Saieen loag

پیر، 25 فروری، 2019

نماز تراویح کی رد بزبان مولا علی ع

حضرت علی (ع) کی زبانی نماز تراویح کی رد:

"تحریر :"سائیں لوگ






                
 نمازتراویح کی حقیقت !!

کتب روایات و تواریخ سے استفادہ ہوتاھے کہ حضرت امیر المومنین (ع)کی اپنے دور حکومت میں متواتر کوشش یھی رھی کہ اس نماز کو اسی صورت پر پلٹا دیں جو رسول(ص) کے زمانے میں تھی ،لیکن مختلف وجوھات بشمول کچھ نادان مسلمانوں کی بدبختی اور جھالت، درمیان میں آڑے رھیں جن کی وجہ سے امام (ع)کی کوشش کسی نتیجہ تک نہ پهنچ سکی.

 چنانچہ حضرت امیرالمومنین (ع)نے اس بارے میں اپنی بے پایان کوشش اور مسلمانوں کی جھالت کی طرف( اپنے خطبات کے اندر)جا بجااشارہ فرمایا ھے: 

۔…”امرت الناس ان لایجمعوافی شھررمضان الا فی فریضة، لنادی بعض الناس من اھل العسکر ممن یقاتل معی: یا اھل الاسلام !وقالوا غیرت سنةعمر،نھینا ان نصلی فی شھررمضان تطوعاً،حتیٰ خفت ان یثوروافی ناحیة عسکری بوسی، لما لقیت من ھذہ الامة بعد نبیھا من الفرقةوطاعةائمةالضلال والدعات الیٰ النار!!“
1] کتاب سلیم بن قیس ،ص۱۶۳۔ 

میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ ماہ رمضان میں نماز واجب کے علاوہ دوسری نمازوں کو جماعت سے نہ پڑھو ،تو میرے لشکر میں سے ایک گروہ کی صدائے احتجاج بلند ہوئی کہ اے مسلمانو! سنت عمر کو بدلاجارھاھے!
اورھم کوماہ رمضان کی نمازوں سے روکاجارھا ھے !اور ان لوگوں نے اس قدر شور و غوغا مچایاکہ میں ڈرا کہ کھیں فتنہ برپانہ ہوجائے اور لشکر میں انقلاب نہ آجائے!
تف ھو ایسے لوگوں پر، بعد پیمبر (ص)کس قدر میں نے ان لوگوں سے سختیوں کو جھیلا ھے…۔ 

ابن ابی الحدید کتاب”الشافی“ سے نقل کرتے ھیں :

”کچھ لو گوں نے حضرت امیرالمو منین (ع) سے کو فہ میں عرض کیا کہ کسی کو بعنوان امام جماعت کوفہ میں معین کریں تا کہ وہ ماہ رمضان کے شبوں کی مستحب نمازوں کو جماعت سے پڑ ھائے ، امام (ع) نے اس عمل سے لوگوں کو منع کیا.
 اور بتایا کہ یہ عمل سنت رسول(ص) کے بر خلاف ھے،چنانچہ بظاھر ان لوگوں نے بھی اپنی در خواست کو واپس لے لیا ، لیکن بعد میں ان لوگوں نے مسجد کے اندر ایک اجتماع کیا اور اپنے میں سے ھی ایک صاحب کو منتخب کر کے امام جماعت بنا لیا.
 جب امیر المومنین (ع) کو اس کی اطلاع ھو ئی تو امام حسن علیہ السلام کو بھیجا کہ اس بدعت کو روک دیں.
 جب لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کو تازیانہ لاتے ہوئے دیکھا تو ”واعمراہ،واعمراہ“ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مسجد کے مختلف دروازوں سے بھاگ نکلے “ 
شرح نہج البلاغہ جلد ۱۲،خطبة ۲۲۳،صفحہ ۲۸۳۔

بدرالدین عینی کی ناقص توجیہہ !! 
شارح صحیح بخاری جناب بدرالدین عینی قول عمر”نعم البدعة ھٰذہ “ کے ذیل میں تحریر فرماتے ھیں : 
عمر نے اس نماز کو بدعت سے اس لئے تعبیر کیاھے کیونکہ رسول(ص) وابوبکر کے زمانے میں اس صورت میں کوئی نماز نہ تھی.
 بلکہ یہ نماز خود ان کی ایجاد کردہ تھی اور یہ بدعت چوں کہ ایک نیک عمل میں تھی لہٰذا اس بدعت کو غیر مشروع (ناجائز) شمار نھیں کریں گے!
عمدة القاری جلد ۱۱،کتاب الصوم ، باب ”فضل من قام رمضان

عرض مولف بدرالدین سے ھمار ا سوال یہ ھے کہ جب آپ نماز تراویح کو بدعت( غیر مشروع) تسلیم کرتے ھیں توپھر اس کو نیک اور بھتر سمجھنے کا کیامطلب ؟!

 اور اگر آپ کے کهنے کا مطلب یہ ھے کہ عمر کی بدعت سنت رسول (ص)اور قانون خد ا سے بھتر ھے تو پھر اس میں کوئی شک نھیں کہ ایسا عقیدہ اور خیال کفر اور ضلالت ھے!
(کیونکہ یہ حق شارع کو ہوتا ھے کہ وہ شریعت کے احکام کو بتلائے اور جعل کرے نہ کہ مکلفین کو جو مصالحا ور مفاسد سے بے خبر ہوں)

اور اگر آپ یہ کھیں کہ سنت خداو رسول(ص)، سنت عمر سے بھتر اور ارجح ھے تو پھر آپ اِس کی پیروی نہ کرکے بدعت عمریہ کی پیروی میں جو ایک مرجوح عمل ھے نماز تراویح ا ج تلک کیوں پڑھتے آ رھے ھیں ؟
___________________

شیعه نماز ملا کر کیوں پڑھتے ھیں.

کیوں شیعہ ظہرین ومغربین ملا کر پڑھتےہیں ؟

"تحریر :"سائیں لوگ



                         

بےگمان تمام مسلمان جس مذہب کےبھی وہ ہوں ،مثلاً جعفری ،حنفی ،مالکی ،شافعی اورحنبلی ،رات ودن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھتےہیں صبح ، ظہر ،عصر ،مغرب اورعشاءاورہر ایک کےوقت کےاعلان کےلئی، ایک خاص علامت ہےمیں نہیں سوچتاہوں یہ علامتیں شیعوں او رسنیوں کےدرمیان اختلاف ہونےکےباعث ہوجائیں گی۔

کتاب صحیح مسلم (١)میں عبداللہ ابن عمر نےاس عمروعاص سےنقل کیا ہےکہ پیغمبرنےفرمایا :
نماز ظہر کا وقت ،سورج زائل ہونا ہے،یعنی جب شاخص کا سایہ اپنےاندازہ کےبرابر ہو عصر اور نماز عصر کا وقت اس وقت تک ہےکہ سورج زرد ہواہو اور نماز مغرب اس وقت تک ہےکہ شفق ختم ہوا ہو اور نماز عشاءکا وقت نصف رات تک ہےاور نماز صبح کا وقت ،طلوع فجر سےلےکر طلوع آفتاب تک ہے۔

 لیکن مذہب جعفری میں علامتیں اس طرح ہے:نماز ظہر کی فضیلت کا وقت ، سورج زائل ہونےسےلےکر شاخص کےسایہ کااپنےبرابر ہونےتک ہےنماز عصر کی فضیلت کاوقت ، سورج کےزائل ہونےسےلےکر شاخص کےسایہ کا اپنےبرابر ہونےتک ہے، نماز مغرب کی فضیلت کاوقت ، سورج کےغروب ہونےسےلےکر شفق (مغرب کی سرخی ) ختم ہونےتک ہےنماز عشاءکی فضیلت کاوقت شفق ختم ہونےسےلےکر رات کےتیسرےحصہ تک ہےاورنماز صبح کی فضیلت کا وقت طلوع فجر سےلےکر مشرق کی سرخی (شفق ) ظاہر ہونےتک ہے۔

امامیہ دونمازوں کےدرمیان وقت ہونا مشترک جانتےہیں ۔(٢)اورشیعہ اثنا عشری کی سیرت یہ ہےکہ مثلاً جب وہ نماز مغرب قائم کرتےہیں ، تو نماز کےبعدوہ مخصوص دعائیں کہ جو اہلبیت کی طرف سےپہنچی ہیں، (تعقیبات ) پڑھتےہیں ۔ ہر ایک نماز کی ایک خاص تعقیب ونافلہ ہےاس کےبعد وہ نماز عشاءبجالاتےہیں ۔ 

علماءامامیہ دونمازوں کےدرمیان جمع کرنا واجب نہیں جانتےہیں اور وہ ان کےدرمیان فاصلہ ڈال سکتےہیں اوراگر اکٹھےپڑھی ہوں تو پھر بھی انہو ں نےاپنےوقت میں نما ز قائم کی ہے، کیوں کہ جس طرح ہم نےثابت کیا ، د ونمازوں کےدرمیان وقت مشترک ہےورصرف ان کی فضیلت کا وقت مختلف ہےاس بارےمیں اہلبیت کی احادیث ، دو کےجمع کرنےپر دلالت کرتی ہیں؛(٣)لیکن وہ احادیث جو اہلسنت کےمنابع سےنقل ہوئی ہیں :(٤)
ابن عباس کہتاہے:
رسو لخدا نےظہر وعصر اورمغرب وعشاءکی نماز عام حالت میں (نہ خوف ومسافر ہونےکی حالت میں ) اکھٹےقائم کی ۔ میں نےپیغمبر کےساتھ آٹھ رکعتیں (ظہر وعصر ) اورسات رکعتیں (مغرب وعشاء) کی نمازیں پڑھیں ۔ ٥)ہم ر سول خدا کےزمانےمیں دو نمازیں اکھٹےپڑھتےتھی۔
(٦)وہ روایات جو پیغمبر سےنقل ہوئی ہیں، اختیاری حالت میں ،دونمازوں کےدرمیا ن جمع کرنےکےجائز ہونےپر دلالت کرتی ہیں ) پس شیعوں اورسنیوں کو اس مطلب میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہےاسی طرح : ایک مرد نےابن عباس سےکہا : نما ز ! اس کےبعد چب رہا دوبارہ کہا : نماز! پھر بھی چپ رہا ،تیسری مرتبہ کہا: نماز! اورچب رہا توعباس نےکہا : تمہاری ماں مر گئی ہے(لا ام لک ) کیا تم ہم کو نماز سکھارہےہو؟ ہم پیغمبرکےزمانےمیں دونمازیں اکھٹےقائم کرتےتھے۔ 

٢ : معاد ابن جبل کہتےہیں :ہم جنگ تبوک کےسال میں پیغمبرکےساتھ باہر گئے،حضرت نےد ونمازوں کےدرمیان اجتماع کیا اور نماز ظہر و عصر اکھٹےپڑھی اس کےبعد اپنےخیمہ میں داخل ہوئےاور باہر نکلےاورنمازمغرب وعشاءبھی اکھٹے پڑھی ۔

٣ : ابوایوب انصاری کہتےہیں :رسول خدانےمغرب وعشاءکی نماز اکھٹےپڑھی اوردو نمازوں کوجمع کیا ۔ (٩)پس ان روایات کےبعد کہ جو پیغمبر سےنقل ہوئیں اور دو نمازوں کو آپس میں جمع کرنےکےجائز ہونےپردلالت کرتی تھیں اب کوئی شک وشبھہ اس بارےمیں کہ شیعہ امامیہ کا کام پیغمبر اوراس کےاہلبیت کی سنت کےساتھ مطابقت رکھتاہے،باقی نہیں رہتاہے۔

حوالے

(١)۔ صحیح مسلم ،ج ٢ ص ٥٠١ اور محمد صالح العثیمین مواقیت الصلواة ۔
(٢)منہاج الصالحین ، تحریر الوسیلہ اور مراجع تقلید کےدوسرےرسالہ ،باب اوقات نماز
٣)۔ شیخ حر عاملی ،وسائل الشیعہ ،ج ٤ ، ابواب وقتھا
(٤)۔ محمد صالح العثیمنین الصلواة،مواقیت الصلاة
(٥)صحیح مسلم ،ج ١ ص ٩٨٤١٩٤
(٦)۔ وہی منبع
(٧)۔وہی منبع ،ص ٣٥١
(٦)۔ سنن الدارمی ،ج ١ ،ص ٦٥٣
(٨) وہی منبع

بے نمازی شیعه کو معصومین ع کا اھم پیغام

بے نمازی شیعه کو معصومین ع کا اھم پیغام:

"تحریر :"سائیں لوگ                              

                      

زنجیر زنی میں خوشنودی آل محمد ع کو ڈھونڈنے والوں کو سیرت معصومین ع نظر کیوں نھیں آتی.

امام زین العابدین علیہ السلام کی عبادت:

حضرت امام سجاد علیہ السلام جب نماز کیلیے تیار ہونے لگتے اور وضو کرتے تو رخساروں کی رنگت تبدیل ہونے لگتی’’جب امام علیہ السلام سے اس صورتحال کی وجہ پوچھی جاتی تو فرماتے:‘‘کیا جانتے ہو کی میں کس بزرگترین ہستی کی آستان پر حاضر ہونے لگا ہوں اور کس کے سامنے جارہا ہوں.

نماز کے انتظار میں خضوع و خشوع کی شدت اور بارگاہ ربوبی میں احساس بندگی سے بدن کانپنے لگتا اور اعضاء و جوارح خوف خدا سے تھرتھرانے لگتے(۸)
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے ایک صحابی طاؤس بن زید یمانی نقل کرتا ہے:

میں نے حجر اسماعیل میں امام علیہ السلام کو مشاہدہ کیا کہ وہ پروردگار متعال کے حضور عبادت و مناجات میں مشغول تھے جب بھی نماز کیلیے کھڑے ہوتے تو چہرۂ مبارک کا رنگ کبھی زرد اور کبھی سرخ ہوجاتا،خوفِ خدا کی تلیو حضرت میں قابل دید تھی اور ایسے نماز پڑھ رہے تھے گویا آخری نماز پڑھ رہے ہوں،جب سجدے میں جاتے تھے تو بہت دیر تک سجدے میں ہی رہتے اور جب سجدے سے سرمبارک اٹھاتے تو پسینے کے قطرے بدن پر جاری ہوجاتے.

حضرت سید الشہدا علیہ السلام کی خاک شفا ہمیشہ آپ کے پاس رہتی تھی اور فقط خاک شفا پر ہی سجدے کرتے تھے۔

سجدوں کی کثرت اور ہر سجدے کے طولانی ہونے کی وجہ سے حضرت علی ابن الحسین علیہما السلام کو سید الساجدین کا لقب دیا گیا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:میرے والد بزرگوار جس نعمت کا بھی ذکر کرتے تو فوراً خداوند کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاتے(یعنی فوراً نعمت بخش ہستی کے سجدے میں گرجاتے)اسی طرح جب قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہوتے اور آیات سجدہ پر پہنچتے ،خطرے کے وقت،ناگوار حادثے کے موقع پر اور اسی طرح واجب نمازیں ادا کرلینے کے بعد یا جب بھی کوئی خدمت انجام دیتے ،دو مومن بھائیوں کے درمیان جب اصلاح کرواتے؛سر سجدہ ٔمعبود میں رکھ دیتے اور خدا کا شکریہ ادا کرتے۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا ایک خادم حضرت کو یوں یاد کرتا ہے: ایک دن میرے مولا صحرا کی طرف تشریف لے گئے،میں بھی حضرت کے ساتھ ہولیا،صحرا کے ایک گوشے میں عبادت میں مشغول ہوگئے،سجدہ کرتے ہوئے سخت پتھروں پر پیشانی مبارک رکھتے تھے اور گریہ و تضرع کے ساتھ خداوندمتعال کو یاد کرتے ،میں نے کوشش کی کہ حضرت جس ذکر میں مشغول ہیں وہ سن سکوں،اس دن میں نے گنتی کی کہ امام عالمیمقام علیہ السلام نے سجدے میں ایک ہزار مرتبہ یہ ذکر پڑھا:
‘‘لا الہ الا اللہ حقاً حقا،لا الہ الا اللہ تعبداً و رقا،لا الہ الا اللہ ایماناً و تصدیقاً’’
جب امام علیہ السلام نے سرمبارک سجدے سے اٹھایا تو حضرت کا چہرہ مبارک اور محاسن (ریش)آنسوؤں میں شرابور تھے۔

طاؤس یمانی نے روایت کی ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک رات خانہ کعبہ کے حجرہ میں تشریف لے گئے اور بہت نمازیں پڑھیں،پھر سجدہ کیا،رخسار مبارک خاک پر رکھے اور ہتھیلیاں آسمان کی طرف بلند کیں،میں نے سنا کہ آہستہ سے اس ذکر میں مشغول تھے:

عبیدک بفنائک،فقیرک بفنائک،سائلک بفنائک مسکینک بفنائک
یعنی تیرا چھوٹا سابندہ تیرے حضور حاضر ہے،تیرا مسکین تیری خدمت میں حاضر ہے،تیرا فقیر تیری آستان پر حاضر ہے،تیرا گدا تیری چوکھٹ پر حاضر ہے’’
طاؤس کا کہنا ہے کہ :میں نے یہ دعا یاد کرلی،پھر مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی،میں اسی دعا سے خداوندمتعال کو پکارتا تھا اور وہ میری ہر مشکل حل فرمادیتا تھا۔

بہت زیادہ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام ہردن رات میں ایک ہزار رکعت نماز(واجب اور نوافل واجب کے علاوہ)ادا کرتے تھے(۱۲)
حدیث لوح میں جب چوتھے امام علیہ السلام کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں بھی اسی لقب سے ملقب ہیں یعنی‘‘زین العابدین.

عبادت گزاروں کی زینت امام علیہ السلام لسان رسالت میں بھی اسی لقب سے یاد کیے گئے،جابر ابن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں:میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہواتھا جبکہ امام حسین ابن علی (علیہما السلام) حضور کی آغوش میں تھے،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسے سے پیار و نوازش فرمارہے تھے،پس میری طرف دیکھ کر فرمایا:
اے جابر!میرے بیٹے حسین کا مستقبل میں ایک فرزند ہوگا جس کا نام علی ہے،جب قیامت کا دن ہوگا تو حق تعاليٰ کی طرف سے ایک منادی عرش سے دے گا:سید العابدین تشریف لے آئیں،پس اس وقت علی ابن الحسین محشر میں داخل ہوں گے.
معلوم ہوگیا کہ یہ مقدس وجود اس طرح سے عبودیت و بندگی میں محو تھا کہ دوست و دشمن انھیں زین العابدین،سجاد اور سید العابدین جیسے القاب سے یاد کرتے تھے۔

سید العابدین سے مراد عبادت گزاروں کے سید و سردار ہیں۔اس بات اور ظریف نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ ان مقدس ہستیوں کی حقیقت ایک نور ہے وہی ایک نور،دوا نوار میں اور پھر ہوتے ہوتے چودہ انوار میں تقسیم ہوگیا سب کی اصل ایک ہے اور وہ ہیں حبیب خدا حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؛جن کی ذات میں عبودیت اور ہر صفت کے خزانے موجود ہیں یہ تمام اوصاف و فضائل وراثت کی جہت سے آئمہ ہديٰ علیہم السلام میں جاری و ساری ہیں۔

ہر امام علیہ السلام کے اندر ہر صفت و خوبی اپنے اوج و کمال پر موجود ہے خلق ِخالق کی حاجت روائی کی صفت ہو یا انعام واکرام اور اہداء و امتنان یا بندگی کی معراج ؛ جملہ صفات حسنہ،ان ہستیوں میں موجود ہیں سید العابدین کی تعبیر اور لقب کا مطلب یہ ہے کہ یہ معصوم ہستی باقی تمام عبادت گزار مخلوقات سے برتر،اشرف اور افضل ہیں یہاں قطعاً مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس تعبیر سے خود معصومین علیہم السلام کے اندر بعض کی بعض پر سیادت بتلائی جارہی ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ تمام افراد بشری اس فضیلت اور دیگر فضائل میں بہت پیچھے ہیں اور ان ہستیوں کی آپس میں درجات کی تفکیک بالکل مراد نہیں اور نہ ہی اس درجے پر کسی بشر کو قضاوت کا یارا ہے۔یہ تمام ہستیاں اخلاص اور للٰھیت میں اعليٰ مقامات رکھتی ہیں اس کے باوجود خداوندمتعال کے محضر میں اپنے آپ کو کمترین شمار کرتی ہیں،یہ امر اُس خالق حقیقی کی مطلق عظمتوں کے پیش نظر ہے۔اُس عظمت مطلق میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ پاؤں میں لگا ہوا تیر نماز پڑھنے کی حالت میں پاؤں سے باہر کھینچ لیا جاتا ہےپھر بھی نہ تیر پر توجہ ہے اور نہ تیر نکالے جانے پر اور یہاں بھی علی کے علی فرزند(علیہما السلام)کی معرفت اور عبادت کی ایسی کیفیت نظر آتی ہے کہ نماز ادا کررہے ہیں گھر میں آگ لگ جاتی ہے شور و غل اٹھتا ہے لیکن نماز جیسے پڑھ رہے تھے ،پڑھتے رہے۔یہاں تک کہ آگ کوبجھا دیا گیا.

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے اہلبیت میں اُن کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت رکھنے والی شخصیت حضرت زین العابدین علیہ السلام ہیں جو عبادت کے باب میں اس قدر بڑھے کہ ان کے فرزند بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی توجہات کا مرکز بن گئے ،امام محمد باقر علیہ السلام نے عبادت کا اثر حضرت کے چہرۂ مبارک پر آشکار دیکھا،والد بزرگوار کے حال پر رونا شروع ہوگئے۔حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کے رونے کا سبب بھانپ لیا پس فرمایا:بیٹا وہ صحیفہ اٹھا کر یہاں لے آئیں جس میں حضرت علی علیہ السلام کی عبادات کی تفصیل ثبت و ضبط ہے،جب امام باقر علیہ السلام وہ صحیفہ لائے .

حضرت اُس کے مطالعہ میں مشغول ہوگئے،تھوڑا سا مطالعہ فرمانے کے بعد ٹھہر گئے،سینے کی گہرائی سے ایک آہ بھری اور فرمانے لگے:حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام جیسی اتنی عبادت کرنے والا کون ہوسکتا ہے.

حضرت امام سجاد علیہ السلام کی اس قدر عاشقانہ عبادات دیکھ کر جب اُن سے کہا جاتا تھا کہ آپ اپنے جد بزرگوار علی علیہ السلام سے کہیں زیادہ عبادت گذار ہیں تو حضرت اظہار فرماتے تھے:
‘‘مَہ انّی نظرت فی عمل علی صلوات اللہ علیہ یوما واحداً فما استطعت أن اعدلہ من الحول الی الحول’’
یعنی میں نے حضرت علی صلوات اللہ علیہ کے ایک دن کے اعمال میں نظر کی تو مجھ پر واضح ہوگیا کہ میں سال بھر میں بھی حضرت کے ایک روز کے اعمال کی برابری نہیں کرسکتا.

واضح ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادات کا وہ عالم تھا کہ خود خداوند متعال نے قرآن کریم میں فرمایا کہ اپنے آپ کو اس قدر تھکا نہیں دیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:امت اسلامی میں کوئی شخص بھی سوائے حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی عبادات انجام نہیں دے سکا.

حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نہ فقط جانشین و وارث بلا فصل ہیں بلکہ نفس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ بھی ہیں لہٰذا اس مطلب کو سمجھا جاسکتا ہے اور حضرت امام زین العابدین و حضرت امیرالمؤمنین علیہما السلام کی عبادات کا وہی عالم ہے کہ جیسے معروف حدیث نبوی میں موجود ہے کہ دونوں شہزادے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور اس کے فوراً بعد ذکر فرمایا کہ وابوہما افضلہما کہ ان دونوں شہزادوں کے والد بزرگوار(علی ابن ابیطالب علیہ السلام)ان دونوں سے افضل ہیں۔

یہاں یہ بھی ایسا ہی ہے کہ عبادت اور عبادت گزاروں کی زینت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہیں جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ لوح والی حدیث میں بھی حضرت کو اسی لقب سے ذکر فرمایا گیا لیکن ظاہر ہے کہ حضرت امیرعلیہ السلام بہرحال ہر باب اور ہر میدان میں امیر ہی ہیں اور حقیقت امر تو وہی ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا کہ ان سب معصومین علیہم السلام کی حقیقت ایک ہی ہے۔حقیقت واحدہ رکھنے والی یہ مقدس و مقرب ہستیاں ایک نور خدا سے ہیں جب حقیقت ایک ہے تو عبادات بھی ایک ہیں یہ علیحدہ بات کہ کثرات میں مختلف صفات خداوند متعال کی رضا وارادے کے مطابق کس طرح سے علیحدہ علیحدہ ظہور پذیر ہوئی ہیں۔حقیقت کی گہرائی میں جانے کی توفیق رفیق ہوتو کہہ اٹھیں گے کہ خداوندمتعال کی بھیجی ہوئی نمونہ ہستیاں یہی ہیں،اگر ان سب کا اوج شہامت و شجاعت ملاحظہ کرنا ہو تو شیر خدا کو دیکھ لو،اگر معراج شہادت مشاہدہ کرنا چاہو تو سید الشہدا کو دیکھ لو،اگر عروج و زین عبادت کا نظارہ کرنا ہو تو زین العابدین ،سید الساجدین حضرت امام علی ابن الحسین ابن علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی زیارت کرلو۔

کیونکہ ان میں سے ایک کی شجاعت وہی سب کی شجاعت ہے،ایک کی شہادت سب کی شہادت ہے،ایک کی عبادت سب کی عبادت ہے۔۔۔۔اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ اقمار منیرہ ایک ہی شمس طالعہ کی نورانیت سے بھر پور ہیں،سب فضائل کا خلاصہ ہر ایک میں ہے،اس وقت بھی سب فضائل و شمائل کے آئینہ دارحجت کردگار مہدی نامدار صلوات اللہ علیہ کی صورت میں موجود ہے کیونکہ زمین خدا حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی،بقیۃ اللہ کا وجود،ان سب ہستیوں کا نمائندہ وجود ہے جیسا کہ ان سب ہستیوں کی نمائندگی ہر دور میں بدرجۂ اتم ایک ظہور میں رہی ہے۔
یہ مظاہر ہیں اوصافِ حق کے سبھی ،ساری مخلوق ان کی ثناء خوان ہے
ان کے اوصاف کی کنہ تک جاسکے اتنی فکر بشر کی رسائی نہیں.

محبت اھلبیت ع واجب ھے.

.محبت اھلبیت ع واجب ھے:

"تحریر :" سائیں لوگ
                 

ھر نبی علیه اسلام نے آپنی آپنی قوم کے سامنے فریضه تبلیخ سر انجام دیا.

نوح ع نے فرمایا :
یقوم لا اسلکم علیه مالا ان اجری الا علی الله.

ھود ع نے فرمایا :
لا اسلکم علیه اجرا ان اجری الا علی الذی فطرنی.
مطلب یه تھا که ھم تم سے مانگنے والے نھیں ھمارا رب ھمیں دینے کیلۓ کافی ھے.
 اس نے ھمیں دینے والا بنایا ھے نه که مانگنے والا حضور علیه اسلام نے بھی امت کے سامنے ایسی بات فرمائی .
مگر الفاظ مختلف ھیں فرمایا:

لا اسلکم علیه اجرا مودة فی القربی .
ترجمه :
اگر کچھ کرنا ھی چاھتے ھو تو میرۓ قریبوں سے مودت کرو.

علماء نے محبت و مودت میں فرق کیا ھے محبت کے بغیر تو پھر بھی زندگی گزاری جا سکتی ھے جبکه مودت نه ھو تو زندگی ختم ھو جاتی ھے .
مثلا مچھلی کو پانی سے محبت نھیں بلکه مودت ھے که پانی سے نکالو تو مر جاۓ گی تو معنی یه ھوا که میرۓ قربی کو آپنے لیۓ سرمایه حیات سمجھو ان کے دامن سے وابستگی  کے بغیر آپنے آپ کو مرده سمجھو .
اگر مچھلی پانی کے بغیر نھیں ره سکتی تو مسلمان بھی محبت اھل بیت ع کے بغیر نھیں ره سکتا.

کیونکه ان سے محبت رسول الله سے محبت ھے اور رسول ص سے محبت الله کی محبت ھے.

جو انسان اھل بیت ع سے محبت کرۓ گا الله اسے آپنا محبوب بنا لے گا.خصوصا امام حسین ع سے حضور ص نے فرمایا:

 (من احب حسینا فقد احبنی ومن احبنی فقد احب الله).

باقی سب کچھ ھو (نماز,روزه,حج,زکواة,داڑھی,روزه) مگر حب آل محمد ع نه ھو سب فضول ھے الله پاک فرماتے ھیں:

(حرمت الجنة علی من ظلم اھل بیتی)
 میں نے اھل بیت ع پر ظلم کرنے والوں پر جنت حرام کردی ھے.

نماز جیسی عبادت اگر قرآن کی تلاوت کے بغیر مکمل نھیں تو اھلبیت ع کے درود و سلام کے بغیر بھی مکمل نھیں.

جنھوں نے سر نیزۓ پر چڑھا کر قرآن کی عظمت کو بلند کیا تو الله پاک نے بھی نماز میں صلواة(درود )
پڑھنا لازم قرار دیا.

درود میں سب اھلبیت ع آ گۓ نماز کامل ٹھری.

بے حب اھلبیت ع عبادت حرام ھے.

زاھد تیری نماز کو میرا سلام ھے.

غالی شیعه کا ھتھیار تفسیر بالراۓ

غالیوں کا سب سے بڑا ھتیار تفسیر بالراۓ.

" تحریر :"سائیں لوگ.                      


پر معصومین ع کا فرمان ھے آیات و روایات محکم کے ھوتے ھوۓ متشابه آیات و روایات کی پیروی گمراھی ھے.
(عیون اخبار الرضا)

تفسیر بالراۓ سے مراد یه ھے که کوئی شخص قرآن کریم کی مجمل اور متشابه آیات جن کی تاویل خدا پاک,رسول الله, اور اھلبیت طاھرین ھی بھتر جانتے ھیں.

ان آیات کی آپنے ناقص عقل کے مطابق تشریح کرۓ اور اسے آیت قرآن کی حقیقی معنی قرار دے.

یه عمل حرام ھے گناه کبیره میں سے ھے.

الله تعالی نے فرمایا:

مقصد آیت یه ھے که جن لوگوں کے دلوں میں کجی ھے اور حق سے انحراف اور باطل کی طرف میلان پایا جاتا ھے اور وه آیات کی تاویل اور ان کے حقیقی معانی کو خدا اور راسخون فی العلم " میں سر فھرست ھیں.
سوره آل عمران آیت 7.

آئمه ھدی ع سے تفسیر بالراۓ کی شدید مذمت منقول ھے اور اس عمل کی بیسوں روایات موجود ھیں ھم یھاں بطور نمونه بدعت اور تفسیر بالراۓ کی مذمت کیلۓ وارد ھونے والی چند احادیث نقل کرتے ھیں.
رسول الله ص کی حدیث ھے
وه مجھ پر ایمان نھیں لایا جس نے آپنی راۓ پر میرۓ قران کی تفسیر کی.

اور میری معرفت حاصل نھیں کی اور قیاس کو داخل کیا.
بحار الانوار جلد2ص297.

رسول الله نے قیاس اور آپنی ناقص راۓ کو دین میں داحل کرنے سے منع کیا ھے.

کیونکه اس سے حلال کو حرام اور حرام کو حلا ل کیا جاتا ھے.

وه خود بھی گمراه ھوۓ اور دوسروں کو بھی گمراه کیا.
بحارالانوار جلد 2ص308.

امام محمد باقر ع نے فرمایا ترجمه:ھر بدعت گمراهی ھے اور ھر گمراھی کا راسته دوزخ کی طرف جاتا ھے.
کافی جلد1ص54,
بحار الانوار جلد 2,ص,303/308.

اھل غلو کی عمارت ھے ھی متشابه آیات و روایات پر جنھیں وه آپنی مرضی سے تشریح کرکے لوگوں کے عقائد و ایمان میں بگاڑ پیدا کرتے ھیں.
اس عمل سے وه اسلام و شیعت کو بدنام کر رھے ھیں اور ایسا فتنه جنم لے چکا ھے که فریقین ایک دوسرۓ کی جان کے بھی دشمن بن چکے ھیں.

ھر فرقه و گروه آپنے مطلب کے معنی لے کر ایک دوسرۓ کو کافر اور واجب القتل قرار دے رھا ھے.

الله پاک ھمیں ایسے بد عمل سے محفوظ رکھے.آمین.

اتوار، 24 فروری، 2019

اسلام میں پیری مریدی کا کوئی تصور نھیں.


اسلام میں پیری مریدی کا کوئی تصور نھیں:

  1. "تحریر :"سائیں لوگ

                                        

  1. پرسوں کی پوسٹ جو پیروں بزرگوں کے عرس مبارک کے متعلق تھی کچھ احباب آخری کمنٹس تک اڑۓ رھے که ولی کون ھے زنده ھے یا مرده ھے وغیره وغیره پهلے تو میں یه واضح کردوں که تصوف کے قائل پیروں یا ولیوں کو میں ولی مانتا ھی نھیں.
  2. اب کوئی کھے که مجدد الف ثانی مرشد کامل اور ھمارۓ پیرومرشد و رھبر ھیں میں اس کو نھیں مانتا.بر حال اتنے حقائق پیش کرنے سے گریزاں ھوں که کھیں غلو کی طرح ایک نیا محاظ نه کھل جاۓ.

  3.  اس گروه نے آل محمد ع کی علمی و تقوی کی بدولت صلاحیت سے متاثر ھو کر  آئمه معصومین ع کی مقابل آنے کی ناکام کوشش کی کچھ آپنے کو نبی بنا بیٹھے کچھ خدائی دعوی کر بیٹھے کچھ نے  امام مھدی ع ھونے کا دعوی کیا اس پر ھم آنے والے دنوں میں تصوف کے موضوع پر متعلقه پوسٹ میں وضاحت دیں گے .

  4. جب پیروں کا زکر چل ھی پڑا ھے تو مناسب معلوم ھوتا ھے که یھاں اس موضوع پر قدرے تبصره کر دیا جاۓ.

  5.  تو واضح ھو کے جب اسلام میں بالخصوص مذھب اھل بیت ع میں جو اسلام کی حقیقی تعبیر و تفسیر کا دوسرا نام ھے اس نام نھاد پیری مریدی کا کوئی جواز بلکه کوئی تصور ھی نھیں ھے تو اس کے لوازمات کا جواز کهاں سے پیدا ھو گا.
  6. یه چیز قرون وسطی کے صوفیوں کی من گھڑت اصطلاح ھے جو کهتے ھیں ھم 
  7. بے پیر مرو تو در خرابات

  8.                         ھر چند سکندر زمانی.

  9. اور ان کے ھاں اس پیر کے کئی مراتب ھیں,شیخ,پیر,دلیل,مرشد,قطب,اور قطب الاقطاب. 
  10.  (حوالا کتاب البدعة والتحرف).

  11. یه تصوف یا عرفان اسلام کی سر زمین میں ایک اجنبی پودا ھے اورھندو ,یهودی ,اور عیسائی تعلیمات کا ملغوبه ھے.

  12. اسی بنا پر حضرت امام جعفر صادق علیه اسلام نے فرمایا الصوفیه کلھم من اعدائینا و طریقتھم  مبائنة لطریقتنا
  13. (حدیقه سلطانیه).
  14. سب صوفی ھمارۓ دشمن ھیں اور ان کا طریقه ھمارۓ طریقے کے خلاف ھے.
  15. حقیقت الامر یه ھے که تصوف کی ایجاد  و اختراع آئمه اھلبیت ع کے خلاف بنی امیه کی ایک گھری سازش کا نتیجه ھے تاکه مادی اقتدار  پر اس بھانے شب خون مارا جاۓ لھذا اس کے نظریات فاسد ه کا اسلام کے  ساتھ بالعموم اور مذھب شیعه  خیر البریه کے ساتھ بالخصوص ھرگز کوئی ربط و تعلق نھیں ھے.

  16.  یه درست ھےکه ھمارۓ مذھب آل نبی ص اور اولاد علی ع کے اکرام و احترام اور ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کی بھت تاکید اور فضیلت وارد ھوئی ھے مگر اس چیز کا مروجه پیری مریدی کے ساتھ اور اس کے لوازمات کے ساتھ کوئی تعلق نھیں ھے .

  17. لھذا جھاں اھل ایمان  کو اس سے دامن بچانا چاھیۓ وھاں سادات کو بھی آپنے ابا اجداد کے طریقه پر چلتے ھوۓ اس دھندے سے به کلی اجتناب کرنا چاھیۓ اور تعویز گنڈه اور جنات نکالنے کے دھنده کو زریعه معاش نھیں بنانا چاھیۓ .
  18. میڈیا پر آپ آۓ روز ان جھوٹوں اور بدعمل پیروں کے حالات سنتے اور دیکھتے رھتے ھیں سندھ کے علاقه کی آپ بھائیوں نے ایک ننگے پیر بابا  کی ویڈیو دیکھی ھوگی که بلکل ننگا پیر عورتوں کے جھرمٹ میں آپنی مستی میں مست ھے اور عورتیں بابا بابا کرکے اس سے دعاء لینے میں ایک دوسرۓ سے سبقت لینا چاھتی ھیں.باقی جب تک کوئی مرید ان کی مٹھ(ھاتھ) میں خفیه طریقے سے ھدیه نه دے تو یه مغرور پیر اس کی طرف توجه نھیں کرتے ھاں جب ان کی مٹھ میں کچھ دو گے پھر یه دعاء دینی شروع کر دیں گے.
  19. اکثر پیروں کو میں نے گندی گالیاں دیتے سنا ھے بد اخلاقی مریدوں کے ساتھ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ھوتی ھے.معترض رابطه کرۓ پیر اور علاقه کا نام بتانے کیلۓ تیار ھوں.

  20. اور اگر کوئی درد دین رکھنے والا عالم دین ان کو غلط کاروبار سے روکے تو وه اسے آپنا دشمن اور بد خواه نه سمجھیں بلکه اسے آپنا خیر خواه سمجھیں .

  21. مسلمانوں کا ایک مغالطه:

  22. یه خیال کرنا که جس طرح خدا تک رسائی حاصل کرنے کیلۓ نبی و امام وسیله ھوتے ھیں اسی طرح طرح نبی و امام تک پهنچنے کیلۓ پیر کامل کی ضرورت ھے یه سرا سر ایک شیطانی قیاس ھے .کیونکه خدا تک پهنچنے رسائی حاصل کرنےکیلۓ تو عقلا و شرعا وسیله کا حکم ھے (و ابتغوا الیه الوسیله) نبی امام تک رسائی حاصل کرنے لیۓ وسیله ماننے کا کوئی حکم نھیں ھےباور اگر غیبت کبری میں فی الجمله امام کے احکام حاصل کرنے کیلۓ نه معرف یا ملاقات کیلۓ کسی واسطه کی ضرورت ھے تو وه علماء اعلام اور فقھاۓعظام ھیں نه کوئی اور کمالا بحقی اور یه بات کسی بھی وضاحت کی محتاج نھیں ھے که مذھب شیعه میں سواۓ معصوم (نبی و امام) کے اور کسی ھستی کی بیعت جائز نھیں ھے ان حقائق کی روشنی میں یه بات روز روشن کی طرح واضح ھو جاتی ھے که  مروجه پیری مریدی کی کوئی بھی چول سیدھی نھیں ھے.
  23. ھاں یه صرف ساده لوح مریدوں کی جیبوں پر ڈاکه ڈالنے اور ان سے پیسے بٹورنے اور اسی طرح آپنا دین برباد کرکے دنیا آباد کرنے کا ایک دھنده ھے جسکی شرعی و مذھبی کوئی حیثیت و حقیقت نھیں .

  24. کل من فی الوجود یطلب صیدا ...انما یختلاف فی الشیکات.
  25. ترجمه: یعنی ھر شخص کسی نه کسی شکار کی تلاش میں ھے یه الگ بات ھے که جال جدا جدا ھیں.
  26. الغرض مسلم معاشرے کی بد ترین خرابیوں میں سے ایک یه پیری مریدی کا رواج بھی ھے اور جو کئی اعتبار سے نا صرف معاشره کیلۓ خطره ھے بلکه تباه کن ھے اور مسلمانوں کیلۓ دور زوال کی یاد گار ھے.
  27. بدقسمتی سے یه بیماری پاکستان کے تمام طبقوں میں تمام علاقوں میں اور تمام فرق اور مسالک میں پائی جاتی ھے .بالخصوص جھاں جھالت زیاده ھو وھاں اس کاروبار کا بھت زور ھوتا ھے جس سے لوگوں کابدین اخلاق اور کردار تباه ھو رھا ھے.
  28. یه حقیقت کسی وضاحت کی محتاج نھیں ھے که اسلام میں کسی ایسے طبقے کی گنجائش نھیں ھے جو برھمنوں  اور پادریوں کی طرح مذھب کا اجاره دار بن جاۓ اور جسکی زاتی خوشنودی  یا ناراضگی  ھر کسی کے جنتی یا دوزخی ھونے اکبانحصار ھو.

  29. اس قسم کے طبقے  غیر اسلامی اثرات کے پیداوار ھیں ھاں اگر کوئی شخص کسی عالم و فاضل متقی  اور پرھیزگار  اور اعلی اخلاق و کردار کے حامل روحانی پیشوا سے کسب فیض کرۓ تو اس میں کوئی مضائقه نھیں ھے بلکه یه امر فرد و معاشره دونوں کے حق میں مفید ھے لیکن مذھب سے بلکل ناواقف جاھل ,نفس پرست,اور بدکردار  و عیار پیروں اور ملاؤں سے اندھی عقیدت افراد اور معاشره کیلۓ تباه کن ھوتی ھے .
  30. یه عیار و مکار لوگوں کی جھالت اور اندھی عقیدت اور ان کے مذھبی جذبات سے ناجائز فائده اٹھا کر آپنے زاتی اغراض پورۓ کرتے ھیں اور بے سواد مریدوں اور ساده لوح  معتقدوں کو گمراه کرکے ان کی دنیا و آخرت تباه کرتے ھیں.

  31. خلاصه یه که اس پیری مریدی کی غلط رسم نے روحانی  نجات کو ایک قسم کا تجارتی کاروبا بنادیا ھے .اور یه لوگ مذھب و آخروی نجات کے نام پر مریدوں کو دونوں ھاتھوں سے لوٹ رھے ھیں.

  32. یھاں تک که مریدوں کی عزتیں بھی لوٹ رھے ھیں ان چیزوں کے میرۓ پاس مکمل ثبوت ھیں ویڈیوز اور واقعات کے .اور جب تک لوگ جاھل اور مذھبی حقائق سے ناواقف رھیں گے اس وقت تک ان پیران تسمه پا کا یه دھنده چلتا رھے گا اس لیۓ دینی مدارس کے زریعے علم دین کو عام کرنے کی سخت ضرورت ھے تاکه پیری مریدی اور اس رواج کی پیدا کرده گمراھیوں اور نقصانات سے معاشره کو پاک اور آئنده محفوظ رکھا جاۓ.

  33. ھماری درخواست برادران سے آپنے تئیں کوشش کریں مسلمان بھائیوں کو اگاھی دیں که یه جاھل پیر جنھیں خود اسلام سے مکمل اگاھی نھیں ھوتی جو نسل در نسل خلیفه و پیر بن کر عام مسلمانوں کی راھنمائی کرنے کیلۓ ڈیره جماۓ ھوتےھیں .

  34. خود مکمل عبور نھیں رکھتے شریعت محمدی میں بلکه یه بھت سے غیر شرعی افعال میں ملوث پاۓ گۓ ھیں اگر میں آپنا تجربه لکھنا شروع کردوں تو تحریر مذید طول پکڑ جاۓ گی جو پهلے ھی بھت لمبی ھو گئی ھے ھاں جھاں صرورت ھو گی کمنٹس میں مذید روشنی اور وضاحت دے دوں گا.
  35. شکریه.

غالیوں سے مذھب حقه کو لاحق خطرات.

⤃مکتب شیعہ، دوسرے مکاتب فکر کے مانند پوری تاریخ میں افراط و تفریط کے حوادث سے دوچار رہا ہے- ان حوادث نے شیعوں اور ان کے ائمہ اطہار{ع} کے لئے غلات، مقصرہ اور نواصب جیسے ناموں سے گونا گوں مشکلات پیدا کئے ہیں-انھوں نے گمراہ عناصر کو مسترد کرنے اور ایسے حوادث کو ایجاد کرنے والوں کے منصوبوں کو طشت از بام کرنے اور مسلمانوں خاص کر شیعوں کے درمیان اصلی عقاید کو مستحکم کرنے کے لئے اپنے مقام و منزلت کو بیان کرکے اپنے پیرووں کو اعتدال اور میانہ روی کی فہمائش کی ہے- شیعہ علماء نے بھی ائمہ اطہار{ع} کی کرامتوں اور خصوصیات کو بیان کرکے غلات کی تکفیر کی ہے اور ان کے غلو پر مبنی نظریات کو مسترد کیا ہے-

دینی پیشواوں کے بارے میں "غلو" کا مسئلہ، ادیان الہی میں گمراہی اور انحرافات کا سب سے اہم سر چشمہ رہا ہے- غلو میں ہمیشہ ایک بڑا عیب اور نقص ھوتا ہے اور وہ دین کی بنیاد یعنی خداپرستی اور توحید کو تباہ و برباد کرنا ہے، اسی وجہ سے اسلام نے غلات کے بارے میں شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے اور" عقائد" اور " فقہ" کی کتابوں میں غلو کا بدترین کفر کے عنوان سے تعارف کرایا گیا ہے-
 مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج 25، ص265، نرم افزار جامع الاحادیث.

دین میں غلو کرنا:

 دین سے انکار کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ دین میں غلو کا نقصان دین کے انکاراور نقض سے کم تر نہیں ہے- بعض اوقات، دین میں غلو بہت سے لوگوں کے متنفر ھوکر دین سے منہ موڑ نے کا سبب بن جاتا ہے، کیونکہ ان کی پاک فطرت غلو کی آلودگیوں اور ملاوٹوں کو قبول نہیں کرتی ہے- پھر ان آلود گیوں اور ملاوٹوں کا انکار کرتے ھوئے خود دین سے بھی انکار کردیتے ہیں-

مثال کے طور پر، عیسائیوں کا حضرت عیسی{ع} کے بارے میں غلو کرنا مسیحیت سے دانشوروں اور متمدن افراد کے دور ھونے اور رسالت کے انکار کا سبب بنا، کیونکہ وہ اپنی پاک فطرت سے سمجھ چکے تھے کہ انسان کی الوہیت کا ایمان ایک پست ایمان ہے- اس لحاظ سے انہوں نے اس ایمان کی پستی پر کفر کو ترجیح دی اور خود کو یہ تکلیف نہیں دی کہ خرافات کو دین کی حقیقت سے جدا کرتے-

مختلف ادیان کے بارے میں تحقیق سے ہمیں ان ادیان میں بعض غالیانہ نظریات کے بارے میں معلوم ھوتا ہے- قرآن مجید اس موضوع کے بعض مطالب کے بارے میں اشارہ کرتا ہے اور انسانوں کو غلو سے پرہیز کرنے کی فہمائش کرتا ہے-
نساء، 171.

دین اسلام بھی، دوسرے ادیان کے مانند اس خطر ناک آفت سے دوچار ھوا ہے- پیغمبر اسلام {ص} کی رحلت کے بعد پہلی غلو آمیز بات آنحضرت{ص} کے بارے میں کی گئی- اس کے بعد مختلف ادوار میں مسلمانوں میں ایسے گروہ پیدا ھوئے، جو غالیانہ نظریات کی ترویج کرتے تھے- ان گروھوں کی بڑی کوشش شخصیتوں اور سیاسی و دینی رہبروں کو انسان سے بالاتر امتیاز بخشنا تھی- ان کوششوں کے مختلف محرکات اور اسباب تھے۔ ہم ذیل میں ان کی طرف اشارہ کریں گے:

۱- امویوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے اور اہل بیت{ع} کی نسبت ان کی شدید دشمنی اور کینہ و عناد کی وجہ سے اور ان کی حمایت سے سیاسی کشمکش اور دینی مناقشات کا ایک سلسلہ شروع ھوا- ایسے واقعات پیدا کرنے والے ایک جانب، اپنے قائدین کے بارے میں غالیانہ تفکرات کی ترویج کرتے تھے.
قزوینی،  زکریا بن محمد، احسن التقاسیم، ج 2، ص 596 ،امیر کبیر، تهران، طبع اول،  1373 ھ ش.

 اور دوسری جانب، شیعوں کے اماموں، خاص کر حضرت علی{ع} کے بارے میں اظہار عداوت حتی کہ لعنت بھیجنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے- یہ انتہا پسند حالات ، جو اہل سنت مورخین کی تعبیر میں نواصب کے نام سے مشہور ھوئے،
زرکلی، خیر الدین الاعلام، ج 3، ص 180،  بیروت دار العلم، چاپ هشتم، 1989 م؛ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البداية و النهاية، ج �8، ص 202، بیروت، دار الفکر، 1404 ھ.

شیعوں میں رد عمل کا سبب بنے- اس دوران اسی ردعمل کے نتیجہ میں اہل بیت {ع} کے بعض پیرووں نے افراط کا راستہ اختیار کیا اور اماموں کے دفاع میں کچھ ایسی باتیں کرنے لگے، جو غیر اسلامی تفکر پر مبنی تھیں، اور اس طرح اماموں کو فوق بشر مقام و منزلت دینے لگے-
۲- ائمہ اطہار{ع} کے اطراف میں موجود بعض افراد کی جاہ طلبی اس امر کا سبب بنی کہ افراط سے دوچار یہ افراد اپنے لئے اجتماعی مقام و منزلت پیدا کرنے کے لئے اماموں{ع} کے بارے میں غلو کا سہارا لیں.

 یعنی امام کے لئے خدائی کے قائل ھو جائیں تاکہ خود اس کا نمایندہ اور مبعوث شدہ بن جائیں.



غلو کیا ھے .


 غلو کیا ھے اور اسلام میں اس سے کتنا خبردار کیا گیا ھے.

"تحریر و تحقیق:"سائیں لوگ

اللله پاک سوره مائده ع,76/77,میں غلو سے منع اور ھر چیز کو ایک حد میں رکھنے کا حکم دے رھے ھیں دوسری طرف غالی کهتا ھے کوئی حد ھو تو قائم کریں.

اقوام عالم کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ھوتا ھے که ابتداۓ آفر نشین سے لے کر آج تک ھمیشه عالم لوگ بزرگان دین و راھنمایان ایمان و یعقین کے بارۓ افراط و تفریط کا شکار رھے ھیں ھمیشه یه ھوتا رھا ھے که ان کے بعض نادان دوست انھیں ان کے حقیقی مرتبه سے بڑھاتے رھے اور بعض احمق دشمن ان کو اصلی مقام سے گراتے رھے اس لیۓ ھم وضاحت دے رھے ھیں,

 گزشته کئی دنوں سے که غالی اور مقصر کے موضوع پر بات ھو رھی ھے میرۓ نذدیک دونوں گمراه ھیں.

اس غلط جذبه محبت و عقیدت نے یهودیوں و نصرانیوں کو حضرت عیسی ع اور حضرت موسی ع کےمتعلق  "ابن اللله " ھونے کا فاسد نظریه قائم کرنے پر آماده کیا .

     "قالت الیهود عزیز بن اللله"
  وقالت  النصاره المسیح ابن اللله

اسی لیۓ خداۓ لم یزل نے ان نادانوں کو تنبیح فرمائی :یا اھل الکتاب لا تغلو فی دینکم ولا تقولو اعلی اللله اله الاحق.

آۓ اھل کتاب آپنے دینی معاملات میں    "غلو" (حد سے تجاوز) نه کرو.اور خدا کے متعلق وھی بات کھو جو حق ھے .

مقصر:

اس کے مقابل ان کے نابکار دشمن ان زوات مقدسه کو من جمیع الجھات آپنے جیسا آدمی(مقصر) نه صرف ان کے علم و فضل اور عصمت و طھارت کا بلکه انکی نبوت و رسالت کا بھی انکار کر بیٹھے .

مقصر آل محمد ع کو صرف آپنے جیسا انسان سمجھتے اگر دیکھا جاۓ ھمارۓ اس معاشرۓ میں بھی ھر انسان دولت سے نھیں عباد ت و تقوی کے لحاظ سے برابری نھیں رکھتے اھلبیت ع کیسے عام انسان کی طرح ھو گۓ.یه لوگ (مقصر)بھت قلیل تعداد میں ھیں اور انگلیوں پر گنے جا سکتے ھیں.

جنھوں نے اعتدال کا دامن ھاتھ سے نه چھوڑا .اور غلو اور افراط و تفویض کی آلائش آپنے دامن کو ملوث نه ھونے دیا .اور ھادیان دین کی محبت و مودت کے نازک مسله میں "صراط مستقیم "پر گامزن رھے.
محمد و آل محمد ع کے متعلق لوگ تین حصوں میں تقسیم ھو گۓ.

غالی:

کچھ کم توفیق اور کم عقل لوگ ان بزرگوں اور فضائل و کمالات اور مناقب و معجزات کی تاب نه لا کر غلو و تفویض کے گھرۓ سمندر میں ڈوب کر غرق ھو گۓ.
اور کئی قسم کے غلط نظریات ان بزرگوارں کے متعلق از خود قائم کر لیۓ.
بعض ایسے بھی شقی القلب بدبخت ان کے نه صرف صحیح فصائل و کمالات بلکه انکی خلافت و امامت تک کا انکار کرکے ضلالت و گمراھی و ھلاکت کے ابدی گڑھے میں جا گرے اور یه دونوں قسم کے وه لوگ تھے جنھوں نے انتھائی نازک مرحله و مقام میں ان منا الرحمن و ھادیان دین و ایمان کی مقدس تعلیمات سے روگردانی کرکے خود آپنی ناقص عقلوں اور فاسد رایوں پر اعتماد کیا لھذا نتیجه یه نکلا که ضلو او ضلو (خود گمراه ھوۓ دوسروں کو بھی گمراه کیا).

متوسط طبقه:

تیسرا گروه وه تھا جس نے دیگر تمام عقائد و اعمال کی طرح اس مقام معرفت نبی و امام پر بھی انھی جج الھیه کی مقدس تعلیمات و ارشادات کو آپنے لیۓ خضر راه مشعل ھدایت بنایا اس لیۓ وه ھمیشه جاده اعتدال پر گامزن رھے.اور افراط و غلو تفویض کی ھلاکت  خیزیوں اور  قالی و غالی ھر دور کی فتنه انگیزیوں سے محفوظ و مصعون رھے .

امیر المومینین مولا علی ع کے متعلق عام لوگوں میں تین گروه تقسیم ھو جانے اور پھر دو گروھوں کے ھلاک اور تیسرۓ گروه کے ناجی ھونے بارۓ جناب رسول خدا ص کا ارشاد :
بحار الانوار جلد ھفتم ص 330,
پر موجود ھے.

بلکه نھج البلاغه جلد 1ترجمه رئیس احمد جعفری میں امام علی ع کا فرمان بھی موجود ھے.

اب غالیوں و تفویض کے قائل افراد کو فکر کرنے کی ضرورت ھے امام ع متوسط طبقه کو کامیاب قرار دے رھیں ھیں جبکه غالی بے حد کھنے پر  بضد ھے .



نکاح سیده ام کلثوم بنت علی ع اور مولانا جلال الدین سیوطی


  • نکاح سیده ام کلثوم بنت علی ع اور علامه جلال الدین سیوطی کی تحقیق:
    • "تحریر :"سائیں لوگ 
    • اصل میں جس ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے ھوا وه حضرت ابوبکر کی بیوی اسماء بنت عمیس سے تھیں جنھوں نے حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی سے نکاح کیا.

    • اس ام کلثوم کا نکاح حضرت عائشه کی پرزور سفارش پر عمر بن خطاب سے کیا.
    • بحوالا :ام کلثوم و شرح کنز مکتوم مولف :سید منشی سجاد حسین.
    • طراز المذھب مظفری مصنف مرزا عباسی.

    • اب ھم آتے ھیں اھلسنت کے عظیم مصنف و مورخ علامه جلاالدین سیوطی کی کتاب مسند فاطمه زھرا رض, 118/119/120,
    • مکمل سکین پیش ھیں.

    • عبارت ھو بھو پیش کی جاری ھے ھماری طرف سے ایک لفظ کی بھی کمی یا اضافه نھیں .

    • مستضل بن حصین رض سے مروی ھے که عمر بن خطاب نے مولا علی رض سے آنکی بیٹی کا رشته مانگا آپ نے نا بالغ ھونے کا عزر کیا مگر حضرت عمر نے اصرار کیا که وه با راده مجامعت نھیں کھتا بلکه فرمان رسول ص که میرۓ نسبی تعلق کے سوا قیامت کو ھر نسبی تعلق منقطع ھو جاۓ گا.
    • ھر مولود کا نسب باپ سے ھے لیکن اولاد  فاطمه کا باپ اور نسبی وارث میں ھوں.

    • وضاحت مزکوره روایت الفاظ و معنی کے تفاوت سے مختلف کتب حدیث اور سیرت و تاریخ میں مذکور ھے جن میں کتب اھلسنت کے علاوه تشیع کی کتاب فروع کافی,کتاب الابصار اور تھذیب الحکام وغیره بھی شامل ھیں.

    • اس مسله پر علماء و محقیقین نے بڑی بحث کی ھے اور رویتة و درایتة اسے محل نظر قرار دیا ھے.

    • اس کا خلاصه یه ھے که اس نکاح کا تذکره صحیح بخاری,عمدة القاتی,فتح الباری ,طبقات ابن سعد,معارف ابن قتیبه اور جمھرة انساب العرب وغیره معتبر کتب شامل ھیں جنمیں اس نکاح بارۓ انکار نھیں کیا.

    • علماۓ عرب نے بھی اس اثبات پر بھت کتابیں لکھیں ھیں.
    • مثلا سید احمد ابراھیم,ابو معاز اسماعیلی نے کتاب زوج عمر بن خطاب من الکلثوم بنت علی حقیقة لا افترا" 
    • جبکه وه علماء جو ان قائلین کے جواب میں کھتے ھیں که حدیث یا تاریخ کی کتاب میں کسی روایت کا مذکور ھونا ھرگز سچ ثابت ھونا نھیں که رویت معتبر ھو.

    • صحیح بخاری جو کتاب الله کے بعد سب سے افضل مانی جاتی ھے .
    • لیکن اس کے باوجود بھی بخاری کے بعض راویوں اور روایات پر امام حجر عسقلانی, نے فتح الباری,میں سندا ومتنا کلام کرکے بعض راویوں کو ضعیف اور فاسد العقیده لکھا ھے.

    • اسی طرح امام بدرالدین عینی حنفی نے بھی آپنی تصنیف"عمدة القاری" میں بخاری کے بعض راویوں کی روایات پر حکم ضعیف لگایا ھے.

    • اور جرح کی ھےمشھور سیرت نگار قاضی عبدالروف دانا پوری نے بھی اصح السیر میں بخاری شریف کی روایات پر کلام کیا ھے.اور لکھا ھے که امام بخاری کی احتیاط کے باوجود بھی کچھ روایات و راوی مجروح ھیں.علامه شامی حنفی نے شرح عقود رسم المفتی میں بھی یه بات تحریر کی ھے.

    • اس نکاح سے انکار والے بھی یھی کھتے ھیں که یه روایة اور داریة ھر دو طرح سے محل نظر ھے.
    • کیونکه امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں لکھا که ام کلثوم بنت علی ع سے عمر فاروق کا نکاح 17/ھ میں ھوا .

    • علامه شبلی نعمانی نے الفاروق میں امام ابن حبان کی تائید کی ھے اور 17/ھ ھی تسلیم کیا ھے.

    • نیز لکھا بوقت نکاح عمر پانچ سال کی تھی.زیر بحث روایت میں بھی یھی لکھا ھے.
    • اسی لیۓ امام علی ع نے نابالغ ھونے کا عزر پیش کیا.
    • 11/ھ میں سیده فاطمه زاھره س کا انتقال ھوا ھے تو ماں کے وصال کے بعد بیٹی کی ولادت کس کھاتے میں جاۓ گی.

    • مولانا اکبر شاه خان نجیب آبادی نے تاریخ اسلام میں نکاح کا سال 7/ھ لکھا ھے.اور بطن سے رقیه و زید کی ولادت کا زکر بھی کیا ھے.
    • قابل غور یه ھے که یه نکاح 6/7 سال قبل ھوا اور ام کلثوم بعد میں پیدا ھوئیں.

    • امام عبدالباقی زرقانی نے شرح المواھب میں لکھا که حضرت عمر آپنی زوجه بنت علی کے بالغ ھونے سے قبل فوت ھوۓ.

    • سوچنے کی بات یه ھے که ایک نا بالغ بچی کس طرح ماں بن گئی ھے.

    • سنن نسائی کے باب تزوج المراة مثلھا فی السن کے تحت روایت کی ھے که شیخین نے جب رسول الله سے رشته مانگا تو آپ ص نے صغر سنی کا عزر پیش کیا اور انکار فرمایا.

    • وضاحت میں علامه سندی نے لکھا که خاوند اور بیوی میں باھمی محبت کیلۓ دونوں کا ھم عمر ھونا لازمی ھے.

    • سیده فاطمه س اور شیخین کی عمروں میں واضح فرق کا وجه انکار تھا.
    • اسی طرح کا عمر نے بھی ایک فیصله بھی کیا تھا.اور کھا که الله سے ڈرو ھم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کا نکاح کیا کرو.
    • سمجھ نھیں آتی که پھر حضرت عمر نے واضح سنت سے انحراف کیسے کیا.
    • که ایک نابالغ لڑکی سے نکاح پر اصرار کیا.
    • دوسرا پھر ام کلثوم سے اولاد کا ھونا بھی واضح تضاد ھے.
    • اس نکاح کے بعد بھت سی حیا سوز باتوں کا کتب میں بھی زکر ملتا ھے.
    • (یه میں خود ایک ریسرچ کے دوران پاکستان کی سب سے بڑی لائیبریری میں رکھی کتب میں واقعی پڑھ چکا ھوں جو ناقابل بیان ھیں).

    • اب صحیح بخاری کے اس روایت کے راوی سفیان بن وکیع ھے جو امام نسائی کے نذدیک ضعیف ھے امام حجر عسقلانی کے نذدیک ناقابل اعتبار,_امام ابو زرعه کے نذدیک جھوٹا اور ابن ابی حاتم کے مطابق اس کی روایت ناقابل اعتماد ھے.

    • دوسرا راوی ثعلبه بن ابی مالک ھے اسماء و رجال کی کتابوں میں اس کا کوئی زکر ھی نھیں اس لیۓ یه مجھول الحال راوی ھے.
    • لھذا سندا یه روایت ھی مجروح ھے.

    • قرآن کریم کی صریح آیات  میں نکاح کے مصالح مذکور ھیں مثلا خاوند بیوی کی باھمی محبت ایک دوسرۓ کی عزت و عفت کی حفاظت اولاد کی افزائش و تربیت جسمانی اور زھنی تدکین و اطمنیان گھر کے ماحول کو پر سکون بنانے کیلۓ ایک دوسرۓ سے تعاون,باھمی رازداری,نسل انسانی کی بقاء پر امن معاشرۓ کا قیام دنیا و آخرت میں کامیابی کیلۓ مخلصانه کوششیں وغیره قابل غور ھیں قابل غور امر یه ھے که جو بچی ابھی گڑیوں سے کھیلنے کی عمر ھو مذکوره بالا نکاح کے مصالح کس طرح پوری کر سکتی ھے.
    • پھر قرآن میں نساء سے نکاح کا حکم دیا گیا یه لفظ ایک بالغ عاقل اور باشعور عورت کیلۓ بولا جاتا ھے.

    • انھیں واقعات کو بنیاد بنا کر غیر مسلم پاک نبی ص سمیت اسلام کو بدنام کرتے ھیں که مسلمان نابالغه بچیوں سے شادی کو جائز سمجھتے ھیں.
    • لھذا مذکوره نکاح کی جمله روایات میں نظر ثانی اور حقائق و دلائل کو تسلیم کرنا چاھیۓ.
    •             


    ہفتہ، 23 فروری، 2019

    خونی ماتم نادان برادران کی اصلاح ضروری ھے.

    خونی ماتم ,نادان برادران کی اصلاح ضروری ھے.  ؟ 

    تحریر :"سائیں لوگ                               
             
                         

    ھمیں تلواریں ان لوگوں کے خلاف اٹھانی چاھئیں.جو توحید,رسالت,ولایت کو مسخ اور توھین کر رھے ھیں.
     جو ھماری عزت ، آبرو اور آزادی کو پامال کرنا چاھتے ھیں.

     اور ھمارے تمام معاملات پر کنٹرول حاصل کرنے کی خواھش رکھتے ھیں.

    جو مذھب حقه اثناۓ عشریه کی تعلیمات حقیقیه کو بگاڑ رھے ھیں بدنام کر رھے ھیں.

    اسی بنیاد پر ھم نے قمعہ زنی کے بارے میں ھمیشه اس بات پر زور دیا ھے که:

     قمعہ زنی یعنی خونی ماتم  حرام ھے یه عمل قرآن و اھلبیت ع کے خلاف ھے.

     کیونکہ یہ اسلام و اھلبیت علیھم اسلام کی صورت کو داغدار کرتی ھے ،

     انسان کو ضرر پھنچاتی ھے اور اپنے بدن کو تقصان پہنچانا حرام ھے.(سوره مائده,بقره ع 95:,النساء ع:29-30)

    علی شریعتی اور غالی زاکر

    ڈاکٹر علی شریعتی,برصغیر کے تشیع اور غلات زاکر:

    "تحریر:"سائیں لوگ                                   
              

    ڈاکٹر علی شریعت کھتے ھیں میں نے جب برصغیر کے اندر مذھب تشیع کے تاریخی ارتقاء پر نظر ڈالی,
     تو مجھے نظر آیا کہ یہاں تشیع کی ایک غالب لہر دربار اور اقتدار کے ایوانوں سے اٹھی.مغل اور پھر مقامی حاکموں کے زمانے میں اشراف کے زیر اثر اور بعد میں نوابوں اور,

     جاگیرداروں اور انگریز سرکار کے اندر سول و ملٹری سروس کی اشرافیہ نے جس مکتب علی کی انقلابیت کو فنا کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا.

    اور ان کی جانب سے ایسے مولوی،

    زاکر اور کلرجی کی حوصلہ افزائی کی گئی جوکہ “سادات”کی اشرافیت کا تحفظ کریں اور ساتھ ساتھ ان کی مراعات اور جاگیروں کا جواز بھی تلاش کریں.

     اور ان نوابوں اور جاگیرداروں کے استحصال کا جو شکار عوام ھے ان کو بے عمل تشیع اور اپنی حالت زار کو اللہ کی بنائی تقدیر کا نتیجہ خیال کریں.

    یہ لائسنسی تشیع اور مجاورانہ تشیع ملوک،نوابین اور انگریز سامراجیوں کی ایجاد تھی-اور آج تک یہ ہمارے ہاں چل رھی ھے.
    علی ع کو مذھبی پیشواؤں نے فرقہ پرستی،تفرقہ بازی کے لیے تختہ مشق بنا رکھا تھا.

    اور آج بھی یہی صورت حال ھےمحمد،علی ،اور اہل بیت ع کی زوات کو مسلم معاشروں میں تقسیم اور انتشار کو بڑھانے کا فرض انہی پیشواؤں نے اپنے ھاتھ لے رکھا تھا.

    غالی کا ھتھیار متشابه آیات و روایات

    متشابه آیات و روایات پیش کرنے والے گمراه ھیں:

    " تحریر :"سائیں لوگ.                     
                          

    میں نے غالیوں کی طرف سے دیکھا ھے ھمیشه متشابه آیت و روایت لے کر آتے ھیں جبکه ھم نے ھمیشه محکم آیت نھیں آیات اور روایت نھیں روایات پیش کی ھیں.

    اب دیکھتے ھیں معصومین ع کا متشابه و محکم بارۓ کیا فرمان ھے.

    ان فی اخبار نا متشابها کمتشابه القرآن و محکما کمحکم القران فردوا متشابھا الی محکمھا ولا تتبعوا متشابھا بھادون محکمھا فتضلوا:

    ترجمه:  ھمارۓ اخبار کچھ متشابه ھیں مثل متشابه قرآن اور کچھ محکم ھیں مانند محکم قرآن.
     لھذا تم متشابه کو محکم کی طرف لوٹاؤ.
    اور خبردار محکم کو چھوڑ کر متشابه کی اتباع نه کرنا وگرنه گمراه ھو جاؤ گے.

    عیون اخبار الرضا ص 290,
    احتجاج طبرسی ص,223.

    اس لیۓ اھل علم کا فرض ھے که وه کسی بھی روایت پر عقیده و عمل کی دیوار استوار کرنے سے پهلۓ اچھی طرح غور و فکر کر لیں که وه روایت محکم ھے یا متشابه.

    اگر اس امر کو ملحوظ نه رکھا گیا تو پھر مطابق فرمان امام ع گمراھی یعقینی ھے.

    اب اھل غلو محکم کے ھوتے ھوۓ متشابه آیات و روایات پیش کرنے سے گریز کریں گے.
    نھیں تو گمراه وه پهلے ھی ھو چکے ھیں.

    جمعرات، 21 فروری، 2019

    تکفیر المسلیمین قسط نمبر:6

    "تکفیر المسلیمین"
                          توجه طلب مسله.                          

    آخری قسط نمبر :6.      تحریر:"سائیں لوگ"

    تکفیر المسلیمین کی وجه سے آج مسلمان مختلف گروه میں بٹ کر
    زلیل و رسوائی کی آخری منزل پر ھیں.

    چند کم علم لوگ جنھوں نے اسلام اور پاک نبی ص کی اصل تعلیم بھلاتے ھوۓ آپنے مفادات کو ترجیح دی.وھی بدبخت اس دھنده میں ملوث ھیں.

    ھم گزشته پانچ اقساط میں بڑی وضاحت سے ثابت کرچکے که تکفیر المسلیمین اتنا بڑا گناه ھے جیسے ایک مسلما. کے قتل سے بھی زیاده.
    حضرت امام رازی نے تفسیر الکبیر جز 1,ص176,میں تحریر کیا ھے که تاویل کرنے والا والے کو کافر نھیں کهه سکتے,حضرت امام شوکانی ارشاد الفحول ص 67,میں لکھتے ھیں که علماء کا اجماع ھے که کوئی شخص کسی نص کے عام معنوں کا منکر ھے اور وه اسکی آپنے طور پر تاویل کرتا ھے تو اسے کافر تو درکنار فاسق بھی نھیں قرار دے سکتے .

    حضرت اما. شافعی آپنی کتاب بحواله شواھد الحق للشیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی ص 125, میں ارشاد ھے که میں کسی ایسے شخص کو بھی کافر نھیں کهتا جو آپنی نافھمی کی وجه سےخلاف ظاھر تاویل کرتا ھے .

    حضرت امام عبدالوھاب شوانی آپنی کتاب الیواقیتو الجواھر جلد,2,قاری ملا علی آپنی کتاب فقه اکبر 193,میں بھی یهی فرمایا ھے که تاویل والے کو کافر نھیں کها جا سکتا.
    اس قدر واضح شواھد کی موجودگی کے باوجود اگر پاکستان میں چند بنیاد پرست افراد کو زرا زرا سی بات پر تکفیرالمسلیمین کی اجازت نے ملک کو جھنم بنا دیا ھے.
    اور اس دھشتگردی کی وجه سے 95000,سے زائد مسلمان قتل ھوچکے.

    ھم صرف ایک مسلمان ھیں ایک قوم ھیں ایک جسم کی مانند ھیں جیسے تمام انبیاء ع نے فر مایا جیسے اھلبیت ع نے اور اصحابه کرام رض نے فرمایا.
    اب بھی وقت ھے آپ حضرات اختلاف اور فرقه بندی سے آپنا دامن بچا لیں ھم میں چند کم علم جاھل لوگ شامل ھوچکے ھیں جو حق بات کو دباۓ ھوۓ ھیں.
     اور وه لوگ زاتی وقار ناموری کیلۓ قرآن کے نام پر ملت کے اتحاد کو پاره پاره کر رھے ھیں چنانچه اس روش کا سختی سے سدباب کیا جاۓ اور تکفیر المسلیمین کو قابل جرم سزا قراردیا جاۓ جو بھی اس کا مرتکب ھو پاکستان کے قانون کے تحت سزا دی جاۓ شکریه.



    تکفیر المسلیمین قسط نمبر :5

    "تکفیر المسلیمین"
      توجه طلب مسله.                             
    تحریر :"سائیں لوگ".  

    تکفیر السلیمین سے اسلام کمزور ھوا ھے اور تکفیری سوچ حامل ملاں مظبوط ھوا ھے, اس کے گھر کا چوھله خوب جلا ھے جسکی روٹی پوری نھیں ھوتی تھی اب اس کے بچے باھر پڑھتے ھیں اس کا شکار زیاده تر کم علم لوگ ھی ھوۓ ھیں.
    جو مولوی کو ھدایت کا مرکز سمجھتے ھیں چاھے اسے وضوء کا ھی درست معلوم نه ھو.

    ھم آپنی شروع والی اقساط میں واضح کرچکے ھیں که تکفیر کرنا ایک کلمه گو کی اتنا جرم ھے جتنا ایک ناحق انسان کا خون کرنا.

    اللله پاک نے آپنی کتاب سوره آل عمران آیت نمبر 103,میں فرمایا ھے که مسلمانوں اللله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقه میں نه پڑو.
    جامع ترمزی حدیث نمبر 2635,2636,میں بھی پاک نبی ص نےکسی پر کفر کا فتوی لگانے سے منع کیاھے.
    معجم الاوسط جلد دوم حدیث نمبر 2844, میں بھی حضرت عائشه سے روایت ھے که پاک نبی نے کفر کا فتوا لگانے سے منع فرمایا ھے اور اسے گناه کبیره کها ھے. 

    حضرت گنگوھی آپنے مکتوب انوار القلوب میں تصریح فرماتے ھیں که یه قول فقها ء ننانوے احتمال کا تحریری نھیں ھے بلکه اگر کسی کے کلام میں ھزاروں احتمال ھوں جن میں سے نو سو ننانوے احتمال کفر کے ھوں اور صرف ایک احتمال ایمان کا ھو تو اس کی بھی تکفیر جائز نھیں.
     سید ابو الاعلی مودودی نے ترجمان القرآن کے شماره ماه جمادی الاول 1355ھ جلد نمبر 8,صفحه نمبر 52,پر تحریر فرمایا ھے که ان احکامات کا منشاء یه ھے که مومن کو کافر کهنے میں اتنی احتیاط کرنی چاھیۓ جتنی کسی شخص کے قتل کا فتوی دینے میں کی جاتی ھے.

    بلکه یه معامله اس سے بھی زیاده سخت ھے کسی کے قتل کرنے سے کفر میں مبتلا ھونے کا خوف تو نھیں ھوتا مگر مومن کو کافر کهنے میں یه خوف بھی ھے اگر فی الواقع وه شخص کافر نھیں ھے.اور اس کے دل میں زره برابر بھی ایمان موجود ھے تو کفر کی تهمت خود آپنے اوپر پلٹ آۓ گی پس جو شخص اللله تعالی کا خوف دل میں رکھتا ھو اور جس کو اس کا کچھ احساس ھو که کفر میں مبتلا ھو جانے کا اندیشه ھے تو وه کبھی کسی مسلم کی تکفیر کی جرات نھیں کرسکتا.

    مندرجه بالا اقتباسات سے یه واضح ھوجاتا ھے که جس شخص میں اسلام کے موٹے موٹے ظاھری نشانات ھی موجود ھوں مثلا یه که وه میل جول کے وقت اسلام علیکم کهے اور مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتا ھو نماز پڑھتے وقت قبله رخ منه کرتا ھو,مسلمانوں کا زبحیه  کھاتا ھو تو از روۓ قرآن و حدیث نبوی ص اور آئمه کرام اس کے مسلمان  ھونے کیلۓ یهی باتیں کافی ھیں.
    اور اس کیلۓ کفر کا فتوا جاری کرنا کسی طرح بھی جائز نھیں.

                            (جاری ھے).

    تکفیر المسلیمین قسط نمبر:4

    "تکفیر المسلیمین"
    قسط نمبر 4
    تحریر "سائیں لوگ".                     

    تکفیر المسلیمین ایسا گھمبیر اور نازک مسله جس نے اسلام کی بنیادیں ھلا کر رکھ دی ھیں.

    ھماری کوشش ھے اس مسله پر عام مسلمانوں میں آگاھی دی جاۓ که اس عمل بد اور شر سے مسلم امه کا کتنا نقصان ھو رھا ھے.
     پر بدقسمتی سے چند شر پسند عناصر ھماری اس مخلص کاوش کو غلط رنگ دینے اور اسکی افادیت رائیگاں کرنے کی سر توڑ کوشش کر رھے ھیں.

     ھم ان کی تمام منفی سازشوں کو بالاۓ تاک رکھتے ھوۓ آپنے اس کام کو آگے بڑھانے اور امت کے درمیان اتحاد ویگانگت کی تگ و دو برابر جاری رکھیں گے چاھے ھمیں اس کام کے بدل بھاری سے بھاری قیمت ھی کیوں ناں چکانی پڑۓ.

    ھم نے پهلی تین پوسٹوں میں تکفیر کے نقصان اور اس عمل شر سے تکفیر کرنے کے بارۓ قرآن وسنت سے انسان کتنے بڑۓ گناه کا ارتکاب کرتا ھے اس پر روشنی ڈالی.

    اھل قبله کی تکفیر فقھاۓ کرام نے اھل اسلام کو سختی سے منع کیا ھے اور اس کی سخت مذمت بھی کی ھے.
    شرح عقائد نسفی ص 121,میں حضرت امام ابو حنیفه اھل قبله میں سے کسی کی بھی تکفیر سے منع کرتے ھیں.
    کسی مسلمان کو اسلام سے خارج قرار دینا بڑی سخت چیز ھے (شرح شفا جلد,2ص,500) میں ھے کسی مسلمان کی تکفیر کا فتوی نه دیا جاۓ جب تک اس کے کلام میں سے کوئی اچھے معنی نکلتے ھوں.

    اشباه والنظائر  ع شرح حموی 175,میں ملا قاری حنفی فرماتے ھیں که اگر کسی شخص میں ننانوۓ وجوه کفر کی ھوں اور ایک وجه اسلام کی ھو تو علماۓ اھلسنت کے نذدیک قاضی اور مفتی کا فرض ھے که وه صرف اس وجه کو اختیار کرۓ جو اسلام کی ھو اور اس کو مسلمان سمجھے.(شرح فقه اکبر مطبوعه مصر ص 14.

    اشاعره میں سے بعض متعصب لوگ امام احمد بن حنبل کو کافر کهتے ھیں جن کےشیح عبدالقادر جیلانی المعروف غوث اعظم بھی پیروکار تھے.اور بعض حنابله اشاعره کو کافر قرار دیتے ھیں.مگر ان دونوں کا ایک دوسرۓ کو کافر قرار دینا صحیح نھیں ھے.کیونکه حنابله,اشاعره,حنفیه,شافیه,اور مالکیه کے معتبر اماموں کا یه مذھب ھے که اھل قبله کی تکفیر نه کی جاۓ.اور نه ھی کوئی کافر ھے.(مفتاح دارالسعاده و مصباح السیاده جلد 1,صفحه 46).
    جو شخص صرف زبان سے کلمه پڑھتا ھے اور دل سے اس پر ایمان لایا ھو اسے مرتد یا کافر نھیں کها جا سکتا.(فقه اکبر ملا علی قاری).

    حضرت امام غزالی نے بھی آپنی کتا احیاۓ علوم جلد نمبر 1,ص,97,میں  تحریر فرمایا ھے که اھل قبله کی تکفیر بهت بڑا گناه ھے.

    مولانا حسین احمد مدنی آپنی تصنیف نقش حیات جلد 1,ص,126,پر رقمطراز ھیں که اکابرین کے متفقه علیه قول ھے که اگر کسی مسلمان کے کسی قول اور عقیده میں سو احتمال ھوں جن میں سے ننانوے احتمال کفر کے ھوں اور ایک احتمال بھی ایمان کا ھو تو اس کی تکفیر نه کی جاۓ اور نه ھی مباح الدم والمال ھو سکتا ھے.(جاری ھے)

    تکفیر المسلیمین قسط نمبر:3


    تحریر :"سائیں لوگ ".                   نن.            

                    "تکفیر المسلیمین"
    قسط نمبر :3

    موجوده حالات میں جس طرح  مسلمان زلت سے نبرد آزما ھیں یه سب کچھ تکفیر المسلیمین کا نتیجه ھے.

     دنیا میں کوئی ایساملک نھیں جهاں ان کا جینا دشوار نه ھو بعض ممالک یا مسلمان ملکوں میں ایسا ھے که اقلیتی مسلم فرقے آپنی مذھبی عبادات بھی چھپ کے کرتے ھیں.
    حالنکه جو تعلیم اسلام کی ھے اس پر عمل کرتے تو آج پوری دنیا میں اسلام کا ھی غلبه ھوتا.
    لیکن بدقسمتی سے ھمارۓ آپس کےاختلافات نے ھمیں کمزور کرتے ھوۓ دشمن کو آپنے پر ھاوی کر دیا.

     جبکه ھم آپس میں اختلافات کا شکار ھو کر ایک دوسرۓ کو کافر کهنا شروع کردیا.اور پستی کی طرف دھنستے چلے گۓ.

    تکفیری سوچ والے آپنے پیٹ کی خاطر اسلام کے نقصان کو بھلا کر دن رات آپنے شرپسند فعل میں محو ھیں.
    لیکن قرآن وسنت سے کسی کی تکفیر کرنا کتنا گناه ھے.یه کسی کو معلوم نھیں.
     اس بارۓ میں یه آج ھماری تیسری پوسٹ ھے.
    قرآن و حدیث سے یه بات ثابت ھے جو بھائی میل جول کے وقت تم سے اسلام علیکم کهے,زبان سے کلمه طیبه کا اقرار کرۓ,قبله رخ ھو کر نماز پڑھے,اور مسلمانوں کا زبیحه کھاۓ تو اس کے مسلمان ھونے میں ھرگز شک نه کیا جاۓ.

    طبرانی عن ابن عمر سے مروی ھے که جو"لا اله الااللله کے پڑھنے والے کی تکفیر کرۓ گا وه خود کفر کے بهت قریب ھو جاۓ گا-اسی طرح سنن ابو داؤد جلد نمب2,کتاب السنت میں ابن عمر سے روایت ھے که رسول خدا نے فرمایا جو مسلمان دوسرۓ مسلمان کو کافر کهے گا. کافر کهنے والا خود کافر ھو جاۓ گا .
    سنن ابو داؤد میں ھی حضرت انس سے روایت ھے که حضرت محمد ص نے ارشاد فرمایا که تین باتیں اسلام میں داخل ھیں ان میں سے ایک یه بھی ھے که جو شخص لا اله الا اللله کهے دے تو اس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نه کی جاۓ اسے کسی گناه کی وجه سے کافر نه بنایا جاۓ اور اسے اسلام سے خارج قرار نه دیاجاۓ.

    اھل قبله کی تکفیر سے فقھاۓ اسلام نےبھی اھل اسلام کو سختی سے منع کیا ھے اس زمن میں سرسری تحقیق ھی سےمعلوم ھو جاتا ھے که تکفیر المسلیمین کی ممانعت کا مسله در حقیقت اھل سنت کے قوائد میں سے ھے اور اھل سنت کے فقھاۓ کرام نے اھل قبله کی تکفیر کی سخت مذمت کی ھے
    .                   (جاری ھے) 
    #fontstudio

    تکفیر المسلیمین قسط نمبر:2

    "تکفیر المسلیمین"
    تحریر "سائیں لوگ".                                  

    آج کے دور کا نازک اور اھم ترین مسله.
    آپ برادران اس اھم تحریر کو پڑھیں اور آگے پھیلائیں تاکه حقیقت کو سمجھ کر مسلمان کو اس قبیح فعل سے بچا کر وحدت کو مضبوط کیا جا سکے.

     افسوس ھے اس اھم مسله پر بهت کم لوگوں نے توجه دی حالنکه اس غیر شرعی اور قبیح فعل کی ھر صاحب عقل اور محب دین محمدی ص کے فرد کو توجه دینی چاھیۓ تھی پر مقام حیرت ھے اس سلسله میں معتدل علماء نے وه  کردار ادا نھیں کیا جو کرنا چاھیۓ تھا.

    قرآن مجید میں اللله تعالی نے فرمایا ھے که مسلمانوں اللله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقه میں نه پڑو.
     سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ھیں کسی کو کسی پر سبقت نھیں سواۓ تقوی کے قرآن مجید اور احادیث نبوی ص کی روشنی میں اکثر فقها ۓ کرام اور آئمه دین کا اس بات پر ململ اتفاق ھے که وه شخص جو خود کو مسلمان کهتا ھے اس کیلۓ قرآن پاک اور احادیث نبوی ص کے سواۓ کوئی حجت نھیں -

    سوره نساء میں ارشاد باری تعالی ھے جو شخص تمھے اسلام علیکم کهے تو اس کے مسلمان ھونے میں شک نه کیا جاۓ.ایک متفقه علیه حدیث میں بھی حضرت محمد ص کا ارشاد ھے که جو کوئی آپنے بھائی کو کافر کهتا ھے تو وه کفر ان دونوں میں سے ایک پر پلٹ آتا ھے.

     ایک اور حدیث میں نبی اکرم ص نے آپنی امت کو سختی سے تاکید فرمائی ھے که آپنے اھل قبله کی تکفیر نه کرو سوره نسا آیت قرانیه اور مذکوره حدیث  سے واضح ھوتا ھے که اللله اور اس کے رسول ص کے نذدیک تکفیر المسلیمین نھایت مکرو اور حرام فعل ھے .

    اس لیۓ اس جرم کی سزا بھی اتنی بڑی سخت بیان فرمائی ھے که جو شخص کسی کو کافر قرار دیتا ھے وه کفر اسکی طرف پلٹ آتا ھے .آئمه دین نے اس کی توجیه یه بیان فرمائی اور اس کی عبرت ناک سزا اس لیۓ تجویز فرمائی ھے تاکه مسلمان اس خطر ناک جرم کے ارتکاب سے جو وحدت کو پاش پاش کرنے کا موجب بنتا ھے اجتناب کریں.

    ترمذی شریف میں صاف صاف یه بیان ھوا ھے که مسلمان کو کافر کهنے والا اس کے قاتل کی طرح ھے جس طرح قاتل کیلۓ اسلام نے سزا تجویز فرمائی ھے اسی طرح مسلمان کو کافر کهنے والے کیلۓ بھی یهی سزا ھے.

    یه متفقه علیه امر ھے که جب ایک مسلمان دوسرۓ مسلمان سے ملتا ھے اور اسے اسلام علیکم کهتا ھے تو روۓ قرآن اس کے مسلمان ھونے کیلۓ یهی ایک ظاھری نشان کافی سمجھا جانا چاھیۓ.
    جس طرح اسلام علیکم کهنا شعائر اسلامی ھے اسی طرح قبله رخ ھو کر نماز پڑھنا بھی شعائر اسلامی ھے اس واضح نشان کو کسی شخص میں پانے کے بعد کسی کو یه اختیار حاصل نھیں رھتا که وه اسکے مسلمان ھونے میں شک کرۓ یا اس کو کافر قرار دے.

    کسی مسلمان کو کافر قرار دینے کیلۓ اس کے پوشیده حالات کی جستجو کرنے اور اسکی باریک تاویلات کو سھارا بنانے کی اسلام میں سخت ممانت کی گئی ھے.
                     (جاری ھے)

    تکفیر المسلیمین قسط نمبر :1

    "تکفیر المسلیمین"
                   (توجه طلب مسله)
    قسط نمبر 1

    تحریر: "سائیں لوگ ".                         

    نوٹ:یه تحریر حقائق پر مبنی ھے کسی مذھب یا گروه کے خلاف نھیں.امید ھے ھر مسلماں مثبت زھن کے ساتھ حق,سچ بات کو سمجھنے کی کوشش کرۓ گا. 

    اور کوشش کریں ان تحریروں کو آگے شیئر کریں.

    آج ھم ایک نھایت ھی اھم موضوع کو زیر بحث لانا چاھتے ھیں جو وقت کی اھم ضرورت بن چکا ھے که اس پر ضرور بات کریں. اس تکفیر کے نقصانات کتنے بھیانک نکل رھے ھیں وه ھر زی شعور انسان اس سے واقف ھے.

    کیا اس عمل (تکفیر المسلیمین)کے نقصانات کا کسی صاحب علم نے کبھی سوچا یا اس مسله کے حل پر توجه دی جهاں تک میرا مطالعه ھے بهت کم لوگ اس لعنت سے باخبر بھی ھیں اور کافی کام بھی کر رھے ھیں.

     وگرنه اکثریت ان لوگوں کی ھے جس نے اس عمل کو بڑھا کر آپنا روزگار کا سلسله بنا یا ھوا ھے وه اس کے منفی اثرات سے بےخبر ھو کر رات دن اسی سازش میں لگے ھیں که ھر صبح ایک نئی ایجاد کے ساتھ آپس میں نفرت اور تکفیر کو بڑھاوا دیں.

     یه لوگ حقیقت میں کم ھیں مگر ھیں مضبوط کیونکه ان کی پشت پر وه طاقت ھے جو شروع دن سے ھی اسلام سے مخلص نھیں رھی ان کی تسلی وسکون اسی میں ھے که دین محمدی ص کے پیروکار آپس میں لڑتے,مرتے رھیں اور دین اسلام کمزور ھوتا رھے.
    یه تکفیر ایسی لعنت ھے جس نے ایک دوسرۓ کو جانی دشمن بنا کے رکھ دیا ھے.ایک مذھب کا فرد دوسرۓ مذھب کے لوگ کو مارنا قتل کرنا پسند کرتا ھے.اور اس قتل کو آپنی نجات کا زریعه سمجھتا ھے.وھابی شیعه کو کافر کهه رھا ھے بریلوی وھابی کو دیوبندی بریلوی کو اھلیحدیث بریلوی کو .

    اگر ھم ماضی میں جائیں تو دوسرۓ انبیاء کی  بهت سی قومیں بھی اسی لعنت سے عبرت کا مقام بنیں.یهود و نصاره نے آپنے دین کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ھوۓ دین حقیقی کو تباه و برباد کرکے رکھ دیا.

    جن کا زکر ھم دجالی عیسائیت کی اقساط میں بھی کر چکے ھیں که اس قوم نے حقیقی تعلیم یسوع مسیح کو پس پشت ڈالتے ھوۓ کس طرح آپنے کو گروه میں تقسیم کر دیا.اور ایک دوسرۓ کی تکفیر کی. آج ان میں اصل یسوع مسیح کی تعلیم کا ملنا مشکل ھے.

    اسی کیفیت کا ھم مسلمان شکار ھوۓ ھیں.اور آپنے آپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بڑھا کر دین اسلام کو پاره پاره کر دیا ھے.

    ایک خدا ایک رسول ص,ایک کعبه,ایک قرآن رکھنے والی قوم اتنے فرقوں میں کیوں تقسیم  ھو گئی.کچھ پیٹ پرستوں نے اتنی نفرت اور عداوت کی دیواریں کھڑی کی ھیں که اب ان کا آپس میں مل بیٹھنے کی صورت نظر نھیں آتی.

     جب نبی کریم ص کے فضائل اور کمالات پر بحث ھونے لگی اور مناظروں کی ضرورت محسوس ھونے لگی تو اب وه کونسی چیز ھے جو ھمیں اکٹھا رکھ سکتی اس پر اگلی قسط میں بحث کریں گے.

    علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

     بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...