Saieen loag

پیر، 25 فروری، 2019

نماز تراویح کی رد بزبان مولا علی ع

حضرت علی (ع) کی زبانی نماز تراویح کی رد:

"تحریر :"سائیں لوگ






                
 نمازتراویح کی حقیقت !!

کتب روایات و تواریخ سے استفادہ ہوتاھے کہ حضرت امیر المومنین (ع)کی اپنے دور حکومت میں متواتر کوشش یھی رھی کہ اس نماز کو اسی صورت پر پلٹا دیں جو رسول(ص) کے زمانے میں تھی ،لیکن مختلف وجوھات بشمول کچھ نادان مسلمانوں کی بدبختی اور جھالت، درمیان میں آڑے رھیں جن کی وجہ سے امام (ع)کی کوشش کسی نتیجہ تک نہ پهنچ سکی.

 چنانچہ حضرت امیرالمومنین (ع)نے اس بارے میں اپنی بے پایان کوشش اور مسلمانوں کی جھالت کی طرف( اپنے خطبات کے اندر)جا بجااشارہ فرمایا ھے: 

۔…”امرت الناس ان لایجمعوافی شھررمضان الا فی فریضة، لنادی بعض الناس من اھل العسکر ممن یقاتل معی: یا اھل الاسلام !وقالوا غیرت سنةعمر،نھینا ان نصلی فی شھررمضان تطوعاً،حتیٰ خفت ان یثوروافی ناحیة عسکری بوسی، لما لقیت من ھذہ الامة بعد نبیھا من الفرقةوطاعةائمةالضلال والدعات الیٰ النار!!“
1] کتاب سلیم بن قیس ،ص۱۶۳۔ 

میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ ماہ رمضان میں نماز واجب کے علاوہ دوسری نمازوں کو جماعت سے نہ پڑھو ،تو میرے لشکر میں سے ایک گروہ کی صدائے احتجاج بلند ہوئی کہ اے مسلمانو! سنت عمر کو بدلاجارھاھے!
اورھم کوماہ رمضان کی نمازوں سے روکاجارھا ھے !اور ان لوگوں نے اس قدر شور و غوغا مچایاکہ میں ڈرا کہ کھیں فتنہ برپانہ ہوجائے اور لشکر میں انقلاب نہ آجائے!
تف ھو ایسے لوگوں پر، بعد پیمبر (ص)کس قدر میں نے ان لوگوں سے سختیوں کو جھیلا ھے…۔ 

ابن ابی الحدید کتاب”الشافی“ سے نقل کرتے ھیں :

”کچھ لو گوں نے حضرت امیرالمو منین (ع) سے کو فہ میں عرض کیا کہ کسی کو بعنوان امام جماعت کوفہ میں معین کریں تا کہ وہ ماہ رمضان کے شبوں کی مستحب نمازوں کو جماعت سے پڑ ھائے ، امام (ع) نے اس عمل سے لوگوں کو منع کیا.
 اور بتایا کہ یہ عمل سنت رسول(ص) کے بر خلاف ھے،چنانچہ بظاھر ان لوگوں نے بھی اپنی در خواست کو واپس لے لیا ، لیکن بعد میں ان لوگوں نے مسجد کے اندر ایک اجتماع کیا اور اپنے میں سے ھی ایک صاحب کو منتخب کر کے امام جماعت بنا لیا.
 جب امیر المومنین (ع) کو اس کی اطلاع ھو ئی تو امام حسن علیہ السلام کو بھیجا کہ اس بدعت کو روک دیں.
 جب لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کو تازیانہ لاتے ہوئے دیکھا تو ”واعمراہ،واعمراہ“ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مسجد کے مختلف دروازوں سے بھاگ نکلے “ 
شرح نہج البلاغہ جلد ۱۲،خطبة ۲۲۳،صفحہ ۲۸۳۔

بدرالدین عینی کی ناقص توجیہہ !! 
شارح صحیح بخاری جناب بدرالدین عینی قول عمر”نعم البدعة ھٰذہ “ کے ذیل میں تحریر فرماتے ھیں : 
عمر نے اس نماز کو بدعت سے اس لئے تعبیر کیاھے کیونکہ رسول(ص) وابوبکر کے زمانے میں اس صورت میں کوئی نماز نہ تھی.
 بلکہ یہ نماز خود ان کی ایجاد کردہ تھی اور یہ بدعت چوں کہ ایک نیک عمل میں تھی لہٰذا اس بدعت کو غیر مشروع (ناجائز) شمار نھیں کریں گے!
عمدة القاری جلد ۱۱،کتاب الصوم ، باب ”فضل من قام رمضان

عرض مولف بدرالدین سے ھمار ا سوال یہ ھے کہ جب آپ نماز تراویح کو بدعت( غیر مشروع) تسلیم کرتے ھیں توپھر اس کو نیک اور بھتر سمجھنے کا کیامطلب ؟!

 اور اگر آپ کے کهنے کا مطلب یہ ھے کہ عمر کی بدعت سنت رسول (ص)اور قانون خد ا سے بھتر ھے تو پھر اس میں کوئی شک نھیں کہ ایسا عقیدہ اور خیال کفر اور ضلالت ھے!
(کیونکہ یہ حق شارع کو ہوتا ھے کہ وہ شریعت کے احکام کو بتلائے اور جعل کرے نہ کہ مکلفین کو جو مصالحا ور مفاسد سے بے خبر ہوں)

اور اگر آپ یہ کھیں کہ سنت خداو رسول(ص)، سنت عمر سے بھتر اور ارجح ھے تو پھر آپ اِس کی پیروی نہ کرکے بدعت عمریہ کی پیروی میں جو ایک مرجوح عمل ھے نماز تراویح ا ج تلک کیوں پڑھتے آ رھے ھیں ؟
___________________

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...