Saieen loag

جمعرات، 25 اپریل، 2019

اصلاح عزاداری وقت کی اھم ضرورت.

:عزاداری امام حسین ع کیلۓ مطلوب ضوابط
                       قسط نمبر:1
تحریر: آیت الله سید علی خامنه ای,
مترجم :عبدالحسین کشمیری.

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمين.والصلاة والسلام علي سيدنا محمد وآله الطاهرين .

محرم کے حوالے سے دو باتیں ہیں ایک عاشورا کی تحریک کے بارے میں ،اگرچہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کے بارے میں بہت زیادہ کہا اور لکھا جاتا ھے.

 نہایت عمدہ باتیں اس سلسلے میں بیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ لیکن حقیقت میں عمر بھر اس کی درخشاں حقیقت کو بیان کیا جاسکتا ھے۔

جتنا بھی عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بارے میں غور کریں تو معلوم پڑھتا ہے کہ یہ معاملہ کئ اعتبار سے پر کشش اور کئ اعتبار سے تفکر کرنے اور بیان کرنے کے قابل ہے.

محرم کے حوالے سے دوسری بات جو بحث کرنے کے قابل ہے اور اس بارے میں کم ہی گفتگو کی جاتی ہے وہ حسین بن علی علیہ السلام کی عزادارای ، اور عاشورا کو زںدہ رکھنے کی برکتیں ہیں۔

حقیت میں اسلامی معاشرے میں شیعوں کا سب بڑا امتیاز اپنے دوسرے مسلمانوں پر یہ ہے کہ شیعہ معاشرے کے پاس عاشورا کی یاد ھے ۔

جس دن سے حسین بن علی علیہ السلام کی مصیبت بیان کرنا ایک باب بن گیا ، اھل بیت علہم السلام کے چاہنے والوں اور ماننے والوں کے ذہنوں سے معنویت اور فیض کے چشموں نے پھوٹنا شروع کیا ، 

یہ چشمے ابھی تک جاری اور ساری ہیں اور آج کے بعد بھی جاری رہیں گے جس کا راز عاشوار کی یاد ھے ۔

عاشورا کو بیان کرنا صرف ایک واقعہ کو بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے حادثے کو بیان کرنا ہے کہ جس کی طرف ابتداء میں بھی اشارہ کیا گیا کہ اس کے بے شمار اعتبارات ہیں ۔اسلئے یہ یادحقیقت میں ایک ایسا عمل ہے جو کہ بے شمار برکات پر محیط ہو سکتا ھے ۔

آپ توجہ فرمائیں کہ ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں رونا اور رلانا اپنی جگہ ایک مقام رکھتا ھے ۔کوئی خیال نہ کرے کہ فکر ، استدلال اور منطق کے سامنے رونے کا کیا کام اور یہ تو پرانی بات ہے ! نہیں ! 
ایسا سوچنا غلط ہے۔ جذبات کا اپنا مقام ہے اور منطق و استدلال کا اپنا مقام ہے ، ہر ایک کا ،انسان کی شخصیت میں اپنا کردار ھے ۔

 بہت سارے مسائل ایسے ہیں جو کہ محبت اور جذبات کے ساتھ حل کئے جا سکتے ہیں اور ان میں منطق اور استدلال کاعمل دخل نہیں ھے.

اگر آپ انبیاء کی تحریکوں کو دیکھیں ، تو آپ ملاحظہ کریں گے کہ جب پیغمبر مبعوث ہوتے تھے ، پہلے جو انکے ارد گرد جمع ہوتے تھے اس کا عامل منطق اور استدلال نہیں ہوتا.

 پہلا مرحلہ جذباتی اور احساساتی ھے ، البتہ ہر سچے جذبے کے پیچھے ایک فلسفی برھان موجود ہوتا ہے ۔مگر بحث اس بات پر ہے کہ جب نبی اپنی دعوت شروع کرتا ہے وہ اپنا فلسفی استدلال بیان نہیں کرتا ۔بلکہ سچا احساس اور جذبہ بیان کرتا ہے ۔ پہلے معاشرے میں جو ظلم جاری ہے ، 
جو طبقاتی اختلاف موجود ہے لوگوں پر « انداد الله » انسانوں اور انسان نما شیطانوں کی طرف جو دباو ہے اسکی طرف معطوف کرتا ہے۔یہ وہی جذبات اور احساسات ہیں ، البتہ جب تحریک اپنی معقول اور عادی سطح پر پہنچ جاتی ہے تو استدلال اور منطق کی نوبت آ جاتی ہے۔ 

عاشورا کا حادثہ ، ذاتی طور ایک سچے جذبے کا ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے۔ ایک عظیم انسان ، جسکی نورانی ، پاکیزہ اور ملکوتی شخصیت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، جن کے مقصد کے بارے میں منصفین عالم کا اتفاق ھے .

کہ وہ معاشرے کو ظلم و جور سے نجات دلانے کیلئے ہے ، تعجب بر انگیز حرکت شروع کردیتے ہیں ، اپنی حرکت کا فلسفہ جور کا مقابلہ قرار دیتے ہیں ، 

بحث مقدس ترین مقصد کے بارے میں ھے جو کہ منصفین عالم بھی قبول کرتے ہیں.

                     (جاری ھے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...