Saieen loag

پیر، 27 مئی، 2019

علم غائب والا عقیده اور جاھل غالیوں کی ھٹ دھرمی.قسط نمبر:11

علم غایب والا عقیده                          
"قسط نمبر :11.           تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ
عالم الغیب صرف الله پاک کی زات ھے واضح اور محکم آیات و مولا علی ع کے خطبات پیش کرنے کے باوجود بھی غالی ھٹ دھرمی پر قائم ھے.

ھم نے وضاحت پیش کرنی ھے منوانا  نھیں آج کچھ مذید حقائق پیش کرتے ھیں.

 الله تعالی آپنے کلام مقدس میں فرماتے ھیں :
وما کان الله لیطلعکم علی الغیب ولکن الله یحبتیی من رسله من یشاء.

ترجمه:
اور ناں الله تعالی ایسا ھے که تمھے غیب سے آگاه کر دے بلکه الله تعالی آپنے رسولوں میں سے جس کا چاھے انتخاب کر لیتا ھے.
سوره آل عمران ع:179.

معلوم ھوا که خدا کا خاص علم غیب پیغمبر پر ظاھر ھوتا ھے .

مگر ایک موٹی عقل کا آدمی بھی بخوبی سمجھ سکتا ھے که ایک بات جب تک کسی کو بتلائی نه جاۓ وه یعقینا غیب ھوتی ھے.
 بتلا دینے کے بعد وه غیب نھیں که لا سکتی.
 مثلا میں آپنے چند دوستوں میں سے کسی ایک کو منتخب کر کے کوئی پرائیویٹ بات بتلا دیتا ھوں.
 بتانے کے بعد وه اس کیلۓ غایب نه رھے گی مگر باقی سب کیلۓ بدستور غیب رھے گی وه شخص یا دوست جس کو میں بات بتلا چکا ھوں وه آپ سب کے درمیان یه ڈینگ نھیں مار سکتا.
 که میں عالم الغیب ھوں کیونکه وه بات مجھ سے معلوم کر چکا ھے.
جو تمھے معلوم نھیں کیونکه وه اسے بتلا دی گئی ھے اور دوسروں کو نھیں بتلائی گئی.

الله تعالی آپنی پیغمبری کیلۓ جس کو چاھتا ھے چن لیتا ھے پس پھر اس کی طرف وحی فرماتا ھے .
اور بعض غیوب کی ان کو خبر دیتا ھے کیا علم غیب اسی کو کھتے ھیں علم غایب تو تب مانا جاۓ اگر الله پاک پیغمبروں کو مستقل طور پر ایسی صفت کے ساتھ متصف فرما دے که پھر انھیں از خود ھر غیبی بات اور ما کان وما یکون کا علم ھو جاۓ اور انھیں وحی کی بھی ضرورت نه رھے .

مگر اس کے بعد یه سوال پیدا ھو جاۓ گا که وحی کے بغیر وه پیغمبر کیسے ره سکتے ھیں .
کیونکه بغیر وحی کے نبوت کیسی اور دوسری بات یه که عالم الغیب کو وحی کی ضرورت نھیں رھتی.
 یه تحصیل حاصل ھے اور جس پر وحی نازل نه ھو وه پیغمبر ھی نھیں لھذا ایک بات کنفرم ھے یا تو انبیاء ع کو پیغمبر مانو یا پھر عالم الغیب مانو.

بیک وقت دونوں کا ماننا اجتماع النقضین ھے لھذا ثابت ھوا که علم غیب کا عقیده انکار نبوت کو مستلزم ھے.

دوسری جگه ارشاد باری تعالی ھے :
وعلمک مالم تکن تعلم .
سوره نساء ع:113.
ترجمه:
اور تجھے وه سکھایا جو تو نھیں جانتا تھا.

اب غالی اس آیت سے یه معنی نکالتے ھیں که حضور ص کو تمام آئنده اور گزشته واقعات کی خبر دے دی گئی اب کلمه
  ما   عربی زبان میں عموم کیلۓ ھوتا ھے .

اس میں کوئی شک نھیں الله تعالی نے پاک نبی ص کو بھت علم دیا.
 لیکن اس سے ماکان ومایکون کے علم غیب پر استدلال کرنا حقیقت کا منه چڑانے کے مترادف ھے یه تو ایسے ھی ھے جیسے الله تعالی نے 
علم الا نسان ما لم یعلم 
سوره علق ع:5.
جس نے انسان کو وه سکھایا جو وه نھیں جانتا تھا.
اس آیت میں بھی لفظ  ما  موجود ھے 
مگر ظاھر ھے انسانوں کو بھی ماکان ومایکون کا علم غیب حاصل نھیں ھے بعض کھتے ھیں علم الا انسان سے مراد نبی ص ھیں جبکه یھی غالیوں کا عقیده ھے آپ بشر (انسان)نھیں نور ھیں.

 اب غالی کیسے پینترۓ بدلتا ھے اور آپنا دفاع جاھلانه طرز پر ھماری آنکھوں میں دھول ڈالتے ھوۓ ناکام کوشش سے کرتا ھے.
مگر سیاق و سباق اس مفھوم کی اجازت نھیں دیتا اس سے پهلے یه آیت ھے 
الذی علم بالقلم جس نے قلم کے زریعے علم سکھایا.
اب نبی پاک ص لکھنا پڑھنا نھیں جانتے تھے خاص طور پر اس وقت جب یه آیت نازل ھوئی .

وما کنت تتلوا من قبله من کتب ولا تخطه بیمینک .
ترجمه:اس سے پهلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے ناں تھے اور نه کسی کتاب کو آپنے ھاتھ سے لکھتے تھے.
سوره عنکبوت ع:48.

نیز ارشاد ربانی ھے:
 ویعلمکم مالم تکونواتعلمون .

ترجمه:اور تمھے وه چیزیں سکھاتا ھے جس سے تم بے علم تھے.
سوره بقره ع:151

کیا نبی ص مسلما نوں کو ماکان ومایکون کا علم غیب سکھاتے تھے 

وعلمتم مالم تعلموا انتم ولا اباؤ کم 

ترجمه:تم کو ایسی بھت سی باتیں سکھائی گئی ھیں جن کو تم نه جانتے تھے اور نه تمھارۓ بڑۓ.
سوره الانعام ع:91.

کیا یه مخاطب اور ان کے اباءواجداد سب عالم الغیب ھی تھے حضرت موسی ع نے آپنی قوم سے فرمایا :

واتا کم مالم یوت احدا من العالیمین .

ترجمه:اور تمھے وه دیا جو تمام عالم میں سے کسی کو نه دیا .

تو کیا الله تعالی نے کائینات کی ھر شے کا علم حضرت موسی کو دے دیا اور جو کسی کو بھی نه دیا.
 کیونکه غالی ما کا مطلب ماکان ومایکون سے مراد لیتا ھے اور یھاں بھی ما کا مطلب بھی یھی ھونا چاھیۓ.

کل ھم ماکان ومایکون پر غالی سے وضاحت لیں گے که یه کونسا علم ھے کیونکه قرآن مجید میں ھے .
مافرطنا فی الکتاب من شئ 
ترجمه:ھم نے کتاب میں کوئی چیز نه چھوڑی .
سوره الانعام ع:38.
یه کونسی کتاب ھے قرآن مجید یا عالم ھستی سے مراد ھے کیونکه عالم آفرنشین بھی ایک کتاب کی مانند ھے جسمیں تمام چیزیں آ گئی ھیں اور کوئی بھی چیز اس میں فروگزار نھیں ھوئی.

یه بھی ھو سکتا ھے اس سے مراد دونوں تفاسیر ھی مراد  ھوں کیونکه قرآن میں بھی تمام امور انسانیت کی تربیت کے موجود ھیں اور نه ھی عالم آفر نشین و خلقت میں کوئی نقص,کمی,کسر ره گئی ھے.

ہفتہ، 25 مئی، 2019

علم غائب اور یھودی کی زره کا واقعه قسط نمبر:10

علم غیب والا عقیده

                                
قسط نمبر:10.     تحریر و تحقیق : سائیں لوگ

آج کی ھماری یه پوسٹ غالیوں کےجھوٹے بھتان که انبیاء و آئمه معصومین ع عالم الغیب ھیں کے عقیده فاسده کو برباد اور بے نقاب کرنے کیلۓ کاری ضرب ثابت ھو گی.
گزارش ھے ھر بھائی پوسٹ کی تحریر کے متعلقه کمنٹس کریں ھماری وضاحت حاضر ھے معترض نے رد پیش کرنا ھے غیر متعلقه و توھین پر مبنی کمنٹس سے احتراز اور اخلاقیات کا پاس رکھا جاۓ.

ھم ایک اھم آیت کے متعلق بحث کریں گے جو علم غیب کے متعلق ھے اس واقعه میں ایسا ھوا که آپ ص شھادتوں کی روشنی میں چور کے حق میں فیصله کے قریب پهنچ چکے تھے که جبرائیل ع پیغام الھی لے کر پهنچ گۓ اور حقیقت حال سے مطلع فرمایا.
اب سوال یه پیدا ھوتا ھے که اگر آپ ص عالم الغیب ھیں تو اس واقعه کی نوعیت کو کیوں ناں جان سکے.

ھمارا یه سوال علم غیب کی پهلی پوسٹ سے لے کر چھٹی پوسٹ تک  کے ساتھ  دھرایا جارھا تھا .
مگر بدقسمتی سے غالی کو گالی کے سوا علمی جواب دینے کی ھمت ھی نه ھوئی.

 لیکن آج ھم خود وضاحت دے رھے ھیں یه واقعه اھل تشیع کی معتبر تفسیر تفسیر نجفی سمیت ھر تفسیر  میں درج ھے .
سکین لگا دیا ھے ساتھ ھم نے اھلسنت برادران کی چند میسر اھم تفاسیر کے سکین بھی لگا دیۓ ھیں.

سب سے پهلے ھم ترجمه پیش کرتے ھیں بعد میں واقعه کی وضاحت جس زمن میں یه آیات نازل ھوئیں.

ترجمه. :بے شک ھم نے اتاری تیری طرف کتاب سچی که تو انصاف کرۓ لوگوں میں جو کچھ سمجھاوۓ تجھ کو الله ,
اور تو مت ھو دغا بازوں کی طرف سے جھگڑنے والا.

اور بخشش مانگ الله سے بے شک الله بخشنے والا ھے.

اور مت جھگڑ ان کی طرف سے جو آپنے جی میں دغا رکھتے ھیں.
 الله کو پسند نھیں جو دغا باز گنھگار شرماتے ھیں لوگوں سے اور نھیں شرماتے الله سے اور وه ان کے ساتھ ھے.
 جب که مشوره کرتے ھیں رات کو اس بات کا جس سے الله راضی نھیں اور جو کچھ وه کرتے ھیں سب الله کے قابو میں ھے.

سوره نساءآیت نمبر :105. تا. 109.

ویسے تو ان آیات سے ھی مطلب واضح ھے که پاک نبی ص کو خبردار کیا جا رھا ھے که خائنین اور دغاباز چوروں کی طرفداری نه کریں اور بے قصور یهودی پر چوری کا الزام نه دیں الله پاک سب جانتا ھے یه مسلمان صحابی خطاوار ھے جو آپنے ساتھ ناحق گواه تیار کرکے آپکو دھوکه دے رھے ھے.

مختلف تفاسیر میں واقعه دو تین طرح کا بیان ھوا ھے مگر مقصد اور مدعا وھی ھے که آپ شھادتوں کی روشنی میں چور کے حق میں فیصله دینے والے تھے .

ایک واقعه میں آٹا چوری اور ھتھیار چوری کا الزام ھے دوسری جگه صرف یھودی کی زره چوری اور تیری جگه ایک چادر چوری کا واقعه درج ھے.

مگر ھم وه واقعه بیان کرتے ھیں جو تفسیر معتبره میں وثوق سے بیان ھوا ھے.

یه واقعه کچھ اس طرح ھے که ایک صحابی نے یھودی کی  زره چوری کی یھودی یه فیصله لے کر پاک نبی ص کی عدالت  میں پیش ھوا مسلمان صحابی نے آپنے ھمنواوں کے ساتھ یه کوشش کی که یه زره میری ھے اور بھت سے جھوٹے لوگوں نے صحابی کے حق میں گواھی بھی دی اتنے میں رسول الله ص یھودی کے خلاف فیصله دینے والے تھے که وحی نازل ھوئی جس نے حقیقت کا پول کھول دیا اور رسول الله ص نے یھودی کے حق میں فیصله دے دیا.

 اور زره یھودی کو واپس کر دی یه صحابی طمعه یا بشر بن ابرق نامی تھا جس کا تعلق قبیله بنی ظفر سے تھا اس کے بعد یه منافق صحابی مسلمانوں سے الگ ھو گیا اور مکه چلا گیا اور کھلم کھلا رسول اکرم ص کی مخالفت شروع کر دی.

بحوالا تفسیر تفھیم القرآن جلد :1,ص:393.

تفسیر عثمانی جلد :1,ص:311/312.

تفسیر نجفی ص:130/131.

تفسیر شاه رفیع الدین ص:115/116
.
تفسیر ابن کثیر جلد:1ص:756/758.

تفسیر طبری جلد:4ص:667.

معارف القرآن جلد:2ص:156.

علم غائب اور واقعه افک کا مسله ...قسط نمبر:9

علم غیب والا عقیده 
                             اور واقه افک کی حقیقت


قسط نمبر:9.    تحریر و تحقیق : "سائیں لوگلوگ

واقعه چاھے حضرت عائشه کے متعلق ھو یا حضرت ماریه قطبیه کے متعلق مگر موضوع نذاع علم غائب ھے .

مگر آج ھم شیعه مذھب کی تفاسیر اور معتبر سیرت و تاریخ کی کتب سے ثابت کریں گے که یه واقعه حضرت عائشه کے متعلق ھے .

جمھور کی روایت ھے که وه خاتون جس کی وجه سے سرکار رسول پیغمبر ص ایک ماه سے زائد پریشان رھے اور حضرت عائشه اس الزام کی وجه سے بیمار ھو گئیں ایسا کیوں ھوا اگر رسول الله ص علم غائب جانتے تھے تو
اتنے دنوں اس واقعه کی تفتیش اور مختلف اصحاب کرام بمعه ابو الائمه سرکار مولا علی ع سے راۓ کیوں لیتے رھے.
جو بالاخر ایک ماه سے زائد گزر جانے پر جب الله تعالی نے
 سوره نور آیت نمبر 11. تا. 27,
میں تفصیلی حضرت عائشه کی پاکدامنی پر وضاحت دی تب جا کے حالات چاه مگویاں وسوسے اور شوشوں اور غلط قیاس سے جان چھوٹی.

غالی یھاں آ کر جھوٹا ثابت ھو جاتا ھے اگر انکار کرتا ھے تو منکر قرآن بنتا ھے اگر عالم الغیب نھیں مانتا تو اس کے فاسد عقیده کی نفی ھوتی ھے.

ھماری آنے والی پوسٹ میں مذید انکشاف ھوں گے لھذا براه کرم ھم سے جڑۓ رھیۓ.

زیاده تر شیعه مفسرین اس بارۓ جمھور ھی کے ھم آواز ھیں که یه واقعه غزوه بنی مصطلق سے واپسی میں جناب عائشه رفع حاجت کیلۓ اونٹ سے اتری تھیں اور ان کے گلے کا ھار گم ھو گیا تھا جسکی تلاش کی وجه سے قافلے سے بچھڑ گئیں اور منافقین کو بھتان لگانے کا موقع میسر آیا.
ان اصحاب میں عبدالله بن ابی سمیت معتبر صحابه بھی موجود تھے جو جنگ بدر میں بھی شرکت کر چکے تھے اور اس بھتان کو ھوا دینے پر بعد میں انھیں کوڑوں کی سزا بھی دی گئی.

اب یه واقعه آپ شیعه مذھب کی تفاسیر
تفسیر نجفی

 تفسیر نمونه ع:11/27,

تفسیر قمی,

تفسیر المیزان

تفسیر فصل الخطاب جلد ,2ع:11,

تفسیر المبین ع:11,

تاریخ اسلام (واقعه افک)ص:330,

چوده ستارۓ غزوه بنی مصطلق ص:29.

سیرت صادق الاامین ص:431,

رحیق المختوم ص:452.

ترمذی جلد دوم,تفسیر سوره نور,ص398

بخاری شریف تفصیلی زکر ھے مختلف مقامات پر  ان کتب میں ھم نے خود یھی واقعه ملحاظه کیا عکس لگا دیۓ ھیں.

علم غائب اور واقعه افک کی حقیقت...قسط نمبر :8

علم غایب والا عقیده آور واقعه افک
                                   
قسط نمبر :6/2.   تحریر و تحقیق : سائیں لوگ

.

کل کی پوسٹ سے تحریر کا بقیه حصه جس میں غالیوں کے بھتان کا کلام مقدس کی روشنی میں رد پیش کیا گیا.

اب غالی کھتا ھے که خود رب نے بھی بھت روز اس واقعه کے متعلق آیات نه اتاریں تو کیا الله پاک بھی نھیں جانتے تھے.

غالی ھمیشه الله پاک کے افعال میں رسول الله ص کو مقابلے میں لے آتے ھیں انھیں خدا کا خوف کرنا چاھیۓ الله تعالی نے جب مناسب سمجھا خبر دے دی.

 نبی پاک ص نے آخری وقت تک یھی فرمایا که عائشه اگر گناه ھوا ھے تو الله تعالی سے توبه و استغفار کر لو وه غفور و رحیم ھے اگر پاک نبی ص کو علم تھا تو آخری وقت تک اظھار کیوں نه فرمایا
 جب تک آیات نازل نه ھو گئیں.

 کیا پاک نبی ص پر کوئی پانبدی تھی دوسرا غالیوں کا عقیده ھے که آپ ص اور آئمه معصومین ع ھر جگه حاضر و ناضر ھوتےھیں اگر یه سچ ھے تو پھر آپ ص حضرت عائشه کی گمشدگی کے دوران ان کے ساتھ ھی ھوں گے تو پھر صحابه کرام سے کیوں حضرت عائشه کی عصمت کا پوچھتے رھے اور الله پاک کے اس فرمان کی کیوں مخالفت کی که 

لا تکمو الشھادة ومن یکتبھا فانه اثمه قلبه.

ترجمه: اور تم گواھی کو نه چھپاؤ جو اسے چھپاۓ گا وه گنھگار دل والا ھے.
سوره بقره آیت :283.

حالنکه غالیوں نے آپنی تفاسیر میں بھی تسلیم کیا ھے که خود حضرت عائشه بھی بار بار سب کو بتاتی رھیں که میں بے قصور ھو کیونکه انھیں تو یعقین تھا که میں پاکدامن ھوں پھر بھی رسول الله ص سمیت کسی نے ان کی بات کا یعقین نه کیا.

  لیکن حضرت عائشه متواتر کھتی رھیں که خدارا میری عصمت و عزت کی بات ھے اس کا ڈھنڈورا نه پیٹو میرا کوئی جرم نھیں.میں بے قصور ھوں.

حضرت عائشه کی اس بات سے یعقین ھوتا ھے که آپ ص عالم الغیب نھیں.

دوسرا جب تک الله تعالی نے قرآن میں واضح نه فرمایا کسی نے بھی حضرت عائشه کی بات پر یعقین نه کیا.

سوره نور ع:12
میں الله پاک فرماتا ھے    ترجمه:
اور سنتے ھی مومن مردوں و عورتوں نے آپنے حق میں نیک گمانی کیوں نه کی اور کیوں نه کھه دیا که یه تو کھم کھلا صریح بھتان ھے.

اس آیت سے معلوم ھوتا ھے که نزول برات سے پهلے مسلمان پر نیک گمانی واجب اور بد گمانی حرام تھی.

اس بھتان کے خالق عبدالله بن ابی منافق کو ان آیات کے نذول کے بعد حضرت سعد بن معاز جیسے سچے اصحاب عبدالله بن ابی منافق کو قتل کرنے تک کیلۓآماده ھو گۓ.

بات سوچنے کی یه ھے که اگر پاک نبی ص عالم الغیب ھیں تو صاحبه کرام کی محفل میں اس سچ کا اظھار کیوں نه فرمایا اور جو عصمت کی دھجیاں منافقین و مشرکین کی طرف سے آڑائی گئیں ان کا توڑ کیوں نه کیا اور اس غیب کا کیا فائده جو عزت کی رسوائی کو بے نقاب نه کر سکے.اور حقیقت سامنے نه لائی جا سکے.

یه کیسی میعاد ھے جو ایک ماه سے اوپر گزر جانے پر وحی خداوند سے حقیقت واضح ھوئی.

بڑی حیرت کی بات ھے آج چوده سو سال بعد غالی آپ ص اور آئمه معصومین ع پر عالم الغیب کا جھوٹ باندھ رھا ھے.

اس واقعه میں سچے مخلص اصحاب سمیت خود ابو الائمه حضرت علی ع بھی موجود تھے خود انھوں نے بھی پاک نبی ص کی کوئی مدد نه فرمائی.بلکه یهاں تک کهه دیا که آپ کو بیویوں کی کیا کمی ھے جبکه سوره تحریم میں خود الله پاک بھی دوسری شادیوں کی اجازت فرما چکے تھے.

مقام حیرت ھے اتنی برگزیده ھستیوں کو بھی توفیق نه ھوئی که کھه دیتے که آپ تو لوح محفوظ کے حافظ ھیں.
 عالم الغیب ھیں  ماکان وما یکون کا علم آپکے علمی سمندر کا ایک قطره ھے.

 ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبر اور تمام ملائکه آپکے شاگرد ھیں پانچ کروڑ برس دریا خاص میں آپ کی حاضری رھی ھے آپ سے تو کچھ بھی مخفی نھیں لھذا کیوں خود آپنی غیرت و عزت کی رسوائی کرا رھے ھیں.
8
مگر یھاں معامله الٹ ھے شاعر رسول الله ص جناب حسان بن ثابت,جن کیلۓ آپ ممنبر رکھوایا کرتے تھے  وه اور حضرت مسطح بن اثاثه اور ام المومینین حضرت زینب کی ھمشیره اور رسول ص کی پھوپھی زاد حمنه بنت حجش اس بھتان کی تشھیر میں زور شور سے شریک تھے آیات نذول برات کے بعد سزا کے طور ان سب کو کوڑۓ لگاۓ گۓ.

جب ھم اتنے واضح اور محکم آیات و مستند دلائل سے غالیوں کے دعوی کو رد کرتے ھیں تو پھر یه بدبخت ھمیں وھابی,کافر,مرتد وغیره جیسے القابات و خطابات سے نوازتے ھیں.
جبکه یه گمراه لوگ ھماری پوسٹ پر آ کر علمی گفتگو سے بات نھیں کرتے بلکه معاویه کی طرح گالی گلوچ اور لعن تعن کے کمنٹس کر کے بھاگ جاتے ھیں.

علم غائب اور واقعه افک کی حقیقت...قسط نمبر:7

علم غیب والا عقیده واقعه افک اور غالی مسلمان.  
                                 
"قسط نمبر:7.    تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ


اھل غلو اس واقعه سے بھی حق پهچان سکتے ھیں اگر زره غور کریں تو.

افک بات کو الٹ دینے اور حقیقت کے خلاف کچھ کھ دینے کے معنوں میں ھے.

فرقه امامیه اور غیر امامیه میں اختلاف ھے.
 صاحب تفسیر المیزان کو دونوں روایات میں تامل ھے.

تفسیر قمی میں ھے که یه آیات حضرت عائشه کے متعلق ھیں.

تفسیر مبین میں بھی حضرت عائشه کا بھی اور حضرت ماریه قطبیه  دونوں کے واقعات لکھے ھیں  چاھے جو بھی ھو پر بات غیب پر ھے جب تک وحی نه آئی آپ کو خبر نه ھو سکی.

تفسیر نجفی میں بھی یهی تشریح ھے بلکه سکین بھی لگا دیا ھے.
سوره نور آیت:11.
اھلسنت کی ھر تفسیر اور صحاح سته سمیت معتبر کتب میں حضرت عائشه ھی مراد ھیں.

رسول الله ص غزوه بنی مصطلق سے واپس تشریف لا رھے تھے اس غزوه میں حضرت عائشه بھی قافله کے ھمراه تھیں اور ایک مقام پر وه قافله سے بچھڑ گئیں صفوان بن معطل رض جو قافله کے پیچھے چل رھے تھے انھوں نے حضرت عائشه کو دیکھا اور اونٹ پر بٹھا کر قافله تک پهنچایا .

ایک منافق عبدالله بن ابی نے عزت کی تھمت لگا دی اب آپ ص پر کیا گزری اس تحریر کا مطالعه کریں.

اب غالی کھتے ھیں که آپ ص اس معامله میں بھت پریشانی میں رھے مگر بغیر وحی کچھ فرما نه سکے که یه تھمت صحیح ھے یا غلط بات یه ھے که.
 اگر علم غیب ھوتا تو پھر لگاتار پریشان ھونے کی ضرورت نه ھوتی اور اتنے روز خاموشی کیوں فرمائی.

ھار کی گمشدگی یا رفع حاجت کی وجه سے قافلے سے بچھڑنے والی بی بی کا خالی  ھووج کیوں اونٹ پر اٹھا کر رکھ کے چل دیۓ ھووج کو اٹھانے والے اصحاب یا پیغمبر اکرم ص کو کیوں علم نه ھو سکا که بی بی عائشه تو اس کے اندر ھے ھی نھیں.

وزن تک بھی احساس نه ھوا دوسرا اگر پاک نبی ص کو معلوم تھا که ھار گم ھو گیا ھے یا فلاں جگه پڑا ھے تو بتایا کیوں نھیں.

تیسرا اگر معلوم تھا که ھار تلاش کیلۓ حضرت عائشه دور نکل گئی ھیں تو تیمم کے واقعه کی طرح قافلے کو رکوایا کیوں نھیں.

 کیونکه تیمم والے واقعه میں صرف ایک ھار کی گمشدگی کیلۓ آپ نے ساری رات قافلے کو رکواۓ رکھا.
 مگر یھاں ناں صرف ھار بلکه پیاری اور چھیتی لاڈلی بیوی حضرت عائشه بھی گم ھیں.
مگر پھر بھی آپ قافلے کو لے کر چل دیۓ.

کیا یه عجیب تضاد نھیں ھے کیا.کیا رسول الله ص کو معلوم نھیں تھا که اونٹ پر رکھا ھووج خالی ھے کیا ایک غیرت مند شوھر برداشت کر سکتا ھے که وه آپنی لاڈلی بیوی کو جنگل میں اکیلا چھوڑ کر چلا جاۓ.

اب غالی کا عقیده ھے که نبی ع و معصومین ع عالم الغیب ھوتےھیں .

تو اس قافله میں آپ ص سمیت حضرت علی ع اور معتبر اصحاب بھی موجود ھیں حتی کے حضرت عائشه کے والد محترم بھی ساتھ تھے,
یه سب ھر وقت آپکے علم سے فیض یاب ھوتے رھتے تھے ان کو بھی معلوم نھیں ھو سکا.
جبکه حضرت عائشه کے خود یه الفاظ ھیں که  
           رھم یحسبون انی فیه

وه سمجھتے که میں ھووج کے بیچ میں ھی ھوں.حضرت عائشه سو گئیں اور فرماتی ھیں.

        نظقنت انھم سیفقدون فیرجعون

میرا خیال تھا جب میں انھیں نھیں ملوں گی تو وه میری تلاش میں لوٹیں گے.

تو صفوان بن معطل رض کی راھنمائی میں قافله تک پهنچائیں گئیں.

ام مسطح سے بھی پوچھا گیا انھوں نے آپنی والده سے تصدیق چاھی.
حضرت اسامه سے بھی مشوره ھوا تو انھوں نے جواب دیا:
                             لا نعلمه الا خیرا
میں تو انھیں صحیح سمجھتا ھوں.

اگر پاک نبی ص کو علم تھا تو پھر حقیقت بارۓ معلوم کیوں کرتے رھے.

حضرت زینب سے مشوره کیا تو انھوں نے کھا :
        والله ما علمت الا خیر
بخدا میں انھیں صحیح سمجھتی ھوں.

حضرت علی ع سے پوچھا گیا تو آپ نے مشوره دیا که بیویوں کی کیا کمی ھے.

حضرت بریره سے پوچھا تو انھوں نے کھا ھم نے کوئی قصور کبھی نھیں دیکھا.

حضرت ام ایمن سے بھی پوچھا تو انھوں نے بھی محفو ظ قرار دیا.

اتنے شواھد اکٹھے کرنے کے بعد آپ کچھ مطمعین ھوۓ عرض ھے که اگر آپ عالم الغیب تھے تو ایک ایک شخص سے کرید کرید کر سوال کرنے کی کیا ضرورت تھی.

 عجیب بات ھے جب آپ جن جن سے پوچھ رھے تھے تو انھوں نے یه کیوں ناں کھا که یارسول الله آپ خود ان معاملات سے آگاه ھیں تو ھم سے کیوں پوچھتے ھیں.

 مگر جب سوره نور آیت نمبر :11

 الله تعالی نے اس بھتان کو جھوٹ کھا تو تب جا کے آپ ص مکمل مطمعین و راحت میں آۓ.

اب غالی یه بھی کھتے ھیں که آپ ص کو علم تھا مگر اظھار نه فرمایا.

تو عرض ھے اگر علم غیب تھا تو پھر اس کا انکار کرنے سے حضرت حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثه  اور حضرت حمنه بنت حجش کافر نه ھو گۓ.

 جو اس افواه کو پھیلانے میں پیش پیش تھے کیا شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت وغیره کو اس بات کا علم تھا که آپ ص عالم الاغیب ھیں اور آپ کو ھر بات کا علم ھے تو ھم کیوں خواه مخواه شور مچا رھے ھیں.

اتنی انسانی معلومات سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی.
اگر آپ کو علم یعقینی ھوتا تو آپ ان حضرات سے گواھیاں نه لیتے.

تو اسی لیۓ الله پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:
ترجمه: آۓ ایمان والوں جب تمھارۓ پاس مسلمان مرد اور عورتیں ھجرت کرکے آئیں تو تم ان کا امتحان لیا کرو دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا الله ھی ھے. لیکن اگر وه تمھیں ایماندار معلوم ھوں تو اب تم انھیں کافروں کی طرف واپس نه کرو.
سوره الممتحنه آیت :10.

اس آیت میں الله تعالی کا علم الیعقین  پر اور لوگوں کا علم گمان پر غالب دلالت کر رھا ھے نیز جیسے کوئی رشتے کا خواھش مند  آپ سے پوچھے تو آپ کھتے ھیں که میری معلومات مطابق اچھا ھے.

اسی واقعه کے متعلق آپ نے حضرت عائشه سے کھا اگر تم سچی ھو تو الله تعالی ضرور  برات فرماۓ گا.اور اگر گناه کیا ھے تو پھر الله سے توبه و استغفار کرو.
الله تعالی معاف فرمانے والا ھے.

(اسی موضوع پر مذید بحث جاری ھے انتظار فرمایئے.)

علم غائب اور اھل غلو....قسط نمبر:6

  • علم غیب والا عقیده آور اھل غلو کی خرافات
    1.                          
    2. قسط نمبر:6.         تحریر و تحقیق  : سائیں لوگ

    3. ویسے تو غلو ھر مذھب میں پایا جاتا ھے مگر اسلام میں اھلسنت بریلوی اور شیعه مذھب آپنا ثانی نھیں رکھتے جن میں ایک واقعه ھم درج کر رھے ھیں.

    4. تفسیر روح البیان میں ایک حدیث ھے که حضرت آدم علیه اسلام کو سات لاکھ زبانیں سکھائی گئیں .

    5. مگر جب ھم نے  اس مبالغه آمیز گپ کا حوالا کتاب تلاش کرنا چاھا تو نھیں مل پایا.

    6. اھل غلو ایک بات یه بھی کھتے ھیں که رسول الله ص کے علم کے دریا کے یا میدان کے مقابلے میں حضرت آدم ع کا علم کا ایک زره بھی نھیں ,

    7. بے شک ھمارا اس پر ایمان ھے مگر غالی کی اس خرافت کا کیابنے گا.

    8. اگر حضرت آدم ع کو سات لاکھ زبانیں سکھلائی گئیں تھیں تو پاک نبی ص کو تو لازما کھربوں زبانیں سکھائی گئیں ھوں گی .

    9. مگر امر واقع یه ھوا که آپ ص نے حضرت زید بن ثابت رض کو یھود کی سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا مجھے یھود پر اعتماد نھیں ھے.

    10.  چنانچه زید بن ثابت کھتے ھیں که میں نے نصف ماه سے کم مدت میں ان کی زبان سیکھ لی حضرت زید کھتے ھیں که اب میں ھی یھود سے خط و کتابت کرتا تھا.

    11. (بحوالا ترمذی باب العلم سریانی)
    12. اگر پاک نبی ص کو سریانی زبان آتی تھیں تو پھر یھود پر بداعتمادی کرتے ھوۓ حضرت زید کو زبان سیکھنے کا کیوں کھا.

    13.        ( غلو اور غالی مو ضوع جاری ھے)

    علم غائب کا عقیده اور عقلی دلائل ...قسط نمبر :5

    علم غائب والا دعوی آور عقلی دلائل  
                                      
    قسط نمبر :5.      تحریر و تحقیق: سائیں لوگ

    نوٹ : تحریر عقلی دلائل پر ھے لھذا فکر کر کے جواب دیا جاۓ ناکه تنقید اور ھٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ھوۓ پرانی فطرت گالی گلوچ کا تبادله نھیں.

    اب چیده چیده چند آیات کی وضاحت آپنے عقلی دلائل سے اھل غلو سے جاننے کی توقع رکھتے ھیں.

    علم غائب کے ثبوت میں اھل غلو فرماتے ھیں.
     وعلم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملائکة.
     (سوره بقره ع :31)

    ترجمه :
    الله تعالی نے آدم کو تمام نام سکھا کر فرشتوں کے سامنے پیش کیۓ.

    اس بحث سے پهلے ھم
      اس روایت پر بحث کرتے ھیں که سارۓ انبیاء کرام ع کا علم اور مخلوق کا علم حضور ص کو دیا گیا.

    تو جس چیز کا علم کسی مخلوق کو ھے وه سب رسول الله ص کو بھی ضرور ھے 
    بلکه سب کو جو علم ملا ھے وه حضور ص کی تقسیم سے ملا .

    جو علم شاگرد استاد سے لے ضروری ھے که استاد بھی اس کے جاننے والا ھو.

    قرآن کی آیت کا اھل غلو کچھ اس طرح مطلب لیتے ھیں که.

     وما ھوا علی الغیب بضنین.

     کا ترجمه یه کرتے ھیں که اور یه نبی ص غیب بتانے میں بخیل نھیں ھے.

    اب گزارش ھے که اگر حضور ص کو ساری مخلوقات کے علوم کا بھی علم تھا تو لازما آپ کو سائینسی ایجادت کا علم بھی ھوگا اور ایٹمی ھتھیاروں کا علم بھی ھو گا.

     تو پھر آپ ص نے یه سب کچھ اھلبیت ع یا صحابه کرام رض کو کیوں نه بتلا دیا تاکه پیھه جلدی ایجاد ھو جاتا اور مسلمان جلدی ترقی کر جاتے اور قرآن کی اس أیت کا حکم بھی پورا ھو جاتا .

    وعدو والھم ما استطتعتم من قوة .

    ترجمه : تم ان کے مقابله کیلۓ آپنی بھر پور 
    طاقت کی تیاری کرو.
    (سوره انفال ع :60.

    تو اس حکم کے بعد مسلمان کلاشنکوف بناتے,ایٹم بم بناتے,ھائیڈروجن بم بناتے بلکه اس آیت میں من قوة کے آگے ومن رباط الخیل کی بجاۓ یه ھونا چاھیۓ تھا ایف 16,جے ایف 17,7 تھنڈر بناؤ,بناؤ طیاره شکن توپیں بناؤ ,ٹینک بناؤ آبدوزیں بناؤ .

    بلکه حضرت آدم سے لے کر تمام انبیاء کرام اگر رسول الله ص شاگرد تھے اور آپ ان کے استاد تھے تو یه کام بهت پهلے کیا ھونا چاھیۓ تھا.

    اور کچھ نه ھی بناتے کم از کم دو نالی بندوق ھی بنا کر پاک نبی ص کفار و مشرکین سے مقابله کرتے کیونکه الله پاک دشمن کے مقابلے میں  بھر پور قوت کی تیاری کا حکم دے رھے ھیں.

     خلق خدا کو ایک جانے بوجھے علم سے محروم رکھنا کوئی خوبی نھیں ھے.

    یه تھی اس آیت کے زمن میں وضاحت که نبی ص غیب کے علم بتانے میں بخیل نھیں ھے.

    گزارش ھے که الله تعالی وحی بھیجنے والا ھے جبرائیل ع پهنچانے والے ھیں اور انبیاء کرام ع وصول کرنے والے ھیں درمیان میں نبی ص کی استاد والی بات کیسی کیا کسی جگه پر کسی نبی ع نے اعتراف کیا ھے که ھم آخری نبی ص کے شاگرد رھے ھیں.

    لیکن اھل غلو کھتے ھیں که علم غیب کامنکر آپنے دعوی پر دلائل قائم کرۓ تو ان باتوں کا خیال رکھے .

    1. :وه آیت قطعی الدلالت ھو جس کے معنی میں احتمال نه نکل سکتے ھوں. یعنی آیت محکم ھو جس کا مطلب غیر واضح نه ھو.

    2. :اور حدیث ھو تو متواتر ھو یه بھت اچھی بات ھے علم غیب کے مدعی خود بھی اس بات کا ادراک رکھتے ھوۓ  درج بالا تحریر کا رد پیش کریں.

    علم غائب اور عقل سلیم قسط نمبر :4

    علم غائب والا والا عقیده آور عقل سلیم  
                                                
    قسط نمبر :4.         تحریر و تحقیق :سائیں لوگ

    سائیں لوگ

    انبیاء کرام اور آئمه ع ممکن الوجود مخلوق ھیں عقل سلیم حاکم ھے کوئی بھی مخلوق ایک وقت میں ایک ھی طرف توجه کر سکتی ھے لھذا زمین و آسمان کے تمام پوشیده رازوں کا بلفعل جاننا اس کیلۓ ممکن نھیں ھے.

    الله تعالی کے علوم غیر متناھی اور غیر محدود ھیں مگر یه بزرگوار بوجه مخلوق ھونے کے متناھی و محدود ھیں لھذا عقل کسی طرح بھی یه باور نھیں کر سکتی که ایک متناھی و محدود مخلوق غیر متناھی علوم کی بالفعل حامل ھو .

    نیز یه حقیقت بھی آپنے مقام پر ثابت کی جا چکی ھے که علم خدا کی صفت زاتی (عین زات)ھے.لھذا اس کے من و عن کسی مخلوق کی طرف منتقل ھونے کا سوال ھی خارج از بحث ھے .

    اگر بتمام و کمال علم خدا کسی اور کی طرف منتقل ھو سکے تو یه انتقال انتقال زات توحید کے مترادف ھو گا.جو که عقلا و شرعا محال و ممکن ھے.

    عقل سلیم کی روشنی میں تسلیم کرنا پڑۓ گا که یه بزرگوار علم کی اتنی مقدار ھی جانتے ھیں جتنی علم بالازات ان کو بتاتا ھے ھم آپنے عقول ناقصه  سے اس کی حد بندی نھیں کر سکتے.

    نه دینے والے مبدا فیض میں کمی اور بخل ھے اور نه لینے والے حضرات کے دامن طلب میں تنگی بلکه اس میں وسعت و پهنائی ھے اس لیۓ دینے والا برابر دے رھا ھے.

     اور لینے والے رب زدنی علما کھتے ھوۓ دامن مراد بڑھا کر اس میں جواھر علمیه جمع کر رھے ھیں ان حضرات کی روحانی خلقت سے یه سلسله برابر جاری ھے اور خدا ھی بھتر جانتا ھے که کب تک جاری و ساری رھے گا.

    اگرچه عام مخلوق خدا کی نسبت ان کا علم کلی اور اس قدر زیاده ھےکه  ان کے درمیان کوئی نسبت ھی قائم نھیں کی جا سکتی ھے.

           (اگلی پوسٹ کا انتظار کیجیۓ)

    علم غائب اور علماۓ حقه.

    علم غیب والا عقیده اور علماۓ حقه
                                        
    "قسط نمبر :3.        تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ



    علم غیب کے موضوع پر یه آج تیسری قسط ھے.
    ھم نے جھاں تک اس موضوع کے تمام پهلوں پر ٹھنڈۓ دل و دماغ کے ساتھ غور خوض کیا ھے اور فریقین کے دلائل و براھین کا پوری دیانتداری اور غیر جانبداری سے جائزه لیا ھے تو ھم اس نتیجه پر پهنچے ھیں.

     که یه تمام ھاؤ ھو اور بحث و تمیحص صرف نذاع لفظی ھے یعنی فقط الفاظ کا ھیر پھیر اور تعبیر کا چکر ھے.

    وگرنه کوئی باھمی اختلاف و افتراق نھیں چاھے جیسے ھی سمجھ لو یه علم دین الله تعالی کی زات سے ھے.

    بعض افراد کی طرف سے عقیده غلو کے زمن میں اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ھے تاکه کچھ Awareness, دی جاۓ.

     کیونکه امام جعفر صادق ع کا فرمان ھے که شرک شرک ھے چاھے رائی برابر ھی کیوں نه ھو.

    اس موضوع پر بھت جید علماء حقه نے حقیقت کی ترجمانی کرتے ھوۓ اس کی وضاحت دی ھے. اور نبی و امام ع سے علم غیب کی نفی فرمائی ھے.

    ویسے تو جید علماء میں سے ایک کثیر تعداد ھے مگر ھم اختصار کے پیش نظر زیل میں چند علماء کی راۓ پیش کرنے کی کوشش کرتے ھیں:

    شیخ مفید رح نے آپنی کتاب اوائل المقالات ص,77,/طبع ایران میں تحریر فرماتے ھیں .
    ترجمه :یعنی یه کھنا که آئمه علیهم اسلام عالم الغیب ھیں بالکل فاسد اور باطل قول ھے. کیونکه اس وصف (عالم الاغیب ھونے)کا حقدار صرف الله کی زات ھے.وھی عالم ھو سکتا ھے.

    اسی عقیده پر مسلک شیعه  اثناۓ عشریه کا عقیده ھے ھاں غالی اور مفوضه اس کے قائل نھیں ھیں.
    یھی بات علامه مجلسی نے بھی بحار الانوار جلد ھفتم ص,415,
    پر بھی رقم کی ھے.

    حضرت سید مرتضی علم المھدی قدس سره نے آپنی کتاب الشافی میں قاضی عبدالجبار کا جواب دیتے ھوۓ لکھا ھے که ترجمه: یعنی قاضی نے یه بات تو درست کھی که جن چیزوں کا تعلق منصب امامت سے ھے ان کو جاننا امام کیلۓ ضروری نھیں ھے لیکن قاضی کا یه گمان غلط ھے ھم امام کیلۓ اس قسم کے علوم کو جاننا ضروری سمجھتے ھیں.

    علامه ابو الفتح کراجکی رح نے آپنی کتاب کنز اکفوائد ص,109 طبع ایران پر اعتقادات ایمانیه میں اپنا ایک مختصر رساله موسومه به البیان عن جمل اعتقاد اھل ایمان درج کیا ھے اس کے صفحه 110,میں لکھا که اھلبیت ع علم غیب نھیں جانتے مگر جس قدر خالق انھیں بتلا دے.

    فاضل جلیل جناب ابن قبه جو بھت بڑۓ علماء میں سے ھیں شرح الاصول من الکافی میں لکھتے ھیں یعنی جو آئمه اھلبیت ع کے متعلق علم غیب کا دعوی کرتا ھے وه مشرک ھے.

    عالم ربانی جناب شھر آشوب مازاندرانی آپنی کتاب متشابھات القرآن جلد 1,ص211,پر ایت مبارکه ولا اعلمه الغیب کے زمن میں لکھتے ھیں.

    ترجمه :امام علیھم اسلام کیلۓ عقلا شرعا یه واجب ھے که وه تمام علوم دین و شریعت کے عالم ھوں لیکن ان کیلۓ یه لازم نھیں که علم غیب اور ماکان ومایکون کا علم بھی رکھتے ھوں.
    کیونکه اس پر لازم آتا ھے که تمام معلومات خدا کے ساتھ شریک ھوں.حالنکه خدا کے علوم غیر متناھی ھیں.

    مجاھد کبیر علامه محسن الامین الحسینی قدس سره اعیان الشیعه آپنی کتاب مسطاب معاون الجواھر فی علوم الاوائل والااخراج ص,343,

    میں امام ع کے متعلق شیخ مفید اور سید مرتضی اور علامه حلی رح 
    کا کلام حق نقل کرنے کے بعد خود افاده فرماتے ھیں که امام سواۓ احکام کے تمام مایکون کے عالم نھیں ھوتے .

    سید مھدی الکاظمی القروزینی نے آپنی کتاب ظھور الحقیقیة طبع نجف اشرف ص,198 سے لے کر 214,تک آئمه اھلبیت ع کے عالم الغیب ھونے کی اور صاحب علم حضوری ھونے کی نفی پر علمی بحث فرمائی ھے.

    حضرت الفاضل شیخ محمد رضا المظفر النجفی نے رساله عقائد شیعه ص45,پر علم امام کے بارۓ لکھتے ھیں که جھاں تک  امام کا تعلق ھے وه معارف دینیه احکام الھیه اور دیگر تمام معاملات کو جناب رسول خدا اور سابق امام ع کے زریعے جانتے ھیں.اور جب نئ صورت حال رونما ھو تو قوت قدسیه کے زریعے الھام کے زریعه معلوم کر لیتے ھیں.

    مولا شیخ محمف اعجاز حسن بدایونی لکھنو آپنے رساله شمس الاعتقاد ص,56/57,
    طبع سرفراز لکھنو  ایجنسی,علم نبی و امام ع کے بارۓ لکھتے ھیں خدا نے واسطه مخلوق آپنے حبیب کو تعلیم عطا فرمائی اور اب سلسله فیض جاری ھے.
    اور آئنده بھی جاری رھے گا.آپنے رسول اور اھلبیت ع کو بقدر ضرورت و مشیت تعلیم دی.

    بعض لوگ علم تفصیلی کو معصومین ع کیلۓ کمال بتاتے ھیں یه انکی غلط فھمی ھے وگرنه اگر علم مذکوره کو باعث کمال مانا جاۓ گاتو کسی وقت بھی یه کمال متصور نه ھوں گے.
    اس لیۓ علم تفصیل کی تعلیم کسی بھی وقت بھی ختم نھیں ھوئی اور نه آئنده ختم ھو گی وجه اسکی وھی ھے که علوم الھیه غیر متناھی ھیں.
    پس جب تک تعلیم ختم نه ھو کمال حاصل نھیں ھو سکتا ھاں اجمالی تعلیم موجب کمال ھے وه بقدر ضرورت و مصلحت ھر زمانه میں جاری رھی جسکا خلاصه قرآن کی ایک آیت میں بیان ھوا یعنی علمک مالم تکن تعلم وکان فضل الله علیک عظیما,
     ترجمه:
    آۓ رسول تم کو الله نے وه چیزیں سکھا دیں جو تم نھیں جانتے تھے اور خدا کا فضل تم پر عظیم ھے.(القرآن)
    مذید اس عقیده کی درج زیل علماء تائید و توسیع فرماتے ھیں.

    سرکار نجم العلماء سید نجم الحسن صاحب.

    مولانا دید محمد باقر صاحب.

    حضرت مولا سید آقا حسن صاحب.

    جناب مولا ھادی رضوی صاحب.

    دید ابو الحسن صاحب.

    مفتی محمد علی صاحب قبله.

    مولانا سید ابن حسن اعلی الله مقامه

    آیت الله شیخ محمد حسین النجفی.

    آیت الله شیخ محسن النجفی قبله.

    حجةالاسلام سید محمد تقی نقوی قبله.

    اس سے ظاھر ھے که یه عقیده  متحده ھندوستان کے تمام علماء کا بھی ھے.

          (اگلی پوسٹ کا انتظار کیجیۓ)

    علم غائب کا عقیده ...قسط نمبر:2

    :علم غائب والا عقیده اور آئمه طاھرین
                                        
    "قسط نمبر :2.           تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ

    ھم نے آج سے کچھ عرصه قبل ایک پوسٹ کی تھی که یه باریکی اور متنازعه مسائل ھیں جو بدقسمتی سے چند غلو پسند علماء نے اسلام کی اصل کو بگاڑنے اور اختلاف کو اجاگر اور آپنے دنیاوی مقاصد کی خاطر شخصی شھرت اور واه واه اور پیسے بٹورنے کی خاطر پیدا کیۓ ھیں.

     بدقسمتی س کم علم اور لکیر فقیر قسم کی اکثریت عوام من و عن تسلیم کرتی گئی.
     اب یه مسائل اتنے سرایت اور  گھمبیر رخ اختیار کر چکے ھیں که اگر علماۓ حقه اسے چھیڑتے ھیں تو ان کا ٹکر پانی بند ھوتا ھے ساتھ کفر اور لعن تعن کا طبق بھی برداشت کرنا پڑتا ھے.

    ھماری پوسٹ پر وه بھائی کمنٹس کرۓ جو دینی معاملات میں تھوڑی بھت سمجھ بوجھ رکھتا ھو یا نھیں تو سوال معقول کرتے ھوۓ ھم سے آگاھی لے.

    میں نے دیکھا ھے اکثر بھائی پوسٹ پڑھے بغیر تنقید شروع کر دیتے ھیں وه لکھنے والے کو دیکھتے ھیں یه نھیں دیکھتے که لکھا کیا ھے.
      اس عمل بد سے پرھیز کریں.

    فضول اور پوسٹ کے غیر متعلقه  کمنٹس سے براه کرم پرھیز کیا جاۓ.

    کل ھم نے علم غیب پر قرآن مجید کی روشنی میں,19/ محکم آیات پیش کیں اور ایک آیت سوال کے طور پر چھوڑی.

     مگر بدقسمتی سے کسی نے رد نھیں پیش کیا بلکه پوسٹ سے ھٹ کر آپنی خرافات اور ھمیں تعن و تشنیع کے ساتھ فضول چیلنج کرتے رھے.

    جب ھم نے للکار دی تو سب گیدڑ کی طرح انتشاری کیفیت پیدا کرکے رفوچکر ھوگۓ.

    الحمد لله ھمارۓ پاس الله کا کلام اور مولا علی ع کا فرمان ھے ھمیں کوئی ڈر نھیں.

    علم غیب :

    نھج البلاغه میں مولا علی ع کے کئی خ
    طبات میں علم غیب کے متعلق بیان موجود ھیں.
    جن سے واضح ھوتا ھے که مولا ع نے جو دعوے کیۓ علم غیب کے ان کا اقرار بھی کیا که یه سب علم مجھے رسول الله ص سے ملا اور انھیں الله تعالی نے دیا.

    سب سے پهلے ھم رسول الله ص کا ارشاد مبارک پیش کریں گے.
    سوره الانعام کی آیت کی تفسیر کے زمن میں جو مفسر قرآن جلیل طبرسی نے مجمع البیان جلد 1,ص/377
    میں بیان کی ھے.

    یعنی میں وه علم غیب نھیں جانتا جس کا جاننا خدا کے ساتھ مختص ھے.
    ھاں میں تو اتنی مقدار میں جانتا ھوں جتنا خدا مجھے بتاتا ھے.
    جیسے بعث و نشور اور جنت و جھنم وغیره.
    کذافی الصافی میں ص/55.

    آیا اس علان رسول کو سن کر بھی کسی کلمه گو کو یه حق پهنچتا ھے که وه نفی غیب کی بجاۓ اثبات غیب کا اعتقاد رکھےصادق رسول ص نے کیسی وضاحت سے بیان کر دیا ھے که میں علم غیب نھیں جانتا.

    اب  ھم آتے ھیں علم غیب کے متعلق نھج البلاغه میں دیۓ گۓ مولا علی ع کے خطبات کی طرف.
    مولا علی ع سے سوال ھوا که مولا آپکو تو علم غیب عطا ھے.
    اس سوال پر مولا ھنس پڑۓ اور اس سے فرمایا:
    آۓ کلبی یه علم غیب نھیں بلکه یه رسول ص سے حاصل کی ھوئی باتیں ھیں.

    جو خزانه علم الھی تھے علم غیب تو قیامت کا وقت.ماں کے پیٹ میں کیا ھے بچی ھے یا بچه, سخی ھے یا بخیل شقی ھے یا نیک جنت جاۓ گا یا جھنم پس وھی علم غیب ھے جسے کوئی نھیں جانتا.
    رھا دوسری چیزوں کا علم وه مجھے رسول ص اور انکو الله نے عطا کیں.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :128.ص,446/445.

    اگر مجھ سے غیب کی خبریں سنو تو اشاره ایک دوسرۓ کی طرف نه کیا کرو میں یه سب نبی ص کی جانب سے خبر دیتا ھوں نه خبر دینے والا رسول جھوٹا ھے اور ناں سننے والا جاھل تھا.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :101,ص/370/371.

    مولا علی ع الله تعالی کی حمد و ثنا بیان کرتے ھوۓ فرماتے ھیں اس کا علم غیب پردوں میں سرایت کیۓ ھوۓ ھے اور عقیده کی گھرایوں کا احاطه کیۓ ھوۓ ھے.
    نھج البلاغه خطبه نمبر:108,ص:381.

    اس خطبه میں امام حق علی ع سردار دو جھان کی نعت بیان کرتے ھوۓ فرماتے ھیں .
    جو چیزیں تم سے پرده غیب میں لپیٹ کر رکھ دی ھیں اگر تم بھی جان لیتے جس طرح میں جانتا ھوں تو یعقینا بد اعمالیوں پر روتے ھوۓ سینے پیٹتے.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :116,ص/406/407.

    اس خطبه میں الله تعالی کی حمد و ثنا بیان کی ھے حالنکه وه مخلوقات جو ھماری نگاھوں سے اوجھل ھے اور جن تک پهنچنے سے نظریں عاجز اور عقلیں سیرانداخته ھیں اور ھمارے اور ان کے درمیان غیب کے پردے حائل ھیں وه ان سے کھیں زیاده عظیم و بزرگ ھیں.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :159,ص:482/483.

    اس خطبه میں مولا علی ع نے کھا که خدا کی قسم اگر میں چاھوں تو ھر ایک شخص کو بتا سکتا ھوں که وه کھاں سے آیا ھے اور جاۓ گا.
    مجھے رسول ص نے ان تمام حالات اور ھلاک ھونے والوں کی ھلاکت اور نجات پانے والوں کی نجات اور اس امر خلافت کے انجام کی خبر دی ھے.

    نھج البلاغه خطبه نمبر
     :174,ص/517/518.

    مذکوره بالا ارشادات کے بعد اب ھم ایک واقعه پیش کرتے ھیں جسمیں مذکور ھے که ایک مرتبه امیر علیه اسلام خطبه دے رھے تھے که حسب معمول دعوی سلونی فرمایا تو حاضرین سے ایک شخص نے پوچھا این جبرائیل ھذا الوقت,
    تو امام ع نے فرمایا وعنی انظر  مجھے اتنی مھلت دو که میں دیکھ لوں  .
    آپ علیه ادلام فتنظر الی فوق والی الارض یمینه و یساره  :اوپر نیچے دائیں بائیں دیکھا اور فرمایا انت جبرائیل تو ھی جبرائیل ھے. نعره تکبیر  بلند ھوا اور پوچھا گیا حاضرین میں سے کسی نے یا امام ع آپ کو کیسے معلوم ھوا .

    ترجمه :امام علی ع نے جواب دیا  جب میں نے آسمان کی طرف پھر زمین اور دائیں بائیں دیکھا تو جبرائیل ع نظر نه آۓ اور فرمایا که یعقین ھو گیا که یھی جبرائیل ھیں.(انوار نعمانیه ص:13)

    اس سے ظاھر ھوتا ھے که امام کا علم توجه اور التفات کا محتاج ھوتا ھے تو یھاں پر ان غالی لوگوں کے گمان باطله بھی عیاں ھو جاتا ھے که عالم امکان کا زره زره ھر وقت امام کے سامنے حاضر ھے.
    بلکه یھاں واضح ھے که با علام الله اس طرح با آسانی سے معلوم کر لیتے ھیں.

    اب ھم آتے ھیں دیگر معصومین ع کے ارشاد مبارکه کی طرف که وه علم غیب کے متعلق کیا فرماتے ھیں.

    امام رضا علیه اسلام سے دریافت کیا گیا اتعلمون  الغیب ,کیا آپ علم غیب کے متعلق جانتے ھیں آپ آنجناب ع نے ارشاد فرمایا که ھمارۓ لیۓ جب علم کشاده کیا جاتا ھے تو جانتے ھیں جب بسته کر دیا جاتا ھے تو نھیں جانتے.

    اصول کافی میں پورا ایک باب ھے علم غیب کے متعلق جن میں ایک حدیث یه بھی ھے که سدیر بیان کرتے ھیں که ابو بصیر یحیی بزاز  اور داود کثیر امام جعفر صادق ع کی خدمت میں حاضر تھے که اچانک آنجناب ع آپنے دولت کده سے غضب ناک حالت میں برآمد ھوۓ جب آپنی نشست گاه پر بیٹھ گۓ تو فرمایا تعجب ھے ان لوگوں په جو یه گمان کرتے ھیں که ھم علم غیب جانتے ھیں.
     حالنکه خدا وند کے بغیر کوئی بھی نھیں جانتا.
    میں نے فلاح کنیز کو کسی جرم پر مارنا چاھا تو وه بھاگ کر گھر کے کسی کونے میں چھپ گئی اب معلوم نھیں که کس جگه ھے. 
    اصول کافی ص:128.

    امام عصر  والزمان علیه اسلام فرماتے ھیں اۓ محمد بن سمری رض یه غالی لوگ جو الله کی وصف بیان کرتے ھیں وه اس سے بلند و برتر ھے ھم تو اس کے علم میں اسکے شریک ھیں اور نه قدرت میں بلکه حقیقت یه ھے که علم غائب الله کے سوا کوئی نھیں جانتا.

    قرآن کی روشنی میں اور اب معصومین ع کے ارشاد مبارکه جامع اور محکم آیات و روایات سے ھم نے وضاحت دی .
    اس سلسله میں مذید کسی حدیث کے پیش کرنے کی ضرورت نھیں ھے .
    لھذا کل ھم علماۓ حقه کے علم کی روشنی میں علم غیب پر روشنی ڈالیں گے.
                                                           شکریه.

    علم غائب اور غالی مسلمان....قسط نمبر:1

    :علم غیب والا عقیده

                                     " قرآن اور اھل غلوغلو.     تحریر و تحقیق : " سائیں لوگ

    قسط نمبر :1

    علم غیب کا مسله اسلام کے آغاز سے ھی متنازه رھا ھے کچھ صدیاں قبل اس میں تب شدت آئی جب مسلمانوں کے دو گروه ایک اھل سنت میں سے اور ایک مذھب تشیع میں آپس میں مقابل آۓ ایک نے پاک نبی ص اور دوسرۓ نے مولا علی ع کی عظمت توحید تک جا ٹکرائی.

     انھیں کے مخالف ایک اور گروه ناصبی, وھابی معرض وجود میں آیا جس نے ان دونوں کے دعوی کی نفی کرتے ھوۓ نبی پاک ص اور آئمه معصومین ع کی تقصیر شروع کر دی.

     غلو والے گروه  جنھوں نے ان کفریه عقائد کی اشاعت شروع کی جو کلام الھی یعنی که قرآن مجید اور کلام پیغمبر ص یا آئمه معصومین ع کی تعلیمات سے یکسر متصادم تھے.

    اب یه غلو بڑھتے ھوۓ اوصیاء و اولیاء کرام حتی که فٹ پاتھ یا کسی دربار پر زنجیروں میں جکڑۓ بیٹھے ننگ دھڑنگ زمانے کے یا گھر کے ماحول کے ستاۓ ھوۓ فرضی و نقلی بزرگ تک بھی پهنچ چکی ھے.جو سائل کے حالات جان کر یا دست شناسی سے قیاس پر آنے والے دنوں کے حالات بتا دیتا ھے.

    درج زیل سورتوں میں علم غیب کی محکم آیات موجود ھیں:

    سوره آل عمران ع:179.
    سوره الانعام ع:58.
    سوره یونس ع:20.
    سوره نحل ع:77.
    سوره نمل ع:65.
    سوره لقمان ع:34.
    سوره فاطر ع:38.
    سوره جن ع:26/27.
    سوره الانعام ع:73.
    سوره الاعراف ع:187.
    سوره ھود ع:123.
    سوره الکھف ع:26.
    سوره سجده ع:6.
    سوره الاحزاب ع:63.
    سوره سباء ع:48.
    سوره الزمر ع:46.
    سوره الحجرات ع:18.
    سوره التغابن ع:18.
    سوره النازعات ع:43/44.

                      ***** علم غیب *****

    جہاں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اٹھارہ مختلف اسلوب و انداز سے 341, بار اپنے لئے صفتِ علم کا بیان اور علم غیب علم کُل علم محیط اور علم بسیط کا اثبات فرمایا ہے.

    وہاں اپنے سوا کسی برگزیدہ سے برگزیدہ مخلوق کسی فرشتہ یا ولی یا نبی حتیٰ کہ امام الانبیاء و المرسلین حضرت  ﷺ یا آئمه طاھرین ع کے لئے ایک دفعہ بھی اس کا ذکر نہیں فرمایا.

     بلکہ الٹا ان سے علم قیامت وغیرہ علوم کی نفی کی ہے علیٰ ہذا تمام ماسوی اللہ کے لئے علم غیب کی نفی فرمائی.

    غیب کے لغوی معنی:

    غیب کام معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ ھیں.
    المنجد،ص: 892.
    چھپی ہوئی اور پوشیدہ باتوں کا علم، پیشن گوئی کا علم، وہ علم جس سے گزشتہ یا آئندہ ہونے والی بات یا حالات معلوم کیے جائیں پوشیدہ باتوں یا چیزوں کاعلم.

    اصطلاحی معنی :

    علم غیب کے اصطلاحی معنی یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایسی باتوں کا علم جو حواس خمسہ اور اندازے سے معلوم نہ ہوسکیں.

    غیب ان امور کے جاننے کو کھتے ھیں جن کے علم و ادراک سے ھر قسم کے مادی حواس و ظاھری زرائغ قاصر ھوں.
    ان کا تعلق خواه زمانه حال سے ھو یا ماضی سے اور خواه مستقبل سے.
    (شرح اصول کافی از علامه مژندرانی)

    غیب کا علم صرف خدا تعالی ھی جانتا ھے مخلوق کا وه علم جو رمل و نجوم وغیره سے حاصل ھو یا کسی دوربین یا کسی اور زرائع سے حاصل ھو وه علم غیب نھیں ھے.

    آج ھم قرآن پاک کی ان محکم آیات کا زکر کریں گےجو علم غائب کے متعلق واضح ھیں.

    اس کے بعد نھج البلاغه و دیگر آئمه طاھرین ع کے ارشادات مبارکه , بعد میں علماۓ حقه اور عقل سلیم اور انبیاء و آئمه معصومین ع کےمختلف واقعات و حالات کی روشنی میں مکمل وضاحت دیں گے.

         ** علم غیب قرآن کی روشنی میں**

    ارشاد باری تعالی ھے:
    کھه دو که جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ھیں خدا کے سوا غیب کی باتیں نھیں جانتے اور نه جانتے ھیں که کب زنده کر کے اٹھائے جائیں گے.
    سوره نمل آیت :65.

    یونس، 10 : 61
    ’’ اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے.
    سوره یونس ع:61.

    قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں علم غیب کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ 
    اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی، کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ گرتے کو تنکے کا سہارا اور وہ ان لوگوں سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پرامید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ 

    اﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئیے قرآن میں فرمایا:

    النمل، 27 : 65
    ’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے.
    سوره نمل ع:65 .

    وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ
    الانعام، ع : 50
    ’’اور نہ میں اَز خود غیب جانتا ہوں.

    ترجمه :
    اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے.
    سوره نساء ع:113.

    (وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ 
    سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس رسول الله کے آگے اور پیچھے
     (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے.
    سوره جن ع:26/27.

    تو غیب کے خزانے اور کنجیاں سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ اور کسی کو ان تک رسائی نہیں ٗ غیب صرف اللہ جانتا ہے ٗ اس کے سوااور کسی کو غیب کا علم نہیں۔

    سوره الانعام ع:7.

    عِلم غیب ٗ عِلم کُل ٗ عِلم محیط و عِلم بسیط صرف  خاصہ خدا ہے۔ اس بارے میں آیات کریمہ توحید درج بالا و درج زیل ملحاظه فرمائیں.

    قُل لَا اَمْلِکُٔ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَ لَا ضَرًّا اِلَّا مَاشَاء اللہُ وَ لَوْکُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَکْثَرُتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَآ مَسَّنَی السُّوْئُ ج اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ۔ 

    (پارہ,9  سوره اعراف ع:23

    آپ کہہ دیجئے میں اپنی ذات کے لئے(بھی) نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتا ٗ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی مضرت مجھے مس نہ کرتی میں تو محض اہل ایمان کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں.

    بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی مینہ برساتا ہے۔ اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ بیشک اللہ سب باتوں کا جاننے والا ٗ سب خبر رکھنے والا ہے.

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے ان پانچ باتوں کو نہ تو کوئی مُقرب فرشتہ جانتا ہے اور نہ کوئی برگزیدہ نبی ٗ اگر کسی نے دعوی کِیا کہ ان میں سے کوئی بات جانتاہے تو اس نے قرآن کا انکار کیا کیونکہ قرآن کی مخالفت کی ٗ

    ھٰذِہٖ خَمْسَۃٌ لَا یَعْلَمُھَا مَلَکُٔ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌ مُصْ.

    عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo
    الجن، 72 : 26۔ 27
    ’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے.

    وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
    التکویر، 81 : 24
    ’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں.
    پاک نبی ص کے متعلق بتایا که ھم نے اسے جتنا  علم غیب دیا اتنا وه جانتے ھیں.
    یهی بات مولا علی ع فرماتے ھیں میں اتنا علم جانتا ھوں جتنا مجھے رسعل الله ص نے بتایا.
    جو ھم اگلی پوسٹ میں واضح کریں گے .

    یه سب پوسٹ پڑھنے کے بعد پھر بھی معترض سوال رکھتا ھے تو براه کرم وه ھمارۓ اس سوال کا جواب ضرور دے.
    جو سوره نساء ع:105,میں میرا سوال موجود ھے.

    جمعہ، 24 مئی، 2019

    اولیاء کے نام پر جانور پالنا اور زبح کرنا.قسط نمبر:15

    بزرگوں کے نام پر جانور پالنا اور مزاروں پر زبح کرنا:

                         قسط نمبر :15
    .
    کیا گیارھویں کا بکرا یا غوث پاک کی گاۓ وغیره شرعا حلال ھے جیسے که ولیمه کا جانور.

    پیر پرست اس بدعت میں بھی پیش پیش ھیں پر اکثر زنده پیر خود آ کے جانور لے جاتے ھیں اگر مرده ھوں تو پھر ان کی قبر پر زبح کردیۓ جاتے ھیں.

    ھو سکتا ھے آنے والے دنوں میں  اندھے پیر پرست  جانوروں کی نسل بھی مخصوص کر لیں,
     جیسے پولٹری فارم کی مرغی ڈیری فارم کا دودھ مکھن یا ساھییوال کی گاۓ یا اسٹریلیا  وغیره کی.

    یه خاص نسلیں انکی قربانی کیلۓ قبول ھو گی زنده یا زبح کرکے باقی سب حرام پیر کے ھاں قبول نه ھوں گی.

    مگر قرآن پاک میں الله پاک ایسی قربانیوں کو حرام کھه رھا ھے جو غیر خدا کے نام پر زبح ھوں .
    سوره انعام ع:21.سوره مائده ع:3,

    عالمگیر باب الزبح جلد,5ص:280
    میں ھے که مسلمان اگر مجوسی کی بکری جو ان کے آتش کده کیلۓ یا کافر کی انکے بتوں کیلۓ تھی زبح کی ھو وه حلال ھے کیونکه اس پر الله کا نام لیا ھے مگر یه کام مسلمانوں کۓ مکروه ھے.

    یه عجیب منطق ھے مگر الله کے کلام میں واضح ھے جو سوره انعام ع:21,
    میں ھے که اور ایسے جانور مت کھاؤ جن پر الله کا نام نه لیا گیا ھو اور یه کام فسق ھے.
    اس سے مراد یه که غیر الله کے نام پر زبیحه حرام ھے.

    سوره بقره ع:173,
    میں ھے سواۓ اس کے نھیں که حرام کیا اوپر تمھارۓ مردار اور لھو اور گوشت سور کا اور جو کچھ پکارا جاۓ اوپر اس کے واسطے غیر الله کے.

    معلوم ھوا زبح کے وقت غیر الله کا نام پکارا جاۓ یا زبح سے پهلے پکارا جاۓ ھر صورت وه شے حرام ھے.

    نیز فرمایا سوره مائده ع:3
    اور جو آستانوں پر زبح کیا گیا ھو.

    اس آیت سے واضح ھے که خواه الله تعالی کے نام سے ھی کیوں ناں پکارا جاۓ یا زبح کیا جاۓ یا وھاں زبح کیا جاۓ جھاں غیر الله کے نام پر پرستش ھوتی ھو,
     اور الله تعالی سے ھٹ کر کسی کی تعظیم و پرستش ھوتی ھو جیسے مزار,مندر,استھان, یه سب حرام ھے.

    ایک روایت ھے جو ابو داود اور مشکواة میں ھے که ایک صحابی نے بوانه کے مقام پرمنت مانی که میں وھاں اونٹ زبح کروں گا.
    تو آپ ص نے فرمایا اگر وھاں کسی بت کی پرستش یا میله نھیں لگتا تو آپنی منت پوری کر لو.

    فتاوی عزیزیه جلد 1,ص:47,
    میں ھے اگر نیت ھو که غیر الله کا تقرب حاصل ھو بے شک زبح کے وقت الله کا نام لے پھر بھی زبیحه حرام ھے.

    مجدد الف ثانی صوفی نے ایک زبردست بات لکھی آپنے مکتوب نمبر 41/میں که بزرگوں کیلۓ نذریں حیوانات کی جو مانے اور پھر مزار پر زبح کرۓ فقھی روایات سے یه شرک میں داخل ھے.

    قرآن میں ھے:
     ماجعل الله من بحیرة ولا سائبة ولا وصیلة ولا حام ولکن الذین کفروا یفترون علی الله کذاب.سوره مائده 103,
    ترجمه:
    الله تعالی نے بحیره کو مشروط کیا اور نه سائبه کو اور نه وحیله کو اور نا حام کو لیکن جو لوگ کافر ھیں وه الله پر جھوٹ لگاتے ھیں.

    یه چار جانور جو کفار بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے ان کو حرام سمجھتے تھے جدھر مرضی جائیں ,جدھر مرضی جس کی فصلوں میں کھاتے پیتے اور نقصان کرتے رھیں,کوئی کچھ نھیں کھتا تھا.
    انھوں نے زبح بتوں پر ھونا ھے قران نے اس کی تردید کی ھے.

    جبکه الله پاک فرماتے ھیں کھاؤ جو تمھے الله نے دیا ھے اور شیطان کے قدموں کی پیروی نه کرو.سوره انعام ع:142

    ھمارۓ مسلمان بھی مختلف بزرگوں کے نام پر بکرۓ گاۓ وغیره رکھ لیتے ھیں پھر انھیں مزاروں پر زبح کرکے پکاتے اور کھاتے ھیں.

    اسی طرح ھندو بھی سانڈھ بتوؤں کے نام پر چھوڑ دیتے ھیں.
    جبکه الله پاک اس عمل سےمنع کر رھا ھے.

    لھذا غوث پاک کی گاۓ اور شیخ سدو یا بابا مجنوں یا کھونڈی والی سرکار کے نام پر پالی گئی ساھیوال کی گاۓ ھو یا پھاڑی بکرا سب حرام ھے.

    مذید تفصیل کیلۓ درج بالا آیات کی تفسیر ملحاظه فرمائیں.

    علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

     بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...