Saieen loag

بدھ، 24 اپریل، 2019

غالی تشیع اور خانقاھی صوفی کے عقائد کا موازنه

.براه کرم یه پوسٹ ضرور مطالعه فرمائیں

            تحقیق و تحریر:"سائیں لوگ"

 اس تحریر نے خانقاھی ایوانوں میں ھلچل اور کھلبلی مچاتے ھوۓ,صوفیه و خانقاھ پرستوں کے عقیده و مقاصد کو تباه و برباد کرکے رکھ دیا ھے.
پاکستان بھر میں منعقد ہونے والے عرسوں کے اعدادو شمار:
                        
قمری مہینوں میں عرسوں کی تعداد: 439/بنتی ھے.
عیسوی مہینوں میں عرسوں کی تعداد  88/بنتی ھے.
بکری مہینوں میں عرسوں کی تعداد 107/بنتی ھے.
قمری ‘عیسوی اور بکری مہینوں کے حساب سے سال بھر میں منعقد ہونے والے عرسوں کی کل تعداد:  634/بنتی ھے.

 یه محکمه اوقاف کے رجسٹر مزاروں کے اعداد و شمار ھیں جو اسلامی قانون کی ڈائری سے نقل کیۓ گۓ ھیں یه اعداد وشمار 1992/ء کے ھیں,
 جو اب ڈبل ٹرپل خانقاھیں وجود میں آ چکی ھوں گی.
کیونکه آبادی کی طرح ان مزاروں کی تعداد میں بھی بڑی تیزی سے اضافه ھو رھا ھے.
        عرسوں کے انعقاد میں قابل ذکر بات یہ ھے کہ یہ سلسلہ دوران رمضان المبارک بھی پورے زور وشور سے جاری رہتا ھے.

 اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ دین خانقاھی میں اسلام کے بنیادی فرائض کا کس قدر احترام پایا جاتا ھے ؟.

یاد رھے رمضان المبارک کے روزوں کے بارے میں حدیث شریف میں ھے کہ نبی اکرم ص نے روزہ خوروں کو جہنم میں اس حالت میں دیکھا کہ الٹے لٹکے ھوئے ہیں ان کے منہ چیرے ھوئے ہیں جن سے خون بہہ رہا ھے.

(ابن خزیمہ) ہندوستان کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت بوعلی قلند کا عرس شریف بھی اسی مبارک مہینے (13/رمضان)میں پانی پت کے مقام پر منعقد ہوتا ھے .

دین خانقاھی میں رمضان کے علاوہ باقی فرائض کا کتنا احترام پایا جاتا ھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ھے کہ صوفیاء کے نزدیک تصور شیخ (تصور شیخ یہ ھے کہ دوران نماز اپنے مرشد کا تصور ذہن میں قائم کیا جائے) کے بغیر ادا کی گئی نماز ناقص ہوتی ھے ‘حج کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ مرشد کی زیارت حج بیت اﷲسے افضل ھے.

دین اسلام کے فرائض کے مقابلے میں دین خانقاھی کے علمبردار کا خانقاھوں‘مزاروں ‘درباروں اور آستانوں کو کیا مقام اور مرتبہ دیتے ہیں اس کا اندازہ خانقاھوں میں لکھے گے کتبوں ‘یا اولیاء کرام کے بارے میں عقیدتمندوں کے لکھے ہوئے اشعار سے لگایا جاسکتا ھے ‘چند مثالیں ملاحظہ ھوں :

1:       مدینہ  بھی  مطہر  ھے  مقدس ھے  علی پور.
        ادھر جائیں تو اچھا ھے ادھر جائیں تو اچھا  ھے.

2:      مخدوم   کا  حجرہ  بھی  گلزار   مدینہ   ھے
        یہ   گنج   فریدی   کا   ا نمول   نگینہ  ھے.

3:      دل تڑپتا ھے جب  روضے کی زیارت کے لئے
        پاک پتن تیرے حجرے کو میں  چوم  آتا  ھوں.

4:      آرزو  ھے کہ موت آئے تیرے  کوچے  میں
        رشک  جنت  تیرے  کلیر  کی  گلی پاتا ھوں.

5:     چاچڑ وانگ  مدینہ دسے تے کوٹ مٹھن بیت ا  ﷲ.

        ظاہر دے وچ پیر فریدن تے باطن دے وچ ا  ﷲ.

ترجمہ:
چاچڑ (جگہ کا نام )مدینہ کی طرح ھے اور کوٹ مٹھن (جگہ کانام)بیت اﷲشریف کی طرح ھے ‘ہمارا مرشد ‘پیر فرید ظاہر میں تو انسان ھے لیکن باطن میں اﷲھے.

         بابا فریدگنج شکر کے مزار پر  زبدۃ الانبیاء (یعنی تمام انبیاء کرام کا سردار) کا کتبہ لکھا گیا ھے.

 سید علاؤ الدین احمد صابری کلیری کے حجرہ شریف (پاک پتن )پر یہ عبارت کندہ ہے سلطان الاولیاء قطب عالم ‘غوث الغیاث ‘ہشت دہ ہزار عالمین (ولیوں کا بادشاہ ‘سارے جہان کا قطب‘اٹھارہ ہزار جہانوں کے فریاد رسوں کا سب سے بڑا فریاد رس).

 حضرت لال حسین لاھور کے مزار پر ’’غوث الاسلام والمسلمین (اسلام اور مسلمانوں کا فریاد رس)کا کتبہ لگا ھوا ھے.

 سید علی ہجویری کے مزار پر لگایا گیا کتبہ قرآنی آیات کی طرح عرسوں میں پڑھا اتا ھے .

گنج بخش ‘فیض عالم ‘مظہر نورِخدا (خزانے عطاکرنے والا ‘ساری دنیا کو فیض پہنچانے والا ‘خدا کے نور کے ظہور کی جگہ).

        غورفرمائیے جس دین میں توحید ‘رسالت‘نماز ‘روزے اور حج کے مقابلے میں پیروں ‘بزرگوں ‘عرسوں ‘مزاروں اور خانقاھوں کو یہ تقدس اور مرتبہ حاصل ھو وہ دین محمد ص سے بغاوت نہیں تو اور کیا ھے .

شاعر مشرق علامہ اقبال رح نے ارمغان حجاز کی ایک طویل نظم :

         "ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘

میں ابلیس کے خطاب کی جو تفصیل لکھی ھے اس میں ابلیس مسلمانوں کو دین اسلام کا باغی بنانے کے لئے اپنی شوری کے ارکان کو جو ہدایت دیتا ھے ان میں سب سے آخری ہدایت دین خانقاہی پر بڑا جامع تبصرہ ھے۔ملاحظہ فرمائیں :

مست رکھو ذکر وفکر صبح گاہ میں اسے پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے
        ہمارے جائزے کے مطابق متذکرہ بالا
364/خانقاھوں یاآستانوں میں سے بیشترگدیاں ایسی ہیں جو وسیع وعریض جاگیروں کے مالک ہیں.

 صوبائی اسمبلی ‘قومی اسمبلی حتی کہ سینیٹ میں بھی ان کی نمائندگی موجود ہوتی ھے .
جیسے گولڑه شریف ,سلطان باھو کے سجاده نشین ,شاه جیونه کے فیصل صالح حیات,مری کے لا ثانی سرکار وغیره.

صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں ان کے مقابل کوئی دوسراآدمی کھڑا ہونے کی جراء ت نہیں کرسکتا .

          کتاب وسنت کے نفاذ کے علمبرداروں اور اسلامی انقلاب کے داعیوں نے اپنے راستے کے اس سنگ گراں کے کے بارے میں بھی کبھی سنجیدگی سے غور کیا ھے یا نھیں ؟

منگل، 23 اپریل، 2019

زنجیر زنی قسط نمبر :8

زنجیر زنی حرام ھے تو پھر کربلا معلی میں کیوں ھوتی ھے:

قسط نمبر :8
                    تحریر : "سائیں لوگ"

زنجیر زنی کے قائل احباب اسے عزاداری میں  واجب  سمجھ کر سر انجام دیتے ھیں,

اور ایک کمزور جواز پیش کرتے ھیں که جب ایران و اعراق میں حتی که کربلا معلی روضه امام حسین ع پر بھی جب  زنجیر و تلوار کا ماتم ھوتا ھے.

تو ھم کیوں نه کریں اور تم کون ھوتے ھو منع کرنے والے 

اگر ناجائز ھوتا تو سب سے پهلے کربلا میں علماء پابندی لگتی.

کچھ نادان لوگ آقاۓ سیستانی کی خاموشی کو بھی جواز بناتے ھیں.

حالنکه آقائے سیستانی نے خاموشی اختیار نھیں کی بلکه انھوں نے ایسے اعمال انجام دینے سے قطعی طور پر پرھیز کرنے کو کھا ھے.

 اور اگر خاموشی بھی اختیار کی ھو تو کس نے کھا کہ خاموشی کا مطلب جواز ھے,
 ایسے میں شرعی حکم یه ھے کہ اگر کسی مسئلے میں مقلد کے مجتھد نے فتویٰ نہ دیا ھو ,

تو اسے چاھیے که وہ دوسرے مجتھد کی طرف رجوع کرے جس نے اس مسلئے میں صریحا فتویٰ دیا ھو.

آقائے وحید خراسانی یه بات کھاں کی ھے اس کا ایڈرس چاھیے,

 اور اگر کھی بھی ھو تو آپ مجھے بتائیے کہ اس وقت پوری دنیا میں شیعت کا تشخص اور پھچان کون ہیں؟ 

رہبر معظم یا آقائے وحید، رھبر کی بات پوری دنیا میں اثر رکھتی ھے یا آقائے وحید کی؟

 کربلا اور شام کے روضوں پر خون کا ماتم ھونا اس بات کی دلیل نھیں ھے که وہ جائز ھے.

 خانہ کعبه کی دیوار پکڑ کر اگر کوئی کسی کی غیبت کرتا ھے یا کسی پر بھتان باندھتا ھے تو کیا یه,

 عمل چونکه خانہ کعبه کے پاس ھوا ھے لھذا جائز ھے؟.

مکه معظمه حرم کے قریب کچھ عرصه قبل کتوں کا گوشت فروخت ھوتا رھا کیا ھم بھی یھاں شروع کر دیں.

دوران حج یا دیگر ایام میں حرم کے اندر تاش کھیلی جاتی ھے کیا اسے ھم بھی شرعا جائز بنا دیں.

سعودی ررب یا کربلا و نجف میں حرم کے آس پاس جو گناه کیۓ جاتے ھیں کیا ھم ان  گنھان کبیره کو جواز بنا کر جائز بنا لیں.

کربلا اور شام کے روضوں پر ھم جیسے ھٹ دھرم لوگ ھی جا کر خون کا ماتم کرتے ھیں,

 ورنہ کوئی اگر اس کام کا ثواب ھوتا یه فعل مستحب ھوتا تو پھلے اس میدان میں علماء کو آگے بڑھنا چاھیے تھا.

 اور زنجیر کا ماتم کرنا چاھیے تھا کیا آج تک آپ نے کسی عالم دین یا مجتھد  کو عمامہ لگا کر زنجیر کا ماتم کرتے دیکھا ھے؟

حلال و حرام کا معیار شریعت ھے، فقہ اسلامی ھے توضیح المسائل ھے.

 ھاں اگر ائمه کی زندگی میں ان کے سامنے کسی نے یه عمل انجام دیا ھوتا اور ائمہ نے اسے دیکھ کر خاموشی اختیار کی ھوتی یه اس عمل کی جوازیت پر دلالت کرتا ھے.

 اس کے علاوہ کسی کا عمل یا کس جگہ پر اس کا انجام پانا قطعا اس کے جاھز ھونے کی دلیل نھیں ھے(جاری ھے).

زنجیر زنی کی ابتدا برصغیر سے ھوئی.

. کھا جاتا ھے کہ زنجیر زنی کی ابتدا برصغیر پاک و ھند سے ھوئی



                   قسط نمبر: 7

 یہ احتمال دیا جاتا ھے کہ سلسلہ قاجاریہ کے دور حکومت میں یہ رسم ایران میں پھنچ گئی .

ایران کے پرانی تاریخی منابع میں زنجیرزنی سے متعلق کوئی معلومات دستیاب نھیں.
ناصرالدین‌ شاہ کی حکومت کے دوران ایران آنے والے سیاحوں کے سفر ناموں میں زنجیر زنی کا تذکرہ ملتا ھے.

 رضاشاہ کے دور میں عزاداری کی ھر قسم کی رسومات منجملہ زنجیرزنی پر پابندی لگائی گئی۔ 
محمد رضا پہلوی کے دور میں بھی بعض اوقات اس رسم کی ادائیگی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ 

مثلا 1955ء کے محرم الحرام میں پہلوی حکومت نے,

 سید ہبۃالدین شھرستانی جو اس وقت عراق میں مرجع تقلید تھے،

 زنجیرزنی سے متعلق فتوے کا بھانا بنا کر زنجیرزنی سمیت عزاداری کی بعض دیگر رسومات پر پابندی لگا دی گئی۔

 اس پابندی کے خلاف لوگوں نے احتجاجی ریلیاں نکالی جس کی ایک مثال آذربایجان والوں نے آٹھ محرم الحرام کو سید محمد بہبہانی کے گھر کے قریب زنجیرزنی کا ایک بہت بڑا دستہ نکال کر دہرنا دیا ,

جو اس وقت کے وزیر اعظم "حسین علاء" کی مداخلت سے اختتام پذیر ہوا۔[1] اسی طرح 1927ء میں حیدرآباد میں زنجیرزنی پر پابندی لگا دی گئی۔

پاکستان ایران,ھندوستان,اور عراق میں مختلف طریقه سے زنجیر زنی کی جاتی ھے.

امام سجاد ع سے لے کر آخری حجت امام زمانه ع تک کسی بھی معصوم امام سے یه عمل ثابت نھیں.

اس لیۓ کثرت علماء و مجتھدین اسے خرافت و بدعت قرار دیتے ھیں.
اس خونی عمل سے تشیع بھت بدنام ھو رھی ھے.

ائمہ طاہرین علیہم السلام کی عزاداری کا قیام حیات بخش اکسیر کی طرح مکتب اہل بیت علیہم السلام کے تحفظ کا ایک بنیادی اور اہم ترین عامل ھے۔

اسی وجہ سے بزرگ علماء ان مجالس کے تحفظ کے لیے مکمل اھتمام کرتے اور کوشش کرتے رھے ھیں کہ انھیں انحرافات, بدعات اور انتہا پسندی کے خطرات سے دور رکھیں.(جاری ھے)

زنجیر زنی ,دشمن تشیع کیلۓ بھترین ھتهیار

زنجیر زنی سے غالی زاکر ,وھابی اور مغربی میڈیا خوب فائده اٹھا رھے ھیں:

قسط نمبر :6
             تحریر : "سائیں لوگ"

مذھب اھلبیت ع  کے صف اول کے دشمن جن میں پیش پیش غالی زاکر و عوام ھیں وھابی اور مغربی میڈیا 

 قمه اور زنجیر عمل سے عوام الناس میں تشیع کے خلاف بھر پور پیروپیگنڈا کرکے خوب نفرت بھر رھے ھیں.

اس عمل سے  متاثر ھوکر لوگ تشیع کی طرف آ نھیں رھے اور نه ھی مذھب تشیع قبول کررھے ھیں بلکه وحشی و درندگی کا مذھب سمجھ کر خوفزده و نفرت کر رھے ھیں.

 کیونکه یه لوگ تشیع کو تنھا کرنے کے لئے مختلف حربوں کی تلاش میں رھتے ھیں.

قابل توجہ امر ھے کہ دنیا میں صرف مغربی ذرائع ابلاغ اور وھابی ان رسومات کا خیر مقدم کرتے ھیں.

 جبکه غالی زاکر و خطیب معصوم لا علم عوام کا زھن و عقیده بنانے میں مرکزی کردار ادا کر رھے ھیں.

اور دشمن وھابی و مغربی میڈیا ان سے خوب استفادہ کرتے ھیں وہ قمہ زنوں اور زنجیززنوں کی تصویریں لے کر کھتے ھیں که,

 یہ ھے تشیع کے تمام افراد کا عمل ھے اور یوں وہ تشیع کا چھرہ دنیا کی رائے عامہ میں مخدوش کردیتے ھیں.

 اور اپنے تشدد آمیز اقدامات، دھشت گردی اور دیگر افعال کو بھول کر دنیا والوں پر ثابت کرنا چاھتے ھیں که,

 تشیع ایک تشدد پسند مذھب ھے اور یہ لوگ جو اپنے آپ اور اپنی بچوں پر رحم نھیں کرتے دوسروں پر کیا رحم کریں گے؟

  مغربی ذرائع ابلاغ اور وھابی رجعت پسندوں نے کوشش کی ھے که قمہ زنی کی رسم کی تصاویر دکھا کر ان سے شیعہ مخالف پراپیگنڈے سے آپنے مقاصد حاصل کریں.

 مغربی و ھندی میڈیا  فلمیں ٹیلی ویژن چینلز کے علاوہ وھابی اور مغربی انٹرنیٹ ویب سائٹس میں بھی دکھائی جارھی ھیں.

 وہ اس ذریعے سے تشیع کو ایک رجعت پسند مذھب کے طور پر متعارف کرانا چاہتے ھیں.
 اور تشیع کی تصویر نفرت انگیز اور ھولناک بنا کر پیش کرنا چاھتے ھیں.

 ان فلموں میں فٹ نوٹ چلا کر ناظرین کو بتایا جارھا ھے که بھت جلد آپ کے پسندیدہ شھر میں بھی خون اور خونریزی کی یه نمائش دیکھی جاسکے گی:

       «Soon in Your Favorite City>

یعنی خبردار اگر آپ کی شھر کے لوگ تشیع قبول کریں تو یہ صورتحال تمھارے شھر کی بھی ھوگی..!

اگر کوئی گوگل,یو ٹیوب,  یا یاھو سرچ انجن میں جستجو کرے تو معلوم ھوگا کہ قمه اور زنجیر کی تصاویر اکثر,

 دشمنوں کی ویب سائٹس سے مرتبط ھیں. 
وھاں بھی دیکھ لینا چاھیے که وہ ان تصاویر سے کس قسم کا فائدہ لے رھے ھیں؟ 

ھمارے مذھب کی خوبصورت تصاویر ان سائٹوں میں نظر نھیں آتیں.

بلکه منفی پیروپیگندا سے بھری پڑی ھیں جب که نادان شیعه اس عمل بدنام سے جنت کے حصول پر تلا ھوا ھے.  (جاری ھے).

زنجیر زنی حلال یا حرام ,قسط نمبر:5

زنجیر زنی :
 کے مٹھی بھر حامی قرآن تو دور آپنے فقه کی بھی کتابیں نھیں پڑھتے وگرنه زنجیر زنی پر اتنے کم فھم اور بے تکے تاثرات کا اظھار نه کرتے.

  قسط نمبر:5

       تحریر و کاوش : "سائیں لوگ"

  ھمارۓ مجتھد متعدد علمی مراحل طے کرکے اجتھاد کے درجے پر پھنچتے ھیں.

 اور وہ علم صرف و نحو و منطق و بدیع و بیان و درایه و اصول و فقه کے علاوہ علوم معقول اور تاریخ و رجال و حدیت و تفسیر میں استاد بن جاتے ھیں.

 اور پھر اپنی دانش و حکمت کی روشنی میں احکام دین کا استنباط کرتے ھیں.

 نہ یہ کہ اس زمانے کے افراد کی طرح جو علم و دانش حاصل کئے بغیر  صرف رسول اللہ (ص) کی زیارت کرکے ھی اپنے آپ کو اجتھاد کا اھل سمجھیں.

 اور اپنی رضا میں اللہ کی رضا ڈھونڈیں. اور جب وہ یھاں لاجواب ھوجاتے ھیں,

 تو کچھ ایسے علماء کا حوالہ دیتے ھیں جنہوں نے قمہ زنی اور زنجیر زنی کی حمایت کی ھے.

 اور جب ان سے کھا جائے  کہ آپ تو اجتھاد اور مجتھد کرام  کے مخالف تھے اور یہ کہ جن حضرات نے قمہ زنی اور زنجیر زنی کو جائز قرار دیا ھے,

 کیا ان کا اجتھاد وھی اجتھاد نھیں ھے جس کی نہ کوئی علمی و منطقی بنیاد ھے.

 اور نہ ھی اس کے لئے کوئی دلیل قائم کی گئی ھے؟ تو قمہ زنی کو عزاداری قرار دیتے ھیں,

 جبکہ ائمہ عزاداری کرتے تھے مگر کسی امام نے قمہ زنی نھیں کی.

حالیہ برسوں کے دوران قمہ زنی اور زنجیرزنی کی حرمت پر عالم تشیع کے مرجع تقلید اور اسلامی انقلاب کے رھبر معظم آیت الله العظمی 

                سید علی خامنه ای 

اور متعدد دیگر مجتھد عظام اور مراجع کرام کے فتؤوں کے بعد دنیا بھر میں جو غفلت و لاعلمی کی وجہ سے  ثواب کمانے کے لئے  قمہ زنی اور زنجیرزنی کا اھتمام کرتے تھے.

 اور خود بھی یہ عمل انجام دیتے تھے اب اس عمل سے اجتناب کرتے ھیں.

 مگر مٹھی بھر افراد جو دینی واجبات کا کم ھی خیال اور علم  رکھتے ھیں.

 بعض خاص حلقوں کے اکسانے پر قمہ زنی اور زنجیر زنی پر اصرار کررھے ھیں. 

جبکہ اسی حال میں امریکی سینٹرل انٹلیجنس ایجنسی, CIA  کے

 سابق معاون «مائکل برانٹ»

 کے بقول عزاداری میں نئی چیزیں شامل کرکے تشیع کی شاھرگ حیات کو کاٹا جارھا ھے.

 اور اس سلسلے میں علماء اور مراجع کے مخالفین کو مالی مدد دی جارھی ھے.

 اور انھیں شھرت و دولت کا لالچ دے کر مراجع کے خلاف محاذ قائم کرنے کی ترغیب دی جارھی ھے.

. برانٹ کے بقول اس عالمی پلان کا نام (Divide and destroy)، ھے.

 جس کا بنیادی خیال برطانوی پلان (Divide and Rule) سے اخذ کیا گیا ھے.

 برانٹ کا خیال ھے مرجعیت اور عزاداری تشیع کو زندہ رکھتے ھیں,

 اور ھم (امریکیوں) کی کوشش ھے که ان دونوں اداروں کو نیست و نابود کریں.

 اور عام لوگوں کو مرجعیت کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ کریں.

 جبکہ فرانسیسی فلاسفر

 «ہانری کوربن = Hanry Corbin »

 کے بقول (ان دو اداروں یعنی عزاداری اور مرجعیت کی بدولت) 

«تشیع دنیا کا زندہ ترین مذھب ھے».

 مگر کئی لوگ تشیع کے احیاء کا نعرہ لگا کر اس زندہ مذھب کو مردہ مذھب پر اصرار کررھے ھیں.(جاری ھے).

زنجیر زنی آغیار کا غیر فطری عمل تشیع میں کیسے داخل ھوا

زنجیر زنی!
اغیار و کفار کا غیر فطری عمل شیعوں نے کیوں اختیار کیا ؟
                             قسط نمبر :4
          
               تحریر و ترتیب :"سائیں لوگ"

 ھمیں حکم ھے که اس انقلاب کی حمایت کریں جو اسلام کے احیاء کے لئے برپا کیاگیا تھا.

تاکہ ھم بھی ااسلام کے احیاء اور اس کی حفاظت میں اپنے حصے کا کردارد ادا کریں اور اپنے عقائد کو تقویت پھنچائیں.

 مگر سوال یہ ھے کہ قمہ و زنجیر کے ماتم جیسے اقدامات کے ذریعے کیونکر ممکن ھے کہ ھم اسلام محمدی (ص) اور تشیع حسینی (ع) کے ساتھ ربط برقرار کریں؟ 

کیا محرم کے ایام میں قمہ زنی اور زنجیر زنی کا ماتم کرنے والے افراد نے کبھی اپنی عقل و فطرت سے پوچھا ھے که وہ قمہ زنی اور زنجیر کا ماتم کیوں کرتے ھیں؟

 کیا انھیں معلوم ھے کہ یه روایت کھاں سے آئی ھے اور کیوں آئی ھے؟  

 عیسائی بھی کانٹوں کی زنجیروں سے اپنی پیٹھ پر ماتم کرتے ھیں.

 حالانکه یہ ھمارا عقیدہ نھیں ھے یه اغیار اور کفار کا عمل ھے.

  ھمارے عقائد اصول دین سے باہر نھیں ھوتے اور اصول دین سے متعلق ھماری ذمہ داریوں کے لئے ہمیں مراجع کے فتاوی کی ضرورت ھوتی ھے.

ھم معصوم امام ع کو اصول دین کے عنوان سے مانتے ھیں.

 مگر اس سے متعلق جو افعال ھمارے ذمے ھیں وہ فروع دین کے زمرے میں آتے ھیں اور ھمیں ان افعال کے لئے مراجع تقلید کی راہنمائی کی ضرورت ھوتی ھے,

 یا پھر خود مرتبہ اجتھاد تک پھنچنے کی ضرورت ھوتی ھے. 

اگر امام معصوم علیہ السلام کی محبت کی بات ھے تو پیروی سے محبت کا اظھار ھوتا ھے,

 اور امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

 «من اطاع اللہ فہو لنا ولی و من عصی اللہ لہو لنا عدو»

 (جس نے خدا کی اطاعت کی وہ ھمارا دوست ھے اور جس نے حدا کی نافرمانی کی وہ ھمارا دشمن ھے».

 ائمہ معصومیں سے عقیدت کافی نھیں ھے کیونکہ بھت سے غیر شیعہ افراد بھی ان سے عقیدت رکھتے ھیں.

 اور کئی غیر شیعہ افراد بھی امام ضامن باندھتے ھیں اور امام ضامن امام رضا علیہ السلام کی دعا کے سوا کچھ بھی نھیں ھے.

 ضرورت یہ ھے که ھم امامت اور امام علیہ السلام کی اطاعت کرکے ثابت کریں کہ ھم ان پر عقیدت کے ساتھ عقیدہ بھی رکھتے ھیں.

نہ صرف کسی امام علیہ السلام نے قمہ اور زنجیر کو عزاداری کا جزء قرار نھیں دیا ھے.
 اور نہ صرف اس حوالے سے کوئی آیت و روایت موجود نھیں ہے بلکہ اس کی کوئی منطقی بنیاد بھی نھیں ھے .

اور فقہی سند بھی موجود نھیں ھے اور پھر ھماری عقل کا فیصلہ بھی یہ نھیں ھے.

 کسی امام کے قول و فعل و تقریر سے بھی یہ عمل ثابت نھیں ھے. نہ صرف یہ بلکہ تمام علماء اور مراجع تقلید نے بھی قمہ و زنجیر کے ماتم کی مخالفت کی ھے اور اس عمل کو دین سے باہر کا عمل سمجھتے ھیں. 

اس کے باوجود قمہ اور زنجیر کا ماتم کرنے والے افراد کس جواز کی بنیاد پر یہ عمل انجام دیتے ہیں؟

 کیا ان کا خیال ھے کہ مراجع تقلید اسلام اور تشیع کے دشمن ھیں؟ 

کیا وہ ان مراجع کی نسبت اسلام اور تشیع کی مصلحت کو بھتر سمجھتے ھیں؟

 یقینی بات ھے کہ وہ اسلام اور تشیع کی حفاظت پر مامور ھیں,
 اور صرف عاشورا کے دن یا اربعین کے دن قمہ زنی اور زنجیر زنی کرکے سال کے باقی ایام اور مھینوں میں دوسرے امور میں مصروف ہوکر واجبات دین کو چھٹی دینے والے افراد سے کھیں زیادہ اسلام اور تشیع کے درد اور اس کی مصلحتوں سے واقف ھیں.

 کیونکہ ان کی پوری زندگی اسی راہ میں گذرتی ھے اور ان کا مشغله یھی ھے.

                          (جاری ھے)

زنجیر زنی قسط نمبر:3

زنجیز زنی پر صفوی دور میں قزلباشوں کی روایت مستند کیسے:

قسط نمبر :3
       
       تحریر و ترتیب : "سائیں لوگ"

شیعہ کے ھاں عقل چھار بنیادی منابع میں سے ھے.
جبکه دوسروں کے ھاں عقل کو کوئی اھمیت نھیں دی جاتی:

 اور ائمہ علیھم السلام نے نھایت سادہ اور سلیس الفاظ میں ھمیں دین کے اصول سمجھائے ھیں. 

اورشیعہ کے برعکس بعض دوسرے فرقوں کے ھاں عقل کو پوری چھٹی دی گئی ھے .
اور معاذ اللہ ان کے خیال میں اگر خدا جھوٹ بھی بولے تو وہ درست تصور ھوگا!!

 کیا ھمارے ھاں بھی عقل کی چھٹی کردی گئی ھے؟

 اگر ھماری عقل معطل ھے تو ھم اور فرقہ مرجئہ میں کیا فرق ھے؟

کچھ لوگ کھتے ھیں کہ قمہ زنی اور زنجیروں کا ماتم در حقیقت عزداری امام حسین علیہ السلام ھے.

 اور اس کی مخالفت درحقیقت عزاداری کی مخالفت ھے. 
اس کا جواب یہ ھے که ائمہ طاہرین کے گھروں میں بھی اور امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں آپ (ع) کی درسگاہ میں بھی عزاداری ھوا کرتی تھی.

 کوئی یہ بتا سکتا ھے کہ وھاں مصائب اور مرثیے کے سوا دوسرے اعمال بھی انجام دئے جاتے تھے؟

 مصائب و نوحہ حوانی اور گریہ و بکاء سنت ائمہ ھے سینہ زنی کا ماتم اور جلوس اس لئے ھے کہ پیام عاشورا دنیا والوں تک پھنچایا جائے. 

ائمہ طاہرین علیہم السلام نے ان اعمال کی تائید فرمائی اور عقل بھی ان کے موافق ھے. 

مگر صفوی دور میں قزلباشوں کی جانب سے متعارف ھونے والی روایت کیونکر سنت بن سکتی ھے؟ 

مذھب تشیع کے ھر فعل اور ھر عمل کا کوئی نہ کوئی فلسفہ ھے کوئی بھی عمل بغیر حکمت کے نھیں ھے اور ھمیں وحی و نبوت اور امامت و مرجعیت کی پشت پناھی حاصل ھے.

امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے پر شکوہ انقلاب میں اپنی اور اپنے انصار و اعوان کی شھادت کے شاھکار کے ذریعے انسانوں کو سکھایا که انھیں ظلم اور طغیان کے خلاف خاموشی اختیار نھیں کرنی چاہئے.

ظلم و ستم، جھوٹ اور فساد سے بیزاری کا اعلان کرکے توحید، عدل اور انسانی عظمت و کرامت کے حامی رہیں. 
آپ علیہ السلام نے کربلا میں ھمارے عقائد یعنی توحید، عدل، نبوت، امامت اور معاد کی حفاظت کی.(جاری ھے)

زنجیر زنی قسط نمبر:2

زنجیر زنی پر کمزور دلائل کا رد:

قسط نمبر : 2
                     تحریر : "سائیں لوگ "

کچھ لوگوں سے جب کھا جاتا ھے کہ ھمارے اس عمل سے دنیا والے متنفر ھوتے ھیں,

 تو وہ فورا بولتے ھیں: ھمیں کیا؟

 دنیا والے ھم سے محبت کریں یا نفرت مگر وہ یہ بھول جاتے ھیں کہ تشیع اسلام کی اصلی ترین اور زندہ ترین شکل ھے .
اور اس کی حفاظت ھی نھیں بلکہ اس کی ترویج بھی تمام شیعیان محمد و آل محمد (ص) پر واجب ھے.

 حدیثوں سے ثابت ھے کہ اگر کوئی مؤمن کسی محلے میں رہتا ھے اور اس کے کردار کی وجہ سے چند سالوں میں وہ محلہ شیعہ مکتب کے دائرے میں داخل نہ ھو تو وہ شخص مؤمن نھیں ھے. 

یا یہ کہ «ہمارے لئے زینت بنو اور ھمارے لئے باعث شرم نہ بنو.

کوئی کھتا ہے کہ ثانی زہرا (س) نے اپنا سرکجاوے پر مار کر زخمی کیا تھا,

 اور کوئی اویس قرنی کی مثال پیش کرتا ھے که انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دانتوں کی شہادت کی خبر سن کر سارے دانت توڑدئے تھے.

سوال یہ ھے کہ کیا ثانی زہرا (س) کجاوے پر سر مارنے کے لئے پہلے سے تیاری کرچکی تھیں؟

 کیا انھوں نے زنجیر اور یا قمہ پہلے سے تیار کرکے رکھا ھوا تھا؟

 کیا انھوں نے اپنے ارادے سے ایسا کیا؟

حضرت  اویس قرنی کے بارے میں بھی یھی سوال اٹھتا ھے.
 یقینی امر ھے که ایک خاص وقت میں انسان جذبات میں آکر کوئی اقدام کرتا ھے,

 تو اس کی بات الگ ھے اور پھر اگر قمہ و زنجیر کے حامیوں کے خیال میں یہ جناب سیدہ (س) اور اویس قرنی کی سنت ھے,

 تو پھر سر کجاوے پر مارنے یا پتھر سے اپنے دانت توڑنے کی بجائے دیگر افعال و اعمال کی بنیاد کیوں رکھی گئی؟ 

اگر یہ سنت تھی تو ایک ھزار برس تک معطل کیوں رھی اور اس سنت کا انکشاف گیارھویں صدی ھجری میں کیوں ھوا؟ 

اس سے معلوم ھوتا ھے که یه غیر حقیقی روایات ھیں.

کیا سنتوں پر عمل کرنے کے حوالے سے ائمہ طاہرین سے کوئی زیادہ حقدار ھے؟ 

اگر یہ سنت ھے تو کس امام یا کس نائب امام نے اس پر عمل کیا ھے؟

 ان سب باتوں سے بڑھ کر سوال یہ ھے کہ قول و فعل و تقریر معصوم سنت ھے. 

قول وہ ھے جو وہ فرماتے ھیں، فعل وہ ھے جو وہ انجام دیتے ھیں اور تقریر وہ ھے جو حضرات ائمہ (ع) کے سامنے دوسرے افراد انجام دیتے ھیں.

 اور وہ ان کے اس فعل کی تائید کرتے ھیں؟ 

یہ البتہ الگ بات ھے کہ کیا واقعی سیدہ (س) نے کجاوے پر سر مار کر زخمی کیا تھا؟

 اور اگر یہ روایت درست ھے تو جب سیدہ (س) نے اپنے بھائی کا سرمبارک نیزے کے اوپر دیکھا اور عالم بیخودی میں سر پر کجاوے پر مارا تو کیا امام سجاد علیہ السلام نے انھیں روکا نھیں؟

 کیا امام سجاد علیہ السلام نے یہ دیکھ کر خود بھی سرکجاوے پر مارا یا نھیں؟ کیا امام معصوم علیہ السلام حجت نہیں ھے؟     (جاری ھے).

زنجیر زنی غیر فطری عمل

زنجیز زنی ! 

بدھ مت اور آرتھوڈکس  مذاھب کے پیروکاروں کا یه عمل تشیع میں کیسے داخل ھوا.

                                   قسط نمبر:1
    تحریر "سائیں لوگ"

  شیعوں کے سروں پر امریکی قمه,
ایک فلم یہ سینکڑوں ھزاروں فلموں میں سے صرف ایک مختصر سی فلم ھے.

جس میں کچھ افراد کے ھاتھوں میں قمے یا خنجر ھیں جن پر برجستہ انداز سے لکھا ھوا ھے.
           
                 "MADE IN USA"

 اس فلم  سے مکتب تشیع پر قمہ زنی اور زنجیر زنی کے اثرات کا بخوبی پتہ چلتا ھے .

اس طرح کے مناظر انڈین ھندی و ٹامل فلموں میں بھی فلماۓ گۓ ھیں.

اور یہ بھی معلوم ھوتا ھے کہ اس کے اتنے سارے منفی اثرات کے ھوتے ھوئے کسی مثبت اثر کا تصور تک نا ممکن ھے.

 یہ فلم درحقیقت ایک نمونہ ھے ان تبلیغی حربوں کا جو مغربی اور وہابی ذرائع ابلاغ کی خوراک بنے ھوئے ھیں اور اس فلم کو ایک حربہ اور ایک خنجر بنا کر تشیع کے سينے میں گھونپا جارہا ھے.

 وہ اس جیسی فلموں کو نشر کرکے اپنی رجعت پسندی اور انسان کشیوں کو بھول کر تشیع کو ایک رجعت پسند اور تشدد پسند مکتب کے عنوان سے متعارف کرارھے ھیں.

 اور  عالمی رائے عامہ کو تشیع سے متنفر کرکے انھیں اھل تشیع سے خائف کررھے ھیں. 

اور انھیں تشیع سے دور بھگا رھے ھیں جبکہ عزاداری کا اصل مقصد تبلیغ مذہب ھے.

دین اسلام پر ایک قاعدہ حکم فرما ھے اور وہ یہ ھے: 

« کل ما حکم بہ العقل حکم بہ الشرع و کل ما حکم بہ الشرع حکم بہ العقل=

ھر وہ چیز جس کا حکم عقل دے شرع بھی وھی حکم دیتی ھے.

 اور جو حکم شرع مقدس کی طرف سے صادر ھوتا ھے عقل بھی وہی حکم دیتی ھے.

عقل کہتی ھے کہ امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد زینبی کردار ادا کرکے پیغام حسین علیہ السلام دنیاوالوں کو پھنچادو,

 اور اگر ایسا نہ کروگے بلکہ الٹا دین کی تبلیغ میں رکاوٹیں ڈال کر دنیا والوں کو دین و مکتب سے بیزار کروگے تو .... تو پھر یقینا یزیدی ھونگے,

 اور کیا افسوس کا مقام ھے کہ کوئی عبادت کے عنوان سے  شرع کی بجائے نفس کے حکم پر  ایک عمل انجام دے.

 مگر ثواب حاصل کرنے کی بجائے عقاب کا حقدار ٹھرے اور زینبی کھلوانے کا حقدار نہ ٹھرے...

 یقینا شیعیان حیدر کرار محبت حسین ع میں جذبات کا اظھار کرتے ھیں اور قمہ و زنجیر اٹھاتے ھیں.

 اور ان کا گماں بھی یھی ہھ که اس سے دین کو تقویت مل ھہی ھے مگر وہ عالمی پراپیگنڈوں سے غافل ھیں.

 اور انھیں یہ نھیں معلوم کہ دوسرے لوگ ھماری اس نام نھاد عبادت کو ھمارے مذھب کی بدنامی کے لئے استعمال کررہے ھیں.

اتوار، 21 اپریل، 2019

مومن علماء کا احترام واجب ھے.

.مومن علماء کا احترام واجب ھے

پاک نبی ص نے فرمایا جس نے عالم کا احترام کیا اس نے میرا احترام کیا اور جس نے عالم کی توھین کی اس نے میری توھین کی.(الاحتجاج جلد,1 ص,8)

بلاشبه مومن کی توھین کرنا اور اس کا مزاق اڑانا گناه کبیره ھے.
 اور اگر مومن عالم,دانشور ھو تو گناه کی شدت بڑھ جاتی ھے.

اور اگر توھین کے ساتھ تھمت اور بدگوئی بھی شامل ھو جاۓ تو گناه کی شدت اور بڑھ جاتی ھے

مومن خدا کے نذدیک انتھائی محترم اور معزز ھوتا ھے اس کی جان کی طرح اس کا مال بھی محترم ھے.

سوره منافقون ع 8,میں ھے.
ولله العزة ولرسوله وللمومینین .عزت اللله اور اس کے رسول اور مومینین کیلۓ ھے.

سوره بقره ع 257,میں ھے اللله ولی الزین آمنو ... اللله مومینین کا سر پرست ھے.

سوره بینه ع 7,
میں ھے جو لوگ ایمان لاۓ اور نیک اعمال کرتے رھے وه تمام خلقت سے بھتر ھیں.

مناظره کرنے والے مومن علماء کی شان اور فضیلت میں امام حسن عسکری اور خاتون جنت سلام اللله علیها سے بھی بھت سی روایات منقول ھیں .

آخری زمانه میں علماء حقه کی توھین:

پاک نبی ص نے فرمایا :
عنقریب میری امت پر وه وقت آنے والا ھے جب لوگ علماء کی بدگوئی کریں گے اور ان کے ھاں عالم کی کوئی وقعت نه ھو گی.
عنقریب میری امت پر وه وقت آنے والا ھے جب وه علماء سے یوں بھاگیں گے جیسے بکری بھیڑیۓ سے بھاگتی ھے.جب ایسا ھونے لگے گا تو اللله تعالی انھیں تین باتوں میں گرفتار کر دے گا.
1-  ان کے اموال سے برکت اٹھ جاۓ گی .

2-  ان پر ظالم حکمران مسلط ھونگے.

3-  وه بے دین ھو کر دنیا سے رخصت ھوں گے.

(بحارالانعار جلد,22-ص453, بحوالا جامع  الاخبار ص 129)

قرآن و سنت سے اتنے واضح احکامات کے باوجود جو علماۓ حقه کی تحقیر کرۓ گا گویا وه شدید گناه کبیره کا مرتکب ھوا.
یھی علماء ھی ھیں جو ھم تک دین کی تعلیم پهنچاتے ھیں.اور ھمارۓ روزمره کے دینی و دنیاوی مسائل کا قرآن و سنت سے حل دیتے ھیں.
 قرآن پاک میں اللله پاک نے واضح حکم دیا ھے که عالم اور جاھل برابر نھیں ھو سکتے.
جب بھی دین پر مشکل بنی انھیں علماء کرام نے ھی دفاع کیا .اور باطل قوتوں کے سامنے سیسه پلائی دیوار ثابت ھوۓ.
لیکن افسوس ھے ان لوگوں پر جو علماۓ حقه کی توھین کرتے ھیں جیسے یه لوگ ماں کے پیٹ سے دینی علوم میں فاضل بن کر آۓ ھوں.

سائیں لوگ کی تحقیقی پوسٹ پر گالیوں سے جواب دینے والے در اصل جھوٹے ھیں.

ھٹ دھرمی اور بحث و تکرار کسی بھی معاشره کیلۓ زھر قاتل ھے .اخلاقی لحاظ سے یه مضموم بھی ھے.

ھم نے جب بھی پوسٹ کی ھمیشه تحقیقی اور علمی کی مگر بدقسمتی چند احباب نے موضوع سے ھٹ کر بے ڈھنگے سوال کر کے اسے متنازعه اور اناء کا مسله بنا لیا.

 پوسٹ چاھے مثبت ھی کیوں نه ھو افسوس تب ھوتا ھے جب وه لوگ کمنٹس کرتے ھیں جنھیں آج تک طھارت اور پلیدگی تک کا علم نھیں,وه آپنے کم علم کی بدولت ایک علمی اور حقائق پر مبنی تحریر کی اھمیت کو ضائع کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ھیں مگر یاد رھے ھمارا مقصد علم دینا ھے اختلاف یا نفرت بڑھانا نھیں.

اللله پاک ھمیں متعصب اور جھگڑالو لوگوں کے اس عمل سے محفوظ رکھے.(آمین)

یاد رھے بے تکی بحث و تکرار سے دوستی اور دینی برادری خراب ھوتی ھے.اور محبتوں کی بجاۓ نفرت اور کینه پیدا ھوتا ھے .
روایات سے معلوم ھوتا ھے که اس سے نا صرف برادرانه تعلقات خراب ھوتے ھیں بلکه دین بھی غارت ھو جاتا ھے اور نیک اعمال حبط ھو جاتے ھیں اور عقائد میں بھی شک پیدا ھو جاتا ھے.
 اور اس عمل سے انسان خدا سے غافل ھو جاتا ھے خواه مخواه کی ضد سے منافقت جنم لیتی ھے اور اسکی وجه سے بخشش کے بھت سے دروازۓ بند ھو جاتے ھیں.

امام جعفر صادق ع نے فرمایا:

لا یخاصم الا رجل لیس له ورع او رجل شاک.

ترجمه :
جھگڑا وھی کرتا ھے جس کے پاس خوف خدا نه ھو یا وه اھل شک میں سے ھو.

(میزان الحکمة جلد,1 ص,748.)

امام محمد باقر ع نے بھی فرمایا:
 الخصومة تمحق الدین و تحبط العمل ولا تورث الشک "
خصومت و نزاع دین کو ختم کر دیتی ھے اور عبادت کو ضائع کر دیتی ھے اور دین میں شک پیدا کرنے کا سبب بنتی ھے .
(شیخ صدوق توحید ص,458.)
امام موسی کاظم ع نے بھی کچھ اس طرح فرمایا ھے.
ترجمه :
دین میں جاھلانه کیل و قال سے پرھیز کرو کیونکه اس سے دل زکر خدا سے غافل ھو جاتا ھے اور اس سے نفاق, کینه,اور جھوٹ کو فروغ ملتا ھے .
(شیخ صدوق امالی ص 340.)

امیر المومینین علی علیه اسلام نے فرمایا:
ترجمه :
جو لڑائی جھگڑا میں بڑھ جاۓ وه گنھگار ھوتا ھے اور جو اس میں کمی کرۓ اس پر ظلم ڈھاۓ جاتے ھیں اور جو لڑتا جھگڑتا ھے اس کیلۓ مشکل ھوتا ھے که وه خوف خدا رکھے.
(نھج البلاغه حکمت نمبر 298)
ھماری تمام پوسٹ کے کمنٹس میں ملحاظه کیا جا سکتا ھے که امام ع کے فرمان کی زد میں کون لوگ آتے ھیں.

امام جعفر صادق ع کی زندگی کا دستور تھا .
که اگر آپ کا گزر ایسے افراد کے پاس سے ھوتا جو آپس میں جھگڑا کر رھے ھوتے تو آپ وھاں سے گزر تے وقت تین بار بلند آواز سے کهتے تھے

" اتقواللله".  اللله سے ڈرو.

اللله پاک ھمیں حق سمجھنے,لکھنے,پڑھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.

سائیں لوگ کے خلاف پیروپیگنڈا کرنے والے بدبخت علمی یتیم ھیں.


.ھمارۓ خلاف منفی پیروپیگنڈا کرنے والے بد بخت ھوش کے ناخن لیں

ھماری کسی سے نه زاتی نا سیاسی نه لسانی دشمنی صرف مذھبی اختلاف اس پر خاموشی یا چپ رھنا ھمارۓ ایمان,دین اور غیرت ایمانی کا سودا کرنے کے مترادف ھے.

ھم نه جھوٹے نه ھمارا مقصد انتشار اور اختلاف بڑھانا ھے ھمارۓ اندر شیعت, اسلام کیلۓ ایک درد ھے اور ھم اسلام  اور مذھب حقه کی بقا و دفاع پر دی گئ اھلبیت ع و دیگر عظیم قربانیوں کے ثمرات کو ضائع ھونے سے بچانا ھے.

اھلسنت کے بعض گروه (ناصبی وغیره)موجوده قرآن کو نھیں مانتے.

.ناصبی اور گستاخ وھابی کو تحریف قرآن پر جواب دینا ھو گا

 ناصبی,وھابی موجوده قرآن کو نھیں مانتے سعودی عرب میں گٹروں سے ھزاروں نسخے نکالے گۓ.داعش,اور النصره فرنٹ  نے بم بلاسٹ کے طور پر اور شام میں دیگر ناصبی قرآن پاک کو ھاتھ میں پکڑ کر گولیاں برساتے رھے.
اور کھلےعام شاھره پر پھینکتے رھے.
اور مسجد نبوی ص میں پاؤں پر رکھ کر تلاوت کرنے میں ملوث ھیں
ھم کیسے کھیں که ان بدبختوں کا موجوده قرآن پر ایمان ھے.

تحریف قرآن اھل تشیع پر الزام کا تحقیقی جواب

تحریف قرآن کی کوششوں میں خود حضرت عمر ملوث ھیں.(السیوطی)

                            قسط نمبر :3.                  تحریر و تحقیق : سائیں لوگ 
تحریف قرآن ناممکن ھے.
قرآن میں تحریف اس لیۓ ناممکن ھے که اس کی معجزاتی ترکیب آپنے اندر کسی قسم کی تحریف قبول نھیں کرتی.ساتھ اللله پاک نے خود اس کتاب کی حفاظت کا زمه لیا ھے.(سوره حجر ع 9)

دیگر مکاتب فکر کی معتبرکتب کی شیعه کتب میں بھی روایات موجود ھیں جن میں سے بعض سے بادی النظر میں تحریف کا مفھوم ظاھر ھوتا ھے اور کچھ میں صراحت موجود ھے مگر شیعه ان روایات کے تحت نسخ کا نظریه قائم نھیں کرتے بلکه ان روایات یا تو توجیه کرتے ھیں که ان سے مراد تحریفی لفظی نھیں اور اگر قابل توجیه نھیں ھیں تو ایسی روایات کو مخالف قرآن سمجھ کر مسترد کرتے ھیں.

متحرک اجتھاد :
اھل تشیع کے ھاں اجتھاد کا دروازه کھلا ھے لھذا انکی نظر میں متحرک و زنده اجتھاد کی وجه سے کوئی کتاب حرف آخر نھیں ھے,بلکه ھر کتاب ھر روایت قابل بحث و تحقیق ھے اور تمام اسلامی نصوص تحقیق و تدقیق کے قابل ھیں.
چنانچه اصول کافی اگرچه کتب شیعه میں سے مشھور کتاب سمجھی جاتی ھے مگر اس میں مختلف احادیث موجود ھیں بعض احادیث اگر کچھ مجتھدین کے نذدیک صحیح السند ھیں تو ضروری نھیں که دوسرۓ مجتھدین کی نظر میں بھی وه صحیح السند ھوں .
جو مسلمان صحاح سته کی روایات کا صحیح السند ھونا ضروری اور لازمی تصور کرتے ھیں ان کیلۓ ممکن ھے که صحاح سته میں کسی روایت کا موجود ھونا اس روایت کے مضمون  کا ضمنی اعتراف تصور نھیں کیا جا سکتا چنانچه علامه باقر مجلسی نے اس سلسلے میں سب سے زیاده روایات نقل کی ھیں اس کے باوجود انھوں نے بحارالانوار میں صریحا کهاھے که قرآن میں قطعا کوئی تحریف نھیں ھوئی.

اب ھم آتے ھیں ان راویوں کی طرف جن سے یه روایات لی گئیں .

ناقابل اعتبار روایات:
تحریف قرآن کے بارۓ میں اکثر شیعه روایات ضعیف راویوں سے منقول  ھیں   .
چنانچه ان روایات میں ایک قابل توجه سلسله روایت احمد بن محمد السیاری پر منتھی ھوتا ھے.
علماۓ شیعه فرماتے ھیں که تحریف قرآن سے مربوط تین سو(300),روایات احمد بن محمد السیاری سے مربوط ھیں.

احمد بن محمد السیاری :

السیاری کون ھیں شیعه کتب رجال میں احمد بن محمد السیاری کے بارۓ درج زیل الفاظ استعمال ھوۓ ھیں.وه ضعیف الحدیث,فاسد المذاھب,غالی,اور منحرف راوی ھیں.ملحاظه فرمائیں,

قاموس الرجال جلد 1, ص 403,طبع ایران.
رجال نجاشی ص 58,طبع بمبی.
نقد الرجال ص 32,طبع ایران قدیم .
معجم الحدیث جلد 2, ص 29,طبع نجف.

یونس بن ظبیان :

یونس بن ظبیان  کا نام بھی جھوٹے راویوں میں آتا ھے .
که یه شخص بھی نھایت ضعیف,ناقابل توجه,غالی,کذاب اور احادیث گھڑنے والا تھا.
ملحاظه فرمائیں.
نقد الرجال ص 381.

منخل بن جمیل الاسدی :

ان لوگوں میں منخل بن جمیل الاسدی کوفی کا نام بھی آیا ھے جس کے بارۓ میں علماۓ رجال نے لکھا ھے که یه شخص بھی ضعیف,غالی,فاسد الراویه اور منحرف  ھے.
ملحاظه فرمائیں:
  دراسات فی الحدیث والمحد ثین ,نقد الرجال ص 354.

محمد بن حسن جمھور :

یه بھی ان راویوں میں شامل ھے جس کے بارۓ علماۓ رجال نے کها ھے که یه بھی جھوٹے راویوں میں شامل ھے.یه بھی  جھوٹی اور ضعیف احادیث ,غالی,فاسد الراویه ,ناقابل توجه راوی ھے.

ملحاظه فرمائیں.نقد الرجال ص 299,رجال نجاشی ص338,طبع بمبی بھارت.
یهاں ھم نے وضاحت پیش کی ان غالی اور کذاب راویوں پر جن کی بدولت مذکوره کتب میں زکر ھے که قرآن میں تحریف ھوئی ھے لیکن انکی صحت پر سوالیه نشان ھے جو علم رجال کے ماھر علماء نے آپنی کتب میں پیش کی لھذا ان روایات پر شیعه مذھب کو تحریف قرآن کا الزام نھیں لگایا جا سکتا.ھم ان راویوں کی روایات سے بری الزمه ھیں.
بلکه ان میں سے کچھ روایات اھلسنت کی کتب سےبھی  ماخوز ھیں جیسے بحار الانوار میں علامه مجلسی نے ابن ماجه سے لیں پھر انھوں نے تحریف کو خارج از امکان بھی قرار دیا.

اب ھم آتے ھیں قرآن کو جمع کرنے میں اھلسنت برادران کی بخاری کے مطابق حمص جهاں مقداد بن اسود کا نسخه چلتا تھا وھاں سوره یوسف کی تلاوت پر حضرت عبداللله بن مسعود کو ایک شرابی نے اعتراض کیا آپ نے جواب دیا رسول اللله ص نے اسے درست کها تھا جیسے میں نے پڑھی ھے. 

حضرت عبداللله چھٹے شخص تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا انھیں سادس سته یعنی چھٹا کهتے تھے ان کے مصحف کو خاص شھرت حاصل تھی بخاری میں کافی حدیث آئی ھیں که یه قاری بھی تھے ساتھ پورا قرآن ان کے پاس موجود تھا مگر بدقسمتی سے ان سےبھی قرآن نه لیا گیا جیسے حضرت علی ع سے نه لیا گیا.

ان کے علاوه حضرت علی ع کا نسخه بھی تھا جو خود پاک نبی ص نے مرض الموت کے دوران پیش کیا تھا اور وصیت فرمائی تھی که یه مکمل کتاب اللله ھے.آۓ علی ع یه آپنے پاس لے جاؤ چنانچه حضرت علی ع نے ایک کپڑۓ میں جمع کرکے آپنے گھر لے آۓ اور وفات پیغمبر ص کے بعد قرآن کو اسی طرح مرتب فرمایا جیسے اللله نے نازل کیا تھا اور آپ ھی اسے بخوبی جانتے تھے.اس بات کی گواھی خود بخاری شریف جلد,6.ص530, دے رھی ھے که آپکا مصحف ترتیب نزول پر تھا.

جب خلافت پر قبضه ھوا تو اس دوران آپ یه نسخه اونٹ پر لاد کر مسجد نبوی میں اصحاب کے سامنے پیش کیا اور کها پاک نبی ص نے فرمایا میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑۓ جا رھا ھوں کتاب اللله اور عترت کتاب یه حاضر ھے اور عترت میں ھوں .

جواب ملا اگر آپ کے پاس کتاب ھے تو ھمارۓ پاس بھی ھے چنانچه آپ حجت تمام کرکے واپس تشریف لے آۓ.
افسوس اصحاب نے نسخه محمدی کو رد کردیا.
یه کیسے ممکن ھو سکتا ھے  که ان کے پاس کامل نسخه موجود ھو.

حضرت علی ع کا نسخه محمدی ص کے انکار کے بعد حضرت عمر کے اصرار کے بعد حضرت زید بن ثابت انصاری کو بلایا گیا اور ان سے کها که قرآن کو جمع کرنے کا کام شروع کرو .بڑی مشکل سے حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ھوۓ یه زمه داری قبول کرلی اور پچیس رکنی کمیٹی تشکیل دی اور اعلان کیا جس کے پاس بھی قرآن کا کچھ حصه ھو وه یهاں جمع کراۓ ساتھ دو گواه بھی لے آۓ اسی اثناء میں حضرت عمر یه عبارت لے کر آ گۓ .

(الشیخ والشیخة اذا زنیا فار جمو ھا البتة نکالا من اللله)

زید نے حضرت عمر کو پیش کرده عبارت کو قرآن کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکه حضرت عمر کے پاس مطلوبه گواه موجود نه تھے.
(السیوطی الاتقان فی علوم القرآن جلد-1 ص118)

حالنکه حضرت زید سے بھتر اور واضح مقام حضرت عبداللله بن مسعود کا تھا جس کا زکر بخاری جلد ششم ص 519,میں بھی ملتا ھے که ان کا نسخه پاک نبی سے تسلیم شده تھا.حفظ و قرات میں بھی انکا ثانی کوئی نه تھا.
لیکن حضرت عمر کے اصرار پر زید بن ثابت کو یه زمه داری دی گئی اس مقصد کیلۓ که مرضی سے آپنے حق میں قرآن میں عبارتیں داخل کروائی جا سکیں مگر حضرت عمر کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب حضرت ذید نے عبارت شامل کرنے سے انکار کردیا .
ٹھیک اس طرح جس طرح فاروق لغاری نے بے نظیر اور جسٹس وجھیه نے عمران خان کی امیدوں پر پانی پھیرا.

                                    (جاری ھے).

تحریف قرآن ,تشیع پر الزام کا جواب

شیعه مذھب
 میں تحریف قرآن ناممکن ھے
علمی,تاریخی تحقیق ملحاظه فرمائیں

" قسط نمبر:2.           تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ

تحریف ِ قرآن کو اجاگر کرنے والی روایات کو کیسے سمجھا جائے ؟

شیعہ عالم ِ دین جناب سید شریف الدین عاملی (المتوفی 1377 ھ) تحریر کرتے ہیں:

سُنی و شیعہ علماء کی کتب میں لکھی گئی احادیث کی کتابوں میں ایسی روایت موجود ہیں جو کہ اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن میں کمی واقع ہوئی ہے یعنی موجودہ قرآن اصل قرآن سے کچھ کم ہے لیکن یہ حدیثیں سُنی و شیعہ علماء کی نزدیک معتبر نہیں ہیں کیونکہ یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور اس کے علاوہ ان حدیثوں کے مدمقابل ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جو کہ سند کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ و وثاقت پر ہیں اور عدد و دلالت کے اعتبار سے بھی اکژ اور واضح ہیں ۔ لہٰذا ان بےشمار اور واضح حدیثوں کی موجودگی میں جو کہ تحریف ِ قراآن کی نفی کرتی ہیں ان ضعیف حدیثوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔
اور پھر تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی حدیثیں خبر ِ واحد ( ظن کا فائدہ دیتی ہیں) بھی ہیں اور خبر ِ واحد اگر مقام ِ عمل میں مفید نہ ہو تو وہ حجت اور دلیل نہیں ہیں پس ایک طرف قطعی اور یقینی دلیلوں سے ثابت ہیں کہ موجودہ قرآن تحریف سے منزہ ہے اور دوسری جانب بعض غیر معتبر حدیثوں کی وجہ سے قرآن میں تحریف کا گمان پیدہ ہوتا ہے ۔ واضح ہے کہ قطعی اور یقینی امر کو ظن و گمان کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا ۔ نتیجتاً قرآن کریم میں تحریف کو ثابت کرنے والی حدیثوں کو دور پھینکا جائےگا
اجوبت المسائل جار اللہ

تین اہم نکات

شیعہ علماء کی جانب سے تحریف کے عنوان پر مبنی روایات پر گفتگو اور ان روایات کا تجزیہ کرنے سے قبل ہم اپنے قارئین کی توجہ ان تین اہم نکات کی جانب مبذول کرنا چاہینگے ۔

پہلا نکتہ: کسی شیعہ عالم نے اپنی حدیث کی کتاب کو سوفیصد صحیح قرار نہیں دیا

وہ لوگ جو شیعہ کتب میں موجود چند روایات کو پڑھنے کے بعد اُن کتب کے مصنفین اور عام شیعہ حضرات کو برا بھلا کہتے ہیں وہ دراصل تعصب کا کُھلا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ کسی شیعہ مٰولف، مصنف یا عالم نے کبھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ اس کی کتاب میں موجود تمام روایات صحیح ہیں۔ اسی طرح شیعہ محدثین اور فقہاء میں سے بھی کسی نے کسی مخصوص کتاب کے صحیح ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اسی طرح استاد شیخ محمد جواد معتیہ فرماتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ ہمارے مسلک کی حدیث کی کتب مثلاً الکافی، الاسبصار ، التہذیب ، من لا ہحضرہ الفقہ میں صحیح اور ضعیف حدیثیں موجود ہیں۔ اسی طرح ہمارے علماء کی جانب سے لکھی گئی فقہی کتابوں میں بھی خطا اور صواب پر مشتمل مواد موجود ہے بلکہ یوں کہنا ذیادہ مناسب ہوگا کہ شیعان ِ علی (ع) کے عقیدہ میں قرآن مجید کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں جو کہ اول سے آخر تک لاریب اور بےعیب ہو۔

لہٰذا شیعہ علماء کی جانب سے لکھی گئی احادیث کی کتابوں میں موجود کسی حدیث کو شیعان ِ علی (ع) پر اُس وقت تک حجت اور دلیل کے اعتبار سے پیش نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ شیعہ شخص اس حدیث کے حدیث واقعی ہونے کا قائل نہ ہو۔

ہمارے ان مطالب کی تائید و تصدیق کے لئے یہ کافی ہے کہ شیخ محمد یعقوب کلینی (المتوفی 1329ھ) نے کتاب "الکافی" سولہ ہزار دو سو (16200) احادیث جمع کیں۔ کتاب کافی میں موجود ان حدیثوں کو علماء علم رجال و حدیث کی اصطلاح میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے یعنی صحیح ، موثق ، قوی ، حسن اور ضعیف۔ واضح امر ہے کہ جب الکافی جیسی معتبر اور احکام ِ شرعی کے لئے منبع اور سرچشمہ کی حیثیت رکھنے والی مرکزی کتاب کے متعلق علماء اس نظریے کے قائل ہیں تو دیگر کتابوں کی وضعیت خود بخود معلوم ہوجاتی ہیے۔

دوسرا نکتہ: شیعہ کتاب میں موجود حدیث کو مصنف کا عقیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا

اگر کسی مصنف کی کتابِ حدیث میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی حدیث موجود ہوں تو فقط اس اعتبار سے اس مصنف کے متعلق یہ نظریہ قائم کرنا کہ وہ تحریف ِ قرآن کا قائل تھا درست نہیں ۔ اور اگر اسی طرح ہر مصنف کے عقیدہ کو مشخص کرنا شروع کردیا گیا تو مسئلہ انتہائی مشکل ہوجائگا۔ کیونکہ حدیث کی کتابوں میں ایسی احادیث بھی تو ہیں جو کہ ایک دوسرے سے متناقض ہیں یعنی ایک حدیث کا مضمون دوسری حدیث کے مضمون کے ساتھ بالکل بھی قابل ِ جمع نہیں ہے۔ شیعہ علماء کی کتب ِ احادیث میں اس قسم کی احادیث کا موجود ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ کتاب میں موجود حدیث کو اس کے مصنف کا عقیدہ قرار دینا درست نہیں۔

تیسرا نکتہ: ایک فرد کے نظریہ کو اس فرقہ کے تمام لوگوں کا نظریہ بیان کرنا ناانصافی ہے

اگر کسی مذہب و مسلک کا معتقد شخص ایک نظریہ اختیار کرتا ہے تو اس نظریے کو پورے مسلک کی طرف منسوب کردینا کسی اعتبار سے بھی درست نہیں ہیں۔ بلخصوص جب اس مسلک کے معتبر علماء ایک شخص کے نظریہ ِ شخصی کی واضح مخالفت کریں تو پھر بھی اس کے نظریے کو ایک مسلک کا نظریہ قرار دینا تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ دنیا ِ علم میں آپ کو ایسی کئ کتابیں مل جائینگی جن میں مذکور نظریات فقط مصنف کی شخصی رائے ہوتے ہیں ان کے پورے مسلک کے عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اسی طرح شیخ نوری طبرسی (المتوفی 1320 ھ ) نے اگر تحریف ِ قرآن کا نظریہ اختیار کیا بھی ہو تو بھی اس نظریے کو شیخ نوری کی ذاتی رائے تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس نظریے کو تمام شیعان ِ علی (ع) کے جانب منسوب کرنا سراسر ظلم ہوگا۔

کون نہیں جانتا کے ابن تیمیہ کی کتابوں میں موجود خرافات اباطیل کو اہل سنت کے محققین شدت سے رد کرتے ہیں اس شدید تردید کے بعد اگر ابن تیمیہ کے عقائد کو تمام اہل سنت کا عقیدہ کہا جائے تو کیسا رہے گا ؟

ان تمام حقائق اور واضح دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص ایک فرد واحد کی رائے کو پورے شیعہ مسلک اور مذہب کا عقیدہ کہتا ہے تو ایسا شخص تعصب اور نفسانی خواہشات کی موجوں کے تھپیڑے کھاتا ہوا حق سے کوسوں دور ایک مذہب کو بدنام کرنے کا مجرم ہے۔

تحریف ِ قرآن سے متعلق روایات کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ

معروف شیعہ علماء و محققین نے ایسی روایات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے جن سے تحریف ِ قرآن کا شبہ پیدا ہوتا ہو اور انہوں نے اس بات پر بلاشک و شبہ اقرار کیا ہے کہ موجودہ قرآن ہی اصل قرآن ہے جو کہ کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی سے پاک ہے۔

تحریف ِ قرآن سے متعلق شیعہ کتب ِ حدیث میں موجود دو اقسام کی روایات

اول :۔ اس قسم کی احادیث کی اکثریت ضعیف ، مرسل اور مقطوع ہونے کی وجہ سے حجیت سے سا قط ہیں۔

دوم :۔ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کی سند میں موجود افراد معتبر ہیں لہٰذا اس قسم کی احادیث کی سند کے بارے میں تو سوال نہیں کیا جاسکتا البتہ ان احادیث کی تاویل و توجیہ کرنا ضروری ہے جیسا کہ اس قسم کی احادیث کے بارے میں علماء نے یہ فرمایا ہے کہ ان حدیثوں میں بعض تفسیر ِ قرآن و تاویل اور بعض سبب ِ نزول و قرئت اور کچھ تحریف ِ معنی سے متعلق ہیں۔ اور اگر ضعیف ، مرسل اور مقطوع احادیث کے متعلق بھی اس قسم کی تاویل و توجیہ اختیار کی جائے تو ان احادیث کے متعلق بھی اعتبار پیدا ہوسکتا ہے ۔ لیکن ضعیف احادیث میں توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا ضعیف ہونا ہی ان کے اعتبار کو ساقط کرنے کے لئے کافی ہے۔

ان معتبر اور سند کے اعتبار سے صحیح احادیث میں بعض احادیث ایسی بھی ہیں جو کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے میں اس قدر ظاہر اور صریح ہیں کہ ان میں کسی قسم کی تاویل و توجیہ بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس قسم کی احادیث کے بارے میں علماء نے واضح نظریہ اختیار کیا ہے کہ یہ منسوب اور گڑھی ہوئی احادیث ہیں لہٰذا انہیں ترک کردینا ہی مناسب ہے اور اپنے اس نظریے کو بیان کر نے کے لئے علماء نے درج ذیل دلیلیں بھی ذکر کی ہیں:
مستحکم ادلہ اور متواتر نقلوں سے ثابت ہے کہ قرآن مجید رسول اللہ (ص) کے دور میں ہی جمع ہوچکا تھا اور تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی یہ احادیث اس حکم ِ ضروری کی مخالف ہیں ۔ ان احادیث کا اس حکم ِ ضروری کے مخالف ہونا ہی دلیل ہے کہ یہ احادیث گڑھی گئی ہیں۔
یہ احادیث قرآن کریم کی اس آیت ِ کریمہ کے مخالف ہیں 'ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﻮ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﮨﯿﮟ' اور جو روایت قرآن کریم کے مخالف ہے وہ دور پھینک دینے کے ہی قابل ہے۔
تحریف ِقرآن کو ثابت کرنے والی یہ احادیث تعداد کے اعتبار سے بہت کم ہیں جبکہ قرآن ِ مفید کو تحریف سے محفوظ ثابت کرنے والی احادیث متواتر اور مشہور ہیں اور اس کے علاوہ مقابل میں آنے والی یہ احادیث دلالت اور سند کے اعتبار سے بھی (تحریف قرآن کو ثابت کرنے والی) حدیثوں سے قوی ہیں۔
قرآن مجید میں تحریف کو ثابت کرنے والی احادیث فقط حفید ظن ہیں جبکہ قرآن مجید کی قرآنیت کو یقینی اور قطعی احادیث سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جن آیتوں کے متعلق یہ احادیث قرآن کا جز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں ان آیات کی قرآنیت ان احادیث سے ثابت نہیں ہو سکتی اور ظنی احادیث پر شیعہ علماء کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں جبکہ بعض شیعہ علماء نے یہ نظریہ دیا ہے کہ خبر ِ واحد دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اگر ہم اس کی حجیت کے قائل بھی ہوں تو خبر ِواحد صرف اسی صورت میں دلیل ہے جب مقام ِ عمل میں مفید ہو خصوصاً عقائد کے باب میں خبر ِ واحد پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عقیدہ تو علم و یقین کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔

                            (جاری ھے)

تشیع پر تحریف قرآن کی سازش

مذھب شیعه کا ایمان ھے که
تحریف قرآن ناممکن ھے:کیونکه قرآن پاک کی حفاظت خود اللله پاک کے زمه ھے.(سوره حجر ع 9)

"قسط نمبر :1.             تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ

آج ایک عام مسلمان، چاہے وہ شیعہ ہو یا سُنی، اس شک میں مبتلا نہیں ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب میں لکھی باتیں درست ہیں یا نہیں اور اس کا اللہ کے کلام ہونے کا ثبوت ہے کہ نہیں۔ 
پس، ہم سب مسلمانوں کو قرآن مجید کے ایک ایک حرف پر پورا بھروسہ ہے اور یہ قرآن کا ہی معجزہ ہے کہ چاہے اسلام کا کوئی بھی مسلک ہو اور مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں بستا ہو، قرآن کی مختلف نقلوں میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں ملتا۔ لیکن دشمنان ِدین کو یہ ایک آنکھ بھی کیوں بھاتا۔ لہٰذا اسلام دشمن قوتوں نے ایک ٹولہ چن لیا اور اس کی پرورش کی اور پھر اس کے ذریعے دوسرے مکاتب ِفکر پر قرآن کے متعلق شک و شبہات پیدا کروائے تاکہ مذہب ِاسلام کی لاریب کتاب دنیا میں ایک متنازع کتاب بن جائے۔ یہ یزیدی ٹولہ ہے جو کہ ہمیشہ سے ہی خود کو سُنی ہی کہلانا پسند کرتا آیا ہے لیکن برادران ِاہل ِسنت میں صاحب ِنظر حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی سوچ اور ان لوگوں کے افکار کی بنیاد پر ان کے اسلاف کو ناصبی کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ناصبی یزیدی ٹولہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف تنظیموں کے ذریعے اسلام کا نام بدنام کرنے میں مصروف ہے اور اس عظیم دین کو تشدد پسند اور منافرت پسند مذہب کہلوانے پر تلا ہے۔

 برِصغیر میں یہ ناصبی ٹولہ سپاہ صحابہ کے نام سے مصروف ِعمل رہا ہے۔ پس، اپنے غیر ملکی آقائوں کی ایماء پر انہوں نے شیعان ِعلی ابن ابی طالب (ع) کو اپنا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف خرافات اگلنے شروع کردیئے۔ انہیں خرافات و الزامات میں سے ایک

 تحریف ِقرآن

 کا معتقد ہونا بھی ہے۔
اگرچہ ہمیں شیعہ و سُنی کتب میں ایسی کئی روایات ملتیں ہیں جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ قرآن میں خد۱نخواستہ تحریف واقع ہوئی ہو لیکن ایسی تمام روایات کو رد کرتے ہوئے شیعہ اوربرادران ِاہلِ سنت کا اجماع ہے کہ موجودہ قرآن پاک ، مکمل، معتبر اور اصل حالت میں ہے۔ لہذا ہمارے اس مضمون کو شائع کرنے کی پھر صرف دو ہی وجوہات باقی رہ گئی تھیں۔

1. ۔ اُن اذہان کے شبہات کو دور کرنا جو کہ اس قسم کی روایات کو پڑھنے کے بعد پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

2. دوسری اور زیادہ اہم وجہ ناصبیوں کی جانب سے شیعہ عقیدہ ِ قرآن پر بڑھتے ہوئے حملے تھے اور وہ بھی صرف اس لئے کہ سُنی کتب کی صحیح روایات کی طرح شیعہ کتب میں کچھ ایسی روایات ملتی ہیں ۔

نواصب عرصہ دراز سے اس بنا پر شیعان ِعلی ابن ابی طالب (ع) پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ آج بھی سپاہ صحابہ اور سلفی / وہابی مسلک کی اکثریت جو کہ دراصل ناصبیت کے بیروکارہیں اور انتہائی درجہ کے منافرت اور تشدد پسند ہیں ، اپنے ذہن کا گند باہر اگلتے ہوئے نظر آئیں گے کہ شیعوں پر کفر کا فتویٰ جاری کیا جائے کیونکہ ان کی کتب میں ایسی روایات ملتی ہیں جن سے قرآن میں تحریف کا معلوم ہوتا ہے۔ اب چونکہ ہم خرافات نہیں.
 بلکہ علمی مباحثوں پر یقین رکھتے ہیں اس لئے انشااللہ ہم ناصبی پروپگینڈے کی گہرائی میں جائینگے اور ائمہ طاہرین (ع) اور شیعہ علماء کی جانب سے قرآن کے متعلق اصل شیعہ عقیدہ پیش کرینگے اور پھرہم ناصبیوں کی منافقت کو ان کی کتب میں موجود صحیح روایات پیش کر کے عیاں کرینگے جن سے صاف معلوم ہوتا ہو کہ جن صحابہ و علماء کے احترام کے لئے ناصبی قتل و غارت گری کے لئے تیار ہیں، انہوں نے خود ایسی روایات بیان، نقل یا ان کی تصدیق کی ہے جو کہ تحریف ِ قرآن کے عقیدہ پردلالت کرتی ہیں اور آخر میں ہم فیصلہ ناصبیوں پر چھوڑ دینگے کہ وہ دہرا معیار نہ اپناتے ہوئے خود اپنے چہیتے علماء ، صحابہ و تابعین کے ایمان کا فیصلہ کرلیں۔

ہمیشہ کی طرح ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ عرصہ دراز سے منافرت اور تشدد پسند ناصبیوں کی جانب سے شیعان ِعلی ابن ابی طالب (ع) کی کردار کشی نے ہی ہمیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے اس لئے ہمارا تمام مواد انہی نواصب کے لئے ہے۔ اگر ہماری کسی بات سے کسی کو یہ لگے کہ مسلک ِ اہلِ سنت پر تنقید کی جارہی ہے تو یہ نظریہ درست نہ ہوگا کیونکہ مسئلہ ہی یہ ہے کہ یہ ناصبی لوگ ہمیشہ سے اہل ِسنت میں ہی چھپے رہے ہیں اور بظاہر سُنی کتابوں پر ہی یقین رکھتے ہیں لہٰذا مناطرہ کے اصولوں کے مطابق ہمیں بھی سُنی کتابیں ہی استعمال کرنی پڑتی ہیں۔

                             (جاری ھے)

ہفتہ، 20 اپریل، 2019

مقام صحابه آور شیعه مسلمان ..آخری قسط نمبر :12

"مقام صحابه اور شیعه مسلمان".             تحریر : سائیں لوگ"


قسط نمبر :12

(مظلوم میمنا کی کهانی) اور شیعه مذھب کی مظلومیت جاننے کیلۓ مکمل تحریر پڑھیں)

جب ھمارۓ دشمن ھمارۓ مسلک میں کوئی خامی تلاش کرنے میں ناکام رھتے ھیں تو پھر وه ایسی جھوٹی تھمتیں باندھتے ھیں انتھائی رکیک باتیں ھم سے منسوب کرتے ھیں ایسے بهتان لگاتے ھیں که صحیح الدماغ شخص ان کا تصور نھیں کر سکتا اسی طرح جھوٹوں میں ایک جھوٹا الزام ھم پر یه بھی ھے که شیعه تمام صحابه کو کافر قرار دیتے ھیں اوریاران رسول ص کو گالی بکتے ھیں.

شیعه مذھب پر یه سراسر بهتان ھے یه محض تعصب و معاندانه فرقه واریت کا مظاھره ھے.شیعه ھرگز اصحاب رسول ص کو گالی نھیں دیتے اور نه ھی اصحاب رسول ص کے دشمن ھیں.بلکه اس عمل کو کرنے والا شیعه ھی نھیں بلکه اسلام کادشمن ھے اور جھنمی ھے.

یه ھم سابقه اقساط میں واضح کر چکے ھیں.ھاں منافیقن سے برملا دشمنی اور نفرت کرتے ھیں وه بھی قرآن اور فرمان نبی ص کے عین مطابق.

آپ نے بھیڑ یے اور بھیڑ کے بچے کی کهانی تو ضرور سنی ھو گی یه بڑی سبق آموز ھے یه کهانی آج کی اختتامی قسط میں دھرائی جارھی ھے سماعت فرمائیں.

پانی کے گھاٹ پر ایک معصوم ننھا سا میمنه پانی پی رھا تھا که اچانک بھیڑیا نمودار ھوا بھڑیۓ کے منه میں پانی بھر آیا اس نے اس بھیڑ کےبچے کو آپنا لقمه بنانا چاھا مگر کوئی جواز تلاش نه کر سکا.شیطان نے اسکی مدد کی اور اس کے زھن میں یه عزر پیدا کیا که وه اس میمنے سے کهے که تو پانی گنده کر رھا ھے  اور یهی بھانه بنا کر اس پر حمله کا جواز نکالے حالنکه پانی بھیڑۓ کی طرف سے آ رھا تھا.میمنا بے چاره خوف کے مارۓ اس الزام سے سھم گیا اور کها حضور پانی تو آپکی جانب سے میری طرف آ رھا ھے بھلا خاکسار کی کیا مجال که پانی گدله کرسکے.

جواب معقول تھا بھیڑیا لاجواب ھو گیا مگر اسکی نیت میں فتور قائم رھا اس کا مدعا تو ھر قیمت پر اس بے بس و مجبور بچے کو ھڑپ کر نا تھا لھذا جھٹ سے بولا تو نے مجھے پچھلے سال گالیاں بکی تھیں .

میمنے نے حیران ھو کر التجا کی عالی جاه اس ناچیز کی عمر ھی ساری 4,ماه ھے پچھلے سال تو میرا وجود اس ارض فانی پر موجود نه تھا تو پھر یه گستاخی کیسے.

 اب دلائل و گفت و شنید سے بھیڑیۓ کی مراد بر نه آئی تو جھٹ سے بولا بکو مت تم نھیں تو تمھاری ماں یا باپ ھو گا جنھوں نے مجھے گالیاں دیں اور جھٹ سے لپک کر اس پر حمله کر دیا اور آپنے پیٹ کی آگ کو اس کے خون سے ٹھنڈا کیا.

چنانچه شیعه بے چاروں کی مثال بھی اس مظلوم میمنے جیسی ھے که ان کے دشمن کا مدعا صرف شیعه کشی ھے جس کی بر آری کی خاطر طرح طرح کے بهانے تراشے جاتے ھیں جن کی آڑ میں صدیوں سے قلع قمع کرنے کی کوشش کی جارھی ھے.

تاریخ شیعه کے خونچگاں ابواب اس حقیقت پر شاھد ھیں مگر جسے اللله رکھے اسے کون چکھے مارنے والے سے بچانے والا یعقینا زیاده طاقتور ھے.

شیعه ایثار کی رنگین داستانیں تاریخ میں محفوظ ھیں.
شیعه کو جس قدر دبایا گیا اس سے کهیں زیاده گنا ابھرے ھیں شیعه کو اصحاب کے بھانے جتنے ظلم ڈھاۓ اور جتنا قتل کیا گیا تو کتاب مقاتل   مرتب کی جاۓ تو شرافت اور انسانیت خون کے آنسو بھا ے لگے.

مگر شیعه نے سینے پر پتھر رکھ کر تمام نا مساعد حالات کا انتھائی جرات,پامردی,شجاعت اور صبر سے مقابله کیا.ھم باب مدینه کے ماننے والے ھیں علم ھماری حقیقی میراث ھے ھم آپنے اختلاف الزام لگانے والوں کے ساتھ که شیعه اصحاب کو نھیں مانتے کے ساتھ مل بیٹھ کے عقل و دانش سے طے کرنے کیلۓ تیار ھیں.

ھم نے اصحاب باوفا اور اصحاب منافقین کے بارۓ خوب وضاحت کی امید ھے قاری ھماری کاوش پر غور وفکر کریں گے.

اور سچےاصحاب اور منافقین کے فرق کو سمجھیں گے ھم نے قرآن اور احادیث کے زریعے واضح کر دیا.
شیعه مذھب کے پیروکار اصحاب باوفا کی خاکپا کو آپنی آنکھوں کا سرمه سمجھتے ھیں
.واسلام.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...