Saieen loag

جمعہ، 19 اپریل، 2019

شیعه کلمه ......علی ولی اللله

آخری قسط نمبر :3. ضرور پڑھیۓ.

یه قسط نامساعد حالات میں لکھی جارھی ھے تاکه ایک تسلسل قائم رھے,
اور آپ بھائیوں کو تواتر کے ساتھ ایک  موضوع پر مواد با آسانی میسر ھو,میری تحریروں کو طولانی سمجھ کر مت Ignor,کیا کریں.یه آپ بھائیوں کے لیۓ رقم کی جاتی ھیں.

ان تحریروں کا نه پڑھنا مذھب پر آپنے پراور میرۓ ساتھ ظلم گردانا جاۓ گا.
مخالف کے سوال پر احسن طریقه سے قرآن وسنت کے مطابق جواب دے پانا 
مذھب کی حقانیت اور آپکی عزت کا قائم رکھنا مقصود ھے تاکه مذھب حقه کے متعلق مسلمانوں کے دلوں میں ابھام پیدا نه ھو.اور محمد آل محمد ع کی صداقت اور آپکا وقار معقول جواب کے زریعےقائم رھے.
اور ناصبی کی طرح راه فرار اختیار نه کریں جو که جھوٹا ھونے کی علامت ھے.جبکه ھمارا اللله,رسول,امام معصومین ع سچےمذھب سچاھم سچے تو پھر گھبراھٹ کیوں.اس کیلۓ آگاھی چاھیۓ وه ھم فی سبیل اللله آپکو گھر بیٹھے پهنچا رھے ھیں.تو پھر بوجھ  کس چیز کا.

موضوع کلمه  پر معترض کا ھمیشه بھتان  رھا ھے اور اس جھوٹے شوشے کی آڑ میں عام سیدھے سادھے مسلمانوں کو شیعت کے خلاف بھڑکانے میں کافی حد تک کامیاب بھی ھوۓ ھیں غور و فکر اور تعصب سے آزاد مسلمان اس بات کو بخوبی سمجھتے ھوۓ ناصبی کے اس پیروپیگنڈا کو رد کرتے ھیں,اور مسلمانوں میں نفرت اور انتشار پھیلانے کی سازش قرار دیتے ھیں.

پچھلی دو تحریروں میں ھم نے خوب وضاحت پیش کی آج کی کلمه پر یه آخری پوسٹ ھے لھذا ھم کوشش کریں گے که اس میں ان کتب اھلسنت کے Original, سکین بھی دیۓ جائیں تاکه فریق مخالف کو کوئی سوال اٹھانے کا جواز میسر نه ھو.
جب ھم ناصبی سے جواب طلب کرتے ھیں اس کے کلمه طیبه کا شش کلمه کا ایمان کی شرطیں مجمل و مفصل کا,درود تاج خطبه جمه کی عبارت کا.زبردستی ٹھونسے گۓ درود میں ازواج و اصحاب,تو بو کھلاھٹ کا شکار ھو کر بغیر جواب دۓ گالی گلوچ پر اتر آتا ھے .
اسی لیۓ ھم کھتے ھیں که "شیعه جواب دیتے ھیں."
کائینات کا واحد مذھب شیعه ھی ھے جو آپنے ھر شرعی افعال کا جواب دینے کیلۓ ھمه وقت تیار ھے.قرآن و سنت سے,
علم سے عقل سے دلائل سے.

قرآن مجید میں اللله تعالی یه واضح کرتا ھے که رسول اللله ص مثیل موسی ھیں اور جناب امیر ع مثیل ھارون ھیں ع اس حدیث کا زکر بخاری شریف ترمذی اور صیح مسلم ,کے علاوه معجم الوسط اور طاھر القادری نے شان علی ع میں لکھی گئی آپنی "کنز المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب ع صفحه 78,حدیث نمبر 77,78,79,80,
میں بالترتیب بیان کی ھیں.

زمانه حضرت موسی ع میں جب کوئی مسلمان ھوتا تھا تووه موسی وھارون دونوں پر اسلام لاتا تھا جیساکه ارشاد باری تعالی ھے (قالواامنا رب العلمین  رب موسی و ھارون )

ایک جگه اور قرآن مجید میں آیا که.
 سورہ نساء کی ۵۹ ویں آیت میں

 ”یا ایُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اطیعُوا اللَّہَ وَ اطیعُوا الرَّسُولَ وَ اولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ “ ۔ 
ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو ، رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔ ”اولواالاامر"

 تفسیر مجاھد المناقب میں اس کی تفسیر اس طرح بیان ھوئی ھے که یه آیت جناب امیر ع کی شان میں اس وقت نازل ھوئی جب حضرت علی ع کو مدینه میں آپ ص نے قائم مقام بنایا تھا اس مرتبه حضرت علی ع کے پوچھنے پر آپ ص نے  جواب دیا آپ کا مرتبه میرۓ ساتھ ویسے ھی ھے جیسے موسی ع سے ھارون ع کا.
تم میری قوم میں خلیفه بنو اور اسکی اصلاح کرو.یھاں بھی آپکی ولایت کا اقرار اور ایمان لانا لازم ھے.
تیسرا بڑا ثبوت خم غدیر پر آپ ع کی ولایت کا علی العلان ھے ازن الھی کی طرف سے.
که جس کا میں مولا اس کا علی مولا ھیں لھذا اقرار توحید و رسالت کے ساتھ ساتھ ولایت علی ع واجب ھے  وگرنه ھر عمل بے کار ھے.
بعض معترض کهتے ھیں که شیعه کتب میں مکمل کلمه کھیں بھی نھیں شیعه کی ھر معتبر کتب میں ولایت علی ع کا اقرار جزو ایمان وکلمه و آزان ھے خورشید خاور شھپاۓ پشاور,دس ھماری ھزار تمھاری تحفة العوام مقبول جدید اور ھر شیعه مجتھد کی توضیح میں تشریح موجود ھے.
لھذا ضروری ھے مومن توحید کے بعد حضرت محمد مصطفی ص اور حضرت علی مرتضی ع دونوں پر ایمان لاۓ.

ھم حضرت علی ع کی ولایت کا اقرار جزو کلمه ھی سے نھیں بلکه جزو ایمان سے کرتے ھیں.سفر آخرت کیلۓ توحید رسالت و ولایت سے بھی لیتے ھیں تاکه پل صراط پر کام آۓ که حضرت ابو بکر نے کها که کوئی شخص اس وقت تک پل صراط پار نھیں کرۓ گا جب تک علی ع کا پروانه راھداری نه ھوگا.

جناب رسالت ماب ص نے فرمایا که "علی میرۓ بعد ھر مومن کا ولی ھے"
ملحاظه ھوں کتب اھلسنت:.

خصائص امام نسائی

ریاض النضره

اسد الغابه فی معرفة الاصحابه

کنز العمال ملا علی متقی

 جلال دین سیوطی.

مسند ابو داود طیالسی

فردوس الاخبار دیلمی

تھذیب الاثار ابن جریر طبری

اصابه فی تمیز الاصحابه

مناقب ابو مغازالی

قول انجلی فی الفضائل العلی

تھزیب الکمال

استیعاب  فی معرفته الاصحاب ابن عبدالبر

ترمذی شریف

طبرانی

میزان الاعتدال

جمع الجوامع سیوطی

الاکتفافی الفضائل الاربعه الخلفا صابی 

تاریخ بغداد خطیب بغدادی 

صحیح مسلم.

ینانبیع المودة

السیف جلی منکر ولایت علی طاھر القادری.

کنز المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب.ڈاکٹر طاھر القادی.

ان تمام کتب اھلسنت میں ولایت علی ع منقول ھے.

اس حدیث کے لفظ بعدی قابل غور ھے اور ثابت کرتا ھے که حکم اقرار ولایت بعد از زمانه رسول ص ضروری ھے اس لیۓ حضور پیغمبر آ عظم ص کے ارشاد ھدایت "ولی کل مومن بعدی" کے پیش نظر ھم اھل ایمان تعمیل حکم رسول کرتے ھیں.

مذید ڈاکٹر طاھرالقادری نے آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب صفحه 62,
یه حدیث لکھی ھے جو حضرت عمران بن حصین سے روایت ھے پاک نبی ص نے فرمایا که بے شک علی مجھ سے ھے اور میں اس سے. اس لیے میرۓ بعد وه ھر مومن مسلمان کے ولی ھیں .
اس حدیث کو 
امام ترمذی ,
نسائی,
طبرانی,
 مسند احمد ,
ابن ابی شیبه,نے بھی نقل کیا ھے.
سرکار رسالت ماب ص نے شب معراج دروازه جنت پر جو کلمه سونے کے حروف میں لکھا ھوا دیکھا اس سے بھی ولایت ثابت ھے چنانچه یه مولوی عبید اللله بسمل آپنی کتاب ارحج المطالب میں زیر عنوان "ولی اللله" دیلمی کے حوالا سے لکھا ھے.
جناب رسالت ماب نے فرمایا میں نے شب معراج دروازه جنت پر سونے سے لکھا دیکھا لا اله الا اللله محمد رسول اللله علی ولی اللله "یعنی اللله کے سوا کوئی معبود نھیں محمد رسول اللله ھیں اور علی ع اللله کے ولی ھیں.

فاطمه کنیز خدا ھیں حسن و حسین ع صفواة اللله ھیں 
ان کے دشمن پر اللله کی لعنت ھو.
لھذا ثابت ھوا که شیعوں کا کلمه در جنت پر لکھا ھوا ھے .
اسی کے مطابق سرداران جنت کے پیروکار شیعه اھل بیت کے دشمنوں پر لعنت کرتے ھیں.
یهی بات ینابیع المودة  ص 156,میں علامه سلمان قندوزی نے لکھی ھے که بروز محشر لوا الحمد کے جھنڈا پر بھی یهی کلمه لا اله الا اللله محمد رسول اللله علی ولی اللله.ھی لکھا ھو گا.
عرش بریں پر بھی یهی کلمه لا اله الا اللله محمد رسول اللله علی ولی اللله ھی لکھا ھوا ھے.ان تما اثبات قرآن و سنت اور اھل تسنن کی کتب معتبره سے ثابت ھے که شیعه مذھب کا کلمه مکمل ھے اور یھی کلمه ھی مومینین کا کلمه ھے جو منافقت سے پاک ھے.

شیعوں کو قتل اور نفرت کرنے والے پاکستان سے نکل جائیں کیونکه پاکستان بنانے والا شیعه تھا.

قائد آعظم محمد علی جناح مسلکی لحاظ سے شیعه اثناۓ عشریه تھے
.
حیات سے لے کر وفات تک کا احوال ملحاظه فرمائی

قائد آعظم محمد علی جناح نے یہ پالیسی اختیار کی کہ یہاں سنی اور شیعہ کی کوئی تقسیم نہیں ہوگی۔ مردم شماری کیلئے مسلم اور غیر مسلم کافارمولا اختیار کیا گیا۔ جس میں فرقوں کے تناسب کو نظر اندازکردیا گیا.
 یہ گویا اس عہد کا اظہار تھا کہ حکومت فرقوں کے بنیاد پر امتیاز نہیں برتے گی۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اثناء عشری شیعہ بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنے عقیدے میں یہ تبدیلی اپنے آباء کے اسماعیلیہ فرقہ کو چھوڑ کرکی تھی۔ تاہم وہ پبلک میں اس کا اعلان نہیں کرتے تھے کہ وہ سنی ہیں یا شیعہ ہیں اور جو کوئی اُن سے پوچھتا ، تو ان پر الٹایہ سوال کرتے تھے کہ تم بتاؤ رسول کریم صلعم شیعہ تھے یا سنی؟

انیس سو اڑتالیس میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی ہمشیرہ مس فاطمہ جناح کو اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرنا پڑا تاکہ اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق اُن کی جائیداد حاصل کرسکیں۔ یادرہے کہ سنی فقہ کے مطابق کلی طور پر اس قسم کی وصیت کی اجازت نہیں۔ جبکہ شیعہ فقہ میں ایسا ہوسکتا ہے۔ مس فاطمہ جناح نے ایک اقرار نامہ سندھ ہائی کورٹ میں داخل کیا جس پر وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے دستخط تھے کہ جناح شیعہ خوجہ مسلم تھے اور عدالت سے درخواست کی کہ ان کی وصیت کے مطابق شیعہ قانون وراثت پر عمل کیا جائے۔ 

عدالت نے پٹیشن قبول کرلی۔6فروری1968کو فاطمہ جناح کی موت کے بعد ، ان کی بہن شیریں بائی نے ہائی کورٹ میں یہ دعویٰ داخل کیا کہ مس جناح کی جائیداد شیعہ قانون کے مطابق اسے دی جائے کیونکہ مرحومہ شیعہ تھیں۔

پہلے مس فاطمہ جناح کے احترام میں شیعہ فقہ پر عمل کیا گیا۔ جبکہ سنی ہونے کی صورت میں اُن کو صرف نصف حصہ مل سکتا تھا۔ بعد میں ان کی بہن شیریں بائی ممبئی سے کراچی پہنچیں جو اسماعیلی فرقہ چھوڑکر اثنا عشری ہوچکی تھیں اور اس بنیاد پر بھائی کی جائیداد کا دعویٰ کیا۔

اس موقع پر جناح کا باقی خاندان جو ابھی تک اسماعیلی فرقہ سے منسلک تھا نے جناح کے شیعہ عقیدے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہائی کورٹ پہلے مس جناح کی پیٹشن قبول کرچکی تھی۔ عدالت کیلئے بابائے ملت قائداعظم کواسماعیلی کہنا مشکل ہوگیا۔

 چنانچہ اس کیس کو عدالت نے ملتوی کر دیا جبکہ مس جناح کا عمل ہمیشہ یہی رہا کہ وہ شیعہ عقیدے پر عمل کرتی رہیں اور اپنے بھائی کے متعلق بھی اثناء عشری شیعہ ہونے کا یقین دلاتی رہیں۔

جناح کیوں اثناء عشری شیعہ رہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مذہب کی آزادی کیلئے سیکولر اصولوں کے حامی تھے۔ اس بات کے گواہ عدالت میں سید شریف الدین پیرزادہ تھے۔ اُن کے مطابق جناح نے اسماعیلی عقیدہ1901میں چھوڑا تھا۔ جبکہ اُن کی دو بہنوں رحمت بائی اور مریم بائی کے ایک سنی خاندان میں شادی کرنے کا مرحلہ در پیش تھا۔

 کیونکہ اسماعیلی فقہ میں اس شادی کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے انہیں یہ فرقہ چھوڑنا پڑا۔ فرقہ کی یہ تبدیلی مسٹر جناح تک محدودرہی۔ اور ان کے بھائی ولجی اورنتھو بدستور اپنے سابقہ مذہب پر رہے۔

عدالت میں جو کارروائی ہوئی یہ مس جناح کے انتقال کے فوراً بعد ہوئی۔ اس میں گواہ سید اُنیس الحسن شیعہ عالم تھے۔ انہوں نے حلفی بیان دیا کہ مس جناح کے کہنے پر انہوں نے قائداعظم کو غٖسل دیا تھا اور گورنر جنرل ہاؤس کے ایک کمرے میں ان کی نماز جنازہ بھی شیعہ دستور العمل کے مطابق ادا کی جاچکی تھی۔ اس میں شیعہ عالم شریک تھے۔ جیسے یوسف ہارون، ہاشم رضا اور آفتاب حاتم علوی حاضر تھے۔ جبکہ لیاقت علی خان بطور سنی کمرے سے باہر کھڑے رہے۔

جب شیعہ رسومات ختم ہوئی تب جنازہ حکومت کے حوالے کیا گیا۔ تب متنازعہ شخصیت مولوی شبیر احمد عثمانی جو دیوی بندی فرقے کو چھوڑ چکے تھے اپنے فرقے کے خیالات کے برعکس جناح کی جدوجہد پاکستان کے حامی تھے۔

 انہوں نے دوبارہ نماز جنازہ پڑھائی۔ یادرہے شبیر احمد عثمانی شیعوں کو مرتد اور واجب القتل قراردے چکے تھے۔ یہ دوسری نماز جنازہ سنی طریق سے پڑھائی گئی۔ اور جنازہ کی جگہ وہی تھی۔ جہاں قائداعظم کا مقبرہ بنا۔ دوسرے گواہان تصدیق کرتے ہیں کہ مس فاطمہ کی موت کے بعد کلام اور پنجہ شیعوں کے دونشان مہتہ پیلس سے برآمد ہوئے تھے۔

 جس میں ان کی رہائش بھی تھی۔ آئی ایچ اصفہانی نے یہ گواہی1968ء میں سند ھ ہائی کورٹ میں دی تھی۔ جس میں انہوں نے جناح کے فرقہ کی تصدیق کی تھی۔ وہ جناح فیملی کے دوست تھے اور1936ء میں اُن کے اعزازی سیکرٹری بھی تھے۔اس گواہی میں مسٹر مطلوب حسن سید بھی شامل ہوئے۔ جو قائداعظم کے 1940-44 تک پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔

مسٹر اصفہانی بتاتے ہیں خود جناح نے انہیں1936ء میں بتایا تھا کہ ان کی فیملی اور خود انہوں نے شیعہ مذہب اس وقت اختیار کیا جب وہ1894ء میں انگلینڈ سے لوٹے تھے۔ اور انہوں نے رتی بائی سے شادی کی تھی جو ایک پارسی تاجر کی بیٹی تھی۔ یہ شادی شیعہ رسوم کے مطابق ہوئی۔
 ان کے نمائندے راجہ صاحب محمود آباد تھے جو ان کے شیعہ دوست تھے۔ اگرچہ اُن کا عقیدہ جناح سے مختلف تھا۔ لیکن وہ ان کے گہرے دوست تھے۔ وہ اثنا عشری شیعہ تھے۔ اور آزادی کے بعد نجف عراق گئے تھے۔ قائداعظم سے اُن کی دوستی کو بہت لوگوں نے حیرانی کے ساتھ دیکھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جناح اور راجہ صاحب محمود آباد میں دوستی کی وجہ شیعہ ہوناتھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ممبئی سے ایک مرتبہ شیعہ کانفرنس میں ممبئی الیکشن میں جناح کی مخالفت کی تھی۔

جب مس فاطمہ جناح 1967ء میں کراچی میں فوت ہوئیں تو اس موقعہ پر اصفہانی موجود تھے۔ انہوں نے مہتہ پیلس میں اُن کے غٖسل اور نمازہ جنازہ کا اہتمام خود کیا۔ جو شیعہ رسوم کے مطابق تھا۔ جنازہ پڑھانے کے بعد میت حکومت کے حوالے کی گئی۔ تب پولو گراؤنڈ میں سنی طریق سے نماز جنازہ دوبارہ پڑھائی گئی اور بھائی کے مقبرہ میں جو جگہ انہوں نے تجویز کی وہاں اُن کی تدفین ہوئی۔ شیعہ رسم جنازہ کے مطابق میت کو آخری الوداعی نصیحت جسے تلقین(Talgin)کہتے ہیں اس وقت ادا کی گئی جب میت کو لحد میں اتارا گیا۔ رتی بائی کو آخری الوادعی نصیحت یا تلقین خود قائداعظم محمد جناح نے کی تھی جب وہ1929ء کو فوت ہوئی تھیں۔

فاطمہ جناح کی وفات پرجب شیعہ رسوم اداکی گئیں تو مخالفت کرنے والے لوگ بھی وہاں موجود تھے۔ جس کے بعد میت حکومت کے حوالے کی گئی اور سنی طریقے سے رسوم ادا کی گئیں۔ اس مخالفت کا ذکر فیلڈمارشل جنرل ایوب اپنی ڈائری میں یوں کرتے ہیں۔

۔۔۔جولائی1967ء۔۔ میجر جنرل رفیع میرے ملٹری سیکرٹری تھے۔ وہ میری نمائندگی کیلئے کراچی گئے اور مس جناح کے جنازے میں شریک ہوئے تھے۔اُن کا بیان ہے کہ اہل فہم لوگ اس بات پر خوش ہوئے کہ حکومت نے مس فاطمہ کو ایک عزت کا مقام دیا۔ اس لئے یہ امر حکومت کیلئے بھی خوش کن ہے۔ تاہم وہاں بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے بہت برا سلوک کیا۔ اُن کی پہلی نمازہ جنازہ مہتہ پیلس میں شیعہ رسوم کے مطابق ادا کی گئی۔

پھر عوام کیلئے دوسری نماز جنازہ پولوگراؤنڈ میں ہوئی تو یہ سوال کیا گیا کہ امام سنی ہو یا شیعہ؟ تاہم بدایونی کو امامت کیلئے آگے کردیا گیا۔ جونہی امام نے اللہ اکبر کہا آخری صفوں میں کھڑے لوگ چھٹ گے جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ لاش کو بڑی مشکل سے ایک گاڑی میں رکھا گیا اور قائداعظم کے مزارپر لے گئے اور انہیں دفن کیا گیا۔ وہاں ایک ہجوم اکٹھاہوگیا جنہوں نے کہا کہ قبر کی جگہ بدلی جائے، اس پر عمل نہ کیا گیا۔

طلباء کے ہمراہ غنڈے تھے جنہوں نے پتھر برسائے تب پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ غنڈوں کو آنسو گیس کی مدد سے ہٹایا گیا تو جنازہ کا میدان پتھروں سے اٹا پڑا تھا۔ لوگوں نے جس بے حسی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اس پر افسوس ہوتا ہے۔ کہ نماز جنازہ کی جگہ عبرت انگیز ہوتی ہے۔ لیکن یہ لوگ اس پہ بھی بازنہ آئے۔

ھر پاکستانی مقروض ھے دو شیعه مسلمانوں کا

ھر وه حرام خور مقروض ھے ان دو عظیم شخصیتوں(قائد آعظم,راجه محمود آباد)
 کا جو ملک کو لوٹ رھے ھیں یا جن کو شیعه کا پاکستان میں وجود قبول نھیں.

دین اسلام کی حفاظت کی طرح اھل تشیع نے وطن پاکستان بنایا بھی ھے اور بچائیں گے بھی.

یه تاریخی حقائق ھیں جن کا کوئی توڑ نھیں.

بیسویں صدی میں انڈیا کی امیر ترین شخصیت راجہ امیر حسن خان آف ریاست محمود آباد(جسکی آمدنی کا اندازہ ماہانہ 40لاکھ روپیہ تھا) کی بھر پور مالی مدد سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈلی ۔

امیر حسن نے اپنی وصیت میں اپنے بیٹے امیر احمد کا سرپرست قائد اعظم کو قرار دیا کا ان کی وفات کے بعد انکے فرزند امیر احمد خان راجہ بنے اور مسلم لیگ کے کم عمر ترین ممبر بنے۔ سن 1937میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ لکھنؤ اجلاس کا انتظام و خرچہ راجہ صاحب نے اس وقت اٹھایاجب مسلم لیگ کے دولتمند زمینداروں نے کانگریس کے خوف سے مالی معاونت سے ہاتھ روک لیا تھا۔

مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اسکے صدر رہے نیز اسی فیڈریشن کی کاوشوں کی بدولت 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔
مسلمانوں کے ڈان، تنویر، حق، ہمدم اور دیگر نشریات کیلئے خطیر رقم دیتے۔ 
نشرواشاعت کیلئے مسلم پریس لگوایا۔دس سال نجف کربلا بغداد رہنے کے بعد 1957 میں کراچی آ کر قیام کیا ۔
1965کی جنگ میں بھارت کی حکومت نے راجہ صاحب کو ملک دشمن قرار دے کر تمام خاندانی املاک بحقِ سرکار ضبط کرلیں چونکہ راجہ صاحب ایک دشمن ملک ( پاکستان) کے شہری تھے۔ایوب کے دور میں وزارتوں کی پیشکش کو ٹھکرایا۔

 1968 میں لندن مسقر ہوئے اور تنخواہ کی ملازمت اختیار کی اور 1973 میں فوت ہوئے ۔انہیں مشہد حرم امام رضا میں دفنایا گیا۔

سید امیر علی ،ڈی آغا خان۔مہا راجہ محمد علی محمد، کرنل سید عابد حسین ، تراب علی ،نواب محسن الملک،مرزا ابو الحسن اصفہانی ،.....، علماء میں سے سید محمد دہلوی،حافظ کفایت حسین،سید ابن حسن جارچوی،مرزا یوسف حسین لکھنوی،نجم الحسن کراروی،شیخ جواد،علامہ رشید ترابی، علامہ مفتی جعفر حسین...... ایسی شخصیات ہیں جنکے نام لئے بغیر تشکیل پاکستان کی رو داد نا تمام ہے۔
 اسی طرح خواتین میں سے فاطمۂ جناح مادر ملت، ملکۂ اوَدھ، صغریٰ بیگم،لیڈی نصرت ہارون اور لاہور کے سیکریٹریٹ کی عمارت پر پاکستان کا پرچم لہرانے والی شیر دل خاتون فاطمۂ صغریٰ کے اسما قابل ذکر ہیں۔

نوٹ:1996ءمیں بنده ناچیز (سائیں لوگ)کی ایک تقریب میں محترمه فاطمه جناح کے زاتی گھریلو کک(خانساماں) بشیر جان جو بنگله دیشی تھے,سے ملاقات ھوئی جس نے محترمه اور قائد آعظم کے متعلق بهت سے یادگار واقعات سے باخبر کیا اور ان کے مسلک بارۓ تصدیق کی که آپ بھن بھائی باعمل شیعه تھے.

خالق پاکستان (قائد آعظم) کا مسلک شیعه اثناۓ عشریه تھا

شیعه مسلمانوں کو کافر کهنے والے اور آۓ روز مقام شھادت پر پهنچانے اور پاکستان سے باھر نکالنے والے حقائق پڑھیں.
اس ملک کو بنانے والے کا مسلک کیا تھا

پاکستان کے بانی محمد علی جناح جنہیں قائد اعظم اور بابائے قوم کے لقب سے نوازا گیا ،آپ 25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن، کراچی، سندھ میں پیدا ہوئے،
 جوکہ اُس وقت بمبئی کا حصہ تھا۔ آپ کا پیدائشی نام ؒمحمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ گوکہ ابتدائی اسکول کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جناح کی تاریخِ پیدائش 20 اکتوبر 1875ء تھی، [3] لیکن بعد میں جناح نے خود اپنی تاریخِ پیدائش 25 دسمبر 1876ء بتائی۔

قائد اعظم کی دوسری شادی رتن بائی سے ہوئی جنہوں نے اپریل کے مہینے میں اسلام قبول کیا اور 19 اپریل کو انکا قائد اعظم سے ہوا جسے ابو القاسم شریعتمدار نے قائد اعظم 11 ستمبر 1948 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ابتدائی طور پر آپ اسماعیلیہ مکتب پر عمل پیرا تھے لیکن بعد میں اثنا عشری مکتب کو قبول کیا ۔

 اور پھر آخر عمر تک اسی پر کاربند رہے ۔نیز آپکی تجہیز و تکفین کے فرائض ہدایت اللہ عرف کلو نے اور نمازِ جنازہ شیعہ اثنا عشری عالم دین مولانا انیس الحسنین نے گورنر ہاؤس میں پڑھائی جس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی اور اور دوسری مرتبہ عمومی طور حنفی فقہ کے مطابق ہوا۔

دفنانے کے بعد تلقین سید غلام علی وکیل احسن اکبر آبادی اور آغا حسین بلتستانی نے پڑھی ۔

سپاه صحابه کے قیام سے ھی مذھبی دھشت گردی کو فروغ ملا

.فتنه کفر سے زیاده شدید ھوتا ھے

"تحریر و تحقیق : " سائیں لوگ


لھذا فتنے کا خاتمه  مومن کا دینی فریضه ھوتا ھے.
انجمن سپاه صحابه کا قیام ھی فتةالکبری ھے.
اور یهی تکفیری جماعت پاکستان میں مذھبی دھشت گردی کی زمه دار ھے.ملحاظه فرمائیں اس کے بانی کے متعلق معلوماتی پوسٹ کا پهلا حصه.

انجمن سپاه صحابه(ASS)گدھوں کی جماعت کا موسس مولوی حق نواز جھنگوی کی زندگی کے گھناونے واقعات.پڑھیۓ
ایک دلچسپ رپورٹ کا پهلا حصه.

قوم مصلی آپنے بشری حلیے میں ویسا ھی تھا جیسا که الھامی پیشگوئیوں میں فتنه پرور علماء کی شکل و صورت بیان ھوئی ھے . ملحاظه کیجیۓ باب فتنه خوارج بخاری شریف.

آنجهانی کے خصائل و شمائل کے پیش نظر ان کو عجیب شے کهنا عجیب نھیں ھے. ظاھری صورت میں بچھونما تو تھے ھی باطنی شکل میں بھی انتھائی موزی سانپ کی طرح تھے ان کا ڈسا پانی نھیں مانگا کرتا تھا.
 جب جھنگ میں ان کو قتل کر دیا گیا تو اس کے بدلے میں منافق مسلمانوں نے کئی مساجد کو شھید کر دیا قرآن شریف اور احادیث مبارکه کو جلا دیا گیا بے گناه مسلما نوں کو موت کے گھاٹ اتار گیا.

جھنگوی صاحب کبیرواله کے مدرسے کے لوطی مولوی تھے .مسلکن دیوبندی تھے لھذا وجه شھرت بریلویوں کو مشرک اور شیعوں کو کافر قرار دینا تھی.

 آنجھانی کے نذدیک کوئی دوسرا کلمه گو مسلمان ثابت نھیں تھا کها جاتا ھے که آنجناب نے ایک مرتبه آپنے حلقه احباب میں بیٹھ کر فتوی لگا دیا که مولانا فضل الرحمن المعروف مولانا ڈیزل کے والد مفتی محمود کافر ھیں.
تاھم جنھگوی چوھا پنجاب کے جمیعت علماۓ اسلام کے صوبه پنجاب کے صدر بھی رھے.
جھنگ شھر میں سکونت تھی قوم کے مسلی تھے یعنی که (کمی)اس تکفیری خارجی نے انجمن سپاه صحابه کی بنیاد رکھی جس کا واحد کام بریلوی کو مشرک اور شیعه کو کافر قرار دینا تھا.چنانچه اس انجمن کے کارھاۓ نمایاں کی گواھی ملک پاک کی ھر کالی دیوار سے ان دنوں مل سکتی تھی گالیاں بکنا,جھگڑا کرنا اور شرفاء کی پگڑیوں کو اچھالنا اس تنظیم کا طره امتیاز بن گیا.
جس کے ردعمل میں پاکستان کے مختلف تھانوں میں کئی ایف آئی آر درج ھوئیں اور جھنگ میں دو باپ بیٹے کے قتل کے الزام میں آنجناب کے خلاف زیردفعه 302پرچه بھی کٹا مرحوم ضیاءالحق کے دور حکومت میں مولوی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا تھا.
 اور تفتیش کے دوران عجیب وغریب انکشافات بابت اغلام بازی ھوۓ مگر امام کعبه.....(جاری ھے).

سپاه صحابه فتة الکبره

انجمن سپاه صحابه کا قیام ھی فتنةالکبره ھے

"تحریر و تحقیق:" سائیں لوگ                                           

                                                     

اس نے آنکھ کھولتے ھی پوری مستعدی کے ساتھ تقریر و تحریر اور دنگافساد کے زریعے مسلم امه میں داخلی فساد و خلفشار اور اندرونی انتشار برپا کرنے میں آپنا کردار بھر پور طور پر ادا کیا .

 ملک و ملت کے خلاف اس گروه ناپاک کے عزائم اور گھناونی سازشیں ھر پاکستانی کیلۓ کھلی کتاب کی طرح واضح ھیں.
کفریه عقائد کی حامل یه انجمن خود کو سنی کهلواتی ھے حالنکه اھلسنت سے اس کا دور تک کا کوئی واسطه نھیں.یه گروه ناصبی اور خارجی گروه ھے دشمن دین اسلام ھے امت مسلمه کیلۓ مار آستین ھے پاکستان کا ازلی مخالف اور مسلما نو ں کا جانی بیری ھے رسول آعظم ص کی پشین گوئیوں کے مطابق اس کی اصلیت ابلیسیت ھے اور فروعیت خارجیت اور ناصبیت ھے.

اس گروه کے بانی آنجھانی حق نواز ملعون پر پورۓ ملک میں قتل وغارت اور ملک کو بدامنی حالات میں دھکیلنے پر پرچے کاٹے گۓ اور گرفتاری بھی کئی بار عمل میں لائی گئ مگر امام کعبه کی مداخلت پر جنرل ضیاء نے چھوڑ دیا جبکه اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب موجوده وزیرآعظم نوازشریف جو مسلک کے لحاظ سے بریلوی مکتبه فکر سے تعلق رکھتے ھیں.اس جھگڑے کو ھمیشه کیلۓ ختم کرنا چاھتے تھے.
مگر امام کعبه کی نصیت کے مطابق اسے چھوڑ دیا جاتا تھا.

 کیونکه امام کعبه شیعوں کو کافر اور بریلویوں کو. مشرک کهلوانے پر حق میں تھے البته دباؤ پر آکر حقنواز نے بریلوی مخالفت چھوڑ دی اور شیعه مذھب کے خلاف محاظ جاری رکھا.
مولوی صاحب بهت چالاک تھے اور اسی چالاکی کی وجه سے جمعیت علماء اسلام کے لیڈر بھی اس سے خوفزده تھے .
جھنگ میں اس ملعون نے سیاسی طور پر الیکشن میں حصه لینے کی کوشش کی مگر ناکامی ھوئی کیونکه طاھر القادری کی مداخلت سے اھلسنت کے ووٹ تقسیم ھوگۓ اور منظور احمد چینیوٹی اور شیخ اقبال کے درمیان اختلاف بھی صو بائی سیٹ کی سودۓ بازی پر مذید اختلافات ھو گۓ.شیخ اقبال کے گھر ایک اجلاس میں اس شر کو ھمیشه کیلۓ دفن کرنے پر مزاکرات ھوۓ پهلے شیخ اقبال نے مل کر جھنگوی کے ساتھ ملک کے امن کوتهه بالا کیۓ رکھا لیکن الیکشن میں اختلاف اتنے بڑھے که ایک دوسرۓ کے جانی دشمن بن گۓ.
اسی طرح 22,تا25,فروری کے درمیان اس ٹیڈی شیطان کو ختم کرنے کا پلان بنا ایسا ھی ھوا ایک نکاح کی تقریب جو اقبل شیخ کے رشته داروں کے ھاں تھی واپسی پر گلی میں گٹر کے قریب قتل کر دیا گیا اس دوران بجلی چلی گئ اور مولانا کی لاش پھدکتی ھوئی گٹر میں غوطے کھاتی رھی اس طرح ایک گند بنده گند ھی میں ڈھیر ھو گیا.

کچھ عرصه بعد اقبال شیخ کو بھی قتل کردیا گیا.مگر ٹیڈی ملاں ملک میں ایک ایسی مذھبی آگ لگا گیا جو آۓ دن بھڑتی گئی اس آگ میں ملت تشیع کا بهت جانی و مالی نقصان ھو اور ملت کے عظیم سپوت شھید کیۓ گۓ جن میں آقاۓ صادق گنجی جو ایران کے سفارت کار تھے ان سمیت علامه عبدالکریم مشتاق قبله حجة الاسلام علامه غلام حسین نجفی عالمی شاعر جناب محسن نقوی علامه ناصر عباس علامه اکبر کمیلی, علامه ترابی جو اتحاد بین المسلیمین کے داعی تھے قبله سبط حعفر زاکر ریاض شاه موچھ علامه خورشید جعفری,زاکر علمدار حسین شورکوٹ,علامه نذیر حسین نعیمی جو علامه غلام حسین نعیمی جو اھلسنت سے شیعه ھوۓ تھے ان سمیت دیگر ھزاروں عظیم لوگوں کو شھید کیا گیا.
اور یه سلسله تا حال جاری اس دوران ھماری ملت خواب غفلت میں سوئی رھی اور مزاھمت نه کر سکی کچھ سالوں سے مذھبی و سیاسی جماعت مجلس وحدت مسلیمین اس سلسله میں کا م کررھی ھے آج بھی یه جماعت ٹاگٹ کلنگ کے خلاف بھوک ھڑتال میں ھے اگر ھم اب بھی بیداری نھیں پکڑتے تو پھر ھمارا نصیب خوش قسمتی سے ھمیں بڑی مشکل سے متحرک قیادت نصیب ھوئی ھے ھمیں اس کا بھر پور ساتھ دینا چاھیۓ, 
انجمن سپاه صحابه:
یه لوگ سنی نه ھیں بلکه ناصبی ھیں ان کے کالے کرتوت کی تاریخ گواه ھے.
جب ھم قرآن میں دیکھتے ھیں تو ا. لوگوں کو قرآن کچھ اس طرح یاد کرتا ھے ترجمه حاضر ھے:
اور جو کوئی مخالفت کرۓ رسول ص کی اس کے بعد که اس پر ھدایت واضح ھو گئی ھو اور اتباع کرۓ مومینین کے راستے کے علاوه دوسرۓ راستوں کا تو ھم اسے اسی کے حوالے کر دیں گے اور جھنم میں جھونک دیں گے اور وه بهت بری جگه ھے.
سوره نساء آیت نمبر 115.سوره توبه ع 100.

حضرت سعد بن عباده رض کا قتل حضرت عمر کی منشاء پر ھوا.

پاک نبی ص انصار سے محبت کا کهه رھے ھیں جبکه حضرت عمر قتل کر رھے ھیں

حضرت سعد بن عباده بھی انصار ھی میں سے تھے محبت تو کجا حضرت عمر نے قتل کردیا.

بخاری شریف کے آپریشن کے سلسله میں پهلی حدیث جو منتخب کی گئی اس حدیث میں انصار صحابه کی محبت علامت ایمان کامل بتائی گئی ھے.
بلکه اس حدیث کی تشریح میں بھی وضاحت ھے ملحاظه فرما سکتے ھیں
مگر محبت تو کجا حضرت عمر نے صرف ابوبکر کی خلافت کو ھر طرح کے خطره سے بچانے کیلۓ اس صحابی کا خون کیا جو خود سقیفه میں خلافت کا امیدوار تھا

"تحریر و تحقسائیں لوگ

یں لوگ

نماز تراویح کا رد

حضرت علی (ع) کی زبانی نماز تراویح کی رد:

 نمازتراویح کی حقیقت !!

کتب روایات و تواریخ سے استفادہ ہوتاھے کہ حضرت امیر المومنین (ع)کی اپنے دور حکومت میں متواتر کوشش یھی رھی کہ اس نماز کو اسی صورت پر پلٹا دیں جو رسول(ص) کے زمانے میں تھی ،لیکن مختلف وجوھات بشمول کچھ نادان مسلمانوں کی بدبختی اور جھالت، درمیان میں آڑے رھیں جن کی وجہ سے امام (ع)کی کوشش کسی نتیجہ تک نہ پهنچ سکی.

 چنانچہ حضرت امیرالمومنین (ع)نے اس بارے میں اپنی بے پایان کوشش اور مسلمانوں کی جھالت کی طرف( اپنے خطبات کے اندر)جا بجااشارہ فرمایا ھے: 

۔…”امرت الناس ان لایجمعوافی شھررمضان الا فی فریضة، لنادی بعض الناس من اھل العسکر ممن یقاتل معی: یا اھل الاسلام !وقالوا غیرت سنةعمر،نھینا ان نصلی فی شھررمضان تطوعاً،حتیٰ خفت ان یثوروافی ناحیة عسکری بوسی، لما لقیت من ھذہ الامة بعد نبیھا من الفرقةوطاعةائمةالضلال والدعات الیٰ النار!!“
1] کتاب سلیم بن قیس ،ص۱۶۳۔ 

میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ ماہ رمضان میں نماز واجب کے علاوہ دوسری نمازوں کو جماعت سے نہ پڑھو ،تو میرے لشکر میں سے ایک گروہ کی صدائے احتجاج بلند ہوئی کہ اے مسلمانو! سنت عمر کو بدلاجارھاھے!
اورھم کوماہ رمضان کی نمازوں سے روکاجارھا ھے !اور ان لوگوں نے اس قدر شور و غوغا مچایاکہ میں ڈرا کہ کھیں فتنہ برپانہ ہوجائے اور لشکر میں انقلاب نہ آجائے!
تف ھو ایسے لوگوں پر، بعد پیمبر (ص)کس قدر میں نے ان لوگوں سے سختیوں کو جھیلا ھے…۔ 

ابن ابی الحدید کتاب”الشافی“ سے نقل کرتے ھیں :

”کچھ لو گوں نے حضرت امیرالمو منین (ع) سے کو فہ میں عرض کیا کہ کسی کو بعنوان امام جماعت کوفہ میں معین کریں تا کہ وہ ماہ رمضان کے شبوں کی مستحب نمازوں کو جماعت سے پڑ ھائے ، امام (ع) نے اس عمل سے لوگوں کو منع کیا.
 اور بتایا کہ یہ عمل سنت رسول(ص) کے بر خلاف ھے،چنانچہ بظاھر ان لوگوں نے بھی اپنی در خواست کو واپس لے لیا ، لیکن بعد میں ان لوگوں نے مسجد کے اندر ایک اجتماع کیا اور اپنے میں سے ھی ایک صاحب کو منتخب کر کے امام جماعت بنا لیا.
 جب امیر المومنین (ع) کو اس کی اطلاع ھو ئی تو امام حسن علیہ السلام کو بھیجا کہ اس بدعت کو روک دیں.
 جب لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کو تازیانہ لاتے ہوئے دیکھا تو ”واعمراہ،واعمراہ“ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مسجد کے مختلف دروازوں سے بھاگ نکلے “ 
شرح نہج البلاغہ جلد ۱۲،خطبة ۲۲۳،صفحہ ۲۸۳۔

بدرالدین عینی کی ناقص توجیہہ !! 
شارح صحیح بخاری جناب بدرالدین عینی قول عمر”نعم البدعة ھٰذہ “ کے ذیل میں تحریر فرماتے ھیں : 
عمر نے اس نماز کو بدعت سے اس لئے تعبیر کیاھے کیونکہ رسول(ص) وابوبکر کے زمانے میں اس صورت میں کوئی نماز نہ تھی.
 بلکہ یہ نماز خود ان کی ایجاد کردہ تھی اور یہ بدعت چوں کہ ایک نیک عمل میں تھی لہٰذا اس بدعت کو غیر مشروع (ناجائز) شمار نھیں کریں گے!
عمدة القاری جلد ۱۱،کتاب الصوم ، باب ”فضل من قام رمضان

عرض مولف بدرالدین سے ھمار ا سوال یہ ھے کہ جب آپ نماز تراویح کو بدعت( غیر مشروع) تسلیم کرتے ھیں توپھر اس کو نیک اور بھتر سمجھنے کا کیامطلب ؟!

 اور اگر آپ کے کهنے کا مطلب یہ ھے کہ عمر کی بدعت سنت رسول (ص)اور قانون خد ا سے بھتر ھے تو پھر اس میں کوئی شک نھیں کہ ایسا عقیدہ اور خیال کفر اور ضلالت ھے!
(کیونکہ یہ حق شارع کو ہوتا ھے کہ وہ شریعت کے احکام کو بتلائے اور جعل کرے نہ کہ مکلفین کو جو مصالحا ور مفاسد سے بے خبر ہوں)

اور اگر آپ یہ کھیں کہ سنت خداو رسول(ص)، سنت عمر سے بھتر اور ارجح ھے تو پھر آپ اِس کی پیروی نہ کرکے بدعت عمریہ کی پیروی میں جو ایک مرجوح عمل ھے نماز تراویح ا ج تلک کیوں پڑھتے آ رھے ھیں ؟
___________________

مقصد عزاداری

پیغام فکر,و مقصد عزاداری




"تحریر:"سائیں لوگ                                                    

عزاداری امام مظلوم کا یہ سلسلہ 14 سو سال سے جاری ہے
 لیکن ایک سوال چاہے وہ عزاداری کے حامی ہوں یا مخالف ہر ذہن میں اور ہر محفل میں اٹھتا ہے کہ:

عزاداری کا یہ لا متناہی سلسلہ یہ بلند
دو بالا سیاہ پرچم ، یہ گریہ و فغاں یہ آہ و بکا کس لیے ھےاور اس کا مقصد کیا ہے.
اور یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا.

اس سوال کا جواب ہر شخص چاہے وہ بانی عزا ہو یا مقرر و خطیبوں کا گروہ، اپنی اپنی فکری سطح کے مطابق مختلف انداز میں دینے اور ذہنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 کوی کہتا ہے کہ یہ سیاہ پرچم مجالس حزن و غم ہمیں اپنے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ملے ہیں ہمیں بہرحال اسے جاری رکھنا ہے۔
کوی کہتا ہے کہ ہم عاطی اور گنہ گار ہیں اور اطاعت خداوندی بجا لانے کی استطاعت و توفیق تو ہم نہیں رکھتے اس لیے ہم گناہوں کو اپنے آنسوؤں سے ہی دھو لیتے ہیں۔

اور کوی اس راہ میں کیے گۓ اپنے مالی اخراجات کو اپنے گناہوں کا فدیہ قرار دیتا ہے ۔

یہاں تک کہ بعض افراد تو غلط و ناجایز ذرایع سے پیسہ کما کر اور اسے عزاداری میں خرچ کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا باقی مال و جایداد حلال کر لیا ہے۔

جب کہ کچھ لوگوں کا مقصد اس عزاداری کے توسل سے اپنے کسب و کاروبار اور رزق میں وسعت حاصل کرنا ہے۔۔
بہرحال اپنی اپنی فکری سطح کے مطابق مختلف جوابات دیے جاتے ہیں۔

لیکن عزاداری مظلوم کا فلسفہ اور اصل ہدف کیا ہے یہ جاننے کیلیے ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں خود آیمہء اطہار سے رجوع کیا جاے کیونکہ انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے اور خود شیعت کا طرہ امتیاز بھی یہی ہونا چاہيۓ کہ ہمارے اعمال و افعال گفتار و کردار خود ہماری پسند اور راۓ کے تابع ہونے کی بجاۓ ایمہ اطہار علیہم السلام کے احکام و فرامین کے تابع ہوں، لہزا ہماری عزاداری کے مقاصد اور اصل ہدف کو بھی نص ایم اطہارء اور ان کی ہدایت کے مطابق ہونا چاہیۓ۔

یہ عزاداری جو ہم برپا کرتے ہیں تو صرف اور صرف اس لیے کہ یہ معصوم کا فرمان ہے۔ ہمارے ایمہّ اطہارء نے ان مجالس عزا کو برپا کرنے اور نظم و نثر کے ذریعے ان مجالس عزا کو رونق دینے کی تاکید فرمای ہے۔ اور انہی کے فرمان و ہدایت ہم نے اس عزاداری کو باقی رکھا ہے اور آیندہ بھی انشاءاللہ باقی رکھیں گے۔

لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ایمہّ اطہارء نے ہمیں جب اس عزاداری کو قایم اور برپا کرنے کی دعوت دی تو کیا معاذاللہ انہوں نے اس عزاداری کے رخ اور اس کے سمت و جہت کو پیش نہیں کیا ؟
نہیں ! ہر گز نہیں .
عزاداری امام حسینء کس انداز سے ہو اور اس کا رخ اور سمت و جہت کیا ہو ۔ اس مسئلے کو ہمارے ائمہ علیہم السلام نے ہر گز نظر انداز نہیں کیا ۔

اس سلسلے میں امام صادقء اور امام رضاء کی دو روایات یہاں پیش کرتی ہوں :

امام جعفر صادقء نے فضیل ابن یسار سے پوچھا:
اے فضیل کیا تم لوگ ہمارے جدّبزرگوار امام حسيئن کی مصیبت پر مجالس منعقد کرتے ہو اور ان کی مصیبت کا ذکر کرتے ہو.

فضيل نے جواب دیا :
"ہاں مولا ! ہماری جانیں آپ پر فدا ہوں۔ ہم ایسی مجالس برپا کرتے ہیں۔
امامء نے فرمایا :
ہم ان مجالس سے محبت کرتے ہیں، ہمارے امر کو زندہ کرو ۔ خدا اس شخص پر رحم فرماۓ جو ہمارے امر کو زندہ کرے. (المجالس الفاخرۃ ماتم العترۃ الطاہرۃ ص 240)

علی ابن بابویہ فمی نے امام رضاء سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا :

جو ہماری مصیبت کا ذکر کرے گا اور ہمارے مصایئب پر روۓ گا وہ روز محشر ہمارے ساتھ ہمارے ہی درجہ میں ہو گا۔ ہماری مصیبت پر جس کی آنکھیں رویئں گی ، اس کی آنکھیں قیامت کے دن، کہ جب ہر آنکھ روتی ہو گی.

نہیں رويئں گی اور جو شخص کسی ایسی مجلس میں بیٹھے گا کہ جہاں ہمارے امر کا احياء ہوتا ہو تو اس کا دل روز قیامت زندہ ہو گا جب کہ اس روز ہر دل مردہ ہو گا۔ (نقل از نفس المھموم ص 40)

ان دو روایات سے واضح ہوا کہ ہر دوایمہ معصومین ع نے عزاداری کو امر ائمہء کے احیاء کرنے سے تعبیر فرمایا ہے اور عزاداری کو ان کے امر کو زندہ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ تم ایسی مجالس عزا برپا کرو ۔ یقینّا ہم ایسی مجالس کو پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے امر کا احیاء ہے ۔

عزاداری کی عظمت

.عزاداری امام حسین ع کی عظمت و اھمیت کا خیال رکھا جاۓ
.ھر عمل کی روح اخلاص ھے

یه بات کسی وضاحت کی محتاج نھیں ھے جب تک خلوص نیت نه ھو اس وقت تک نه کوئی عمل عمل ھوتا ھے اور نه کوئی عبادت عبادت
ارشاد قدرت ھے.
امروا الا لیعبدو والله مخلصین لا الدین 

ترجمه ان کو حکم نھیں دیا گیا مگر اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے کا.

مگر ھماری بدقسمتی یه ھے که مجالس پڑھنے اور پڑھانے والوں کی اکثریت اس وقت اسی روح  عبادت سےنظر آتی ھے اور یهی وجه ھے که ھماری موجوده عام مجالس ایک کاروباری منڈی بن چکی ھیں.

ه اور انکی افادیت بلکل ختم ھو گئی ھے.
اس دعوی کے ثبوت کیلۓ بڑۓ اختصار کے ساتھ زیل میں پنجگانه شواھد مختصرا پیش ھیں.

1:پهلا عمل ضروری اور اھم ھے  فیس طے کر کے مجلس نه پڑھوائیں.

2:  خدا اور رسول خدا ص کی رضا کو اھمیت دیں ,
اور پبلک کی رضا جوئی کو مقدم نه جانیں.

3:  اھل ایمان اور اھل علم کو توھین اور تفریق بین المسلیمین کا خیال کریں.

4:  جھوٹی روایات سے پرھیز کریں یه گناه کبیره ھے که ممبر حسین پر کھڑۓ ھو کر کذب بیانی کی جاۓ.

5:  غنا اور سرور کا ارتکاب نه کرنا.

اگر کلام حق میں غنا کیا جاۓ تو عذاب دوگنا ھو جاتا ھے.
(المکاسب شیخ انصاری).

سیرت و کردار کا عملی نمونه پیش کریں انشاءالله مجالس سے صیحیح فائده اٹھایا جا سکتا ھے.

الله پاک ھمیں مفھوم ع و مقصد عزاداری سمجھنے کی توفیق دے.

بدعات کے خلاف علماۓ حقه مذاھمت کریں.

ممبر پر قابض ھونے کے بعد چند گمراه لوگ آج کل سوشل میڈیا کے زریعے آئمه معصومین ع سے منسوب جھوٹی روایات کے زریعے غلط عقائد کی تشریح میں مصروف ھیں:

 ان کا یه عمل قرآن و اھلبیت ع جن پر مذھب حقه شیعه اثناۓ عشریه کی پائیدار عمارت قائم ھے اس کو دشمنوں سے ملکر بدنام اور کمزور کرنے کے درپے ھیں.

اس موقع نازک پر اھل علم پر شرعی زمه داری عائد ھوتی ھے که وه آگے بڑھیں اور قرآن و تعلیمات آئمه معصومین ع کا دفاع کرتے ھوۓ آپنےخالص محب اھل بیت ع ھونے کا ثبوت دیں.

علم کے بغیر مناظره و مباحثه کرنا:

قرآن مجید میں علم کے بغیر مناظره و مباحثه کرنے کی مذمت وارد ھوئی ھے.

جب تک کسی شحص کے پاس کسی موضوع کے متعلق پوری معلومات نه ھوں اور برھان شرعی و منطقی سے وه نا بلد ھو اسے مناظره یا مباحثه نھیں کرنا چاھیۓ.

مذید کلام مقدس میں ملحاظه فرمائیں.
سوره حج آیت 3/8.
ترجمه:بعض لوگ ایسے بھی ھیں جو علم کے بغیر الله کے بارۓ بحثیں کرتے ھیں اور ھر سرکش شیطان کی پیروی کرنے لگتے ھیں.

مذید الله تعالی نے دعوت و مجاوله کے کچھ اصول بیان کیۓ ھیں.

ترجمه: آپ آپنے رب کے راستے کی دعوت دیں حکمت اور موعظه حسنه کے ساتھ اور ان سے احسن انداز سے مباحثه کریں.
(سوره نحل ع 125)

مگر یهاں علم سے بات کے بدلے ماں بھن کی گالیاں دی جاتی ھیں یه عمل عاضح قرآن و معصومین ع کے احکامات کے خلاف ھے.

ایک جگه اور الله پاک فرماتے ھیں.
ترجمه:اھل کتاب سے احسن انداز میں مباحثه کرو.

(سوره عنکبوت ع,46)

ھمارا مقصد یه ھے اگر اھل کتاب سے بھی بحث مباحثه کرو تو صحیح استدلال اور منطق و برھان سے کرو اور انھیں آپنے علم سے لاجواب کرو.

پاک نبی ص نے بھی اھل علم پر زمه داری ڈالی ھے جب میری امت میں بدعات و انحرافات داخل ھونے لگیں تو اھل علم پر فرض ھے که ان باتوں سے مذھب کا دفاع کریں.
(اصول کافی جلد,1ص54)

مگر یهاں تو ھر بات ھی قرآن و معصومین ع کے فرامین کے متضاد ھے مومن مسلمان بھائی آپس میں تمام شرعی حدود کو پامال کرتے ھوۓ ایک دوسروں کی عصمتوں کی عزتیں برباد کرنے پر تلے ھوۓ ھیں یعقینا ان لوگوں کا  اھلبیت ع سے کوئی تعلق نھیں ھے.

بغیر عقل و فھم کے مباحثے کی اساس صحیح استدلال پر نه ھوگی یا تو حق کا انکار کرو گے یا باطل کی تائید کر بیٹھو گے.

اس طرح کے بحث مباحثه  سے یه نتیجه نکلے گا که عقائد میں شکوک و شبھات کے ساتھ مذھب حقه کی بدنامی ھو گی.

لھذا ھماری گزارش ھے جو بھائی آپنے عقائد کا بھر پور دفاع نه کرسکے وه بحث میں حصه نه لے.

اھل مباحثه کو آپنے اور مخالف کے عقائد کا بھرپور علم ھونا چاھیۓ اور حقائق کو تسلیم کیا جانا چاھیۓ ضد و انا ء سے پرھیز کیا جاۓ تاکه گمراه ھونے سے بچه جا سکے.
.مید ھے ھماری معروضات پر توجه دی جاۓ گی

"
ازقلم:"سائیں لوگ

سائیں لوگ کا عقیده امامت

ایک جھوٹے بھتان کا الله کے حضور حقیقی جواب

یه بات اظھر من الشمس ھے که ھم پیغمبر اسلام ص کے بعد ان کی مسند کا صحیح وارث خلیفه و جانشین اور آپنا ھادی دنیا و دین حضرت علی ع اور ان کی اولاد امجاد سے گیاره آئمه طاھرین کو جانتے ھیں.

آئمه اثناۓ عشریه کے عقیدے کے مطابق خلافت و امامت کا منکر باطل اور جھنمی ھے.

ھم یه نھیں که امت محمدیه میں سے معصومین ع افضل و اشرف ھیں.

بلکه سرکار خاتم الانبیا ص کے بعد عام مخلوق تو درکنار تمام انبیاء ع سے بھی افضل ھیں.  

تاریخ گواه ھے ھمیشه باطل نے اھل حق کو خاموش کرنے کیلۓ اوچھے ھتھکنڈے اور کذب بیانی کا سھارا لیا ھے.

کچھ اھل غرض لوگ میرۓ متعلق یه کهه رھے ھیں که میں فلاں کا ایجنٹ ھوں, وھابی ھوں, اور منکر ولایت علی علیه اسلام ھوں.

میں یه وضاحت پهلے کئ بار دے چکا ھوں بلکه کمنٹس کے زریعے بھی مختلف مواقع پر آپنے ایمان و عقیده کی تصدیق کی سب سے بڑھ کر ثبوت میرا فیس بک پر گالی نھیں علمی مواد ھے.

فریق باطل کے پاس علم کم گالی لعن تعن زیاده ھے 
گالی سے الله پاک نے قرآن میں منع کیا ھے .
سوره انعام ع 109,

امام علی ع نے منع کیا گالی سےصفین کے موقع پر.
 نھج البلاغه.خطبه نمبر:205

مومن کی توھین سے منع

 کیا.
سوره منافقون ع 8
سوره بقره ع 257.
وسائل الشیعه جلد 12,ص_300,

مخالف کوئی بھی ھو جب سچ کا سامنا نه کرسکے تو پھر جھوٹے بھتان اور پیروپیگنڈا شروع کر دیتا ھے.

        لعنة الله علی الکازبین
سائیں لوگ کا ع

جمعرات، 4 اپریل، 2019

شیعه کلمه علی ولی الله

شیعه کلمه ......علی ولی اللله

آخری قسط نمبر :3. ضرور پڑھیۓ                            

یه قسط نامساعد حالات میں لکھی جارھی ھے تاکه ایک تسلسل قائم رھے,
اور آپ بھائیوں کو تواتر کے ساتھ ایک  موضوع پر مواد با آسانی میسر ھو,میری تحریروں کو طولانی سمجھ کر مت Ignor,کیا کریں.یه آپ بھائیوں کے لیۓ رقم کی جاتی ھیں.

ان تحریروں کا نه پڑھنا مذھب پر آپنے پراور میرۓ ساتھ ظلم گردانا جاۓ گا.
مخالف کے سوال پر احسن طریقه سے قرآن وسنت کے مطابق جواب دے پانا 
مذھب کی حقانیت اور آپکی عزت کا قائم رکھنا مقصود ھے تاکه مذھب حقه کے متعلق مسلمانوں کے دلوں میں ابھام پیدا نه ھو.اور محمد آل محمد ع کی صداقت اور آپکا وقار معقول جواب کے زریعےقائم رھے.
اور ناصبی کی طرح راه فرار اختیار نه کریں جو که جھوٹا ھونے کی علامت ھے.جبکه ھمارا اللله,رسول,امام معصومین ع سچےمذھب سچاھم سچے تو پھر گھبراھٹ کیوں.اس کیلۓ آگاھی چاھیۓ وه ھم فی سبیل اللله آپکو گھر بیٹھے پهنچا رھے ھیں.تو پھر بوجھ  کس چیز کا.

موضوع کلمه  پر معترض کا ھمیشه بھتان  رھا ھے اور اس جھوٹے شوشے کی آڑ میں عام سیدھے سادھے مسلمانوں کو شیعت کے خلاف بھڑکانے میں کافی حد تک کامیاب بھی ھوۓ ھیں غور و فکر اور تعصب سے آزاد مسلمان اس بات کو بخوبی سمجھتے ھوۓ ناصبی کے اس پیروپیگنڈا کو رد کرتے ھیں,اور مسلمانوں میں نفرت اور انتشار پھیلانے کی سازش قرار دیتے ھیں.

پچھلی دو تحریروں میں ھم نے خوب وضاحت پیش کی آج کی کلمه پر یه آخری پوسٹ ھے لھذا ھم کوشش کریں گے که اس میں ان کتب اھلسنت کے Original, سکین بھی دیۓ جائیں تاکه فریق مخالف کو کوئی سوال اٹھانے کا جواز میسر نه ھو.
جب ھم ناصبی سے جواب طلب کرتے ھیں اس کے کلمه طیبه کا شش کلمه کا ایمان کی شرطیں مجمل و مفصل کا,درود تاج خطبه جمه کی عبارت کا.زبردستی ٹھونسے گۓ درود میں ازواج و اصحاب,تو بو کھلاھٹ کا شکار ھو کر بغیر جواب دۓ گالی گلوچ پر اتر آتا ھے .
اسی لیۓ ھم کھتے ھیں که "شیعه جواب دیتے ھیں."
کائینات کا واحد مذھب شیعه ھی ھے جو آپنے ھر شرعی افعال کا جواب دینے کیلۓ ھمه وقت تیار ھے.قرآن و سنت سے,
علم سے عقل سے دلائل سے.

قرآن مجید میں اللله تعالی یه واضح کرتا ھے که رسول اللله ص مثیل موسی ھیں اور جناب امیر ع مثیل ھارون ھیں ع اس حدیث کا زکر بخاری شریف ترمذی اور صیح مسلم ,کے علاوه معجم الوسط اور طاھر القادری نے شان علی ع میں لکھی گئی آپنی "کنز المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب ع صفحه 78,حدیث نمبر 77,78,79,80,
میں بالترتیب بیان کی ھیں.

زمانه حضرت موسی ع میں جب کوئی مسلمان ھوتا تھا تووه موسی وھارون دونوں پر اسلام لاتا تھا جیساکه ارشاد باری تعالی ھے (قالواامنا رب العلمین  رب موسی و ھارون )

ایک جگه اور قرآن مجید میں آیا که.
 سورہ نساء کی ۵۹ ویں آیت میں

 ”یا ایُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اطیعُوا اللَّہَ وَ اطیعُوا الرَّسُولَ وَ اولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ “ ۔ 
ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو ، رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔ ”اولواالاامر"

 تفسیر مجاھد المناقب میں اس کی تفسیر اس طرح بیان ھوئی ھے که یه آیت جناب امیر ع کی شان میں اس وقت نازل ھوئی جب حضرت علی ع کو مدینه میں آپ ص نے قائم مقام بنایا تھا اس مرتبه حضرت علی ع کے پوچھنے پر آپ ص نے  جواب دیا آپ کا مرتبه میرۓ ساتھ ویسے ھی ھے جیسے موسی ع سے ھارون ع کا.
تم میری قوم میں خلیفه بنو اور اسکی اصلاح کرو.یھاں بھی آپکی ولایت کا اقرار اور ایمان لانا لازم ھے.
تیسرا بڑا ثبوت خم غدیر پر آپ ع کی ولایت کا علی العلان ھے ازن الھی کی طرف سے.
که جس کا میں مولا اس کا علی مولا ھیں لھذا اقرار توحید و رسالت کے ساتھ ساتھ ولایت علی ع واجب ھے  وگرنه ھر عمل بے کار ھے.
بعض معترض کهتے ھیں که شیعه کتب میں مکمل کلمه کھیں بھی نھیں شیعه کی ھر معتبر کتب میں ولایت علی ع کا اقرار جزو ایمان وکلمه و آزان ھے خورشید خاور شھپاۓ پشاور,دس ھماری ھزار تمھاری تحفة العوام مقبول جدید اور ھر شیعه مجتھد کی توضیح میں تشریح موجود ھے.
لھذا ضروری ھے مومن توحید کے بعد حضرت محمد مصطفی ص اور حضرت علی مرتضی ع دونوں پر ایمان لاۓ.

ھم حضرت علی ع کی ولایت کا اقرار جزو کلمه ھی سے نھیں بلکه جزو ایمان سے کرتے ھیں.سفر آخرت کیلۓ توحید رسالت و ولایت سے بھی لیتے ھیں تاکه پل صراط پر کام آۓ که حضرت ابو بکر نے کها که کوئی شخص اس وقت تک پل صراط پار نھیں کرۓ گا جب تک علی ع کا پروانه راھداری نه ھوگا.

جناب رسالت ماب ص نے فرمایا که "علی میرۓ بعد ھر مومن کا ولی ھے"
ملحاظه ھوں کتب اھلسنت:.

خصائص امام نسائی

ریاض النضره

اسد الغابه فی معرفة الاصحابه

کنز العمال ملا علی متقی

 جلال دین سیوطی.

مسند ابو داود طیالسی

فردوس الاخبار دیلمی

تھذیب الاثار ابن جریر طبری

اصابه فی تمیز الاصحابه

مناقب ابو مغازالی

قول انجلی فی الفضائل العلی

تھزیب الکمال

استیعاب  فی معرفته الاصحاب ابن عبدالبر

ترمذی شریف

طبرانی

میزان الاعتدال

جمع الجوامع سیوطی

الاکتفافی الفضائل الاربعه الخلفا صابی 

تاریخ بغداد خطیب بغدادی 

صحیح مسلم.

ینانبیع المودة

السیف جلی منکر ولایت علی طاھر القادری.

کنز المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب.ڈاکٹر طاھر القادی.

ان تمام کتب اھلسنت میں ولایت علی ع منقول ھے.

اس حدیث کے لفظ بعدی قابل غور ھے اور ثابت کرتا ھے که حکم اقرار ولایت بعد از زمانه رسول ص ضروری ھے اس لیۓ حضور پیغمبر آ عظم ص کے ارشاد ھدایت "ولی کل مومن بعدی" کے پیش نظر ھم اھل ایمان تعمیل حکم رسول کرتے ھیں.

مذید ڈاکٹر طاھرالقادری نے آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب صفحه 62,
یه حدیث لکھی ھے جو حضرت عمران بن حصین سے روایت ھے پاک نبی ص نے فرمایا که بے شک علی مجھ سے ھے اور میں اس سے. اس لیے میرۓ بعد وه ھر مومن مسلمان کے ولی ھیں .
اس حدیث کو 
امام ترمذی ,
نسائی,
طبرانی,
 مسند احمد ,
ابن ابی شیبه,نے بھی نقل کیا ھے.
سرکار رسالت ماب ص نے شب معراج دروازه جنت پر جو کلمه سونے کے حروف میں لکھا ھوا دیکھا اس سے بھی ولایت ثابت ھے چنانچه یه مولوی عبید اللله بسمل آپنی کتاب ارحج المطالب میں زیر عنوان "ولی اللله" دیلمی کے حوالا سے لکھا ھے.
جناب رسالت ماب نے فرمایا میں نے شب معراج دروازه جنت پر سونے سے لکھا دیکھا لا اله الا اللله محمد رسول اللله علی ولی اللله "یعنی اللله کے سوا کوئی معبود نھیں محمد رسول اللله ھیں اور علی ع اللله کے ولی ھیں.

فاطمه کنیز خدا ھیں حسن و حسین ع صفواة اللله ھیں 
ان کے دشمن پر اللله کی لعنت ھو.
لھذا ثابت ھوا که شیعوں کا کلمه در جنت پر لکھا ھوا ھے .
اسی کے مطابق سرداران جنت کے پیروکار شیعه اھل بیت کے دشمنوں پر لعنت کرتے ھیں.
یهی بات ینابیع المودة  ص 156,میں علامه سلمان قندوزی نے لکھی ھے که بروز محشر لوا الحمد کے جھنڈا پر بھی یهی کلمه لا اله الا اللله محمد رسول اللله علی ولی اللله.ھی لکھا ھو گا.
عرش بریں پر بھی یهی کلمه لا اله الا اللله محمد رسول اللله علی ولی اللله ھی لکھا ھوا ھے.ان تما اثبات قرآن و سنت اور اھل تسنن کی کتب معتبره سے ثابت ھے که شیعه مذھبکا کلمه مکمل ھے اور یھی کلمه ھی مومینین کا کلمه ھے جو منافقت سے پاک ھ

"ازقلم: " سائیں لوگ

شیعه کلمه علی ولی الله اھلسنت کتب سے ثابت ھے.

شیعه کلمه......علی ولی اللله
2:قسط نمبر             
2                                        

رسول اللله ص کا نام سن کے درود پڑھنا ثواب ھے تو  "علی ولی اللله "پڑھنا بھی کلمه میں ثواب و عبادت ھے.

شائد آپ کھیں که صحیح مسلم کی روایت کے مطابق امر جدید اگر حسنه ھو تو قابل  ثواب ھوتا ھے اور نفلی عبادت جتنی بھی کر لی جاۓ زریعه ثواب ھے که نوافل جتنے چاھیں پڑھ سکتے ھیں باعث ثواب ھو گا.زکواة مقرره مقدارسے زیاده  بھی ادا کی جا سکتی ھے حج حالنکه زندگی میں ایک دفعه فرض ھے لیکن جتنے چاھیں کر لیۓ جائیں لھذا اس نظریه سے معلوم ھوا که نیک عمل یعنی عبادت کی اس مقدار سے جو مقرر کی گئ ھو زیاده کرنا کوئی گناه نھیں بلکه ثواب ھے بشرطیکه اس اضافه کرنے سے قرآن و سنت نبوی کی مخالفت نه ھو پس اس ھی نظریه کے ماتحت ھم کھتے ھیں"  علی ولی اللله  " کھنا عبادت ھے اور یه کھنے سے نه ھی توحید خداوندی کے عقیده کو ضعف پهنچتا ھے اور نه ھی رسالت کے ایمان میں کمی آ جاتی ھے بلکه اس اقرار سے کلمه طیبه بن جاتا ھے اور بلند ھو جاتا ھے اگر یه سوال کیا جاۓ که اس نظریه کی اساس پر اقرار  "علی ولی اللله "کم سے کم امر جدید یعنی بدعت تو ثابت ھوتا ھے .لیکن بدعت حسنه جبکه ولایت و امامت کا عقیده شیعوں کے نذدیک اصولی ھے لھذا ضروری ھے که اسکی اساس نص صریحی پر ھو .

چنانچه اس کا جواب یه ھے که متزکره بالا دلیل ھماری نھیں ھے بلکه فریق مخالف کی ھی دلیل پر ھم نے استدلال کیا ھے جبکه ھمارا ایمان بے شک  یه ھے که ولایت کا عقیده اصولی ھے.اور اس کا منکر مومن نھیں .
نه صرف  "علی ولی اللله "سنت رسول سے ثابت بلکه کلام خدا سے مکمل طور پر ثابت ھے جیسا که قرآن مجید میں ھے .

ترجمه :_پس اللله تمھارا ولی ھے اور رسول ولی ھے اور وه مومینین جو قائم کرتے ھیں نماز کو حالت رکوع میں زکواة دیتے ھیں.(سوره مائده,55)

مشھور تفسیر قادری اور دیگر تفاسیر میں ھے که یه آیت حضرت علی ع کی شان میں اتری ھے.جبکه انھوں نے حالت رکوع میں سائل کو انگشتری عطا فرمائی.پس اس آیت کے تحت حضرت علی ع کو ولی تسلیم کرنا ضروری ھے اور اس کا منکر مومن نه رھا اور آیت قرآن سے انکار کرکے منکر قرآن ھو گیا.

اس آیت کے زمن میں ڈاکٹر طاھر القادری نے بھی آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب کے صفحه 33,پر حدیث نمبر 29,_حضرت عمار بن یاسر رض سے روایت کی ھے که ایک سائل حضرت علی ع کے پاس آ کے کھڑا ھو گیا آپ ع اس وقت نماز کی حالت رکوع میں تھے اس نے آپکی انگوٹھی کھینچی آپ نے انگوٹھی سائل کو عطا کر دی حضرت علی ع حضور اکرم ص کے پاس آۓ اور آپکو اسکی خبر دی اس موقع پر آپ ص پر یه آیت نازل ھوئی.

یه حدیث آپ مذید احمد بن حنبل ا ص 119, الحاکم فی المستدرک جلد 3,ص,119,ح371. طبرانی فی معجم الاوسط جلد 7ص,129,خطیب بغدادی فی تاریخ بغداد جلد 7-ص,377,
میں بھی ملحاظه فرما سکتے ھو.

اس کے علاوه مشکواة شریف میں حضرت ام المومینین حضرت عائشه سے حدیث بیان ھوئی ھے علی ع کا زکر عبادت ھے.

یه حدیث صواعق محرقه کے علاوه اور کئی کتب میں بھی درج ھے.مثلا ابن عساکر,زمخشری طبرانی معجم الکبیر  وغیره.
یه حدیث بھی ڈاکٹر طاھر القادری نے آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب کے صفحه 146,حدیث نمبر 165 میں درج کی ھے.که علی ع کا زکر عبادت ھے.

معتبر کتب کی تسلی کے بعد ھم اس نتیجه پر پهنچے که زکر علی ع اگر کلمه کے ساتھ لگا دیا جاۓ تو یه عبادت ھے کیونکه کلمه کے ساتھ اگر بسمه اللله پڑھنا مانع نھیں تو پھر  "علی ولی اللله "پڑھنا بھی منع نھیں کیونکه بسمه اللله کی ب کے نیچے نقطه مولا علی ع ھیں. 
(ملحاظه فرمائیں ینابیع المودة ص 119)

جس طرح قاری یا عام مسلمان کے سامنے پاک نبی ص کا نام آۓ تو ھر عشق رسول والا درود شریف پڑھتا ھے اور ثواب حاصل کرتا ھے لھذا جب کلمے کے ساتھ آنحضرت ص کا نام آۓ گا تو درود پڑھیں گے اور ارشاد پیغمبر ص ھے که مجھ پر درود پڑھو پورا ادھورا درود واپس لوٹا دیا جاۓ گا. 
پس کلمه میں اگر حضور ص کے نام نامی کے بعد صلی اللله علیه واله وسلم کا اضافه کر دیا جاۓ تو یه اضافعه مانع کلمه نھیں ھو گا.افسوس ھے درود کا ورد جائز سمجھا جاۓ اور صاحب درود کے زکر کو معاز اللله بدعت سمجھا جاۓ جبکه زکر   "علی ولی اللله "عبادت ھے .
خود رسول کریم ص نے علی ولی اللله پڑھا ھے.اور اقرار ولایت علی ع تعمیل حکم پیغمبر ھے.
 (جاری ھے)    
شیعه کلمه......علی ولی اللله
قسط نمبر :2

رسول اللله ص کا نام سن کے درود پڑھنا ثواب ھے تو  "علی ولی اللله "پڑھنا بھی کلمه میں ثواب و عبادت ھے.

شائد آپ کھیں که صحیح مسلم کی روایت کے مطابق امر جدید اگر حسنه ھو تو قابل  ثواب ھوتا ھے اور نفلی عبادت جتنی بھی کر لی جاۓ زریعه ثواب ھے که نوافل جتنے چاھیں پڑھ سکتے ھیں باعث ثواب ھو گا.زکواة مقرره مقدارسے زیاده  بھی ادا کی جا سکتی ھے حج حالنکه زندگی میں ایک دفعه فرض ھے لیکن جتنے چاھیں کر لیۓ جائیں لھذا اس نظریه سے معلوم ھوا که نیک عمل یعنی عبادت کی اس مقدار سے جو مقرر کی گئ ھو زیاده کرنا کوئی گناه نھیں بلکه ثواب ھے بشرطیکه اس اضافه کرنے سے قرآن و سنت نبوی کی مخالفت نه ھو پس اس ھی نظریه کے ماتحت ھم کھتے ھیں"  علی ولی اللله  " کھنا عبادت ھے اور یه کھنے سے نه ھی توحید خداوندی کے عقیده کو ضعف پهنچتا ھے اور نه ھی رسالت کے ایمان میں کمی آ جاتی ھے بلکه اس اقرار سے کلمه طیبه بن جاتا ھے اور بلند ھو جاتا ھے اگر یه سوال کیا جاۓ که اس نظریه کی اساس پر اقرار  "علی ولی اللله "کم سے کم امر جدید یعنی بدعت تو ثابت ھوتا ھے .لیکن بدعت حسنه جبکه ولایت و امامت کا عقیده شیعوں کے نذدیک اصولی ھے لھذا ضروری ھے که اسکی اساس نص صریحی پر ھو .

چنانچه اس کا جواب یه ھے که متزکره بالا دلیل ھماری نھیں ھے بلکه فریق مخالف کی ھی دلیل پر ھم نے استدلال کیا ھے جبکه ھمارا ایمان بے شک  یه ھے که ولایت کا عقیده اصولی ھے.اور اس کا منکر مومن نھیں .
نه صرف  "علی ولی اللله "سنت رسول سے ثابت بلکه کلام خدا سے مکمل طور پر ثابت ھے جیسا که قرآن مجید میں ھے .

ترجمه :_پس اللله تمھارا ولی ھے اور رسول ولی ھے اور وه مومینین جو قائم کرتے ھیں نماز کو حالت رکوع میں زکواة دیتے ھیں.(سوره مائده,55)

مشھور تفسیر قادری اور دیگر تفاسیر میں ھے که یه آیت حضرت علی ع کی شان میں اتری ھے.جبکه انھوں نے حالت رکوع میں سائل کو انگشتری عطا فرمائی.پس اس آیت کے تحت حضرت علی ع کو ولی تسلیم کرنا ضروری ھے اور اس کا منکر مومن نه رھا اور آیت قرآن سے انکار کرکے منکر قرآن ھو گیا.

اس آیت کے زمن میں ڈاکٹر طاھر القادری نے بھی آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب کے صفحه 33,پر حدیث نمبر 29,_حضرت عمار بن یاسر رض سے روایت کی ھے که ایک سائل حضرت علی ع کے پاس آ کے کھڑا ھو گیا آپ ع اس وقت نماز کی حالت رکوع میں تھے اس نے آپکی انگوٹھی کھینچی آپ نے انگوٹھی سائل کو عطا کر دی حضرت علی ع حضور اکرم ص کے پاس آۓ اور آپکو اسکی خبر دی اس موقع پر آپ ص پر یه آیت نازل ھوئی.

یه حدیث آپ مذید احمد بن حنبل ا ص 119, الحاکم فی المستدرک جلد 3,ص,119,ح371. طبرانی فی معجم الاوسط جلد 7ص,129,خطیب بغدادی فی تاریخ بغداد جلد 7-ص,377,
میں بھی ملحاظه فرما سکتے ھو.

اس کے علاوه مشکواة شریف میں حضرت ام المومینین حضرت عائشه سے حدیث بیان ھوئی ھے علی ع کا زکر عبادت ھے.

یه حدیث صواعق محرقه کے علاوه اور کئی کتب میں بھی درج ھے.مثلا ابن عساکر,زمخشری طبرانی معجم الکبیر  وغیره.
یه حدیث بھی ڈاکٹر طاھر القادری نے آپنی کتاب کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب کے صفحه 146,حدیث نمبر 165 میں درج کی ھے.که علی ع کا زکر عبادت ھے.

معتبر کتب کی تسلی کے بعد ھم اس نتیجه پر پهنچے که زکر علی ع اگر کلمه کے ساتھ لگا دیا جاۓ تو یه عبادت ھے کیونکه کلمه کے ساتھ اگر بسمه اللله پڑھنا مانع نھیں تو پھر  "علی ولی اللله "پڑھنا بھی منع نھیں کیونکه بسمه اللله کی ب کے نیچے نقطه مولا علی ع ھیں. 
(ملحاظه فرمائیں ینابیع المودة ص 119)

جس طرح قاری یا عام مسلمان کے سامنے پاک نبی ص کا نام آۓ تو ھر عشق رسول والا درود شریف پڑھتا ھے اور ثواب حاصل کرتا ھے لھذا جب کلمے کے ساتھ آنحضرت ص کا نام آۓ گا تو درود پڑھیں گے اور ارشاد پیغمبر ص ھے که مجھ پر درود پڑھو پورا ادھورا درود واپس لوٹا دیا جاۓ گا. 
پس کلمه میں اگر حضور ص کے نام نامی کے بعد صلی اللله علیه واله وسلم کا اضافه کر دیا جاۓ تو یه اضافعه مانع کلمه نھیں ھو گا.افسوس ھے درود کا ورد جائز سمجھا جاۓ اور صاحب درود کے زکر کو معاز اللله بدعت سمجھا جاۓ جبکه زکر   "علی ولی اللله "عبادت ھے .
خود رسول کریم ص نے علی ولی اللله پڑھا ھے.اور اقرار ولایت علی ع تعمیل حکم پیغمبر ھے .(جاری ھے)  
" :ازقلم:  "سائیں لوگ  

   


شیعه کلمه علی ولی الله

شیعه کلمه......علی ولی اللله

اقرار ولایت علی ع اتباع خدا اور رسول ص ھے.
                     
  قسط نمبر :1                                


کلمه کے ساتھ علی ولی اللله معتبر کتب اھلسنت سے مکمل طور پر ثابت ھے
الله تعالی کو الله کهنا نبی پاک کو رسول کهنا حتی کے زید کو ڈاکٹر اور اکرم کو ڈپٹی کهنا کسی بھی جھت سے قابل اعتراض نھیں ھے کیونکه اگر خدا کو اللله کهتے ھیں تو فی الحقیقت وه ھے ھی اللله اور اگر حضور کو رسول کها جاۓ تو بھی درحقیقت اللله کے رسول ھیں.چونکه علم طب کا ماھر ھے جسے ڈاکٹر کهتے ھیں لھذا اسے ڈاکٹر کهنا بری بات نھیں اور چونکه اکرم ڈپٹی کے عھده پر فائز ھے لھذا اسے ڈپٹی کهنے پر کوئی اعتراض نھیں ھوگا.

البته فرعون کو اللله کها جاۓ تو کفر و شرک ھوگا کیونکه وه خدا نھیں.

 اسی طرح غلام احمد کو نبی کهنا شروع کر دیا جاۓ تو کفر ھوگا که وه کازب ھے.

اور اگر کسی سبزی فروش کو ڈاکٹر کھا جاۓ تو جھالت ھوگی اسی طرح ایک چپڑاسی کو ڈپٹی صاحب کهه کر پکارا جاۓ تو وه مذاق سمجھا جاۓ گا.

معلوم ھوا کسی حامل منصب کو اس کے منصب سے پکارنا مذموم نھیں بلکه جائز ھے اس کے برعکس کسی غیر اھل کو ایسا پکارنا جھالت اور دیوانگی ھو گا. 

حضرت علی ع کو ھم اگر اللله کا ولی کهتے ھیں تو اس لیۓ که وه اللله کے ولی ھیں لھذا ولی کو ولی کهنا کیوں کر معیوب ھو سکتا ھے اس سے پهلے که ولایت علی ع کے بارۓ کچھ گفتگو کی جاۓ.
 ھم معترضین سے یه پوچھتے ھیں که وه بتائیں که درود شریف میں اصحاب و آزواج کو کیوں ملایا جاتا ھے.
جبکه نماز میں صرف محمد و آل محمد ھی پڑھا جاتا ھے نیز جمعه وغیره کے خطبه میں آپ لوگ حضرت ابوبکر,عمر, عثمان و علی ع کے نام کیوں لیتے ھیں جبکه آنحضرت کے خطبه میں یه نام شامل نه تھے.
ھمارا دعوی ھے که رسول اللله ص کی حیات طیبه میں یه نام خطبوں میں نھیں پکارۓ جاتے تھے ورنه ثابت کر دیجیۓ.

ھم ھر پوسٹ پر ایک وقت دیتے ھیں معترض کو که وه آپنا اعتراض کمنٹس کے زریعے داخل کراسکتا ھے.
کلمه کی ھر پوسٹ پر وقت مھیا ھے .آپ جو کهنا اور پوچھنا چاھیں اخلاقیات کے اندر ره کے  اجازت ھے.
                                    (جاری ھے)                              
:نوٹ 
کلمه شیعه پر معترض کو آج شام 5:00, بجے سے کل صبح نو بجے تک سوله (16), گھنٹے کا ٹائم دیا جاتا ھے که وه درود شریف اور جمعه و عید  وغیره کے خطبه میں ازواج اور اصحاب رض کے نام ثابت کر کے دکھاۓ کلام مقدس,شیعه و اھلسنت کی معتبر کتب میں سے که رسول اللله ص نے آپنی حیات مبارکه میں پڑھا ھو.
"
ازقلم:"سائیں لوگ

مولا علی ع کی الله کے حضور عاجزی و مناجات

مولا علی ع کی بارگاه خدا میں عاجزی و مناجات:

مولا کی یه مناجات خطبه نمبر:114/225 میں ملحاظه فرمائیں.

مولا علی ع کی خدا کی بارگاه میں عاجزی اور دیکھیں اور غالی ملعون کی ڈھٹائی عمل ترک کرکے  بے عملی کے زریعےولایت ھی میں بخشش ڈھونڈھ رھا ھے.

جبکه مولا علی ع کا واضح حکم ھے که میں امام المتقین ھوں.

آۓ باری تعالی میرۓ سے بخشش سے سلوک کرنا نه که آپنے عدل و انصاف سے .

اسی لیۓ تو مولا علی ع نے فرمایا میں امام المتقین ھوں.
تارک واجبات کا نھیں.

خدا وند میں تجھ سے پناه مانگتا ھوں تیرۓ غنی ھونے کے باوجود میں فقیر ھوں اور تیری ھدایت کے باوجود گم گشته راه ھوں اور تیری سلطنت میں ره کے ستایا جاؤں جب که سب اختیار تجھے ھیں
 الله میں پناه مانگتا ھوں تیرۓ حکم سے قدم باھر رکھوں اور اس سے فتنه پڑ جاۓ
"ازقلم:"سائیں لوگ
.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...