Saieen loag

اتوار، 21 اپریل، 2019

اھلسنت کے بعض گروه (ناصبی وغیره)موجوده قرآن کو نھیں مانتے.

.ناصبی اور گستاخ وھابی کو تحریف قرآن پر جواب دینا ھو گا

 ناصبی,وھابی موجوده قرآن کو نھیں مانتے سعودی عرب میں گٹروں سے ھزاروں نسخے نکالے گۓ.داعش,اور النصره فرنٹ  نے بم بلاسٹ کے طور پر اور شام میں دیگر ناصبی قرآن پاک کو ھاتھ میں پکڑ کر گولیاں برساتے رھے.
اور کھلےعام شاھره پر پھینکتے رھے.
اور مسجد نبوی ص میں پاؤں پر رکھ کر تلاوت کرنے میں ملوث ھیں
ھم کیسے کھیں که ان بدبختوں کا موجوده قرآن پر ایمان ھے.

تحریف قرآن اھل تشیع پر الزام کا تحقیقی جواب

تحریف قرآن کی کوششوں میں خود حضرت عمر ملوث ھیں.(السیوطی)

                            قسط نمبر :3.                  تحریر و تحقیق : سائیں لوگ 
تحریف قرآن ناممکن ھے.
قرآن میں تحریف اس لیۓ ناممکن ھے که اس کی معجزاتی ترکیب آپنے اندر کسی قسم کی تحریف قبول نھیں کرتی.ساتھ اللله پاک نے خود اس کتاب کی حفاظت کا زمه لیا ھے.(سوره حجر ع 9)

دیگر مکاتب فکر کی معتبرکتب کی شیعه کتب میں بھی روایات موجود ھیں جن میں سے بعض سے بادی النظر میں تحریف کا مفھوم ظاھر ھوتا ھے اور کچھ میں صراحت موجود ھے مگر شیعه ان روایات کے تحت نسخ کا نظریه قائم نھیں کرتے بلکه ان روایات یا تو توجیه کرتے ھیں که ان سے مراد تحریفی لفظی نھیں اور اگر قابل توجیه نھیں ھیں تو ایسی روایات کو مخالف قرآن سمجھ کر مسترد کرتے ھیں.

متحرک اجتھاد :
اھل تشیع کے ھاں اجتھاد کا دروازه کھلا ھے لھذا انکی نظر میں متحرک و زنده اجتھاد کی وجه سے کوئی کتاب حرف آخر نھیں ھے,بلکه ھر کتاب ھر روایت قابل بحث و تحقیق ھے اور تمام اسلامی نصوص تحقیق و تدقیق کے قابل ھیں.
چنانچه اصول کافی اگرچه کتب شیعه میں سے مشھور کتاب سمجھی جاتی ھے مگر اس میں مختلف احادیث موجود ھیں بعض احادیث اگر کچھ مجتھدین کے نذدیک صحیح السند ھیں تو ضروری نھیں که دوسرۓ مجتھدین کی نظر میں بھی وه صحیح السند ھوں .
جو مسلمان صحاح سته کی روایات کا صحیح السند ھونا ضروری اور لازمی تصور کرتے ھیں ان کیلۓ ممکن ھے که صحاح سته میں کسی روایت کا موجود ھونا اس روایت کے مضمون  کا ضمنی اعتراف تصور نھیں کیا جا سکتا چنانچه علامه باقر مجلسی نے اس سلسلے میں سب سے زیاده روایات نقل کی ھیں اس کے باوجود انھوں نے بحارالانوار میں صریحا کهاھے که قرآن میں قطعا کوئی تحریف نھیں ھوئی.

اب ھم آتے ھیں ان راویوں کی طرف جن سے یه روایات لی گئیں .

ناقابل اعتبار روایات:
تحریف قرآن کے بارۓ میں اکثر شیعه روایات ضعیف راویوں سے منقول  ھیں   .
چنانچه ان روایات میں ایک قابل توجه سلسله روایت احمد بن محمد السیاری پر منتھی ھوتا ھے.
علماۓ شیعه فرماتے ھیں که تحریف قرآن سے مربوط تین سو(300),روایات احمد بن محمد السیاری سے مربوط ھیں.

احمد بن محمد السیاری :

السیاری کون ھیں شیعه کتب رجال میں احمد بن محمد السیاری کے بارۓ درج زیل الفاظ استعمال ھوۓ ھیں.وه ضعیف الحدیث,فاسد المذاھب,غالی,اور منحرف راوی ھیں.ملحاظه فرمائیں,

قاموس الرجال جلد 1, ص 403,طبع ایران.
رجال نجاشی ص 58,طبع بمبی.
نقد الرجال ص 32,طبع ایران قدیم .
معجم الحدیث جلد 2, ص 29,طبع نجف.

یونس بن ظبیان :

یونس بن ظبیان  کا نام بھی جھوٹے راویوں میں آتا ھے .
که یه شخص بھی نھایت ضعیف,ناقابل توجه,غالی,کذاب اور احادیث گھڑنے والا تھا.
ملحاظه فرمائیں.
نقد الرجال ص 381.

منخل بن جمیل الاسدی :

ان لوگوں میں منخل بن جمیل الاسدی کوفی کا نام بھی آیا ھے جس کے بارۓ میں علماۓ رجال نے لکھا ھے که یه شخص بھی ضعیف,غالی,فاسد الراویه اور منحرف  ھے.
ملحاظه فرمائیں:
  دراسات فی الحدیث والمحد ثین ,نقد الرجال ص 354.

محمد بن حسن جمھور :

یه بھی ان راویوں میں شامل ھے جس کے بارۓ علماۓ رجال نے کها ھے که یه بھی جھوٹے راویوں میں شامل ھے.یه بھی  جھوٹی اور ضعیف احادیث ,غالی,فاسد الراویه ,ناقابل توجه راوی ھے.

ملحاظه فرمائیں.نقد الرجال ص 299,رجال نجاشی ص338,طبع بمبی بھارت.
یهاں ھم نے وضاحت پیش کی ان غالی اور کذاب راویوں پر جن کی بدولت مذکوره کتب میں زکر ھے که قرآن میں تحریف ھوئی ھے لیکن انکی صحت پر سوالیه نشان ھے جو علم رجال کے ماھر علماء نے آپنی کتب میں پیش کی لھذا ان روایات پر شیعه مذھب کو تحریف قرآن کا الزام نھیں لگایا جا سکتا.ھم ان راویوں کی روایات سے بری الزمه ھیں.
بلکه ان میں سے کچھ روایات اھلسنت کی کتب سےبھی  ماخوز ھیں جیسے بحار الانوار میں علامه مجلسی نے ابن ماجه سے لیں پھر انھوں نے تحریف کو خارج از امکان بھی قرار دیا.

اب ھم آتے ھیں قرآن کو جمع کرنے میں اھلسنت برادران کی بخاری کے مطابق حمص جهاں مقداد بن اسود کا نسخه چلتا تھا وھاں سوره یوسف کی تلاوت پر حضرت عبداللله بن مسعود کو ایک شرابی نے اعتراض کیا آپ نے جواب دیا رسول اللله ص نے اسے درست کها تھا جیسے میں نے پڑھی ھے. 

حضرت عبداللله چھٹے شخص تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا انھیں سادس سته یعنی چھٹا کهتے تھے ان کے مصحف کو خاص شھرت حاصل تھی بخاری میں کافی حدیث آئی ھیں که یه قاری بھی تھے ساتھ پورا قرآن ان کے پاس موجود تھا مگر بدقسمتی سے ان سےبھی قرآن نه لیا گیا جیسے حضرت علی ع سے نه لیا گیا.

ان کے علاوه حضرت علی ع کا نسخه بھی تھا جو خود پاک نبی ص نے مرض الموت کے دوران پیش کیا تھا اور وصیت فرمائی تھی که یه مکمل کتاب اللله ھے.آۓ علی ع یه آپنے پاس لے جاؤ چنانچه حضرت علی ع نے ایک کپڑۓ میں جمع کرکے آپنے گھر لے آۓ اور وفات پیغمبر ص کے بعد قرآن کو اسی طرح مرتب فرمایا جیسے اللله نے نازل کیا تھا اور آپ ھی اسے بخوبی جانتے تھے.اس بات کی گواھی خود بخاری شریف جلد,6.ص530, دے رھی ھے که آپکا مصحف ترتیب نزول پر تھا.

جب خلافت پر قبضه ھوا تو اس دوران آپ یه نسخه اونٹ پر لاد کر مسجد نبوی میں اصحاب کے سامنے پیش کیا اور کها پاک نبی ص نے فرمایا میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑۓ جا رھا ھوں کتاب اللله اور عترت کتاب یه حاضر ھے اور عترت میں ھوں .

جواب ملا اگر آپ کے پاس کتاب ھے تو ھمارۓ پاس بھی ھے چنانچه آپ حجت تمام کرکے واپس تشریف لے آۓ.
افسوس اصحاب نے نسخه محمدی کو رد کردیا.
یه کیسے ممکن ھو سکتا ھے  که ان کے پاس کامل نسخه موجود ھو.

حضرت علی ع کا نسخه محمدی ص کے انکار کے بعد حضرت عمر کے اصرار کے بعد حضرت زید بن ثابت انصاری کو بلایا گیا اور ان سے کها که قرآن کو جمع کرنے کا کام شروع کرو .بڑی مشکل سے حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ھوۓ یه زمه داری قبول کرلی اور پچیس رکنی کمیٹی تشکیل دی اور اعلان کیا جس کے پاس بھی قرآن کا کچھ حصه ھو وه یهاں جمع کراۓ ساتھ دو گواه بھی لے آۓ اسی اثناء میں حضرت عمر یه عبارت لے کر آ گۓ .

(الشیخ والشیخة اذا زنیا فار جمو ھا البتة نکالا من اللله)

زید نے حضرت عمر کو پیش کرده عبارت کو قرآن کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکه حضرت عمر کے پاس مطلوبه گواه موجود نه تھے.
(السیوطی الاتقان فی علوم القرآن جلد-1 ص118)

حالنکه حضرت زید سے بھتر اور واضح مقام حضرت عبداللله بن مسعود کا تھا جس کا زکر بخاری جلد ششم ص 519,میں بھی ملتا ھے که ان کا نسخه پاک نبی سے تسلیم شده تھا.حفظ و قرات میں بھی انکا ثانی کوئی نه تھا.
لیکن حضرت عمر کے اصرار پر زید بن ثابت کو یه زمه داری دی گئی اس مقصد کیلۓ که مرضی سے آپنے حق میں قرآن میں عبارتیں داخل کروائی جا سکیں مگر حضرت عمر کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب حضرت ذید نے عبارت شامل کرنے سے انکار کردیا .
ٹھیک اس طرح جس طرح فاروق لغاری نے بے نظیر اور جسٹس وجھیه نے عمران خان کی امیدوں پر پانی پھیرا.

                                    (جاری ھے).

تحریف قرآن ,تشیع پر الزام کا جواب

شیعه مذھب
 میں تحریف قرآن ناممکن ھے
علمی,تاریخی تحقیق ملحاظه فرمائیں

" قسط نمبر:2.           تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ

تحریف ِ قرآن کو اجاگر کرنے والی روایات کو کیسے سمجھا جائے ؟

شیعہ عالم ِ دین جناب سید شریف الدین عاملی (المتوفی 1377 ھ) تحریر کرتے ہیں:

سُنی و شیعہ علماء کی کتب میں لکھی گئی احادیث کی کتابوں میں ایسی روایت موجود ہیں جو کہ اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن میں کمی واقع ہوئی ہے یعنی موجودہ قرآن اصل قرآن سے کچھ کم ہے لیکن یہ حدیثیں سُنی و شیعہ علماء کی نزدیک معتبر نہیں ہیں کیونکہ یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور اس کے علاوہ ان حدیثوں کے مدمقابل ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جو کہ سند کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ و وثاقت پر ہیں اور عدد و دلالت کے اعتبار سے بھی اکژ اور واضح ہیں ۔ لہٰذا ان بےشمار اور واضح حدیثوں کی موجودگی میں جو کہ تحریف ِ قراآن کی نفی کرتی ہیں ان ضعیف حدیثوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔
اور پھر تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی حدیثیں خبر ِ واحد ( ظن کا فائدہ دیتی ہیں) بھی ہیں اور خبر ِ واحد اگر مقام ِ عمل میں مفید نہ ہو تو وہ حجت اور دلیل نہیں ہیں پس ایک طرف قطعی اور یقینی دلیلوں سے ثابت ہیں کہ موجودہ قرآن تحریف سے منزہ ہے اور دوسری جانب بعض غیر معتبر حدیثوں کی وجہ سے قرآن میں تحریف کا گمان پیدہ ہوتا ہے ۔ واضح ہے کہ قطعی اور یقینی امر کو ظن و گمان کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا ۔ نتیجتاً قرآن کریم میں تحریف کو ثابت کرنے والی حدیثوں کو دور پھینکا جائےگا
اجوبت المسائل جار اللہ

تین اہم نکات

شیعہ علماء کی جانب سے تحریف کے عنوان پر مبنی روایات پر گفتگو اور ان روایات کا تجزیہ کرنے سے قبل ہم اپنے قارئین کی توجہ ان تین اہم نکات کی جانب مبذول کرنا چاہینگے ۔

پہلا نکتہ: کسی شیعہ عالم نے اپنی حدیث کی کتاب کو سوفیصد صحیح قرار نہیں دیا

وہ لوگ جو شیعہ کتب میں موجود چند روایات کو پڑھنے کے بعد اُن کتب کے مصنفین اور عام شیعہ حضرات کو برا بھلا کہتے ہیں وہ دراصل تعصب کا کُھلا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ کسی شیعہ مٰولف، مصنف یا عالم نے کبھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ اس کی کتاب میں موجود تمام روایات صحیح ہیں۔ اسی طرح شیعہ محدثین اور فقہاء میں سے بھی کسی نے کسی مخصوص کتاب کے صحیح ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اسی طرح استاد شیخ محمد جواد معتیہ فرماتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ ہمارے مسلک کی حدیث کی کتب مثلاً الکافی، الاسبصار ، التہذیب ، من لا ہحضرہ الفقہ میں صحیح اور ضعیف حدیثیں موجود ہیں۔ اسی طرح ہمارے علماء کی جانب سے لکھی گئی فقہی کتابوں میں بھی خطا اور صواب پر مشتمل مواد موجود ہے بلکہ یوں کہنا ذیادہ مناسب ہوگا کہ شیعان ِ علی (ع) کے عقیدہ میں قرآن مجید کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں جو کہ اول سے آخر تک لاریب اور بےعیب ہو۔

لہٰذا شیعہ علماء کی جانب سے لکھی گئی احادیث کی کتابوں میں موجود کسی حدیث کو شیعان ِ علی (ع) پر اُس وقت تک حجت اور دلیل کے اعتبار سے پیش نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ شیعہ شخص اس حدیث کے حدیث واقعی ہونے کا قائل نہ ہو۔

ہمارے ان مطالب کی تائید و تصدیق کے لئے یہ کافی ہے کہ شیخ محمد یعقوب کلینی (المتوفی 1329ھ) نے کتاب "الکافی" سولہ ہزار دو سو (16200) احادیث جمع کیں۔ کتاب کافی میں موجود ان حدیثوں کو علماء علم رجال و حدیث کی اصطلاح میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے یعنی صحیح ، موثق ، قوی ، حسن اور ضعیف۔ واضح امر ہے کہ جب الکافی جیسی معتبر اور احکام ِ شرعی کے لئے منبع اور سرچشمہ کی حیثیت رکھنے والی مرکزی کتاب کے متعلق علماء اس نظریے کے قائل ہیں تو دیگر کتابوں کی وضعیت خود بخود معلوم ہوجاتی ہیے۔

دوسرا نکتہ: شیعہ کتاب میں موجود حدیث کو مصنف کا عقیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا

اگر کسی مصنف کی کتابِ حدیث میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی حدیث موجود ہوں تو فقط اس اعتبار سے اس مصنف کے متعلق یہ نظریہ قائم کرنا کہ وہ تحریف ِ قرآن کا قائل تھا درست نہیں ۔ اور اگر اسی طرح ہر مصنف کے عقیدہ کو مشخص کرنا شروع کردیا گیا تو مسئلہ انتہائی مشکل ہوجائگا۔ کیونکہ حدیث کی کتابوں میں ایسی احادیث بھی تو ہیں جو کہ ایک دوسرے سے متناقض ہیں یعنی ایک حدیث کا مضمون دوسری حدیث کے مضمون کے ساتھ بالکل بھی قابل ِ جمع نہیں ہے۔ شیعہ علماء کی کتب ِ احادیث میں اس قسم کی احادیث کا موجود ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ کتاب میں موجود حدیث کو اس کے مصنف کا عقیدہ قرار دینا درست نہیں۔

تیسرا نکتہ: ایک فرد کے نظریہ کو اس فرقہ کے تمام لوگوں کا نظریہ بیان کرنا ناانصافی ہے

اگر کسی مذہب و مسلک کا معتقد شخص ایک نظریہ اختیار کرتا ہے تو اس نظریے کو پورے مسلک کی طرف منسوب کردینا کسی اعتبار سے بھی درست نہیں ہیں۔ بلخصوص جب اس مسلک کے معتبر علماء ایک شخص کے نظریہ ِ شخصی کی واضح مخالفت کریں تو پھر بھی اس کے نظریے کو ایک مسلک کا نظریہ قرار دینا تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ دنیا ِ علم میں آپ کو ایسی کئ کتابیں مل جائینگی جن میں مذکور نظریات فقط مصنف کی شخصی رائے ہوتے ہیں ان کے پورے مسلک کے عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اسی طرح شیخ نوری طبرسی (المتوفی 1320 ھ ) نے اگر تحریف ِ قرآن کا نظریہ اختیار کیا بھی ہو تو بھی اس نظریے کو شیخ نوری کی ذاتی رائے تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس نظریے کو تمام شیعان ِ علی (ع) کے جانب منسوب کرنا سراسر ظلم ہوگا۔

کون نہیں جانتا کے ابن تیمیہ کی کتابوں میں موجود خرافات اباطیل کو اہل سنت کے محققین شدت سے رد کرتے ہیں اس شدید تردید کے بعد اگر ابن تیمیہ کے عقائد کو تمام اہل سنت کا عقیدہ کہا جائے تو کیسا رہے گا ؟

ان تمام حقائق اور واضح دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص ایک فرد واحد کی رائے کو پورے شیعہ مسلک اور مذہب کا عقیدہ کہتا ہے تو ایسا شخص تعصب اور نفسانی خواہشات کی موجوں کے تھپیڑے کھاتا ہوا حق سے کوسوں دور ایک مذہب کو بدنام کرنے کا مجرم ہے۔

تحریف ِ قرآن سے متعلق روایات کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ

معروف شیعہ علماء و محققین نے ایسی روایات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے جن سے تحریف ِ قرآن کا شبہ پیدا ہوتا ہو اور انہوں نے اس بات پر بلاشک و شبہ اقرار کیا ہے کہ موجودہ قرآن ہی اصل قرآن ہے جو کہ کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی سے پاک ہے۔

تحریف ِ قرآن سے متعلق شیعہ کتب ِ حدیث میں موجود دو اقسام کی روایات

اول :۔ اس قسم کی احادیث کی اکثریت ضعیف ، مرسل اور مقطوع ہونے کی وجہ سے حجیت سے سا قط ہیں۔

دوم :۔ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کی سند میں موجود افراد معتبر ہیں لہٰذا اس قسم کی احادیث کی سند کے بارے میں تو سوال نہیں کیا جاسکتا البتہ ان احادیث کی تاویل و توجیہ کرنا ضروری ہے جیسا کہ اس قسم کی احادیث کے بارے میں علماء نے یہ فرمایا ہے کہ ان حدیثوں میں بعض تفسیر ِ قرآن و تاویل اور بعض سبب ِ نزول و قرئت اور کچھ تحریف ِ معنی سے متعلق ہیں۔ اور اگر ضعیف ، مرسل اور مقطوع احادیث کے متعلق بھی اس قسم کی تاویل و توجیہ اختیار کی جائے تو ان احادیث کے متعلق بھی اعتبار پیدا ہوسکتا ہے ۔ لیکن ضعیف احادیث میں توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا ضعیف ہونا ہی ان کے اعتبار کو ساقط کرنے کے لئے کافی ہے۔

ان معتبر اور سند کے اعتبار سے صحیح احادیث میں بعض احادیث ایسی بھی ہیں جو کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے میں اس قدر ظاہر اور صریح ہیں کہ ان میں کسی قسم کی تاویل و توجیہ بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس قسم کی احادیث کے بارے میں علماء نے واضح نظریہ اختیار کیا ہے کہ یہ منسوب اور گڑھی ہوئی احادیث ہیں لہٰذا انہیں ترک کردینا ہی مناسب ہے اور اپنے اس نظریے کو بیان کر نے کے لئے علماء نے درج ذیل دلیلیں بھی ذکر کی ہیں:
مستحکم ادلہ اور متواتر نقلوں سے ثابت ہے کہ قرآن مجید رسول اللہ (ص) کے دور میں ہی جمع ہوچکا تھا اور تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی یہ احادیث اس حکم ِ ضروری کی مخالف ہیں ۔ ان احادیث کا اس حکم ِ ضروری کے مخالف ہونا ہی دلیل ہے کہ یہ احادیث گڑھی گئی ہیں۔
یہ احادیث قرآن کریم کی اس آیت ِ کریمہ کے مخالف ہیں 'ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﻮ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﮨﯿﮟ' اور جو روایت قرآن کریم کے مخالف ہے وہ دور پھینک دینے کے ہی قابل ہے۔
تحریف ِقرآن کو ثابت کرنے والی یہ احادیث تعداد کے اعتبار سے بہت کم ہیں جبکہ قرآن ِ مفید کو تحریف سے محفوظ ثابت کرنے والی احادیث متواتر اور مشہور ہیں اور اس کے علاوہ مقابل میں آنے والی یہ احادیث دلالت اور سند کے اعتبار سے بھی (تحریف قرآن کو ثابت کرنے والی) حدیثوں سے قوی ہیں۔
قرآن مجید میں تحریف کو ثابت کرنے والی احادیث فقط حفید ظن ہیں جبکہ قرآن مجید کی قرآنیت کو یقینی اور قطعی احادیث سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جن آیتوں کے متعلق یہ احادیث قرآن کا جز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں ان آیات کی قرآنیت ان احادیث سے ثابت نہیں ہو سکتی اور ظنی احادیث پر شیعہ علماء کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں جبکہ بعض شیعہ علماء نے یہ نظریہ دیا ہے کہ خبر ِ واحد دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اگر ہم اس کی حجیت کے قائل بھی ہوں تو خبر ِواحد صرف اسی صورت میں دلیل ہے جب مقام ِ عمل میں مفید ہو خصوصاً عقائد کے باب میں خبر ِ واحد پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عقیدہ تو علم و یقین کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔

                            (جاری ھے)

تشیع پر تحریف قرآن کی سازش

مذھب شیعه کا ایمان ھے که
تحریف قرآن ناممکن ھے:کیونکه قرآن پاک کی حفاظت خود اللله پاک کے زمه ھے.(سوره حجر ع 9)

"قسط نمبر :1.             تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ

آج ایک عام مسلمان، چاہے وہ شیعہ ہو یا سُنی، اس شک میں مبتلا نہیں ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب میں لکھی باتیں درست ہیں یا نہیں اور اس کا اللہ کے کلام ہونے کا ثبوت ہے کہ نہیں۔ 
پس، ہم سب مسلمانوں کو قرآن مجید کے ایک ایک حرف پر پورا بھروسہ ہے اور یہ قرآن کا ہی معجزہ ہے کہ چاہے اسلام کا کوئی بھی مسلک ہو اور مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں بستا ہو، قرآن کی مختلف نقلوں میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں ملتا۔ لیکن دشمنان ِدین کو یہ ایک آنکھ بھی کیوں بھاتا۔ لہٰذا اسلام دشمن قوتوں نے ایک ٹولہ چن لیا اور اس کی پرورش کی اور پھر اس کے ذریعے دوسرے مکاتب ِفکر پر قرآن کے متعلق شک و شبہات پیدا کروائے تاکہ مذہب ِاسلام کی لاریب کتاب دنیا میں ایک متنازع کتاب بن جائے۔ یہ یزیدی ٹولہ ہے جو کہ ہمیشہ سے ہی خود کو سُنی ہی کہلانا پسند کرتا آیا ہے لیکن برادران ِاہل ِسنت میں صاحب ِنظر حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی سوچ اور ان لوگوں کے افکار کی بنیاد پر ان کے اسلاف کو ناصبی کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ناصبی یزیدی ٹولہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف تنظیموں کے ذریعے اسلام کا نام بدنام کرنے میں مصروف ہے اور اس عظیم دین کو تشدد پسند اور منافرت پسند مذہب کہلوانے پر تلا ہے۔

 برِصغیر میں یہ ناصبی ٹولہ سپاہ صحابہ کے نام سے مصروف ِعمل رہا ہے۔ پس، اپنے غیر ملکی آقائوں کی ایماء پر انہوں نے شیعان ِعلی ابن ابی طالب (ع) کو اپنا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف خرافات اگلنے شروع کردیئے۔ انہیں خرافات و الزامات میں سے ایک

 تحریف ِقرآن

 کا معتقد ہونا بھی ہے۔
اگرچہ ہمیں شیعہ و سُنی کتب میں ایسی کئی روایات ملتیں ہیں جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ قرآن میں خد۱نخواستہ تحریف واقع ہوئی ہو لیکن ایسی تمام روایات کو رد کرتے ہوئے شیعہ اوربرادران ِاہلِ سنت کا اجماع ہے کہ موجودہ قرآن پاک ، مکمل، معتبر اور اصل حالت میں ہے۔ لہذا ہمارے اس مضمون کو شائع کرنے کی پھر صرف دو ہی وجوہات باقی رہ گئی تھیں۔

1. ۔ اُن اذہان کے شبہات کو دور کرنا جو کہ اس قسم کی روایات کو پڑھنے کے بعد پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

2. دوسری اور زیادہ اہم وجہ ناصبیوں کی جانب سے شیعہ عقیدہ ِ قرآن پر بڑھتے ہوئے حملے تھے اور وہ بھی صرف اس لئے کہ سُنی کتب کی صحیح روایات کی طرح شیعہ کتب میں کچھ ایسی روایات ملتی ہیں ۔

نواصب عرصہ دراز سے اس بنا پر شیعان ِعلی ابن ابی طالب (ع) پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ آج بھی سپاہ صحابہ اور سلفی / وہابی مسلک کی اکثریت جو کہ دراصل ناصبیت کے بیروکارہیں اور انتہائی درجہ کے منافرت اور تشدد پسند ہیں ، اپنے ذہن کا گند باہر اگلتے ہوئے نظر آئیں گے کہ شیعوں پر کفر کا فتویٰ جاری کیا جائے کیونکہ ان کی کتب میں ایسی روایات ملتی ہیں جن سے قرآن میں تحریف کا معلوم ہوتا ہے۔ اب چونکہ ہم خرافات نہیں.
 بلکہ علمی مباحثوں پر یقین رکھتے ہیں اس لئے انشااللہ ہم ناصبی پروپگینڈے کی گہرائی میں جائینگے اور ائمہ طاہرین (ع) اور شیعہ علماء کی جانب سے قرآن کے متعلق اصل شیعہ عقیدہ پیش کرینگے اور پھرہم ناصبیوں کی منافقت کو ان کی کتب میں موجود صحیح روایات پیش کر کے عیاں کرینگے جن سے صاف معلوم ہوتا ہو کہ جن صحابہ و علماء کے احترام کے لئے ناصبی قتل و غارت گری کے لئے تیار ہیں، انہوں نے خود ایسی روایات بیان، نقل یا ان کی تصدیق کی ہے جو کہ تحریف ِ قرآن کے عقیدہ پردلالت کرتی ہیں اور آخر میں ہم فیصلہ ناصبیوں پر چھوڑ دینگے کہ وہ دہرا معیار نہ اپناتے ہوئے خود اپنے چہیتے علماء ، صحابہ و تابعین کے ایمان کا فیصلہ کرلیں۔

ہمیشہ کی طرح ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ عرصہ دراز سے منافرت اور تشدد پسند ناصبیوں کی جانب سے شیعان ِعلی ابن ابی طالب (ع) کی کردار کشی نے ہی ہمیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے اس لئے ہمارا تمام مواد انہی نواصب کے لئے ہے۔ اگر ہماری کسی بات سے کسی کو یہ لگے کہ مسلک ِ اہلِ سنت پر تنقید کی جارہی ہے تو یہ نظریہ درست نہ ہوگا کیونکہ مسئلہ ہی یہ ہے کہ یہ ناصبی لوگ ہمیشہ سے اہل ِسنت میں ہی چھپے رہے ہیں اور بظاہر سُنی کتابوں پر ہی یقین رکھتے ہیں لہٰذا مناطرہ کے اصولوں کے مطابق ہمیں بھی سُنی کتابیں ہی استعمال کرنی پڑتی ہیں۔

                             (جاری ھے)

ہفتہ، 20 اپریل، 2019

مقام صحابه آور شیعه مسلمان ..آخری قسط نمبر :12

"مقام صحابه اور شیعه مسلمان".             تحریر : سائیں لوگ"


قسط نمبر :12

(مظلوم میمنا کی کهانی) اور شیعه مذھب کی مظلومیت جاننے کیلۓ مکمل تحریر پڑھیں)

جب ھمارۓ دشمن ھمارۓ مسلک میں کوئی خامی تلاش کرنے میں ناکام رھتے ھیں تو پھر وه ایسی جھوٹی تھمتیں باندھتے ھیں انتھائی رکیک باتیں ھم سے منسوب کرتے ھیں ایسے بهتان لگاتے ھیں که صحیح الدماغ شخص ان کا تصور نھیں کر سکتا اسی طرح جھوٹوں میں ایک جھوٹا الزام ھم پر یه بھی ھے که شیعه تمام صحابه کو کافر قرار دیتے ھیں اوریاران رسول ص کو گالی بکتے ھیں.

شیعه مذھب پر یه سراسر بهتان ھے یه محض تعصب و معاندانه فرقه واریت کا مظاھره ھے.شیعه ھرگز اصحاب رسول ص کو گالی نھیں دیتے اور نه ھی اصحاب رسول ص کے دشمن ھیں.بلکه اس عمل کو کرنے والا شیعه ھی نھیں بلکه اسلام کادشمن ھے اور جھنمی ھے.

یه ھم سابقه اقساط میں واضح کر چکے ھیں.ھاں منافیقن سے برملا دشمنی اور نفرت کرتے ھیں وه بھی قرآن اور فرمان نبی ص کے عین مطابق.

آپ نے بھیڑ یے اور بھیڑ کے بچے کی کهانی تو ضرور سنی ھو گی یه بڑی سبق آموز ھے یه کهانی آج کی اختتامی قسط میں دھرائی جارھی ھے سماعت فرمائیں.

پانی کے گھاٹ پر ایک معصوم ننھا سا میمنه پانی پی رھا تھا که اچانک بھیڑیا نمودار ھوا بھڑیۓ کے منه میں پانی بھر آیا اس نے اس بھیڑ کےبچے کو آپنا لقمه بنانا چاھا مگر کوئی جواز تلاش نه کر سکا.شیطان نے اسکی مدد کی اور اس کے زھن میں یه عزر پیدا کیا که وه اس میمنے سے کهے که تو پانی گنده کر رھا ھے  اور یهی بھانه بنا کر اس پر حمله کا جواز نکالے حالنکه پانی بھیڑۓ کی طرف سے آ رھا تھا.میمنا بے چاره خوف کے مارۓ اس الزام سے سھم گیا اور کها حضور پانی تو آپکی جانب سے میری طرف آ رھا ھے بھلا خاکسار کی کیا مجال که پانی گدله کرسکے.

جواب معقول تھا بھیڑیا لاجواب ھو گیا مگر اسکی نیت میں فتور قائم رھا اس کا مدعا تو ھر قیمت پر اس بے بس و مجبور بچے کو ھڑپ کر نا تھا لھذا جھٹ سے بولا تو نے مجھے پچھلے سال گالیاں بکی تھیں .

میمنے نے حیران ھو کر التجا کی عالی جاه اس ناچیز کی عمر ھی ساری 4,ماه ھے پچھلے سال تو میرا وجود اس ارض فانی پر موجود نه تھا تو پھر یه گستاخی کیسے.

 اب دلائل و گفت و شنید سے بھیڑیۓ کی مراد بر نه آئی تو جھٹ سے بولا بکو مت تم نھیں تو تمھاری ماں یا باپ ھو گا جنھوں نے مجھے گالیاں دیں اور جھٹ سے لپک کر اس پر حمله کر دیا اور آپنے پیٹ کی آگ کو اس کے خون سے ٹھنڈا کیا.

چنانچه شیعه بے چاروں کی مثال بھی اس مظلوم میمنے جیسی ھے که ان کے دشمن کا مدعا صرف شیعه کشی ھے جس کی بر آری کی خاطر طرح طرح کے بهانے تراشے جاتے ھیں جن کی آڑ میں صدیوں سے قلع قمع کرنے کی کوشش کی جارھی ھے.

تاریخ شیعه کے خونچگاں ابواب اس حقیقت پر شاھد ھیں مگر جسے اللله رکھے اسے کون چکھے مارنے والے سے بچانے والا یعقینا زیاده طاقتور ھے.

شیعه ایثار کی رنگین داستانیں تاریخ میں محفوظ ھیں.
شیعه کو جس قدر دبایا گیا اس سے کهیں زیاده گنا ابھرے ھیں شیعه کو اصحاب کے بھانے جتنے ظلم ڈھاۓ اور جتنا قتل کیا گیا تو کتاب مقاتل   مرتب کی جاۓ تو شرافت اور انسانیت خون کے آنسو بھا ے لگے.

مگر شیعه نے سینے پر پتھر رکھ کر تمام نا مساعد حالات کا انتھائی جرات,پامردی,شجاعت اور صبر سے مقابله کیا.ھم باب مدینه کے ماننے والے ھیں علم ھماری حقیقی میراث ھے ھم آپنے اختلاف الزام لگانے والوں کے ساتھ که شیعه اصحاب کو نھیں مانتے کے ساتھ مل بیٹھ کے عقل و دانش سے طے کرنے کیلۓ تیار ھیں.

ھم نے اصحاب باوفا اور اصحاب منافقین کے بارۓ خوب وضاحت کی امید ھے قاری ھماری کاوش پر غور وفکر کریں گے.

اور سچےاصحاب اور منافقین کے فرق کو سمجھیں گے ھم نے قرآن اور احادیث کے زریعے واضح کر دیا.
شیعه مذھب کے پیروکار اصحاب باوفا کی خاکپا کو آپنی آنکھوں کا سرمه سمجھتے ھیں
.واسلام.

مقام صحابه اور شیعه مسلمان قسط/11

"مقام صحابه,اور شیعه مسلمان".          تحریر : سائیں لوگ"


قسط نمبر :11
اگر کوئی بھائی دس اقساط نه پڑھ سکا ھو تو صرف یه قسط پڑھ کے صحابی اور منافق صحابی کا فرق جان سکتا ھے.سمندر کو کوزۓ میں بند کیا گیا ھے,
معترض کو دعوت ھے اس پوسٹ کو چیلنج کرۓ.
جو کهتے ھیں سب صحابه مقام عدل,اور ھدایت کا مرکزھیں.
براه کرم وه خداره لازمی پڑھیں تاکه آپنی سوچ پر نظر ثانی کر سکیں.اور حقیقت ظاھر ھو.شکریه.
صحابی کی تعریف پر اہل سنت کا جو اجماع ہے وہ یہاں بیان ہوا ہے۔
اس تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ :
ایسا شخص "صحابی" متصور نہیں ہوگا جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو۔ 
بحوالہ : الإصابة في تمييز الصحابة : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، ج:1 ، ص:7-8

بخاری اور مسلم میں کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بھی "صحابی" کے لفظ سے یاد کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے .
سوال یہ ہے کہ کیا یہ منافقین یا مرتدین ۔۔۔۔ ان احادیث کی رو سے "صحابی" کی اصطلاحی تعریف میں شمار ہوتے ہیں؟
یعنی ۔۔۔۔
اسی سوال کے ایک دوسرے رُخ کے مطابق ۔۔۔۔
کیا بعض صحابہ منافق تھے ؟؟

صحیح بخاری سے اسی سلسلے کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:

النبي صلى الله عليه وسلم قال
يرد على الحوض رجال من اصحابي فيحلئون عنه فاقول يا رب اصحابي. فيقول انك لا علم لك بما احدثوا بعدك، انهم ارتدوا على ادبارهم القهقرى.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حوض (کوثر) پر میرے صحابہ کی ایک جماعت آئے گی۔ میں عرض کروں گا ، میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں ، یہ الٹے پاؤں (اسلام سے) واپس لوٹ گئے تھے (مرتد ہو گئے)۔
صحيح البخاري , كتاب الرقاق , باب في الحوض , حديث:6666

کتاب الرقاق کے اسی باب "فی الحوض" میں اسی نوعیت کی بہت سی احادیث ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ بخاری کی روایت میں "اصحابي" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی ۔۔۔
نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں دیکھ کر "میرے صحابہ" کہیں گے ، اس طرح ان منافقین کے "صحابی" ہونے کی گواہی دیں گے
تو اس کا جواب درج ذیل قرآنی آیت ہے :

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے :
وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْاور
آپ کے گرد وپیش اعرابیوں میں سے منافقین بھی ہیں اور اہل مدینہ میں سے بھی چند لوگ نفاق تک پہنچ چکے ہیں ، تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔
( التوبة:9 - آيت:101 )
اس آیت سے دو باتیں واضح‌ طور پر ثابت ہو رہی ہیں :
1۔ منافقین میں مکہ کے اعرابی بھی شامل تھے اور مدینہ کے چند لوگ بھی
2۔ تمام منافقین کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے بلکہ ان کی اصل تعداد کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

اس آیت میں منافقین کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) تمام منافقین کو نہیں جانتے۔ اور روزِ حشر تو خود حوض کوثر کے قریب اللہ تعالیٰ فرما دے گا کہ یہ متذکرہ منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے۔

ہم کسی بھی مسلمان کو ظاہری طور پر پرکھ کر ہی مسلمان کہتے ہیں۔ کسی کے دل کا حال سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔
اسلام کو ظاہری طور پر قبول کرنے (کلمۂ طیبہ پڑھ لینے والے) کو ہی مسلمان کہتے ہیں۔ اس بات کی دلیل یہ آیت ہے:
قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں
( الحُجُرات:49 - آيت:14 )
اور حافظ ابن کثیر بھی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ :
اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں کہئے کہ "تم یوں نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے۔۔۔" ۔۔۔ ایمان اسلام سے مخصوص چیز ہے۔ حدیث جبریل بھی اسی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں ۔۔۔۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ :
بخاری کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جن ساتھیوں کا بیان ہو رہا ہے ، آیا وہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے اسلام لانے والے منافقین تھے یا (اصطلاحی) صحابی تھے؟

اس بات کی وضاحت میں  اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ ۔۔۔۔
درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بسا اوقات کلمہ "اصحابه" سے وہ تمام لوگ مراد لیے ہیں جو قبول اسلام کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی یعنی امتی بنے۔
ہماری اس توجیہ کے بعض مضبوط دلائل ہیں ، جو آپ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

1۔ بخاری کی ایک حدیث میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کی گردن مار دینے کی اجازت جب حضرت عمر نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے طلب کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ :
دعه لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه
کہیں یوں نہ کہا جانے لگے کہ محمد اپنے صحابه کو قتل کرتا ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب التفسیر

بتائیے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کیا آج تک کسی مسلمان نے "صحابی" کا درجہ دیا ہے؟

2۔ بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے متعلق اللہ کا کلام جاننے کے بعد ان منافقین سے فرمائیں گے:
سحقاً سحقاً (تمہاری ہلاکت ہو)
صحیح بخاری ، کتاب الفتن

3۔ تیسری دلیل أمتي أمتي کے الفاظ والی حدیثِ بخاری ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب التوحید

پس ثابت ہوا کہ بخاری کی اس روایت میں "اصحابي" سے مراد اصطلاحی صحابی نہیں بلکہ عرفاً صحابی مراد ہے۔ جیسا کہ بخاری ہی کی ایک روایت میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے "اپنے ساتھی" کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔

منافقین ہر دور میں رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔

اس کے علاوہ ۔۔۔۔۔۔
مسلم کی یہ حدیث دیکھئے جس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے :
في أصحابي اثنا عشر منافقاً لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها
میرے ساتھیوں میں 12 منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے اور نہ اس کی خوشبو پائیں گے
صحيح مسلم ، كتاب صفات المنافقين وأحكامهم

بھلا بتائیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی نبی سے ایسی بیشمار متواتر روایات منقول ہوں جن میں سچےصحابہ کرام کے فضائل و کرام بیان کئے گئے حتیٰ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ تک کہے کہ :
لا تسبوا أصحابي
میرے صحابہ کو برا نہ کہو
صحيح بخاری ، كتاب فضائل الصحابة

 نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)  اپنے سچے صحابہ کو برا نہ کہنے کی نصیحتیں کرتا ہے .

 جھوٹ قطعاً نہیں کہتے کیونکہ صحیحین کی ان روایات پر اجماع امت ہے۔ لہذا ہمارے علماء و ائمہ ومحدثین نے یہی تطبیق دی ہے کہ :
متذکرہ منافقین عرفاً نبی کے ساتھی تھے [یعنی کہ بالکل ویسے ہی جیسے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو نبی نے اپنے "أصحابي" میں شمار کیا]، اصطلاحی و شرعی معنوں میں وہ "صحابی" نہیں تھے ، کیونکہ صحابی کی اجماعی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ وفات "ایمان" پر ہوئی ہو!
اور جن منافقین کو اللہ تعالیٰ خود کہہ چکا ہے کہ وہ "مرتد" ہو چکے ، وہ بھلا کس طرح "صحابی" کی تعریف میں شمار ہو سکتے ہیں؟؟

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو سچے وفادار حبِّ صحابہ سے بھر دے اور ہمیں اتنی توفیق عطا فرمائے کہ ناموسِ صحابہ کی خاطر قصرِ صحابیت پر کئے جانے والے ہر حملے کا موثر دفاع کر سکیں ، آمین!

at-10:57 AM

مقام صحابه آور شیعه مسلمان :قسط/10

"مقام صحابه,اور شیعه مسلمان".              تحریر : سائیں لوگ"


قسط نمبر :10
(موضوع آخری مراحل میں ھے ضرور پڑھیں.)

افسوس ھے اسلام میں کھچڑی پکانے والے گمراه لوگ ھی اسلام کی رسوائی کا سبب بنے ھوۓ ھیں.

 جهاں عدل نه ھو وه معاشره دین تنظیم,جماعت,اداره تباه و برباد ھو جاتاھے اور جلد ھی صفحه ھستی سے غائب ھو جاتے ھیں.

اسلام کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح ھوا ھے مگر یه خوش قسمتی ھے که ایک قوم جماعت جن کے فروع میں ھی عدل ھے نماز روزۓ کی طرح عدل پر عمل کرنا بھی فرض ھے .جسکی وجه سے اسلام قائم ھے.

اس قوم, مذھب میں عالم کو جاھل کے برابر درجه نھیں دیا جاتا اور نیک پارسا کو گنھگار کے برابر نھیں ظالم کو مظلوم کے برابر نھیں اور قاتل کو مقتول کے برابر نھیں.

خبیث اور طیب برابر نھیں ڈاکٹر اور لوھار برابر نھیں حتی که مومن اور مسلمان برابر نھیں.

یه قرآن کا بھی فیصله ھے پاک نبی ص اور  آل محمد کا بھی یهی فرمان ھے که ھر چیز کو اس کے وزن پر پرکھا جاۓ.جسکا جتنا مقام بلنداس کا اتنا رتبه بلند.

لیکن اسلام کے چند مذاھب اس چیز کے قائل نھیں وه کهتے ھیں سب کو ایک ھی صف میں رکھا جاۓ اس چیز کا فیصله اللله پاک کرۓ گا کیونکه عزت زلت اسی کے ھاتھ میں ھے.
ظالم ,مظلوم,قاتل,مقتول,منافق,مومن سب زی محترم ھیں.ھم کچھ نھیں کهه سکتے.

لیکن جب ان کے ساتھ بنتی ھے یا ان کے مفادات کے خلاف کوئی عمل ھو تو پھر احتجاج کرتے ھیں اسے نا انصافی کهتے ھین.آج کی مثال لے لیں. بنگله دیش کے شھری کو پھانسی لگی احتجاج پاکستان میں ھو رھا ھے.
مگر جب اسی طرح کی زیادتی سعودیه کرتا ھے بے جرم جس نے ظالم غاصب حکومت کے خلاف احتجاج کیا تو اسے اس احتجاج کی پاداش میں قتل کر دیا گیا.اس ناحق قتل پر ھم نے احتجاج کیا تو دوسرۓ ملک کے قوانین میں ٹانگ آڑانا کها.

اور اندرونی معامله کهه کر ھمارۓ عمل کو غلط کها اب بنگله دیش کا بھی اندرونی مسله ھے بھائی احتجاج کیوں.
لیکن ھم اس پھانسی کے بھی خلاف ھیں اور آیت اللله شیخ نمر کی پھانسی کے بھی خلاف ھیں.

ھمارۓ دشمن یهاں تک زبان درازی کرتے ھیں اور کهتے ھیں شیعه تمام اصحاب کو گالی دیتے ھیں.لھذا یه مرتد و کافر ھیں.
اگر یه عمل یهی کریں بلکه پاک نبی ص تک گستاخی کر جائیں تو یه مرتد اور کافر نھیں ھوتے .
حالنکه ھمارا ایمان ھے معصومین ع کے بعد اصحاب رسول ص کا درجه امت سے بلند ھے لیکن ھاں ھم صحابی کهتے ھی اس فرد کامل کو ھیں جو اول سے لے کر تادم موت حالت ایمان میں رھے مطلب ھمارا واضح اور صاف ھے .اس کے برعکس جس کسی کا خاتمه بالخیر نه ھو گا وه شرف صحابیت سے خارج ھے.

صحابه کی تعدا ایک لاکھ پچیس ھزار نفوس سے زائد یا کم تھی لیکن ان میں مدارج کے لحاظ سے یعقینا مراتب کا فرق ھے.

اھلسنت کے امام ابن قتیبه کی تحقیق کے مطابق صرف ستره اصحاب النبی کو امتیاز حاصل تھا.
حضرت سلمان فارسی.
حضرت ابوزر غفاری.
حضرت مقداد بن اسود
حضرت خالد بن سعید
حضرت یزید اسلمی
حضرت ابی بن کعب 
حضرت عمار یاسر
حضرت خذیمه بن ثابت
حضرت سھل بن حنیف
حضرت عثمان بن حنیف
حضرت ابو ایوب انصاری
حضرت حزیفه بن یمان
حضرت سعد بن یمان
حضرت قیس بن سعد
حضرت عباس بن عبدالمطلب
حضرت عبداللله بن عباس
حضرت ابو الھیشم بن تیھان رضی اللله تعالی عنھم.

شیخ محمد حسین آل غطا نے 300,نفوس کا حوالا دیا ھے.

علامه نوری نے سات اصحاب کو خالص اصحاب میں شامل کیا ھے.اھلسنت کے عالم ابو حاتم سبحستانی بصری بغدادی آپنی کتاب "الزینت"میں چند ایک اصحاب کو شامل کیا ھے جن کو شیعه برا بھله کهتے ھیں ان کا کهیں بھی نام نھیں.
                          (جاری ھے)

مقام صحابه آور شیعه مسلمان قسط/9

"مقام صحابه اور شیعه مسلمان".         تحریر : سائیں لوگ"



قسط نمبر :9
صحابه اور منافق کو سمجھنے کیلۓ یه قسط لازمی پڑھیں.

شیعوں پر یه بھتان باندھا جاتا ھے که اصحاب رسول ص کو گالی دیتے ھیں.(نعوزباللله)

اگر ھم تاریخ کا مطالعه کریں تو معلوم ھوتا ھے که گالی شیعه نھیں دیتا.
 بلکه معاویه اور اس کے حواری اس گناه کبیره کے مرتکب ھو ۓ ھیں.
اھل تشیع کا یه عقیده ھے که ھم سچے باوفا اصحاب کے غلام تو کجا خاکپا ھونا بھی شرف سمجھتے ھیں.
اسی غلط فھمی کو دور کرنے کیلۓ ھم قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کر رھے ھیں که منافق اور اصحاب قطعا ھم پله نھیں ان میں فرق کرنا لازم ھے.

بصورت دیگر ھم گمرائی کا شکار ھو جائیں گے.اور صحیح دین اسلام کو سمجھنے میں ناکام رھیں گے کیونکه منافقین کی اسلام میں داخل خرافات,بدعات پر عمل جھنم میں جانے کا موجب بنے گا.

حقیقت میں اسلام اس سے محترم اور عزیز تر هے که هم اسے هر زمان و مکان کے مجرمین اور منحرفوں کے جرم کے ساتھـ مخلوط کریں ! یه همارا اعتقاد هے اور اس سلسله میں هم کسی سے مذاق نهیں کرتے هیں ، کیو نکه حق، بیان و اتباع کر نے سے بھی زیاده سزاوار هے-

هم اپنے اهل سنت بھائیوں سے سوال کر تے هیں که کیا آپ تیسرے خلیفه حضرت عثمان اور ان کے قاتلوں کو برابر اورمساوی جاننے کے قائل هیں ؟
اگر یه مساوی هیں تو کیوں عثمان کی خونخواهی کے بهانه سے حضرت علی علیه السلام پر یه سب حملے کئے گئے اور حضرت کے خلاف جنگ جمل و صفین کی آگ بھڑکا دی گئی؟ اور اگر یه دو گروه مساوی نهیں هیں اور حضرت عثمان کے قاتلوں کی بات هی نهیں بلکه اس قتل میں معاونت اور حمایت کر نے والوں کو بھی دین اور شرع سے خارج سمجھا جاتا هے،

 یهی تو صحابی کی عدالت کا فقدان هے! پس شیعوں پر کیوں الزام لگایا جاتا هے جبکه ان کا نظریه دوسروں کے نظریه کے مانند هے؟!
اس بناپر شیعوں کے اعتقاد کے مطابق عدالت کا معیار پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سیرت سے تمسک پیدا کر نا اور آنحضرت کی زندگی میں آپ(ع) کی حیات کے بعد آپ(ص) کی سنت پر عمل کر نا هے- جو بھی اس راسته پر گامزن هو اس کا احترام کیا جاتا هے اس کی روش کی پیروی کی جاتی هے ، اس کے لئے طلب رحمت کی جاتی هے.

 اور هم اس کے درجات بلند هو نے کی دعا بھی کرتے هیں – لیکن جو اس راه کے راهی نه هوں ، هم انھیں عادل نهیں سمجھتے هیں- مثال کے طور پر دو صحابیوں نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی ایک بیوی کے همراه لشکر کشی کی اور بصره میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم  کے حقیقی اور قانونی خلیفه حضرت علی بن ابیطالب علیه السلام سے جنگ جمل کی آگ بھڑ کادی اور اس جنگ میں هزاروں مسلمان قتل کئے گئے ، اب هم پوچھنا چاهتے هیں که کیا یه خروج اور اس قدر خون بهانا جائز هے؟

یا یه که ایک دوسرا شخص جس کے لئے رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کا صحابی هو نے کا عنوان هے، صفین نامی ایک جنگ میں خروج کر تا هے ،ایک ایسی جنگ جس نے خشک وتر کو آگ لگادی – همارا کهنا هے که یه کام خلاف شرع اور شرعی امام اور خلیفه کے خلاف خروج هے –اس قسم کے اعمال صحابی هو نے کے بهانه سے صحیح نهیں هو سکتے هیں اور قابل قبول نهیں هیں- یه وهی اختلاف هے جو شیعوں اور دوسروں کے در میان پایا جاتا هے-
یه مسلم بات هے که یهاں پر برا بھلا کهنا بحث سے خارج هے-
مذید ثبوت کیلۓ درج زیل حوالاجات کو ضرور دیکھیں اور آپنی روش کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں که سب اصحاب ,منافق ھدایت کا مرکز ھیں.

[1] - سوره فتح،٢٩ -
[2] -عدالت صحابی ،ص١٤،مجمع جهانی اهل بیت (ع)-
[3] - نهج البلاغه ،ص١٤٤،خطبه ٩٧-
[4] - نهج البلاغه، تحقیق صبحی صالح،ص١٦٤،خطبه ١٨٢-
[5] - صحیفه سجادیه ،ص٤٢، دعاء حضرت بر پیروان پیامبران-
[6] - مجموعه کامله ،شماره ١١، بحث درباره ی ولایت ص٤٨-
[7] - سوره توبه ،١٠٠-
[8] - سوره فتح،١٨-
[9] - سوره حدید ،١٠-
[10] - سوره منافقون،١٠-
[11] - سوره توبه،١٠١-
[12] - سوره احزاب،١١-
[13] - سوره توبه، ٤٥- ٤٧-
[14] - سوره توبه،١٠٢-
[15] - سوره آل عمران، ١٥٤-
[16] - سوره حجرات،٦ سوره سجده، ١٨-
[17] - سوره حجرات ،١٤-
[18] - فصول المهمه ،عبدالحسین شرف الدین ، ص١٨٩-

مقام صحابه آور شیعه مسلمان ...قسط/8

"مقام صحابه,اور شیعه مسلمان".        تحریر : "سائیں لوگ "


قسط نمبر :8.

یه تحریر پڑھنا اتنا لازم ھے جتنا تپتے صحرا میں قریب المرگ پیاسے کا پانی پینا.

قرآن پاک میں اللله تعالی منافقین کے بارۓ که رھے ھیں آۓ محمد ص اگر ستر بار بھی ان دھوکه دینے والوں کی سفارش کرو گے تو میں انھیں نھیں بخشنے والا.(سوره توبه.80)

اب اگر اللله پاک ھی اصحاب منافقین کو معاف نھیں فرما رھے تو کیا ھم انھیں ھدایت کا مرکز سمجھ کر جھنم جائیں.
بلکه بخاری شریف میں بھی جھنمی اصحاب کا زکر کافی مقامات پر آیا ھے.

بات سمجھنے کی ھے ضد اور تعصب میں ھمارا ھی نقصان ھے اور اسکی سزا تکڑی جھنم کی آگ ھے.

ھم شیعه خیر البریه کا اصحاب پیغمبر ص کے بارۓکیا عقیده ھے ملحاظه فرمائیں.

3-فتح سے پهلے خیرات  کر نے والے اور مجاهدین:اس گروه کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد هے:"--- اور تم میں سے فتح سے پهلے خیرات  کر نے والا اور جهاد کر نے والا اس کے جیسا نهیں هو سکتا ھے ، جو فتح کے بعد خیرات  اور جهاد کرے- پهلے جهاد کر نے والے کا درجه بهت بلند هے ، اگر چه خدا نے سب سے نیکی کا وعده کیا هے اور تمھارے جمله اعمال سے باخبر هے-
مذکوره  اهم  نمونوں اور دلچسپ شخصیتوں کے مقابلے میں قرآن مجید چند دوسرے گروهوں کا بھی ذکر کر تا هے جو مذکوره گروهوں سے واضح فرق رکھتے هیں:

١- منافقین[10]
٢- وه منافقین جو چھپے تھے اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم انھیں نهیں پهچانتے تھے -11,

٣- ضعیف الایمان اور دل کے مریض انسان-[12]
٤- وه (سست اور ضعیف)افراد جو اهل فتنه کی باتوں پر کان دھرتے هیں-[13]
٥-وه لوگ جو اچھے اور برے دونوں کام انجام دیتے هیں -[14]

٦- وه لوگ جو مرتد هوئے هیں-[15]

٧- و فاسق جن کے قول و فعل میں تضاد هو تا هے-[16]
٨-وه لوگ جن کے دلوں میں ایمان داخل نهیں هوا هے – [17]بعض دوسری بری صفتیں جو بعض لوگوں کے لئے ذکر هوئی هیں-
اس کے علاوه ، صحابیوں کے در میان ایسے افراد بھی تھے جو رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کو شب عقبه میں قتل کر نے کا اراده رکھتے تھے-[18]
پس صحابیوں کے بارے میں شیعوں کا نظریه ، خلاصه کے طور پر یوں بیان کیا جاسکتا هے که:
مکتب اهل بیت علیهم السلام میں صحابی دوسرے لوگوں کے مانند هیں ، یعنی ان کے درمیان عادل بھی هیں اور غیر عادل بھی-
ایسا نهیں هے که جو بھی صحابی هو وه سب عادل هوں گے ، جب تک ایک صحابی کے سلوک میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سیرت اور طرز عمل نے اثر نه کیا هو، صرف صحابی هو نا عدالت کے لئے کوئی دلیل نهیں هے –

پس ، صحابی کا طرز عمل اور سلوک معیار هے – جس کی سیرت اسلامی معیاروں کے مطابق هو وه عادل هے اس کے علاوه غیر عادل هے- جیسا که هم نے بیان کیا یه نظریه قرآن مجید اور سنت نبوی (ص) کے مطابق هے-

یه کیسے اور کس منطق کے مطابق ممکن هے که مالک بن نویره جیسے باعظمت صحابی اور ان کو ظالمانه طور پر قتل کر کے پهلی هی رات کو ان کی بیو ی سے همبستری کر نے والے شخص کو مساوی طور پر صحابی مانا جائے؟!
یه هر گز صحیح نهیں هے که ولید بن عقبه جیسے شراب خوار کی صرف صحابی هو نے کی وجه سے حمایت اور طرفداری کریں یا ایک ایسے شخص کا دفاع کریں جس نے اسلامی حکو مت کو ایک جابر اور ڈیکٹیٹرشپ میں تبدیل کیا اور امت کے نیک اور صالح انسانوں کا قتل کیا اور حقیقی امام اور خلیفه (علی بن ابیطالب علیه السلام) کے ساتھـ جنگ کی؟

کیا یه صحیح هے که هم عمار یاسر اور باغیوں کے گروه کے سردار دونوں کو صحابی هو نے کے ناطے مساوی جانیں وه بھی اس حالت میں جبکه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآه وسلم نے فر مایا هے :" عمار کو ظالموں اور باغیوں کا ایک گروه قتل کرے گا-"

کیا کوئی عقلمند ایسا کرے گا؟ فرض کیجئے  اگر هم ایسا کریں ، تو کیا اس صورت میں اسلام صحابی کے بهانے ظالموں اور جابروں کی حمایت کر نے والے دین کے علاوه کچھـ اور باقی رهتا هے؟(جاری ھے)

مقام صحابه آور شیعه مسلمان

"مقام صحابه,اور شیعه مسلمان".        تحریر : سائیں لوگ

قسط نمبر :7
ھم پهلی قسط کی تحریر سے لے اب ساتویں تحریر تک واضح کرتے آۓ ھیں که شیعه مذھب باوفا اصحاب رسول ص کے قدموں کی خاک کو آپنی آنکھوں کا سرمه سمجھتے ھیں.لیکن چند اندھیرۓ میں رھنے والے بھائی تا حال بضد اور آپنی ھٹ دھرمی پر ڈٹے ھوۓ ھیں ھمارۓ پاس ناقابل تردید ٹھوس ثبوت ھیں قرآن پاک صحاح سته سمیت نایاب اور معتبرکتب اھلسنت میں موجود ھے که سچے اور پکے اصحاب اور منافق لالچی فتنه باز صحابی موجود تھے.
انشاءاللله آخری اقساط میں ثابت کریں گے کرداردکے
 آئینه میں.

ابھی ھم وفادار اصحاب کے متعلق شیعه مذھب کے عقیده بارۓ بحث کرتے ھیں.

 شیعوں کے فقها بھی صحابه کے لئے شان و منزلت کے قائل تھے – شهید صدر (رح) فر ماتے هیں ": صحابه مٶمنین کے پیش قدم اور امت کی رشد و بالید گی کو واضح کر نے والے بهترین افراد تھے – یهاں تک که تاریخ انسانیت ، پیغمبر اکرم صلی الله علی وآله وسلم کے توسط سے تر بیت کئے گئے صحابه سے بهتر، برتر اور عقید تمند تر نسل کو پیش نهیں کرسکی هے-
یقیناً هم اهل سنت کے ساتھـ صحابه کے سلسله میں بعض اختلافات رکھتے هیں ، کیونکه هم پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے صحابیوں اور آپ صلی الله علیه وآله وسلم کے ساتھـ مصاحبت کر نے والوں کو چند گروهوں میں تقسیم کرتے هیں:
١- پیش قدم گروه: اس گروه کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد هوا هے:" اور مها جرین و انصار میں سے سبقت کر نے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا هے اور ان سب سے خدا راضی هوگیا هے اور یه سب خدا سے راضی هیں اور خدا نے ان کے لئے وه باغات مهیا کئے هیں جن کے نیچے نهریں جاری هیں اور یه ان میں همیشه رهنے والے هیں اور یهی بهت بڑی کامیابی هے.
              (جاری ھے)

مقام صحابه آور شیعه مسلمان /قسط:6

"مقام صحابه اور شیعه مسلمان".              تحریر: سائیں لوگ "



 

قسط نمبر :6

آج ھم قرآن پاک اور بخاری شریف کی احادیث کے سکین دے رھے ھیں که یه جھنمی اصحاب کون ھیں.

بعض لوگ کهتے ھیں که شیعه مسلمان اصحاب رسول ص کو گالی دیتے ھیں میں حلفا بیان کرتا ھوں که وه شیعه ھی نھیں جو پاک نبی ص کے سچے وفادار جاں نثاز اور مخلص صحابی کو گالی دے.
جن کی مدد و نصرت سے اسلام پهیلا بھلا وه کیسے بھلاۓ جا سکتے ھیں مخلص خیر خواه صحابی کو وھابی تو گالی دے سکتا ھے پر شیعه نھیں.

شیعه مذھب کے چوتھے امام سجاد علیه اسلام کی باقاعده ایک دعاء ھے ملحاظه فرمائیں.

امام سجاد علیه السلام بھی صحیفه سجادیه میں اصحاب پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے لئےدعا کرتے هوئے فر ماتے هیں: " خدا وندا! اپنے تمام پیرٶں اور هر زمانے میں( حضرت آدم علیه السلام سے خاتم الانبیاء تک بھیجے گئے انبیاعلیهم السلام)پیغمبروں کی تائید و تصدیق کر نے والوں کو اور ان سب پر سلام و دورود بھیجنا ، جنهوں نے انبیاء کے مشکلات سے دو چارهو نے پر ( جب دشمن انھیں جھٹلا کر ان کی مخالفت کرتے تھے)مخفی طور پر (دل میں) ان پر ایمان لاکر ان کے گرویده هو گئے اور انھیں عفو و بخشش اور اپنی خوشنودی کے ساتھـ یاد فر مایا! خداوندا! حضرت محمد (صلی الله علیه وآله وسلم) کے اصحاب کی مدد فرما، 

خاص کر جنھوں نے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے ساتھـ مصاحبت کے حق کو بهتر صورت میں ادا کیا اور ان کی مدد کر نے کی راه میں مشکلات برداشت کیں اور جنگوں میں بهادری اور دلاوری کے جوهر دکھائے اور اس طرح ان کی مدد کی اور ان پر ایمان لانے میں سبقت پائی اور ان کی دعوت کو قبول کیا، اور جب پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے اپنی رسالت کو ان تک پهنچا دیا تو انھوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی دعوت کی تبلیغ میں اپنے اهل وعیال کو چھوڑ دیا اور اپنے پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے مشن کی بنیادوں کو مستحکم کر نے کے سلسله میں اپنے والدین اور فرزندوں کے ساتھـ جنگ کی.

 اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی مدد سے کامیاب هوئے اور وه جنھوں نے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی محبت اورد وستی کو نقصان کے بغیر تجارت کے طور پر اپنے دلوں میں جگه دی تھی،  اور ان پر درود و سلام بھیجنا! جنھیں آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی حمایت کر نے پر اپنے قبیلوں اور خاندانوں سے نکال باهر کیاگیا اور انھیں (پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا ساتھـ دینے پر) اجنبی شمار کیاگیا ! پس خدا وندا! انھوں نے جو کچھـ تیرے لئے اور تیری راه میں کھو دیا هے ، اس کی تلافی فر ما ،

اور لوگوں کو تیرے نزدیک لانے، پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے همراه تیری طرف لوگوں کو دعوت کر دینے اور تیری راه میں اپنے وطن ، شهر اور رشته داروں کو چھوڑ نے اور آرام وآسائش کی زندگی چھوڑ کر سختی اور مشکلات برداشت کر نے کے عوض انھیں اپنی خوشنودی سے خوشحال فر ما! اور ان مظلوموں کو اجر و صله عطا فر ما جنھوں نے تیرے دین کی نصرت کر نے والوں کی تعداد کوبڑھایا هے – خداوندا! اصحاب محمد صلی الله علیه وآله وسلم کے تابعین کو بهترین جزا عطا فر ما جو اصحاب رسول صلی الله علیه وآله وسلم کی راه پر چل کر کهتے تھے : "

 پروردگارا! همیں اور همارے ان بھائیوں کو عفو وبخشش عطا فر ما جنھوں نے ایمان میں هم پر سبقت حاصل کی هے.

                             (جاری ھے)

مقام صحابه آور شیعه مسلمان

"مقام صحابه,اور شیعه مسلمان".           تحریر  : سائیں لوگ 

قسط نمبر:5 -(لازمی پڑھیں)

شیعوں پر یه الزام بهت قدیمی ھے که یه صحابه کرام کو نھیں مانتے اور انھیں گالی دیتے ھیں(نعوزباللله)
اسکی یه وجه ھے شیعوں نے قرآن پاک کا مطالعه کرتے ھوۓ منافق اور مومن اصحاب کی تفریق کرتے ھوۓ سب ڈھونڈ ڈالے جن کا زکر قرآن پاک کی ھر سوره میں پایا جاتا ھے.
جب منافق اصحاب سے بیزاری اور ان کے کردار کے مطابق قرآن کے فرمان کے مطابق انھیں لعن کیا گیا گیا حامیان منافق صحابه کو جنھوں نے کھچڑی پکائی ھوئی تھی انھیں یه بات ناگوار گزری.
 جنھوں نے عدل کیۓ بغیر سب کو ایک درجه میں رکھا ھوا تھا.

لیکن انھیں منافقین اصحاب کے متعلق خود اللله تعالی آپنی کتاب مقدس میں حکم فرماتےھیں که یه لوگ مغضوب ھیں ان سےمحبت نه کی جاۓ.(سوره الممتحنه ع 13)

شیعه نے اس میعار کو سامنے رکھا که جن لوگوں سے عترت اھلیبیت ع نے بیزاری اختیاری فرمائی اھل پیروکاران محمد و آل محمد (شیعه) نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نه دیکھا چنانچه اس سلسله میں ھماری جانچ پڑتال کی کسوٹی عترت پیغمبر سے محبت و مودت مقرر ھوئی.

جس نے اھلبیت ع سے محبت رکھی ھم نے اسے کامل مومن اور فرد متقی مانا اور جس جس نے بھی ثقل دوم آل محمد علیهم اسلام سے عداوت رکھی ھم بھی ان سے نفرت کرتے ھیں.

دیوبندی مولوی رشید احمد گنگوھی نے شیعه کے خلاف تحریر کرده آپنی کتاب "ھدایة الشیعه"میں لکھا که "لا ریب اھلسنت صحابی اس کو کهتے ھیں که باسلام خدمت سرور عالم ص میں حاضر ھوا اور با ایمان انتقال کیا .
اور مرتد ھو کر مرنے والے کو صحابی نھیں کهتے.(ھدایة الشیعه,ص22).
پس یهی عقیده شیعه ھے پھر اختلاف کیسا,غوغا کیسا اسی کتاب کے صفحه 75,پر گنگوھی صاحب نے لکھا ھے که اور بعض منافق بھی صحابه میں ملے ھوۓ تھے ھر چند ان کے نفاق کی خبر صحابه کو تھی مگر حکم ظاھر پر تھا,
اور انجام کار سب ممیز ھوگۓ تھے کسی کا حال مخفی نه رھا تھا پس اب خود فیصله کر لیا جاۓ که ایسے منافق لائق تعظیم ھو سکتےکه ھیں نھیں.

اگر ایسے لوگ کسی عزت کے مستحق نه تھے تو پھر "سب احترام"کی پابندی کیسے معقول مانی جاۓ.

                          (جاری ھے)

مقام صحابه آور شیعه مسلمان ...قسط نمبر:3/4

   "مقام صحابه,اور شیعه مسلمان".     ازقلم  :سائیں لوگ 

قسط نمبر :3/4
شیعه مذھب کی بنیاد عدل اور ادب پر ھے ھم تکفیر اور تحقیر کے قائل نھیں مسلمانوں کے درمیان محبت,پیار اوراتحاد کی ضرورت پر زور ھیں.
تاکه آپس میں مذاھب کے ٹکراؤ کی حدت کو کم اور جھوٹی غلط فھمیوں کا آزاله کیا جاۓ. 

ان تحریروں میں مذھب شیعه کا حقیقی نقطه نظر بیان کرنا ھے که صحابه کے متعلق ھم عدل سے کام لیتے ھیں جسکا جتنا اچھا کام اس کا اتنا بڑا مقام.

 جب هم اس الزام کے بارے میں حقیقت پسندانه ،تعصب کے بغیراور دور اندیشی پر مبنی تحقیق اور جانچ پڑتال کرتے هیں تو یه الزام غیر حقیقی معلوم هو تا هے ، کیو نکه شیعه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور آپ(ص) کے صحابیوں کے بارے میں مکمل احترام کے قائل هیں- یه کیسے ممکن هو سکتا هے کوئی شخص اصحاب کے بارے میں کینه رکھے جبکه وه بشریت کی رسالت اور خدا کے نور کو پهچاننے والے هیں؟ اور بیشک وه رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے حامی اورمددکرنے والے اور مجاهد تھے!یه کیسے ممکن هے که کوئی ان کا بغض رکھے جبکه خداوند متعال نے ان کی مدح کی هے اور ارشاد الهی هے: " محمد صلی الله علیه وآله وسلم الله کے رسول هیں اور جو لوگ ان کے ساتھـ هیں وه کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتهائی رحم دل هیں، تم انهیں دیکھو گے که بار گاه احدیت میں سر خم کئے هوئے سجده ریز هیں اور اپنے پرور دگار سے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار هیں، کثرت سجود کی بناپر ان کے چهروں پر سجده کے نشانات پائے جاتے هیں- یهی ان کی مثال توریت میں هے اور یهی ان کی صفت انجیل میں هے جیسے کوئی کھیتی هو جو پهلے سوئی نکالے پھر اسے مضبوط بنائے پھر وه موٹی هو جائے اور پهر اپنے پیرٶں پر کھڑی هو جائے که کاشتکاروں کو خوش کر نے لگے تاکه ان کے ذریعه کفار کو جلایا جائے اور الله نے صاحبان ایمان و عمل صالح سے مغفرت اور عظیم اجر کا وعده کیا هے-
وه ایسے لوگ تھے، جنهوں نے خدا اور اس کے رسول صلی الله علیه وآله وسلم کی مدد کی هے اور اس کے دین کو زنده کیا هے اور اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کیا هے اور جهالت کو نابود کر کے رکھدیا هے-
          
 "مقام صحابه,اور شیعه مسلمان"
قسط نمبر :4

سچے مخلص صحابه جنکا خاتمه ایمان کامل پر ھوا,وه نجوم بھی ھیں اور ھدایت کا مرکز بھی.
جو بھٹک کے گمراه ھوۓ اور دشمن سے ملکر اسلام سے دشمنی اور منافقت کی,اور پاک نبی ص کی تکذیب کی وه جتھوں کی صورت میں واصل جھنم ھونگے.(بخاری شریف,حدیث نمبرز:
1499,1500,1501)
,6585,7048,4405)

 شیعوں کے امام وقائد ، حضرت علی علیه السلام ، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے اصحاب کے بارے میں فر ماتے هیں :" میں نے حضرت محمد صلی الله علیه وآله وسلم کے اصحاب کو دیکھا هے ، لیکن آپ میں سے کسی کوایک ان کے مانند نهیں جانتا هوں ، وه پریشان بال اور غبار آلوده چهره کی حالت میں صبح کرتے تھے ، رات کو صبح تک سجده، قیام اور عبادت کی حالت میں گزارتے تھے اور اپنی پیشانی اور رخسار کو بار گاه الهی میں خاک پر رکھے رھتے تھے، معاد کو یاد کر کے اس قدر تڑپتے تھے که گو یا آگ پر کھڑے هوں – طولانی سجدوں کی بناپر ان کی پیشا نیوں پر نشانات  پائے جاتے تھے – جب خدا وند متعال کا نام لیا جاتا تها ، تو وه اس قدر آنسو بهاتے تھے که ان کا دامن تر هو جاتا تھا- اور خدا کی طرف سے سزا کے ڈر سے یا جزا کی امید میں ایسے لرزتے تھے که جیسے تیز هوا کی وجه سے درخت لرزتے هیں-

اسی طرح مزید فر ماتے هیں:" کهاں هیں میرے وه بھائی جو راه حق پر چلے گئے؟ اور حق کے ساتھـ وفات پاگئے؟ کهاں هیں عمار؟ اور کهاں هیں فرزند تیهان؟ کهاں هیں ذوالشهادتین ؟ اور کهاں هیں ان کے جیسے بھائی جنهوں نے جاں نثاری کا عهد نامه کیا تھا اور جن کے سرراه خدا میں تن سے جدا کر کے ظالموں کے لئے بھیجے گئے-{(خطبه کے راوی)نوف کهتے هیں: اس کے بعد حضرت نے اپنی داڑھی کو هاتھـ سے پکڑ کر بهت دیر تک رونے کے بعد فر مایا}: افسوس !میرے بھائیوں کے بارےمیں ، جنھوں نے قرآن مجید کو پڑھا، اس کےمطابق فیصلے سنائے، واجبات الهی پر غور وخوض کر کے ان کو قائم کیا، الهی سنتوں کو زنده کیا اور بدعتوں کو نابود کر دیا،جهاد کی دعوت کو قبول کیا اور اپنے قائد پر اعتماد کر کے ان کی پیروی کی-
.                                    (جاری ھے)

مقام صحابه آور شیعه مسلمان

 "مقام صحابه اور شیعه مسلمان".           تحریر : " سائیں لوگ"



قسط نمبر: 1/2.                     

شیعوں پر یه الزام بهت پرانا ھے  که وه صحابه کرام کو نھیں مانتے معاز اللله ان کو گالیاں دیتے ھیں تمام اصحاب کے منکر ھےمگر آج تک مخالفین آپنے اس جھوٹے الزام کو ثابت نھیں کر سکے.

 کیونکه بفضل خدا ھم شیعان اھلبیت رسول ص تمام سچے وفادار  اور نیک خو رفقاء رسول ص(اصحاب)کو نه صرف عقیدة بزرگ مانتے ھیں بلکه ان اکابرین کو ھدایت کا نشان تسلیم کرتے ھیں,البته ھم ان افراد سے محبت نھیں رکھتے اور آپنی بیزاری اور نفرت کا اظھار کرتے ھیں جنھوں نے پاک نبی ص کو دھوکه دیا اور تکذیبب کی.
اور جو مغضوب خدا قرار پاۓ اور جنھوں نے ظلم کیا که دنیا کے عوض دین کو فروحت کر دیا.

 ھمارا یه مختار قرآن پاک کی نص جلی کی متابعت میں ھے جیسا که اللله تعالی نے حکم دیا ھے که (آۓ ایمان والو جن لوگوں پر اللله نے آپنا غضب ڈھایا ھے ان سے دوستی مت رکھو"سوره الممتحنه 13).

چنانچه ھمارۓ مذھب میں صحابی  کے دو معروف معنی ھیں ایک صحابی کی تعریف عام ھے که جو کوئی صحبت پیغمبر خدا میں پهنچا وه صحابی ھے اور دوسری تعریف خاص ھے جو شخص حضور ص کی خدمت عالیه میں حاضر ھوا اور حالت ایمان میں اس دنیا سے رخصت ھوا وه صحابی ھے.

دوسری تعریف کے پیش نظر اھل تشیع تمام صحابه کرام کو محترم و معظم تسلیم کرتے ھیں-
چنانچه قرآن مجید اور احادیث نبوی ص میں ان ھی رفقاء  رسول کی تعریف ایمان اور مدح اعمال صالح بیان کرتے ھیں.
اور انھیں ھی اصحاب کے قدموں کی خاک کو آپنی آنکھوں کا سرمه سمجھتے ھیں.

اسی طرح اولزکر لوگوں کی مذمت ( نفاق ,و کفر و ارتدادوفسق کی وجه سے )کلام خدا اور ارشادات رسول خدا ص میں مزکور ھے.
قرآن و حدیث میں ممدوحانه اور مقدوحانه اقتباسات کی موجودگی از خود اس بات کی دلیل ھے که حضور کی صحبت پانے والے اصحاب میں مومن و منافق ھر دو طرح کے اشخاص شامل تھے.
 پس کل کو برا جاننے والا مذھب تشیع کی رو سے ملت اسلامیه سے ھی باھر ھے.
کیونکه وه منکر قرآن ھے اسی طرح کل سےمحبت کرنے والا اور اچھے برۓ تمام کو" عدل"سمجھنے والا,برابر سمجھنے والا بھی مخالف قرآن اور منکر حکم الھی ھے. 

جن امور کے بارے میں شیعوں پر، زمانه قدیم سے آج تک الزام لگایا جاتا هے(جیسا که شیعوں کے دشمن دعوی کر تے هیں) وه یه هے که شیعه صحابه کی نسبت اپنے بغض و کینه کو چھپا تے هیں – لیکن یه الزام بے بنیاد هے – کیونکه شیعه صحابه کو حاملان شریعت اور اس کی اشاعت کر نے والوں کی حیثیت سے قابل احترام جانتے هیں ، قرآن مجید کا ارشاد هے :" محمد صلی الله علیه وآله وسلم الله کے رسول هیں اور جو لوگ ان کے ساتھـ هیں وه کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتهائی رحم دل هیں – تم انھیں دیکھو گے که بار گاه احدیت میں سر خم کئے هوئے سجده ریز هیں---"
ائمه اطهار علیهم السلام بھی صحابه کی مدح و ثنا کرتے تھے ، حضرت علی علیه السلام فر ماتے هیں: "  میں نے محمد صلی الله علیه وآله وسلم کے اصحاب کو دیکھا هے ، لیکن تم میں سے کسی کو ان کے مانند نهیں جانتا هوں ، وه اس حالت میں صبح کرتے تھے که ان کے بال پریشان اور چهرے غبار آلوده هوتے تھے ، رات کو صبح تک سجده، قیام اور عبادت کی حالت میں گزار تے تھے"- امام سجاد علیه السلام بھی ان (صحابه) کے لئے بهت دعا کرتے تھے-
مختصرطور پر مکتب اهل بیت کا اعتقاد یه هے که عدالت کے لحاظ سے صحابه کی حالت دوسرے لوگوں کے مانند هے – ان کے در میان عادل اور غیر عادل افراد موجود تھے – ایسا نهیں هے که جو شخص چند دن نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی مصاحبت میں رهاهو وه همیشه کے لئے عادل بن جائے! بنیادی طور پر جب تک پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے ساتھـ ان کی مصاحبت کے دوران رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سیرت ان کے طرز عمل اور کردار پر اثر نه ڈالے ، اس مصاحبت کا ان کی عدالت پر کوئی اثر نهیں هوتا هے – پس معیار وهی سیرت اور عملی طریقه کار هے، جس کا طرز عمل اور سلوک اسلامی معیاروں کے مطابق هو وه عادل هے اور جس کا طرزعمل اس کے مخالف هو وه عادل نهیں هے – یه نظریه قرآن مجید و سنت نبوی(ص) اور تاریخی حقائق کے مطابق هے- هم نے جو تاریخی شواهد تفصیلی جواب میںذکر کئے هیں وه اس نظریه کی تائید کرتےهیں-
                          (جاری ھے)

مسلمانوں کے غالی فرقه کے عقائد شرک و کفر پر ھیں.

یاد رھے ھماری تحریریں کسی کے خلاف نھیں بلکه خالص عقیده اھلبیت ع بیان کرنا .
.مقصود ھے
تحریر و تحقیق: سائیں لوگ                              

مسلمانوں کا غالی فرقه بھی مشرک ھے:

اھل کتاب کا یه شرک خفی ھے بعض محقق کهتے ھیں مجوسی بھی اھل کتاب ھیں بعض روایات اس قول کی تائید کرتی ھیں.

 ان کی طرف بھی ایک پیغمبر آیا اسی طرح ھندو اور بدھ مت کی طرف بھی اور ان پر آسمانی کتب نازل ھوئیں تھیں.

بر حال قرآن پاک میں یهود و نصاره کا واضح حکم موجود ھے .
مثلا یهودی کھتے ھیں جناب عزیر اللله کے بیٹے ھیں عزیر اس شخص کا نام ھے جس کو یهود عبرانی میں عزرا کھتے ھیں.
اس شخص نے مسلک یهود کی از سر نو داغ بیل ڈالی تھی انھوں نے تورات 457,قبل مسیح بدل کر تورات کواز سر نو تحریر کرکے یهودیوں میں تقسیم کر دی.
161,قبل مسیح بادشاه اینٹیو کس نے ایک بار پھر حمله کرکے علاقے فتح کر لیۓ اور اس کے سپاھیوں نے گھروں میں گھس کر تورات کے تمام نسخے جلا کر راکھ کر دیۓ تھے.
یهودی عزیر کو خدا کے اتنے قریب سمجھتے ھیں که اسے بیٹا تسلیم کرنے لگےحالنکه ان کے پاس غیر معمولی احترام کی کوئی ٹھوس دلیل موجود نھیں.

وقالت الیھود عزیز بن الله وقالت النصاری المسیح بن الله زالک قولھم بافو ا ھم :
ترجمه:
یعنی یهود کھتے ھیں که عزیر الله کا بیٹا ھے اور عیسائی کھتے ھیں که مسیح الله کا بیٹا ھے یه سب ان کے من گھڑت قصے ھیں. 

سوره توبه آیت 30.

عیسائی یا نصاره بھی مشرک ھیں:
اس موضوع پر آپ مذید سوره توبه کی آیات 30/31/32,ملحاظه فرما سکتے ھیں.

عیسائی تثلیث در توحید یا Trinity,کے قائل ھیں یعنی جھاں یه خالق کو واحد سمجھتے ھیں وھاں یه بھی کھتے ھیں که خالق مرکب ھے اور اس کے تین اجزا ھیں ایک جز خدا ھے جو تخلیق کا زمه دار ھے.
 اور ایک جز خدا کا بیٹا ھے اس کا منصب مخلوق کی تعلیم و تربیت اور نمائیندگی کرنا ھے .ایک جز روح القدس ھے جس کا تعلق زندگی سے ھے. 
وه اصطلاحا ان اجزا کے اقانیم  کھتے ھیں اور ھر اقنوم سے مراد ایسی صفت ھے جس کے بغیر زات آپنا وجود برقرار نه رکھ سکے.

ان کا یه عقیده اور غالی شیعت کا عقیده مماثلت رکھتا ھے وه بھی یه کھتے ھیں الله تعالی نے کائنات بنا کر پنجتن پاک کے حوالے کر دی ھے اب سارا نظام کائینات رزق ,موت وحیات ,شفا سب یه مقدس ھستیاں چلا رھیں ھیں.

تثلیث کے بارۓ بعض محقق عیسائی یه اقرار کرتے ھیں که تثلیث کا قول غیر عاقلانه ھے.

ھندو ,بدھ مت کا عقیده باطله:

علامه محمد حسین طباطبائی نے آپنی تفسیر المیزان میں ھندوستان کے بت پرست ھندو اور بدھ مت کے پیروکار بھی توحید در تثلیث کے قائل ھیں کی وضاحت پیش کی ھے.

کچھ محققین کا قول ھے که عیسائیوں نے تثلیث کا قول بت پرستوں سے حاصل کیا ھے.
علامه طباطبائی نے خرافات تورات سے اخذ المیزان میں اس پر بغور جائزه لیا ھے ھندو  کے نذدیک تین اقنوم ,برھما,ویشنو,اور سیوا ھیں ان کا عقیده ھے یه تینوں اقنوم اتنے متحد ھیں که ایک دوسرۓ سے جدا نھیں ھو سکتے.

آپنے عقیدے کے مطابق وه ان تینوں کے مجموعے کو خداۓ واحد سمجھتے ھیں.
وه لوگ برھما کو باپ ویشنو کو بیٹا اور سیوا کو روح القدس مانتے ھیں.

غالی شیعت اور غالی بریلویت ::::::::::::::::::

مسلمانوں کا غالی فرقه بھی شرک خفی کا مرتکب ھے اس فرقه کے معتقدین کا قول ھے کائینات کی تخلیق کے بعد اھلبیت ع اس نظام ھستی کو چلا رھے ھیں.
شیعه مسلمان کهتے ھیں رزق دینا تقسیم کرنا,موت و حیات دینا شفا و پیدا کرنا سب مولا علی ع کے زمے ھے .
جبکه بریلوی مسلمان یه سب امور پاک نبی ص کے اختیار میں دیتے ھیں.

اب ظاھر ھے اس طرح پاک نبی ص اور امیر المومینن ع کو ان امور میں شریک قرار دیتے ھیں جو صرف خدا کو ھی سزا وار ھیں.

مگر الله تعالی ان کے باطل عقیده کی اس طرح نفی کرتا ھے.
ترجمه :
خدا وه قادر و توانا ھے جس نے تم کو پیدا کیا پھر اسی نے روزی دی .پھر وھی تمھیں مار ڈالے گا پھر وھی تمھیں زنده کرۓ گا  بھلا تمھارۓ بناۓ ھوۓ خدا کے شریکوں میں سے کوئی ایسا ھے جو ان کاموں میں کچھ بھی کر سکے.جسے لوگ اس کا شریک بناتے ھیں.
وه اس سے پاک اور برتر ھے.

سوره روم آیت 28/37/40.
اس آیت مبارکه سے روز و روشن کی طرح واضح و آشکار ھے که خالق,رازق,اور محی ممیت خدا وند عالم ھی ھے.

اس آیت کے زمن میں علامه باقر مجلسی نے بحار الانوار سابع ص 337,میں اس سے ھٹ کر شرک سمجھا ھے.
مذید آپ درج زیل سوره سےمدد لے سکتے ھیں.

 سوره رعد ع 16,
سوره نمل آیت 64,
سوره زخرف آیت 32,
ھم حقائق دے رھے ھیں آیات قرانی اور روایات اھلبیت ع سے جو متصادم نھیں.

پاک نبی ص نے فرمایا قرآن و اھلبیت ع میں سے کسی ایک کو چھوڑ دینا گمراه ھونے کی نشانی ھے.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...