Saieen loag

جمعرات، 7 مارچ، 2019

لعنت کرنے کا حق کس کو ھے.

لعنت کرنے کا حق کس کو :

بنو امیه نے یھود کی طرح جو چالاکی کی وه یه تھی که دین و جاھلیت کو آپس میں ملا دیا.
               "تحریر : "سائیں لوگ                        
    
بھت دشوار ھے که ایک جاھل جھالت کو قبول کرکے توبه کر لے,

بعض توبه تو نھیں کرتے مگر ڈر کر مسلمان ھو جاتے ھیں,مثلا جس طرح ابو سفیان ڈر و زلت کے مارۓ مسلمان ھو گیا تھا.
 لیکن جاھلیت ترک نه کی لھذا تاریخ میں کردار سے ثابت ھے که بنو امیه ڈر کے مارۓ مسلمان ھوۓ لیکن جاھلیت و تعصبات نھیں چھوڑۓ.

بنو امیه کی جو مشکلات تھیں فردا فردا وھی مشکلات سب کو ھیں,
حتی که جو انھیں لعنت کرتے ھیں وه خود اسی لعنت میں مبتلا ھیں جیسے بنو امیه  اتنا ستم گر بنا که پهلے قریش اور بنوامیه نے رسول الله ص پر ظلم کیا.

 اور اس کے بعد آل رسول ص پر ظلم کیۓ پھر واقعه کربلا ھوا,اور اس کے بعد آج تک ستم گری جاری ھے.

ان سب کی بنیاد تعصبات اور جاھلیت پر ھے .

ایک طبقه بنو امیه پر ان کے بد کاموں کی وجه سے لعنت کرتا ھے که یه سب تم نے کیا لعنت ھو تم پر اور یعقینا یه لعنت کے مستحق بھی ھیں.

لیکن اکثر دیکھا گیا ھے که جو بنو امیه پر لعنت کرتے ھیں وه خود بھی اسی طرح کے تعصبات میں مبتلا ھیں,
جس جرم پر انھیں لعنت کرتے ھیں,اسی مرض میں خود بھی مبتلا ھیں.یه لعنت اپنی طرف بھی لوٹ کر آجاتی ھے.

لھذا دین کو جاھلیت اور جاھلیت کو دین کے ساتھ مخلوط کر دیا گیا ھے.

بنو امیه نے یھود کی طرح ھی دین و جھالت کو ملا دیا تھا اور قابل قبول بنا دیا.جاھلیت کا دین پر ایسا رنگ چڑھایا که اب لوگ اسے دین سمجھ کر عمل کر رھے ھیں.

اور آج بھی ھر طبقه کے اندر ایسا ھی ھے, دین کا رنگ جس جاھلیت پر چڑھ جاۓ وه ختم نھیں ھوتی.

 وه راسخ ھو جاتی ھے اور نسلوں میں منتقل ھو جاتی ھے ھم اسی طرح کی جاھلیت کے وارث ھیں,ھمیں جو چیز ملی ھے وه مخلوط ملی ھے.

منگل، 5 مارچ، 2019

زکر کربلا پر اجرت حلال یا حرام .

زکر کربلا پر اجرت حلال یا حرام :

"تحریر و تحقیق:   "سائیں لوگ                            

مقصد شھادت امام حسین ع اور دین فروش زاکر و خطیب کی منه مانگی فیسیں:
قرآن و احادیث معصومین ع کی روشنی میں مکمل تحقیقی پوسٹ.

اھل تشیع کیلۓ لمحه فکریه اھلبیت ع ھر دور میں مظلوم رھے آپنی جانوں کے نذرانے سمیت ان کے زکر پر بھی محب اھلبیت ع کو معاشی قربانی  دینی پڑتی ھے.

سب سے پهلی بات یه که منه مانگی بھاری اجرت لینے والے زاکر یا خطیب میں اور تو سب کچھ ھو سکتا ھے مگر اخلاص ھر گز نھیں ھو سکتا.

دوسرا سب سے بڑا جو نقصان ھوتا ھے وه ھے معاوضه لینے کے لالچ میں دینی احکامات میں تحریف جس وقت تبلیخ جنس کی صورت احتیار کر لیتی ھے.

 تو زاکر یا مبلغ سامعین کی ضروریات کو مد نظر رکھنے کی بجاۓ انکی مرضی پر توجه دینے لگتا ھے.

زاکر یا خطیب کوشش کرتا ھے که آپنی جنس ان کی مرضی کے مطابق منظم کرۓ چاھے اسے آپنی دنیا کیلۓ دین میں تحریف یا خود ساخته جھوٹی روایات کو بھی ترتیب کیوں نه دینا پڑۓ.

انھیں چیزوں اور بھاری فیس اور شھرت کی وجه سے آج کے زاکر یا خطیب نے واقعه کربلا کے حقائق اور تعلیمات اھلبیت ع کی حقیقت کو مسخ کرتے ھوۓ قیاس پر بھت غلو کیا ھے.

ھر زاکر پهلے زاکر سے زیاده واه واه اور چرچا کیلۓ جو آپنے زھن ناقص میں قیاس آیا پڑھتا چلا گیا سامعین سب گونگلو بن کر واه واه اور نعرۓ لگاتے جاتے ھیں,

 اس طرح ان بازاری زاکروں نے بغیر تحقیق کے خیالی مضمون بنا کر مقصد شھادت امام حسین ع کو نقصان پهنچا یا ھے.

آج ھم دیکھتے ھیں که قرآن و معصومین ع ان دین فروش,کربلا فروش مبلغین کے بارۓ کیا حکم دیتے ھیں.

فرمان الھی ھے معمولی دنیاوی مفاد کی خاطر میری آیات کو مت بٹورو.
سوره بقره ع:41.

قرآن پاک میں فرمان الھی ھے ان کی اتباع کرو جو تم سے اجرت نھیں لیتے.
سوره یسین ع:21,

جو لوگ الله سے ڈرنے والے ھیں وه الله کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر نھیں بیچ دیتے.
سوره آل عمران ع:199,

جو لوگ الله کی آیات کو چھپاتے ھیں اور اس کے عوض دنیاوی مفاد لیتے ھیں وه آپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ھیں.
سوره بقره ع:174,

ان رسولوں کی اتباع کرو جو تم سے کوئی اجرت نھیں لیتے .
سوره یسین ع:21.

حضرت لوط,شعیب,اور صالح ع نے فرمایا :
اور میں تم سے اجرت نھیں مانگتا میر اجر تو رب العالمین کے پاس ھے.

سوره شعرا ع:145/164/180.

حضرت ھود ع نے فرمایا:
آۓ میری قوم میں تم سے اس دین پر مال نھیں مانگتا میرا اجر میرۓ رب کے پاس ھے.سوره ھود ع:29.

دوسری جگه قرآن میں فرمان الھی ھے آۓ ایمان والو بھت سے عالم ,درویش اھل کتاب کے کھاتے ھیں مال لوگوں کے ناحق اور روکتے ھیں الله کی راه سے.

 سوره توبه ع:34,

نوح ع نے فرمایا میں کوئی اجرت طلب نھیں کرتا میرا اجر صرف الله کے پاس ھے.
سوره شعرا ع:109,

رسول الله ص نے فرمایا آپ کے دین میں اس پر کوئی اجرت کا تم سے سوال نھیں کرتا اور نه ھی تکلیف میں پڑتا ھوں .
سوره ص ع:86,

مذید اس طرح کے احکام آپ سوره بقره ع:41/86,
سوره نساء ع:44/سوره مائده ع:44,
سوره توبه ع:9/سوره النحل ر:95,سوره آل عمران ع:187,
میں ملحاظه فرما سکتے ھیں.
ھر نبی تبلیح اسلام کے ساتھ آپنے روزگار کیلۓ مختلف پیشے بھی آپناۓ ھوۓ تھے.
حضرت آدم ع زراعت,حضرت ادریس ع سلائی کاکام,حضرت زکریا ع صنعت ,حضرت داؤد ع زره بناتے تھے,کچھ انبیاء ع بکریاں پالی ھوئی تھیں,خود رسول الله ص تجارت سمیت بکریاں بھی رکھی ھوئیں تھیں.
واجبات و حقوق العباد سمیت تبلیخ دین بھی کرتے تھے.

انھوں نے صرف دین کی تبلیخ کو پیشه اختیار نھیں کیا اور نه ھی معصومین ع نے ایسا کیا تو پھر ان کے محب ایسا کیوں کر رھے ھیں.

اربوں کروڑوں کی جائیدایں زمینیں بنگلے لگژری گاڑیاں اور عیش و عشرت کی سب آسائشیںوں کو ترجیح کیوں .

کسی بھی معاوضے کے بغیر دین کی تبلیخ اور مدح و مصائب اھلبیت بیان کرنا افضل اور محبوب ترین اعمال میں سے ھے.

انبیاء ع اھلبیت ع اور اصحاب رسول ص اور تبع تابعین اور معروف و متقی علماۓ حقه و مجتھدین کرام نے کبھی بھی دینی کاموں میں اجرت نھیں لی.

لھذا مناسب ھے که انبیاء و معصومین ع کے نقش قدم پر چلنے والے علماء  کرام کو چاھیۓ که معاوضه نه لیں ,

عقائد,حلال و حرام عظمت اھلبیت ع تبلیح قرآن مصائب کربلا اور دیگر شرعی علوم کی تبلیخ و تعلیم پر اجرت کو کاروبار کے طور پرمت لیں.

قرآن اور اھلبیت ع دونوں ھم پلا ھیں انکی تعلیم پر اجرت لینا حرام ھے کیونکه یه شرعی امور ھیں.

اب ھم آتے ھیں قرآن کے بعد نھج البلاغه و دیگر فرامین معصومین ع کی طرف.

رسول اکرم ص نے فرمایا که الله پسند نھیں کرتا که کوئی اس وجه سے ھنر سیکھے تاکه اس کے زریعے  لوگوں سے بے نیاز ھو جاۓ لیکن جو اس وجه سے علم حاصل کرتا ھے تاکه اسے کاروبار بنا لے الله اس سے نفرت کرتا ھے.
ربیع الابرار جلد :2,ص:543.

مولا امیر المومینین ع نے فرمایا:
وه آخرت کے اعمال کے زریعے دنیا طلب کرتے ھیں اور دنیاوی اعمال کے زریعے آخرت طلب نھیں کرتے.
نھج البلاغه خطبه :32,
بحار الانوار جلد:78,ص:5

معلم کو چاھیۓ معاوضه کیلۓ تعلیم نه دے لیکن اگر اسے کوئی ھدیه دیا جاۓ تو اسے قبول کر لے .
تھذیب الحکام  ج:6,ص:365/حدیث:1047.

امام باقر ع نے فرمایا ھمارۓ زریعه لوگوں کا مال نه کھاؤ ورنه فقیر و نادار ھو جاؤ گے.
اصول کافی ص:521,

امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
جو شخص دینوی منفعت کیلۓ حدیث حاصل کرۓ آخرت میں اس کا کوئی حصه نھیں
اصول کافی ص:23باب المتاکسل بعلمه والمباھی.

امام جعفر صادق ع نے فرمایا خطیب یا زاکر پهلے فیس یا اجرت طے نا کرۓ بلکه قربة الی الله پڑھو اگر بعد میں کچھ دیا جاۓ تو اسے قبول کرو.

مھج الاحزان ص:12,طبع ایران.

مقتدر و جید علماء کرام نے بھی فیس یا اجرت کو طے کرنا جائز نھیں کھا بلکه یه کھا ھے قربة الی الله پر زور دیا ھے.

اور  کها که معاوضه لینے والے کو آخرت میں اجر و ثواب نھیں ملے گا.
بانیان کو بھی چاھیۓ که زاکر کے سفر و خرچ کو دیکھ کر سے ھدیه دیں.

افسوس سے کھنا پڑتا ھے که جب سے مجالس عزا کو کچھ پیشه ور لوگوں نے زریعه معاش بنا لیا ھے اسی وقت سے مذھب کی صحیح تبلیخ ختم ھو کر ره گئی ھے.
اب تو رفته رفته ان لوگوں کی ھوس زر اس قدر بڑھ گئی ھے که حلال و حرام کی بھی پرواه نھیں رھی یھاں تک که بعض پیشه ور زاکرین کنجر,اداکار,تھیٹر اداکار,اور ڈانسرز کے ھاں بھی مجالس پڑھنا اور ان سے فیس لینا معیوب نھیں سمجھتے.

بلکه کچھ نے تو آجکل ان کنجریوں سے شادی بھی کر رکھی ھے.

انشاء الله ماه جلد ھی اصلاح مجالس و عزاداری پر سیر حاصل بحث کریں گے تاکه مذھب تشیع کی حقیقی تعلیم اور مقصد کربلا کو عام کیا جاۓ.

دعاءگو :
                  "سائیں لوگ"

غالی مذھب حقه کیلۓ بدنامی کا سبب قوم.

فکر انگیز واقعه اگر غور اور تعصب  سے ھٹ کر پڑھ لیا تو:

                  " تحریر: "سائیں لوگ                                   

وکی شیعه میں ملل و نحل کے حوالا سے شیعه فرقوں میں اختلاف کے ساتھ جو تفصیل پیش کی ھے وه تین سے تین سو,(3 سے 300 تک)ھے.

 اس وقت مشھور فرقے ,غالی,نصیری,امامیه,کیسانیه,زیدیه,
اسماعیلی,بوھری ھیں پھر انکی آگے بھت شاخیں ھیں.

مگر اس وقت پاکستان میں چونکه آجکل جس فرقه نے اودھم مچایا ھوا ھے وه ھے غالی فرقه یه فرقه جناب علی ع کے متعلق الوھیت کا قائل ھے.

اور انکی عقل قرآن و نھج البلاغه پر غور و فکر کرنے کی بجاۓ آنکھوں اور کانوں میں آ گئی ھے.

یه گروه آۓ دن مذھب حقه اثناۓ عشریه کیلۓ مشکلات پیدا کر رھا ھے,
 اس گروه کی قیادت لندن سے امریکه,سعودیه,اور یھودیه ریاست کی مدد سے ایک مذموم سازش کے تحت آپنے مقاصد کی طرف بڑھ رھی ھے.
 وه مقاصد ھیں مسلمانوں میں انتشار و فتنوں کے زریعے کمزور کرنا ھے.  

ان لوگوں میں فکر و تدبر کا فقدان ھے وه کیسے ھم اس واقعه سے سمجھانے کی کوشش کرتے ھیں.

ایک شخص فوج میں بھرتی ھو گیا وه چھٹی پر گھر نھیں جاتا تھا اور پیسے بھی نھیں بھیجتا تھا.کئی سالوں سے دوستوں کے ساتھ عیاشی میں مصروف تھا.

بیوی,بچوں کو خرچه نه بھیجنے کی وجه سے بھت پریشان تھی ایک دن روتی ھوئی ایک مولانا کے پاس گئی جو محلے کی مسجد کا امام تھا.

  مولانا صاحب سے کھا که میرا خاوند آپ  کا مقتدی و مرید ھے.یه چند سال سے نوکری پر ھے نه خرچ بھیجتا ھے, نه آتا ھے  اور نه پتر(خط) بھیجتا ھے.آپ اسے کچھ نصیحت کریں.

ساتھ  ھی بیوی نے روتے ھوۓ مولانا صاحب سے رو کر کھا متاثر کرنے کیلۓ که یه کیسا شوھر ھے که اس کی زندگی ھی میں میں بیوه ھو گئی ھوں.

مولانا نے جب یه جمله سنا تو اسے بھت اچھا لکھا,
 اس نے خط میں یه جمله دھرا دیا,که تم کیسے شوھر ھو نه آتے ھو نا بچوں کو خرچه بھیجتے ھو ,اور نه ھی کوئی خط پتر یه کیسی زندگی بنا رکھی ھے که تمھاری زندگی میں ھی تمھاری بیوی بیوه ھو گئی ھے.

جب یه خط فوجی صاحب کو ملا وه پڑھ کر رونے لگا,
دوستوں نے پوچھا کیا ھوا ,کھنے لگا میری بیوی بیوه ھو گئی ھے.دوستوں نے پوچھا وه کیسے ساتھ ھی کھنے لگے کیا تیری بیوی تیرۓ نکاح میں ھے,

اس نے کھا ھاں ,فوجی سے پوچھا که وه زنده ھے,کھاں ھاں زنده ھے,

دوستوں نے کھا کیا تم زنده ھو فوجی نے کھا ھاں میں زنده ھوں دوستوں نے پوچھا که پھر کیسے بیوه ھو گئی,

کھنے لگا وه تو مجھے پتا ھے مگر یه بات چونکه مولانا صاحب نے لکھی ھے که تیری بیوی بیوه ھو گئی ھے تو مولانا صاحب تو غلط نھیں لکھ سکتے.

اب اس انسان کی عقل دیکھیں که یه شوھر ھے,
 زنده ھے  مولانا صاحب نے یه جمله متاثر کرنے کیلۓ احساساتی طور پر  لکھا,چونکه اس کی عقل آنکھوں میں تھی لھذا غور و فکر نه کیا اور رونا شروع کر دیا.

یه نھیں سوچا که میں تو زنده ھوں بیوی کیسے بیوه ھو گئی.

یه واقعه اس لیۓ لکھا که تاکه برادران غور فرمائیں که جب انسان کی عقل,زبانوں پر, آنکھوں اور کانوں میں آ جاۓ تو پھر انسان سوچتا نھیں,

 بلکه صرف سنتا,دیکھتا, بولتا اور چلتا اور ھاتھ پاؤں ھلاتا ھے.
لیکن اگر انسان کے اعضاء عقل میں چلے جائیں تو پهلے سوچتا ھے,سن کر غور کرتا ھے که جو مجھے سنایا جا رھا ھے کیا یه ٹھیک ھے یا غلط بات ھے.

یھی حالت مذھب حقه اثناۓ عشریه میں گھسے ان جاھل غالی بدعقیده لوگوں کی ھے,

جنکی عقل آنکوں اور کانوں میں آ گئی ھے .جو ایک انپڑھ جاھل زاکر جسے قرآن کا علم نھیں فقه و شریعت پر عبور نھیں صرف,نجو,علم کلام کا درس نھیں لیا, کربلا کی تاریخ اور مقصد قیام کربلا پر مکمل آگاھی نھیں.

جنھوں نے مستند مقتل کی کتب نھیں پڑھیں ریسرچ نھیں کی وه لوگ منبر حسین ع پر چڑھ دوڑۓ ھیں,

جو زھن میں سچ جھوٹ آتا ھے پڑھتے داد اور نیاز لیتے چلتے بنتے ھیں.

سننے والے رونے اور نعروں پر زور رکھتے ھیں بانی کی کوشش ھوتی ھے اس کا نام پیدا ھو,زاکر لینے اور بانی دینے پر تلا ھوا ھے.چرچا,شھرت اور وقتی راحت کیلۓ سر ساز میں دونوں فریق گم ھیں.

کبھی عوام نے غور نھیں کیا که پڑھنے والا کیا پڑھ رھا ھے,
 قرآن میں کیا لکھا ھے معصومین ع نے کیا فرمایا ھے, جیسے سنا اسے قبول کر لیا اور نه کبھی نوبت آئی که دین کو سمجھنے کیلۓ احکامات  قرآن و نھج البلاغه کی طرف رجوع فرمائیں,

 اور انھیں تعلیمات پر ھی زندگی استوار  کریں جس پر معصومین  علیھم اسلام عمل کر کےکامیاب ھوۓ .

غالی آپنے ھی جھوٹ پر عقیده بنانے والے لوگ

ایک غالی نے کس طرح غریب عوام کو جھوٹ بولا پھر اسی جھوٹ پر آپنا ھی یعقین(عقیده) بنا بیٹھا:
                         تحریر : "سائیں لوگ                                         

                                         

تحریر کا حاصل:

ھمارۓ گھریلو جھگڑۓ,ملکی و قومی جھگڑۓ,مذھبی جھگڑۓ یه سب اس وجه سے ھیں که,

ایک بے وقوف نعره لگاتا ھے دوسرۓ سب بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے چل پڑتے ھیں.

ایسے ھی ایک شخص نے جھوٹ بولا که محلے میں فلاں جگه کچھ لوگ بریانی بانٹ  رھے ھیں.

سارۓ لوگوں نے برتن اٹھاۓ اور بریانی لینے کیلۓ بھاگ پڑۓ.

جب لوگوں کا رش دیکھا تو خود اس نے سوچا که شائد واقعی چاول بانٹے جا رھے ھیں.یه خود بھی برتن لے کر دوڑ پڑا.

حالنکه اس نے جھوٹ بولا تھا اور لوگوں کے ساتھ مذاق کیا تھا.

 لیکن جب اس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو دوڑتے دیکھا تو یه خود بھی اٹھ کر دوڑ پڑا که کھیں سچ میں بریانی دے ھی ناں رھے ھوں اور میں محروم نه ره جاؤں.

یھی کیفیت ھمارۓ غالی شیعوں کی ھے جو فکر نھیں کرتے که فلاں زاکر کی بات سچ بھی ھے که نھیں.

بس ایک زاکر سے سننے والا اسی پیغام کو دوسرا زاکر آگے بغیر تحقیق کے بیان کر دیتا ھے .
جب دو چار زاکروں سے وه واقعه سنا جاتا ھے تو   اسی طرح عوام میں وه  جھوٹ ایک عقیده پخته کا روپ دھار لیتا ھے. 

مقصد تحریر:

ھر انسان کو الله تعالی نے غلط و صحیح کی پھچان کیلۓ عقل و شعور عطا کیا ھے.

مگر بعض انسان ایسے بھی ھیں جو آپنے ابا و اجداد کے طور,طریقے,رسم و رواج کو ھی حق سمجھتے ھوۓ انھیں پر ھی زندگی گزار دیتے ھیں.
 کبھی کوشش نھیں کی که جس راسته پر ھم چل رھے ھیں کھیں غلط تو نھیں.

انھوں نے کبھی یه زحمت نھیں کی که جو رسمیں یا عقائد ھم آپناۓ ھوۓ ھیں انکی حقیقت کیا ھے.

اس طرح انکی زندگی گزر کر ختم ھو جاتی ھے بلکه ایسے افراد کی تعداد کثیر ھے کچھ ھیں جو تحقیق و ریسرچ کرتے ھیں.

وھی لوگ ھیں جو بالاخر کامیاب ھوتے ھیں اور وه معاشرۓ میں اصلاح و رسم و رواج کا توڑ کرتے ھوۓ حق کی حفاظت و تبلیخ کرتے ھیں.

جب رسول الله ص نے دین کی تبلیح عام کی اور یھود قبائل کو دعوت اسلام دی تو انکا جواب یھی تھا که ھم آپنے ابا واجداد کا دین چھوڑ کر آپکے نۓ دین کو آپنائیں.

ایسا ممکن نھیں, جواب میں الله تعالی نے فرمایا اگر تمھارۓ ابا و اجداد غلط تھے تو کیا تم بھی اسی غلطی پر رھو گے.

ایسے لوگوں کی بھت بڑی تعداد ھمارۓ مذھب شیعه میں بھی گھسی ھے اکثریت قرآن و فرامین معصومین ع سے نا واقف ھے.

که حقیقت کیا ھے, قرآن میں کیا ھدایات ھیں معصومین ع نے ھمیں کیا سیرت و احکامات دیۓ ھیں.
 بس انکی پهنچ صرف مجلس عزاء تک ھے اس مجلس سے زاکر یا خطیب سے جو سنا اسے ھی دین سمجھ لیا,درست مان لیا.

 کبھی سوچا نھیں که یه باتیں درست ھیں یا غلط.

بدقسمتی سے ھماری مجالس ان افراد سے جڑی ھیں جنھیں دینی تعلیم میں خاص علم نھیں بس کچھ عرصه کسی زاکر کے پیچھے سر ساز,اور طرز سیکھنے پر لگاۓ.

 اور کچھ دوھڑۓ یاد کیے,دو چار شھداۓ کربلا کی کیفیت شھادت کا مضمون بنا کر ھزاروں لاکھوں لوگوں کو دین و مذھب اور مقصد کربلا  کی آگاھی دینی شروع کر دی.

 لوگوں کا میعار یه ھے که اگر کوئی عالم کھے که یه عمل شریعت و اسلام میں نھیں تو کھتے ھیں کیا فلاں زاکر صاحب نے یه کھا کیا وه غلط ھے بھت بڑۓ زاکر ھیں وه روزانه چار پانچ مجالس پڑھتے ھیں ھزاروں لوگ سنتے واه واه اور دھاڑیں مار کر روتے ھیں بھلا وه کیسے غلط ھو سکتے ھیں.

ان لوگوں نے غلط جھوٹ روایات پر فضائل و مصائب تیار کیۓ ھوۓ ھیں, اور عوام ھے کبھی ان روایات کو جانچنے کی زحمت نھیں کرتے.

اصول کافی میں 34 کتابیں، 323 باب ھیں، اور کل احادیث 16 ھزار کے قریب ھیں.
 جن میں سے، صحیح 5072، حسن 144، موثق 178، قوی 302، اور ضعیف 9485 احادیث ھیں.جو صحاح سته سے 199 احادیث زائد ھیں.اب یھاں کیا جاۓ.

 16000/ھزار سے زائد احادیث جمع ھیں مگر جو مستند ھیں وه پانچ ھزار (5,000)سے کچھ اوپر ھیں.

مگر جو لاریب کتاب ھے جس میں ابھام و غلطی کا شائبه نھیں (قرآن مجید)اسے کوئی پڑھتا نھیں.

یھی وجه ھے مسلمانوں کی یھود و نصاره سے بھی بڑھ کر فرقے ھیں.

جن پر لکھنے کیلۓ سینکڑوں طولانی پوسٹ  لکھنی پڑیں گی.

پهلے بھی ھماری پوسٹ طولانی ھونے پر بھت کم لوگ پڑھتے ھیں.
جب تک بات کا مقصد واضح نه ھو تحریر بے معنی ھے.

صرف مذھب حقه میں ان گنت گروه ھیں جو ھر ایک دوسرۓ کو گمراه اور غلط کھتا ھے.

حالنکه قرآن و نھج البلاغه پر عقیده بھی رکھتے ھیں.

اور انھیں دونوں سے تمسک پر ھی پیغمبر اکرم ص نے زور دیا ھے.

روایت کا میعار معصومین ع کی طرف سے یه ھے که جو روایت حکم قرآن کے متصادم ھو اسے رد کر دیا جاۓ.وه جھوٹ ھے.

علماۓ حقه کو خاموش کرنے کی سازش

دین و مقصد کربلا  سے ناواقف,

 زاکر کو باب علم کے مذھب کی تبلیخ کیلۓ منتخب کرنا بانیان مجالس و مومینین  نے دانشمندی کا ثبوت نھیں دیا.

                   تحریر : "سائیں لوگ"

ایک روایت میں ھے که اگر جاھل خاموش رھیں تو دنیا کی آدھی مشکلات حل ھو سکتی ھیں.

باقی جو آدھی مشکلات ھیں وه علماء حقه کے بولنے سے حل ھو جائیں گی.

       مگر جس مذھب و معاشره میں جاھل کو کھلی چھوٹ دی جاۓ که,
 وه سچ جھوٹ بیان کرتا جاۓ اور لوگوں میں وسوسے اور گمراھیاں پھیلاتا جاے اور سننے والے,
 خاموش تماشائی بنے رھیں تو وه مذھب جلد مشکلات میں ڈوب کر تنزلی کی طرف چلا جاتا ھے .

ایسا ھی کچھ,
دوسرۓ مذاھب کی طرح ھمارۓ مذھب حقه اثناۓ عشریه کے ساتھ بھی ھوا ھے.

عالموں کی زبان بندی کرتے ھوۓ  جاھل زاکروں کے حوالے منبر کر دیا ھے,

 یه لوگ وه کچھ بول جاتے ھیں جو نه قرآن میں ملتا ھے اور ناں ھی فرامین معصومین ع میں.

ان لوگوں نے منبر دین ,منبر رسول,منبر علی,منبر حسین ع کی حرمت کو پامال کیا ھے .

اس منبر سے دین اسلام ,عظمت توحید و رسالت ص اور محنت آل رسول ص (قربانیوں) کا زکر ھونا چاھیۓ تھا.

مگر افسوس صد افسوس یھاں انڈیا و نور جھاں کے گانوں (  میں اڈی اڈی جاواں ) کی طرز پر قرآن و  مصائب کربلا پڑھا جا رھے.

اس عمل میں زاکر کے ساتھ بانی مجلس اور سامعین برابر کے قصور وار ھیں.

اب بھی وقت ھے بانی مجالس اور عام مومن بیدار ھوں,
 ابھی بھی کچھ زیاده نھیں بگڑا حالات کی نزاکت کو پرکھتے ھوۓ سب مومنین کرام متحد ھو کر مجالس کی روش کو بدلیں.

جاھل انپڑھ زاکر سے دین,فکر کربلا ,عظمت توحید و اھلبیت ع نه سمجھیں کیونکه ان لوگوں نے کم علمی کی وجه سے سب بگاڑ کر مخلوط کر کے پیش کرنا ھے.

براه کرم اھل علم کومنبر کی زینت بنائیں یه پاکیزه منبر اھل تقوی  علماء حقه کی امانت ھے,
 باب علم و حکمت کے ماننے والوں سے یه امید نه تھی که منبر حسین ع کو مراسیوں سر,ساز والے گویوں کے حوالے کر دیں.

علماء حقه وارث علوم انبیاء و معصومین ع ھیں.
 جب یه منبر پر آئیں گے تو ضرور درست توحید بھی سمجھ آۓ گی اسلام کی تعلیمات پر راھنمائی ھو گی,مقصد کربلا بھی معلوم ھو گا .

کربلا صرف رونے اور ماتم کرنے کا نام نھیں بلکه آپنی زندگیوں و کردار میں ڈھالنے کا نام ھے.

جاھل کے بولنے سے شعلے نکلیں گے فساد ھو گا قتل و غارت ھو گی.

جبکه عالم کی زبان سے علم کا نور نکلے گا معاشره نورانی ھو گا جس کے اندر علم ھو گا اس کے اندر سے جھالت نھیں,

 بلکه نورانیت,امن,اخوت, پیار و محبت,اتحاد,عزت و احترام کی تعلیم نکلے گی.

حاجتوں کی قبولیت پر عظمت کے قائل دھمالی,بھنگڑالی,غالی شیعه

حاجتوں کی قبولیت پر عظمت کے قائل دھمالی,بھنگڑالی:
                    
                 " تحریر:"سائیں لوگ                                       

حقیقی باعمل محبان نے ھر دور میں اھلبیت علیھم اسلام کی سیرت و عظمت پر جان کی پرواه کیۓ بغیر خالص محبت و عقیدت کا ثبوت دیا ھے.

اور عظمت اھلبیت ع دین اسلام و مذھب و ملت کی خاطر بے بھا قربانیاں پیش کی ھیں اور کر بھی رھے ھیں.

مگر کچھ نام نھاد عقیدت گزار ایسے بھی ھیں جو عموما لالچ در دین رکھتے ھیں.

یه صرف آپنی غرض و حاجات کی وجه سے دین و اھلبیت ع سے لگاؤ رکھتے ھیں جیسے ھم آپنے معاشره میں بعض وه لوگ بھی دیکھتے اور سنتے ھیں,

 که وه یھاں گیا,وھاں گیا فلاں دربار و بزرگ کے پاس گیا , مگر اسکی مراد پوری نه ھوئی.

پھر ھم اسے کھتے ھیں که علم عباس ع کی منت مانو یا زوالجناح سے حاجت کی درخواست کرو یا حاجت کی برآواری پر مجلس حسین ع کی منت مانو.

کربلا کو منت تک نھیں بلکه  مقصد و آپنی زندگیوں میں ڈھالنے  تک سمجھنے کی ضرورت ھے

بعض اوقات قدرتا یه منتیں پوری ھو جاتی ھیں پھر ھم کھتے ھیں یه پکا مومن ھے کیونکه علم,زوالجناح یا فلاں دربار سے منت پوری ھو گئی.

نھیں برادران ایسا نھیں ھمارا داتا و مشکل کشاء صرف الله تعالی کی زات ھے ان لوگوں کے دل میں علم کی عظمت  ھے مگر الله تعالی کی نھیں.

یه لوگ آپنی حاجات کے پیچھے ھیں اگر انکی حاجت کسی قبرستان یا دربار کے درخت سے پوری ھو تو یه درخت کے پیچھے لگ جاتے ھیں.

یا اگر کسی جانور یا قبر سے پوری ھو تو یه جانور کو مشکل کشاء سجھتے ھیں.

یه لوگ آپنی حاجات کی قبولیت پر ھی عظمت و شرف دیتے ھیں.

یه بھنگڑالی دھمالی لوگ دین و اھلبیت ع سے مخلص نھیں ھوتے بلکه ان کا طرز زندگی ھمیشه اھلبیت ع و قرآن کی تعلیم سے متصادم رھا ھے.

یه لوگ بیماروں اور بچوں کی شفاء کسی بزرگ کی پھکی یا دم درود یا تعویز سے لینے کی کوشش کرتے ھیں.

ان بھنگڑالی لوگوں کو توحید و دین سے کوئی غرض نھیں ھوتی انھیں صرف آپنی حاجات تک غرض ھے.

یه لوگ نه الله تعالی کو مانتے ھیں اور نه ھی اھلبیت ع اور  اولیاء الله کو یه صرف اس کو اھمیت دیتے ھیں جھاں سے انھیں شفاء, بچے و حاجات پوری ھوں.

جو بھی بچه و شفاء دے صرف اسی کی حرمت و عظمت کے قائل ھیں.

اگر یھه دھمالی  لوگ انڈیا میں ھوتے تو مندر کی مورتی یا گاۓ کو مس کرنے سے انکی حاجت پوری ھوتی تو یه اسے بھی پوجتے و ماتا مان لیتے.

اب چونکه یه لوگ انڈیا میں نھیں لھذا یھاں زوالجناح و علم سے مرادیں پوری کروا کے معبود بناۓ ھوۓ ھیں.

ھم کھتے ھیں اھلبیت ع کی نسبت پر احترام کریں مگر انھیں مشکل کشاء نه سمجھیں.

یھاں ایک اھم واقعه یاد آ گیا ھے عراق میں ایک امام زادۓ کا مزار ھے وه کسی امام کی اولاد میں سے ھیں لیکن خود معصوم امام نھیں.

لیکن ان کے دائیں طرف ایک امام ع کا مزار ھے اور بائیں طرف بھی امام ع کا روضه ھے کاظمین سامراه میں ایک امام زادۓ کا مزار ھے وھاں لوگ زیاده نذریں چڑھاتے ھیں.

 سب سے زیاده وھاں بکرۓ زبح کرتے ھیں اور سب سے زیاده لوگ وھاں حاضری دیتے ھیں.

مومنین کسی جگه جائیں یا نه جائیں مگر اس امام زادۓ کی قبر پر ضرور جاتے ھیں کیونکه مشھور ھے که یھاں کسی کی حاجت رد نھیں ھوتی.

اب توجه کریں باره اماموں میں سے  دو معصوم امام علیھم اسلام مولا جواد ع اور امام عسکری ع کاظمین و سامره میں ھیں ان کے بیچ ایک امام زاده کا روضه ھے,

 مگر لوگ ان دو امام علیھم اسلام کے پاس حاجات کیلۓ نھیں جاتے مگر امام زادے کے پاس ضرور حاجات لے کر جاتے ھیں کیونکه یھاں جاجات ضرور پوری ھوتی ھیں 

لھذایه واضح ھے که یه لوگ دین و اھلبیت ع کے پیچھے نھیں بلکه حاجتوں کے پیچھے ھیں.

 یه حاجتیں جس در سے پوری ھوں جائیں یه بھنگڑالی و دھمالی لوگ اس در کے سجدۓ شروع کر دیتے ھیں.

غلاة کے پاس جھنڈا امیر ع کا اور ایجنڈا امیر شام کا ھے.

غلاة کے پاس جھنڈا مولا علی ع کا,  اور ایجنڈا امیر شام کا ھے :

              " تحریر : "سائیں لوگ                                 

دو گروھوں نے  اھلبیت علیھم اسلام کا بھت نقصان کیا ھے.

ایک ناصبیت دوسرۓ غالیت,ناصبیت نے دشمنی اھلبیت ع میں اور غالیت نے محبت اھلبیت علیھم اسلام میں غلو اور جھوٹی محبت کے دعوی میں .

اگر ھم اھلبیت ع کے صرف ووٹر ھوں اور یه سوچ رکھیں که ھم سے فقط یه پوچھیں که کس پارٹی میں تھے اور تم نے کس کا جھنڈا اٹھایا, ھوا تھا ,

تو ھم جواب دیں که پرچم جناب علی ع یا پرچم حسینی و مولا غازی عباس ع اور اسی پرچم سے محبت و احترام کے عوض نجات ھو جاۓ,

 تو یه خام خیالی ھے ایسا ممکن نھیں کیونکه آئمه اھلبیت علیھم اسلام جھنڈا کی سربلندی کے ساتھ ایجنڈا بھی دیکھیں گے.

ایسا نه ھو که جھنڈا تو جناب امیر ع کا ھو اور ایجنڈا امیر شام کا ھو.

کامیابی و نجات کیلۓ جھنڈا و ایجنڈا امیر المومینین علیه اسلام کا ھونا ضروری ھے.

ایسا نه ھو که جھنڈا تو علی ع کا ھو اور ایجنڈا شیطان کا ھو.

ایسا نه ھو که جھندا تو حسین ع اور مولا غازی عباس ع صاحب وفا کردگار کا ھو اور ایجنڈا یذید و شمر کا ھو جسکا جھنڈا ھو زندگی میں کردار میں ایجنڈا بھی اسی کا ھو دھوکا,فریب ,بے وفائی نه ھو.

دونوں چیزیں دیکھی جائیں گی که جھنڈا کس کا تھا اور ایجنڈا کس کا تھا منشور کس کا تھا زندگی کس کے راه پر گزاری کھیں صاحب جھنڈا  دھوکا تو نھیں کر رھا.

تاریخ اسلام میں کئی دفعه ایسا ھوا ھے لوگوں نے جھنڈا اھلبیت ع کا اٹھایا اور ایجنڈا دشمنوں کا اٹھایا ھوا تھا.

بنو امیه جب نابود ھوۓ اور بنی عباس برسر اقتدار آۓ تو حکومت کی اس تبدیلی میں بھی شیعه پیش پیش تھے.

شیعوں نے یه کام کیا که بنو امیه کے خلاف ریلیاں نکالیں,جلوس نکالے اور شیعه ھی بنی امیه کی نابودی کا باعث بنے.

ابومسلم خراسانی جیسے کمانڈر آپنے ساتھ سپاه لے کر گۓ اور بنو امیه کو شکست دی .

انھوں نے جھنڈا اھلبیت ع اور انتقام خون حسین ع کا اٹھایا ھوا تھا لیکن ان کے پاس ایجنڈا اھلبیت ع کا نھیں تھا بلکه ایجنڈا بنو عباس کا تھا.

ایسے ھوتا ھے شیعه کے ھاتھ میں جھنڈا کسی کا دے دو اور ایجنڈا کسی اور کا دے دو.

یھی کام آجکا غالی شیعه کر رھا ھے جھنڈا غازی عباس ع کا ھاتھ میں لے کر ایجنڈا یذید و معاویه پر عمل پیرا ھے مذھب اھلبیت ع کی تعلیمات کی دھجیاں اڑا رھے ھیں نماز روزه و حج کے منکر ھیں اور کھلم کھلا مخالفت بھی کر رھے ھیں کھتے ھیں یه نماز تو مثل زنا ھے جو تم لوگ پڑھتے ھو.

پیغام مقصد قیام کربلا کو رسومات و بدعات سے ناکام بنانا چاھتے ھیں.

اور ایسے ایسے افعال سرانجام دے رھے ھیں جن سے ھر زی شعور عقل انسانی    بھی شرمنده ھے.

مگر یاد رھے جناب علی ع وه امام نھیں ھیں جو پیرکاروں کے جھنڈۓ سے دھوکا کھا جائیں,

 بلکه امیر المومینین ع فرماتے ھیں که جب سے میں نے ھوش سنبھالی ھے نه کسی کو دھوکا دیا اور نه کسی کے دھوکا میں آیا ھوں.

ایسا ممکن نھیں که ھر جھنڈا علی ع اویزاں و اٹھانے والا پیروان جناب امیر ع میں گھس جاۓ جس کا زندگی میں  ایجنڈا معاویه و شیطان کا ھو.

اور گھسنے والے کا جناب علی ع کو پتا ھی نه چلے که میری صف میں کون آیا ھے.

جناب امیر ع کی وه الھی نگاھیں ھیں که جب مدینے میں سب امیر ع کی بیعت کر رھے تھے تو ابن ملجم بھی بیعت کرنے آیا,

 اور جب یه لعین ھاتھ پر بیعت کرکے جا رھا تھا تو آپ نے پوچھا که بیعت کی ھے تو یه لعین کھنے لگا سب کے سامنے بیعت کی ھے آپ کے ھاتھ پر ھاتھ رکھا ھے اگر چاھیں تو دوباره سب کے سامنے بیعت کرتا ھوں,

 اس نے دوباره سب کو متوجه کرتے ھوۓ بیعت کی,
 مولا ع نے فرمایا مجھے تعجب ھو رھا که تم نے بیعت نھیں کی,

 اسی طرح اس نے تین بار ظاھری بیعت  کی مگر مولا علی ع نے فرمایا میری روح تیری روح سے مانوس نھیں ھے,

 تو مجھے آپنا نھیں لگتا بلکه اجبنی لگتا ھے حالنکه یه ملجم اسی شھر کا رھنے والا تھا اور جناب علی ع کی سپاه میں موجود تھا.

پیر، 4 مارچ، 2019

امام حسین ع کی ولادت و شھادت بے مثال ھے.



امام عالی مقام حضرت حسین ع کی نه صرف شھادت بلکه ولادت بھی بے مثال ھے:

کیونکه دنیا بھر کے اطباء اور ماھرین زچگی اس بات سے اتفاق کرتے ھیں که سات یا آٹھ  ماه کے حمل کا بچه تو پھر بھی زنده ره سکتا ھے جبکه چھ ماه  کے حمل کی اولاد کا زنده رھنا ناممکن کے قریب ھے.

(شواہد النبوۃ، ۲۲۸، مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)​

 کیونکه گرمی و سردی کی شدت و حدت جب نو مھینے والا برداشت نھیں کر سکتا اور اخبارات و ٹی وی چینلز پر یه خبریں بھی سننے کو ملتی ھیں که آج فلاں جگه اتنی شدید گرمی پڑی جس سے اتنے بندے یا بچے جاں بحق ھو گۓ اور فلاں جگه اتنی سردی سے اتنے مر گۓ.

تو چھ مھینے کے حمل والا بچه موسم کی صعوبتوں کا مقابله کس طرح کر سکتا ھے.
اس کائینات میں دو ھی متولد ایسے ھیں جن کی ولادت چھ ماه کے حمل سے ھوئی ایک حضرت یحیی ع اور دوسرۓ امام حسین ع.

امام حسین ع کی کرامت:

رُخسار سے انوار کا اظہار
حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں حضرت امام عالی مقام امام حسین ع کی شان یہ تھی .
کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ علیه اسلام کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (یعنی روشن) ہو جاتے۔ (شواھد النبوة ص 222.

مگر امام حسین ع چھ ماه کے حمل کی اولاد ھیں اور دنیا کو بتا دیا که نو مھینے والے مرتے ھیں تو مر ھی جاتے ھیں آؤ آج دیکھو چھ ماه والے مرنے کے بعد بھی زنده ھیں اور یعقین نھیں تو قرآن پڑھ کر دیکھ لو
 (ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل الله اموات)

یا مجھے شام و کوفه کے بازاروں میں کٹے ھوۓ سر کے ساتھ نیزۓ کی نوک پر قرآن پڑھتا ھوا سن لو.

اولاد فاطمه نه ھو دیں پر نثار کیوں.

نقصان دین ھے اصل میں نقصان فاطمه .

باب بتول ھو که در خیمه حسین 

ھر" حال "میں لٹا سر و سامان فاط
مه.

ترک واجبات کفر ھے.

 ترک واجبات کفر ھے.


معصومین علیه اسلام کی روایات میں بیان ھوا ھے که واجبات الھی میں سے کسی بھی واجب کا چھو ڑنا گناه کبیره ھے.

جیسا که قرآن مجید میں ھے 
ترجمه :
جو لوگ خدا اور اس کے رسول ص کے فرمان کی مخالفت کرتے ھیں انھیں ڈرنا چاھیۓ که کھیں فتنه یا درد ناک عزاب کی لپیٹ میں نه آ جائیں.
(سوره نور ع:63)

وسائل الشیعه میں جناب مفضل سے منقول ھے که امام جعفر صادق ع نے فرمایا:

جو شخص خدا کا کوئی فرض ترک کرۓ یا گناه کبیره میں سے کسی گناه کا ارتکاب کرۓ تو الله اس کی طرف نگاه کرم نھیں کرۓ گا اور نه ھی اسے پاک کرۓ گا.

مفضل نے عرض کیا تو خدا اس کی طرف نگاه کرم نھیں کرۓ گا.
امام نے فرمایا:
ھاں اس نے الله کے ساتھ شرک کیا
امام نے فرمایا ھاں الله نے اسے ایک حکم دیا اور شیطان نے بھی اسے ایک حکم دیا اس نے الله کے فرمان کو چھوڑ دیا اور شیطان کے حکم پر عمل کیا ایسا شخص شیطان کے ساتھ دوزخ کے پست ترین درجے میں ھو گا.

نھی عن المنکر :

کے ترک کے متعلق رسول خدا ص نے فرمایا :

ان الله عزوجل لیبغض المومن الضعیف الزی لا دین له.

الله کو وه کمزور مومن ناپسند ھے جس میں دین نھیں ھے.
صحابه نے پوچھا یا رسول الله دین نه رکھنے والا کمزور مومن کون ھے .
آپ نے فرمایا اس سے مراد وه شخص ھے جو برائیوں سے منع نھیں کرتا.
(کافی جلد 5,ص:59)

وسائل الشیعه میں ھے که امام محمد باقر ع نے فرمایا:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ھے.
نماز ,زکواة,حج,رمضان کے روزے اور ھم اھلبیت ع کی ولایت.
ایک اور روایت میں ھے که ولایت باقی تمام فرائض سے افضل ھے بلکه باقی فرائض کی کنجی ھے .
اس میں کوئی رعایت نھیں اس کا چھوڑنا اور نماز,روزه,حج,زکواة,کی فرضیت کا بھی 
چھوڑنا کفر ھے.

(وسائل الشیعه ج1,ص,23)
"از قلم :"سائیں لوگ"

غالیوں کے باطل عقائد کی تائید حرام ھے.

گمراھوں,ظالموں اور گمراه کرنے والوں کی تائید کرنا حرام ھے :

الله پاک نے ھر انسان کو عقل دی انبیاء ع بھیجے ھدایت کیلۓ کتابیں(قرآن) بھیجیں اس کی تشریح کیلۓ اھلبیت ع کو بھیجا.

تاکه اصلاح کے ساتھ ساتھ  شرک اور گمراھی سے الله کی مخلوق کو  بچایا جاۓ.

اب جو بھی ان سے ھٹ کر گمراھی کا راسته آپناۓ تو اس کیلۓ بروز محشر کوئی جواز نھیں که یه کهے که مجھے خبر نه دی گئی.

اسلام کی تعلیم یه ھے که جو کسی گمراه کی گمراھی میں تائید کرۓ اس کا ساتھ دے اور اسکی گمراھی کی اشاعت میں معاون بننے کا متمنی ھو تو وه بھی ظالم ھے .

ھر مسلمان پر لازم ھے که اس سے کناره کشی اختیار کرۓ اور آپنے عقیده کی قرآن و معصومین ع کی روشنی میں تعمیر اور حفاظت کرۓ.

الله پاک نے قرآن مجید میں گمراه اور اھل ستمگروں کے پیروکاروں کو چند اصناف میں تقسیم کیا ھے.

1---:شیطان اور اس کے پیروکار.

2----:مدعیان باطل اور اس کے پیروکار.

3---:مکتب اھلبیت ع سے منحرف افراد اور ان کے پیروکار.

4---:نفس اماره کی پیروی کرنے والے.

5---:طاغوت(ظالم حکمران) اور ان کے پیروکار.

یه بھی ممکن ھے که کسی شخص کے ایک عمل میں مذکوره تمام عوامل موجود ھوں .

قرآن میں ھے ھر نبی ع کے دور میں ایسے  گروه موجود تھے جو باطل دعوت دیتے تھے یه اصول گزشته انبیاء تک نھیں بلکه رسول الله ص کے دور میں بھی گمراه کن گروه موجود تھے اور مسلسل ھیں.

پر الله پاک نے جھاں باطل گروه جو گمراھی کی دعوت دیتے ھیں وھاں ایک گروه ایسا رکھا جو حق بات کی دعوت دیتا آیا ھے.

اس قرآن کی آیت میں پوری اس گروه کی وضاحت دی گئی ھے. سوره الانعام آیت 113/115.

الله پاک نے واضح کیا که وه انبیاء اور آئمه معصومین ع کے  دشمنوں کی پیروی ناں کریں.
نه ھی انکی باتیں سنیں نه عمل کریں ورنه وه منحرف اور اھل شک قرار پائیں گے.

مذید آپ ان گمراه لوگوں کے متعلق درج زیل سورتوں سے وضاحت لے سکتے ھیں.

سوره آل عمران :آیت 44.
سوره فرقان :آیت 27/29
سوره فرقان :آیت 30/31

گمراھی سے بچیں اور سنی سنائی باتوں پر نھیں بلکه خود دین میں تحقیق کریں اھل حق علماء سے رجوع کریں وگرنه گمراه ھو جائیں گے.

 اور پاک نبی ص کی اس حدیث پر عمل کریں که قرآن و اھلبیت سے جڑۓ رھیں تاکه گمراھی کا اندیشه نه رھے.
 ھاں اگر کسی ایک کو بھی چھوڑ دیا گمراه ھو جاؤ گے

"
از قلم :"سائیں لوگ"

غالی اور قالی فتنه ھیں.

حق و باطل کی باھمی کشمکش:


"تحریر:"سائیں لوگ                                                

غالی اور قالی فتنه ھیں ان دونوں کا ستیاناس ھوگیا.
(نھج البلاغه:حکمت نمبر:117)

اھل باطل ھمیشه بلا روک ٹوک آپنی من مانی کی کاروائیاں کرتے رھے ھیں.

 مگر تاریخ عالم کے صفات شاھد ھیں که کبھی ایسا نھیں ھوا بلکه ھمیشه قدرت کامله نے آپنے زبردست  دست قدرت سے ان کے مکر و فریب کے پرده کو چاک کیا ھے.

 ان کے باطل منصوبوں کو خاک میں ملایا ھے ان کی تمام زھنی خرافات و فلسفی قیاسی عیاریوں کو ناکام بنایا اور ھمیشه ان کے نا پاک ارادوں کو خاک میں ملایا.

یه لوگ ھمیشه حقائق سے ھٹ کر آپنی عجیب منطق پر بضد رھے یه اب نھیں شروع میں بھی ایسے لوگوں کے زھنوں میں الجھنیں پیدا کر کے آپنے مضموم مقاصد دنیاوی لالچ میں فروخت کرتے رھے.
ھر نبی ع کی امت میں شرک رھا اگر تاریخ کا مطالعه کریں عام بندۓ نے بھی شعبده بازی سے کوئی کرتب دکھایا تو جاھل لوگوں نے اسکی پرستش شروع کر دی.

امام جعفر صادق ع فرماتے ھیں سبحت نامی ایک یھودی رسول الله ص کی خدمت میں حاضر ھوا اور چند سوالات کرنے کی اجازت چاھی.
آنحضرت نے کها پوچھو جو پوچھتے ھو یهودی نے کھا آپکا رب کھاں ھے .

آنحضرت ص نے جواب دیا ھر جگه موجود ھے اس کیلۓ خاص جگه متعین نھیں.

پھر الٹا سوال کیا وه کیسا ھے ھم نے تو تمھارۓ رب کو نھیں دیکھا 
آپ ص نے فرمایا میں آپنے رب کی کیفهت سے کیسے متصف کر سکتا ھوں جبکه کیفیت خود الله کی پیدا کرده چیز ھے. 

اور خالق کی توصیف اس کی مخلوق سے نھیں کی جا سکتی.
یهودی نے کھا پھر ھم کیسے معلوم کریں گے که آپ ص الله کے رسول ھیں.آپ تو آپنے الله کا وجود بھی ثابت نھیں کر سکتے.
یهی بات غالی کی ھے.

(کافی جلد,1ص,94)

عاصم بن حمید کھتے ھیں که ایک شخص نے امام زین العابدین ع سے پوچھا که توحید کے متعلق فرمایۓ آپ نے فرمایا سوره توحید اور سوره حدید کی آخری چھ آیات پڑھ لیں اور غور و فکر کریں جو شخص ان حالات سے آگے غور کرۓ گا وه ھلاک ھو جاۓ گا.
(کافی جلد1,ص,91)
جن کیلیے قرآن اور آئمه معصومین ع سے بڑھ کر آپنی سوچ و قیاس حجت ھو وه منکر قرآن و اھلبیت ع ھیں.
لھذا غالی مشرک اور کافر ھے اسی لیۓ امام جعفر صادق ع نے انھیں زنده جلانے کا حکم دیا.

رزق کی دین اور تقسیم پر مولا علی ع کا اختیار .غالی عقائد کا بطلان قرآن مجید سے.

غلو و تفویض کا بطلان قرآن مجید کی روشنی میں:

"تحریر و تحقیق:"سائیں لوگ.                       

آج ھم ایک اھم موضوع کی طرف آتے ھیں غالی کھتا ھے که رزق کی دین اور تقسیم مولا علی ع کے زمه ھے آج ھم اس اھم موضوع پر غالی کے اس دعوی کا رد پیش کر رھے ھیں .

قرآن,نھج البلاغه اور مستند روایات معصومین ع میں سے.

ابھی تک ھم نے 18/19,سورتوں میں چند آیات جمع کی ھیں اور نھج البلاغه جو امیر المومینین ع کے خطبات اور فرمودات کا مجموعه کلام ھے.

 اس میں سے بھی چند خطبات و دیگر روایات کا زکر کریں گے.
ان میں سے کھیں بھی غالی کے اس جھوٹے دعوی کی تصدیق نھیں ھوئی تحقیق ھماری جاری ھے جیسے اور آیات و روایات جو قرآن سے مماثلت رکھتی ھوں گی جمع ھوں گی پیش کر دی جائیں گی.

اگرچه بے شمار آیات و روایات موجود ھیں مگر ھم اختصار سے کام لیتے ھوۓ کوشش کریں گے تحریر مختصر رھے .

خلق,رزق,اماتت و احیا وغیره امور تکونیه کی انجام دھی زات خدا وندی کے ساتھ مخصوص ھے اور یه امور اس نے کسی بھی مخلوق کے سپرد نھیں کیۓ.

 نه استقلالی طور پر اور نه ھی غیر استقلالی طور پر ارشاد قدرت ھے .

ھو الله الخالق الباری المصور الاسما الحسنی.
 پ 28,س,حشر.
ترجمه:
وھی تمام چیزوں کا خالق اور موجد  صورتوں کاھے اسی کیلۓ ھی اچھے اچھے نام ھیں.

اس آیت مبارکه سے ثابت ھوتا ھے که خداوند ھی خالق و مصور ھے.

اب ھم ان آیات کا زکر کرتے ھیں جن میں خلق,موت,رزق,اور رزق کی تقسیم کا الله نے دعوی کیا ھے که یه امور میں خود ھی سرانجام دیتا ھوں اسمیں کوئی دوسرا میرا معاون کار نھیں اگر جو ایمان رکھتا ھے میرا شریک بناتا ھے لھذا وه  مشرک ھے.

الله ھی زندگی و موت دیتا ھے..
سوره یونس ع,56/59.

الله ھی تمھاری روحیں قبض کرتا ھے فرشتوں کے زریعے.
سوره یونس ع 104.

وھی ھے جو تمھاری روحیں قبض کرتا ھے فرشتوں کے زریعے.
 سوره الانعام 60/ 61,

سوره الاعراف 37 /158

,سوره انفال,50

,سوره ھود,7.

الله ھی ھے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا.
سوره الاعراف 56,

سوره یونس ع 3.

الله ھی ھے جو تمھیں رزق دیتا ھے.
سوره زخرف ع,32.

الله کے رزق دینے میں کوئی شریک نھیں ھے.
سوره روم ع ,28/37/40.

خلقت کی ابتدا اور رزق الله ھی دیتا ھے.
سوره نمل,64.

الله ھی ھے جو روزی کشاده کرتا ھے.
سوره قصص,ع,82.

الله ھی خالق ھے اور وھی ھی رازق ھے.
سوره فاطر ع,3.

الله ھی رزق کشاده کرتا ھے.
سوره شوره ع,49.

آسمان اور زمین سے رزق الله ھی دیتا ھے.
سوره یونس 31,59.

خبردار الله ھی سے رزق طلب کرو.
سوره العنکبوت ع,17.

رزق دینا اور تقسیم کرنا الله ھی کا کام ھے.
سوره نحل ع,70.

تمھارا رزق آسمان سے ھی آتا ھے.سوره المومن  ع,13.

الله ھی رزق دینے والا ھے.
سوره الطور ع,58.

الله ھی تمھے روزی دیتا ھے.سوره الملک ع,21.

آسمان اور زمین سے رزق الله ھی دیتا ھے.
سوره سباءع,24,36,39.

جو رزق الله نے دیا ھے اس میں سے خرچ کرو.
سوره یسین ع,47.

زمین پر چلنے والی کوئی چیز ایسی نھیں جس کو الله نے رزق نه دیا ھو. 
سوره ھود ع,6.

رزق الله نے دیا شکر کرو. .سوره الانفال ع,3.

اب ھم آتے ھیں نھج البلاغه کی طرف که مولا علی ع خود رزق کے متعلق کیا بتاتے ھیں که کون دیتا ھے.

یهاں پر مولا ع غالیوں کے جھوٹ کو بے نقاب کر رھے ھیں.
مولا علی ع فرماتے ھیں .رزق اور خلق الله کے زمے ھے.
ملحاظه کریں.

 خطبه نمبر 90,صفات باری تعالی.

خطبه نمر:91, "خطبه اشباح "
حقائق کائنات کے متعلق معلومات کا خزانه.

رزق کا زمه الله کے پاس ھے.
خطبه نمبر :109
اوصاف باری تعالی فرشتوں کے حالات دنیا کی بے ثباتی.

ملک الموت ھی روح قبض کرتی ھے.
خطبه :112.
ملک الموت اور قبض روح کا زکر.

الله ھی شفا دیتا ھے .
خطبه نمبر :159.
حمد و صفات باری تعالی.

روزی کی ضمانت الله کے پاس ھے.
خطبه نمبر :114.
پرھیز گاری.

الله ھی ھر چیز کو رزق دیتا ھے.
خطبه نمبر :184.
حیوانات کی خلقت میں قدرت کی رعنائیاں.

الله نے خلق کیلۓ کسی سے مدد نھیں لی .
توحید
خطبه نمبر :185

مقرب فرشتوں کا زکر جن کے زریعے الله تعالی کائینات کا نظام چلا رھا ھے.
وعظ و نصیت سے لبریز خطبه.
خطبه نمبر :181.

اب ھم آتے ھیں معصومین ع کی روایات کی طرف.

امیر علیه اسلام فرماتے ھیں .
اشھدان لا اله الا الله,
کے معنی یه ھیں که میں گواھی دیتا ھوں که الله کے سوا کوئی ھادی نھیں اور یه که زمین و آسمان کے ساکنین ,ملائکه,انسان.پهاڑ.درخت.حیوان.وحوش و ھر خشک و تر جو کچھ ان میں موجود ھے ان سب کو گواه کر کے کھتا ھوں .
که الله کے سوا کوئی خالق,رازق,معبود,_نافع,قابض,باسط,معطی,ناصح,کافی,
شافی,تقدیم و تاخیر کرنے والا کوئی نھیں ھے.
 خلق و امر اسی کے قبضه قدرت میں ھے الله کی زات با برکت ھے وه خدا جو عالمین کا پروردگار ھے.

مفاتیح الجنان 
میں دعاۓ جوشن کبیر کی فصل ,90.
سے بھی یهی مطالب نوٹ کیۓ جا سکتے ھیں.
اما جعفر صادق ع کا بھی 
فرمان رجال المقانی جلد 1ص,256.
 رجال کشی ص 207/208.
کزانی البحار ص,350.

امام رضا ع کا یهی عقیده عیون اخبار لرضا ص374.
بحار الانوار جلد 7,ص,358.

شیخ صدوق نے مناجات امام رضا ع بھی درج کی ھیں .
تحریر بھت طول پکڑ گئی ھے تشنگی باقی تو ھمارا جواب و وضاحت بھی باقی.

اب معترض خیال کرکے کمنٹس کریں که کلام الھی اور کلام امیر المومینین ع کا رد نھیں ھوتا.

ہفتہ، 2 مارچ، 2019

غلاة تضادات و اختلافات کے وارث لوگ

حلیمی شیعه,
غلات,تضادات و اختلات کے وارث لوگ:

                تحریر:"سائیں لوگ"

الله تعالی آپنے کلام (قراآن مجید)میں فرماتے ھیں مجھے دین خالص چاھیۓ جسمیں عصبیت, التقات اور اختلات نه ھو یھی دین ھی خالص الله کا دین ھے.

               الا لله الذین الخالص.

(الله کو خالص دین چاھیۓ جسمیں زرا برابر شائبه نه ھو,شرک نه ھو.

مگر ھمیں ھر چیز مخلوط ملی ھے اور ویسے بھی ھم ھندی کلچر میں طویل عرصه رھے اس لیۓ بھت سی رسم و رواج ھم میں داخل ھو چکے ھیں.

لیکن پھر بھی ھر دور میں ایک جماعت موجود رھی ھے جس نے خالص تعلیمات الھیه کا دفاع اور تبلیخ کرتے رھتے ھیں .

مگر بدقسمتی سے ھم میں سے کچھ لوگ ھندی کلچر کو اختیار کر کے دین میں حلیم کی طرح رواج و رسومات کو مکس کرتے رھے.

اب ا نھوں نے دین کو بھی حلیم بنایا ھوا ھے چونکه حلیم  میں چکن, دالوں اور مختلف مصالحه جات  سمیت کافی چیزیں ڈال کر بنایا جاتا ھے,

 لھذا ان لوگوں نے بھی دین میں جھوٹ,,قیاس,جاھلیت,علاقیت,عصبیت,
حمیت,لسانیت اور ایمان  کو ایک دیگ میں ڈال کر ایک نیا مذھب(گروه,فرقه) بنا لیا,
 اور یھی سمجھا که یه دین کی بھترین شکل ھے جسمیں سب کچھ مکس ھے.

اب ھم اسے جس طرح چاھیں مرضی کی تاویل کرکے آپنے ارادے و مقاصد حاصل کر سکتے ھیں.

یه گروه ھے غالی شیعوں کا یه اب آپنی اولاد کو اس مرکب دین کا درس دے کر پروان چڑھا رھے ھیں.

 اور ایسے ھی ایک نسل سے دوسری نسل پھت تیسری نسل  یوں یه سلسله بڑھ کر اب مکمل گمراه رخ اختیار کر چکا ھے.

اب جب ان کی اصلاح کیلۓ قرآن کی آیات سامنے رکھی جاتیں ھیں تو یه سب کچھ ٹھکرا کر جھوٹی روایات سے تاویل کرکے مرضی مطابق تشریح پیش کر دیتے ھیں.

انھیں لوگوں سے بچنے کیلۓ امام جعفر صادق ع نے آج سے تیره سو سال پھلے ھی فرما دیا تھا که ان غلات سے خود بھی اور آپنے جوانوں کو بھی بچاۓ رکھنا.
          یه اصل کے دشمن لوگ ھیں.


پیر، 25 فروری، 2019

نماز تراویح کی رد بزبان مولا علی ع

حضرت علی (ع) کی زبانی نماز تراویح کی رد:

"تحریر :"سائیں لوگ






                
 نمازتراویح کی حقیقت !!

کتب روایات و تواریخ سے استفادہ ہوتاھے کہ حضرت امیر المومنین (ع)کی اپنے دور حکومت میں متواتر کوشش یھی رھی کہ اس نماز کو اسی صورت پر پلٹا دیں جو رسول(ص) کے زمانے میں تھی ،لیکن مختلف وجوھات بشمول کچھ نادان مسلمانوں کی بدبختی اور جھالت، درمیان میں آڑے رھیں جن کی وجہ سے امام (ع)کی کوشش کسی نتیجہ تک نہ پهنچ سکی.

 چنانچہ حضرت امیرالمومنین (ع)نے اس بارے میں اپنی بے پایان کوشش اور مسلمانوں کی جھالت کی طرف( اپنے خطبات کے اندر)جا بجااشارہ فرمایا ھے: 

۔…”امرت الناس ان لایجمعوافی شھررمضان الا فی فریضة، لنادی بعض الناس من اھل العسکر ممن یقاتل معی: یا اھل الاسلام !وقالوا غیرت سنةعمر،نھینا ان نصلی فی شھررمضان تطوعاً،حتیٰ خفت ان یثوروافی ناحیة عسکری بوسی، لما لقیت من ھذہ الامة بعد نبیھا من الفرقةوطاعةائمةالضلال والدعات الیٰ النار!!“
1] کتاب سلیم بن قیس ،ص۱۶۳۔ 

میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ ماہ رمضان میں نماز واجب کے علاوہ دوسری نمازوں کو جماعت سے نہ پڑھو ،تو میرے لشکر میں سے ایک گروہ کی صدائے احتجاج بلند ہوئی کہ اے مسلمانو! سنت عمر کو بدلاجارھاھے!
اورھم کوماہ رمضان کی نمازوں سے روکاجارھا ھے !اور ان لوگوں نے اس قدر شور و غوغا مچایاکہ میں ڈرا کہ کھیں فتنہ برپانہ ہوجائے اور لشکر میں انقلاب نہ آجائے!
تف ھو ایسے لوگوں پر، بعد پیمبر (ص)کس قدر میں نے ان لوگوں سے سختیوں کو جھیلا ھے…۔ 

ابن ابی الحدید کتاب”الشافی“ سے نقل کرتے ھیں :

”کچھ لو گوں نے حضرت امیرالمو منین (ع) سے کو فہ میں عرض کیا کہ کسی کو بعنوان امام جماعت کوفہ میں معین کریں تا کہ وہ ماہ رمضان کے شبوں کی مستحب نمازوں کو جماعت سے پڑ ھائے ، امام (ع) نے اس عمل سے لوگوں کو منع کیا.
 اور بتایا کہ یہ عمل سنت رسول(ص) کے بر خلاف ھے،چنانچہ بظاھر ان لوگوں نے بھی اپنی در خواست کو واپس لے لیا ، لیکن بعد میں ان لوگوں نے مسجد کے اندر ایک اجتماع کیا اور اپنے میں سے ھی ایک صاحب کو منتخب کر کے امام جماعت بنا لیا.
 جب امیر المومنین (ع) کو اس کی اطلاع ھو ئی تو امام حسن علیہ السلام کو بھیجا کہ اس بدعت کو روک دیں.
 جب لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کو تازیانہ لاتے ہوئے دیکھا تو ”واعمراہ،واعمراہ“ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مسجد کے مختلف دروازوں سے بھاگ نکلے “ 
شرح نہج البلاغہ جلد ۱۲،خطبة ۲۲۳،صفحہ ۲۸۳۔

بدرالدین عینی کی ناقص توجیہہ !! 
شارح صحیح بخاری جناب بدرالدین عینی قول عمر”نعم البدعة ھٰذہ “ کے ذیل میں تحریر فرماتے ھیں : 
عمر نے اس نماز کو بدعت سے اس لئے تعبیر کیاھے کیونکہ رسول(ص) وابوبکر کے زمانے میں اس صورت میں کوئی نماز نہ تھی.
 بلکہ یہ نماز خود ان کی ایجاد کردہ تھی اور یہ بدعت چوں کہ ایک نیک عمل میں تھی لہٰذا اس بدعت کو غیر مشروع (ناجائز) شمار نھیں کریں گے!
عمدة القاری جلد ۱۱،کتاب الصوم ، باب ”فضل من قام رمضان

عرض مولف بدرالدین سے ھمار ا سوال یہ ھے کہ جب آپ نماز تراویح کو بدعت( غیر مشروع) تسلیم کرتے ھیں توپھر اس کو نیک اور بھتر سمجھنے کا کیامطلب ؟!

 اور اگر آپ کے کهنے کا مطلب یہ ھے کہ عمر کی بدعت سنت رسول (ص)اور قانون خد ا سے بھتر ھے تو پھر اس میں کوئی شک نھیں کہ ایسا عقیدہ اور خیال کفر اور ضلالت ھے!
(کیونکہ یہ حق شارع کو ہوتا ھے کہ وہ شریعت کے احکام کو بتلائے اور جعل کرے نہ کہ مکلفین کو جو مصالحا ور مفاسد سے بے خبر ہوں)

اور اگر آپ یہ کھیں کہ سنت خداو رسول(ص)، سنت عمر سے بھتر اور ارجح ھے تو پھر آپ اِس کی پیروی نہ کرکے بدعت عمریہ کی پیروی میں جو ایک مرجوح عمل ھے نماز تراویح ا ج تلک کیوں پڑھتے آ رھے ھیں ؟
___________________

شیعه نماز ملا کر کیوں پڑھتے ھیں.

کیوں شیعہ ظہرین ومغربین ملا کر پڑھتےہیں ؟

"تحریر :"سائیں لوگ



                         

بےگمان تمام مسلمان جس مذہب کےبھی وہ ہوں ،مثلاً جعفری ،حنفی ،مالکی ،شافعی اورحنبلی ،رات ودن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھتےہیں صبح ، ظہر ،عصر ،مغرب اورعشاءاورہر ایک کےوقت کےاعلان کےلئی، ایک خاص علامت ہےمیں نہیں سوچتاہوں یہ علامتیں شیعوں او رسنیوں کےدرمیان اختلاف ہونےکےباعث ہوجائیں گی۔

کتاب صحیح مسلم (١)میں عبداللہ ابن عمر نےاس عمروعاص سےنقل کیا ہےکہ پیغمبرنےفرمایا :
نماز ظہر کا وقت ،سورج زائل ہونا ہے،یعنی جب شاخص کا سایہ اپنےاندازہ کےبرابر ہو عصر اور نماز عصر کا وقت اس وقت تک ہےکہ سورج زرد ہواہو اور نماز مغرب اس وقت تک ہےکہ شفق ختم ہوا ہو اور نماز عشاءکا وقت نصف رات تک ہےاور نماز صبح کا وقت ،طلوع فجر سےلےکر طلوع آفتاب تک ہے۔

 لیکن مذہب جعفری میں علامتیں اس طرح ہے:نماز ظہر کی فضیلت کا وقت ، سورج زائل ہونےسےلےکر شاخص کےسایہ کااپنےبرابر ہونےتک ہےنماز عصر کی فضیلت کاوقت ، سورج کےزائل ہونےسےلےکر شاخص کےسایہ کا اپنےبرابر ہونےتک ہے، نماز مغرب کی فضیلت کاوقت ، سورج کےغروب ہونےسےلےکر شفق (مغرب کی سرخی ) ختم ہونےتک ہےنماز عشاءکی فضیلت کاوقت شفق ختم ہونےسےلےکر رات کےتیسرےحصہ تک ہےاورنماز صبح کی فضیلت کا وقت طلوع فجر سےلےکر مشرق کی سرخی (شفق ) ظاہر ہونےتک ہے۔

امامیہ دونمازوں کےدرمیان وقت ہونا مشترک جانتےہیں ۔(٢)اورشیعہ اثنا عشری کی سیرت یہ ہےکہ مثلاً جب وہ نماز مغرب قائم کرتےہیں ، تو نماز کےبعدوہ مخصوص دعائیں کہ جو اہلبیت کی طرف سےپہنچی ہیں، (تعقیبات ) پڑھتےہیں ۔ ہر ایک نماز کی ایک خاص تعقیب ونافلہ ہےاس کےبعد وہ نماز عشاءبجالاتےہیں ۔ 

علماءامامیہ دونمازوں کےدرمیان جمع کرنا واجب نہیں جانتےہیں اور وہ ان کےدرمیان فاصلہ ڈال سکتےہیں اوراگر اکٹھےپڑھی ہوں تو پھر بھی انہو ں نےاپنےوقت میں نما ز قائم کی ہے، کیوں کہ جس طرح ہم نےثابت کیا ، د ونمازوں کےدرمیان وقت مشترک ہےورصرف ان کی فضیلت کا وقت مختلف ہےاس بارےمیں اہلبیت کی احادیث ، دو کےجمع کرنےپر دلالت کرتی ہیں؛(٣)لیکن وہ احادیث جو اہلسنت کےمنابع سےنقل ہوئی ہیں :(٤)
ابن عباس کہتاہے:
رسو لخدا نےظہر وعصر اورمغرب وعشاءکی نماز عام حالت میں (نہ خوف ومسافر ہونےکی حالت میں ) اکھٹےقائم کی ۔ میں نےپیغمبر کےساتھ آٹھ رکعتیں (ظہر وعصر ) اورسات رکعتیں (مغرب وعشاء) کی نمازیں پڑھیں ۔ ٥)ہم ر سول خدا کےزمانےمیں دو نمازیں اکھٹےپڑھتےتھی۔
(٦)وہ روایات جو پیغمبر سےنقل ہوئی ہیں، اختیاری حالت میں ،دونمازوں کےدرمیا ن جمع کرنےکےجائز ہونےپر دلالت کرتی ہیں ) پس شیعوں اورسنیوں کو اس مطلب میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہےاسی طرح : ایک مرد نےابن عباس سےکہا : نما ز ! اس کےبعد چب رہا دوبارہ کہا : نماز! پھر بھی چپ رہا ،تیسری مرتبہ کہا: نماز! اورچب رہا توعباس نےکہا : تمہاری ماں مر گئی ہے(لا ام لک ) کیا تم ہم کو نماز سکھارہےہو؟ ہم پیغمبرکےزمانےمیں دونمازیں اکھٹےقائم کرتےتھے۔ 

٢ : معاد ابن جبل کہتےہیں :ہم جنگ تبوک کےسال میں پیغمبرکےساتھ باہر گئے،حضرت نےد ونمازوں کےدرمیان اجتماع کیا اور نماز ظہر و عصر اکھٹےپڑھی اس کےبعد اپنےخیمہ میں داخل ہوئےاور باہر نکلےاورنمازمغرب وعشاءبھی اکھٹے پڑھی ۔

٣ : ابوایوب انصاری کہتےہیں :رسول خدانےمغرب وعشاءکی نماز اکھٹےپڑھی اوردو نمازوں کوجمع کیا ۔ (٩)پس ان روایات کےبعد کہ جو پیغمبر سےنقل ہوئیں اور دو نمازوں کو آپس میں جمع کرنےکےجائز ہونےپردلالت کرتی تھیں اب کوئی شک وشبھہ اس بارےمیں کہ شیعہ امامیہ کا کام پیغمبر اوراس کےاہلبیت کی سنت کےساتھ مطابقت رکھتاہے،باقی نہیں رہتاہے۔

حوالے

(١)۔ صحیح مسلم ،ج ٢ ص ٥٠١ اور محمد صالح العثیمین مواقیت الصلواة ۔
(٢)منہاج الصالحین ، تحریر الوسیلہ اور مراجع تقلید کےدوسرےرسالہ ،باب اوقات نماز
٣)۔ شیخ حر عاملی ،وسائل الشیعہ ،ج ٤ ، ابواب وقتھا
(٤)۔ محمد صالح العثیمنین الصلواة،مواقیت الصلاة
(٥)صحیح مسلم ،ج ١ ص ٩٨٤١٩٤
(٦)۔ وہی منبع
(٧)۔وہی منبع ،ص ٣٥١
(٦)۔ سنن الدارمی ،ج ١ ،ص ٦٥٣
(٨) وہی منبع

بے نمازی شیعه کو معصومین ع کا اھم پیغام

بے نمازی شیعه کو معصومین ع کا اھم پیغام:

"تحریر :"سائیں لوگ                              

                      

زنجیر زنی میں خوشنودی آل محمد ع کو ڈھونڈنے والوں کو سیرت معصومین ع نظر کیوں نھیں آتی.

امام زین العابدین علیہ السلام کی عبادت:

حضرت امام سجاد علیہ السلام جب نماز کیلیے تیار ہونے لگتے اور وضو کرتے تو رخساروں کی رنگت تبدیل ہونے لگتی’’جب امام علیہ السلام سے اس صورتحال کی وجہ پوچھی جاتی تو فرماتے:‘‘کیا جانتے ہو کی میں کس بزرگترین ہستی کی آستان پر حاضر ہونے لگا ہوں اور کس کے سامنے جارہا ہوں.

نماز کے انتظار میں خضوع و خشوع کی شدت اور بارگاہ ربوبی میں احساس بندگی سے بدن کانپنے لگتا اور اعضاء و جوارح خوف خدا سے تھرتھرانے لگتے(۸)
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے ایک صحابی طاؤس بن زید یمانی نقل کرتا ہے:

میں نے حجر اسماعیل میں امام علیہ السلام کو مشاہدہ کیا کہ وہ پروردگار متعال کے حضور عبادت و مناجات میں مشغول تھے جب بھی نماز کیلیے کھڑے ہوتے تو چہرۂ مبارک کا رنگ کبھی زرد اور کبھی سرخ ہوجاتا،خوفِ خدا کی تلیو حضرت میں قابل دید تھی اور ایسے نماز پڑھ رہے تھے گویا آخری نماز پڑھ رہے ہوں،جب سجدے میں جاتے تھے تو بہت دیر تک سجدے میں ہی رہتے اور جب سجدے سے سرمبارک اٹھاتے تو پسینے کے قطرے بدن پر جاری ہوجاتے.

حضرت سید الشہدا علیہ السلام کی خاک شفا ہمیشہ آپ کے پاس رہتی تھی اور فقط خاک شفا پر ہی سجدے کرتے تھے۔

سجدوں کی کثرت اور ہر سجدے کے طولانی ہونے کی وجہ سے حضرت علی ابن الحسین علیہما السلام کو سید الساجدین کا لقب دیا گیا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:میرے والد بزرگوار جس نعمت کا بھی ذکر کرتے تو فوراً خداوند کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاتے(یعنی فوراً نعمت بخش ہستی کے سجدے میں گرجاتے)اسی طرح جب قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہوتے اور آیات سجدہ پر پہنچتے ،خطرے کے وقت،ناگوار حادثے کے موقع پر اور اسی طرح واجب نمازیں ادا کرلینے کے بعد یا جب بھی کوئی خدمت انجام دیتے ،دو مومن بھائیوں کے درمیان جب اصلاح کرواتے؛سر سجدہ ٔمعبود میں رکھ دیتے اور خدا کا شکریہ ادا کرتے۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا ایک خادم حضرت کو یوں یاد کرتا ہے: ایک دن میرے مولا صحرا کی طرف تشریف لے گئے،میں بھی حضرت کے ساتھ ہولیا،صحرا کے ایک گوشے میں عبادت میں مشغول ہوگئے،سجدہ کرتے ہوئے سخت پتھروں پر پیشانی مبارک رکھتے تھے اور گریہ و تضرع کے ساتھ خداوندمتعال کو یاد کرتے ،میں نے کوشش کی کہ حضرت جس ذکر میں مشغول ہیں وہ سن سکوں،اس دن میں نے گنتی کی کہ امام عالمیمقام علیہ السلام نے سجدے میں ایک ہزار مرتبہ یہ ذکر پڑھا:
‘‘لا الہ الا اللہ حقاً حقا،لا الہ الا اللہ تعبداً و رقا،لا الہ الا اللہ ایماناً و تصدیقاً’’
جب امام علیہ السلام نے سرمبارک سجدے سے اٹھایا تو حضرت کا چہرہ مبارک اور محاسن (ریش)آنسوؤں میں شرابور تھے۔

طاؤس یمانی نے روایت کی ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک رات خانہ کعبہ کے حجرہ میں تشریف لے گئے اور بہت نمازیں پڑھیں،پھر سجدہ کیا،رخسار مبارک خاک پر رکھے اور ہتھیلیاں آسمان کی طرف بلند کیں،میں نے سنا کہ آہستہ سے اس ذکر میں مشغول تھے:

عبیدک بفنائک،فقیرک بفنائک،سائلک بفنائک مسکینک بفنائک
یعنی تیرا چھوٹا سابندہ تیرے حضور حاضر ہے،تیرا مسکین تیری خدمت میں حاضر ہے،تیرا فقیر تیری آستان پر حاضر ہے،تیرا گدا تیری چوکھٹ پر حاضر ہے’’
طاؤس کا کہنا ہے کہ :میں نے یہ دعا یاد کرلی،پھر مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی،میں اسی دعا سے خداوندمتعال کو پکارتا تھا اور وہ میری ہر مشکل حل فرمادیتا تھا۔

بہت زیادہ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام ہردن رات میں ایک ہزار رکعت نماز(واجب اور نوافل واجب کے علاوہ)ادا کرتے تھے(۱۲)
حدیث لوح میں جب چوتھے امام علیہ السلام کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں بھی اسی لقب سے ملقب ہیں یعنی‘‘زین العابدین.

عبادت گزاروں کی زینت امام علیہ السلام لسان رسالت میں بھی اسی لقب سے یاد کیے گئے،جابر ابن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں:میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہواتھا جبکہ امام حسین ابن علی (علیہما السلام) حضور کی آغوش میں تھے،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسے سے پیار و نوازش فرمارہے تھے،پس میری طرف دیکھ کر فرمایا:
اے جابر!میرے بیٹے حسین کا مستقبل میں ایک فرزند ہوگا جس کا نام علی ہے،جب قیامت کا دن ہوگا تو حق تعاليٰ کی طرف سے ایک منادی عرش سے دے گا:سید العابدین تشریف لے آئیں،پس اس وقت علی ابن الحسین محشر میں داخل ہوں گے.
معلوم ہوگیا کہ یہ مقدس وجود اس طرح سے عبودیت و بندگی میں محو تھا کہ دوست و دشمن انھیں زین العابدین،سجاد اور سید العابدین جیسے القاب سے یاد کرتے تھے۔

سید العابدین سے مراد عبادت گزاروں کے سید و سردار ہیں۔اس بات اور ظریف نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ ان مقدس ہستیوں کی حقیقت ایک نور ہے وہی ایک نور،دوا نوار میں اور پھر ہوتے ہوتے چودہ انوار میں تقسیم ہوگیا سب کی اصل ایک ہے اور وہ ہیں حبیب خدا حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؛جن کی ذات میں عبودیت اور ہر صفت کے خزانے موجود ہیں یہ تمام اوصاف و فضائل وراثت کی جہت سے آئمہ ہديٰ علیہم السلام میں جاری و ساری ہیں۔

ہر امام علیہ السلام کے اندر ہر صفت و خوبی اپنے اوج و کمال پر موجود ہے خلق ِخالق کی حاجت روائی کی صفت ہو یا انعام واکرام اور اہداء و امتنان یا بندگی کی معراج ؛ جملہ صفات حسنہ،ان ہستیوں میں موجود ہیں سید العابدین کی تعبیر اور لقب کا مطلب یہ ہے کہ یہ معصوم ہستی باقی تمام عبادت گزار مخلوقات سے برتر،اشرف اور افضل ہیں یہاں قطعاً مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس تعبیر سے خود معصومین علیہم السلام کے اندر بعض کی بعض پر سیادت بتلائی جارہی ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ تمام افراد بشری اس فضیلت اور دیگر فضائل میں بہت پیچھے ہیں اور ان ہستیوں کی آپس میں درجات کی تفکیک بالکل مراد نہیں اور نہ ہی اس درجے پر کسی بشر کو قضاوت کا یارا ہے۔یہ تمام ہستیاں اخلاص اور للٰھیت میں اعليٰ مقامات رکھتی ہیں اس کے باوجود خداوندمتعال کے محضر میں اپنے آپ کو کمترین شمار کرتی ہیں،یہ امر اُس خالق حقیقی کی مطلق عظمتوں کے پیش نظر ہے۔اُس عظمت مطلق میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ پاؤں میں لگا ہوا تیر نماز پڑھنے کی حالت میں پاؤں سے باہر کھینچ لیا جاتا ہےپھر بھی نہ تیر پر توجہ ہے اور نہ تیر نکالے جانے پر اور یہاں بھی علی کے علی فرزند(علیہما السلام)کی معرفت اور عبادت کی ایسی کیفیت نظر آتی ہے کہ نماز ادا کررہے ہیں گھر میں آگ لگ جاتی ہے شور و غل اٹھتا ہے لیکن نماز جیسے پڑھ رہے تھے ،پڑھتے رہے۔یہاں تک کہ آگ کوبجھا دیا گیا.

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے اہلبیت میں اُن کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت رکھنے والی شخصیت حضرت زین العابدین علیہ السلام ہیں جو عبادت کے باب میں اس قدر بڑھے کہ ان کے فرزند بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی توجہات کا مرکز بن گئے ،امام محمد باقر علیہ السلام نے عبادت کا اثر حضرت کے چہرۂ مبارک پر آشکار دیکھا،والد بزرگوار کے حال پر رونا شروع ہوگئے۔حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کے رونے کا سبب بھانپ لیا پس فرمایا:بیٹا وہ صحیفہ اٹھا کر یہاں لے آئیں جس میں حضرت علی علیہ السلام کی عبادات کی تفصیل ثبت و ضبط ہے،جب امام باقر علیہ السلام وہ صحیفہ لائے .

حضرت اُس کے مطالعہ میں مشغول ہوگئے،تھوڑا سا مطالعہ فرمانے کے بعد ٹھہر گئے،سینے کی گہرائی سے ایک آہ بھری اور فرمانے لگے:حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام جیسی اتنی عبادت کرنے والا کون ہوسکتا ہے.

حضرت امام سجاد علیہ السلام کی اس قدر عاشقانہ عبادات دیکھ کر جب اُن سے کہا جاتا تھا کہ آپ اپنے جد بزرگوار علی علیہ السلام سے کہیں زیادہ عبادت گذار ہیں تو حضرت اظہار فرماتے تھے:
‘‘مَہ انّی نظرت فی عمل علی صلوات اللہ علیہ یوما واحداً فما استطعت أن اعدلہ من الحول الی الحول’’
یعنی میں نے حضرت علی صلوات اللہ علیہ کے ایک دن کے اعمال میں نظر کی تو مجھ پر واضح ہوگیا کہ میں سال بھر میں بھی حضرت کے ایک روز کے اعمال کی برابری نہیں کرسکتا.

واضح ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادات کا وہ عالم تھا کہ خود خداوند متعال نے قرآن کریم میں فرمایا کہ اپنے آپ کو اس قدر تھکا نہیں دیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:امت اسلامی میں کوئی شخص بھی سوائے حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی عبادات انجام نہیں دے سکا.

حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نہ فقط جانشین و وارث بلا فصل ہیں بلکہ نفس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ بھی ہیں لہٰذا اس مطلب کو سمجھا جاسکتا ہے اور حضرت امام زین العابدین و حضرت امیرالمؤمنین علیہما السلام کی عبادات کا وہی عالم ہے کہ جیسے معروف حدیث نبوی میں موجود ہے کہ دونوں شہزادے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور اس کے فوراً بعد ذکر فرمایا کہ وابوہما افضلہما کہ ان دونوں شہزادوں کے والد بزرگوار(علی ابن ابیطالب علیہ السلام)ان دونوں سے افضل ہیں۔

یہاں یہ بھی ایسا ہی ہے کہ عبادت اور عبادت گزاروں کی زینت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہیں جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ لوح والی حدیث میں بھی حضرت کو اسی لقب سے ذکر فرمایا گیا لیکن ظاہر ہے کہ حضرت امیرعلیہ السلام بہرحال ہر باب اور ہر میدان میں امیر ہی ہیں اور حقیقت امر تو وہی ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا کہ ان سب معصومین علیہم السلام کی حقیقت ایک ہی ہے۔حقیقت واحدہ رکھنے والی یہ مقدس و مقرب ہستیاں ایک نور خدا سے ہیں جب حقیقت ایک ہے تو عبادات بھی ایک ہیں یہ علیحدہ بات کہ کثرات میں مختلف صفات خداوند متعال کی رضا وارادے کے مطابق کس طرح سے علیحدہ علیحدہ ظہور پذیر ہوئی ہیں۔حقیقت کی گہرائی میں جانے کی توفیق رفیق ہوتو کہہ اٹھیں گے کہ خداوندمتعال کی بھیجی ہوئی نمونہ ہستیاں یہی ہیں،اگر ان سب کا اوج شہامت و شجاعت ملاحظہ کرنا ہو تو شیر خدا کو دیکھ لو،اگر معراج شہادت مشاہدہ کرنا چاہو تو سید الشہدا کو دیکھ لو،اگر عروج و زین عبادت کا نظارہ کرنا ہو تو زین العابدین ،سید الساجدین حضرت امام علی ابن الحسین ابن علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی زیارت کرلو۔

کیونکہ ان میں سے ایک کی شجاعت وہی سب کی شجاعت ہے،ایک کی شہادت سب کی شہادت ہے،ایک کی عبادت سب کی عبادت ہے۔۔۔۔اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ اقمار منیرہ ایک ہی شمس طالعہ کی نورانیت سے بھر پور ہیں،سب فضائل کا خلاصہ ہر ایک میں ہے،اس وقت بھی سب فضائل و شمائل کے آئینہ دارحجت کردگار مہدی نامدار صلوات اللہ علیہ کی صورت میں موجود ہے کیونکہ زمین خدا حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی،بقیۃ اللہ کا وجود،ان سب ہستیوں کا نمائندہ وجود ہے جیسا کہ ان سب ہستیوں کی نمائندگی ہر دور میں بدرجۂ اتم ایک ظہور میں رہی ہے۔
یہ مظاہر ہیں اوصافِ حق کے سبھی ،ساری مخلوق ان کی ثناء خوان ہے
ان کے اوصاف کی کنہ تک جاسکے اتنی فکر بشر کی رسائی نہیں.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...