Saieen loag

ہفتہ، 25 مئی، 2019

علم غائب اور واقعه افک کا مسله ...قسط نمبر:9

علم غیب والا عقیده 
                             اور واقه افک کی حقیقت


قسط نمبر:9.    تحریر و تحقیق : "سائیں لوگلوگ

واقعه چاھے حضرت عائشه کے متعلق ھو یا حضرت ماریه قطبیه کے متعلق مگر موضوع نذاع علم غائب ھے .

مگر آج ھم شیعه مذھب کی تفاسیر اور معتبر سیرت و تاریخ کی کتب سے ثابت کریں گے که یه واقعه حضرت عائشه کے متعلق ھے .

جمھور کی روایت ھے که وه خاتون جس کی وجه سے سرکار رسول پیغمبر ص ایک ماه سے زائد پریشان رھے اور حضرت عائشه اس الزام کی وجه سے بیمار ھو گئیں ایسا کیوں ھوا اگر رسول الله ص علم غائب جانتے تھے تو
اتنے دنوں اس واقعه کی تفتیش اور مختلف اصحاب کرام بمعه ابو الائمه سرکار مولا علی ع سے راۓ کیوں لیتے رھے.
جو بالاخر ایک ماه سے زائد گزر جانے پر جب الله تعالی نے
 سوره نور آیت نمبر 11. تا. 27,
میں تفصیلی حضرت عائشه کی پاکدامنی پر وضاحت دی تب جا کے حالات چاه مگویاں وسوسے اور شوشوں اور غلط قیاس سے جان چھوٹی.

غالی یھاں آ کر جھوٹا ثابت ھو جاتا ھے اگر انکار کرتا ھے تو منکر قرآن بنتا ھے اگر عالم الغیب نھیں مانتا تو اس کے فاسد عقیده کی نفی ھوتی ھے.

ھماری آنے والی پوسٹ میں مذید انکشاف ھوں گے لھذا براه کرم ھم سے جڑۓ رھیۓ.

زیاده تر شیعه مفسرین اس بارۓ جمھور ھی کے ھم آواز ھیں که یه واقعه غزوه بنی مصطلق سے واپسی میں جناب عائشه رفع حاجت کیلۓ اونٹ سے اتری تھیں اور ان کے گلے کا ھار گم ھو گیا تھا جسکی تلاش کی وجه سے قافلے سے بچھڑ گئیں اور منافقین کو بھتان لگانے کا موقع میسر آیا.
ان اصحاب میں عبدالله بن ابی سمیت معتبر صحابه بھی موجود تھے جو جنگ بدر میں بھی شرکت کر چکے تھے اور اس بھتان کو ھوا دینے پر بعد میں انھیں کوڑوں کی سزا بھی دی گئی.

اب یه واقعه آپ شیعه مذھب کی تفاسیر
تفسیر نجفی

 تفسیر نمونه ع:11/27,

تفسیر قمی,

تفسیر المیزان

تفسیر فصل الخطاب جلد ,2ع:11,

تفسیر المبین ع:11,

تاریخ اسلام (واقعه افک)ص:330,

چوده ستارۓ غزوه بنی مصطلق ص:29.

سیرت صادق الاامین ص:431,

رحیق المختوم ص:452.

ترمذی جلد دوم,تفسیر سوره نور,ص398

بخاری شریف تفصیلی زکر ھے مختلف مقامات پر  ان کتب میں ھم نے خود یھی واقعه ملحاظه کیا عکس لگا دیۓ ھیں.

علم غائب اور واقعه افک کی حقیقت...قسط نمبر :8

علم غایب والا عقیده آور واقعه افک
                                   
قسط نمبر :6/2.   تحریر و تحقیق : سائیں لوگ

.

کل کی پوسٹ سے تحریر کا بقیه حصه جس میں غالیوں کے بھتان کا کلام مقدس کی روشنی میں رد پیش کیا گیا.

اب غالی کھتا ھے که خود رب نے بھی بھت روز اس واقعه کے متعلق آیات نه اتاریں تو کیا الله پاک بھی نھیں جانتے تھے.

غالی ھمیشه الله پاک کے افعال میں رسول الله ص کو مقابلے میں لے آتے ھیں انھیں خدا کا خوف کرنا چاھیۓ الله تعالی نے جب مناسب سمجھا خبر دے دی.

 نبی پاک ص نے آخری وقت تک یھی فرمایا که عائشه اگر گناه ھوا ھے تو الله تعالی سے توبه و استغفار کر لو وه غفور و رحیم ھے اگر پاک نبی ص کو علم تھا تو آخری وقت تک اظھار کیوں نه فرمایا
 جب تک آیات نازل نه ھو گئیں.

 کیا پاک نبی ص پر کوئی پانبدی تھی دوسرا غالیوں کا عقیده ھے که آپ ص اور آئمه معصومین ع ھر جگه حاضر و ناضر ھوتےھیں اگر یه سچ ھے تو پھر آپ ص حضرت عائشه کی گمشدگی کے دوران ان کے ساتھ ھی ھوں گے تو پھر صحابه کرام سے کیوں حضرت عائشه کی عصمت کا پوچھتے رھے اور الله پاک کے اس فرمان کی کیوں مخالفت کی که 

لا تکمو الشھادة ومن یکتبھا فانه اثمه قلبه.

ترجمه: اور تم گواھی کو نه چھپاؤ جو اسے چھپاۓ گا وه گنھگار دل والا ھے.
سوره بقره آیت :283.

حالنکه غالیوں نے آپنی تفاسیر میں بھی تسلیم کیا ھے که خود حضرت عائشه بھی بار بار سب کو بتاتی رھیں که میں بے قصور ھو کیونکه انھیں تو یعقین تھا که میں پاکدامن ھوں پھر بھی رسول الله ص سمیت کسی نے ان کی بات کا یعقین نه کیا.

  لیکن حضرت عائشه متواتر کھتی رھیں که خدارا میری عصمت و عزت کی بات ھے اس کا ڈھنڈورا نه پیٹو میرا کوئی جرم نھیں.میں بے قصور ھوں.

حضرت عائشه کی اس بات سے یعقین ھوتا ھے که آپ ص عالم الغیب نھیں.

دوسرا جب تک الله تعالی نے قرآن میں واضح نه فرمایا کسی نے بھی حضرت عائشه کی بات پر یعقین نه کیا.

سوره نور ع:12
میں الله پاک فرماتا ھے    ترجمه:
اور سنتے ھی مومن مردوں و عورتوں نے آپنے حق میں نیک گمانی کیوں نه کی اور کیوں نه کھه دیا که یه تو کھم کھلا صریح بھتان ھے.

اس آیت سے معلوم ھوتا ھے که نزول برات سے پهلے مسلمان پر نیک گمانی واجب اور بد گمانی حرام تھی.

اس بھتان کے خالق عبدالله بن ابی منافق کو ان آیات کے نذول کے بعد حضرت سعد بن معاز جیسے سچے اصحاب عبدالله بن ابی منافق کو قتل کرنے تک کیلۓآماده ھو گۓ.

بات سوچنے کی یه ھے که اگر پاک نبی ص عالم الغیب ھیں تو صاحبه کرام کی محفل میں اس سچ کا اظھار کیوں نه فرمایا اور جو عصمت کی دھجیاں منافقین و مشرکین کی طرف سے آڑائی گئیں ان کا توڑ کیوں نه کیا اور اس غیب کا کیا فائده جو عزت کی رسوائی کو بے نقاب نه کر سکے.اور حقیقت سامنے نه لائی جا سکے.

یه کیسی میعاد ھے جو ایک ماه سے اوپر گزر جانے پر وحی خداوند سے حقیقت واضح ھوئی.

بڑی حیرت کی بات ھے آج چوده سو سال بعد غالی آپ ص اور آئمه معصومین ع پر عالم الغیب کا جھوٹ باندھ رھا ھے.

اس واقعه میں سچے مخلص اصحاب سمیت خود ابو الائمه حضرت علی ع بھی موجود تھے خود انھوں نے بھی پاک نبی ص کی کوئی مدد نه فرمائی.بلکه یهاں تک کهه دیا که آپ کو بیویوں کی کیا کمی ھے جبکه سوره تحریم میں خود الله پاک بھی دوسری شادیوں کی اجازت فرما چکے تھے.

مقام حیرت ھے اتنی برگزیده ھستیوں کو بھی توفیق نه ھوئی که کھه دیتے که آپ تو لوح محفوظ کے حافظ ھیں.
 عالم الغیب ھیں  ماکان وما یکون کا علم آپکے علمی سمندر کا ایک قطره ھے.

 ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبر اور تمام ملائکه آپکے شاگرد ھیں پانچ کروڑ برس دریا خاص میں آپ کی حاضری رھی ھے آپ سے تو کچھ بھی مخفی نھیں لھذا کیوں خود آپنی غیرت و عزت کی رسوائی کرا رھے ھیں.
8
مگر یھاں معامله الٹ ھے شاعر رسول الله ص جناب حسان بن ثابت,جن کیلۓ آپ ممنبر رکھوایا کرتے تھے  وه اور حضرت مسطح بن اثاثه اور ام المومینین حضرت زینب کی ھمشیره اور رسول ص کی پھوپھی زاد حمنه بنت حجش اس بھتان کی تشھیر میں زور شور سے شریک تھے آیات نذول برات کے بعد سزا کے طور ان سب کو کوڑۓ لگاۓ گۓ.

جب ھم اتنے واضح اور محکم آیات و مستند دلائل سے غالیوں کے دعوی کو رد کرتے ھیں تو پھر یه بدبخت ھمیں وھابی,کافر,مرتد وغیره جیسے القابات و خطابات سے نوازتے ھیں.
جبکه یه گمراه لوگ ھماری پوسٹ پر آ کر علمی گفتگو سے بات نھیں کرتے بلکه معاویه کی طرح گالی گلوچ اور لعن تعن کے کمنٹس کر کے بھاگ جاتے ھیں.

علم غائب اور واقعه افک کی حقیقت...قسط نمبر:7

علم غیب والا عقیده واقعه افک اور غالی مسلمان.  
                                 
"قسط نمبر:7.    تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ


اھل غلو اس واقعه سے بھی حق پهچان سکتے ھیں اگر زره غور کریں تو.

افک بات کو الٹ دینے اور حقیقت کے خلاف کچھ کھ دینے کے معنوں میں ھے.

فرقه امامیه اور غیر امامیه میں اختلاف ھے.
 صاحب تفسیر المیزان کو دونوں روایات میں تامل ھے.

تفسیر قمی میں ھے که یه آیات حضرت عائشه کے متعلق ھیں.

تفسیر مبین میں بھی حضرت عائشه کا بھی اور حضرت ماریه قطبیه  دونوں کے واقعات لکھے ھیں  چاھے جو بھی ھو پر بات غیب پر ھے جب تک وحی نه آئی آپ کو خبر نه ھو سکی.

تفسیر نجفی میں بھی یهی تشریح ھے بلکه سکین بھی لگا دیا ھے.
سوره نور آیت:11.
اھلسنت کی ھر تفسیر اور صحاح سته سمیت معتبر کتب میں حضرت عائشه ھی مراد ھیں.

رسول الله ص غزوه بنی مصطلق سے واپس تشریف لا رھے تھے اس غزوه میں حضرت عائشه بھی قافله کے ھمراه تھیں اور ایک مقام پر وه قافله سے بچھڑ گئیں صفوان بن معطل رض جو قافله کے پیچھے چل رھے تھے انھوں نے حضرت عائشه کو دیکھا اور اونٹ پر بٹھا کر قافله تک پهنچایا .

ایک منافق عبدالله بن ابی نے عزت کی تھمت لگا دی اب آپ ص پر کیا گزری اس تحریر کا مطالعه کریں.

اب غالی کھتے ھیں که آپ ص اس معامله میں بھت پریشانی میں رھے مگر بغیر وحی کچھ فرما نه سکے که یه تھمت صحیح ھے یا غلط بات یه ھے که.
 اگر علم غیب ھوتا تو پھر لگاتار پریشان ھونے کی ضرورت نه ھوتی اور اتنے روز خاموشی کیوں فرمائی.

ھار کی گمشدگی یا رفع حاجت کی وجه سے قافلے سے بچھڑنے والی بی بی کا خالی  ھووج کیوں اونٹ پر اٹھا کر رکھ کے چل دیۓ ھووج کو اٹھانے والے اصحاب یا پیغمبر اکرم ص کو کیوں علم نه ھو سکا که بی بی عائشه تو اس کے اندر ھے ھی نھیں.

وزن تک بھی احساس نه ھوا دوسرا اگر پاک نبی ص کو معلوم تھا که ھار گم ھو گیا ھے یا فلاں جگه پڑا ھے تو بتایا کیوں نھیں.

تیسرا اگر معلوم تھا که ھار تلاش کیلۓ حضرت عائشه دور نکل گئی ھیں تو تیمم کے واقعه کی طرح قافلے کو رکوایا کیوں نھیں.

 کیونکه تیمم والے واقعه میں صرف ایک ھار کی گمشدگی کیلۓ آپ نے ساری رات قافلے کو رکواۓ رکھا.
 مگر یھاں ناں صرف ھار بلکه پیاری اور چھیتی لاڈلی بیوی حضرت عائشه بھی گم ھیں.
مگر پھر بھی آپ قافلے کو لے کر چل دیۓ.

کیا یه عجیب تضاد نھیں ھے کیا.کیا رسول الله ص کو معلوم نھیں تھا که اونٹ پر رکھا ھووج خالی ھے کیا ایک غیرت مند شوھر برداشت کر سکتا ھے که وه آپنی لاڈلی بیوی کو جنگل میں اکیلا چھوڑ کر چلا جاۓ.

اب غالی کا عقیده ھے که نبی ع و معصومین ع عالم الغیب ھوتےھیں .

تو اس قافله میں آپ ص سمیت حضرت علی ع اور معتبر اصحاب بھی موجود ھیں حتی کے حضرت عائشه کے والد محترم بھی ساتھ تھے,
یه سب ھر وقت آپکے علم سے فیض یاب ھوتے رھتے تھے ان کو بھی معلوم نھیں ھو سکا.
جبکه حضرت عائشه کے خود یه الفاظ ھیں که  
           رھم یحسبون انی فیه

وه سمجھتے که میں ھووج کے بیچ میں ھی ھوں.حضرت عائشه سو گئیں اور فرماتی ھیں.

        نظقنت انھم سیفقدون فیرجعون

میرا خیال تھا جب میں انھیں نھیں ملوں گی تو وه میری تلاش میں لوٹیں گے.

تو صفوان بن معطل رض کی راھنمائی میں قافله تک پهنچائیں گئیں.

ام مسطح سے بھی پوچھا گیا انھوں نے آپنی والده سے تصدیق چاھی.
حضرت اسامه سے بھی مشوره ھوا تو انھوں نے جواب دیا:
                             لا نعلمه الا خیرا
میں تو انھیں صحیح سمجھتا ھوں.

اگر پاک نبی ص کو علم تھا تو پھر حقیقت بارۓ معلوم کیوں کرتے رھے.

حضرت زینب سے مشوره کیا تو انھوں نے کھا :
        والله ما علمت الا خیر
بخدا میں انھیں صحیح سمجھتی ھوں.

حضرت علی ع سے پوچھا گیا تو آپ نے مشوره دیا که بیویوں کی کیا کمی ھے.

حضرت بریره سے پوچھا تو انھوں نے کھا ھم نے کوئی قصور کبھی نھیں دیکھا.

حضرت ام ایمن سے بھی پوچھا تو انھوں نے بھی محفو ظ قرار دیا.

اتنے شواھد اکٹھے کرنے کے بعد آپ کچھ مطمعین ھوۓ عرض ھے که اگر آپ عالم الغیب تھے تو ایک ایک شخص سے کرید کرید کر سوال کرنے کی کیا ضرورت تھی.

 عجیب بات ھے جب آپ جن جن سے پوچھ رھے تھے تو انھوں نے یه کیوں ناں کھا که یارسول الله آپ خود ان معاملات سے آگاه ھیں تو ھم سے کیوں پوچھتے ھیں.

 مگر جب سوره نور آیت نمبر :11

 الله تعالی نے اس بھتان کو جھوٹ کھا تو تب جا کے آپ ص مکمل مطمعین و راحت میں آۓ.

اب غالی یه بھی کھتے ھیں که آپ ص کو علم تھا مگر اظھار نه فرمایا.

تو عرض ھے اگر علم غیب تھا تو پھر اس کا انکار کرنے سے حضرت حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثه  اور حضرت حمنه بنت حجش کافر نه ھو گۓ.

 جو اس افواه کو پھیلانے میں پیش پیش تھے کیا شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت وغیره کو اس بات کا علم تھا که آپ ص عالم الاغیب ھیں اور آپ کو ھر بات کا علم ھے تو ھم کیوں خواه مخواه شور مچا رھے ھیں.

اتنی انسانی معلومات سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی.
اگر آپ کو علم یعقینی ھوتا تو آپ ان حضرات سے گواھیاں نه لیتے.

تو اسی لیۓ الله پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:
ترجمه: آۓ ایمان والوں جب تمھارۓ پاس مسلمان مرد اور عورتیں ھجرت کرکے آئیں تو تم ان کا امتحان لیا کرو دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا الله ھی ھے. لیکن اگر وه تمھیں ایماندار معلوم ھوں تو اب تم انھیں کافروں کی طرف واپس نه کرو.
سوره الممتحنه آیت :10.

اس آیت میں الله تعالی کا علم الیعقین  پر اور لوگوں کا علم گمان پر غالب دلالت کر رھا ھے نیز جیسے کوئی رشتے کا خواھش مند  آپ سے پوچھے تو آپ کھتے ھیں که میری معلومات مطابق اچھا ھے.

اسی واقعه کے متعلق آپ نے حضرت عائشه سے کھا اگر تم سچی ھو تو الله تعالی ضرور  برات فرماۓ گا.اور اگر گناه کیا ھے تو پھر الله سے توبه و استغفار کرو.
الله تعالی معاف فرمانے والا ھے.

(اسی موضوع پر مذید بحث جاری ھے انتظار فرمایئے.)

علم غائب اور اھل غلو....قسط نمبر:6

  • علم غیب والا عقیده آور اھل غلو کی خرافات
    1.                          
    2. قسط نمبر:6.         تحریر و تحقیق  : سائیں لوگ

    3. ویسے تو غلو ھر مذھب میں پایا جاتا ھے مگر اسلام میں اھلسنت بریلوی اور شیعه مذھب آپنا ثانی نھیں رکھتے جن میں ایک واقعه ھم درج کر رھے ھیں.

    4. تفسیر روح البیان میں ایک حدیث ھے که حضرت آدم علیه اسلام کو سات لاکھ زبانیں سکھائی گئیں .

    5. مگر جب ھم نے  اس مبالغه آمیز گپ کا حوالا کتاب تلاش کرنا چاھا تو نھیں مل پایا.

    6. اھل غلو ایک بات یه بھی کھتے ھیں که رسول الله ص کے علم کے دریا کے یا میدان کے مقابلے میں حضرت آدم ع کا علم کا ایک زره بھی نھیں ,

    7. بے شک ھمارا اس پر ایمان ھے مگر غالی کی اس خرافت کا کیابنے گا.

    8. اگر حضرت آدم ع کو سات لاکھ زبانیں سکھلائی گئیں تھیں تو پاک نبی ص کو تو لازما کھربوں زبانیں سکھائی گئیں ھوں گی .

    9. مگر امر واقع یه ھوا که آپ ص نے حضرت زید بن ثابت رض کو یھود کی سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا مجھے یھود پر اعتماد نھیں ھے.

    10.  چنانچه زید بن ثابت کھتے ھیں که میں نے نصف ماه سے کم مدت میں ان کی زبان سیکھ لی حضرت زید کھتے ھیں که اب میں ھی یھود سے خط و کتابت کرتا تھا.

    11. (بحوالا ترمذی باب العلم سریانی)
    12. اگر پاک نبی ص کو سریانی زبان آتی تھیں تو پھر یھود پر بداعتمادی کرتے ھوۓ حضرت زید کو زبان سیکھنے کا کیوں کھا.

    13.        ( غلو اور غالی مو ضوع جاری ھے)

    علم غائب کا عقیده اور عقلی دلائل ...قسط نمبر :5

    علم غائب والا دعوی آور عقلی دلائل  
                                      
    قسط نمبر :5.      تحریر و تحقیق: سائیں لوگ

    نوٹ : تحریر عقلی دلائل پر ھے لھذا فکر کر کے جواب دیا جاۓ ناکه تنقید اور ھٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ھوۓ پرانی فطرت گالی گلوچ کا تبادله نھیں.

    اب چیده چیده چند آیات کی وضاحت آپنے عقلی دلائل سے اھل غلو سے جاننے کی توقع رکھتے ھیں.

    علم غائب کے ثبوت میں اھل غلو فرماتے ھیں.
     وعلم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملائکة.
     (سوره بقره ع :31)

    ترجمه :
    الله تعالی نے آدم کو تمام نام سکھا کر فرشتوں کے سامنے پیش کیۓ.

    اس بحث سے پهلے ھم
      اس روایت پر بحث کرتے ھیں که سارۓ انبیاء کرام ع کا علم اور مخلوق کا علم حضور ص کو دیا گیا.

    تو جس چیز کا علم کسی مخلوق کو ھے وه سب رسول الله ص کو بھی ضرور ھے 
    بلکه سب کو جو علم ملا ھے وه حضور ص کی تقسیم سے ملا .

    جو علم شاگرد استاد سے لے ضروری ھے که استاد بھی اس کے جاننے والا ھو.

    قرآن کی آیت کا اھل غلو کچھ اس طرح مطلب لیتے ھیں که.

     وما ھوا علی الغیب بضنین.

     کا ترجمه یه کرتے ھیں که اور یه نبی ص غیب بتانے میں بخیل نھیں ھے.

    اب گزارش ھے که اگر حضور ص کو ساری مخلوقات کے علوم کا بھی علم تھا تو لازما آپ کو سائینسی ایجادت کا علم بھی ھوگا اور ایٹمی ھتھیاروں کا علم بھی ھو گا.

     تو پھر آپ ص نے یه سب کچھ اھلبیت ع یا صحابه کرام رض کو کیوں نه بتلا دیا تاکه پیھه جلدی ایجاد ھو جاتا اور مسلمان جلدی ترقی کر جاتے اور قرآن کی اس أیت کا حکم بھی پورا ھو جاتا .

    وعدو والھم ما استطتعتم من قوة .

    ترجمه : تم ان کے مقابله کیلۓ آپنی بھر پور 
    طاقت کی تیاری کرو.
    (سوره انفال ع :60.

    تو اس حکم کے بعد مسلمان کلاشنکوف بناتے,ایٹم بم بناتے,ھائیڈروجن بم بناتے بلکه اس آیت میں من قوة کے آگے ومن رباط الخیل کی بجاۓ یه ھونا چاھیۓ تھا ایف 16,جے ایف 17,7 تھنڈر بناؤ,بناؤ طیاره شکن توپیں بناؤ ,ٹینک بناؤ آبدوزیں بناؤ .

    بلکه حضرت آدم سے لے کر تمام انبیاء کرام اگر رسول الله ص شاگرد تھے اور آپ ان کے استاد تھے تو یه کام بهت پهلے کیا ھونا چاھیۓ تھا.

    اور کچھ نه ھی بناتے کم از کم دو نالی بندوق ھی بنا کر پاک نبی ص کفار و مشرکین سے مقابله کرتے کیونکه الله پاک دشمن کے مقابلے میں  بھر پور قوت کی تیاری کا حکم دے رھے ھیں.

     خلق خدا کو ایک جانے بوجھے علم سے محروم رکھنا کوئی خوبی نھیں ھے.

    یه تھی اس آیت کے زمن میں وضاحت که نبی ص غیب کے علم بتانے میں بخیل نھیں ھے.

    گزارش ھے که الله تعالی وحی بھیجنے والا ھے جبرائیل ع پهنچانے والے ھیں اور انبیاء کرام ع وصول کرنے والے ھیں درمیان میں نبی ص کی استاد والی بات کیسی کیا کسی جگه پر کسی نبی ع نے اعتراف کیا ھے که ھم آخری نبی ص کے شاگرد رھے ھیں.

    لیکن اھل غلو کھتے ھیں که علم غیب کامنکر آپنے دعوی پر دلائل قائم کرۓ تو ان باتوں کا خیال رکھے .

    1. :وه آیت قطعی الدلالت ھو جس کے معنی میں احتمال نه نکل سکتے ھوں. یعنی آیت محکم ھو جس کا مطلب غیر واضح نه ھو.

    2. :اور حدیث ھو تو متواتر ھو یه بھت اچھی بات ھے علم غیب کے مدعی خود بھی اس بات کا ادراک رکھتے ھوۓ  درج بالا تحریر کا رد پیش کریں.

    علم غائب اور عقل سلیم قسط نمبر :4

    علم غائب والا والا عقیده آور عقل سلیم  
                                                
    قسط نمبر :4.         تحریر و تحقیق :سائیں لوگ

    سائیں لوگ

    انبیاء کرام اور آئمه ع ممکن الوجود مخلوق ھیں عقل سلیم حاکم ھے کوئی بھی مخلوق ایک وقت میں ایک ھی طرف توجه کر سکتی ھے لھذا زمین و آسمان کے تمام پوشیده رازوں کا بلفعل جاننا اس کیلۓ ممکن نھیں ھے.

    الله تعالی کے علوم غیر متناھی اور غیر محدود ھیں مگر یه بزرگوار بوجه مخلوق ھونے کے متناھی و محدود ھیں لھذا عقل کسی طرح بھی یه باور نھیں کر سکتی که ایک متناھی و محدود مخلوق غیر متناھی علوم کی بالفعل حامل ھو .

    نیز یه حقیقت بھی آپنے مقام پر ثابت کی جا چکی ھے که علم خدا کی صفت زاتی (عین زات)ھے.لھذا اس کے من و عن کسی مخلوق کی طرف منتقل ھونے کا سوال ھی خارج از بحث ھے .

    اگر بتمام و کمال علم خدا کسی اور کی طرف منتقل ھو سکے تو یه انتقال انتقال زات توحید کے مترادف ھو گا.جو که عقلا و شرعا محال و ممکن ھے.

    عقل سلیم کی روشنی میں تسلیم کرنا پڑۓ گا که یه بزرگوار علم کی اتنی مقدار ھی جانتے ھیں جتنی علم بالازات ان کو بتاتا ھے ھم آپنے عقول ناقصه  سے اس کی حد بندی نھیں کر سکتے.

    نه دینے والے مبدا فیض میں کمی اور بخل ھے اور نه لینے والے حضرات کے دامن طلب میں تنگی بلکه اس میں وسعت و پهنائی ھے اس لیۓ دینے والا برابر دے رھا ھے.

     اور لینے والے رب زدنی علما کھتے ھوۓ دامن مراد بڑھا کر اس میں جواھر علمیه جمع کر رھے ھیں ان حضرات کی روحانی خلقت سے یه سلسله برابر جاری ھے اور خدا ھی بھتر جانتا ھے که کب تک جاری و ساری رھے گا.

    اگرچه عام مخلوق خدا کی نسبت ان کا علم کلی اور اس قدر زیاده ھےکه  ان کے درمیان کوئی نسبت ھی قائم نھیں کی جا سکتی ھے.

           (اگلی پوسٹ کا انتظار کیجیۓ)

    علم غائب اور علماۓ حقه.

    علم غیب والا عقیده اور علماۓ حقه
                                        
    "قسط نمبر :3.        تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ



    علم غیب کے موضوع پر یه آج تیسری قسط ھے.
    ھم نے جھاں تک اس موضوع کے تمام پهلوں پر ٹھنڈۓ دل و دماغ کے ساتھ غور خوض کیا ھے اور فریقین کے دلائل و براھین کا پوری دیانتداری اور غیر جانبداری سے جائزه لیا ھے تو ھم اس نتیجه پر پهنچے ھیں.

     که یه تمام ھاؤ ھو اور بحث و تمیحص صرف نذاع لفظی ھے یعنی فقط الفاظ کا ھیر پھیر اور تعبیر کا چکر ھے.

    وگرنه کوئی باھمی اختلاف و افتراق نھیں چاھے جیسے ھی سمجھ لو یه علم دین الله تعالی کی زات سے ھے.

    بعض افراد کی طرف سے عقیده غلو کے زمن میں اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ھے تاکه کچھ Awareness, دی جاۓ.

     کیونکه امام جعفر صادق ع کا فرمان ھے که شرک شرک ھے چاھے رائی برابر ھی کیوں نه ھو.

    اس موضوع پر بھت جید علماء حقه نے حقیقت کی ترجمانی کرتے ھوۓ اس کی وضاحت دی ھے. اور نبی و امام ع سے علم غیب کی نفی فرمائی ھے.

    ویسے تو جید علماء میں سے ایک کثیر تعداد ھے مگر ھم اختصار کے پیش نظر زیل میں چند علماء کی راۓ پیش کرنے کی کوشش کرتے ھیں:

    شیخ مفید رح نے آپنی کتاب اوائل المقالات ص,77,/طبع ایران میں تحریر فرماتے ھیں .
    ترجمه :یعنی یه کھنا که آئمه علیهم اسلام عالم الغیب ھیں بالکل فاسد اور باطل قول ھے. کیونکه اس وصف (عالم الاغیب ھونے)کا حقدار صرف الله کی زات ھے.وھی عالم ھو سکتا ھے.

    اسی عقیده پر مسلک شیعه  اثناۓ عشریه کا عقیده ھے ھاں غالی اور مفوضه اس کے قائل نھیں ھیں.
    یھی بات علامه مجلسی نے بھی بحار الانوار جلد ھفتم ص,415,
    پر بھی رقم کی ھے.

    حضرت سید مرتضی علم المھدی قدس سره نے آپنی کتاب الشافی میں قاضی عبدالجبار کا جواب دیتے ھوۓ لکھا ھے که ترجمه: یعنی قاضی نے یه بات تو درست کھی که جن چیزوں کا تعلق منصب امامت سے ھے ان کو جاننا امام کیلۓ ضروری نھیں ھے لیکن قاضی کا یه گمان غلط ھے ھم امام کیلۓ اس قسم کے علوم کو جاننا ضروری سمجھتے ھیں.

    علامه ابو الفتح کراجکی رح نے آپنی کتاب کنز اکفوائد ص,109 طبع ایران پر اعتقادات ایمانیه میں اپنا ایک مختصر رساله موسومه به البیان عن جمل اعتقاد اھل ایمان درج کیا ھے اس کے صفحه 110,میں لکھا که اھلبیت ع علم غیب نھیں جانتے مگر جس قدر خالق انھیں بتلا دے.

    فاضل جلیل جناب ابن قبه جو بھت بڑۓ علماء میں سے ھیں شرح الاصول من الکافی میں لکھتے ھیں یعنی جو آئمه اھلبیت ع کے متعلق علم غیب کا دعوی کرتا ھے وه مشرک ھے.

    عالم ربانی جناب شھر آشوب مازاندرانی آپنی کتاب متشابھات القرآن جلد 1,ص211,پر ایت مبارکه ولا اعلمه الغیب کے زمن میں لکھتے ھیں.

    ترجمه :امام علیھم اسلام کیلۓ عقلا شرعا یه واجب ھے که وه تمام علوم دین و شریعت کے عالم ھوں لیکن ان کیلۓ یه لازم نھیں که علم غیب اور ماکان ومایکون کا علم بھی رکھتے ھوں.
    کیونکه اس پر لازم آتا ھے که تمام معلومات خدا کے ساتھ شریک ھوں.حالنکه خدا کے علوم غیر متناھی ھیں.

    مجاھد کبیر علامه محسن الامین الحسینی قدس سره اعیان الشیعه آپنی کتاب مسطاب معاون الجواھر فی علوم الاوائل والااخراج ص,343,

    میں امام ع کے متعلق شیخ مفید اور سید مرتضی اور علامه حلی رح 
    کا کلام حق نقل کرنے کے بعد خود افاده فرماتے ھیں که امام سواۓ احکام کے تمام مایکون کے عالم نھیں ھوتے .

    سید مھدی الکاظمی القروزینی نے آپنی کتاب ظھور الحقیقیة طبع نجف اشرف ص,198 سے لے کر 214,تک آئمه اھلبیت ع کے عالم الغیب ھونے کی اور صاحب علم حضوری ھونے کی نفی پر علمی بحث فرمائی ھے.

    حضرت الفاضل شیخ محمد رضا المظفر النجفی نے رساله عقائد شیعه ص45,پر علم امام کے بارۓ لکھتے ھیں که جھاں تک  امام کا تعلق ھے وه معارف دینیه احکام الھیه اور دیگر تمام معاملات کو جناب رسول خدا اور سابق امام ع کے زریعے جانتے ھیں.اور جب نئ صورت حال رونما ھو تو قوت قدسیه کے زریعے الھام کے زریعه معلوم کر لیتے ھیں.

    مولا شیخ محمف اعجاز حسن بدایونی لکھنو آپنے رساله شمس الاعتقاد ص,56/57,
    طبع سرفراز لکھنو  ایجنسی,علم نبی و امام ع کے بارۓ لکھتے ھیں خدا نے واسطه مخلوق آپنے حبیب کو تعلیم عطا فرمائی اور اب سلسله فیض جاری ھے.
    اور آئنده بھی جاری رھے گا.آپنے رسول اور اھلبیت ع کو بقدر ضرورت و مشیت تعلیم دی.

    بعض لوگ علم تفصیلی کو معصومین ع کیلۓ کمال بتاتے ھیں یه انکی غلط فھمی ھے وگرنه اگر علم مذکوره کو باعث کمال مانا جاۓ گاتو کسی وقت بھی یه کمال متصور نه ھوں گے.
    اس لیۓ علم تفصیل کی تعلیم کسی بھی وقت بھی ختم نھیں ھوئی اور نه آئنده ختم ھو گی وجه اسکی وھی ھے که علوم الھیه غیر متناھی ھیں.
    پس جب تک تعلیم ختم نه ھو کمال حاصل نھیں ھو سکتا ھاں اجمالی تعلیم موجب کمال ھے وه بقدر ضرورت و مصلحت ھر زمانه میں جاری رھی جسکا خلاصه قرآن کی ایک آیت میں بیان ھوا یعنی علمک مالم تکن تعلم وکان فضل الله علیک عظیما,
     ترجمه:
    آۓ رسول تم کو الله نے وه چیزیں سکھا دیں جو تم نھیں جانتے تھے اور خدا کا فضل تم پر عظیم ھے.(القرآن)
    مذید اس عقیده کی درج زیل علماء تائید و توسیع فرماتے ھیں.

    سرکار نجم العلماء سید نجم الحسن صاحب.

    مولانا دید محمد باقر صاحب.

    حضرت مولا سید آقا حسن صاحب.

    جناب مولا ھادی رضوی صاحب.

    دید ابو الحسن صاحب.

    مفتی محمد علی صاحب قبله.

    مولانا سید ابن حسن اعلی الله مقامه

    آیت الله شیخ محمد حسین النجفی.

    آیت الله شیخ محسن النجفی قبله.

    حجةالاسلام سید محمد تقی نقوی قبله.

    اس سے ظاھر ھے که یه عقیده  متحده ھندوستان کے تمام علماء کا بھی ھے.

          (اگلی پوسٹ کا انتظار کیجیۓ)

    علم غائب کا عقیده ...قسط نمبر:2

    :علم غائب والا عقیده اور آئمه طاھرین
                                        
    "قسط نمبر :2.           تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ

    ھم نے آج سے کچھ عرصه قبل ایک پوسٹ کی تھی که یه باریکی اور متنازعه مسائل ھیں جو بدقسمتی سے چند غلو پسند علماء نے اسلام کی اصل کو بگاڑنے اور اختلاف کو اجاگر اور آپنے دنیاوی مقاصد کی خاطر شخصی شھرت اور واه واه اور پیسے بٹورنے کی خاطر پیدا کیۓ ھیں.

     بدقسمتی س کم علم اور لکیر فقیر قسم کی اکثریت عوام من و عن تسلیم کرتی گئی.
     اب یه مسائل اتنے سرایت اور  گھمبیر رخ اختیار کر چکے ھیں که اگر علماۓ حقه اسے چھیڑتے ھیں تو ان کا ٹکر پانی بند ھوتا ھے ساتھ کفر اور لعن تعن کا طبق بھی برداشت کرنا پڑتا ھے.

    ھماری پوسٹ پر وه بھائی کمنٹس کرۓ جو دینی معاملات میں تھوڑی بھت سمجھ بوجھ رکھتا ھو یا نھیں تو سوال معقول کرتے ھوۓ ھم سے آگاھی لے.

    میں نے دیکھا ھے اکثر بھائی پوسٹ پڑھے بغیر تنقید شروع کر دیتے ھیں وه لکھنے والے کو دیکھتے ھیں یه نھیں دیکھتے که لکھا کیا ھے.
      اس عمل بد سے پرھیز کریں.

    فضول اور پوسٹ کے غیر متعلقه  کمنٹس سے براه کرم پرھیز کیا جاۓ.

    کل ھم نے علم غیب پر قرآن مجید کی روشنی میں,19/ محکم آیات پیش کیں اور ایک آیت سوال کے طور پر چھوڑی.

     مگر بدقسمتی سے کسی نے رد نھیں پیش کیا بلکه پوسٹ سے ھٹ کر آپنی خرافات اور ھمیں تعن و تشنیع کے ساتھ فضول چیلنج کرتے رھے.

    جب ھم نے للکار دی تو سب گیدڑ کی طرح انتشاری کیفیت پیدا کرکے رفوچکر ھوگۓ.

    الحمد لله ھمارۓ پاس الله کا کلام اور مولا علی ع کا فرمان ھے ھمیں کوئی ڈر نھیں.

    علم غیب :

    نھج البلاغه میں مولا علی ع کے کئی خ
    طبات میں علم غیب کے متعلق بیان موجود ھیں.
    جن سے واضح ھوتا ھے که مولا ع نے جو دعوے کیۓ علم غیب کے ان کا اقرار بھی کیا که یه سب علم مجھے رسول الله ص سے ملا اور انھیں الله تعالی نے دیا.

    سب سے پهلے ھم رسول الله ص کا ارشاد مبارک پیش کریں گے.
    سوره الانعام کی آیت کی تفسیر کے زمن میں جو مفسر قرآن جلیل طبرسی نے مجمع البیان جلد 1,ص/377
    میں بیان کی ھے.

    یعنی میں وه علم غیب نھیں جانتا جس کا جاننا خدا کے ساتھ مختص ھے.
    ھاں میں تو اتنی مقدار میں جانتا ھوں جتنا خدا مجھے بتاتا ھے.
    جیسے بعث و نشور اور جنت و جھنم وغیره.
    کذافی الصافی میں ص/55.

    آیا اس علان رسول کو سن کر بھی کسی کلمه گو کو یه حق پهنچتا ھے که وه نفی غیب کی بجاۓ اثبات غیب کا اعتقاد رکھےصادق رسول ص نے کیسی وضاحت سے بیان کر دیا ھے که میں علم غیب نھیں جانتا.

    اب  ھم آتے ھیں علم غیب کے متعلق نھج البلاغه میں دیۓ گۓ مولا علی ع کے خطبات کی طرف.
    مولا علی ع سے سوال ھوا که مولا آپکو تو علم غیب عطا ھے.
    اس سوال پر مولا ھنس پڑۓ اور اس سے فرمایا:
    آۓ کلبی یه علم غیب نھیں بلکه یه رسول ص سے حاصل کی ھوئی باتیں ھیں.

    جو خزانه علم الھی تھے علم غیب تو قیامت کا وقت.ماں کے پیٹ میں کیا ھے بچی ھے یا بچه, سخی ھے یا بخیل شقی ھے یا نیک جنت جاۓ گا یا جھنم پس وھی علم غیب ھے جسے کوئی نھیں جانتا.
    رھا دوسری چیزوں کا علم وه مجھے رسول ص اور انکو الله نے عطا کیں.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :128.ص,446/445.

    اگر مجھ سے غیب کی خبریں سنو تو اشاره ایک دوسرۓ کی طرف نه کیا کرو میں یه سب نبی ص کی جانب سے خبر دیتا ھوں نه خبر دینے والا رسول جھوٹا ھے اور ناں سننے والا جاھل تھا.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :101,ص/370/371.

    مولا علی ع الله تعالی کی حمد و ثنا بیان کرتے ھوۓ فرماتے ھیں اس کا علم غیب پردوں میں سرایت کیۓ ھوۓ ھے اور عقیده کی گھرایوں کا احاطه کیۓ ھوۓ ھے.
    نھج البلاغه خطبه نمبر:108,ص:381.

    اس خطبه میں امام حق علی ع سردار دو جھان کی نعت بیان کرتے ھوۓ فرماتے ھیں .
    جو چیزیں تم سے پرده غیب میں لپیٹ کر رکھ دی ھیں اگر تم بھی جان لیتے جس طرح میں جانتا ھوں تو یعقینا بد اعمالیوں پر روتے ھوۓ سینے پیٹتے.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :116,ص/406/407.

    اس خطبه میں الله تعالی کی حمد و ثنا بیان کی ھے حالنکه وه مخلوقات جو ھماری نگاھوں سے اوجھل ھے اور جن تک پهنچنے سے نظریں عاجز اور عقلیں سیرانداخته ھیں اور ھمارے اور ان کے درمیان غیب کے پردے حائل ھیں وه ان سے کھیں زیاده عظیم و بزرگ ھیں.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :159,ص:482/483.

    اس خطبه میں مولا علی ع نے کھا که خدا کی قسم اگر میں چاھوں تو ھر ایک شخص کو بتا سکتا ھوں که وه کھاں سے آیا ھے اور جاۓ گا.
    مجھے رسول ص نے ان تمام حالات اور ھلاک ھونے والوں کی ھلاکت اور نجات پانے والوں کی نجات اور اس امر خلافت کے انجام کی خبر دی ھے.

    نھج البلاغه خطبه نمبر
     :174,ص/517/518.

    مذکوره بالا ارشادات کے بعد اب ھم ایک واقعه پیش کرتے ھیں جسمیں مذکور ھے که ایک مرتبه امیر علیه اسلام خطبه دے رھے تھے که حسب معمول دعوی سلونی فرمایا تو حاضرین سے ایک شخص نے پوچھا این جبرائیل ھذا الوقت,
    تو امام ع نے فرمایا وعنی انظر  مجھے اتنی مھلت دو که میں دیکھ لوں  .
    آپ علیه ادلام فتنظر الی فوق والی الارض یمینه و یساره  :اوپر نیچے دائیں بائیں دیکھا اور فرمایا انت جبرائیل تو ھی جبرائیل ھے. نعره تکبیر  بلند ھوا اور پوچھا گیا حاضرین میں سے کسی نے یا امام ع آپ کو کیسے معلوم ھوا .

    ترجمه :امام علی ع نے جواب دیا  جب میں نے آسمان کی طرف پھر زمین اور دائیں بائیں دیکھا تو جبرائیل ع نظر نه آۓ اور فرمایا که یعقین ھو گیا که یھی جبرائیل ھیں.(انوار نعمانیه ص:13)

    اس سے ظاھر ھوتا ھے که امام کا علم توجه اور التفات کا محتاج ھوتا ھے تو یھاں پر ان غالی لوگوں کے گمان باطله بھی عیاں ھو جاتا ھے که عالم امکان کا زره زره ھر وقت امام کے سامنے حاضر ھے.
    بلکه یھاں واضح ھے که با علام الله اس طرح با آسانی سے معلوم کر لیتے ھیں.

    اب ھم آتے ھیں دیگر معصومین ع کے ارشاد مبارکه کی طرف که وه علم غیب کے متعلق کیا فرماتے ھیں.

    امام رضا علیه اسلام سے دریافت کیا گیا اتعلمون  الغیب ,کیا آپ علم غیب کے متعلق جانتے ھیں آپ آنجناب ع نے ارشاد فرمایا که ھمارۓ لیۓ جب علم کشاده کیا جاتا ھے تو جانتے ھیں جب بسته کر دیا جاتا ھے تو نھیں جانتے.

    اصول کافی میں پورا ایک باب ھے علم غیب کے متعلق جن میں ایک حدیث یه بھی ھے که سدیر بیان کرتے ھیں که ابو بصیر یحیی بزاز  اور داود کثیر امام جعفر صادق ع کی خدمت میں حاضر تھے که اچانک آنجناب ع آپنے دولت کده سے غضب ناک حالت میں برآمد ھوۓ جب آپنی نشست گاه پر بیٹھ گۓ تو فرمایا تعجب ھے ان لوگوں په جو یه گمان کرتے ھیں که ھم علم غیب جانتے ھیں.
     حالنکه خدا وند کے بغیر کوئی بھی نھیں جانتا.
    میں نے فلاح کنیز کو کسی جرم پر مارنا چاھا تو وه بھاگ کر گھر کے کسی کونے میں چھپ گئی اب معلوم نھیں که کس جگه ھے. 
    اصول کافی ص:128.

    امام عصر  والزمان علیه اسلام فرماتے ھیں اۓ محمد بن سمری رض یه غالی لوگ جو الله کی وصف بیان کرتے ھیں وه اس سے بلند و برتر ھے ھم تو اس کے علم میں اسکے شریک ھیں اور نه قدرت میں بلکه حقیقت یه ھے که علم غائب الله کے سوا کوئی نھیں جانتا.

    قرآن کی روشنی میں اور اب معصومین ع کے ارشاد مبارکه جامع اور محکم آیات و روایات سے ھم نے وضاحت دی .
    اس سلسله میں مذید کسی حدیث کے پیش کرنے کی ضرورت نھیں ھے .
    لھذا کل ھم علماۓ حقه کے علم کی روشنی میں علم غیب پر روشنی ڈالیں گے.
                                                           شکریه.

    علم غائب اور غالی مسلمان....قسط نمبر:1

    :علم غیب والا عقیده

                                     " قرآن اور اھل غلوغلو.     تحریر و تحقیق : " سائیں لوگ

    قسط نمبر :1

    علم غیب کا مسله اسلام کے آغاز سے ھی متنازه رھا ھے کچھ صدیاں قبل اس میں تب شدت آئی جب مسلمانوں کے دو گروه ایک اھل سنت میں سے اور ایک مذھب تشیع میں آپس میں مقابل آۓ ایک نے پاک نبی ص اور دوسرۓ نے مولا علی ع کی عظمت توحید تک جا ٹکرائی.

     انھیں کے مخالف ایک اور گروه ناصبی, وھابی معرض وجود میں آیا جس نے ان دونوں کے دعوی کی نفی کرتے ھوۓ نبی پاک ص اور آئمه معصومین ع کی تقصیر شروع کر دی.

     غلو والے گروه  جنھوں نے ان کفریه عقائد کی اشاعت شروع کی جو کلام الھی یعنی که قرآن مجید اور کلام پیغمبر ص یا آئمه معصومین ع کی تعلیمات سے یکسر متصادم تھے.

    اب یه غلو بڑھتے ھوۓ اوصیاء و اولیاء کرام حتی که فٹ پاتھ یا کسی دربار پر زنجیروں میں جکڑۓ بیٹھے ننگ دھڑنگ زمانے کے یا گھر کے ماحول کے ستاۓ ھوۓ فرضی و نقلی بزرگ تک بھی پهنچ چکی ھے.جو سائل کے حالات جان کر یا دست شناسی سے قیاس پر آنے والے دنوں کے حالات بتا دیتا ھے.

    درج زیل سورتوں میں علم غیب کی محکم آیات موجود ھیں:

    سوره آل عمران ع:179.
    سوره الانعام ع:58.
    سوره یونس ع:20.
    سوره نحل ع:77.
    سوره نمل ع:65.
    سوره لقمان ع:34.
    سوره فاطر ع:38.
    سوره جن ع:26/27.
    سوره الانعام ع:73.
    سوره الاعراف ع:187.
    سوره ھود ع:123.
    سوره الکھف ع:26.
    سوره سجده ع:6.
    سوره الاحزاب ع:63.
    سوره سباء ع:48.
    سوره الزمر ع:46.
    سوره الحجرات ع:18.
    سوره التغابن ع:18.
    سوره النازعات ع:43/44.

                      ***** علم غیب *****

    جہاں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اٹھارہ مختلف اسلوب و انداز سے 341, بار اپنے لئے صفتِ علم کا بیان اور علم غیب علم کُل علم محیط اور علم بسیط کا اثبات فرمایا ہے.

    وہاں اپنے سوا کسی برگزیدہ سے برگزیدہ مخلوق کسی فرشتہ یا ولی یا نبی حتیٰ کہ امام الانبیاء و المرسلین حضرت  ﷺ یا آئمه طاھرین ع کے لئے ایک دفعہ بھی اس کا ذکر نہیں فرمایا.

     بلکہ الٹا ان سے علم قیامت وغیرہ علوم کی نفی کی ہے علیٰ ہذا تمام ماسوی اللہ کے لئے علم غیب کی نفی فرمائی.

    غیب کے لغوی معنی:

    غیب کام معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ ھیں.
    المنجد،ص: 892.
    چھپی ہوئی اور پوشیدہ باتوں کا علم، پیشن گوئی کا علم، وہ علم جس سے گزشتہ یا آئندہ ہونے والی بات یا حالات معلوم کیے جائیں پوشیدہ باتوں یا چیزوں کاعلم.

    اصطلاحی معنی :

    علم غیب کے اصطلاحی معنی یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایسی باتوں کا علم جو حواس خمسہ اور اندازے سے معلوم نہ ہوسکیں.

    غیب ان امور کے جاننے کو کھتے ھیں جن کے علم و ادراک سے ھر قسم کے مادی حواس و ظاھری زرائغ قاصر ھوں.
    ان کا تعلق خواه زمانه حال سے ھو یا ماضی سے اور خواه مستقبل سے.
    (شرح اصول کافی از علامه مژندرانی)

    غیب کا علم صرف خدا تعالی ھی جانتا ھے مخلوق کا وه علم جو رمل و نجوم وغیره سے حاصل ھو یا کسی دوربین یا کسی اور زرائع سے حاصل ھو وه علم غیب نھیں ھے.

    آج ھم قرآن پاک کی ان محکم آیات کا زکر کریں گےجو علم غائب کے متعلق واضح ھیں.

    اس کے بعد نھج البلاغه و دیگر آئمه طاھرین ع کے ارشادات مبارکه , بعد میں علماۓ حقه اور عقل سلیم اور انبیاء و آئمه معصومین ع کےمختلف واقعات و حالات کی روشنی میں مکمل وضاحت دیں گے.

         ** علم غیب قرآن کی روشنی میں**

    ارشاد باری تعالی ھے:
    کھه دو که جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ھیں خدا کے سوا غیب کی باتیں نھیں جانتے اور نه جانتے ھیں که کب زنده کر کے اٹھائے جائیں گے.
    سوره نمل آیت :65.

    یونس، 10 : 61
    ’’ اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے.
    سوره یونس ع:61.

    قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں علم غیب کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ 
    اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی، کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ گرتے کو تنکے کا سہارا اور وہ ان لوگوں سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پرامید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ 

    اﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئیے قرآن میں فرمایا:

    النمل، 27 : 65
    ’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے.
    سوره نمل ع:65 .

    وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ
    الانعام، ع : 50
    ’’اور نہ میں اَز خود غیب جانتا ہوں.

    ترجمه :
    اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے.
    سوره نساء ع:113.

    (وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ 
    سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس رسول الله کے آگے اور پیچھے
     (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے.
    سوره جن ع:26/27.

    تو غیب کے خزانے اور کنجیاں سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ اور کسی کو ان تک رسائی نہیں ٗ غیب صرف اللہ جانتا ہے ٗ اس کے سوااور کسی کو غیب کا علم نہیں۔

    سوره الانعام ع:7.

    عِلم غیب ٗ عِلم کُل ٗ عِلم محیط و عِلم بسیط صرف  خاصہ خدا ہے۔ اس بارے میں آیات کریمہ توحید درج بالا و درج زیل ملحاظه فرمائیں.

    قُل لَا اَمْلِکُٔ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَ لَا ضَرًّا اِلَّا مَاشَاء اللہُ وَ لَوْکُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَکْثَرُتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَآ مَسَّنَی السُّوْئُ ج اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ۔ 

    (پارہ,9  سوره اعراف ع:23

    آپ کہہ دیجئے میں اپنی ذات کے لئے(بھی) نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتا ٗ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی مضرت مجھے مس نہ کرتی میں تو محض اہل ایمان کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں.

    بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی مینہ برساتا ہے۔ اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ بیشک اللہ سب باتوں کا جاننے والا ٗ سب خبر رکھنے والا ہے.

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے ان پانچ باتوں کو نہ تو کوئی مُقرب فرشتہ جانتا ہے اور نہ کوئی برگزیدہ نبی ٗ اگر کسی نے دعوی کِیا کہ ان میں سے کوئی بات جانتاہے تو اس نے قرآن کا انکار کیا کیونکہ قرآن کی مخالفت کی ٗ

    ھٰذِہٖ خَمْسَۃٌ لَا یَعْلَمُھَا مَلَکُٔ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌ مُصْ.

    عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo
    الجن، 72 : 26۔ 27
    ’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے.

    وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
    التکویر، 81 : 24
    ’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں.
    پاک نبی ص کے متعلق بتایا که ھم نے اسے جتنا  علم غیب دیا اتنا وه جانتے ھیں.
    یهی بات مولا علی ع فرماتے ھیں میں اتنا علم جانتا ھوں جتنا مجھے رسعل الله ص نے بتایا.
    جو ھم اگلی پوسٹ میں واضح کریں گے .

    یه سب پوسٹ پڑھنے کے بعد پھر بھی معترض سوال رکھتا ھے تو براه کرم وه ھمارۓ اس سوال کا جواب ضرور دے.
    جو سوره نساء ع:105,میں میرا سوال موجود ھے.

    جمعہ، 24 مئی، 2019

    اولیاء کے نام پر جانور پالنا اور زبح کرنا.قسط نمبر:15

    بزرگوں کے نام پر جانور پالنا اور مزاروں پر زبح کرنا:

                         قسط نمبر :15
    .
    کیا گیارھویں کا بکرا یا غوث پاک کی گاۓ وغیره شرعا حلال ھے جیسے که ولیمه کا جانور.

    پیر پرست اس بدعت میں بھی پیش پیش ھیں پر اکثر زنده پیر خود آ کے جانور لے جاتے ھیں اگر مرده ھوں تو پھر ان کی قبر پر زبح کردیۓ جاتے ھیں.

    ھو سکتا ھے آنے والے دنوں میں  اندھے پیر پرست  جانوروں کی نسل بھی مخصوص کر لیں,
     جیسے پولٹری فارم کی مرغی ڈیری فارم کا دودھ مکھن یا ساھییوال کی گاۓ یا اسٹریلیا  وغیره کی.

    یه خاص نسلیں انکی قربانی کیلۓ قبول ھو گی زنده یا زبح کرکے باقی سب حرام پیر کے ھاں قبول نه ھوں گی.

    مگر قرآن پاک میں الله پاک ایسی قربانیوں کو حرام کھه رھا ھے جو غیر خدا کے نام پر زبح ھوں .
    سوره انعام ع:21.سوره مائده ع:3,

    عالمگیر باب الزبح جلد,5ص:280
    میں ھے که مسلمان اگر مجوسی کی بکری جو ان کے آتش کده کیلۓ یا کافر کی انکے بتوں کیلۓ تھی زبح کی ھو وه حلال ھے کیونکه اس پر الله کا نام لیا ھے مگر یه کام مسلمانوں کۓ مکروه ھے.

    یه عجیب منطق ھے مگر الله کے کلام میں واضح ھے جو سوره انعام ع:21,
    میں ھے که اور ایسے جانور مت کھاؤ جن پر الله کا نام نه لیا گیا ھو اور یه کام فسق ھے.
    اس سے مراد یه که غیر الله کے نام پر زبیحه حرام ھے.

    سوره بقره ع:173,
    میں ھے سواۓ اس کے نھیں که حرام کیا اوپر تمھارۓ مردار اور لھو اور گوشت سور کا اور جو کچھ پکارا جاۓ اوپر اس کے واسطے غیر الله کے.

    معلوم ھوا زبح کے وقت غیر الله کا نام پکارا جاۓ یا زبح سے پهلے پکارا جاۓ ھر صورت وه شے حرام ھے.

    نیز فرمایا سوره مائده ع:3
    اور جو آستانوں پر زبح کیا گیا ھو.

    اس آیت سے واضح ھے که خواه الله تعالی کے نام سے ھی کیوں ناں پکارا جاۓ یا زبح کیا جاۓ یا وھاں زبح کیا جاۓ جھاں غیر الله کے نام پر پرستش ھوتی ھو,
     اور الله تعالی سے ھٹ کر کسی کی تعظیم و پرستش ھوتی ھو جیسے مزار,مندر,استھان, یه سب حرام ھے.

    ایک روایت ھے جو ابو داود اور مشکواة میں ھے که ایک صحابی نے بوانه کے مقام پرمنت مانی که میں وھاں اونٹ زبح کروں گا.
    تو آپ ص نے فرمایا اگر وھاں کسی بت کی پرستش یا میله نھیں لگتا تو آپنی منت پوری کر لو.

    فتاوی عزیزیه جلد 1,ص:47,
    میں ھے اگر نیت ھو که غیر الله کا تقرب حاصل ھو بے شک زبح کے وقت الله کا نام لے پھر بھی زبیحه حرام ھے.

    مجدد الف ثانی صوفی نے ایک زبردست بات لکھی آپنے مکتوب نمبر 41/میں که بزرگوں کیلۓ نذریں حیوانات کی جو مانے اور پھر مزار پر زبح کرۓ فقھی روایات سے یه شرک میں داخل ھے.

    قرآن میں ھے:
     ماجعل الله من بحیرة ولا سائبة ولا وصیلة ولا حام ولکن الذین کفروا یفترون علی الله کذاب.سوره مائده 103,
    ترجمه:
    الله تعالی نے بحیره کو مشروط کیا اور نه سائبه کو اور نه وحیله کو اور نا حام کو لیکن جو لوگ کافر ھیں وه الله پر جھوٹ لگاتے ھیں.

    یه چار جانور جو کفار بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے ان کو حرام سمجھتے تھے جدھر مرضی جائیں ,جدھر مرضی جس کی فصلوں میں کھاتے پیتے اور نقصان کرتے رھیں,کوئی کچھ نھیں کھتا تھا.
    انھوں نے زبح بتوں پر ھونا ھے قران نے اس کی تردید کی ھے.

    جبکه الله پاک فرماتے ھیں کھاؤ جو تمھے الله نے دیا ھے اور شیطان کے قدموں کی پیروی نه کرو.سوره انعام ع:142

    ھمارۓ مسلمان بھی مختلف بزرگوں کے نام پر بکرۓ گاۓ وغیره رکھ لیتے ھیں پھر انھیں مزاروں پر زبح کرکے پکاتے اور کھاتے ھیں.

    اسی طرح ھندو بھی سانڈھ بتوؤں کے نام پر چھوڑ دیتے ھیں.
    جبکه الله پاک اس عمل سےمنع کر رھا ھے.

    لھذا غوث پاک کی گاۓ اور شیخ سدو یا بابا مجنوں یا کھونڈی والی سرکار کے نام پر پالی گئی ساھیوال کی گاۓ ھو یا پھاڑی بکرا سب حرام ھے.

    مذید تفصیل کیلۓ درج بالا آیات کی تفسیر ملحاظه فرمائیں.

    انبیاء ,آئمه معصومین ع اور اولیاء کی قبور کی زیارت..قسط نمبر:14

    انبیاء کرام,آئمه معصومین ع اور اولیاۓ کرام و شھدا کرام کی قبور کی زیارت:

                      قسط نمبر :14

    ھم گزشته اقساط میں واضح کیا که ھم زیارت قبور انبیاء و معصومین ع اور بزرگ اولیاء کے خلاف نھیں ھیں  بلکه شعبده باز صوفیه  اور وھاں جو خرافات و بدعات قائم کی جاتی ھیں ان کے خلاف ھیں.

    کیونکه اگر ھم سب توقعات انھیں بزرگوں اور اھل قبور سے وابسطه کرلیں تو پھر الله پاک کے وجود و عظمت ھی کی نفی ھو جاتی ھے.
    آج ھم کچھ اس موضوع پر وضاحت پیش کریں گے.

    یا ایھا الذ ین آمنوا اتقوا اللہ و ابتغوا الیہ الوسیلة.
    (اے ایمان والو ! الله سے ڈرو اور قرب خدا کا وسیلہ تلاش کرو ).

    لیکن سوال یہ ھے کہ خدا وند عالم کا قرب کس طرح حاصل کریں ؟

    اس سلسلہ میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب بیان القرآن میں اس طرح لکھتے ہیں.
         
    (اطاعت کے ذریعہ )خدا تعالی ٰ کا تقرب ڈھو نڈو.

    وہابی علما ء کہتے ہیں کہ نیک اعمال کے ذریعہ یعنی نماز پڑھنا ، روزے رکھنا ،زکوٰة دینا ، حج کرنا وغیرہ ۔۔۔یہ سب تقرب الھی کا ذریعہ ہیں.

    لیکن وہابی علماء یہ بھول گئے کہ خدا وند عالم نے کچھ اور بھی نیک اعمال کا تذکرہ کیا ھے.
     ان میں سے یہ بھی ہے کہ خدا وند عالم کی نشانیوں کی تعظیم کرنا.

    خدا وند عالم کی نشانیوں میں صفاء و مروہ ، ناقہ صالح ، وہ اونٹ جو منیٰ کے میدان میں قربانی کے لئے لے جایا جاتا ھے اس کی تعظیم یہ ہے کہ اس قربانی کے اونٹ سے کوئی کا م نہ لیا جائے.اور وقت پر چارہ دیا جائے .
    اصحاب کہف کا شمار بھی اللہ کی نشانیوں میں ھوتا ھے.

    اور جو ان نشانیوں کا احترام نہ کرے اور ان کی تکذیب کرے اس کے لئے خدا وند عالم نے جہنم کو تیار کر رکھا ھے.

    چنانچہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ھے.
    ا ایھا الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی (ص) ترجمہ :
    ایمان والو خبر دار اپنی آواز کو نبی(ص) کی آواز پر بلند نہ کرو.

    یعنی ہمارے حبیب سے گفتگو کرتے وقت تعظیم کاخیال رکھنا بھی تقرب الھیٰ کاذریعہ ھے اگر کوئی اپنے کو رسول (ص) کے غلاموں میں ادنیٰ غلام ظاہر کرے تو اللہ اس شخص سے اتنا خوش ہوگا کہ اس کو فضیلتوں کا پیکر بنا کر علی  ابن ابی طالب بنا دیگا.

    رسول اللہ کی تعظیم کرنا بھی نیک اعمال میں سے ایک عمل ھے.

    تقرب الھی کے اسباب میںسے ایک سبب یہ ہیکہ ''مسلمانوں کو اعمال کے ساتھ انبیاء اور اولیاء کا وسیلہ بھی ڈھونڈنا چاہئے .

    اس لئے کہ اولیاء اور انبیاء ھی خدا تک پہونچنے کے دو ذریعے ہیں اور ان سے متمسک رہنا تقرب الھی کا ذریعہ ھے.

    پھر صاحب تفسیر نور العرفان وسیلہ کے سلسلہ میں یوں لکھتے ہیں ''کوئی متقی مومن بغیر وسیلہ کے رب تک نہیں پہونچ سکتاھے.

    مندرجہ بالا بیان سے ثابت ہوتا ھے کہ انسان کو خداکی بارگاہ میں وسیلہ ضرور قرار دینا چاہئے .
    یہ امر مسلم ھےکہ اللہ نے پیغمبر اکرم  ص کو تمام انبیا ء پر فضیلت اور عظمت بخشی ھے.
     اب سنت کا دم بھرنے والے ذرا سا غور و فکر کریں کہ جب خدا وند عالم نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی سے گفتگو کرتے وقت اتنی تاکید کی ھے تو پھر اگر خود رسول اسلام  کسی کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جائیں .
    اور اپنی جگہ پر بٹھائیں تو اس کی عظمت کا کون اندازہ لگا سکتا ھے.

    علماء اہلسنت نے اس شخصیت کا نام فاطمہ (س ) لکھا ہے اور اپنی مختلف کتابوں میں مندرجہ بالا حدیث کو نقل کیا ھے.

    مگر افسوس !کہ رسول کی آنکھ بند ہوتے ھی امتی ، رسول کی لاڈلی بیٹی فاطمہ (س)کے دروازے پر آگ لے کر آگئے اور ظلم کی انتہا کردی,
     یہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی آپ کو آزار واذیت پہونچا نے کی ہر ممکن کوشش کی گئی چناچہ :
    1344,ھ میں جب آل سعودنے مکہ ومدینہ کے گرد و نواح میں اپنا پورا تسلط جما یا تو مقدس مقامات ،جنت البقیع ، اصحاب اور خاندان رسالت کے آثار کو صفحہ ہستی سے محو کر دینے کا عزم کیا.

    رسول ص کے زمانے نے اس طرح کروٹ بدلی کہ حضرت امیر المونین  علی  کے حق کو غصب کر لیا گیانبی کی بیٹی فاطمہ (س)کو مرثیہ پڑھنا پڑا ،بعد رسول ۖ امام حسن  کو زہر دیا گیا اور وہ حسین  جس کی وجہ سے رسول ۖ نے سجدہ کو طول دیا تھا رسول ۖجس کے گلہ کا بوسہ لیتے تھے ان ہی کا کلمہ پڑھنے والوں نے سجدے کی حالت میں امام حسین  کا سر کاٹ کر نوک نیزہ پر چڑھادیا ۔
    اور اب ظالم (صدام )نے یہاں تک ظلم کیا کہ امام حسین  کے روضہ کی ہر طرح بے حرمتی کی یہ سب کیوں ھو ا.

    عام طورپر یہ دیکھا گیا ھے کہ اگر کسی کو کسی سے دشمنی ہوتی ھے تو مرنے کے بعد وہ دشمنی بھی ختم ہو جاتی ھے,لیکن اہلبیت  کے دشمن ، 
    آج تک سر گرم عمل ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل بیت  کا وہ عظیم کردار ہے جو لوگوں کو اپنا گرویدہ کئے ہوے ہے اور اس کے آثار آج تک ظالم اور استعمار سے دشمنی کی شکل میں موجود ہیں.

     لہٰذا پوری دنیا کے ظلم اور استعمار ہر ممکن طریقہ سے اہل بیت  اور عوام کے درمیان پائے جانے والے رابطوں کو نابود کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے قسم قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا تے ہیں.

    انہیں میں سے ایک ہتھکنڈہ اہل بیت ع کی قبروں کا نام ونشان مٹادینا ہے ،تاکہ ان میں اور عوام میںپائے جانے والے روحانی رابطے منقطع ہو جائیں.

    یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دشمنان اہل بیت  نے ہمیشہ اہل بیت کو صفحہ ہستی سے ہی ختم کرنا چاہا اور آج بھی یہ کوششیں جاری ہیں.

    اب چاہے قبور کو منہدم کرنا پڑے یا دین احمد ص میں تحریف کرکے شرک اور بدعت کے فتوے صادرکرنا پڑیں .

    جیسے دشمن اہل بیت ،ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد ابن القیم نے اولیاء خدا نیز پیغمبروں کی قبور پر عمارت بنانا حرام قرار دیا ھے.
     وہ اپنی کتاب ''زاد المعادفی ھدیٰ خیر العباد ''میں لکھتا ھے کہ :

    قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو ڈھانا واجب ہے اگر انہدام اور ویرانی ممکن ہو تو ایک دن بھی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے  ۔
    سورہ حجرات آیت ٢ کے تحت وہابی علماء نے رسول ص کی تعظیم کا خیال نہیں رکھا یعنی رسول ص کی زیارت کو شرک اور بدعت ثابت کیا ہے (جبکہ زیارت رسول ص کے لئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ جایا کرتے تھے ).

     اور رسول کا اس طرح دل دکھا یا کہ آل رسول ۖکے مزار جو جنت البقیع میں تھے ان کو بے سایہ کر دیا اور یہ امر مسلم ہے کہ رسول کا دل دکھانا عذاب الھی کا ذریعہ ھے.(جاری ھے)

    عرس ,مزار اور بیت رضوان کے درخت کی کٹائی.

    مزار,عرس اور بیعت رضوان کے درخت کی کٹائی :

                       قسط نمبر 13.

    جس درخت کے نیچے بیعت رضوان ھوئی تھی لوگوں نے اس کو زیارت گاه بنا لیا تھا اس وجه سے حضرت عمر نے  اس کو کٹوا دیا.

    اگر حضرت عمر نے اس وجه سے کٹوایا که وھاں لوگو ں نے حاجات کی مشکل کشائی  کا وسیله بنا لیا تو پھر ان بزرگوں کی قبروں کو حاجات کا مداوا سمجھنا فعل عمر کے خلاف ھے.

    ایک وجه یه بھی پیش کی جاتی ھے که اس درخت کو کٹوایا نھیں تھا بلکه لوگوں کی نگاھوں سے غائب ھو گیا لوگوں نے دھوکے میں دوسرۓ درخت کی زیارت شروع کر دی تھی .

    اب خانقاه پرست اس غلطی سے بچانے کیلۓ حضرت عمر تبرکات کی زیارت کے مخالف ھوتے تو حضور ص کے بال مبارک تهبند شریف اور قبر انور سب ھی تو زیارت گاه بنی ھوتی تھیں .ان کو کیوں باقی رھنے دیا.

    مگر یه جواب خود ان کے گلے پڑتا ھے اگر درخت کٹوایا ھی نھیں بلکه الله تعالی نے غائب کر دیا تو اس سے معلوم ھوا که الله پاک بھی نھیں چاھتے تھے که یه درخت زیارت گاه بنے.

    اگر حضرت عمر نے کٹوایا تھا تو وه بھی نھیں چاھتے تھے.
    درخت کا مخفی ھونا بھی یه نشانی ھے که یه فعل الله تعالی کو پسند نھیں تھا.

    اگر ولیوں کی قیام گاھوں کو زیارت بنانا الله تعالی کے نذدیک محبوب ھوتا تو پھر ایسا نه ھوتا.

    تبرکات کی بات دوسری ھے ان سے صرف حسین یادیں وابسطه ھوتی ھیں.

    زیارت گاھیں تو مرده ایام سے خانقاھیں بن جاتی ھیں اور آھسته آھسته غیر الله کو ماتھا ٹیکنا شروع ھو جاتا ھے .

    آنحضرت ص بھی اس سے محتاط تھے بلکه ایک سفر میں صحابه نے عرض کیا که

     اجعل لنا زات انواط کمالھم زات انوات.
    ھمارۓ لیۓ ایک زات انواط مقرر فرما دیجیۓ جیسے ان کیلۓ زات انواط ھے.

    تو آپ ص نے فرمایا جیسے قوم موسی نے کھا تھا .
    که ھمارۓ لیۓ ایک معبود مقرر کر دیجیۓ جیسے ان کیلۓ معبود ھے.
    تفسیر ابن کثیر جلد 3ص:242.

    اسی لیۓ تو حضرت عمر نے حجر اسود کو بوسه دیتے ھوۓ کھا اگر میں نے رسول الله ص کو بوسه دیتے ھوۓ نه دیکھا ھوتا تو میں تجھے بوسه نه دیتا.
    بخاری شریف.
    قبروں کی زیارت مسنون ھے ھاں ان پر میلا لگانا اور اس کیلۓ دور دراز کا سفر کرنا منع ھے.

    صوفیه کی قبروں پر دعاء کی نیت سے جانے والے زنا سے بھی بد فعل سرانجام دیتے ھیں.(شاه ولی الله)

    مذھب اھلسنت کے چاروں امام اور مذھب حقه اثناۓ عشریه کا اتفاق ھے که قبر نبوی ص اور آئمه معصومین علیھم اسلام کی زیارت سب سے بھتر کاموں میں سے ھے
    اور اسکی بھت فضیلت وارد ھوئی ھے.

                       قسط نمبر :12

    عرض ھے که  قبر نبوی ص اور آئمه معصومین علیھم اسلام کی زیارت کی فضیلت بھت اور آپنی جگه ھے .

    پر گفتگو زیارت کے بارۓ میں نھیں(شدر حال)یعنی دور دراز سفر کرکے صوفیه کے مزاروں پر آنے والوں کے بارۓ میں ھے.

    لادینی قوتیں اور اسلام دشمن عناصر خانقاه پرستوں نے اصل مقصد زیارات  قبور سے ھٹ کر یه کوشش کی ھے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کروائیں  تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر اﷲ کی تعظیم و ادب ختم کرتے ھوۓ آپنے دنیاوی فوائد کا حصول ممکن بنائیں,
    یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا.
    وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے.
    یه خرافت بھی لفظی اسلام کا نعره لگانے والے صوفیه پرست نے آپنے اندر بھی لے لی کثیر تعداد عرس پر آنے والوں کی یه سوچ رکھتی ھے که وھاں نفس کی خواھش کو عملی جامه پهنانے کیلۓ کسی بزرگ کے مزار پر عرس کی طرف سفر کیا جاۓ جھاں سب کچھ ایک چھت کے نیچے ملے گا.
    شراب,شباب,کباب,سنیماء,استاد الله بخش کا تھیٹر,لکی ایرانی سرکس,مرد و زن کا مخلوط دھمال وغیره.

    صوفیه کرام (بزرگوں)کی قبور کی زیارت کیلۓ دور دراز سے سفر کرنے کیلۓ جیسا که ھمارۓ زمانه میں معمول بن چکا ھے خانقاه پرست کھتے ھیں صاحب شریعت یا صاحب مذھب یا مشائخ سے نقل اور حواله کی ضرورت ھے.
     اور دور دراز کی قبروں کی زیارت پر قیاس کرنا جائز اور درست نھیں ھے.

    مگر بریلوی اور دیوبندی اور غالیوں کا یه امتیاز کیۓ بغیر حنفیه کا مسلک یھی ھے که قبروں کی طرف( شدر حال ) دور دراز کا سفر جائز ھے انبیاء معصومین ع کی قبروں کی طرف بھی.

    مگر مرقات شرح مشکواة شریف میں یه حدیث ھے که انبیاء و معصومین ع کے قبور کی زیارت منع نھیں ھے.

    ایک اعتراض کے جواب میں یه خانقاه پرست یه جواب بھی دیتے ھیں که ٹرین (ریل گاڑی)کو پکڑنے کیلۓ اسٹیشن جانا پڑتا ھے .

    دنیاوی مقاصد کیلۓ سفر کیوں کرتے ھو .....طبیب کے پاس بیمار سفر کر کے کیوں آتے ھیں.
    عرض ھے که یه سفر  اسباب کے مطابق ھیں مافوق السباب نھیں ھیں ,

    ان مقاصد کے حصول کیلۓ کبھی کھنڈروں یا یا مردوں کے پاس نھیں کیا.

    کشمیر کا سفر کیوں کرتے ھو وھاں کی آپ وھوا صحت بخش اور تندرستی اور مفید ھو مگر اولیاء الله کے مقامات کی آب و ھوا صحتند  کیوں نھیں.

    یه اس طرح کی بات ھے که دو پیسے کی گولی قبض کشا ھو سکتی ھے.
    تو مولا علی ع مشکل کشاء کیوں نھیں.

    میرۓ بھائیوں کشمیر خوبصورت مقام ھے وھاں پهاڑ  ھیں  جنگلات ھیں باغات ھیں,دریا ھیں وغیره وغیره .

    قبروں کا کیا ھے حدیث کے مطابق یه تو صرف موت یاد دلاتی ھیں.

    اور موت کو یاد کرنے کےلیۓ سفر کی ضرورت نھیں.

    قبرستان ھر جگه موجود ھیں.بلکه کوشش کریں ھر روز قبروں پر جائیں اور حقیقت ملحاظه کرتے ھوۓ عبرت پکڑیں اور گناھوں سے پرھیز کرنے کی یه بھی ایک عمده کوشش ھے.

    علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

     بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...