Saieen loag

جمعرات، 4 اپریل، 2019

شیعه کلمه علی ولی الله اھلسنت کتب سے ثابت ھے.

شیعه کلمه......علی ولی اللله
2:قسط نمبر             
2                                        

رسول اللله ص کا نام سن کے درود پڑھنا ثواب ھے تو  "علی ولی اللله "پڑھنا بھی کلمه میں ثواب و عبادت ھے.

شائد آپ کھیں که صحیح مسلم کی روایت کے مطابق امر جدید اگر حسنه ھو تو قابل  ثواب ھوتا ھے اور نفلی عبادت جتنی بھی کر لی جاۓ زریعه ثواب ھے که نوافل جتنے چاھیں پڑھ سکتے ھیں باعث ثواب ھو گا.زکواة مقرره مقدارسے زیاده  بھی ادا کی جا سکتی ھے حج حالنکه زندگی میں ایک دفعه فرض ھے لیکن جتنے چاھیں کر لیۓ جائیں لھذا اس نظریه سے معلوم ھوا که نیک عمل یعنی عبادت کی اس مقدار سے جو مقرر کی گئ ھو زیاده کرنا کوئی گناه نھیں بلکه ثواب ھے بشرطیکه اس اضافه کرنے سے قرآن و سنت نبوی کی مخالفت نه ھو پس اس ھی نظریه کے ماتحت ھم کھتے ھیں"  علی ولی اللله  " کھنا عبادت ھے اور یه کھنے سے نه ھی توحید خداوندی کے عقیده کو ضعف پهنچتا ھے اور نه ھی رسالت کے ایمان میں کمی آ جاتی ھے بلکه اس اقرار سے کلمه طیبه بن جاتا ھے اور بلند ھو جاتا ھے اگر یه سوال کیا جاۓ که اس نظریه کی اساس پر اقرار  "علی ولی اللله "کم سے کم امر جدید یعنی بدعت تو ثابت ھوتا ھے .لیکن بدعت حسنه جبکه ولایت و امامت کا عقیده شیعوں کے نذدیک اصولی ھے لھذا ضروری ھے که اسکی اساس نص صریحی پر ھو .

چنانچه اس کا جواب یه ھے که متزکره بالا دلیل ھماری نھیں ھے بلکه فریق مخالف کی ھی دلیل پر ھم نے استدلال کیا ھے جبکه ھمارا ایمان بے شک  یه ھے که ولایت کا عقیده اصولی ھے.اور اس کا منکر مومن نھیں .
نه صرف  "علی ولی اللله "سنت رسول سے ثابت بلکه کلام خدا سے مکمل طور پر ثابت ھے جیسا که قرآن مجید میں ھے .

ترجمه :_پس اللله تمھارا ولی ھے اور رسول ولی ھے اور وه مومینین جو قائم کرتے ھیں نماز کو حالت رکوع میں زکواة دیتے ھیں.(سوره مائده,55)

مشھور تفسیر قادری اور دیگر تفاسیر میں ھے که یه آیت حضرت علی ع کی شان میں اتری ھے.جبکه انھوں نے حالت رکوع میں سائل کو انگشتری عطا فرمائی.پس اس آیت کے تحت حضرت علی ع کو ولی تسلیم کرنا ضروری ھے اور اس کا منکر مومن نه رھا اور آیت قرآن سے انکار کرکے منکر قرآن ھو گیا.

اس آیت کے زمن میں ڈاکٹر طاھر القادری نے بھی آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب کے صفحه 33,پر حدیث نمبر 29,_حضرت عمار بن یاسر رض سے روایت کی ھے که ایک سائل حضرت علی ع کے پاس آ کے کھڑا ھو گیا آپ ع اس وقت نماز کی حالت رکوع میں تھے اس نے آپکی انگوٹھی کھینچی آپ نے انگوٹھی سائل کو عطا کر دی حضرت علی ع حضور اکرم ص کے پاس آۓ اور آپکو اسکی خبر دی اس موقع پر آپ ص پر یه آیت نازل ھوئی.

یه حدیث آپ مذید احمد بن حنبل ا ص 119, الحاکم فی المستدرک جلد 3,ص,119,ح371. طبرانی فی معجم الاوسط جلد 7ص,129,خطیب بغدادی فی تاریخ بغداد جلد 7-ص,377,
میں بھی ملحاظه فرما سکتے ھو.

اس کے علاوه مشکواة شریف میں حضرت ام المومینین حضرت عائشه سے حدیث بیان ھوئی ھے علی ع کا زکر عبادت ھے.

یه حدیث صواعق محرقه کے علاوه اور کئی کتب میں بھی درج ھے.مثلا ابن عساکر,زمخشری طبرانی معجم الکبیر  وغیره.
یه حدیث بھی ڈاکٹر طاھر القادری نے آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب کے صفحه 146,حدیث نمبر 165 میں درج کی ھے.که علی ع کا زکر عبادت ھے.

معتبر کتب کی تسلی کے بعد ھم اس نتیجه پر پهنچے که زکر علی ع اگر کلمه کے ساتھ لگا دیا جاۓ تو یه عبادت ھے کیونکه کلمه کے ساتھ اگر بسمه اللله پڑھنا مانع نھیں تو پھر  "علی ولی اللله "پڑھنا بھی منع نھیں کیونکه بسمه اللله کی ب کے نیچے نقطه مولا علی ع ھیں. 
(ملحاظه فرمائیں ینابیع المودة ص 119)

جس طرح قاری یا عام مسلمان کے سامنے پاک نبی ص کا نام آۓ تو ھر عشق رسول والا درود شریف پڑھتا ھے اور ثواب حاصل کرتا ھے لھذا جب کلمے کے ساتھ آنحضرت ص کا نام آۓ گا تو درود پڑھیں گے اور ارشاد پیغمبر ص ھے که مجھ پر درود پڑھو پورا ادھورا درود واپس لوٹا دیا جاۓ گا. 
پس کلمه میں اگر حضور ص کے نام نامی کے بعد صلی اللله علیه واله وسلم کا اضافه کر دیا جاۓ تو یه اضافعه مانع کلمه نھیں ھو گا.افسوس ھے درود کا ورد جائز سمجھا جاۓ اور صاحب درود کے زکر کو معاز اللله بدعت سمجھا جاۓ جبکه زکر   "علی ولی اللله "عبادت ھے .
خود رسول کریم ص نے علی ولی اللله پڑھا ھے.اور اقرار ولایت علی ع تعمیل حکم پیغمبر ھے.
 (جاری ھے)    
شیعه کلمه......علی ولی اللله
قسط نمبر :2

رسول اللله ص کا نام سن کے درود پڑھنا ثواب ھے تو  "علی ولی اللله "پڑھنا بھی کلمه میں ثواب و عبادت ھے.

شائد آپ کھیں که صحیح مسلم کی روایت کے مطابق امر جدید اگر حسنه ھو تو قابل  ثواب ھوتا ھے اور نفلی عبادت جتنی بھی کر لی جاۓ زریعه ثواب ھے که نوافل جتنے چاھیں پڑھ سکتے ھیں باعث ثواب ھو گا.زکواة مقرره مقدارسے زیاده  بھی ادا کی جا سکتی ھے حج حالنکه زندگی میں ایک دفعه فرض ھے لیکن جتنے چاھیں کر لیۓ جائیں لھذا اس نظریه سے معلوم ھوا که نیک عمل یعنی عبادت کی اس مقدار سے جو مقرر کی گئ ھو زیاده کرنا کوئی گناه نھیں بلکه ثواب ھے بشرطیکه اس اضافه کرنے سے قرآن و سنت نبوی کی مخالفت نه ھو پس اس ھی نظریه کے ماتحت ھم کھتے ھیں"  علی ولی اللله  " کھنا عبادت ھے اور یه کھنے سے نه ھی توحید خداوندی کے عقیده کو ضعف پهنچتا ھے اور نه ھی رسالت کے ایمان میں کمی آ جاتی ھے بلکه اس اقرار سے کلمه طیبه بن جاتا ھے اور بلند ھو جاتا ھے اگر یه سوال کیا جاۓ که اس نظریه کی اساس پر اقرار  "علی ولی اللله "کم سے کم امر جدید یعنی بدعت تو ثابت ھوتا ھے .لیکن بدعت حسنه جبکه ولایت و امامت کا عقیده شیعوں کے نذدیک اصولی ھے لھذا ضروری ھے که اسکی اساس نص صریحی پر ھو .

چنانچه اس کا جواب یه ھے که متزکره بالا دلیل ھماری نھیں ھے بلکه فریق مخالف کی ھی دلیل پر ھم نے استدلال کیا ھے جبکه ھمارا ایمان بے شک  یه ھے که ولایت کا عقیده اصولی ھے.اور اس کا منکر مومن نھیں .
نه صرف  "علی ولی اللله "سنت رسول سے ثابت بلکه کلام خدا سے مکمل طور پر ثابت ھے جیسا که قرآن مجید میں ھے .

ترجمه :_پس اللله تمھارا ولی ھے اور رسول ولی ھے اور وه مومینین جو قائم کرتے ھیں نماز کو حالت رکوع میں زکواة دیتے ھیں.(سوره مائده,55)

مشھور تفسیر قادری اور دیگر تفاسیر میں ھے که یه آیت حضرت علی ع کی شان میں اتری ھے.جبکه انھوں نے حالت رکوع میں سائل کو انگشتری عطا فرمائی.پس اس آیت کے تحت حضرت علی ع کو ولی تسلیم کرنا ضروری ھے اور اس کا منکر مومن نه رھا اور آیت قرآن سے انکار کرکے منکر قرآن ھو گیا.

اس آیت کے زمن میں ڈاکٹر طاھر القادری نے بھی آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب کے صفحه 33,پر حدیث نمبر 29,_حضرت عمار بن یاسر رض سے روایت کی ھے که ایک سائل حضرت علی ع کے پاس آ کے کھڑا ھو گیا آپ ع اس وقت نماز کی حالت رکوع میں تھے اس نے آپکی انگوٹھی کھینچی آپ نے انگوٹھی سائل کو عطا کر دی حضرت علی ع حضور اکرم ص کے پاس آۓ اور آپکو اسکی خبر دی اس موقع پر آپ ص پر یه آیت نازل ھوئی.

یه حدیث آپ مذید احمد بن حنبل ا ص 119, الحاکم فی المستدرک جلد 3,ص,119,ح371. طبرانی فی معجم الاوسط جلد 7ص,129,خطیب بغدادی فی تاریخ بغداد جلد 7-ص,377,
میں بھی ملحاظه فرما سکتے ھو.

اس کے علاوه مشکواة شریف میں حضرت ام المومینین حضرت عائشه سے حدیث بیان ھوئی ھے علی ع کا زکر عبادت ھے.

یه حدیث صواعق محرقه کے علاوه اور کئی کتب میں بھی درج ھے.مثلا ابن عساکر,زمخشری طبرانی معجم الکبیر  وغیره.
یه حدیث بھی ڈاکٹر طاھر القادری نے آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب کے صفحه 146,حدیث نمبر 165 میں درج کی ھے.که علی ع کا زکر عبادت ھے.

معتبر کتب کی تسلی کے بعد ھم اس نتیجه پر پهنچے که زکر علی ع اگر کلمه کے ساتھ لگا دیا جاۓ تو یه عبادت ھے کیونکه کلمه کے ساتھ اگر بسمه اللله پڑھنا مانع نھیں تو پھر  "علی ولی اللله "پڑھنا بھی منع نھیں کیونکه بسمه اللله کی ب کے نیچے نقطه مولا علی ع ھیں. 
(ملحاظه فرمائیں ینابیع المودة ص 119)

جس طرح قاری یا عام مسلمان کے سامنے پاک نبی ص کا نام آۓ تو ھر عشق رسول والا درود شریف پڑھتا ھے اور ثواب حاصل کرتا ھے لھذا جب کلمے کے ساتھ آنحضرت ص کا نام آۓ گا تو درود پڑھیں گے اور ارشاد پیغمبر ص ھے که مجھ پر درود پڑھو پورا ادھورا درود واپس لوٹا دیا جاۓ گا. 
پس کلمه میں اگر حضور ص کے نام نامی کے بعد صلی اللله علیه واله وسلم کا اضافه کر دیا جاۓ تو یه اضافعه مانع کلمه نھیں ھو گا.افسوس ھے درود کا ورد جائز سمجھا جاۓ اور صاحب درود کے زکر کو معاز اللله بدعت سمجھا جاۓ جبکه زکر   "علی ولی اللله "عبادت ھے .
خود رسول کریم ص نے علی ولی اللله پڑھا ھے.اور اقرار ولایت علی ع تعمیل حکم پیغمبر ھے .(جاری ھے)  
" :ازقلم:  "سائیں لوگ  

   


شیعه کلمه علی ولی الله

شیعه کلمه......علی ولی اللله

اقرار ولایت علی ع اتباع خدا اور رسول ص ھے.
                     
  قسط نمبر :1                                


کلمه کے ساتھ علی ولی اللله معتبر کتب اھلسنت سے مکمل طور پر ثابت ھے
الله تعالی کو الله کهنا نبی پاک کو رسول کهنا حتی کے زید کو ڈاکٹر اور اکرم کو ڈپٹی کهنا کسی بھی جھت سے قابل اعتراض نھیں ھے کیونکه اگر خدا کو اللله کهتے ھیں تو فی الحقیقت وه ھے ھی اللله اور اگر حضور کو رسول کها جاۓ تو بھی درحقیقت اللله کے رسول ھیں.چونکه علم طب کا ماھر ھے جسے ڈاکٹر کهتے ھیں لھذا اسے ڈاکٹر کهنا بری بات نھیں اور چونکه اکرم ڈپٹی کے عھده پر فائز ھے لھذا اسے ڈپٹی کهنے پر کوئی اعتراض نھیں ھوگا.

البته فرعون کو اللله کها جاۓ تو کفر و شرک ھوگا کیونکه وه خدا نھیں.

 اسی طرح غلام احمد کو نبی کهنا شروع کر دیا جاۓ تو کفر ھوگا که وه کازب ھے.

اور اگر کسی سبزی فروش کو ڈاکٹر کھا جاۓ تو جھالت ھوگی اسی طرح ایک چپڑاسی کو ڈپٹی صاحب کهه کر پکارا جاۓ تو وه مذاق سمجھا جاۓ گا.

معلوم ھوا کسی حامل منصب کو اس کے منصب سے پکارنا مذموم نھیں بلکه جائز ھے اس کے برعکس کسی غیر اھل کو ایسا پکارنا جھالت اور دیوانگی ھو گا. 

حضرت علی ع کو ھم اگر اللله کا ولی کهتے ھیں تو اس لیۓ که وه اللله کے ولی ھیں لھذا ولی کو ولی کهنا کیوں کر معیوب ھو سکتا ھے اس سے پهلے که ولایت علی ع کے بارۓ کچھ گفتگو کی جاۓ.
 ھم معترضین سے یه پوچھتے ھیں که وه بتائیں که درود شریف میں اصحاب و آزواج کو کیوں ملایا جاتا ھے.
جبکه نماز میں صرف محمد و آل محمد ھی پڑھا جاتا ھے نیز جمعه وغیره کے خطبه میں آپ لوگ حضرت ابوبکر,عمر, عثمان و علی ع کے نام کیوں لیتے ھیں جبکه آنحضرت کے خطبه میں یه نام شامل نه تھے.
ھمارا دعوی ھے که رسول اللله ص کی حیات طیبه میں یه نام خطبوں میں نھیں پکارۓ جاتے تھے ورنه ثابت کر دیجیۓ.

ھم ھر پوسٹ پر ایک وقت دیتے ھیں معترض کو که وه آپنا اعتراض کمنٹس کے زریعے داخل کراسکتا ھے.
کلمه کی ھر پوسٹ پر وقت مھیا ھے .آپ جو کهنا اور پوچھنا چاھیں اخلاقیات کے اندر ره کے  اجازت ھے.
                                    (جاری ھے)                              
:نوٹ 
کلمه شیعه پر معترض کو آج شام 5:00, بجے سے کل صبح نو بجے تک سوله (16), گھنٹے کا ٹائم دیا جاتا ھے که وه درود شریف اور جمعه و عید  وغیره کے خطبه میں ازواج اور اصحاب رض کے نام ثابت کر کے دکھاۓ کلام مقدس,شیعه و اھلسنت کی معتبر کتب میں سے که رسول اللله ص نے آپنی حیات مبارکه میں پڑھا ھو.
"
ازقلم:"سائیں لوگ

مولا علی ع کی الله کے حضور عاجزی و مناجات

مولا علی ع کی بارگاه خدا میں عاجزی و مناجات:

مولا کی یه مناجات خطبه نمبر:114/225 میں ملحاظه فرمائیں.

مولا علی ع کی خدا کی بارگاه میں عاجزی اور دیکھیں اور غالی ملعون کی ڈھٹائی عمل ترک کرکے  بے عملی کے زریعےولایت ھی میں بخشش ڈھونڈھ رھا ھے.

جبکه مولا علی ع کا واضح حکم ھے که میں امام المتقین ھوں.

آۓ باری تعالی میرۓ سے بخشش سے سلوک کرنا نه که آپنے عدل و انصاف سے .

اسی لیۓ تو مولا علی ع نے فرمایا میں امام المتقین ھوں.
تارک واجبات کا نھیں.

خدا وند میں تجھ سے پناه مانگتا ھوں تیرۓ غنی ھونے کے باوجود میں فقیر ھوں اور تیری ھدایت کے باوجود گم گشته راه ھوں اور تیری سلطنت میں ره کے ستایا جاؤں جب که سب اختیار تجھے ھیں
 الله میں پناه مانگتا ھوں تیرۓ حکم سے قدم باھر رکھوں اور اس سے فتنه پڑ جاۓ
"ازقلم:"سائیں لوگ
.

بدھ، 13 مارچ، 2019

دین بنانے کا اختیار کس کو....

الله کے علاوه کسی کو دین بنانے کا حق نھیں ھے.

الله کا کام دین بنانا ھے لھذا ھدایت کے قانون الله تعالی نے بنانے ھیں انبیاء و آئمه علیھم اسلام نے اس دین کو پھنچانا و نافذ و لاگو کرنا ھے .

علماء نے اس دین کو سمجھنا ھے پھر اس دین کی تبلیخ کرنی ھے.

دھمال کی شرعی حیثیت

دھمال
 :دنیاوی تھکاوٹ اور عذاب آخرت ھے

دھمال کیا ھے اور مولا علی ع نے اس فعل کے متعلق کیا فرمایا ھے.

       " تحریر و تحقیق: "سائیں لوگ                                  

جب امیرالمومینین علی ع کوفه سے دمشق کی طرف شام جنگ کیلۓ لشکر لے کر جا رھے تھے,
راستے میں انبار شھر کے زمینداروں کو جب پتا چلا که امام علی ع کا گزر ھو رھا ھے تو وه لوگ استقبال کیلۓ شھر سے باھر آ گۓ .

اور آپ علی ع کے لشکر کے آگے ترجل شروع کیا,ترجل ,رجل سے ھے رجل ٹانگ کو کھتے ھیں,

 یعنی ٹانگ اٹھا کر زمین پر مارنا جس کو ھم آپنی زبان میں دھمال یا (بھنگڑا ) کھتے ھیں.

انھوں نے امیر المومینین علی ع کے سامنے دھمال ڈالنا شروع کر دیا.

تو علی ع نے پوچھا:

                ماھذه الذی صنعتموه,

 یه لوگ کیا حرکت کر رھے ھیں کھا که آپ ع کا استقبال کر رھے ھیں.
 ھم آپنے امیروں,حکمرانوں اور آئمه کا استقبال اسی طرح کرتے ھیں.

تو حضرت علی ع نے فرمایا :

        والله ماینتفع بھذه امراءکم ,

خدا کی قسم تمھارۓ والی و تمھارۓ حکمران ان باتوں سے کوئی فائده نھیں لیتے ,
یعنی تمھارۓ بھنگڑۓ دھمال مجھے کوئی فائده نھیں دیتے اور نه ھی تمھارۓ لیۓ کوئی فائده ھے.

ھاں یه ضرور ھے که تم دنیا میں آپنی جانوں کو مشقت میں ڈالتے ھو اور آخرت میں اس دھمال کی وجه سے بدبختی اور عزاب میں ره جاؤ گے.

اور وه کتنے گھاٹے کی مشقت ھو گی جسکی تمھیں سزا بھگتنا پڑۓ گی.

مجھے ان طریقوں سے خوش کرنے کیلۓ نه آؤ بلکه  علی دھمال یا بھنگڑۓ سے خوش نھیں ھوتے,
 چونکه علی ع دھمال سے خوش نھیں ھوتے نه ھی دھمال کو پسند کرتے ھیں.

لوگ پریشان ھو گۓ که یه پهلے امیر ھیں جو دھمال کو ناپسند کر رھے ھیں,
 جبکه پهلے جو حکمران آتے تھے وه تعریفیں بھی کرتے تھے.پیسے اور انعام بھی دیتے تھے.  

مولا علی ع نے فرمایا یه دھمال دنیاوی تھکاوٹ اور آخروی شقاوت ھے.

اس دھمال یا بھنگڑۓ سے نه میں خوش ھوتا ھوں اور ناں میرا خدا خوش ھو گا.

اور نه ھی تمھارۓ دھمال کا کوئی فائده ھے. بھنگڑوں دھمالوں کو چھوڑو اور سنو پهلے مجھ سے پوچھو که تمھارا فریضه کیا بنتا ھے .

تمھارا فریضه بھنگڑا اور دھمال نھیں بلکه تمھارا فریضه یه ھے که شمشیر اور ڈھال لو نیزه اور تلوار ھاتھ میں پکڑو اور میرۓ ساتھ میری فوج میں مل کر اس طاغوت اور ظالموں کو کچلو جو اسلام کے دشمن ھیں یه تمھارا فریضه ھے.

فرائض سے مت دور رھو دین شناسی لو توھمات کا مت شکار ھو جاؤ.من گھڑت راھوں پر مت سفر کرو قرب خدا حاصل کرو.

حضرت امیر ع فرماتے تھے میری حسرت تھی کاش میری باتوں کو کوئی سمجھتا.

آج یھی دھمال درباروں میلوں پر عبادت و عقیدت اور قرب حاضر صاحب مزار کے طور پر لوگ ادا کرتے ھیں.

 جیسے شھباز قلندر کی قلندری دھمال اور بھلے شاه بابا کا دھمال مشھور ھے.

یه جھالت ھے که فرائض کو بھلا کر ناچ کر بزرگ یا رضاۓ الھی کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ھے.

جبکه مولا علی ع نے واضح الفاظ میں اس فعل بد کی مذمت دنیاوی تھکاوٹ اور آخروی عزاب سے تعبیر کیا ھے.

یه تحریر ھدایت و اصلاح پر پیش کی گئی ھے ناکه تعصب و نکته چینی پر لھذا بے فائده تنقید و توھین سے پرھیز کیا جاۓ.

مذید یه واقع آپ نھج البلاغه ص نمبر 824/
حکمت نمبر :37 پر تفصیلی ملحاظه فرما سکتے ھیں.

یه فرمان امیر ع ھے ناکه کسی صوفی و عام آدمی کا.

12/ربیع الاول رسول ص کا یوم ولادت یا یوم وصال

12/ربیع الاول رسول الله ص کا یوم ولادت یا یوم وفات:

            " تحریر : "سائیں لوگ                   

 اہلِ فکر کو اس بات پر غور کرنا چاھیے که اھلسنت برادران  کے نذدیک  آنحضرت ص  کی تاریخِ ولادت میں مشھور قول 12/ربیع الاول اور وفات بھی 12/ربیع الاول ھے,

لیکن آئمه معصومین ع و محققین کے نزدیک رائج یه ھے کہ آپ کی ولادت 17/ربیع الاوّل عام الفیل 570,ء  کو ھوئی,

اور آپ کی وفات شریفه رائج  اور مشھور قول کے مطابق 28/صفر سال 11,ق 632 عیسوی کو ھوئی.

 مگر ھمارۓ برادر اھلسنت 12/ربیع الاوّل کے مھینه اور اس کی بارہ تاریخ صرف آپ کا یومِ ولادت نھیں بلکه یوم وفات بھی مناتے ھیں.

 جو لوگ اس مھینے اور اس تاریخ میں جشنِ عید مناتے ھیں انھیں سو بار سوچنا چاہئے که کیا وہ اپنے محبوب نبی ص کی وفات پر تو “جشنِ عید” نھیں منارھے؟.

مسلمان بڑی بھولی بھالی قوم ھے،دشمنان دِین کے خوشنما عنوانات پر فریفتہ ھوجاتی ھے.صفر کے آخری بدھ کو آنحضرت ص کا مرضِ وفات شروع ھوا، دُشمنوں کو اس کی خوشی ھوئی اور اس خوشی میں مٹھائیاں بانٹنا شروع کیں.

 اِدھر مسلمانوں کے کان میں چپکے سے یہ پھونک دیا کہ اس دن آنحضور سرورکون و مکاں ص  نے

                     “غسل صحت”

 فرمایا تھا اور آپ سیر و تفریح کے لئے تشریف لے گئے تھے.

 ناواقف مسلمانوں نے دُشمن کی اُڑائی ھوئی اس ھوائی کو

                    “حرفِ قرآن” 

سمجھ کر قبول کرلیا اور اس دن گھر گھر مٹھائیاں بٹنے لگیں.

 جس طرح “یومِ مرض” کو “یومِ صحت” مشھور کرکے دُشمنانِ رسول نے خود حضور ص کے اُمتی کھلانے والوں سے اس دن مٹھائیاں تقسیم کرائیں,

 اسی طرح آپ ص کے

                “یومِ وفات” کو “یومِ میلاد”

 مشھور کرکے مسلمانوں کو اس دن

                    “جشنِ عید” 

منانے کی راہ پر لگادیا.

شیطان اس قوم سے کتنا خوش ھوگا جو نبی کریم ص کے مرضِ موت پر مٹھائیاں بھنگڑۓ ,دھمال اور جلوس نکالتی ھے اور آپ ص کی وفات کے دن خوشی کاجشن مناتی ھے․․․!

کیا ھم آپنے ماں باپ یا بھن بھائیوں کی وفات کے دن جشن منانا پسند کریں گے.

اگر نھیں تو پھر جناب فاطمه زھرا س کے والد امجد حسنین کریمین ع کے نانا کی وفات پر جشن کیوں کب تک امت رسول ص اور آل رسول ع پر ظلم ڈھاتی رھے گی.

 کیا دُنیا کی کوئی غیرت مند قوم ایسی ھوگی جو اپنے مقتدا و پیشوا کے یومِ وفات پر

                “جشنِ عید” مناتی ھو؟ 

اگر نھیں، تو سوال یہ ھے کہ مسلمان “بارہ وفات” پر “جشنِ عید” کس کے اِشارے پر مناتے ہیں؟

 کیا الله تعالیٰ نے انھیں اس کام کا حکم دیا تھا؟.
 کیا رسول الله ص دُنیا سے تشریف لے جاتے ھوئے فرماگئے تھے کہ میری وفات کے دن کو عید بنالینا ؟ 

کیا آئمه معصومین ع  صحابه و تابعین اور اَئمہ مجتھدین میں سے کسی نے اس دن جشن عید منایا ؟

 کیا حدیث و فقه کی کسی کتاب میں مذکور ھے کہ

             “بارہ وفات” 

کا دن اسلام میں عید کی حیثیت رکھتا ھے؟.

 اور یہ کہ اس دن مسلمانوں کو سرکاری طور پر چھٹی کرنی چاہئے اور

           “جشنِ عید” منانا چاہئے․․․؟

یه ھمارا سوال برادران اھلسنت سے, مجھے معلوم ھے قیامت تک سوال ھی رھے گا جواب ملنا مشکل ھے.

  1. کیونکه ھم لکیر کے فقیر ھیں جو زھن میں بیٹھ جاۓ اسے نکالنا بھت مشکل ھے تحقیق و فکر تو کرنی ھی نھیں.

مولا علی ع کی امام حسن ع کو نصیحت.

شرک سے دور اور مدد صرف الله تعالی
 سے,
حضرت علی ع کی امام حسن ع کو نصیحت:   مکتوب نمبر:31

حضرت علی ع نے امام حسن ع کو میدان صفین سے مختلف نصیحتوں و ھدایات پر خط لکھا,

 جسمیں امام حسن ع کو آپنی مشکلات و مصائب کے متعلق آگاھی اور حالات پر صبر و تحمل اور عورتوں کے متعلق انتباه , دنیا و لذات سے بیزاری, امر بالمعروف ,مختصر زندگی کو یاد خدا اور سیرت رسول الله ص پر بسر,

 اور رزق حلال , اور عاجزی پر زندگی بسر کرنے پر نصیحت و زور دیا.

یه خط بیس 20/صفحات پر ھے اور مکمل طور پر پند و نصائح پر ھے.

جھاں بھت ساری نصحیتیں کی وھاں صرف,

 الله سے مدد مانگنے اور شرک سے بھی دور رھنے کی نصیحت کی.

مولا علی ع نے فرمایا:

 آۓ میری جان پدر میری باتوں پر غور و فکر کرنے سے پهلے آپنے خدا سے کھل کر مدد مانگو,

 اور آپنی توفیقات بارۓ صرف الله کی ھی طرف رجوع کرو اور ایسے ھر دھبه سے دامن چھڑا لو جو تمھیں شبھه (کی کیچڑ) میں ڈال دے.
یا تمھیں گمراھی کے حوالے کر دے.

صفحه /729,پر فرمایا :

آۓ نور نظر,

 غور کرو که اگر تمھارۓ پروردگار کا کوئی شریک ھوتا تو اس کے پیغمبر بھی تمھارۓ پاس آتے,

 اور اس کے ملک کے و سلطنت کے آثار بھی تمھیں دکھائی دیتے ایسا نھیں ھے بلکه بلا شرکت غیرۓ ایک ھی خدا ھے,
  1.  جیسا که اس نے آپنا وصف خود بیان فرمایا,اس کے اقتدار میں اس کا مد مقابل کوئی نھیں ھو سکتا.وھی ھی اول ھے اسے کبھی زوال نھیں.

اگر شیعه حق پر ھیں تو پھر اقلیت میں کیوں?

اکثر یه سوال دھرایا جاتا ھے اگر شیعہ حق پر ھیں تو وہ اقلیت میں کیوں ھیں؟

اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نھیں ماناھے؟
  
جواب: 
کبھی بھی حق اور باطل کی شناخت ماننے والوں کی تعداد میں کمی یا زیادتی کے ذریعہ نھیں ھوتی.

آج اس دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اسلام قبول نہ کرنے والوں کی بہ نسبت ایک پنجم یا ایک ششم ہے جبکہ مشرق بعید میں رہنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ھے.

جو بت اور گائے کی پوجا کرتے ہیں یا ماورائے طبیعت کا انکار کرتے ہیں.
چین جس کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ہے کیمونیزم کا مرکز ھے.

 اور ہندوستان جس کی آبادی تقریباًایک ارب ہے اسکی اکثریت ایسے افراد کی ہے جو گائے اور بتوں کی پوجا کرتی ھے.

اسی طرح یہ ضروری نہیں ہے کہ اکثریت میں ہونا حقانیت کی علامت ھو قرآن مجید نے اکثر و بیشتر اکثریت کی مذمت کی ہے اور بعض اوقات اقلیت کی تعریف کی ہے اس سلسلے میں ہم چند آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:

١۔  (وَلا تَجِدُ َکْثَرَہُمْ شَاکِرِین)
سوره اعراف,17

اور تم اکثریت کو شکر گزار نہ پاؤگے.

٢۔(ِنْ َوْلِیَاؤُہُ ِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَکِنَّ َکْثَرَہُمْ لایَعْلَمُونَ)
 سوره انفال,34.

اس کے ولی صرف متقی اور پرہیزگار افراد ہیں لیکن ان کی اکثریت اس سے بھی بے خبر ھے.

٣۔ (وَقَلِیل مِنْ عِبَادِ الشَّکُورُ)
سوره سبا,13
اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ھیں.

لہذا کبھی بھی حقیقت کے متلاشی انسان کو اپنے آئین کی پیروی کرنے والوں کو اقلیت میں دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیئے.

 اور اسی طرح اگر وہ اکثریت میں ہوجائیں تو فخر ومباہات نہیں کرنا چاہیئے,
 بلکہ بھتر یہ ھے کہ ھر انسان اپناچراغ عقل  روشن کرے اور اس کی روشنی سے بہرہ مند ہو.
ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی  ع کی خدمت میں عرض کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ جنگ جمل میں آپ کے مخالفین اکثریت پر ہونے کے باوجود باطل پر ہوں؟
امام  ع نے فرمایا :

''اِنّ الحق والباطل لایعرفان بأقدارالرجال . اعرف الحق تعرف أھلہ . اعرف الباطل تعرف أھلہ۔ ''
حق اور باطل کی پہچان افراد کی تعداد سے نہیں کی جاتی بلکہ تم حق کو پہچان لو خود بخود اہل حق کو بھی پہچان لو گے اور باطل کو پہچان لوتو خودبخود اہل باطل کو بھی پہچان لوگے .
ایک مسلمان شخص کیلئے ضروری ھے کہ وہ اس مسئلے کو علمی اور منطقی طریقے سے حل کرے اور اس آیۂ شریفہ (وَلاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْم )
سوره آسراء ع ,36.

کو چراغ کی مانند اپنے لئے مشعل راہ قرار دے اس سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو اگرچہ اہل تشیع تعداد میں اہل سنت سے کم ہیں .

 لیکن اگر صحیح طور پر مردم شماری کی جائے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک چوتھائی افراد شیعہ ہیں جوکہ دنیا کے مختلف مسلمان نشین علاقوں میں زندگی بسر کرر ھے ہیں.

واضح رھے کہ ہر دور میں شیعوں کے بڑے بڑے علماء اور مشہور مولفین اور مصنفین رہے ہیں اور یھاں پریہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ اکثر اسلامی علوم کے موجد اور بانی شیعہ ھی تھے جن میں سے چند یہ ھیں :
علم نحو کے موجد ابوالاسود دئلی

زیادہ وضاحت کیلئے ''اعیان الشیعہ''جلد ١بحث١٢اور صفحہ ١٩٤کی طرف مراجعہ کیا جائے.

علم عروض کے بانی خلیل بن احمد
علم صرف کے موجد معاذ بن مسلم بن ابی سارہ کوفی
علم بلاغت کو فروغ دینے والوں میں سے ایک ابوعبداللہ بن عمران کاتب خراسانی
(مرزبانی)

شیعہ علماء اور دانشوروں کی کثیر تالیفات (جن کو شمار کرنا بہت دشوار کا م ھے) کی شناخت

 کے لئے کتاب (الذریعہ الی تصانیف الشیعہ) کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

ازقلم :سائیں لوگ.

منگل، 12 مارچ، 2019

موجوده عزاداری میں بنی امیه کی پروان چڑھتی روش.

لباس عزا میں چھپے دشمن                        
       : عزاداری کو خدارا پهچانیۓ

دشمن عزاداری نے اب روش بدل لی ھے جسکی ایک مثال واقعه راولپنڈی ھے جسمیں تمام گرفتار لوگ کالے لباس میں تھے

بلکه ایک کالے لباس آدمی نے سات آٹھ لوگ قتل کرنے کا اعتراف بھی کیا

یه سب دشمن اھلبیت ع تھے مگر لباس و ظاھری وضح قطع پر ماتم کرتے ھوۓ جلوس میں ماتم داری میں مصروف تھے.

جس سے واضح ھوتا ھے که دشمن نے مذھب اھلبیت ع پر حمله آور ھونے کیلۓ روش کو بدله ھے .

لھذا اب  ھر کالے کپڑۓ پهننے والا,ماتم کرنے والا, 

پگڑی باندھ کر,بال بڑھا کر نام سید رکھ کر وکیل زھرا و بحر المصائب کا حلیه و ٹائیٹل لگا کر ممبر پر آنے والا زاکر حسین ع نھیں.

ان لوگوں کا شیعت سے قطعا تعلق نھیں ھے.
جو بھی بھاری بھاری فیسیں لے کر زکر کربلا بیان کر رھے ھیں یه سب شیعت کے روپ میں دشمن عزا ھیں,

 اور آپنی دیھاڑی لگا کر ھمیں بے وقوف بنا کر پیسه بھی بٹور رھے ھیں اور مومینین,فقھاۓ و مجتھدین عظام,علماۓ کرام اور دیگر مسلم مذاھب کے مقدسات کی توھین کرکے ,

مذھب شیعه حقه اثناۓ عشریه کو تنھاء اور بے قصور مومنین کو زبح و قتل بھی کرا رھے ھیں.

آج بھی چند مشھور زاکر و خطیب ایسے ھیں جن کو اگر کھنگالا جاۓ تو ان کا عقیده و اعتقاد مذھب تشیع پر نھیں ھے.

ان کی پرکھ کا ایک طریقه یه بھی ھے جو بھی زاکر و خطیب ممبر حسین ع پر مومینین و علماۓ حقه اور دوسرۓ مذاھب کے مقدسات کی توھین کرۓ سمجھ جاؤ یھی,

 بدبخت شیعت کے روپ میں دشمن اھلبیت ع کا ایجنٹ ھے

  1. اور آپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ھوۓ شیعت کو کفر و شرک کے فتوۓ لگوا کر تنھاء
  2. .و بدنام کرنا چاھتا ھے
"ازقلم:"سائیں لوگ

پیر، 11 مارچ، 2019

غالی کا عقیده قرآن پر یا جنتری پر

:خود ساخته دین




علم نجوم,سعد و نحس کیلۓ جنتری یا انگوٹھی میں جڑا
فیروزه و عقیق کے زریعے,

  رزق و زندگی اور درباروں سے شفاء و اولاد لینے والوں کا دین:

سوره توبه اور بقره ع:177,میں الله تعالی نے وضاحت دی ھے که دین میں نے بنایا ھے.
دین کے احکامات,میعارات,عبادات,فرائض اور دین کی اقدار سب میں نے ھی بنائی ھیں.

اب جو الله کے مقابلے میں خود دین بناتے ھیں وھی باطل و  رسوماتی دین ھے.

یھی گمراه نظریات و فاسد تعلیمات ھیں.

جیسے ھم قرآن سے ھٹ کر ایک جنتری میں جو کچھ لکھا ھو اس کو واجب العمل سمجھتے ھیں.

لیکن جو قرآن میں لکھا ھے وه صرف برکت و ثواب کیلۓ ھے.

عمل صرف جنتری پر ھی کرنا ھے  یه دیکھنا ھے که یه سفر یا کام سعد ھے یا نحس,زائچه کیا کھتا ھے,نجومی کیا کھتا ھے.

انگوٹھی کیا کھتی ھے,عقیق و فیروزه کیا کھتا ھے.

اکثر مسلمانوں کا اعتقاد و یعقین انھیں چیزوں پر ھے که,
 عقیق و فیروزه سے ھمیں رزق ملتا ھے یه پتھر الله کے درمیان تعاون کا کام کرتے ھیں.

ایران میں جگه جگه صدقے کے بکس لگے ھیں ان پر احادیث لکھی ھوتی ھیں که صدقه موت سے بچاتا ھے.
صدقه (حادثه)ایکسیڈنٹ سے بچاتا ھے تو ایک آدمی چوک کراس کر رھا تھا,

سڑک کنارۓ یھی صدقه کا بکس لگا تھا اس نے جیب سے پیسے نکالے اور بکس میں حسب توفیق ڈال دیۓ ,

اس نے دائیں بائیں نه دیکھا اور یھی سمجھتے ھوۓ که صدقه تو دے دیا ھے اب کاھے کا ڈر.

ساتھ ھی دوسری طرف سے تیز گاڑی آتی ھوئی سے ٹکر ھو گئی اور زخمی ھو گیا,

ابھی اٹھ ھی رھا تھا که دوسرۓ آدمی نے یه پڑھا که صدقه حادثے سے بچاتا ھے.
اس نے پیسے نکالے اور بکس میں ڈالنے لگا تو اس گرۓ ھوۓ شخص نے اشاره کیا که بکس میں پیسے نه ڈالو یه کام نھیں کر رھا.

بعض لوگ انگوٹھیوں میں پھنے پتھروں سے کاروبار میں ترقی چاھتے ھیں,
مگر پھر بھی کاروبار نھیں چلتا رزق کی فراوانی نھیں ھوتی تنگدستی ستاۓ رکھتی ھے.

بعض لوگ پیروں کی درباروں سے طویل مسافت کرکے اولاد و شفاء لینا چاھتے ھیں مگر کچھ حاصل نھیں ھوتا.

یاد رھے یه سب انسان کے خود  ساخته میعارات ھیں الله تعالی کے احکامات میں,
 یه نھیں که الله تعالی کو چھوڑ کر جنتری, پتھروں اور درباروں سے شفاء,زندگی,و رزق تلاش کرتے پھرو,

 جب که کلام مجید میں واضح حکم ھے که الله تعالی کے سوا ان چیزوں پر کسی کو قدرت و اختیار نھیں یه ھمارۓ خودساخته  نظریات و توھمات ھیں.

جیسے الله تعالی نے فرمایا نکاح کرو مگر ھم نکاح سے پھلے رسم مھندی,مایوں ضرور ادا کرتے ھیں.
مولانا صاحب آئیں یا نا آئیں رشته دار تو ھیں مھندی ضرور ھو توتی(شھنائی) و ڈھولک بینڈ باجے ضرور بجیں,

 ریوڑی و تپاسے,چھوھارۓ ضرور ھوں.
نھیں تو شادی میں مشکلات اور پریشانیاں آ سکتی ھیں.

جب اس طرح کی ناقص رسمیں,سوچیں,عقیدۓ اور بدعات کو فروغ دیں گے,

 تو پھر ھم خود بخود اصل تعلیمات سے دور ھوتے جائیں گے.

اور ایک دن ایسا آۓ گا که اصل و خالص تعلیمات الھیه و انبیاء و معصومین ع ڈھونڈنے کو ھی نه ملیں گی.

بلکه اب ایسی حالت پیدا ھو چکی ھے ھمارۓ ھاں اکثر احادیث و روایات کمزور ھیں یا مکمل جھوٹ پر گھڑی گئی ھیں.

یه تو شکر ھے که قرآن عربی عبارت میں ھونے کی وجه سے احکام الھی خالص موجود ھیں نھیں تو سابقه کتب انجیل,تورات  و بائبل کی طرح تحریف کرتے کرتے سب کچھ بدل چکا ھوتا.

اور آپنی مرضی کے عقائد پر لوگ احکام داخل کر چکے ھوتے.

لیکن پھر بھی ملاں نے قرآن کو مشکل بنا کر عام مسلمان کو قرآن سے دور رکھا ھوا ھے,

 ساتھ ترجمه و تفسیر میں مرضی کے مطالب نکال کر گمراه کرنے میں کامیاب رھا ھے.

دعاء ھے الله پاک ھمیں قرآن کی تعلیمات سمجھنے و عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ.

"ازقلم :"سائیں لوگ

غالی,نصیری خطیب و زاکر کا مذھب تشیع سے کوئی تعلق نھیں.

:ضروری وضاحت 
اھلسنت برادران اور مذھب حقه اثناۓ عشریه کے پیروکاران کیلۓکیلۓ


زاکرسیدعطاکاظمی,غضنفرتونسوی,

جعفر جتوئی,,آصف علوی,حافظ تصدق حسین و دیگر وه مولوی و زاکر جو اھلبیت ع میں الوھیت کے قائل ھیں,
 یا یه نظریه پیش کریں که الله تعالی اھلبیت ع میں حلول کر گیا ھے یا الله تعالی چوده معصومین علیھم اسلام میں مختلف مواقع پر ظھور فرماتا رھا ھے.

ایسے لوگوں کا مذھب حقه اثناۓ عشریه سے کوئی تعلق نھیں لھذا ان کے باطل کفرانه و مشرکانه عقائد کو مذھب تشیع کے عقائد کا حصه نه سمجھا جاۓ.

مذھب حقه اثناۓ عشریه کا عقیده توحید و نبوت وامامت واضح ھے.

  
ایک طرف دنیا میں جھاں مذھب حقه تشیع  تیزی سے پھیل رھاھے اور دوسری طرف غالی کفرانه و مشرکانه عقائد لے کر ھر مسلمان کے ذھن میں یہ سوال تیزی سے گردش کررھاھے کہ آخر شیعت  ھے کیا؟.

میں ایک عام سا مسلمان ھوں ،دین کی بھی زیادہ سوجھ بوجھ نھیں رکھتا،کوشش کرتاھوں که جتنا دین و مذھب کی حقیقی تعلیم کو سمجھا ھے اس کی اصل کا دفاع کیا جاۓ.

 جیسے کیسے بھی ھو الله و اھلبیت ع  کے حکم امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا اھتمام کیا جاۓ.

  ھر ممکن حد تک آپ ص کے اہلِ بیت ع  اور آپ کے اصحاب رض کے کردار کو  آپناؤں.

ھر پیروکاران اھلبیت ع سے گزارش ھے که وه اس عالمی سازش کو سمجھیں اور ان فاسد و بیمار زھن لوگوں کے جاھلانه نطریات کا محاسبه کریں,

 اور ان کے گرد گھیرا تنگ کریں اس میں ھمیں مومینین کرام کے ساتھ بانیان مجالس کا اشد تعاون درکار ھے.

زاکر عطا کاظمی کے مشرکانه افکار جنھیں یه فضائل اھلبیت ع سمجھتے ھیں ملحاظه فرمائیں کل کی پوسٹ میں.

ازقلم سائیں لوگ 

نھج البلاغه اور جنتری

نھج البلاغه اور جنتری کی تعلیمات پر پیدا ھونے والی اولاد میں فرق

:
:پیغام فکر
                     
"تحریر:"سائیں لوگ                             

ھم خود حساب لگائیں که ھم نے زندگی میں کتنی مرتبه جنتری پڑھی ھے اور کتنی دفعه نھج البلاغه پڑھی ھے.

آج تک ھم نے نھج البلاغه کے کتنے صفحے پڑھے ھیں اور کتنے جنتری کے پڑھے ھیں

اس سے واضح ھو جاتا ھے که ھم کس کے پیروکار ھیں
اور کس کے اصولوں کے تحت زندگی بسر کر رھے ھیں.

جنتری میں دیۓ سیاروں کے اصول اور منتر کے ٹوٹکوں و عملیات کی بنیاد پر بنائی جانے والی زندگی میں کبھی وه خیر نھیں آتی جو امیر المومینین ع فرما رھے ھیں.

پس اس سے ثابت ھوا که جنتر ومنتر کی بنیاد پر شروع ھونے والی زندگی سے وه اولاد پیدا نھیں ھوتی جو راه جناب  علی علیه اسلام پر چلے

ایسی زندگی میں وه اولاد پیدا نھیں ھوتی جو اس راه پر چلے جس پر مولا علی ع لوگوں کو لے جانا چاھتے ھیں  

بلکه ایسی اولاد پیدا ھوگی جو قطعا آئمه معصومین ع کی تعلیمات سے منحرف ھو کر پلیدی کی حالت میں بے نمازی اچھل اچھل کر زنجیر زنی کرۓ گی,

 درباروں مزاروں پر چرس و بھنگ(ساوی بوٹی) کے گھوٹے اور عقیدت مندوں کی جیبیں کاٹ کر آپنا نشه پورا کرۓ گی.

 اور ایک دن اسی نشه میں زندگی کا خاتمه کردیں گے.

جمعہ، 8 مارچ، 2019

فتنه جمن شاھی

فتنه جمن شاھی کے عقائد مذھب حقه اثناۓ عشریه کی تعلیمات کے خلاف ھیں لھذا ان کو شیعه نه سمجھا جاۓ:

"تحریر و تحقیق:"سائیں لوگ                              

امام زمانه ع نیا قرآن و شریعت لائیں گے,
موجوده قرآن و شریعت منسوخ کر دیں گے.
اور ھمارۓ آستانے پر موجود لڑکیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی کریں گے.

فتنه جمن شاھی کے,
           باطل عقائد کی وضاحت:

ضلع لیه کے علاقه جمن شاه میں سید طالب شاه کے دو بیٹے تھے, سید جعفر الزمان نقوی اور دوسرا ببل شاه,

 سید جعفر الزمان نقوی البخاری  نے مذھب شیعه کے عقائد میں دوسرۓ اخباری غالی گروه کی طرح ردو بدل کی.

 اور آپنی زھنی اختراع پر بدعات و فاسد عقائد کا اضافه اور آپنے مریدوں میں خوب پرچار کیا.

 چونکه یه سید اور پیری مریدی اور تصوف کے قائل تھے,
 اور جنوبی پنجاب کے پسمانده علاقه سے تعلق تھا,

 جھاں تعلیم و تحقیق کا بھت فقدان ھے لھذا مقامی غریب اور ساده ان پڑھ لوگوں میں سید جعفر الزمان النقوی کو آپنے باطل نظریات پھیلانے کا خوب موقع ملا.
اور شاعری کے ساتھ مختلف موضوعات پر کتب بھی لکھیں.

جن میں مجالس المنتظرین علی روضة المظلومین,
تحریم السادات علی غیر سادات,
قلندر نامه,
نھج المعرفت فی اسماء الحجة,
طریق المنتظرین فرائض المومینین,
 کے نام سے نمایاں ھیں. 

لوگوں پر آپنی علمی,شاعری اور مجالس کے زریعے ڈھاک بٹھائی,

جس سے آۓ دن مریدوں کی تعداد میں اضافه ھوتا چلا گیا.

یه تصوف کے قائل تھے اور صوفیه کی طرح چالاکی کرتے ھوۓ شیطانی طاقت(جسے الھی طاقت تصور کیا جاتا ھے),

 سے  الٹی سیدھی جعلی کرامات سے لوگوں میں آپنی حرمت اور  اثر و رسوخ سے گرویده کیا.

 اور دعوی کیا که ان کا رابطه امام زمانه ع سے ھے,
 اور ھر جمعرات امام زمانه ع سے انکی ملاقات اور ھدایات لی جاتی ھیں.

 بلکه مریدوں یا مجالس میں خطاب   کے دوران امام حسین ع سے ملاقات کے جھوٹے دعوے بھی کیۓ,

 تاکه لوگوں کے ایمان و عقیده کو مذید پخته کیا جاۓ.

انھوں نے عزاداری کی رسموں میں بھی آلات موسیقی  توتی(شھنائی)ڈھول اور بینڈ باجوں کو بھی متعارف کروایا.

 شھادت امام حسین ع اور اصحاب حسین ع کے غم,دکھ و کرب کو آلات موسیقی کے زریعے خوشی کے رحجان میں بدل دیا.

ماتم اور زنجیر زنی کو ڈھول اور توتی کی سریلی آواز کے زریعے آپنے أستانے پر لوگوں کو کھینچنے  اور ریاکاری کا ایک نیا حربه ڈھونڈ نکالا.

سید جعفر الزمان نقوی البخاری نے جمن شاه میں نقشه کربلا پر زیارات بنوائیں,

 تاکه کربلا کی بجاۓ یھاں روضه امام حسین ع کی زیارت کا شرف حاصل کیا جا سکے.

اس طرح کی زیارات جھان پور (جلال پور پیر والا) بابا صدا حسین لاھور میں بھی موجود ھیں.
 اور اب زاکر ریاض شاه رتو وال والا بھی بنوا رھا ھے.

جیسے اھلسنت برادران نے کان پور انڈیا اور پاکستان میں شھباز قلندر اور  کچھ دیگر مقامات پر کعبه و روضه رسول ص بنایا ھوا ھے اور یھاں حج کے موسم میں حج بھی کیا جاتا ھے.

جمن شاھی کے استانه پر چاندی کی کرسی بھی رکھی ھے تاکه جب امام زمانه تشریف لائیں تو اس کرسی پر بیٹھیں.

جمن شاھی عقیده میں ھر مرید آپنی ایک لڑکی آستانے پر ضرور چھوڑ جاتا ھے,
جو ساری زندگی اس انتظار میں رھتی ھے که جب امام زمانه آئیں گے ان تمام لڑکیوں میں سے جس سے چاھیں شادی کریں گے.

جمن شاھی دوسرۓ مسلمان کا ھاتھ لگی چیز نھیں کھاتے.

ان کا عقیده ھے الله تعالی نے کائینات بنا کر چوده معصومین ع کے حوالے کر دی ھے,
 اب رزق,موت,زندگی,شفاء الله تعالی نھیں بلکه چھارده معصومین ع دیتے ھیں.

جمن شاھی جو آپنے کو شیعه کھلواتے ھیں یه لوگ مسجد کو جوتے مارتے ھیں که اسی مسجد کی وجه سے مولا علی ع شھید ھوۓ.

جمعه نماز نھیں پڑھتے .

جمن شاھی عقیده کی عورتیں ماتم بلیڈ سے کرتی ھیں.

جمن شاھی کھتے ھیں امام زمانه ھمارۓ ھر پیروکار کے رابطے میں ھیں.

امام مھدی ع کے بعد اور باره امام آئیں گے اور یه قیامت تک تسلسل رھے گا سب کے نام مھدی ھوں گے.

یه لوگ قادیانیوں کی طرح خاتم الانبیاء نبی جیسا عقیده رکھتے ھیں که امام مھدی ع بھی آخری امام نھیں ان کے بعد باره امام اور آئیں گے اور یه  سلسله آئمه معصومین چلتا رھے گا.

جمن شاھی کھتے ھیں یه قرآن پرانا ھو چکا ھے,
 امام مھدی ع نیا قرآن و شریعت لے کر آئیں گے.

جمن شاھی کھتے ھیں یه لوگ گدھے ھیں جو کتابیں اٹھا کر پھر رھے ھیں معرفت صرف امام زمانه ع دے سکتے ھیں کتابیں نھیں.

جمن شاھی والے اصولی و اخباری,غالی کو کافر کھتے ھیں.

یه کھتے ھیں صوفی ازم شیعت کا حصه ھے دنیا میں سب صوفی ولی اور شیعه تھے.

ان کا عقیده ھے اگر امام زمانه  سید علی خامنه ای سے ملاقات کر سکتے ھیں تو ھم سے کیوں نھیں کر سکتے.

یه لوگ بریلویوں کی طرح سگ علی ع اور سگ قلندر کھلواتے ھیں.
بریلوی بھی سگ در رسول ص اور گوھر شاھی کا کتا کھلوانا پسند کرتے ھیں.

جبکه الله پاک نے قرآن میں فرمایا:

یقینآ ھم نے بنی آدم کو عزت عطا کی اور خشکی اور تری میں ان کو سواری دی.
 اور ھم نے ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور انھیں بھت سی مخلوقات پر فضیلت و برتری عنایت کی.
(بنی اسرائیل70)

یاد رھے جمن شاھی جعفر الزمان النقوی البخاری کے عقائد باطله کی مشھور غالی گروه کے سر کرده خطیب غضنفر تونسوی,ڈاکٹر ضمیر اختر نقوی اور شوکت رضا شوکت بھی توثیق کر چکے ھیں.

لھذا برادران اسلام ھم نے حقائق پر چند چیده چیده جمن شاھی گروه کے  عقاید باطله پر معلومات آپ تک پهنچائیں .
اب آپ فیصله کریں که اس طرح کے گمراه لوگ مذھب حقه و اھلبیت ع کیلۓ کتنی بدنامی و رسوائی کا سبب ھیں.

فتنه جمن شاھی کے فاسد,باطل عقائد قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات کے منافی ھیں.
لھذا یه لوگ مذھب حقه شیعه کا حصه نھیں ھم واضح ان سے بیزاری کا اعلان کرتے ھیں.

غالی دفن شده عقل رکھنے والی قوم

جاھل سامعین کی عقل پر ماتم:

جس میں عقل نھیں اس کا کوئی دین نھیں.

علامه شھید مطھری بھت بڑۓ رائٹر ھو گزرۓ ھیں.

انکی زیاده تر کتابیں فارسی سے اردو میں ترجمه ھو چکی ھیں ھمیں حقائق و عقائد خالص تک پهنچنے کیلۓ انکی کتب کا ضرور مطالعه کرنا چاھیۓ.

انھوں نے ایک کتاب میں ایک واقعه لکھا که,

 ایک مولانا نے مجلس پڑھنا چھوڑ دی, اس کے دوست نے پوچھا مولانا خیر تو ھے که آجکل آپ مجلس نھیں پڑھتے,

 انھوں نے جواب دیا ان لوگوں میں مجلس پڑھنے کا کوئی فائده ھی نھیں جو عقل نھیں رکھتے.

دوست نے فرمایا قبله آپ بدگمانی کر رھے ھیں ھمارۓ سامعین میں عقل ھے آپ سوۓ ظن کا شکار ھو گۓ ھیں.

مولانا نے فرمایا آپ بضد ھیں تو میں ثابت کرتا ھوں یه لوگ بے عقل ھیں.

ایک مجلس رکھی گئی اور اعلان ھوا اس مجلس سے مولاناصاحب خطاب فرمائیں گے.

مولانا صاحب منبر پر بیٹھے فضائل کے بعد مصائب پڑھنا شروع کیا.

ان دنوں میں اس علاقے میں شدید سردی تھی لوگ سردی سے کانپ رھے تھے.
پاس هیٹر بھی نه تھے مولانا نے پڑھا کربلا میں سید الشھدا ع پر بھت ظلم ھوا کربلا میں شدت کی سردی تھی برف پڑی ھوئی تھی.

مولا حسین ع کے پاس نه گرم چادریں تھیں اور نه ھی ھیٹر تھے.

جب لوگوں نے یه مصائب سنا تو دھاڑیں مارنے لگے چونکه اس وقت شدید سردی تھی تو لھذا خوب رونے لگے.

جب مصائب لگا تو مولانا صاحب نے مجلس چھوڑ دی.
جب منبر سے نیچے آۓ تو اس دوست کو کھا دیکھا ساری زندگی سنا کربلا میں شدید گرمی تھی.

سورج سوا نیزۓ پر تھا مگر آج میں نے الٹ پڑھا که شدید سردی تھی,
 برف پڑ رھی تھی آل رسول ع کے پاس گرم چادریں بھی نه تھیں آپ نے دیکھا لوگوں نے غور ھی نه کیا اور خوب رونا شروع کر دیا.

 کیونکه ان کے اندر عقل نھیں ھے.

کسی نے مجمع میں اٹھ کر یه نھیں کھا که مولانا کیا پڑھ رھے ھو.
وھاں تو شدت کی گرمی تھی,اب مان جاؤ که ان میں عقل نھیں.

اگر عقل ھوتی تو سوچتے لیکن ان کی عقل ان کے کانوں میں آ گئی ھے.

کوئی بات منبر پر بیٹھ کر کھه دے یه سچ مان جاتے ھیں,

 عقل سے کام نھیں لیتے سوچتے نھیں که کھنے والا کیا کھه رھا ھے.
جھوٹ ھے یا سچ,اگر میں آپ سے آ کر کھوں که قبله یه فصل کاشت کرو بھت فائده ھے آپ فورا  جواب دیں گے که اس فصل کا موسم ھی نھیں ھے,
 اگر کوئی منبر پر آ کے کوئی بات کھه دے سب مان لیتے ھیں.

یھی وجه ھے که آج ھم میں بھت بدعات و خرافات پھیل گئی ھیں منبر پر جس نے جو کھا اس پر عقیده بنا لیا.
کبھی خود تحقیق و غور کرنے کی کوشش نھیں کی کبھی قرآن ترجمه سے پڑھنا اور فکر کرنا گوارا نھیں کیا.
 کبھی معصومین ع کی احادیث و فرامین کی تصدیق نھیں کی انھیں خامیوں اور کم عقلی کی وجه سے صرف اثناۓ عشریه میں 39/فرقے بن چکے ھیں.

فتنه جمن شاھی جن کے ٹوٹل عقائد کفر و شرک پر ھیں صرف پاکستان میں ان کے ماننے والوں کی تعداد 47/لاکھ کے قریب ھے باقی آپ برادران  خود اندازه لگا لیں. 
اور منبر پر بیٹھ کر جھوٹ بولنے والوں کا محاسبه کریں ایک جھوٹے کا سچوں کے منبر پر کیا کام.
انھیں میں سے ایک جھوٹے اور شرکیه عقائد کا پرچار کرنے والے,

 زاکر علامه سید عطا کاظمی,

 کے باطل نظریات پر وضاحت دیں گے که یه بنده کس طرح آپنے قیاس و فلسفه سے  مذھب شیعه کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کر رھا ھے.

"ازقلم:"سائیں لوگ

منبر پر چیخنے کی منطق.

جھوٹ یا سچ پر مبنی آپنی بات منوانے کیلۓ چیخنے و چلانے کا کتنا دخل ھے.

ایک زمانه تھا جب ھر بنده,عالم,زاکر مھذب,خوش اخلاقی,آرام سے آھسته سے سمجھا سمجھا کر خطاب کرتے تھے.

مگر اب جب تک پورا زور اور چیخ کر بات نه کی جاۓ کوئی بات کا وزن ھی نھیں لیتا.

پهلے سپیکر بھی نه تھے اس دور میں زاکر,عالم آرام سے آپنی بات آخری مومن تک پهنچاتے,بات میں اثر ھوتا تھا مومینین سمجھتے اور عمل کرتے تھے.

اب ایک نھیں کئی ساونڈ سپیکر ھوتے ھیں,
 پھر بھی زاکر یا خطیب کھتا ھے ساونڈ سسٹم والے کو که زرا آواز بڑھا دو.

کیونکه وه شور بڑھا کر چیخ چلا کر گرج دار آواز سے خوب داد اور واه واه سمیٹنا چاھتا ھے.

اور حاضرین مجلس بھی چلائی بات پر زیاده توجه  اور یعقین کرتے ھیں.  

بدقسمتی سے ھمارۓ منبروں پر یه روش قائم ھو گئی ھے,

 جب تک آپنی بات پورا پھیپھڑوں کا زور,پیٹ کا زور,

تمام تلی کا زور,دل کا زور,جگر کا زور,معدۓ کا زور اور انتڑیوں کا زور نه لگائیں بات کی اھمیت کو قبول ھی نھیں کیا جاتا.

اس میں خطیب,زاکر اور حاضر سامیعین دونوں عادی ھیں.

یه وه لوگ ھیں جن کی عقل کانوں میں آ گئی ھے.

جو بھت چیخ کر بات کرۓ تو ھم کھتے ھیں که یه سچی بات ھے ورنه اتنا زور نه لگاتا.

ایک زاکر کو طبیب نے کھا اتنا زور کیوں لگاتے ھو تمھاری انتڑیاں پھٹ جائیں گی.
اتنا زور لگانے کی ضرورت نھیں آرام سے بولو اتناکه تمھاری بات آخری بندۓ تک پهنچ جاۓ.

مگر خطیب اتنا زور اس لیۓ لگاتا ھے که اگر ھم زور سے بولیں گے تو حاضرین مجلس متاثر ھوں گے وه سمجھیں گے که بات درست بیان کی جا رھی ھے.

اگر آرام سے بولیں گے تو یه مطلب لیں گے که بات صحیح نھیں کر رھا اس لیۓ ڈھیلی آواز میں بات کر رھا ھے.

مگر برادران آپ سوچیں یه کون لوگ ھیں جو اگر کوئی زور سے بولیں تو مان لیتے ھیں.
اگر زور سے نه بولیں تو نھیں مانتے.

یه وه لوگ ھیں جنکی عقل ان کے کانوں میں آ گئی ھے.
وگرنه اگر عقل میں ھوتے تو پھر سن کے سوچتے که جو کچھ بیان کیا جا رھا ھے یه درست ھے یا غلط.
"
ازقلم :"سائیں لوگ

مسلمان مذاھب کے مقدسات کی توھین حرام ھے.

دوسرے مسالک کے مقدسات کی توھین نھیں کرنا چاھیے،ان کے بزرگوں پر لعنت بھیجنا اور ان کو گالی دینا جائز نھیں ھے ،

اس لیے که یہ چیز ھم  کو اہل بیت ع اور ان کے معارف سے دور کیے جانے کا سبب بن رھی ھے.

ھمیں ایسی چند لوگوں کی  شر پسندی کا دانشمندی اور بصیرت سے مقابله  کرنا ھوگا.

جو اسلام کے مضبوط بازوں شیعه سنی اور مذھب حقه شیعه کے اندر  طاقتوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کرنا چاھتے ھیں.

 قائد اعظم محمد علی جناح شیعه ھو کر بھی سب مسالک کیلۓ محترم رھے.

انھوں نے ایسے پاکستان کے قیام کے لیے جدوجھد کی جس میں تمام مذاھب کو بلاتخصیص مکمل طور پر مذھبی آزادی حاصل ھو.

کچھ  لوگ تکفیری اور غالی  گروھوں کو مضبوط اور سرعام تکفیریت اور چند باھر بیٹھے غالیت کے لوگ  پاکستان کے مسلمانوں میں باھمی نفرت و انتشار کو فروغ دے رھے ھیں.

جو مقامی اور عالمی سطح پر وطن عزیز کی ساکھ کے لیے انتھائی نقصان دہ ھے.ان ملک دشمن عناصر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیۓ سب مسلمان برادران  کو مل کر جدوجھد کرنا ھو گی.

اختلاف رکھیں مگر توھین کا عنصر گفتگو کا حصه نه بنائیں ھماری شروع سے کوشش رھی ھے که علمی بحث مباحثه کے زریعے باھمی اختلاف کو قبول کیا جاۓ مگر چند لوگ آپنے ناقص علم کی وجه سے گالی گلوچ کی مدد سے آپنی بات منوانے کی کوشش کرتے 
ھیں یه عمل سراسر بھت نقصان اور تکلیف ده ھے.
"ازقلم :"سائیں لوگ

رزق کا زمه دار الله تعالی یا انگوٹھی میں جڑا پتھر

مذھب حقه کی اکثریت قرآن و نھج البلاغه جو دراصل قرآن کی تفسیر ھے کو چھوڑ کر اشتھاریوں سے دین شناسی لے رھی ھے.

"تحریر:"سائیں لوگ                              

جھاں غالی شیعت بھت سی خرافات کا مسکن بنا ھے وھاں ایک باطل عقیده رزق کی وسعت  کے متعلق اس پتھر سے جڑا عقیده ھے جو ھم آرائش و زیبائش کیلۓ ھاتھوں کی انگلی میں پھنی انگوٹھی کے متعلق رکھتے ھیں.

یه پتھر اب ایک صنعت کا درجه رکھتے ھیں اور ھزاروں لاکھوں لوگوں کا اس سے روزگار وابسته ھے جو تلاش,تراشنے,اور لگثری شاپ و فٹ  پاتھ شاپ پر پتھر فروش یه نگینے بیچتے ھیں.

بلکه ایران میں مشھد میں ایک بھت بڑا بازار ھے جسمیں کثرت سے انھیں پتھر سے سجی انگوٹھیاں فروخت ھوتی ھیں باقی معصومین ع اور دیگر بزرگوں کے مزاروں پر یه کاروبار اھم شناخت رکھتا ھے.

ھم رزق بڑھانے کیلۓ انگوٹھی خریدتے ھیں که فلاں پتھر کی انگوٹھی پھننے سے ھمارۓ رزق میں وسعت پیدا ھو گی.پتھر بھی حیران ھوتا ھے که مجھے خریده تو نے ھے,

میرۓ پیسے تو نے دیۓ ھیں اور تو اگر مجھے کھیں پھینک دے تو میں گم ھو جاتا ھوں,میں تجھے کس طرح رزق پهنچا سکتا ھوں.

لیکن ھم کھتے ھیں جیسے اس کا رابطه مریخ سے ھے,زھرا سے ھے,اس کا رابطه زحل ,عقرب,مشتری سے ھے ضرور فلاں پتھر پھننے سے رزق کھلا ملے گا.

جنتری یا پتھر فروش نے ھمارا یه دین  بنا دیا ھے.

جبکه الله پاک قرآن میں جا بجا فرماتا ھے که انسان کا رزق میرۓ پاس ھے الله تعالی نے رزق ان خزانوں میں رکھا ھے جسکی چابیاں انسان کے پاس ھیں.

انسان ان چابیوں کو استعمال کرکے  آپنا رزق ان حزانوں سے دریافت کر سکتا ھے.

ایک شخص امام ششم ع کے پاس آیا اور کھنے لگا که میں فقیر ھوں میرۓ پاس کچھ بھی نھیں ھے.

امام ع نے فرمایا که شادی کرلے وه ھنسنے لگا اور کھا  آپ میری بات کو سنجیده نھیں لے رھے !

میں کھه رھا ھوں که میں فقیر ھوں اور پیٹ بھرنے کیلۓ کچھ بھی نھیں ھے اور آپ ع کھه رھے ھیں که شادی کر لوں.

امام ع نے فرمایا  الله تعالی نے رزق آپنے خزانوں میں رکھا ھے اور ان خزانوں کی چابیاں الله تعالی نے تجھےدے دی ھیں.

 تو وه چابیاں لے کر خزانوں سے رزق تلاش کر تیرا رزق تجھے مل جاۓ گا.

تو شادی کر تیرا رزق بڑھ جاۓ گا جب تو رزق کی وجه سے شادی نھیں کرتا یه نحوست تیری زندگی میں رھے گی جب رزق کی وجه سے تو یه کھتا ھے که ابھی یه نھیں بنا وه نھیں بنا,

 تو الله تعالی فرماتا ھے که میں تیرا رازق ھوں تو رزق کی تلاش کر میں تیری  محنت و ھمت مطابق ضرور رزق دوں گا.

ناکه کسی پتھر کو پھن کر گھر میں سوۓ رھنے سے رزق وسیع ھو گا.

سعدو نحس,رزق وشفاء اور کامیابی کا عقیده بھی اکثریت لوگ انھیں پتھروں سے جوڑۓ ھوۓ ھیں,

 اور اس طرح دین اسلام کے ساتھ کھلواڑ جاری ھے جبکه الله تعالی کے احکامات میں قطعا ایسا حکم نھیں ھوا.

حرمت منبر رسول و حسین ع کو بحال کیا جاۓ.

Read My writes & Think :

حرمت منبر رسول و حسین ع کو بحال کیا جاۓ:
                  
"تحریر :"سائیں لوگ                        

منبر رسول,علی و حسین ع پر توحید سمیت ان مقدس ھستیوں کی عظمت, احکامات و فرامین کا تزکره ھونا چاھیۓ.

 ناکه بنو امیه کی طرح جناب امیر و اھلبیت علیھم اسلام پر سب و شتم اور من گھڑت احکامات بدعات صادر ھوں.

 موجوده دور میں بنو امیه کی طرز پر یه فعل غالی حضرات جاری رکھے ھوۓ ھیں.

مخالف مذاھب کے مقدسات پر سب و شتم کے ساتھ توھین مذاھب و تنقید شامل ھے.

اور ناخوانده فیشنی زاکروں نے  انڈین گانوں کی دھن و طرز پر تفریح قلب کا سامان پیدا کیا ھوا ھے.

موجوده مجالس میں دیکھا گیا ھے که ھم مولا علی ع کی سنتے کم اور سناتے زیاده ھیں.

چونکه ھماری مجالس میں منبر پر کچھ پابندیاں ھیں,دوسرۓ کچھ عزاداری کے دشمن مذید پابندیوں کا بھی سوچ رھے ھیں.

 جیسے نو وارد حکومت نے چکوال شھر میں قدغن لگائی ھے. 

مگر یاد رھے عزاداری سید الشھدا ایک ایسا معجزه ھے جسکی شاھد تاریح اسلام کے اوراق ھیں.
 متوکل جیسے ظالم حکمران کو  بھی مایوسی و رسوائی کے سوا کچھ نه ملا.

دشمن عزاداری و تشیع ھماری مجالس و ماتم داری کے جلوسوں کو محدود کرنے کے پلان و تراکیب پر غور و خوض کر رھے ھیں انشاءالله ناکام رھیں گے.

مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑۓ گا که ھمارۓ منبر پر اس گرفت کی نوبت دلانے میں کچھ کم علم اور متعصب علماء و زاکرین کا مرکزی رول ھے جسے فراموش نھیں ڈالا جا سکتا.

کچھ ھمارۓ شیعوں نے بھی پابندی لگوائیں  ھیں وه پابندیاں یه ھیں که منبر علی ع پر جناب علی ع کو بولنے کی اجازت نھیں.

منبر رسول ص پر رسول الله ص کو بولنے کی اجازت نھیں ھے.

منبر حسین ع پر جناب حسین ع کو بولنے کی اجازت نھیں.

بلکه ایسا ھے که منبر رسول ص پر نعت خواه بولے اور جناب رسول ص سنیں.

منبر علی ع پر خطیب بولے اور جناب امیر ع سنیں.
منبر حسین ع پر زاکر بولے اور امام حسین ع سنیں.

نھیں بلکه یه منبر اس لیۓ ھیں که جناب علی ع بولیں یعنی آپ نے جو خطبے دیۓ وه خطبے زینت منبر ھوں.

اور جو حکمتیں آپ ع نے بیان فرمائیں وه زینت منبر ھوں ,
اگر ان منبروں پر امیر المومینین ع بولیں,رسول ص بولیں,امام حسین ع بولیں تو پھر یه نفرت,دشمنیاں,قتل و غارت کے مواقع پیدا نھیں ھوں گے.

پھر سامعین و مومینین کرام بھی روحانی طور پر بیمار نھیں ھوں گے.

 دین آشنائی عام ھوگی پیار و محبت کی فضاء قائم ھوگی ھماری مجالس میں ھر فرقه کے لوگ آئیں گے مقصد کربلا حاصل ھوگا دین الھی ترقی عظمت اھلبیت ع بلند ھوگی.

کاش اگر منبروں سے رسول خدا ص جناب امیر ع بولتے آج کوئی شیعه خواه خود کتنا ھی مغرور و متکبر ,خود بین و خود پسند نه ھوتا ,

آور جب خود پسندی نه ھوتی تو اتنے اختلاف نه ھوتے اتنے گروه اور حزبیں نه ھوتیں.

کیونکه تعلیمات رسول ص اور اھلبیت ع پیار و مجبت اور برداشت کو گفتگو کا بنیادی ماخذ قرار دیتی ھیں.

افسوس جب نادان ,کم علم,مکتب اھلبیت ع سے نفرت اور پدری مضامین پر رٹه لگا کر زیب منبر بننے والے زاکر و گلوکار,

 مفروضوں اور آپنے قیاس و فلسفه کو بیان کریں گے,شھرت و اجرت کے چکر میں تو,
 پھر گروه بھی بنیں گے اور دشمن کو عزاداری پر قدغن لگانے کے مواقع بھی ملیں گے.

مگر جب منبر سے فرامین رسول و اھلبیت  علیھم اسلام بیان ھوں گے تو پھر گمراھوں کو راه ھدایت و نجات ملے گی.

اب وقت آ گیا ھے منبروں سے رسول و علی و حسین علیھم اسلام  و  آئمه آور قرآن کو بولنے دیں پھر دیکھیں یه سب پابندیاں از خود ختم ھو جائیں گی.

منبروں سے قرآن و نھج البلاغه پڑھا جاۓ خطبات سید الشھدا ع بیان ھوں.

کیونکه یھی علوم ھی منبر کی زینت و شان  ھیں.

اگر ان منبروں سے قرآن و  معصومین ع کے کلام نه پڑھیں جائیں گے,

 اور مغز بیمار سے خیالی اور واه واه پر گھڑۓ گۓ جملے دھراتے رھے تو پھر واقعه چکوال کی طرح پابندیاں اور توھین منبر ھوتی رھے گی.

آخر میں گزارش ھے که مومنین و بانی مجالس آپنی زمه داری و مقصد عزاداری کو سمجھیں,

 اور سر,ساز,راگ آور من گھڑت قصه و روایات کے پرچاری منه مانگی اجرتی کم علم زاکروں سے پیچھا چھڑائیں,

 اور از خود بانی حضرات جو عزاداری پر پابندیاں لگاۓ بیٹھے ھیں,
 آھسته آھسته یه پابندیاں اٹھائیں تاکه علماۓ حقه کو بھی جرات ھو,

 که منبر پر آکر قرآن و نھج البلاغه بیان کریں اور دین اسلام و اھلبیت ع کی عظمت بحال ھو.

جمعرات، 7 مارچ، 2019

غالی زاکر و خطیب اھلبیت ع کی حرمت و غربت بیچنے والی قوم.

تاجرآن خون حسین ع,
اھلبیت ع کی حرمت و غربت کو فروحت کرنے والے بدبخت:

                   " تحریر :"سائیں لوگ                                

ویسے تو دنیاوی مفاد کی خاطر آپنے سیاسی و مذھبی لیڈران سے دغا کرنے والے افراد ھر مذھب و گروه میں ھر وقت موجود رھے ھیں مگر ھماری نظر اس وقت ان لوگوں پر ھے جو نام نھاد محبان اھلبیت ع کا بڑۓ زور شور سے دعوی کرتے ھیں.

پاک نبی ص کے ساتھ بھی ایسے لوگ کثیر تعداد میں تھے جو ظاھرا تو محبت کا دم بھرتے تھے ,
مگر باطنی طور پر ساتھ نه تھے بلکه اکثر کفار و مشرکین سے زیاده ربط و مفاد عزیز رکھتے تھے.

ان سب واقعات کا زکر قرآن مجید میں بارھا موجود ھے.

یھی سب کچھ مولا علی ع کے ساتھ ھوا اکثریت نے آپ سے باطنی و ظاھری  اختلاف رکھا,
حالنکه آپکی حقانیت ,صداقت و معصومیت اظھر من الشمس تھی.کئ مرتبه نام نھاد محبان نے کھلا دھوکه و بدعھدی کی.

ایک ایسی ھی جماعت امام حسن ع کے شیعه کی بھی تھی انھوں نے بھی عھد شکنی اور بے وفائی کی,

 تاریخ کھلم کھلا گواه ھے  متلاشیان حق رجوع فرمائیں .

یه سب لوگ آپکو امام برحق اور پیشوا بھی مانتے تھے اور ساتھ بدعھدی بھی کر رھے تھے.
ان میں وه نام نھاد دعویداران محبت بھی تھے جو آپ سے بغاوت کرتے ھوۓ آپکے بستر کی چادریں اور جاۓ نماز بھی لے اڑۓ اور معاویه کی گود میں جا بیٹھے.

یه لوگ اس وقت بھی شیعیوں کے لیڈر بنے ھوۓ تھے آج بھی شیعوں کے لیڈر اور ھیرو ھیں.

یه لوگ امام حسن ع کو رسیوں سے اسیر کرکے شامیوں کے ھاتھوں فروخت کرنے کا منصوبه  رکھتے تھے. 

ان کے اس عزم سے باخبر ھونے پر امام حسن ع نے ایک خطبه فرمایا,

 جسے مرحوم طبرسی رح نے الاحتجاج میں نقل کیا ھے که امام حسن ع نے فرمایا که  ایک منصوبه میرۓ خلاف ھمارۓ ساتھی اور ایک معاویه  نے بنایا ھے,

وه منصوبه یه تھا که ھر حال میں مجبور کرکے امام حسن ع سے اقتدار لیا جاۓ اور ایسا ھوا بھی.

اسی طرح امام حسین ع کے ساتھ بھی ھوا بھت بڑۓ بڑۓ نام وقت مصیبت پر دغا دے گۓ ھزاروں میں صرف 72/اجسام پاکیزه وقت مصیبت کام آۓ.

 باقی سب مفاد و لالچ میں بدعھدی کرتے گۓ.

انھیں لوگوں کی طرح آج کے وه غالی شیعه ھیں جو فضائل و مصائب اھلبیت ع کے زریعے مکمل غیر متعھد اور بے وفائی کرتے ھوۓ ,

دنیا کی خاطر زکر فضائل و مصائب کو بیچ رھے ھیں.

اور محراب و منبر حسین ع کو روزگار کا زریعه بنا کر بڑی بے دردی سے مذھب و ملت کو اھلبیت ع کے نام پر لوٹ رھے ھیں.

یه نام نھاد محبان اھلبیت ع کردار و گفتار سے یکسر سیرت معصومین ع کے متصادم محو سفر ھیں.

ان کے ظاھر اور باطن میں کھلا تضاد ھے لھذا صادق محبان اھلبیت ع کو سامنے آنا چاھیۓ ,
اور ان لوگوں کو بے نقاب کرتے ھوۓ آھنی چٹان ثابت ھوں اور انکا تدارک کریں.

 مذھب حقه کو اصل خطره بیرونی بے نقاب دشمن سے نھیں بلکه اندرونی منافق دشمن سے ھے.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...