد پر کلس نہیں ہے اور ڈیزائن بھی بابا بلھے شاہ کی شاعری کی طرح الگ اور منفرد مگر جدید عہد کا مظہر ہے، گول قوسیں بابا بلھے شاہ کی شاعری میں استعمال ہونے والے چرخہ کی علامت ہیں جب کہ چاروں جانب بڑی قوسیں زائرین کو خوش آمدید کہتی ہیں، مزار کا غیر روایتی ڈیزائن بلھے شاہ کی شاعری کی طرح اپنے عہد میں جدیدیت کی علامت ہے۔ “

مزار کے ساتھ ایک خوبصورت جامع مسجد بھی ہے۔ بابا بلھے شاہ کے مزار پر ہمیشہ رونق ہوتی ہے۔  


بابا بلھے شاہ کی قبر کے پاس دیگر کئی لوگوں کی قبور بھی ہیں۔ جب جاکر نام پڑھے تو کوئی قبر کسی ایم پی اے کی تھی تو کوئی ایم این اے اور کوئی قبر کسی سیٹھ کی۔ تو سوچنے کی بات ہے کہ جس بلھے شاہ کو شہر کے سرکردہ لوگوں نے تدفین کی اجازت نہ دی تھی آج اس کے مزار میں سرکردہ لوگ دفن ہونے کی خواہش کرتے ہیں۔ لیکن شاید یہ بھی بلھے شاہ کی جیت نہیں۔ بلھے شاہ کی جیت تو اُس دن ہو گی جب اس کے مزار پر قوالی و دیے جلانے کی بجائے لوگ اس کے کلام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جب لوگ بُلھے کا بتائےراستہ کو اپنائیں گئے۔

مزار کے احاطے میں ایک طرف شیشے کے کیس میں بابا بلھے شاہ کا عمامہ شریف اور ستار بھی موجود ہے۔ ایک حصے میں ان کے کلام کو گا کر سنایا جاتا ہے اور لوگ بڑے اشتیاق سے سنتے ہیں۔ سارا دن لوگوں کے ہجوم آتے جاتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کیلئے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ اس دنیا کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں وہ کبھی بھی نہیں مرتے۔ قصوری میتھی ایک خاص سوغات ہے جو ان کے مزار پر لوگ کثرت سے خریدتے ہیں۔ ہم نے بھی فاتحہ خوانی بھی کی اور آپ دوستوں کیلئے ویڈیو بھی شوٹ کی۔


بابا بلھے شاہ پورے رقص و سرور کے ساتھ تصوف پسند لوگوں کے دلوں میں اب تک زندہ ہیں اور رہیں گے۔

سِر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی

لینا کی سِر ٹوپی تَرھ کے؟

تسبیح پھِری پر دِل نہ پھِریا

لینا کی تسبیح ہتھ پَھڑ کے

چلِے کیتے پر رب نہ ملیا

لینا کی چِلیاں وِچ وَڑھ کے

بُلھے شاہ جاگ بِنا دُدھ نہیں جمندا

پانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا

کدے اپنڑے آپ نوں پڑھیا نہیں

جا جا وَڑدا مسجداں مندراں اندر

کدی اپنڑے اندر توں وَڑیا ای نہیں




منگل، 19 مئی، 2020

"سائیں لوگ کا تعارف : .About Saieen Loag

  سوشل میڈیا پر "سائیں لوگ" کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نھیں۔

مذھبی حوالے سے انکی علمی و تحقیقی خدمات پر تقریباھرمنصف و مثبت سوچ حامل اھل علم معترف ھیں۔

آپ کا اصل نام محمد جمیل محسن ھے جبکہ علمی احباب میں آپ ایم جے محسن کے نام سے معروف ھیں۔آپ 1972/میں موضع جلیل پور آرائیں تحصیل کہروڑپکا میں پیدا ھوئے ۔
آپ کےوالد گرامی کا نام مھر محمد شفیع آرائیں تھا۔جن کا شمار علاقہ و برادری کے معززین میں ھوتا تھاجو انسانیت کیلئے ایک خدا ترس و شریف و النفس انسان تھے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم آپنے آبائی علاقہ سے حاصل کی میٹرک تحصیل میلسی ضلع و ھاڑی سے آور ڈی کام بہاول پور کامرس کالج سے پاس کیا۔
اس دوران کچھ عرصہ مقامی اخبار روزنامہ "وفا "اور ھفت روزہ "زبان خلق" میں بطور رپورٹر بھی کام کیا ۔
ساتھ ھی  تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا الجامعہ حکمتہ السلامیہ یونیورسٹی فیصل آباد سے ڈی ای ایچ ایم کی ڈگری لی ساتھ ھی ایم بی ایس ٹی کیلئے بھی اپلائی کردیا۔آر- اے-سی انجینیئرنگ  کا امتحان امتیازی نمبروں سے لندن  انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد سے  
پاس کیا۔
Amouse College Washington DC     ۔
  ایماوس  کالج  واشنگٹن امریکہ سے کارسپانڈنس کے ذریعے ڈی-بی-سی انگلش میں ڈپلومہ حاصل کیا۔جبکہ ایف جی اے ملتان اور فیصل آباد سے ھی  اردو میں بائیبل پر ریسرچ کی آپ بیقوقت فیصل آباد،ملتان اور راولپنڈی کے بائیبل سنٹر سے منسلک رھے۔

آٹھ سال بائیبل سوسائٹی کے ممبر رھے اور دو دفعہ بین المذاھب  سات روزہ  بین الاقوامی  کانفرنسز جس میں امریکہ،آسٹریلیا 'برطانیہ،شکاگو سمیت ملک کے طول و عرض سے 70/ کے قریب مبران منعقدہ راولپنڈی کے پرفضا مقام مری ھلز میں بطور رکن خاص مدعو ھوئے، 
ان سیمینارز میں شرکت فرما کر دین اسلام کا بطور امن و سلامتی کے مذھب پر خوب دفاع کیا۔
 سائیں لوگ کے آباواجداد اھلسنت بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے والد محترم کا درھڑوائن موجودہ حسین آباد تحصیل میلسی میں جب آبادکاری ھوئی تو وھاں علامہ غضنفر عباس تونسوی صاحب کے والد محترم جناب امیر حسین صاحب جو اس علاقہ میں پیش نماز تھے ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع ھوا اس عرصہ میں علامہ امیر حسین صاحب سے علمی گفتگو ھوتی رھی ساتھ ھی مذھب حقہ کی حقانیت روز بروز افشاں ھوتی گئی اور آپ حق کے قریب آتے گئے دو تین سال کی رفاقت ھی میں والد محترم پر حق واضح ھو گیا ۔
اور آپ نےعملی طور پر مذھب حقہ قبول کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ھی آپنے ڈیرے پر اس علاقہ میں پہلی مرتبہ مجلس عزا امام حسین ع کا اھتمام کیا اس مجلس میں علامہ امیر حسین صاحب نے ھی خطاب کیا اس طرح علامہ صاحب کو بھی ناصبی علاقہ میں مذید مذھب حقہ کی تشریح و تبلیغ کرنے کا بہترین موقعہ میسر آیا۔
سائیں لوگ نے جب جوش سنبھالہ تو مذھب تشیع کے متعلق مشھور غلط فہمیوں و افواہوں جو ھمارے معاشرے میں عام ھیں اور جنکو بدولت مذھب حقہ کے خلاف استعمال کرکے نفرت و دشمنی کو فروغ دیا جاتا ھے۔ان باتوں پر غور و فکر اور مشاہدہ و تحقیق کیلئے عملی طور پر کھوج شروع کیا یاد رھے سائیں لوگ پدری شیعہ نھیں بلکہ طویل عرصہ کی تحقیق و مشاہدات کا نتیجہ ھے۔
سائیں لوگ کی مذھب حقہ پر پہلی بحث زمانہ طالب علمی کے دوران کالج کے اسلامیات کے پروفیسرصاحب سے ھوئی جس نے دوران لیکچر تشیع پر کافر ھونے کا الزام لگایااس وقت خاموش رھنے کے بعد دوسرے دن دوران لیکچر  جب کافر ھونے کی وضاحت طلب کی ساتھ ھی کلاس میں کسی مذھب پر تنقید و تکفیر کرنےکی تعلیمی اصول کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا تو اس لمحہ دیگر طلباء و پروفیسر صاحب کچھ لمحہ کیلئے سکتہ گئے ۔
چونکہ میں کلاس میں واحد شیعہ طالب علم تھا۔جسکی وجہ سے شور و غوغا کی مدد سے یکتا آواز کو دبانے کی کوشش کی مگر میں نے الزام تکفیر کی وضاحت پر بضد رھا۔
اسی طرح اور بھی بےشمار مواقع ملے جسمیں مذھب حقہ پر لگے الزامات پر خوب دفاع کیا۔
اس موضوع پر تقریبا 50/کے قریب پوسٹ لگ چکی ھیں ۔بعنون سائیں لوگ نے مذھب شیعہ کیوں قبول کیا۔
سائیں لوگ نے فیس بک پر مذھب حقہ پر لگے الزامات کا بھرپور جواب دیا ھے ساتھ ھی بنیادی عقائد پر وضاحت بھی پیش کی قرآن و سنت پر ٹھوس ثبوت پیش کیے اور مذھب حقہ کے عقائد و رسومات پر تنقید کرنے والوں انکے آپنے مذھب میں شامل خرافات پر جواب بھی طلب کیا۔
نماز و روزہ،ماتم و عذاداری پر اٹھنے والے الزامات کا بھر پور دفاع کیا اور مذھب حقہ کے عقائد کو قرآن مجید آور  سنت رسول ص سےثابت بھی کیا اور سینکڑوں تحریریں پیش کرکے دسیوں اھلسنت برادران کیلئے راہ حق کے تعین میں معاون بھی ھوے ۔
اسلام میں خاندان بنوامیہ کی گنڈا گردی پر پچاس کے قریب تحقیقی تحریریں لکھیں جن میں معاویہ بن سفیان  کے عملی کردار و روپ کو اھلسنت کی ھی معتبر کتب کی مدد سے بے نقاب کیا۔
2013/
 میں جب ایک عیسائی رایئٹر نے صحیح بخاری کی مدد سے رسول اللہ ص کے خلاف ھرزہ سرائی کی اس الزام میں ایک صحابیہ کو رسول اللہ ص کا پیشاب پینے پر درد شکم ختم
ھونے والی اس حدیث کو جواز بنایا۔
اس طرح اس عیسائی مفتی ضیاء کو چیلنج بھی کیا اور اور دجالی عیسائیت میں داخل بے شمار خرافات پر وضاحت بھی چابی اس طرح تقریبا ان کے عقائد باطہ پر ساٹھ کے قریب تحریریں اور 70/کے قریب اھم سوالات کے جواب بھی مانگے۔
شان رسالت ص پر لکھی گیئں سینکڑوں حدیثیں جو صحیح بخاری سمیت دیگر ستہ و معتبر اھلسنت کی کتابوں میں درج ھیں  کو کوڈ کرتے ھوے بخاری شریف کا آپریشن  کے ٹائیٹل سے آپریشن کا آغاز کیا۔اس طرح اھلسنت برادران کی کتب خاص میں لگے بے بنیاد الزامات و توھین رسالت ص کو بے نقاب کیا ان لوگوں کی ھی کتب نے دشمنیاں اسلام و رسول اللہ ص کو جواز و موقع پیش کیا ھے۔
سائیں لوگ کی شخصیت 2013/ میں اس وقت تنازعہ کا شکار ھوئی جب انھوں نے تشیع ھی میں باطل عقائد و علاقائی رسومات پر لکھنا شروع کیا۔(جاری ھے)ے


جمعہ، 15 مئی، 2020

حضرت سعد بن عبادہ کو کس نے قتل کیا۔؟


:حضرت سعد بن عابدہ کا قتل
 "تحریر و تحقیق :
"سائیں لوگ
پاک نبی ص انصار سے محبت کا کهه رھے ھیں جبکه حضرت عمر قتل کر رھے ھیں۔

حضرت سعد بن عباده بھی انصار ھی میں سے تھے محبت تو کجا حضرت عمر نے قتل کردیا.

بخاری شریف کے آپریشن کے سلسله میں پهلی حدیث جو منتخب کی گئی اس حدیث میں انصار صحابه کی محبت علامت ایمان کامل بتائی گئی ھے.
بلکه اس حدیث کی تشریح میں بھی وضاحت ھے ملحاظه فرما سکتے ھیں.
مگر محبت تو کجا حضرت عمر نے صرف ابوبکر کی خلافت کو ھر طرح کے خطره سے بچانے کیلۓ اس صحابی کا خون کیا جو خود سقیفه میں خلافت کا امیدوار تھا.

اصحاب رسول ص کے متعلق اھل تشیع کا عقیدہ۔

صحابۂ کرام کے بارے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟

شیعوں کے نزدیک پیغمبرخدا  ۖ کو دیکھنے اورانکی مصاحبت سے شرفیاب ہونے والے افراد چند گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں لیکن اس بات کی وضاحت سے قبل بہتر  یہ ہے کہ لفظ ''صحابی'' کو واضح کردیا جائے صحابی پیغمبرۖ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں.

 یہاں ہم ان میں سے بعض تعریفوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

١۔سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ: ''صحابی'' وہ ہے جو ایک یا دو سال تک پیغمبر خداۖ کی خدمت میں رہا ہو اور اس نے آنحضرت ۖ کی ہمراہی میں ایک یا دو جنگیں بھی لڑی ہوں.
٢۔واقدی کہتے ہیں کہ:علماء کے نزدیک ہر وہ شخص رسولۖ کا صحابی شمار ہوتا ہے جس نے آنحضرتۖ  کودیکھاہو اور اسلام کی طرف مائل ہو اور اس نے دین اسلام کے سلسلے میں غور وفکر کرنے کے بعد اسے قبول کرلیا ہو اگرچہ وہ گھنٹہ بھر ہی آنحضرت ۖ کے ہمراہ رہا ہو. 

(١) اسد الغابة جلد١ ص ١١ ، ١٢ طبع مصر
(٢)گذشتہ حوالہ
٣۔محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ: مسلمانوں میں سے ہر وہ شخص جو آنحضرتۖ کی مصاحبت میں رہا ہو یا اس نے آپۖ کو دیکھا ہو وہ آنحضرتۖ کے اصحاب میں شمار ہوگا.
٤۔احمد ابن حنبل کہتے ہیں کہ: ہر وہ شخص جو ایک ماہ یا ایک دن یا چند گھڑیاں پیغمبر اکرمۖ  کے ہمراہ رہا ہو یا اس نے آنحضرتۖ کو دیکھا ہو وہ ان کے اصحاب میں شمار ہوگا.
علمائے اہل سنت کے نزدیک ''عدالت صحابہ'' ایک متفق علیہ مسئلہ ہے اس کے مطابق جس شخص کو بھی پیغمبراکرمۖ کی مصاحبت حاصل ہوئی ہو وہ عادل ہے! 
یہاں پر ضروری ہے کہ اس نظریہ کا قرآنی آیات کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس بارے میں وحی الہی کے سرچشمہ سے حاصل شدہ  شیعوں کے نکتہ نظر کا بھی تذکرہ کیا جائے ۔
تاریخ نے بارہ ہزار سے زیادہ افراد کے نام اصحاب پیغمبرۖ  کی فہرست میں درج کئے ہیں جنکے درمیان مختلف قسم کے چہرے دکھائی پڑتے ہیں بے شک آنحضرتۖ کی مصاحبت ایک بہت بڑا افتخارتھا جو صرف چند افراد ہی کو نصیب ہوا اور امت اسلامی نے ہمیشہ ایسے افراد کو ادب و احترام کی نگاہوں سے دیکھا ہے کیونکہ انہی بزرگان نے

(١) اسدالغابة جلد١ ص ١١ ، ١٢
(٢)گذشہ حوالہ
(٣) الاستعیاب فی اسماء الاصحاب جلد١ ص٢ ''الاصابة'' کے حاشیے میں اسدالغابة جلد١ صفحہ ٣ میں ابن اثیر
سے نقل کرتے ہوئے.
آئین اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے سب سے پہلے اسلام کی عزت اور شوکت کے پرچم کو لہرایا ہے.
قرآن مجید نے بھی ان کی تعریف کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے:
( لایَسْتَوِ مِنْکُمْ مَنْ َنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ُوْلٰئِکَ َعْظَمُ دَرَجَةً مِنْ الَّذِینَ َنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا)(١)
اور تم میں سے فتح سے پہلے انفاق کرنے والا اور جہاد کرنے والا اس کے جیسا نہیں ہوسکتا جو فتح کے بعد انفاق اور جہاد کرے پہلے جہاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے.
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کرلینا چاہیئے کہ پیغمبر خداۖ کی مصاحبت کوئی ایسا کیمیاوی نسخہ نہیں تھا جو انسانوں کی حقیقت کو بدل دیتا اور عمر کے آخری حصے تک ان کی زندگی کی ضمانت لیتا نیز انہیں ہمیشہ کے لئے عادلوں کی صف میں کھڑا کردیتا.
اس مسئلے کی وضاحت کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان قابل اعتماد کتاب قرآن مجید کا مطالعہ کریںاور اس سلسلے میں اس سے مدد حاصل کریں.

صحابی قرآن مجید کی نگاہ میں
قرآن کے نکتہ نظر سے نبی اکرمۖ  کی خدمت میں حاضر ہونے اور آپۖ کی مصاحبت

(١) سورہ حدید آیت: ١٠
اختیار کرنے والوں کی دوقسمیں ہیں:

پہلی قسم
وہ ایسے اصحاب ہیں جن کی قرآن مجید کی آیتیں مدح و ستائش کرتی ہیں اور انہیں شوکت اسلام کا بانی قرار دیتی ہیں یہاں پر ہم صحابہ کرام کے ایسے گروہ سے متعلق چند آیتوں کا ذکر کرتے ہیں:
١۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے
(وَالسَّابِقُونَ الَْوَّلُونَ مِنْ الْمُہَاجِرِینَ وَالَْنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِِحْسَانٍ رَضَِ اﷲُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وََعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ  من تَحْتِہَا الَْنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا َبَدًا ذَٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ)

اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اورخدا نے ان کے لئے وہ باغات مہیا کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے.

(١) سورہ توبہ آیت:١٠٠


٢۔درخت کے نیچے بیعت کرنے والے
( لَقَدْ رَضَِ اﷲُ عَنْ الْمُؤْمِنِینَ ِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِ قُلُوبِہِمْ فََنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْہِمْ وََثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیبًا) 

یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جوان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی.

٣۔مہاجرین

( لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِینَ الَّذِینَ ُخْرِجُوا مِنْ دِیارِہِمْ وََمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُونَ اﷲَ وَرَسُولَہُ ُوْلٰئِکَ ہُمْ الصَّادِقُونَ)(٢)
یہ مال ان مہاجر فقراء کے لئے بھی ہے جنہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور ان کے اموال سے انہیں دور کردیا گیا اور وہ

(١)سورہ فتح آیت:١٨
(٢)سورہ حشر آیت:٨
صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خدا اور رسول کی مدد کرنے والے ہیں یہی لوگ دعوائے ایمان میں سچے ہیں.

٤۔اصحابِ فتح

(مُحَمَّد رَسُولُ اﷲِ وَالَّذِینَ مَعَہُ َشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِ وُجُوہِہِمْ مِنْ َثَرِ السُّجُودِ)
محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں تم ان کودیکھو گے کہ بارگاہ احدیت میں سرخم کئے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل وکرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں کثرت سجود کی وجہ سے ان کے چہروں پر سجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیں.

دوسری قسم
بزم رسالت میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جنہیں پیغمبر خداۖ کی مصاحبت تو حاصل ہوئی

(١)سورہ فتح آیت:٢٩
تھی مگر وہ یا تو منافق تھے یا پھر ان کے دل میں مرض تھا قرآن مجید نے پیغمبر اسلامۖ کے لئے ایسے افراد کی حقیقت کو نمایاں کیا ہے اور آنحضرتۖ کو یہ تاکید کی ہے کہ ان سے محتاط رہیں یہاں پر ہم اس سلسلے میں نازل ہونے والی آیتوں کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

١۔معروف منافقین

(ِذَا جَائَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ ِنَّکَ لَرَسُولُ اﷲِ وَاﷲُ یَعْلَمُ ِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَاﷲُ یَشْہَدُ ِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَکَاذِبُونَ)

اے پیغمبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں.

٢۔غیر معروف منافقین:

(وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنْ الَْعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ َہْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لاَتَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ )

(١)سورہ منافقون آیت:١
(٢)سورہ توبہ آیت: ١٠١

اور تم لوگوں کے گرد، دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم لوگ ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں.

٣۔دل کے کھوٹے:

( وَِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِ قُلُوبِہِمْ مَرَض مَا وَعَدَنَا اﷲُ وَرَسُولُہُ ِلاَّ غُرُورًا )
اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رہے تھے کہ خدا اور رسول نے ہم سے صرف دھوکا دینے والا وعدہ کیا ہے.

٤۔گناہ گار:

( وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَی اﷲُ َنْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ ِنَّ اﷲَ غَفُور رَحِیم )(٢)
اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا کہ انہوں نے نیک اور بد اعمال مخلوط کردئیے ہیں عنقریب خدا

(١)سورہ احزاب آیت :١٢.
(٢)سورہ توبہ آیت : ١٠٢.
ان کی توبہ قبول کر لے گا وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.
قرآن مجید کی آیات کے علاوہ پیغمبر اکرمۖ سے بھی بعض صحابہ کی مذمت میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ان میں سے ہم صرف دو روایتوں کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :
١۔ابوحازم،سہل بن سعد سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر خداۖ نے ارشاد فرمایا :
''أنا فرطکم علیٰ الحوض مَن ورد شرب و مَن شرب لم یظمأ أبداً و لیردنّ علّ أقوام أعرفھم و یعرفونن ثم یحال بین و بینھم.''
میں تم سب کو حوض کی طرف بھیجوں گا جو شخص بھی اس حوض تک پہنچے گا وہ اس میں سے ضرور پئے گا اور جو بھی اس سے پئے گا پھر وہ تاابد پیاس محسوس نہیںکرے گا پھر ایک گروہ میرے پاس آئے گا جسے میں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانتے ہوں گے اس کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے جدا کردیا جائے گا .''
ابو حازم کا بیان ہے کہ جس وقت میں نے نعمان ابن ابی عیاش کے سامنے یہ حدیث پڑھی تو انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تم نے یہ حدیث سھل سے اسی طرح سنی ہے ؟ میں نے کہا ہاں اس وقت نعمان بن ابی عیاش نے کہا کہ ابوسعید خدری نے بھی اس حدیث کو ان کلمات کے اضافے کے ساتھ پیغمبر اکرمۖ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتۖ فرماتے ہیں :
''اِنھم من فیقال: نک لاتدر ما أحدثوا بعدک فأقول سحقًا سحقًا لمن بدل بعد''
یہ افراد مجھ سے ہیںپس کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کام انجام دیئے ہیں ! پس میں کہوں گا ایسے لوگوں سے خدا کی رحمت دور ہوجائے جنہوں نے میرے بعد (احکام دین میں ) تبدیلی کی.
پیغمبر اسلامۖ کی اس حدیث میں ان دو جملوں'' جنہیں میں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وہ سب بھی مجھے پہچانتے ہونگے ''اور ''میرے بعد تبدیلی کی'' سے صاف واضح ہے کہ آنحضرتۖ کی مراد آپکے وہ اصحاب ہیں جو کچھ مدت آنحضرتۖ کے ہمراہ رہے ہیں (اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے بھی نقل کیاہے)
٢۔بخاری اور مسلم ،پیغمبر خداۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتۖ نے فرمایا ہے:
''یرد علَّ یوم القیامة رھط من أصحاب أو قال من أمت فیحلون عن الحوض فأقول یارب أصحاب فیقول اِنّہ لاعلم لک بما أحدثوا بعدک أنھم ارتدوا علیٰ أدبارھم القھقری. 

(١)جامع الاصول (ابن اثیر) جلد١ ١ کتاب الحوض فی ورود الناس علیہ ص ١٢٠ حدیث نمبر ٧٩٧٢.
(٢)جامع الاصول جلد ١١ ص ١٢٠ حدیث ٧٩٧٣
قیامت کے دن میرے اصحاب میں سے یا فرمایا میری امت میں سے ایک گروہ میرے پاس آئے گاپس ان کو حوض کوثر سے دور کردیا جائے گا اس وقت میں کہوں گا اے میرے پروردگار! یہ میرے اصحاب ہیں تو خدا فرمائے گا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیسے کیسے کام انجام دئیے ہیںبے شک یہ لوگ اپنی سابقہ حالت (زمانہ جاہلیت) پر لوٹ کر مرتد ہوگئے تھے.
نتیجہ:قرآنی آیات اور سنت پیغمبر  ۖ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب اور وہ افراد جنہیں آنحضرتۖ کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے وہ سب ایک ہی درجہ کے نہیں تھے ان میں بعض ایسے بلند مقام افراد تھے جن کی خدمات نے اسلام کے پھیلانے میں انتہائی مؤثر کردار ادا کیا ہے لیکن بعض ایسے بھی تھے جو ابتداء ہی سے منافق، دل کے مریض اور گمراہ تھے. (١)
اسی بیان کے ساتھ صحابۂ پیغمبرۖ کے بارے میں شیعوں کا نظریہ (جو درحقیقت قرآن اور سنت کا نظریہ ہے) واضح ہوجاتا ہے۔

(١) اس بارے میں مزید وضاحت کے لئے سورہ منافقون ملاحظہ کریں.

پیر، 16 مارچ، 2020

پاکستان کی تخلیق میں تشیع کا کردار

علامہ ڈاکٹر سید ضمیر اختر نقوی کی ایک واٹس ایپ میں کی گئ گفتگو کو یکجا کیا گیا تاکہ مومنین مستفید ہو سکیں 

علامہ رشید ترابی مرحوم اور علامہ اظہر حسن زیدی ایک عہد ہیں ان دونوں نے اپنی تقریروں میں ہمیشہ یہ کہا قائداعظم شیعہ تھے
قائد اعظم کی شیعت جب پاکستان کی نسل کو معلوم ھوئی  تو ان کی بہن فاطمہ جناح سے دشمنی شروع ھوگیئ

فاطمہ جناح  پر کتاب میرے کتب خانے میں ھے جس میں لکھا کہ ان کو غنڈوں نے گھر میں گھس کر ڈنڈوں سے مار دیا جب غسل دیا گیا تو ان کے جسم پر ڈنڈوں اور چھڑیوں کے نشان تھے

قائد اعظم کی دوسری بہن شریں بائ نے کورٹ میں مقدمہ کیا کہ میرے بھائ شیعہ تھے

یہ واقعات میری زندگی کہ ہیں بات سنو اور سجھو مقدمے کا فیصلہ یہ ھوا کہ قائد اعظم سیدھے سادھے مسلمان تھے بس

اسکندر مرزا شیعہ تھے
قائد اعظم شیعہ تھے
کاظم۔ رضا شیعہ ےھے
ہاشم رضا شیعہ تھے( یہ کمشنر ریاست بہاولپور بھی رہے)
آے ٹی نقوی شیعہ تھے
جنرل۔ موسیٰ شیعہ تھے
بھٹو شیعہ تھے
نصرت بھٹو شیعہ
بینظیر شیعہ
کاظم رضا ۔ آل رضا ۔ہاشم رضا مسعود رضا  یہ سب جسٹس رضا کے بیٹے تھے
قائد اعظم نے پاکستان بنتے  ہی کراچی کا پہلا آئی جی کاظم رضا کو مقرر کیا
ہاشم رضا  کو قائداعظم نے کراچی کا ایڈمینسٹریٹر مقر رکیا  کراچی کے سب امام بارگاہوں کی زمین ہاشم رضا نے الاٹ کی
کراچی کی رضویہ کالونی رضا برادران کے نام سے رضویہ ھوئی 
مسعود رضا کو امریکہ۔ کا سفیر لگایا
آل رضا نے سلام آخر لکھا جو ریڈیو سے شام غریباں میں آیا
جہانگیر پارک میں پاکستان کا پہلا محرم کا عشرہ ھوا
اس میں قائد اعظم آور لیاقت  علی اور اسکندر مرزا آئے
ایرانیان امام بارگاہ  میں اسکندر مرزا نے کوٹ اتار کے ماتم کیا
پیلے عشرے کی۔ مجالس علامہ ابن حسن جارچوی نے پڑھیں
قائد اعظم نے آٹھ محرم کی مجلس کی 
قائد اعظم۔ نے رشید ترابی سے کہاکہ حضرت علی ع کا خط مالک اشتر کے نام  انگریزی ترجمہ کرکے فوج میں تقسیم کروادو اورحاکموں سے کہو حکومت علی ع کی حکومت کی طرح ھو گی
رشید ترابی نے خالق دینا ہال میں  مولا علی ع  کی شہادت کی تقریر میں  کہا قائد اعظم نے جب گاندھی سے پاکستان کے قیام پر ملاقات رکھی تو ادھر سے جو تاریخ رکھی گئی وہ ،٢١رمضان پڑ رہی تھی قائد نے کہا اس دن مولا علی ع  کی شہادت ھے اس لئے میں اس میں شریک نہیں ھوں گا میں علی ع  کی شہادت کا سوگوار ھوں
علامہ رشید ترابی 21 رمضان کی چھٹی کا مطالبہ کر رھے تھے
۔ناصبی خاموشی سے پاکستان پر قبضے کی تیاری کر رھے تھے
شیعت عروج پر تھی
سب سے پہلے زیارت ۔ میں قائداعظم کو ایک گھر میں چپکے سے قید کر دیا گیا  بلوچستان میں
پھر قائداعظم نے راجہ محمود آباد کو بلوایا اور کہا بیٹا مجھے دشمنوں سے آزاد ۔ کراو  وہ کراچی آئے بات چیت شروع ھوئی اچانک ایک را ت  قائد کو زہر دے کر  مار دیا گیا
راجہ بڑی مشکل سے لاش کراچی لائے لیکن سب سرجھکا کر خاموش رھے اگر بات سامبے آئے تو کلش کا خطرہ تھا اور پاکستان ختم ھو جاتا
قائداعظم کو کھارا در کے امام باڑے میں مولانا انیس الحسنین جو رضویہ کالونی کے بانی تھے انھوں نے ۔ غسل کروایا کلو غسال جو شیعہ تھا اس نے غسل دیا شیعہ نماز جنازہ ھوئ  اور جنازے کے ساتھ حضرت عباس ع کا علم اٹھایا گیا
ہاشم رضا نے زمین۔ کا انتخاب کیا تاکہ قائداعظم کا مزار بنے
جب قائداعظم کی شیعت کا مقدمہ چلا کراچی کورٹ میں تو  گواہی میں شیعوں کی طرف سے کلو غسال اور  مولانا انیس بھی پیش ہوئے 
قائداعظم  کی وفات کے بعد ان کے گھر کا علم کا پنجہ اور پورا علم کا پٹکا اور ان کے سرہانے جو  ناد علی ع کا طغرا لگا تھا جو وہ روش صبح اٹھ کر پڑھتے تھے وہ لیاقت  نیشنل میوزیم کو دیا گیا جو اب بھی موجود ھے اس کی تصویر میرے کتب خانے میں ھے
قائداعظم  آٹھ محرم کو مجلس  کرتے اس میں کالے رومال میں تبرک رکھواتے تھے رومال۔ پر پنجتن ع کا نام۔ لکھا ھوتا تھا
قائد اعظم نے جو پاکستان کا پرچم بموایا اس پر چاروں طرف پنجتن ع کے نام لکھے تھے  جو بعد میں ناصبیوں نے ہٹوا دئیے
رشید ترابی نے یہ۔ بھی اپنی مجلس میں پڑھا کہ لندن کی گول۔ میز کانفرنس میں قائداعظم نے اس لئے شرکت نہیں کی کہ اس دن عاشور پڑ گیا اور انھوں کہا کہ۔ میں عاشور کے دن کوئ دنیائی  کام نہیں کرتا  ظاہر کہ۔ جب ناصبی قائداعظمکی سوانح لکھیں گے تو یہ سب حزف کر دیں گے
ذوالجناح والی بات بھی انگریز مورخین نے خواجہ حسن نظامی کے حوالے سے لکھی  جنگ اخبار اور اخبار جہاں کے۔ مضامین میں یہ سب چھپ چکا ھے انگریزی اخبارکے  حوالے میرے پاس ہیں
اب سپ کو بتانا ھے کہ جب ناصبی ملک شیعوں سے لینے پر آمادہ ھو گئے اور ان کو پتہ تھا کہ لاہور کا مراتب حسین کا خاندان اور نواب صاحب کا خاندا مزاحمت کرے گا
کراچی کے بڑے شیعہ اور سندھ کےپکے مولائی مزاحمت کریں گے تو پہلے مارشل لا کے ذریعے پاکستان کو یر غمال بنایا گیا پھر ٹھیری میں 1964میں ایک۔ مجلس میں شیعوں کا قتل عام کروا گیا اور کلہاڑوں سے سب کے سر کاٹے گئے ۔۔یہ ناصبی چال تھی کہ شیعہ سنی جنگ کرا دو تاکہ شیعہ دفاع میں۔ لگ جائیں اور حکومت میں اب کسی شیعہ کو نہ آنے دیا جائے ۔
لیاقت علی خان بھی عزاداری کے حامی تھے وہ خود علم اور تعزیہ اٹھاتے تھے ان کی۔ ماں نے ایک انٹرویو میں بتا دیا تھا ان کو شیعت کے جرم میں ناصبیوں نے گولی مار کر شہید کر دیا
یہ قائد کے قتل۔ کے بعد دوسرا قتل عزادار حاکم ھونے کی۔ وجہ سے ھوا
جب وزیر خارجہ بھٹو قرار داد کے کاغذ پھاڑ کر لاھور آئے تو اسٹوڈنٹ ان کے ساتھ ھو گئے اور ایک جلسے میں ان کی تقریر رکھی ۔۔۔۔۔کچھ لوگوں نے نعرہ لگایا کہ اسلام نظام لایا جائے ۔ بھٹو نے کہا کون سا اسلام جس میں پہلے خلیفہ کا بیٹا تیسرے خلیفہ  کو قتل کر دیتا جہاں رسول ع  کی بیوی چوتھے خلیفہ سے جنگ کرتی ھے ہم اس خلافت کے نظام کو نہیں لائیں گے ہم شوشلسٹ نظام لائیں گے جس میں حضرت علی ع کے نظام سے مدد لیں گے
بس پھر ایوب کے بعد یححیٰ خان کا مارشل لا آیا اور ناصبیوں نے کہا کہ یہ شیعہ ھے اور شیعہ ھونے کے ناطے شیعہ کو حکومت دے رہا ھے اور اسی نے پاکستان توڑا ھے جھوٹا الزام ناصبی لگاتے رہیتے ہیں
بھٹو گرفتار ھو گئے شیعت کے الزام میں مسلم کانفرنس میں انھوں نے صرف حضرت علی ع کانام۔ لیا تھا چپکے سے کوثر نیازی نے کہا کہ اول  اور ثانی کا نام بھی انگریزی تقریر میں لیں بھٹو نے نے بات نہیں مانی
بھٹو نے علی ع دا پہلا نمبر کو ریڈیو اور ٹی وی پر پرموٹ کر دیا
ناصبی اور جماعت اسلامی نے شور مچایا کہ یہ بند کرو
بھٹو کو جماعت نے گھات سے مات دی پہلی بات یہ۔ کہ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ  رکھا جائے
دوسری بات یہ کہ قادیانی کو کافر قرار دو
بھٹو نے یہ دونوں کام کر دیے
امریکہ کو بھٹو نے سفید ہاتھی کہا تھا وہ پہلے۔ ہی ناراض تھا
اب قادیانی فرقہ انگریزوں نے بنایا تھا وہ انگریز سب بھٹو سے ناراض ھو گئے اور اسلامی جمہوریہ پر بھی ناراض ھو گئے
بھٹو پر بغاوت کا مقفمہ چلا اور ان کو شیعت کے جرم میں کسی  اور طرح پھنسا کر گرفتار کیا گیا
مقدمہ چلا ۔۔۔۔آخر کار  ججوں نے اعلان کیا کہ ایک پیشی بند کمرے میں ھو گی  ۔۔۔۔بند کمرے میں بھٹو سے انگریزی میں سوال ھوا کہ آپ علی ع کو پہلا خلیفہ مانتے ہیں یا چوتھا
انھوں نے کہا میرا اور میرے خاندان کا ایمان ھے کہ وہ غفیر کی رو سے پہلے خلیفہ ہیں
سعودی عرب نے اس رپورٹ کو سن کر ضیا ا لحق سے کہا اب اس کو پھانسی دے دو
بھٹو کو روز جیل میں کھانا بند کرکے ملازم بھٹو کو دکھا دکھا کر بسکٹ کھاتے تھے
بھٹو کو پھانسی کا حکم ھوا نصرت بھٹو نجف گئیں اور اپنا ڈوپٹہ آیت اللہ  خوئی کے پاوں میں ڈال دیا اور کہا آپ اپیل کریں پاکستان سے  کہ وہ پھانسی کا حکم واپس۔ لے
آیت اللہ خوئی کا بیان ڈان اور جنگ نے پہلے صفحے پر سرخی لگا کر شائع کا
قذافی ۔۔شاہ حسین اور شاہ حسین اسلامی سر براہوں نے بہت اپی کی   کن ضیا الحق کو جنون تھا جب پھانسی کی فائل اس کے پاس آئ تو اس نے مغرب کی نماز پڑھی اور مصلے پر دستخط کئے کہاپھانسی دے دو
بے نظیر بھٹوبینظیر کی حکومت تھی علمائے سو نے جھگڑا اٹھا دیا کہ عورت سر براہ مملکت نہیں ھو سکتی بینظیر کو بچانا تھا اس لئے کہ نصرت بھٹو کا پیغام تھا کہ بینظیر ملائیشیا میں ہیں اور کوئی جوابی بیان دیں میں نے قرانی آیات سے ملکہ سبا بلقیس کی آیات بھیج دیں کہ قران میں ایک عورت کی۔ حکومت کا ذکر ھے ۔ اللہ یہ بھی کہتا ھے کہ ہم نے بلقیس کو حکمت عطا کی تھی ۔۔۔میں نے نصرت بھٹو سے کہا کہ یہ بیان بینظیر سے دلوا دیں وزیر اعظم۔ نے یہ بیان دیا میں نے ایک کلیدی بیان اور تیار کر لیا تھا کہ اگرکچھ لوگ یہ کہیں کہ وہ کافر تھیں ۔۔تو جواب میں کہا جائے کہ کیا نبی ع کی بیوی کو کافرہ کہہ سکتے ہیں جب حضرت سلیمان ع نے  ان سے شادی کر لی تو اب کافر کہو گے تو۔۔۔۔۔۔بات بہت آگے جائے گی ۔۔۔۔میرے پاس وزیر اعظم وکیل آیا تھا جس کا نام سید عارف رضا  ھے اس وقت وہ پی آئی اے میں ملازم تھے 
نصرت بھٹو نے میری ایک خصوصی دعوت کی اس میں صحافی بھی بلائے ۔۔۔مجھ سے کہا۔ کہ مرتضیٰ بھٹو کراچی اور اسلام آباد میں حضرت ابو طالب ع یونیورسٹی بنانا چاہیتے ہیں اس میں آپ ہماری مدد کریں ۔۔۔پھر انھوں نے کھڑے ھوکر زور سے کہا کہ ناصبی ہماری عزاداری اور تابوت کے خلاف حملے کیوں کر رھے ہیں ہم اگر حضرت علی ع اور حضرت حسین غ کا تابوت نکالتے ہیں تو علی ع علی ع  حسین ع حسین ع کرتے ہیں تو ان کو کیا اعتراض ھے یہ۔ لوگ حضرت ثانی  کا تابوت نکالیں اور یاثانی  یاثانی  کا ماتم۔ کریں انھوں نے زور زور سے سینے پر ماتم کیا  ہم۔ کو اعتراض نہیں  پھر دعوت کے بعد وہ دستاویز خوجہ جماعت خانے کی طرف سے پیش کی گئ جس۔ میں قائداعظم کے شیعہ ھونے کے ثبوت موجودتھے  ۔ وہ کاغذات سب میں تقسیم ھوے میں نے اپنی۔ کتابیں ان کو پیش کیں انھوں نے کتابیں پڑھ کر مجھے خط لکھا وہ میں شائع کر چکا ھوں وہ خط علامہ سجاد شبیر لے کر میرے پاس آئے ۔۔۔دوسری ملاقات (نصرت بھٹو) میں انھوں نے کہا کہ جب بینظیر نے وزارت کا حلف اٹھایا میں(نصرت بھٹو)  ان کو لےکر  رضویہ کے علم پر گئ اور میں نے بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر علم پر رکھا اور کہا دیکھوتمھارے دور حکومت میں کوئ شیعہ قتل نہ ھو جب کہ یہ سلسلہ جاری تھا اور بینظیر کے عہد میں زیادہ شیعہ قتل ھوے خود بینظیر کے دونوں بھائ قتل کر دئیے گئے ۔ ۔ اب اس گھر کے تین شیعہ مار ڈالے گئے  تھےجب شیعوں کا قتل عام شروع ھوا تب میں نے اس ٹارگٹ کلینگ کے خلاف شدت سے عشرے پڑھے اور آواز اٹھائ پھر واہ کینٹ ۔ مری ۔۔لاھور ۔۔گوجراں والہ ۔۔جھنگ ۔۔کراچی۔ ۔۔میں ناصبیوں نے ذوالجناح کو گولی مارنا شروع کیا تب میں نے شدت سے ذوالجناح کا دفاع شروع کیا اور شیعت کے حق میں قائد اعظم کو شیعہ ثابت کیا اور ذوالجناح کے قتل۔ کو بھی روکنا تھا  میں پچیس برس بعد سہی کامیاب ھوگیا اب سنی حضرات بھی رسول ع کا گھوڑا نکالنے لگے اور آرمی نے بھی وہ گھوڑے منگوا لئے جو رسول عکے گھوڑے کی نسل میں تھے اور علما کو بلا کر آرمی کے کرنل جنرل نے کہا کہ ان گھوڑوں کو بوسہ دو یہ رسول ع کے گھوڑے کی نسل سے ہیں یہ ویڈیو یو ٹیوب پر ھے دیکھی جاسکتی ھے ۔۔۔۔میں اپنی خطابت سے شیعت کو بچاتا ھوں یہ میرا مقصد ھے کتنے لوگوں نے میری کتاب ذوالجناح پڑھی یا کوئ کتاب بھی عوام پڑھتے ہیں یا  علامہ ثقلین۔ گھلو جیسے عالم فاضل اس میں حاسدین کو ہٹا دیا جائے جو ہماری فکر کو نہیں سمجھا وہ کیا سمجھے گا ۔ہم کو ۔ ۔ ۔۔بینظیر کو  دہشت گردوں نے قتل کر دیا جو مسلسل شیعوں کو سندھ پنجاب سرحد اور بلوچستان و کراچی میں قتل کر رھے تھے  وہی قاتل ہیں ناصبیت عروج پر آگئی ۔۔۔اور سیاست یہی ھے کہ زرداری پر بیوی کا قتل ڈال دو جو بات سیاسی لیڈرفیصل رضا عابدی کہہ رہا ھے ۔اور وہ قاتلوں کے نام بتا رہا ھےاس کی۔ بات کوئ نہیں مانتا  ۔۔اعظم طارق کو الیکشن جتا کر لایا گیا تاکہ شیعہ کافر کے نعرے اسمبلی میں لگیں ایک دن بینظیر نے کہا کہ تم مجھے سلام نہیں کرتے تو اس نے کہا میں کافر کو سلام نہیں کرتا آپ کے گھر پر علم۔ کیوں لگا ھے بینظیر نے کہا وہ زر داری نے لگایا ھے ۔۔اس نے کہا کہ پھر اگر آپ سنی اور زرداری شیعہ ہیں تو آپ کا نکاح نہیں ھوا یہ۔ پوری گفتگو محسن نقوی نے لکھی اور جعفر میر کے اخبار ندائے شیعہ میں شائع ھوئی بینظیر کا نکاح بھی شیعہ طریقے سے ھوا    ۔۔پھر ریاض بسرا آتا ھے ۔ ۔ ۔میں اس زمانے میں محرم کا پہلا عشرہ ہر سال لاھور میں  پڑھتا تھا پھر عشر ثانی  شاد باغ میں پڑھتا تھا ۔۔۔ایک مجلس پر اچانک  سامنے کی ناصبی مسجد سے فائیرنگ شروع ھو گئ ۔۔اس وقت  آصف علی گیلانی اور کوثر نیازی نے بہت ساتھ دیا اور لاھور کے وکلا نے اور آرمی آفیسرز نے ہمارا ساتھ دیا اور قاتل  سب گرفتار ھو گئے  آئی جی نے زخمیوں کی عیادت ہاسپٹل میں کی ۔۔۔۔۔نواز شریف کے دونوں عہد اس طرح گزرے کہ بظاہر وہ یہی کہتےرھے کہ  کافر  کافر کے نعرے نہیں لگیں گے کوئی کافر نہیں ھے اور معاملہ اس طرح ھے کہ دستاویز حکومت کو یک ہزار صفحات کی  پیش کی گئی  جو میرے پاس موجود ھے عین غین کراروی سے نواز شریف نے کہا کہ یہ وہ علما سامنے کھڑے ہیں اور یہ شیعہ کتابیں ہیں لاھور کی چھپی جس میں حضرت ثانی  کے بارے میں گندی باتیں لکھی ہیں  ان کتابوں پر پابندی لگانا ھے عین غین کراروی پر ہمارا سلام کہ ساری شیعہ کتابوں کو بچا لیا یہ کہہ۔ کر کہ ان۔ کتابوں کو ہٹا دیں میں آپ کو اصلی بات بتاتا ھوں  جب تینوں خلفا کافر تھے  اس وقت جو حرکتیں ان کی تھیں وہ ی شیعہ لکھتے ہیں جب وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ھوگئے تو انھوں  نے شراب اور زنا چھوڑ دیا اور نماز پڑھنے لگے مسلمان  ھونے کیے بعد کی کوئ روایت دکھائیں کی شیعہ نے لکھی ھو کہ شراب پی یا زنا کیا نواز شریف نے ساری کتابیں بحال کر دیں اور کہا کوئ پابندی نہیں لگے گی  ۔۔۔
 ناصبیت کس طرح پاکستان میں چھا گئ اور  شیعوں کو مسلسل قتل کیا جا رہا ھے محرم سے پہلے کراچی کے ایک شیعہ زیدی سرجن جو کہ  دل کے آپریشن۔ کا ماہر تھا اس کو قتل۔ کر دیا گیا  اور تفتیش سے پتہ چلا کہ کچھ ناصبی ڈاکٹروں نے وہ جگہ لینے کے لئے ان۔ کو شہید کر دیا ۔۔جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ییں ۔۔

پہلی بات کہ کعبے کے اندر بت نہیں تھے ۔. .  مبشر علی زیدی صاحب یہ باتیں نوٹ کرلیں ۔۔۔کعبے کے باہر مختلف جگہ پر بت نصب کئے گئے تھے ۔ ۔۔جہاں جس کو جگہ ملتی تھی وہ بت لگا دیتا تھا ۔۔۔۔۔۔اولاد اسماعیل ع سے یمنی قبیلے بنی۔جرہم۔نے کعبے کو چھین لیا تھا ۔۔اور ان کی اولاد کو مکّے سے نکال دیا تھا ۔۔جب اولاد اسماعیل ع ہجرت کرکے یمن۔چلی گئ ۔۔تو لحیا نامی شخص مصر سے ایک بت میلے سے خرید کر لایا اور کعبے کے باہر نصب کر دیا ۔۔۔جب جناب رسول خدا کے جد قصی جوان ھوے انھوں نے مکّے پر حملہ کرکے مکّہ فتح کیا اور بت توڑ کر پھینی دئے لیکن ناصبی فرقہ جو بنی ہاشم کا دشمن تھا وہ توحید کے خلاف تھا اور بتوں کو اوردولت کو خدا مابتا تھا آج بھی ناصبی مسلمان حکومت اور دولت کو خدا مانتے ہیں ۔۔ان کے بت طاغوت ہیں ۔۔اور یہ آج بھی بت پرستی کو پسند کرتے ہیں ۔۔عبدالشمش نے عکاظ کے میلے سے ایک۔یہودی غلام۔کو  خریدا جس کا نام امیہ۔تھا اس نے جناب ہاشم اور اسکے بیٹے حرب نے عبدالمطلب کی زندگی دشوار کر دی ۔۔یہ سب توحید کے خلاف تحریک چلا رھے تھے ۔۔اور ضد میں بت لا لاکر رکھ رھے تھے بد۔کعبے کے اندر بت نہیں رکھ پاتے تھے اور آخر تک کعبے میں بت نہ آسکے تو کچھ تصاویر جبریل اور میکایل کی خیالی بنوا کر لگانا شروع کر دیں تاکہ فرشتوں پر جھگڑا ھو یہ کام یہودی کر رھے تھے اور ناصبیوں سے کروا رھے تھے جس طرح آج بھی یہودی اسلام کے خلاف کام ناصبیوں سے کروا رھے ہیں ۔۔کئ جنگیں ھوئیں عقائد کے سلسلے میں بنی ہاشم توحید والے تھے اور ناصبی بت پرست تھے ۔۔ایسے میں جنگو کی وجہ سے قحط پڑا اور سب بھوک سے مرنے لگے جناب ہاشم نے سب کے رزق کا انتظام۔کیا جس کا ذکر قران نے سورہ قریش میں کیا ھے ۔پھر ہاشم کے بعد عبدالمطلب ع سے یہ ناصبی جنگ کرنے لگے سرپرستی یہودی کر رھے تھے ۔ حضرت ابوطالب کے دور میں جب حضرت محمد ع کی نبوت یا اللہ نے اعلان کیا تو اللہ نے قتان۔میں ابو طالب عکی مدح میں سورہ ضحیٰ نازل کیا اور حضرت ابو طالب ع کی مدح کی اور ان کے ایمان کی سچّائی  کو کھل کر قران میں بیان کیا ابو طالب ع توریت زبور اور انجیل کے عالم تھے اور اپنے وقت کے ولی تھے ان کو ناصبیوں نے بہت پریشان کیا اور مکہ سے نکال دیا کہ تم توحید والے فرقے کے ھو بت پرست نہیں ھو ۔۔۔اور یوں ناصبیوں  نے بنی ہاشم اور رسول ع کے دین پر قابض ھوکر دولت اور حکومت کو اپنا خدا تسلیم۔کر۔لیا ۔۔۔۔یہ ھے پاکستان کی کہانی بنی ہاشم کی نسل نے پاکستان بنایا اور ذوالجناح کے قدموں کے صدقے میں بنا اور توحید پرستوں نے بنایا ۔۔۔ناصبیوں نے پاکستان پر قبضہ کر لیا اور دولت کی پوجا شروع ہو گئی.....

  Copy  #یہ_تو_ہو_گا

Mozzahir Abbas

جمعہ، 8 نومبر، 2019

مسلمانوں میں رائج عقیده عصمت

Monday, March 20, 2017

عقیدہ عصمت قرآن کی روشنی میں۔۔ تحریر آیت اللہ برقعی

رایج عصمت کا عقیدہ قرآن مجید کی روشنی میں

تحریر:آیت اللہ العظمی سید ابوالفضل ابن الرضا برقعی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالی نے انبیاء کرام سے تبلیغ رسالت الہی کے متعلق وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو خطا سے محفوظ رکھے گا،اسی لیے پیغمبر اکرم ص سے مخاطب ہو کر سورہ اعلی آیت 6 میں فرمایا:
سَنُقْرِؤُكَ فَلَا تَنسَى
ہم تمہیں پڑھا دیں گے کہ تم بھلا نہ سکو گے
یعنی رسالت الہی کے متعلق آپ کو نسیان نہیں ہوگا۔اور سورہ جن آیت نمبر27 و 28 میں فرمایا:

إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ٭لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا
ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس (کو غیب کی باتیں بتا دیتا اور اس) کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے ۔تاکہ معلوم فرمائے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور (یوں تو) اس نے ان کی سب چیزوں کو ہر طرف سے قابو کر رکھا ہے اور ایک ایک چیز گن رکھی ہے
ان آیات میں اللہ تعالی نے رسول اللہ ص کو حفظ رسالات رسول ص کی ضمانت دی ہے۔
لیکن وہ امور جو کہ تبلیغ رسالت اور وحی سے خارج ہیں ان میں آپ کی عصمت موجود نہیں،جیسا کہ اللہ تعالی نے سورہ محمد آیت نمبر 19 میں رسول اسلام ص سے فرمایاِؔ:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
پس جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔
اور اسی طرح سورہ غافر آیت نمبر 55 میں فرمایا:
وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ
اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو
اور سورہ نساء آیت نمبر 105 و 106 میں ارشاد فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّهُ وَلاَ تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا ٭ وَاسْتَغْفِرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ اللہ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔ اور اللہ سے بخشش مانگنا بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
اور سورہ نصر آیت نمبر 3 میں آپ ص سے فرمایا:
وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے
اور سورہ فتح آیت نمبر 2 میں آپ ص سے فرمایا:
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ
تاکہ(اے محمد ص) اللہ تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے
اور جب رسول ص سے ایک گروہ سے متعلق تحقیق نہیں کیا کہ جو جو جنگ سے بہانے اور عذر تلاش کر کے چلے گئے۔تو اللہ تعالی نے آپ ص کو ملامت اور سرزنش کرتے ہوئے سورہ توبہ آیت 43 میں فرمایا:
عَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
اللہ تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے ہیں جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھوٹے ہیں اُن کو اجازت کیوں دی.
اور دیگر انبیاء ع سے متعلق جیسا کہ جاننا چاہیے کہ سورہ قصص آیت نمبر 16 میں اللہ نے حضرت موسی ع کا قول ذکر کیا ہے۔
قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
بولے کہ اے پروردگار میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے تو اللہ نے اُن کو بخش دیا۔ بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے
اور سورہ انبیاء آیت نمبر 87 میں حضرت یونس کا قول جو اللہ سے انہوں نے ارشاد فرمایا:
لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے (اور) بےشک میں قصوروار ہوں
اور سورہ اعراف آیت نمبر 23 میں حضرت آدم ع کے متعلق ارشاد فرمایاَ
قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے
سورہ طہ آیت نمبر 121 میں ارشاد فرمایا:
وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى
اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم خلاف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے) بےراہ ہو گئے
اور حضرت نوح ع کے متعلق جیسا کہ سورہ ھود آیت نمبر 47 میں ارشاد فرمایا:
وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ

اور اگر تو مجھے نہیں بخشے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں تباہ ہوجاؤں گا
اسی طرح دیگر بہت ساری آیتیں ہیں۔
کیا قرآن اور غیر قرآن میں انبیاء علیھم السلام کی دعائیں جن میں انہوں نے خود کو گناہگار کہا اور اللہ سے بخشش مانگی کیا اس سے ہمیں یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ معصوم نہیں تھے۔
جب انبیاء کرام ع عصمت کے دعویدار نہ ہو تو بہت تعجب کا مقام ہے کہ جو لوگ اپنے بزرگوں اور اماموں کی عصمت کے لیے عصمت ذاتی کے قایل ہوئے ہیں۔حالانکہ یہ امام علیھم السلام اپنے لیے کبھی عصمت ذاتی کے دعویدار نہیں تھے اور نہ وہ اس کے قائل تھے۔بلکہ انہوں نے مکرر اپنے کلمات میں اپنی گناہوں خطاؤں سے اظہار پشیمانی کرتے ہوئے اللہ سے عفوو معافی طلب کیا ہے۔یقینا انہوں نے اسی لیے ایسا کیا ہے تاکہ کوئی ان کی شان میں غلو نہ کرے۔اور اگر کوئی شخص ذاتی طور پر عصمت کے حامل ہو تو یہ اس کی کوئی فضیلت نہیں ہوگی،بلکہ وہ ایک پتھر کی طرح ہے کہ وہ بھی تو خطا نہیں کرسکتا۔لیکن درجہ تو اس شخص کا ہے جو خطا اور گناہ کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے خود کو اس سے بچائے۔اور اس کے علاوہ اگر انبیاء و اولیاء معصوم ہوں تو وہ لوگوں کے لیے اسوہ نہیں بن سکتے کیونکہ ایک شخص جس کا تن اور بدن ہے ،اس سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا کہ تم نوری مخلوق کی پیروی کرو(جو خطا سے پاک ہو٭۔
اللہ تعالی نے سورہ آل عمران آیت 80 میں صریحا ارباب بنانے سے منع کیا ہے۔
وَلاَ يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُواْ الْمَلاَئِكَةَ وَالنِّبِيِّيْنَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ
اور اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو اللہ بنالو بھلا کیا اسے زیبا ہے کہ تمہیں کافر ہونے کو کہے
اور اسی سورہ کی آیت 64 میں فرمایا:
وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ
اور اس کے ساتھ کسی چیز کو ہم شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے

اور سورہ توبہ آیت نمبر 31 میں فرمایا:
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
انہوں نے اپنے احباراور رہبان اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا اللہ بنا لیا حالانکہ اُن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے
ان آیات میں اللہ تعالی نے ہر شخص کو جو انبیاء و اولیاء اور ملائکہ کو رب بنائے ان سے کوئی چیز مانگے ان کو مشرک و کافر کہا ہے۔
بلکہ صریح قرآنی آیات اس کی دلیل ہے کہ انبیاء معصوم نہیں تھے۔اور شیعہ امامیہ کے گیارہ اماموں نے بھی اپنے کلمات اور دعاؤں میں اپنی گناوہوں کا اعتراف اور اقرار کیا ہے۔اور کہا ہے کہ ہم معصوم نہیں ہیں۔دعائے کمیل،صحیفہ علویہ اور صھیفہ سجادیہ ایسی دعاوں سے بھری پڑی ہے جس میں ان کی تضرع و زاری کے ساتھ انہوں نے اللہ کو یاد کیا ہے اور اس ذات سے اپنی گناہوں کے لیے عفو الہی کی درخواست کیا ہے۔اور اپنی خطاؤں سے طلب مغفرت طلب کیا ہے۔
حضرت علی ع خطبہ نمبر 216 میں نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
فَإِنِّی لَسْتُ فِی نَفْسِی بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ وَ لاَ آمَنُ ذَلِکَ مِنْ فِعْلِی
اسی طرح خطبہ نمبر 13 میں آپ ع نے ارشاد فرمایا:
أَصْبَحْتُ عَبْداً مَمْلُوكاً ظَالِماً لِنَفْسِي
عصمت کے متعلق میں صفۃ 36 و 37 اور 17 و 18 پر کافی ؤاضح کرچکا ہوں۔اور اس جگہ میں صرف یہی کہتا ہوں کہ اگر انبیاء کی عصمت ذاتی،جبلی اور تکوینی ہو تو یہ کوئی فضیلت نہیں کیونکہ ہر درخت اور پتھر بھی تکوینی لحاظ سے معصوم ہیں۔اور وہ بھی اللہ تعالی کی نافرمانی،عصیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ،اور بشریت کی فضیلت یہی ہے کہ وہ گناہ کرنے پر قادر ہونے کے باوجود بھی گناہ نہ کرے۔پس انبیاء جن کے متعلق آسمانی کتاب میں کہا گیا کہ ِ
بشر مثلکم
تمہاری طرح بشر ہیں ،یعنی ہر صفت بشر جو ہم میں ہے وہ ان انبیاء میں بھی تھے،مگر ان میں صرف ایک چیز کا فرق ہے وہ یہ کہ سمر رسالت و تبلیغ،میں وہ وحی کے مواطب تھے تاکہ ان سے خطا نہ ہوجائے،لیکن دیگر امور میں دیگر تممام افراد بشر کی طرح وہ بھی تھے۔
بنابریں ان میں بھی گناہ کرنے کا مادہ موجود ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ نقص ہے جیسا کہ فرشتے کی طرح جو گناہ کر ہی نہیں سکتے۔پس نتیجہ یہ ہے کہ وہ گناہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اپنی دعاؤں میں انہوں نے کبھی بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ہم تو معصوم ہیں بلکہ مکرر فرماتے تھے خدایا ہم گناہ گار ہیں اور اللہ سے وہ مغفرت طلب کرتے اور عفو و بخشش مانگتے تھے۔
٭
بہت ساری قرآنی آیت ہیں صریح جس میں یہ کہا گیا ہے کہ انبیاء سے گناہ سرزد ہوئے اور انہوں نے اس سے توبہ کیا۔اسی طرح بہت ساری دعائیں پیغمبر اسلام ص اور دیگر انبیاء اور آئمہ شیعہ اور اہل بیت سے مروی ہیں جن میں وہ اپنی گناہوں کا اللہ کے سامنے اقرار کرتے تھے۔اور اس ذات سے معافی و بخشش مانگتے۔اور جس نے دعا کی کتابیں پڑھی ہوں اس کے لیے یہ باتیں بالکل پوشیدہ نہیں ہے۔

حالانکہ امامیہ یہ کہتے ہیں کہ انبیاء و آئمہ نے ان دعاؤں میں جو گناہوں کا اقرار اور استغفار کیا ہے وہ صرف اور صرف دوسروں کو دعا سکھانے اور یاد کرانے کے لیے کی ہیں،اور وہ خود معصوم تھے؟
اس کا جواب بالکل واضھ ہے کہ اولا یہ محض ایک دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں۔اور محض خیالی باطل دعوی ہے۔
دوسری یہ کہ اگر کوئی شخص ایسا دعوی کرے تو اس سے پوچھنا چاہیے کہ اگر تم اپنے اس بات میں سچے ہو تو تمہیں اس دعا کے بعض حصون کی بجائے پوری دعا کے مضمون کو سر مشق بنانا چاہیے۔مثلا ان دعاؤں میں آیا ہے کہ تمہارے آئمہ ڈائریکٹ اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع و زاری سے مانگتے،اور کہتے کہ ِ
خدایا ہم تیرے سوا کسی اور کو نہیں پکارتے،اور تیرے علاوہ کسی اور سے متوسل یا متوجہ نہیں ہوتے۔اور تیرے سوا کسی کو شفیع نہیں سمجھتے۔اور اس جیسے دیگر کلمات۔
نتیجہ یہ کہ تم اپنے اس دعوے کے مطابق کیوں نہیں عمل کرتے اور ان بزرگوں کی طرح غیر اللہ کو کیوں نہیں پکاتے ہو،اور کیوں ان کی طرح غیر خدا کی بجائے خدا کی طرف متوجہ،توسل،پناہ و زاری نہیں کرتے؟اور وہ توسل جو قرآن کے خلاف ہے اس کو چھوڑتے کیوں نہیں ہو؟اور میں نے عصمت کے موضوع پر اس سے قبل صفحات میں کافی تفصیل بیان کیا ہے۔
٭
علی ع معصوم نہیں تھے جیسا کہ قیس بن سعد بن عباد جو کہ بہادر اور تیز ایک شخص تھا اور آپ نے اس کو مصر کا والی بنایا،اور معاویہ نے اس کو واھمہ کیا ،پس علی ع نے تحریک معاویہ پر اس کو معزول کیا۔اور اس کو معزول کرنے کے سبب مصر علی ع کے تصرف سے نکلا اور معاویہ کے قبضے میں چلا گیا۔اسی طرح علی ع نے ابوموسی کو والی کوفہ بنایا ۔۔۔اور جمل۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کافی غلطیاں علی ع سے ان معاملات میں سرزد ہوئیں جیسا کہ نھج البلاغہ کے مکتوبات سے ظاھر ہیں،مثلا ایک خط منذر بن جارود کو لکھا جس کو آپ نے والی بنایا تھا۔۔۔۔لیکن وہ بھی خائن نکلا۔۔
محمد ص بھی عصمت ذاتی نہیں رکھتے تھے بلکہ اللہ تعالی وہی کے ذریعے آپ ص کو خطاؤں سے محفوظ رکھتے تھے،اور اگر آپ ص پر بھی وحی نازل نہ ہوتا تو آپ بھی غلطیاں کر جاتے۔یہ وحی تھی جس کی وجہ سے آپ ان اشتباھات سے محفوط تھے
تم اپنے اماموں کے لیے عصمت کے قائل ہو ھالانکہ عصمت ایک باطنی امر ہے۔کہ کوئی شخص سوائے اس شخص خود کے کوئی اس سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔تم ہی کہو کیا ان آئمہ نے خود کہا ہے کہ ہم معصوم ہیں یا نہیں؟؟اگر وہ اپنے لیے عصمت کا دعوی کرتے تھے تو یہ دعوی کا ثبوت کہاں ہے؟ان کے بہت سے ثبوت تو یہ کہتے ہیں کہ ہم گناہگار ہیں،اور انہوں نے اپنی دعاؤں میں اپنے لیے گناہوں سے توبہ اور گریہ و زاری کیا ہے اللہ کے حضور۔کیا تم ان کے قول و گفتار کو مانتے ہو؟علی ع خطبہ نمبر 207 نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ

کیا تم جو ان کی پیروی کا دعوی کرتے ہو ان سے زیادہ ان کو پہچان گئے ہو؟
کMUQAS کے تمام حرکات و سکنات میں ان کے ساتھ تھے،اور ان کے باطنی اھوال و صفات نفسانی کا احاطہ کرتے ہو؟؟
وہ تو خود اپنی گناہون سے ڈرتے اور توبہ و اناب کرتے تھے۔لیکن تم لوگ ان کی وفات کے ہزاروں سال بعد ان سے متعلق دوسری چیز کا قائل ہوگئے ہو۔خیالی عصمت کا فائدہ ہی کیا ہے،جب وہ زندہ تھے تو کوئی ان کو معصوم نہیں سمجھتا تھا،حتی وہ خود اپنے کو معصوم نہیں سمجھتے تھے۔
میں نے بار بار اپنی اس کتاب میں ان کی عصمت کے متعلق دھرایا ہے ،اور اس جگہ یہی کہون گا کہ کتاب و سنت میں بالکل بھی اماموں کی عصمت پر دلیل موجود ہی نہیں،رسول خدا ص نے تمہاری معتبر کتاب وسائل الشیعہ وغیرہ میں کہا ہے کہ :
أيها الناس حلالي حلال إلى يوم القيامة وحرامي حرام إلى يوم القيامة إلّا وقد بينهم الله في الكتاب وبينتهما في سيرتي وسنتي وبينهما شبهات من الشيطان وبدع بعدي من تركها صلح له أمر دينه
پس اگر مسلمان عزت رفتہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے کتاب و سنت پر عمل کرنے اور بدعات کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے،

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...