Saieen loag

جمعرات، 25 جولائی، 2019

تصوف اور نظریه حلول کفر و شرک پر عقیده

تصوف ایک باطل عقیده ھے

                    "قسط نمبر:10.            تحریر:  "سائیں لوگ

پوری کائینات کا علم اور لوح محفوظ کا مطالعه کرنے والے صوفیه اس لفظ کے اشتقاق پر اختلاف رکھتے ھیں اور درست مفھوم نھیں جان پاۓ

                           قسط نمبر:10

 بعض کے مطابق صحابہ میں سے جو لوگ اہلِ صفہ کہلاتے تھے، یہ ان کی طرف منسوب ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا ماخذ صفا ہے.
 بعض کے نزدیک صف، لیکن قاعدہ اشتقاق کی رو سے یہ تینوں باتیں غلط ہیں۔ شبلی کہتے ہیں تصوف صوف سے ماخوذ ھے.
 جس کے معنی پشمینہ کے ہیں.

لیکن پشمینی پوش ہونا اس فرقے کی کوئی خصوصیت نہیں۔ علی ہجویری کی رائے ان سب سے مختلف ہے.
 ان کی تحقیق کے مطابق لباس صوف، اہلِ تصوف کا امتیازی نشان تھا۔ اس سلسلے میں وہ مشہور اصحاب رسول کا ذکر کر کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ سب لباس صوف کو محبوب رکھتے تھے.

 شیخ سہروردی بھی اسی خیال کی تاکید کرتے ہوئے حسن بصری کا قول پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ستر اہلِ صفا کو دیکھا تھا (گویا وہ صوفی تھے) جن کی پوشاک صوف تھی.

پھر کشف المحجوب میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ ہمیشہ صالحین اور زہاد اور متقین اور عباد کو صوف کا ہی لباس مرغوب اور مطبوع رہا ہے.
اس کے یہ معنی ہوئے کہ گر عہدِ نبوی کے عزلت نشیں اور زہد پسند بزرگوں کو اولین صوفیاء میں تسلیم کر لیا جائے تو تصوف آسانی کے ساتھ صوف سے مشتق قرار دیا جا سکتا ہے.

مشترقانِ یورپ نے بھی زیادہ تر اسی نظریہ کی حمایت کی ہے.
لیکن تصوف کا لفظ اصل میں ‘سین’ سے تھا۔ جس کا مادہ سوف تھا۔ جس کے معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں.
 دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کا ترجمہ ہوا تو یہ لفظ عربی زبان میں آیا۔

اور چونکہ حضراتِ صوفیا میں اشراقی حکماء (اشراقیت جدید neo-platonism کے صوفیاء) کا انداز پایا جاتا تھا.

 اس لئے لوگوں نے ان کو سوفی یعنی حکیم کہنا شروع کر دیا.
 رفتہ رفتہ سوفی سے صوفی ہو گیا.

 مرکس (merx) کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ لفظ یونانی (sogos) سے پیدا ہوا ہے.
یعنی سوف سے صوف ہوا۔ پھر بعد میں صوفہ ہو گیا۔ علامہ ابو ریحان البیرونی نے اس بات کی تائید کی.
ڈاکٹر نکلسن نے بھی تصوف کو صوف سے مشتق قرار دیا ہے۔ اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایران میں صوفی کو پشمینہ پوش بھی کہتے ہیں اور یہ محض صوف کی رعایت ھے.
100/سو ہجری تک لباسِ صوف کو اسی بنا پر مذہبی عیسوی کا نشان سمجھ کر عرب میں سخت ناپسند کیا گیا. لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں ‘تصوف’ اور ‘صوفی’ اشراقیت جدید سے متاثر ہو کر وارد ہوئے،

 جس بنا پر پہلے پہل صوفی اور تصوف کو عالمِ اسلام میں سخت نا پسند کیا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ انہیں قبول
 کر لیا گیا.

تصوف کو ایک روحانی اور وجدانی مسلک کی صورت میں پھیلانے کی کامیاب کوشش کی گئی.
 اسلام کا تصوف اسلام کا اپنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس تصوف کو اسلامی کرنے میں غزالی جیسے علماء کا ہاتھ ہے.

جنہوں نے عقلیت پسندی کا راستہ مثالیت پسندی سے روکنا چاہا، اور اس میں کامیاب بھی رھے.

تصوف میں عجیب و غریب قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں، مثلاً اکثر صوفیا نظریہ حلول کے قائل ہیں، کے کائنات میں رواں دواں ایک سرمدی ہستی ان میں حلول کر گئی ہے.

 چنانچہ اب کائنات امور وہ سرمدی ہستی انہی میں بیٹھ کر سر انجام دے رہی ہے. یعنی وہ خود کو خدا بتاتے ہیں.

 وہ سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کوئی آسمانی شے ان میں ہمہ وقت موجود رہتی ھے.
خدا ان کے جسم میں تشریف فرما ہے.

 مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی گدھے کا تصور کرے، دن رات گدھے کے مقدس خیال میں ڈوبا رہے، تو کیا وہ گدھا ہو گیا؟ یقیناً نہیں۔ پھر ان تصوف کے نمائندوں کا کہنا ہے کے انہیں کُل کائناتی امور کا بدرجہ اتم علم ہے.
 کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا علم ان کے اندر سما گیا ہے، ہستیِ مطلق نے انہیں کل کائنات کے ہر قسم کے علم کی کنجی تھما دی ہے، اور وہ علم کیا ہے؟ لاتعداد عجیب و غریب واقعات، بے سروپا باتیں، علامات، فرشتوں اور خدا سے ہمکلامی، ملاقات، ولیوں سے شبِ وصل،

 پیغمبروں کی غائبانہ محافل میں دو زانو ہو کر ‘تعلیم’ حاصل کرنا، غرض جنہیں عقل بے ہنگم باتیں قرار دے دے.

 اس پر طرہ یہ کے اس ‘علم’ کو خواص تک محدود رکھا جائے۔ عام نہ کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ.

جس طرح تصوف کی تعریف ناقابلِ یقین ہے، اسی طرح اس کی وجہ تسمیہ بھی اختلافِ خیال کا مرکز بنی ہوئی ہے.
ڈیوڈ  بیریٹ کہتے ہیں:

‘تصوف باطنی اسلام ہے لیکن حقیقت میں اس سے زیادہ کچھ ہے.
صوفیوں نے راسخ العقیدہ مسلمانوں میں احترام اور خوف کا ایک غیر راحت بخش جذبہ پیدا کیا.

صوفی کے لفظ کا مطلب عربی زبان میں ‘صوف نامی کھردرا کپڑا پہننے والا’ بنتا ہے۔۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی مرتض اور باطن پرست بھی کھردرا اونی چغہ پہنا کرتے تھے.

عربی کے ‘صفا’ یعنی پاکیزگی کے ساتھ بھی لفظ صوفی کا تعلق ہوگا.
عبرانی میں ‘عین صوف’ کا مطلب ھے اختتام’ ھے جو ناقابلِ معلوم خدا کیلیے اقبالی اصطلاح تھی.

 قرآن کی صوفی تفسیر باطنی اور تشبیہاتی ھے.
 صوفیا نے تمام چیزوں سے برتر خدا کے شخصی و انفرادی وصال کی خواہش کے ذریعے خود کو رسمی اسلام کی درجہ بندیوں کے کنٹرول سے ماوراء کر لیا.              
                 (جاری ھے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...