Saieen loag

ہفتہ، 27 اپریل، 2019

تحریف قرآن کی کوششوں میں خود حضرت عمر ملوث ھیں.(السیوطی)
                            قسط نمبر :3
تحریف قرآن ناممکن ھے.
قرآن میں تحریف اس لیۓ ناممکن ھے که اس کی معجزاتی ترکیب آپنے اندر کسی قسم کی تحریف قبول نھیں کرتی.ساتھ اللله پاک نے خود اس کتاب کی حفاظت کا زمه لیا ھے.(سوره حجر ع 9)

دیگر مکاتب فکر کی معتبرکتب کی شیعه کتب میں بھی روایات موجود ھیں جن میں سے بعض سے بادی النظر میں تحریف کا مفھوم ظاھر ھوتا ھے اور کچھ میں صراحت موجود ھے مگر شیعه ان روایات کے تحت نسخ کا نظریه قائم نھیں کرتے بلکه ان روایات یا تو توجیه کرتے ھیں که ان سے مراد تحریفی لفظی نھیں اور اگر قابل توجیه نھیں ھیں تو ایسی روایات کو مخالف قرآن سمجھ کر مسترد کرتے ھیں.

متحرک اجتھاد :
اھل تشیع کے ھاں اجتھاد کا دروازه کھلا ھے لھذا انکی نظر میں متحرک و زنده اجتھاد کی وجه سے کوئی کتاب حرف آخر نھیں ھے,بلکه ھر کتاب ھر روایت قابل بحث و تحقیق ھے اور تمام اسلامی نصوص تحقیق و تدقیق کے قابل ھیں.
چنانچه اصول کافی اگرچه کتب شیعه میں سے مشھور کتاب سمجھی جاتی ھے مگر اس میں مختلف احادیث موجود ھیں بعض احادیث اگر کچھ مجتھدین کے نذدیک صحیح السند ھیں تو ضروری نھیں که دوسرۓ مجتھدین کی نظر میں بھی وه صحیح السند ھوں .
جو مسلمان صحاح سته کی روایات کا صحیح السند ھونا ضروری اور لازمی تصور کرتے ھیں ان کیلۓ ممکن ھے که صحاح سته میں کسی روایت کا موجود ھونا اس روایت کے مضمون  کا ضمنی اعتراف تصور نھیں کیا جا سکتا چنانچه علامه باقر مجلسی نے اس سلسلے میں سب سے زیاده روایات نقل کی ھیں اس کے باوجود انھوں نے بحارالانوار میں صریحا کهاھے که قرآن میں قطعا کوئی تحریف نھیں ھوئی.

اب ھم آتے ھیں ان راویوں کی طرف جن سے یه روایات لی گئیں .

ناقابل اعتبار روایات:
تحریف قرآن کے بارۓ میں اکثر شیعه روایات ضعیف راویوں سے منقول  ھیں   .
چنانچه ان روایات میں ایک قابل توجه سلسله روایت احمد بن محمد السیاری پر منتھی ھوتا ھے.
علماۓ شیعه فرماتے ھیں که تحریف قرآن سے مربوط تین سو(300),روایات احمد بن محمد السیاری سے مربوط ھیں.

احمد بن محمد السیاری :

السیاری کون ھیں شیعه کتب رجال میں احمد بن محمد السیاری کے بارۓ درج زیل الفاظ استعمال ھوۓ ھیں.وه ضعیف الحدیث,فاسد المذاھب,غالی,اور منحرف راوی ھیں.ملحاظه فرمائیں,

قاموس الرجال جلد 1, ص 403,طبع ایران.
رجال نجاشی ص 58,طبع بمبی.
نقد الرجال ص 32,طبع ایران قدیم .
معجم الحدیث جلد 2, ص 29,طبع نجف.

یونس بن ظبیان :

یونس بن ظبیان  کا نام بھی جھوٹے راویوں میں آتا ھے .
که یه شخص بھی نھایت ضعیف,ناقابل توجه,غالی,کذاب اور احادیث گھڑنے والا تھا.
ملحاظه فرمائیں.
نقد الرجال ص 381.

منخل بن جمیل الاسدی :

ان لوگوں میں منخل بن جمیل الاسدی کوفی کا نام بھی آیا ھے جس کے بارۓ میں علماۓ رجال نے لکھا ھے که یه شخص بھی ضعیف,غالی,فاسد الراویه اور منحرف  ھے.
ملحاظه فرمائیں:
  دراسات فی الحدیث والمحد ثین ,نقد الرجال ص 354.

محمد بن حسن جمھور :

یه بھی ان راویوں میں شامل ھے جس کے بارۓ علماۓ رجال نے کها ھے که یه بھی جھوٹے راویوں میں شامل ھے.یه بھی  جھوٹی اور ضعیف احادیث ,غالی,فاسد الراویه ,ناقابل توجه راوی ھے.

ملحاظه فرمائیں.نقد الرجال ص 299,رجال نجاشی ص338,طبع بمبی بھارت.
یهاں ھم نے وضاحت پیش کی ان غالی اور کذاب راویوں پر جن کی بدولت مذکوره کتب میں زکر ھے که قرآن میں تحریف ھوئی ھے لیکن انکی صحت پر سوالیه نشان ھے جو علم رجال کے ماھر علماء نے آپنی کتب میں پیش کی لھذا ان روایات پر شیعه مذھب کو تحریف قرآن کا الزام نھیں لگایا جا سکتا.ھم ان راویوں کی روایات سے بری الزمه ھیں.
بلکه ان میں سے کچھ روایات اھلسنت کی کتب سےبھی  ماخوز ھیں جیسے بحار الانوار میں علامه مجلسی نے ابن ماجه سے لیں پھر انھوں نے تحریف کو خارج از امکان بھی قرار دیا.

اب ھم آتے ھیں قرآن کو جمع کرنے میں اھلسنت برادران کی بخاری کے مطابق حمص جهاں مقداد بن اسود کا نسخه چلتا تھا وھاں سوره یوسف کی تلاوت پر حضرت عبداللله بن مسعود کو ایک شرابی نے اعتراض کیا آپ نے جواب دیا رسول اللله ص نے اسے درست کها تھا جیسے میں نے پڑھی ھے. 

حضرت عبداللله چھٹے شخص تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا انھیں سادس سته یعنی چھٹا کهتے تھے ان کے مصحف کو خاص شھرت حاصل تھی بخاری میں کافی حدیث آئی ھیں که یه قاری بھی تھے ساتھ پورا قرآن ان کے پاس موجود تھا مگر بدقسمتی سے ان سےبھی قرآن نه لیا گیا جیسے حضرت علی ع سے نه لیا گیا.

ان کے علاوه حضرت علی ع کا نسخه بھی تھا جو خود پاک نبی ص نے مرض الموت کے دوران پیش کیا تھا اور وصیت فرمائی تھی که یه مکمل کتاب اللله ھے.آۓ علی ع یه آپنے پاس لے جاؤ چنانچه حضرت علی ع نے ایک کپڑۓ میں جمع کرکے آپنے گھر لے آۓ اور وفات پیغمبر ص کے بعد قرآن کو اسی طرح مرتب فرمایا جیسے اللله نے نازل کیا تھا اور آپ ھی اسے بخوبی جانتے تھے.اس بات کی گواھی خود بخاری شریف جلد,6.ص530, دے رھی ھے که آپکا مصحف ترتیب نزول پر تھا.

جب خلافت پر قبضه ھوا تو اس دوران آپ یه نسخه اونٹ پر لاد کر مسجد نبوی میں اصحاب کے سامنے پیش کیا اور کها پاک نبی ص نے فرمایا میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑۓ جا رھا ھوں کتاب اللله اور عترت کتاب یه حاضر ھے اور عترت میں ھوں .

جواب ملا اگر آپ کے پاس کتاب ھے تو ھمارۓ پاس بھی ھے چنانچه آپ حجت تمام کرکے واپس تشریف لے آۓ.
افسوس اصحاب نے نسخه محمدی کو رد کردیا.
یه کیسے ممکن ھو سکتا ھے  که ان کے پاس کامل نسخه موجود ھو.

حضرت علی ع کا نسخه محمدی ص کے انکار کے بعد حضرت عمر کے اصرار کے بعد حضرت زید بن ثابت انصاری کو بلایا گیا اور ان سے کها که قرآن کو جمع کرنے کا کام شروع کرو .بڑی مشکل سے حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ھوۓ یه زمه داری قبول کرلی اور پچیس رکنی کمیٹی تشکیل دی اور اعلان کیا جس کے پاس بھی قرآن کا کچھ حصه ھو وه یهاں جمع کراۓ ساتھ دو گواه بھی لے آۓ اسی اثناء میں حضرت عمر یه عبارت لے کر آ گۓ .

(الشیخ والشیخة اذا زنیا فار جمو ھا البتة نکالا من اللله)

زید نے حضرت عمر کو پیش کرده عبارت کو قرآن کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکه حضرت عمر کے پاس مطلوبه گواه موجود نه تھے.
(السیوطی الاتقان فی علوم القرآن جلد-1 ص118)

حالنکه حضرت زید سے بھتر اور واضح مقام حضرت عبداللله بن مسعود کا تھا جس کا زکر بخاری جلد ششم ص 519,میں بھی ملتا ھے که ان کا نسخه پاک نبی سے تسلیم شده تھا.حفظ و قرات میں بھی انکا ثانی کوئی نه تھا.
لیکن حضرت عمر کے اصرار پر زید بن ثابت کو یه زمه داری دی گئی اس مقصد کیلۓ که مرضی سے آپنے حق میں قرآن میں عبارتیں داخل کروائی جا سکیں مگر حضرت عمر کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب حضرت ذید نے عبارت شامل کرنے سے انکار کردیا .
ٹھیک اس طرح جس طرح فاروق لغاری نے بے نظیر اور جسٹس وجھیه نے عمران خان کی امیدوں پر پانی پھیرا.

                                    (جاری ھے).

جمعرات، 25 اپریل، 2019

اصلاح عزاداری پر آخری قسط نمبر :8

عزاداری امام حسین ع میں داخل خرافات و بدعات پر پاکیزه,صالح,حقیقی حبداران  
 :اھلبیت ع کے نام اھم پیغام

                        قسط نمبر:8,

تحریر:آیت الله سید ناصر مکارم شیرازی.

خصوصا باایمان اور پاک و پاکیزہ جوانان ان رسومات میں پیش قدمی کریں اور سید الشہداء امام حسین (علیہ السلام) کے تاریخی نعرہ
                       ”ھیھات منا الذلہ“ 

کے ساتھ اپنی تمام تر وفاداری کو ثابت کریں.

 عزیز خطباء، ذاکرین، نوحہ خوان اور تمام مذہبی انجمنوں کے سامنے کچھ نکات پیش خدمت ، 
ایسے نکات جن کی وجہ سے انشاء اللہ، خداوند عالم، سیہد الشہداء امام حسین (علیہ السلام) اور امام زمانہ (ارواحنا لہ الفداء) خوش ھوں گے.

1۔  تمام پروگراموں کو اس طرح برپا کریں کہ عزاداری میں شرکت کرنے والے تمام عزادار آپ کا سوگ منانے کے ساتھ ساتھ سید الشہداء کے بلند اہداف اور انسان ساز پیغام سے آشنا ہوجائیں۔

2۔  ان مجلسوں اور جلوسوں میں موسیقی اور ان تمام چیزوں کو لانے سے پرہیز کریں جو گناہوں کا سبب بنتے ہیں (البتہ طبل وغیرہ جیسی چیزوں سے استفادہ کرنے میں جن سے انجمنوں کو منظم کیا جاتا ہے ، کوئی حرج نہیں ہے )۔

3۔  شعراء اور نوحہ خوان غلط اور مغربی طریقوں کو اپنانے سے پرہیز کریں اور سنتی طریقوں کو زندہ کرنے کی کوشش کریں اور اس کے ساتھ ساتھ دعبل خزاعی، فرزدق اور حسان بن ثابت جیسے شعراء کے راستوں کو اپنا نے کی کوشش کریں ، چونکہ اس طرح کے غلط طریقوں نے سیدالشہداء کے مدرسہ کی اہمیت اور اصالت کو خدشہ دار کردیا ھے.

 اور ان غلط روشوں نے سیدالشہدا امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری کے چہرہ کو بدلنے کا راستہ کھول دیا ہے اور یہ بہت بڑا خطرہ ھے ۔

4۔  مذہبی انجمنیں اور دینی مجالس کو قائم کرنے والے عزاداروں کی صفوف کو متحد کرنے میں ان کی مدد کریں اور بدخواہان کو ان کے درمیان نفاق کا بیج بونے کی اجازت نہ دیں۔آج اتحاد او راتفاق کی ضرورت کا شمار واجبات میں سے ہے ۔

5۔  خطباء محترم اور ذاکرین عزیز ، ضعیف تواریخ اور مشکوک مصائب کو ذکر کرنے سے پرہیز کریں ، سیدالشہداء کی پر افتخار فداکارئیوں ، ایثار اور راہنمائیوں کو نظم و انتظام کے ساتھ اچھی طرح منائیں.

6۔  جن کاموں سے بدن کو نقصان پہنچتا ہے خصوصا قمہ زنی اور چاقو دار زنجیر زنی جن سے تشیع کے لئے ناگوار اور غلط نتائج برآمد ہوتے ہیں، 

سے پرہیز کرنا چاہئے ، اگر بزرگ اور قدیم فقہاء آج موجود ہوتے تو وہ سب اس کے حرام ہونے کا فتوای دیتے ۔

7۔  دشمن جانتا ہے کہ عاشورائے حسینی ہرسال امام حسین کے عاشقوں اور عزاداروں کی رگوں میں تازہ خون جاری کرتا ہے اور ان کو آپ کے مکتب سے الہام کے ذریعہ دشمن کے سامنے جم کر کھڑے ہونے کی طاقت عطاء کرتا ھے ، 

اس وجہ سے دشمن چاہتا ہے کہ عاشورا کو بُھلا دیا جائے ، یا اس میں خرافات کو ملا دیا جائے۔امام حسین (علیہ السلام) کے بہترین عزاداروں کو دشمنوں کے ان دونوں حربوں کو ناکام کرنا چاہئے.

ہم خداوند عالم سے دست بدعاء ہیں کہ تمام عزاداروں کی عزاداری اور ان کی عبادات کو قبول فرمائے.

اور سیرت اھلبیت ع پر ھمیں عزاداری سید الشھدا ع منانے کی توفیق دے.

اور ان خرافات سے بچنے کی توفیق دے جو معصومین ع,مذھب اور ھماری ھنسی و مذاق اور توھین کا سبب بنتے ھیں.

والسلام

عزاداری سیرت معصومین ع پر منائیں.

:

عزاداری ھماری شھه رگ حیات ھے مگر اسے سیرت معصومین ع پر منائیں

تحریر :آیت الله سید ناصر مکارم شیرازی:

                     قسط نمبر:7

اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا شمار اسلام کے اہم شعائر میں ہوتا ھے.

 اور ضروری ھے کہ عزاداری کو ہر سال سے زیادہ بہتر طریقہ سے منانا چاہئے ۔
 بعض حالات میں اس کی دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے ممکن ہے کہ اس میں وجوب کفائی کا پہلو بھی پایا جائے اور اس کو انجام دینا اسلام اور مذہب اہل بیت علیہم السلام کی بقا کا ضامن ھے.

 (١) ۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل بیت علیہم السلام کی سیرت اور علماء و فقہاء کی تاکیدات اور سفارشات کے مطابق عزاداری منانا پہلے سے زیادہ ضروری ھے ، 

اسی وجہ سے اس مقالہ میں معظم لہ کے قیمتی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے  عزاداری سید الشہداء (علیہ السلام) کے تقاضے اور ضروریات کو قارئین کے سامنے بیان کریں گے .

عمل میں اخلاص:

مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام میں حسینی معرفت حاصل کرنے کیلئے نیت اور خلوص عمل بہت ضروری ہے ،یہی وجہ ہے کہ ,

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اس سلسلہ میں فرمایا :

 عزاداری امام حسین علیہ السلام کیلئے اپنی نیت کو خالص کرو اور ایسا نہ ہو کہ زیادہ لوگوں کو جمع کرنے کیلئے صرف خاص اور محدود لوگوں کوسے استفادہ کیا جائے ، بلکہ تمام خطباء اور ذاکرین سے استفادہ کرنا چاہئے.

 (٢) ۔عزاداری کے ذریعہ معاشرہ کی مشکلات کو دور کرنا
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے مطلوب اور ہدف مند عزاداری سے استفادہ کرنے کے متعلق فرمایا : 

 امام حسین علیہ السلام کی عزاداری بہت عظیم سرمایہ ہے جو بہت سی مشکلات کو حل کرسکتی ہے.

 (٣) ۔معظم لہ اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : عزاداری کی مجلسوں میں اجتماعی، ثقافتی اور سیاسی مطالب سے استفادہ کیا جاسکتا ہے.

 (٤) ۔انہوں نے خطباء ، ذاکرین اور مجلس منعقد کرنے والوں کی ذاتی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ عزاداری کی رسومات سے بہترین طریقہ سے استفادہ کریں اور فرمایا :

  شیعوں کے پاس اس وقت عزاداری امام حسین علیہ السلام کے نام پر بہترین مآخذ ہے ، خطبائ، ذاکرین اور مجالس منعقد کرنے والوں کی ذمہ داری ھے.
 کہ موجودہ زمانہ میں اس کو اچھی طرح قائم کریں ،اگر ان تینوں گروہوں کی اصلاح ہوجائے تو مجالس امام حسین علیہ السلام کو بہت زیادہ طاقت مل جائے گی اور پھر وہ اس کے ذریعہ بہت سے کام انجام دے سکتے ہیں ۔ 

(٥) ۔معصومین علیہم السلام کی سیرت کے مطابق عزاداری قائم کرنا چاہئے.

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) نے ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت کے مطابق مجالس عزاداری اور اس کی رسومات کو انجام دینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا :

 عزاداری منانے کا طریقہ وہی ہونا چاہئے جو ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانہ میں قائم و دائم تھا اور اس سلسلہ میں اپنے اپنے مناطق کے علماء سے راہنمائی حاصل کرنا چاہئے.

 تاکہ سب جگہ پر پرچم حسینی کو عزت و افتخار حاصل ہوسکے ۔
سینہ زنی اور جلوسوں کے پروگرام بہت ہی نظم و ضبط کے ساتھ انجام پائیں.

 (٦) مجالس منعقد کرنے والے بھی گزشتہ طریقہ سے استفادہ کریں اور مجالس کو بہت ہی سادہ طریقہ سے انجام دینے کی کوشش کریں ، 
اسراف ، تصنع اور خودنمائی سے پرہیز کریں اور جوانوں کو اپنی طرف جذب کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس صنف کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے اور یہی لوگ سب سے زیادہ اسلام کے لئے جانفشانی کرتے ہیں.

 (٧) ۔معظم لہ نے اس مسئلہ کی تشریح میں خطباء ور ذاکرین کے بعض مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : 

 عزاداری کے مطالب اور اشعار معتبر و مشہور کتابوں کے مطابق بیان کئے جائیں ، ضعیف اور بغیر سند کے کسی مطلب کو بیان نہ کیا جائے ۔

 معظم لہ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا : نوحہ خوان نوحہ پڑھتے ہوئے مبتذل اور غلط آوازوں سے پرہیز کریں اور اس بات کی کوشش کیں کہ بہترین اور عزت مند طریقہ استعمال کریں تاکہ مجالس امام حسین علیہ السلام کی توہین کا سبب نہ ھو.

 (٨) ۔حسینی جوش و خروش اور عاشورا کی معرفت
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے حسینی جوش وخروش کے ختم نہ ہونے والا رابطہ اور عاشورا کی معرفت کو مطلوبہ اور صحیح عزاداری کی سب سے اہم خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

 عزاداری کی رسومات کو بہت ہی جوش و خروش کے ساتھ ہر سال سے زیادہ اچھے طریقہ سے منانا چاہئے اور جو کام بھی اس کی عظمت کو مخدوش کرے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں.

 (٩) ۔معظم لہ نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی رسومات میں معرفت گرائی پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا :

 خطبائے محترم اپنے خطبوں میں اور نوحہ خوان اپنے اشعار میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریں اور سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے ہدف کو فراموش نہ کریں ،

 آپ کا ہدف یہ تھا کہ لوگوں کو دین سے آگاہ کریں، احکام قرآن، عزت، شرافت، آزادی ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے لوگوں کوروشناس کرایا جائے.

 (١٠) ۔معظم لہ نے عزاداری کے طریقہ کی تشریح کرتے ہوئے اس طرح فرمایا :

 عزاداری کا بہترین طریقہ مجالس قائم کرنا ، امام حسین علیہ السلام کے مقدس اہداف کو ذکر کرنا ، کربلا کی تاریخ اور عزاداری کی رسومات کا تجزیہ بیان کرنا اور اسی طرح جلوس عزاء قائم کرنا ھے.

 (١١) ۔خطباء صرف مصائب بیان کرنے پر اکتفاء نہ کریں بلکہ عاشورا کے واقعات کا تجزیہ اور اس کے نتائج اور برکتوں کو طرف بھی اشارہ کریں اور ان آثار کو محفوظ کرنے کے متعلق لوگوں کی ذمہ داری کو بھی بیان کریں .

(١٢) ۔معظم لہ نے فرمایا : اس بات کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ایسے کاموں سے پرہیز کیا جائے جن میں ذلت کی بو آتی ہو ،

 اس کی جگہ پر عاشورا کے انقلابی اشعار اور واقعات کو بیان کریں اور واقعہ عاشورا کو ''ھیھات منا الذلة'' کے سایہ میں بیان کریں.

 (١٣) ۔معظم لہ نے اس مسئلہ کوخطباء ،ذاکرین اور نوحہ خوانوں کی ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا :

 نوحہ خوانوں کو بھی غور وفکر کرنا چاہئے کہ انقلابی اشعار پڑھیں،ایسے اشعار نہ پڑھیں جن سے ذلت کی بو آتی ہو ، دوسری طرف نوحہ خوانوں کو چاہئے کہ وہ ائمہ کی زبانی مسائل کو بیان کریں.

 اور ایسے مسائل بیان کریں جو امام اور اہل بیت کی شایان شان ہوں اور اس سلسلہ میں معتبر اور مشہور کتابوں سے استفادہ کریں.    (جاری ھے).

موجوده عزاداری میں ریاکاری کا عمل دخل

موجوده عزاداری,بلبله کر رونا,علموں,پرچموں کا زور,سینه زنی و زنجیر  زنی,ناموری ,

شھرت, ریاکاری,اور بدعمل پیشه ور زاکر و خطباء  کا مرکز ھے.

                  قسط نمبر :6

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو عزاداری کی مضامین میں بھی فرق
 آۓ گا.
اور اس کے تسلسل میں عزاداری کی شکل اور کیفیت میں بھی فرق آتا ھے.

 عزاداری زیاده وسعت پاتی ھے مگر اس کے مضامین اور معانی و مفاہیم گھٹ جاتے ہیں.

 عَلَموں اور پرچموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ھے اور طبل و سنج کی تعداد بڑھ جاتی ھے اور جذبات میں شدت کے ساتھ اضافہ ھوتا ھے.

 اور سینہ زنی میں شدت آتی ھے اور تیغ زنی اور قمہ زنی اور زنجیرزنی میں اضافہ ہوتا ھے، لوگ گلی میں پتی باندھی جاتی ہیں اور عوعو کی صدائیں نکالتی ہیں، کربلا میں ہوں تو حرم کی طرف سینی کی بل رینگ رینگ کر جاتی ہیں.

 اور دسیوں دیگر اعمال بجالاتی ہیں (جن کی دنیا کی معقول ترین مذہب یعنی تشیع میں کوئی گنجائش نہیں ھے.

جب عزاداری ہدف میں بدل جائے تو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کچھ بھی نہیں کہا جاتا بلکہ رلانے کے لئے بولا جاتا ھے.

 اس کے بعد جو کچھ بولا جاتا ھے انسانوں کو سوچنے پر آمادہ نہیں کرتا بلکہ ان کے جذبات کو بہکایا جاتا ھے اور مشتعل کیا جاتا ھے. 
مجلس پڑھنے والے واعظ و مداح و ذاکر یہ نہیں کہتے کہ امام حسین (ع) کیوں قتل ہوئے بلکہ کہتے ہیں کہ کیسے قتل ہوئے. ایسے حال میں یہ نہیں کہا جاتا کہ امام حسین علیہ السلام تاسوعا اور عاشورا سے پہلے بھی تھے اور اس سے پہلے بھی آپ (ع) کا کردار تھا.

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو اس میں منتہائی مقصد چونکہ عزاداری ہی ھے تو اس میں تنوع اور رنگارنگی اپنی عروج کو پہنچتی ھے.

 کیونکہ یہی منتہائی مقصد ھے اور جو کچھ بھی ممکن ھو یہیں انجام دینا چاہئں. اس قسم کی عزاداری کا چونکہ بعد کا کوئی مرحلہ نہیں ھے .
اور کوئی بھی ایسا کام نہیں ھے جو بعد میں انجام دیا جاسکی لہذا تمام تر کوشش اور سوچ و فکر اس کی رنگارنگی اور تنوع (Variety) میں صرف ہوتی ھے. ‎

مگر اگر عزاداری امام حسین علیہ السلام کی مدد کی لئی ھو تو عزاداری کی شکل و صورت نہایت باوقار اور آرام و سکون کی ہمراہ ہوتی ھے.
 ممکن ھے کوئی فرد ایسی عزاداری میں ایک گھنٹی سی زیادہ وقت نہ گذاری لیکن نکلتی ہوئی وہ یہ ضرور جانتا ھے.

 کہ اگر اسی حسینی بننا ہے تو بہت سے کام کرنے پڑیں گے (کیونکہ اس عزاداری کا اختتام یہیں نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد کے مراحل بھی ہیں.

 اور وہ مراحل درحقیقت حسینی اہداف کے حصول کی کوششیں ہیں جو عزادار حسین (ع) کی ذمہ داریوں کے زمرے میں آتے ہیں). 

وہ چونکہ جہان شناس اور وقت شناس ھے لہذا (اہل دانش علماء کی تقریر اور آگاہ و پابند دین شعراء کے اشعار سن کر ان کے کلام کے مفہوم و معانی میں غور و فکر کرکے) جب باہر نکلتا ھے تو انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلوں اور ذرائع ابلاغ کی طرف رجوع کرتا ھے.

 اور سوچتا ہے کہ

: 1- اگر امام حسین علیہ السلام ہماری آج کی دنیا میں ہوتے تو کن مسائل و امور کی طرف توجہ دیتے؟‎

2- آج کی دنیا میں امام حسین علیہ السلام کے افکار کو کس طرح نافذ کیا جاسکتا ھے.
ان سوالات کے جوابات کئی گھنٹوں تک سر و سینہ پیٹنے، زنجیر زنی اور قمہ زنی اور دیگر افعال اور انواع ماتم سے ہرگز باہر نہیں آتے.

 بلکہ اس کے لئے مہینوں اور برسوں کے مطالعے اور تحقیق اور کوشش و جہاد کی ضرورت ھے. 

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو عزاداری کا وقت ماہ محرم الحرام کا پہلا عشرہ اور صفر کا آخری عشرہ ھے .

مگر عزاداری نصرت امام حسین علیہ السلام کے لئے ھو تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تمام دن عزاداری کے ایام ہیں.

 (اور «کل یوم عاشورا اور کل ارض کربلا»

 ایسی ھی عزاداری کا ثبوت ھے). کیونکہ اتنا کام زمین پر پڑا ہے اور امام حسین علیہ السلام کے اہداف کے حصول کے لئے اتنی کوشش,

 اور جدوجہد کی ضرورت ھے کہ سال کے تمام کے تمام اوقات میں ایک لمحہ بھی ضائع کرنا جائز نہیں ھے. 

نتیجہ:
خالص حسینی عزاداری نہ صرف رائج عزاداری سے زیادہ وسیع اور عریض ھے جس میں البتہ بے شمار حدود اور قیود کی رعایت بھی ہوتی ھے.

 اگر ہمارا ہدف یہ ھے کہ امام حسین علیہ السلام کے مکتب کی توسیع و ترویج ہو تو بہت سے معیاروں کا لحاظ رکھنا پڑے گا.

 مگر اگر ہدف صرف دستے روانہ کرنا اور مجلس آرائی ھو تو یہ پھر ہماری بحث کا موضوع ھی نہیں ھے.

                                    (جاری ھے)

موجوده عزاداری سے ھمارۓ کردار میں تبدیلی کیوں نھیں.

.

موجوده عزاداری سے ھماری زندگی و کردار  میں تبدیلی کیوں نھیں

                   قسط نمبر :5

            عزاداری کی مضامیں:

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی اور عزاداری کا مقصد جب کھوگیا ہو تو اس کا پہلا اثر عزاداری کے مضامین پر مرتب ہوتا ھے. 

امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت والی عزاداری اور عزاداری برائے عزاداری میں بہت فرق ھے.

 درج بالا سطور میں اس فرق کے بعض نمونے بیان کئے گئے اور یہاں بھی ہم ان ہی نمونوں کی طرف اشاره کرتے ہیں.

 جب عزاداری کا ہدف گم ہوگا اور عزاداری تمہید کا مقام چھوڑ کر ہدف کے مقام پر مستقر ہوگی تو جو چیزیں رونما ہوتی ہیں بہت باعث افسوس اور دردناک ہیں. 

عزادار سوچتے ہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی مجالس میں چلی جائیں اور آنسو بہائیں تھوڑی سے ماتم داری کریں اور دستہ روانہ کریں یا قمہ ‏زنی کریں تو بس کام ختم ھے.

 یہ لوگ عزاداری ختم ہوتے ھی عزاداری ھی کے سلسلے میں اپنے لئے کسی اور کام اور فریضے کے قائل نہیں ہوتے.

 اور بہت آسانی کے ساتھ اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں اور کلی طور پر بھول جاتے ہیں.
 کہ کس طرح سینکڑوں بار انہوں نے حسین حسین کہہ کر ماتم کیا تھا.

سوال: یہ "حسین - حسین" وه کہاں بھول جاتے ہیں؟:

جب عزاداری ختم ہوتی ھے اور یہ حضرات دیکھتے ہیں کہ معاشرتی برائیوں میں بدستور اضافہ ہو رہا ھے.

 تو یہ حضرات اپنے عمل پر غور نہیں کرتے کہ کیا ان مسائل کا ان سے بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں؟

 بہت سی چیزوں کے سامنے خاموش ہیں اور یہ حضرات جنہوں نے دس روز یا دو مہینوں تک عزاداری کی ھے، ان کی عزاداری سے قبل اور بعد کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا ھے.

 اور حتی ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں بھی کوئی فرق نہیں آیا.
 حالانکہ حسین  حسین کہنے والوں اور حسین - حسین نه کہنے والوں میں فرق ہونا چاہئے. 

ان حضرات کی اکثریت  افسوس کہ  معاشرے کے سماجی مسائل کو توجه نہیں دیتے؛
 اپنی ارد گرد رونما ہونے والے مسائل پر لمحہ بھر غور و تأمل نہیں کرتے؛

 حالانکہ امام حسین علیہ السلام کی سیرت اور آپ (ع) کی روح اصلاح، تنویر افکار اور امور و مسائل کی بہتری سے عبارت ھے.

 مگر یہ روح یہ جذبہ اور یہ سیرت ان مجالس میں عزاداران حسین (ع) کی طرف منتقل نہیں ہوتی. کیوں کہ عزاداری برائے عزاداری کے فلسفے  میں ائمہ علیہم السلام کے قلوب کی تسلی کے لئے زیاده سے زیاده جس چیز کی ضرورت ھے.

 وه رونےاور سر و سینہ پیٹنے سے زیاده کچھ نہیں ھے. 

لیکن عزاادری براۓ نصرت حسین (ع) میں جو چیز نہ صرف ائمہ علیہم السللام کے قلوب کی تسلی کے لئے اور خدا کی رضا اور آدم سے خاتم تک کے انبیاء کے قلوب کی تسلی کے لئے ضروری ھے.

 وه یہ ھے کہ امام حسین علیہ السلام کے اہداف و مقاصد میں سے کسی ایک مقصد و ہدف کو عملی صورت دی جائے.

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو اس میں عزاداروں کی تربیت اس بنیاد پر ہوتی ھے کہ انہیں کس طرح وجد و شوق میں آتے ہیں؛ 

اپنے سروں اور چہروں کو کس طرح پیٹتے ہیں اور کس طرح ہم‏صدا ہوجاتے ہیں.

 اور منظم ھوکر ماتم کرتے ہیں؛ لیکن جب عزاداری نصرت حسین (ع) کے لئے ہوگی تو اس مین کارناموں کی تخلیق کرنے والے، معاشره شناس، دین شناس اور وقت شناس افراد کی تربیت ہوتی ھے.

 ایسے لوگوں کی تربیت ہوتی ھے جو آج کی تاریخ میں اثر گزار ھوں.‎

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو قمہ‏ زنی اور زنجیر زنی کی روشوں اور اس کے فوائد پر بہت زیادہ بحث ہوتی ھے.

 لیکن عزاداری جب امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت کے لئے ہوگی تو گھنٹوں تک امام حسین علیہ السلام کے افکار پر بحث ہوتی ھے اس امید کےساتھ کہ شاید یہ افکار لوگوں کے ذہنوں میں گھر کرلیں.

 اور دلوں میں منزل بنادیں امام حسین علیه السلام چاہتے ہیں,
 کہ ایسے افراد کو ڈھونڈا جائے اور ان کی تربیت کی جائے جو آپ (ع) کے افکار کو اخذ کریں اور آج کی دنیا میں ان افکار سے استفاده کریں.....   (جاری ھے).

موجوده طرز کی عزاداری سے کربلا کے مقصد کو خطرات لاحق ھیں

:موجوده طرز کی عزاداری سے مقصد کربلا کو خطره

                     قسط نمبر:4

عزاداری کا ھدف کی طرف پر پهنچنا ھی اہم خطره  ھے جس سے عزادار سوچنے لگتے ہیں کہ آخری مرحلہ یہی ھے.

 کیونکہ عزاداری خود ہدف میں تبدیل ہوگئی ھے چنانچہ عزاداری کا قیام آخری مرحلہ تصور کیا جاتا ھے اور جب سوچتے ہیں کہ یہ انتہائی ہدف ھے.

 تو وه پھر آگی بڑھنے کا نہیں سوچتے بلکہ عزاداری ھی میں تنوع اور رنگارنگی پیدا کردیتے ہیں.
 اور عزاداری ارتقاء اور عمودی کمال کی بجائے سطحی اور افقی شکل میں پھیل جاتی ھے اور جب یہ واقعہ رونما ہوتا ھے تو عزاداری کی قسموں اور شکلوں میں روز بروز زیاده سے زیاده اضافہ ہوتا ھے.

اس سے قبل سینہ زنی کرتے تھے اب پاؤں اور ٹانگوں پر ماتم کرتے ہیں؛

 اس سے قبل لباس پہن کر ماتم کرتے تھے اب ننگی ہوکر ماتم کرتے ہیں؛ اس سے قبل ہاتھوں سے ماتم کرتے تھے اب بلیڈوں، تلواروں، چھریوں اور قمہ کا ماتم کرتے ہیں.
جب عزاداری ہدف میں بدل جائے تو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کچھ بھی نہیں کہا جاتا .
بلکہ رلانے کے لئے بولا جاتا ھے. اس کے بعد جو کچھ بولا جاتا ھے انسانوں کو سوچنے پر آماده نہیں کرتا.
 بلکہ ان کے جذبات کو بہکایا جاتا ھے اور مشتعل کیا جاتا ھے.
مجلس پڑھنے والے واعظ و مداح و ذاکر یہ نہیں کہتے کہ امام حسین (ع) کیوں قتل ہوئے بلکہ کہتے ہیں کہ کیسے قتل ہوئے.

 ایسے حال میں یہ نہیں کہا جاتا کہ امام حسین علیہ السلام تاسوعا اور عاشورا سے پہلے بھی تھے اور اس سے پہلے بھی آپ (ع) کا کردار تھا.

جب عزاداری خود ہی ہدف میں تبدیل ہوجائے تو پھر اس کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہوتی کہ امام حسین علیہ السلام کا ہدف کیا تھا؛ امام حسین (ع) نے کیا کہا اور امام حسین علیہ السلام نے کیسے عمل کیا!

ایسے حال میں اس موضوع کے بارے میں بات نہیں ہوتی کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کیسے آئے اور انہوں نے اس امر کا انتخاب کس طرح کیا؟

 بلکہ صرف آپ (ع) کے قتل ہونے کی کیفیت پر بات ہوتی ھے. حرّ ع کس طرح قتل ہوئے؛
حضرت جون  کس طرح ماری گئے؛
حضرتعلی اکبر اور حضرت ابوالفضل کس طرح قتل ہوئے.
 اور علی اصغر کس طرح شہید ہوئے.

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی ایسی عزاداری میں محض حزن انگیز جذبات و احساسات کو ابھارنا مقصد ہوتا ھے؛

 ایسی صورت میں اس موضوع کے بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی ھے کہ حضرت زینب سلام الله علیہا نے کس طرح پامردی دکھائی.

 اور کس طرح کوفہ و شام میں خطبے پڑھے اور اہل کوفہ و شام اور ابن زیاد اور یزید اور عام لوگوں سے مخاطب ہوکر بی‏بی نے کیا فرمایا؟.

 بلکہ کہا جاتا ھے کہ بی‏بی کا قد خمیده ہوگیا تھا اور بوڑھی عورتوں کی طرح چلتی تھیں.

عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی فکر پر بحث نہیں ہوتی جسم و بدن کی تصویر کشی ہوتی ھے،
 قد و قامت، بال اور بازو اور چشم و ابرو کی توصیف ہوتی ہے. یہ ہے وہ اہم خطره آج ہماری عزاداری جس کا سامنا کررھی ھے.

 یعنی عزاداری کا بےمقصد ہوجانا. لاکھوں خرچ کئے جاتے ہیں، گهنٹوں وقت صرف کیا جاتا ھے مگر فائده کم ملتا ھے اور حتی بعض عزاداریوں میں سے تو بعض غیردینی چیزیں تک برآمد ہوتی ہیں.

                    (جاری ھے)

اصلاح عزاداری قسط نمبر :3

عزاداری امام حسین ع وسیله ھے ھدف نھیں

                   قسط نمبر:3

عزاداری اسلام کی شاہرگ حیات ھے اور عزاداری کو خرافات اور توہمات سے بھرنے کے لئۓ دشمنوں کی سرمایہ کاری کی وجه بھی یہی ھے کہ یہ دین اسلام کو زندہ رکھنے کا وسیلہ ھے.

 جیسا کہ کربلا کا واقعہ دین کی حیات نو کا وسیلہ بن گیا 

اور علامہ اقبال نے کہا کہ:

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ھے
اسلام زنده ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد.

مگر اگر عزاداری کو ہدف اور مقصد قرار دیا جائے !

عزاداریوں کو بامقصد ہونا چاہئے, اگر عزاداری کا ہدف اور اس کی سمت کھو جائے تو اس کا کوئی مثبت اثر نه ہوگا.

 حتی که ممکن ھے کہ اس کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہوجائیں.‎

سوال یہ ھے کہ عزاداری کا کیا ہدف ہوسکتا ھے؟.

 عزاداری میں ہدف کی شناخت کے لئے سب سے پہلے عزا اور مصیبت کے مالک کی فکر اور ہدف و نیت کی شناخت ضروری ھے.

  اگر اس صاحب عزا کے لئے عزاداری کرنی ھو تو اسی کی فکر کے حصول کی خاطر عزاداری ترتیب دی جائے.
 ‎
قرآن کا فرمان ھے:

یا ایها الذین آمنوا كونوا انصار الله كما قال عیسی ابن مریم للحواریین من انصاری الی الله قال الحواریون نحن انصار الله.

(صف/ 14).
ترجمه:
اے ایمان والو! خدا کے انصار و مددگار بنو جیسا کہ عیسی بن مریم (ع) نے حوارئین سے کہا:
 خدا کی جانب میرا مددگار کون ھے؟ تو حواریون نے کہا:
 ہم خدا کے مددگار ہیں.‎‎

آیت کا پیغام اور خدا کی بات یہ ھے کہ آؤ اور خدا کے دوست اور مددگار بنو اور خدا کے لئے کچھ کرو. اس کے بعد خداوند متعال شاہد مثال بھی لاتا ھے.

 اور فرماتا ھے کہ تم حضرت عیسی (ع) کے حوارئین کی طرح بن جاؤ کہ جب حضرت عیسی نے مدد طلب کی تو وه فوراً ان کی مدد کے لئے اٹھے.
 ‎
یہ جو حواریون نے جواب میں کہا کہ «نحن انصار الله = ہم خدا کے مددگار ہیں» اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ پیغمبر کی مدد ہر زمانے میں در حقیقت خدا کی مدد ھے اور اس قاعدے کے مطابق ہر زمانے میں امام کی مدد خدا ھی کی مدد ھے.

اس آیت کے علاوه امام حسین علیہ السلام کی ندا بھی عاشورا کے روز نصرت کی ندا تھی اور آپ نے فرمایا:

 «هل من ناصر ینصرنی = کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے؟». مدد طلب کرنے سے امام علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ حقیقی اسلام عملی صورت اپنائے اور ظلم و شر و فساد کی بیخ کنی ہو اور اس ہدف کا حصول دوسروں سے مدد مانگے بغیر ممکن نہیں ھے. ‎

چنانچہ خدا کی ندا کا مطلب مددگار حاصل کرنا ھے؛ 
تمام انبیاء اور ائمہ کی ندا بھی مددگار اور ناصر و یار و یاور کا حصول ہے. امام زمان عج کی آج کی ندا بھی وہی امام حسین علیہ السلام کی ندا ہے جو فرمایا کرتے تھے کہ «هل من ناصر ینصرنی. 

اب ہم جو عزاداری کی مجالس برپا کرتے ہیں ان مجالس سے ہمارا ہدف امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد ہونی چاہئے اسی راه میں جس کا آپ (ع) نے آغاز کیا تھا. عزاداری کا مقصد و ہدف امام حسین علیہ السلام کے اهداف اور افکار کو عمل جامہ پہنانا، ہونا چاہئے. 

یہ مقصدیت عزاداری کی مجالس کے انعقاد میں سب سے زیاده اہمیت رکھتی ھے اور عزاداری کے مضامین اور شکل و صورت - یعنی اس کے دو دیگر پہلؤوں کو سمت دیتی ھے اور ان پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان کی کیفیت کو بدل دیتی ھے.

عزاداریوں کی یہی مقصدیت ھے جو انقلاب سے قبل انقلاب کی کامیابی کا باعث ہوئی کیونکہ لوگ دیکھ رہے تھے اور سمجھ گئے تھے .
کہ اگر وه حسینی کام انجام دینا چاہتے ہیں تو انہیں طاغوت کے خلاف لڑنا پڑے گا. اس زمانے میں شاه اور حکومتی سرکردگان یزیدیوں کی شکل میں مجسم ہوئے تھے .

چنانچہ ان کے خلاف جدوجہد حسینی عمل سمجھا جاتا تھا.

لہذا، عزاداری ایک اونچے اور زیاده اہم ہدف و مقصد تک پہنچنے کا مقدمہ اور اس کی تمہید ہے. لیکن کئی مرتبہ عزاداری کا فلسفہ بھلادیا جاتا ھے .

اور عزاداری تمہید اور وسیله بننے کی بجائے ہدف و مقصد بن جاتا ھے یعنی عزاداری بذات خود مقدس ہوجاتی ھے اور عزاداری کی مجالس ہدف بن جاتی ہیں اور ایسے وقت عزاداری کا قیام صرف عزاداری کے لئے ہوتا ھے.

 عزاداری برائے عزاداری۔ اور یہاں عزاداری امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے مقصد سے نہیں ہوتی. 

(جس کی ہمیں امام حسین علیہ السلام نے دعوت دی ھے اور اس قسم کی عزاداری خطرناک ھے). .....جاری ھے.

خدا پسند عزاداری یا من پسند عزاداری قسط نمبر:2

:خدا پسند عزاداری یا من پسند عزاداری

قسط نمبر :2

عزاداری امام حسین (ع) اپنی اصل ماہیت اور فلسفہ وجودی کے اعتبار سے عبادت ھے، 
کیونکہ یہ شہداء کربلا کی یاد کو زندہ رکھتی ھے، امت کے دلوں میں اسلام کی خاطر ایثار و قربانی کے جذبات کو پروان چڑھاتی ھے.

جذبہ شہادت کو ہر وقت شعلہ ور اور شمع آزادی کو ہر لمحہ فروزان رکھتی ھے. عزاداری کی مجالس و مراسم میں سید الشہداء (ع) اور ان کے اصحاب باوفا کی سیرت طیبہ، اہداف و مقاصد اور ان کی قربانیوں کا تذکرہ ہوتا ھے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ھے.

 لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عزاداری کے نام پر جو کچھ انجام دیتے ہیں، اور جو کچھ بیان کیا جاتا ھے، وہ سب کا سب ہر شکل و صورت میں شریعت کے مطابق اور امام عالی مقام (ع) کے اہداف کی ترویج کے لیے مفید ھو.

 بلکہ ممکن ھے کہ زمان گزرنے کے ساتھ ساتھ جاہل دوستوں کے جذبات اور چالاک دشمنوں کی سازشوں کے نتیجے میں کچھ اعمال و رسوم ایسی بھی شامل ھو گئی ھوں جو شرعی جواز سے عاری ھوں.

دین نام ھے ان عقائد اور اعمال کا جسے اللہ تعالیٰ نے بندوں کی ہدایت اور نجات کے لیے انبیاء (ع) کے ذریعے نازل فرمایا، لہٰذا ہر وہ عمل عبادت ھے جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انجام دیا جائے.

 اور اس عمل کے کرنے کا حکم اللہ، رسول اللہ (ص) اور آئمہ اطہار (ع) نے دیا ھو اور اس کو بجا لانے کا طریقہ بھی وہی درست ھے جسے اللہ کے حکم سے اللہ کے رسول (ص) اور آئمہ ہدٰی نے امت کو سکھایا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ھے:

ما اتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا (حشر: 7)

ترجمه:
یعنی رسول تمہیں جو کچھ دے دیں اسے اپنا لو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ.
اس کے علاوہ فرمایا گیا ھے کہ
اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم (نساء:59).

ترجمه:
یعنی اللہ کی اطاعت کرو نیز رسول کی اطاعت کرو اور اولو الامر کی اطاعت کرو.
اسی طرح
و من یطع الرسول فقد اطاع اللہ (نساء: 80)
جو رسول کی اطاعت کرے تو اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزوں کو اپنا جانشین بنا کر جا رہا ھوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت اہل بیت (ع).

یہ دنوں ہمیشہ ساتھ رہیں گے یہاں تک کہ کوثر پر دونوں ایک ساتھ میرے پاس حاضر ہوں گے.

 تم میری عترت سے نہ آگے بڑھو نہ پیچھے رھو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے.
 لہٰذا اگر ہم دین کے نام پر کوئی ایسا عمل انجام دیں جس کا اللہ، رسول اللہ (ص) اور آئمہ ہدیٰ نے حکم نہ دیا ھو بلکہ اپنی ذاتی پسند و نا پسند یا علاقائی رسم و رواج یا سیاسی مذہبی شخصیات کے ذاتی رجحان کی بناء پر کسی کام کو عبادت سمجھ لیں.

 اور دین کے نام پر اسے انجام دینا شروع کریں تو اسی کو بدعت کہا جاتا ھے.

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ھے:
و رھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبناھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ فمارعوھا حق رعایتھا فآتینا الذین آمنوا منھم اجرھم و کثیر منھم فاسقون (حدید:27).

ترجمه:
اور رہبانیت جیسے انہوں نے خود سے اپنا لی تھی اسے ہم نے واجب نہیں کیا تھا مگر یہ کہ وہ اللہ کی رضا مندی حاصل کریں.
 لیکن انہوں نے اس کی صحیح رعایت نہیں کی پس ان میں سے ماننے والوں کے لیے ثواب ھے لیکن ان کی اکثریت احکام خداوندی کے حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں.

اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوتی ھے کہ شرعی حدود سے ہٹ کر کوئی ایسا کام کرے جسے شریعت نے نہ کہا ھو لیکن ہم اسے عبادت سمجھ کر انجام دیں تو وھی بدعت ھے.

اگرچہ بظاہر وہ بھلا ھی کیوں نہ لگے.
امام زمان ارواحنا لہ الفداء کی غیبت کے زمانے میں عادل و بیدار، زمان شناس اسلام دشمن طاقتوں کے مکر و فریب سے آشنا اور دین و ملت کے خلاف ہونے والی ریشہ دوانیوں ,
اور سازشوں سے بخوبی آگاہ، فقہاء و مراجع عظام کے فتاویٰ وہ اہم معیار ہیں .

جن کے ذریعے کسی عمل کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ھے کہ وہ شریعت مقدسہ کے مطابق ھے یا نہیں، وہ عمل بدعت ھے یا سنت، کیونکہ عصر غیبت میں وہ معصوم (ع) کی طرف سے ہم پر حجت ہیں.

 اور معصوم (ع) نے ہمیں حکم دیا ھے کہ ہم شرعی معاملات میں ان کی طرف رجوع کریں.

امام حسن العسکری (ع) نے فرمایا:
اما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علیٰ ھواہ مطیعا لامر مولاہ فللعوام ان یقلدوہ و ذالک لا یکون الا بعض فقہاء الشیعۃ (وسائل الشیعہ حدیث 33401).

ترجمه:
 فقہا میں سے جو اپنے نفس کو محفوظ رکھنے والا، دین کا نگہبان، خواہشات کی مخالفت کرنے والا اور اپنے مولا اور آقا کے احکام کی اطاعت کرنے والا ھو تو عوام ان کی تقلید کریں اور صرف شیعہ مجتہدین میں سے بعض ہی ان صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ 

امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کا فرمان ھے:

اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی رواۃ احادیثا فانہم حجتی علیکم و انا حجۃ اللہ علیھم و الراد علیھم کا لراد علینا۔ (وسائل الشیعہ،حدیث نمبر 33424) .

ترجمه:نئے رونما ہونے والے مسائل میں ہماری احادیث بیان کرنے والے فقہا کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہوں۔ پس جس نے ان کی بات مسترد کی تو گویا اس نے ہماری بات مسترد کر دی۔ ان آیات و احادیث سے یہ روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ ہر وہ عمل جس کو کتاب خدا، رسول (ص) سیرت آئمہ ہدیٰ (ع) اور مراجع عظام کے فتویٰ کی روشنی میں شرعی جواز حاصل نہ ہو وہ بدعت کہلائے گا، چاہے جس عنوان سے جو بھی شخص انجام دے۔

عزاداری امام حسین (ع) اپنی اصل ماہیت اور فلسفہ وجودی کے اعتبار سے عبادت ھے، کیونکہ یہ شہداء کربلا کی یاد کو زندہ رکھتی ہے، امت کے دلوں میں اسلام کی خاطر ایثار و قربانی کے جذبات کو پروان چڑھاتی ہے۔ جذبہ شہادت کو ہر وقت شعلہ ور اور شمع آزادی کو ہر لمحہ فروزان رکھتی ھے.

 عزاداری کی مجالس و مراسم میں سید الشہداء (ع) اور ان کے اصحاب باوفا کی سیرت طیبہ، اہداف و مقاصد اور ان کی قربانیوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عزاداری کے نام پر جو کچھ انجام دیتے ہیں، 

اور جو کچھ بیان کیا جاتا ھے، وہ سب کا سب ہر شکل و صورت میں شریعت کے مطابق اور امام عالی مقام (ع) کے اہداف کی ترویج کے لیے مفید ہو بلکہ ممکن ہے کہ زمان گزرنے کے ساتھ ساتھ جاہل دوستوں کے جذبات اور چالاک دشمنوں کی سازشوں کے نتیجے میں کچھ اعمال و رسوم ایسی بھی شامل ہو گئی ھوں.

 جو شرعی جواز سے عاری ہوں اور امام عالی مقام (ع) اہداف و مقاصد سے متصادم ہوں۔ یہ نہ صرف ایک احتمال ہے بلکہ دین و ملت کے خیر خواہ، قیام حسینی کے عاشق اور دنیا میں دین حقہ کے معاملات کے ماہر علماء و محققین نے بہت سی ایسی باتوں کی نشاندہی بھی کی ھے.

 جسے ہم امام حسین (ع) کے نام پر بڑی عقیدت و احترام سے قربۃ الی اللہ انجام دیتے ہیں۔ لیکن وہ نہ صرف شرعی جواز سے عاری ہیں بلکہ دین کی بدنامی اور غیر جانبدار مگر دین کے متلاشی حق جو افراد کو مذہب حقہ سے دور اور متنفر کرنے کا باعث بننے کی وجہ سے حرام ہیں.

اس حوالے سے درد دین رکھنے والے علماء و معلمین نے بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے چند ایک بطور نمونہ یہ ہیں:

1۔ جناب آیۃ اللہ حسین نوری کی آداب اہل منبر
2۔ شہید مرتضیٰ مطہری کی حماسہ حسینی اور تحریفات عاشورا
ہمیں امید ہے کہ عاشقان اہل بیت (ع) عزاداری کو خدا پسند اور مفید طور پر منانے کے لیے ان خطوط پر چلنے کی کوشش کریں گے جنہیں آئمہ اطہار (ع) اور مراجع عظام نے معین فرمائے ہیں، اور دشمنان اسلام کو کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کریں گے، جسے وہ دین حق کے خلاف اسلحہ کے طور پر استعمال کر سکیں.

اصلاح عزاداری وقت کی اھم ضرورت.

:عزاداری امام حسین ع کیلۓ مطلوب ضوابط
                       قسط نمبر:1
تحریر: آیت الله سید علی خامنه ای,
مترجم :عبدالحسین کشمیری.

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمين.والصلاة والسلام علي سيدنا محمد وآله الطاهرين .

محرم کے حوالے سے دو باتیں ہیں ایک عاشورا کی تحریک کے بارے میں ،اگرچہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کے بارے میں بہت زیادہ کہا اور لکھا جاتا ھے.

 نہایت عمدہ باتیں اس سلسلے میں بیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ لیکن حقیقت میں عمر بھر اس کی درخشاں حقیقت کو بیان کیا جاسکتا ھے۔

جتنا بھی عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بارے میں غور کریں تو معلوم پڑھتا ہے کہ یہ معاملہ کئ اعتبار سے پر کشش اور کئ اعتبار سے تفکر کرنے اور بیان کرنے کے قابل ہے.

محرم کے حوالے سے دوسری بات جو بحث کرنے کے قابل ہے اور اس بارے میں کم ہی گفتگو کی جاتی ہے وہ حسین بن علی علیہ السلام کی عزادارای ، اور عاشورا کو زںدہ رکھنے کی برکتیں ہیں۔

حقیت میں اسلامی معاشرے میں شیعوں کا سب بڑا امتیاز اپنے دوسرے مسلمانوں پر یہ ہے کہ شیعہ معاشرے کے پاس عاشورا کی یاد ھے ۔

جس دن سے حسین بن علی علیہ السلام کی مصیبت بیان کرنا ایک باب بن گیا ، اھل بیت علہم السلام کے چاہنے والوں اور ماننے والوں کے ذہنوں سے معنویت اور فیض کے چشموں نے پھوٹنا شروع کیا ، 

یہ چشمے ابھی تک جاری اور ساری ہیں اور آج کے بعد بھی جاری رہیں گے جس کا راز عاشوار کی یاد ھے ۔

عاشورا کو بیان کرنا صرف ایک واقعہ کو بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے حادثے کو بیان کرنا ہے کہ جس کی طرف ابتداء میں بھی اشارہ کیا گیا کہ اس کے بے شمار اعتبارات ہیں ۔اسلئے یہ یادحقیقت میں ایک ایسا عمل ہے جو کہ بے شمار برکات پر محیط ہو سکتا ھے ۔

آپ توجہ فرمائیں کہ ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں رونا اور رلانا اپنی جگہ ایک مقام رکھتا ھے ۔کوئی خیال نہ کرے کہ فکر ، استدلال اور منطق کے سامنے رونے کا کیا کام اور یہ تو پرانی بات ہے ! نہیں ! 
ایسا سوچنا غلط ہے۔ جذبات کا اپنا مقام ہے اور منطق و استدلال کا اپنا مقام ہے ، ہر ایک کا ،انسان کی شخصیت میں اپنا کردار ھے ۔

 بہت سارے مسائل ایسے ہیں جو کہ محبت اور جذبات کے ساتھ حل کئے جا سکتے ہیں اور ان میں منطق اور استدلال کاعمل دخل نہیں ھے.

اگر آپ انبیاء کی تحریکوں کو دیکھیں ، تو آپ ملاحظہ کریں گے کہ جب پیغمبر مبعوث ہوتے تھے ، پہلے جو انکے ارد گرد جمع ہوتے تھے اس کا عامل منطق اور استدلال نہیں ہوتا.

 پہلا مرحلہ جذباتی اور احساساتی ھے ، البتہ ہر سچے جذبے کے پیچھے ایک فلسفی برھان موجود ہوتا ہے ۔مگر بحث اس بات پر ہے کہ جب نبی اپنی دعوت شروع کرتا ہے وہ اپنا فلسفی استدلال بیان نہیں کرتا ۔بلکہ سچا احساس اور جذبہ بیان کرتا ہے ۔ پہلے معاشرے میں جو ظلم جاری ہے ، 
جو طبقاتی اختلاف موجود ہے لوگوں پر « انداد الله » انسانوں اور انسان نما شیطانوں کی طرف جو دباو ہے اسکی طرف معطوف کرتا ہے۔یہ وہی جذبات اور احساسات ہیں ، البتہ جب تحریک اپنی معقول اور عادی سطح پر پہنچ جاتی ہے تو استدلال اور منطق کی نوبت آ جاتی ہے۔ 

عاشورا کا حادثہ ، ذاتی طور ایک سچے جذبے کا ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے۔ ایک عظیم انسان ، جسکی نورانی ، پاکیزہ اور ملکوتی شخصیت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، جن کے مقصد کے بارے میں منصفین عالم کا اتفاق ھے .

کہ وہ معاشرے کو ظلم و جور سے نجات دلانے کیلئے ہے ، تعجب بر انگیز حرکت شروع کردیتے ہیں ، اپنی حرکت کا فلسفہ جور کا مقابلہ قرار دیتے ہیں ، 

بحث مقدس ترین مقصد کے بارے میں ھے جو کہ منصفین عالم بھی قبول کرتے ہیں.

                     (جاری ھے)

عظمت قرآن از روۓ امام علی علیه اسلام

عظمت قرآن از روۓ امام  ع:

شیعه مذھب کی بنیاد دو اھم کتب کلام الھی (قرآن مجید) اور کلام امام(نھج البلاغه) پر ھے .

جو ان دونوں کتب کی محکم تعلیمات کے برعکس متشابھه آیات و روایات پر عقیده استوار کرۓ گا ,

فرمان الھی و امام ع  کے مطابق وھی لوگ گمراه اور فتنه گر ھیں.

 یه لوگ آپنے ناقص زھنی قیاس سے تاویل کرتے ھوۓ گمراھی پھیلا کر معصوم مسلمانوں کے ایمان برباد کرتے ھیں,اور بڑۓ زور و شور سے اس روش کو جاری رکھے ھوۓ ھیں.

.(سوره آل عمران ع:7).

امام علی (علیه السلام) کی نظر میں قرآن مجید کا کا رتبه اور مقام بهت بلند هے.

 قرآن مجید کے بارے میں جو بعض خصوصیات نهج البلاغه میں بیان کی گئی هیں،
 ان کو مندرجه ذیل موضوعات میں خلاصه کیا جاسکتا هے :

1ـ خیر خواه نصیحت کرنے والا
2ـ بهترین راهنما
3ـ سچ بولنے والا
4ـ سب سے محکم اور اطمنان بخش پناه گاه اور دستاونیز
5ـ شفا بخشنے والا
6ـ علوم و دانش کا سرچشمه
7ـ سب سے بڑی دولت
8ـ دلوں کو زندگی و نشاط بخشنے والا
9ـ سب سے بهتر شفاعت کرنے والا
10ـ ایک لافانی کتاب
11ـ ایک جامع کتاب.

امام علی (علیه السلام)، مکتب قرآن اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے پرورش یافته هیں ـ آپ (علیه السلام) نے اس مکتب اور رسورل اکرم (ص) کے پرورش یافته کے عنوان سے پوری نهج البلاغه میں اپنے کلمات، خطبوں اور خطوط میں مسلسل اور مختلف مناسبتوں سے قرآن مجید کی گوناگون خصوصیات بیان کی هیں.

 اور اس کی قدر و منزلت لوگوں کے لئے بیان کی هے اور قرآن مجید کی تجلیل کی هے اور بارها لوگوں کو قرآن مجید کے حق کی رعایت کرنے اور اس میں تدبر کرنے کی ترغیب فرمائی هے.

 یهاں تک که اپنی دنیوی زندگی کے آخر لمحات میں بھی اپنے مادی اور معنوی فرزندوں کو قرآن مجید پر عمل کرنے کی وصیت کرتے هوئے فرماتے هیں:

"خدا کے لئے، خدا کے لئے، قرآن مجید کو مدنظر رکھئے، مبادا که قرآن مجید کے دستورات پر عمل کرنے میں دوسرے آپ پر سبقت حاصل کریں.

(نھج البلاغه خطبه عظمت قرآن, اور قرآن و اسلام)

غالی گروه فتنے بڑھا اور مسلمانوں کے مابین نفرت پیدا کر رھے ھیں.

,تنبیھه

نصرت انبیاء علیھم اسلام تحریر کے دوسرا حصه سے پهلے,
چند فتنه پرور جو مبھم روایات اور متشابھه آیات کی مدد سے معصوم مسلمانوں کے ایمان و عقائد کو بگاڑنا چاھتے ھیں.

         جھاں بھی جاتے ھیں یه فتنه پرور.
           وھی جاکے چنگاریاں ڈالتے ھیں.

مگر یه لوگ اس حقیقت سے غافل ھیں که 
الله العزت ولرسوله وللمومینین  ولکن المنافقین لا یعلمون.

نیز وه اس غوطه آرائی سے یه بھی چاھتے ھیں که ,
وه ان مدارس دینیه جھاں اھل حق علماء و مجتھدین کرام گزرۓ دور میں بھی سرکار محمد و آل محمد ع کے علوم کی نشر و اشاعت کی شمع فروزاں کیۓ ھوۓ ھیں,

 اور یتیمان آل محمد ص کی جسمانی و روحانی تربیت کا بیڑا اٹھاۓ ھوۓ ھیں ختم کردیں .

کیونکه یه لوگ ان مدارس دینیه کو آپنے مقاصد  مشومه کی تکمیل کے راستے میں سنگ گراں سمجھتے ھیں.

 اور ان کو راسته سے ھٹانا آپنا فریضه مگر وه اس حقیقت ابدیه سے ناواقف ھیں.

        والله متم نوره ولوکره المشرکون.

مشاھده شاھد ھے که ایسے لوگ ھر جگه آپنے طرزعمل سے خود زلیل و خوار ھو رھے ھیں لیکن بے شعوری سے مذید دارین کی رسوائی کے اسباب بھی جمع کر رھے ھیں.

میری رسوائی جو چاھی وه آپنی گالی گلوچ اور لعن تعن کے فتووں سے خود ھی رسوا ھوگۓ.

ھمارا یه حقائق پر علمی کارواں بغیر کسی تعطل کے جاری رھے گا .

راه حق کے متلاشی ھماری پوسٹوں کا گھرائی سے مطالعه کریں.

ھماری تحریروں کے ماخذ قرآن مجید اور نھج البلاغه اور آئمه معصومین ع کی مستند روایات ھیں جھاں مبالغه کی گنجائش ھی نھیں.

جبکه باطل اھل عقائد کی عمارت صرف کمزور روایت,قیاس اور زھنی خرافات کے ناقص فلسفه پر قائم ھے.

جبکه پاک نبی ص کا فرمان ھے قرآن اور اھلبیت ع میں سے کسی ایک کو چھوڑ دینا گمراه ھونے کی علامت ھے.
ان دونوں سے تمسک لازم ھے .

مومینین کے عقائد و ایمان کو باطل عقائد سے کیسے بچائیں.




                 " تحریر: "سائیں لوگ

روایات کا سھارا لے کر معصوم اور لا علم مومینین کے ایمان کو ان تخریبی اور غالی,نصیری عناصر سے  کیسے بچایا جاۓ,

میرۓ نذدیک اگر ھم صرف قرآن اور سنت محمد و آل محمد ع(نھج البلاغه)

کو ھی آپنا لیں تو ھم آپنی دین و دنیا کو کامیاب بنا سکتے ھیں.

قرآن کی تعلیم اور فکر پر مولا علی ع نے نھج البلاغه میں خصوصی خطبات تک پیش کیۓ ھیں.
 اور کامیابی کا راز قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے کو کھا ھے.

برادران و مومینین کرام جیسا که آپ کو علم ھے ھم نے بطل عقائد کے پرچار اور علماۓ حقه و مجتھدین کی توھین کرنے والے چند شرپسند جاھل عناصر کے ردعمل میں کچھ عرصه سے فیس بک پر لکھ رھے ھیں,

 یهاں پر ھم نے مذھب اھلبیت ع کی خالص  علم و آگاھی دی,

جس سے آپکے ایمان و مذھب کو مضبوطی اور تقویت ملی.

برادران ھم نے علم دیا فکر دی اور باطل و فاسد عقائد کی نفی کی,
 جو چند غالی اور جاھل زاکروں کی تبلیح کے سلسله میں مذھب حقه کے ساده مسلمانوں کے ایمان کو برباد کر رھے ھیں.

اور آپنے معاوضه کے حرص میں آۓ دن ایک نیا عقیده  متعارف کروا رھے ھیں.

مگر دوسری طرف سے  لعن تعن اور گالی گلوچ  ملی.جو اب ان باطل عقیده لوگوں کی پهچان بن چکی ھے جیسے معاویه کی پهچان گالی  بنی.

مولا امیر ع کا فرمان ھے که غیرت مند کبھی گالی نھیں دیتا.

ھم نے تقریبا ھر اختلافی مسله پر سیر حاصل بحث کی اور ٹھوس و مدلل جواب سے دشمن کو دندان شکن جواب دیا.

اس کے باوجود آجکل چند انتشاری جو نھیں چاھتے که ان کے باطل عقائد کو بے نقاب کیا جاۓ,
ایک مضحکه خیز Disinformation, پھیلا رھے ھیں که ھم وھابی ھیں.

یه بات صداقت سے کوسوں دور ھے.
 ھم ولایت مولا علی ع کو آپنے عقیده  واجب قرار دیتے ھیں.
 اور محبت اھلبیت ع ھمارۓ ایمان و عقیده کا جزو ھے
اور یهی ھماری پهچان ھے.

ھاں جو لغویات کا سھارا لے کر ڈھول بجا رھے ھیں ان کے عقائد مشکوک ھیں جو ھم انکی پوسٹوں اور کمنٹس سے برملا ملحاظه فرما رھے ھیں.

 اور علم و ادب و تھذیب کا جس طرح اظھار کر رھیں ھمیں تو ایسے لگتا ھے  یھی قاتلان سیرت آل محمد ع اور معاویه کے دست راست ھیں.

نه انھیں اھلبیت ع کی حرمت نه  ھی مذھب و ملت کے وقار و عزت کا احساس ھے.

علم و فضل سے عاری یه غالی,نصیری بڑۓ بڑۓ کارنامے سرانجام دے رھے ھیں ان میں کچھ گرو گھنٹال ھیں اور کچھ بچے نمانے ھیں .

اگر ان کے علمی و عملی حالات و کوائف پر اجمالی نظر ڈالی جاۓ تو بقول,

 شاعر منڈی میں ھر طرح کا مال موجود ھے مثلا:

کچھ سچے ھیں کچھ بڈھے ھیں کچھ بچے ھیں.

کچھ فتنه و شر کے بانی کچھ دین کے جانی دشمن ھیں.

کچھ مفتی اور ملانے ھیں کچھ جاھل اور سیانے ھیں .

کچھ ابن علی ع کے تاجر ھیں کچھ کاسه لیس مھاجر ھیں.

بولیں تو خطیب شھر بھی ھیں گھولیں تو سیاسی زھر بھی ھیں.

کچھ موتی ھیں کچھ مالا ھیں کچھ دال میں کالا کالا ھیں.

اب قوم سے لڑتے مرتے ھیں اسلام کا بھی دم بھرتے ھیں.

زکر حسین ع غالی زاکر کیلۓ عبادت نھیں بلکه زریعه تجارت ھے.

اب وقت آ گیا ھے...

که خالص عقیده مومینین آگے بڑھیں اور عزاداری امام حسین ع کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلۓ,

 ان بدعقیده,بدعمل, کذاب اشتھاری,تاجر زاکروں کے خلاف عملی اقدامات اٹھائیں.

ایک وثوق اطلاع کے مطابق مشھور بدنام زمانه تاجر خون حسین ع جو کچھ عرصه قبل بانیان کی منت کرکے مجلس حاصل کرتا تھا.

اور ھاتھ جوڑ کر مومینین کرام کو پنڈال میں بیٹھے رھنے کی استدعا کرتا تھا.

آج ایک عشره(دس دن) 

 کاپچیس لاکھ سے اوپر ایک منبر کا معاوضه لیتا ھے.

اس سال مجموعی معاوضه ایک کروڑ تیس لاکھ کے قریب اس نے کولیکٹ کیا ھے.....

اس بدبخت کے زیر استعمال گاڑی,(Range Rover). کی قیمت ,

دو کروڑ پچانوے لاکھ (2,9500000).

سے.

 تین کروڑ پچپن لاکھ روپے(3,55,00000)پاکستانی روپے بنتی ھے.

اب آپ اندازه لگالیں که یه زکر کربلا پر کتنی خوب تجارت کر رھے ھیں.

کیا یه لوگ اھلبیت ع اور مذھب سے مخلص ھیں.
 کیا یه واقعی مجالس عزا کو محدود کرنے کے زمه دار تو  نھیں.
 اب ایک سچا مجب غریب آدمی کس طرح مجلس کا انعقاد کراۓ.

ان بدبختوں کی منه مانگی اجرت پر یه تحقیقی پوسٹ ملحاظه فرمائیں.

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=301217743680513&id=100013768695656

بدھ، 24 اپریل، 2019

شرک کی مذمت و حقیقت

:شرک کی مذمت اور اسکی حقیقت

                 "
تحریر :"سائیں لوگ

جاھلی دور کے جتنے غلط عقائد و نظریات اسلام کی تلوار سے بچ گۓ تھے بدقسمتی سے عالم اسلام کی اکثریت پھر اسکی زد میں آگئی.

ان میں ایک مسله شرک بھی تھا اسلام میں شرک کو اکبر الاکبائر اور ناقابل معافی جرم و گناه قرار دیا گیا ھے.

ان الله لا یغفر ان یشرک به و یغفر ما دون زالک لمن یشاء.

خدا وند عالم  شرک کو ھرگز معاف نھیں کرتا اس کے علاوه جتنے گناه ھیں جسے چاھتا ھے معاف کر دیتا ھے.

ایک جگه اور فرمایا اگر تم ان سے پوچھو که آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یعقینا کھیں گے الله نے.

سوره یوسف میں فرمایا 

اکثر لوگ ایمان نھیں لاتے مگر اس حالت میں که وه مشرک بھی ھوتے ھیں.

سوره اعراف ع 190.
میں فرمایا یه جو دعوی کرتے ھیں وه ایک مکھی تو بنا کے لائیں.
سوره انبیاء میں فرمایا

 ھمارۓ سوا کوئی معبود نھیں تم جیسے پهلے بھی رسول آ چکے ھیں.

سوره مومن 
میں ھے صرف مجھ سے ھی دعاء مانگو میں پوری کروں گا.
سوره اعراف 194,
میں ھے جنھیں تم  الله کے سوا عبادت کرتے  ھو وه بھی تم جیسے بندے ھیں.

سوره بنی اسرائیل  ع 56,
میں ھے که الله کے سوا جنھیں پکارتے ھو وه کچھ بھی نھیں کر سکتے.

سوره قصص,62
 میں ھے اب بلاؤ جن کو تم میرا شریک بنا رھے تھے کھاں ھیں.
سوره کھف,52
 میں ھے جس دن فرماۓ گا جنھیں تم آپنے گمان میں شریک بنا رھے تھے کھاں ھیں وه.
سوره فرقان ,55
میں ھے یه الله کو چھوڑ کر جنکی عبادت کرتے ھیں جو نه نفع دے سکتے ھیں ناں نقصان.
سوره آسرا ,56
میں ھے جنھیں تم الله کے سوا پکارتے ھو وه تمھاری تکلیفوں کو دور نھیں کر سکتے.
سوره یونس ,106
میں ھے تم انکی عبادت کرتے ھو جو نه نفع دے سکتے ھیں اور ناں نقصان.

سوره نساء 36,
میں ھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نه کرو.

سوره نساء 80,
میں ھے صرف الله کی فرمانبرداری کرو.
سوره نساء 103,
میں ھے اٹھتے بیٹھتے صرف الله کا زکر کرو.

شیخ صدوق توحید میں لکھتے ھیں جو اس حالت میں مرۓ که الله کو کسی کا شریک قرار نه دے وه بلاشبه جنت میں داخل ھوگا.

بحار الانوار میں ھے 

جو شخص اس حال میں مرۓ که شرک کرتا ھو جنت اس پر حرام قرار دیدی ھے.

اب اتنے واضح ثبوت کی بعد یه گنجائش نھیں رھتی که الله کے کاموں میں کسی کو شریک ٹھرایا جاۓ.

اگلی قساط میں شرک کی اقسام بارۓ وضاحت دی جاۓ گی پھر اھل شرک و غلو کا جنازه نکالا جاۓ گا.
غالی کھتا ھے:

      شریعت کا ڈر ھے نھیں تو صاف کهه دوں .

          علی جله جلاله خود خدا بن کر آیا ھے.

غلو و تفویض کا بطلان قرآن و نھج البلاغه کی روشنی میں.(رزق کی دین و تقسیم کس کے اختیار میں)

رزق کی دین اور تقسیم:

غلو و تفویض کا بطلان قرآن مجید و نھج البلاغه کی روشنی میں:

        تحریر و تحقیق:"سائیں لوگ"

آج ھم ایک اھم موضوع کی طرف آتے ھیں غالی کھتا ھے که,
 رزق کی دین اور تقسیم مولا علی ع کے زمه ھے آج ھم اس اھم موضوع پر غالی کے اس دعوی کا رد پیش کر رھے ھیں .

قرآن,نھج البلاغه اور مستند روایات معصومین ع میں سے.

اگرچه بے شمار آیات و روایات موجود ھیں مگر ھم اختصار سے کام لیتے ھوۓ کوشش کریں گے تحریر مختصر رھے .

خلق,رزق,اماتت و احیا وغیره امور تکونیه کی انجام دھی,
 زات خدا وندی کے ساتھ مخصوص ھے اور یه امور اس نے کسی بھی مخلوق کے سپرد نھیں کیۓ.

 نه استقلالی طور پر اور نه ھی غیر استقلالی طور پر ارشاد قدرت ھے .

ھو الله الخالق الباری المصور الاسما الحسنی.
 پ 28,س,حشر.
ترجمه:
وھی تمام چیزوں کا خالق اور موجد  صورتوں کاھے اسی کیلۓ ھی اچھے اچھے نام ھیں.

اس آیت مبارکه سے ثابت ھوتا ھے که خداوند ھی خالق و مصور ھے.

اب ھم ان آیات کا زکر کرتے ھیں جن میں خلق,موت,رزق,اور رزق کی تقسیم کا الله نے دعوی کیا ھے که ,

یه امور میں خود ھی سرانجام دیتا ھوں اسمیں کوئی دوسرا میرا معاون کار نھیں اگر جو ایمان رکھتا ھے میرا شریک بناتا ھے لھذا وه  مشرک ھے.

الله ھی زندگی و موت دیتا ھے..
سوره یونس ع,56/59.

الله ھی تمھاری روحیں قبض کرتا ھے فرشتوں کے زریعے.
سوره یونس ع 104.

وھی ھے جو تمھاری روحیں قبض کرتا ھے فرشتوں کے زریعے.
 سوره الانعام 60/ 61,

سوره الاعراف 37 /158

,سوره انفال,50

,سوره ھود,7.

الله ھی ھے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا.
سوره الاعراف 56,

سوره یونس ع 3.

الله ھی ھے جو تمھیں رزق دیتا ھے.
سوره زخرف ع,32.

الله کے رزق دینے میں کوئی شریک نھیں ھے.
سوره روم ع ,28/37/40.

خلقت کی ابتدا اور رزق الله ھی دیتا ھے.
سوره نمل,64.

الله ھی ھے جو روزی کشاده کرتا ھے.
سوره قصص,ع,82.

الله ھی خالق ھے اور وھی ھی رازق ھے.
سوره فاطر ع,3.

الله ھی رزق کشاده کرتا ھے.
سوره شوره ع,49.

آسمان اور زمین سے رزق الله ھی دیتا ھے.
سوره یونس 31,59.

خبردار الله ھی سے رزق طلب کرو.
سوره العنکبوت ع,17.

رزق دینا اور تقسیم کرنا الله ھی کا کام ھے.
سوره نحل ع,70.

تمھارا رزق آسمان سے ھی آتا ھے.سوره المومن  ع,13.

الله ھی رزق دینے والا ھے.
سوره الطور ع,58.

الله ھی تمھے روزی دیتا ھے.سوره الملک ع,21.

آسمان اور زمین سے رزق الله ھی دیتا ھے.
سوره سباءع,24,36,39.

جو رزق الله نے دیا ھے اس میں سے خرچ کرو.
سوره یسین ع,47.

زمین پر چلنے والی کوئی چیز ایسی نھیں جس کو الله نے رزق نه دیا ھو. 
سوره ھود ع,6.

رزق الله نے دیا شکر کرو. .سوره الانفال ع,3.

اب ھم آتے ھیں نھج البلاغه کی طرف که مولا علی ع خود رزق کے متعلق کیا بتاتے ھیں که کون دیتا ھے.

یهاں پر مولا ع غالیوں کے جھوٹ کو بے نقاب کر رھے ھیں.
مولا علی ع فرماتے ھیں .رزق اور خلق الله کے زمے ھے.
ملحاظه کریں.

 خطبه نمبر 90,صفات باری تعالی.

خطبه نمر:91, "خطبه اشباح "
حقائق کائنات کے متعلق معلومات کا خزانه.

رزق کا زمه الله کے پاس ھے.
خطبه نمبر :109
اوصاف باری تعالی فرشتوں کے حالات دنیا کی بے ثباتی.

ملک الموت ھی روح قبض کرتی ھے.
خطبه :112.
ملک الموت اور قبض روح کا زکر.

الله ھی شفا دیتا ھے .
خطبه نمبر :159.
حمد و صفات باری تعالی.

روزی کی ضمانت الله کے پاس ھے.
خطبه نمبر :114.
پرھیز گاری.

الله ھی ھر چیز کو رزق دیتا ھے.
خطبه نمبر :184.
حیوانات کی خلقت میں قدرت کی رعنائیاں.

الله نے خلق کیلۓ کسی سے مدد نھیں لی .
توحید
خطبه نمبر :185

مقرب فرشتوں کا زکر جن کے زریعے الله تعالی کائینات کا نظام چلا رھا ھے.
وعظ و نصیت سے لبریز خطبه.
خطبه نمبر :181.

اب ھم آتے ھیں معصومین ع کی روایات کی طرف.

امیر علیه اسلام فرماتے ھیں .
اشھدان لا اله الا الله,
کے معنی یه ھیں که میں گواھی دیتا ھوں که الله کے سوا کوئی ھادی نھیں اور یه که زمین و آسمان کے ساکنین ,ملائکه,انسان.پهاڑ.درخت.حیوان.وحوش و ھر خشک و تر جو کچھ ان میں موجود ھے ان سب کو گواه کر کے کھتا ھوں .
که الله کے سوا کوئی خالق,رازق,معبود,_نافع,قابض,باسط,معطی,ناصح,کافی,
شافی,تقدیم و تاخیر کرنے والا کوئی نھیں ھے.
 خلق و امر اسی کے قبضه قدرت میں ھے الله کی زات با برکت ھے وه خدا جو عالمین کا پروردگار ھے.

مفاتیح الجنان 
میں دعاۓ جوشن کبیر کی فصل ,90.
سے بھی یهی مطالب نوٹ کیۓ جا سکتے ھیں.
اما جعفر صادق ع کا بھی 
فرمان رجال المقانی جلد 1ص,256.
 رجال کشی ص 207/208.
کزانی البحار ص,350.

امام رضا ع کا یهی عقیده عیون اخبار لرضا ص374.
بحار الانوار جلد 7,ص,358.

شیخ صدوق نے مناجات امام رضا ع بھی درج کی ھیں .
تحریر بھت طول پکڑ گئی ھے تشنگی باقی تو ھمارا جواب و وضاحت بھی باقی.

اب معترض خیال کرکے کمنٹس کریں که کلام الھی اور کلام امیر المومینین ع کا رد نھیں ھوتا.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...