Saieen loag

جمعہ، 24 مئی، 2019

صوفیه کے عرس فتنه و بدعت ھیں.

:
عرس کیلۓ کیا جانے والا سفر

                قسط نمبر :11

عرس وغیره کا انعقاد کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان خانقاھ پرستوں کی ایک خاص تعداد صوفیوں بزرگوں کے سالانه عرس یا عام ایام میں کیۓ جانے والے سفر کو بھت سعادت اور کار ثواب و اجر عظیم قرار دیتے ھیں.

تاکه عوام کی جوق در جوق شرکت کو یعقینی بنایا جاۓ اور متولی و سجاده نشین کا خاص مقصد نذر نیاز نذرانے چڑھاوۓ کے سلسله میں زیاده سے زیاد پیسه جمع اور مریدین کی تعداد میں اضافه کیا جا سکے.

اور روایت دیتے ھیں که بزرگوں کی قبور و مزارات کی زیارت بدرجه اولی ثابت ھے 

یه خواه مخواه ایسے ھی ھے جیسے کسی نے مختلف لوگوں سے قرضه وصول کرنا ھو اور کھے میں نے فلاں سے بھی لینا ھے فلاں سے بھی لینا ھے .

اور ایک شخص جس سے نھیں لینا اسے بھی کھ دیں لھذا تم سے بھی لینا ھے.
اور بدرجه اولی لینا ھے .

جن لوگوں کے نذدیک زندگی اور موت میں وجود اور عدم میں ھونے اور نه ھونے میں فرق نه ھوا ان کا کیا علاج ھے.

خانقاھ و صوفیه پرست یه سمجھتے ھیں یه حضرات طبیب روحانی ھیں اور ان کے مختلف فیوض ھیں ان کے مزار پر پھنچنے 
سے شان الھی نظر آتی ھے.

که الله والے بعد وفات بھی دنیا پر راج کرتے ھیں.یعنی غالیوں اور بریلویوں پر مردوں کا راج ھے.

حقیقت یه ھے که اس قسم کے بودۓ اور مرده نظریات رکھ کر دنیا میں ان کا وجود و عدم یعنی ھونا اور نه ھونا برابر ھو گیا ھے.

یه لوگ چلتے پھرتے مزار ھیں مقبرۓ ھیں,خانقاھیں ھیں,اگر مردۓ زنده ھیں تو یعقینا یه مرده ھیں.

مقدمه شامی جلد ,1 ص:41,
میں امام ابو حنیفه کے مناقب میم امام شافعی سے نقل ھے که میم ابو حنیفه سے برکت حاصل کرتا ھوں اور انکی قبر پر آتا ھوں.

اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ھوتی ھے تو دورکعتیں پڑھتا ھوں اور انکی قبر کے پاس جا کر دعاء کرتا ھوں تو جلد حاجت پوری ھو جاتی ھے..

مجھے یه محض گپ لگتی ھے جو امام شافعی کو امام ابوحنیفه کے مقابلے نیچا دکھلانے کیلۓ گھڑی گئ ھے.

اگر امام صاحب کی قبر اتنی متبرک اور قاضی الحاجات تھی تو امام شافعی کو ان کے فقه سے اتنا شدید اختلاف اور متبرک کیوں نظر نه آئی.

اس سے زیاده متبرک قبر تو امام ابو یوسف اور امام محمد کی ھونی چاھیۓ تھی.
اس قسم کا مشرکانه قول تو انھوں نے بھی نھیں دیا.مطلب یه که یه قبر تو نه ھوئی بلکه خانه کعبه ھی ھو گیا جھاں کسی کی جائز  دعاء رد نھیں کی جاتی.

بریلویوں کی ایک خاص تعداد ھند و پاک سے بغداد(عراق) جاتی رھتی ھے.

 اور کھا جاتا ھے که شیخ عبدالقادر جیلانی کا پاؤں تمام اولیاء کی گردن پر ھے.
 جو غوث اعظم ھیں انھوں نے تو آپنے ملک عراق کا کچھ نھیں سنوارا بلکه تباه و برباد کرکے رکھ دیا ھے.
 کوئی ایسی جگه نھیں جھاں انسانی خون  نه بھا  ھو.
جو آپنے ملک کی قسمت نھیں سنوار سکا بلکه امن کی جگه ایک خونی جنگ و جدل کے میدان میں بدل کر رکھ دیا ھے.

بزرگوں کی قبریں مسجد نبوی و روضه رسول ص کے ھم پلا....قسط نمبر:10

پاک نبی ص نے فرمایا میری قبر پر عید یا میله نه لگانا بلکه درود بھیجنا تم جھاں کھیں ھو گے تمھارا درود مجھ تک پهنچ جاۓ گا  :مشکواة شریف.

                  قسط نمبر :10

خانقاه پرستوں نے مردوں کی قبروں کو مسجد حرام اور مسجد نبوی ص کے ھم پلا قرار دیا ھے .

پاک نبی ص نے زیارت قبور کے دو فائدۓ بیان کیۓ ھیں.
ذھد فی الدنیا و تذکرالا خرة.
حضرت ابن مسعود سے روایت ھے که زیارت قبور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کا زکر پیدا کرتی ھے.

جبکه خانقاه پرست اس سوچ پر ان مردوں کی قبروں کی زیارت نھیں کرتے بلکه آپنے مقاصد اور غرض و غائت کی خاطر سینکڑوں میل سفر کر کے دنیاوی فوائد و حاجات کی قبولیت کو یعقینی بنانے کیلۓ حاضر ھوتے ھیں.

ان کا یه کھنا که زیارات مدینه و مکه بھی ایک تاریخ پر ھوتے ھیں اسی لیۓ ھمارۓ بزرگوں کے عرس بھی مقرره وقت کو ھوتے ھیں لھذا جائز ھے.

مگر یه یاد رھے که زیارات مدینه منوره روضه رسول ص,زیارات کربلا و نجف و مشھد کیلۓ بھی کوئی مخصوص وقت نھیں سارا سال لوگ شرف حاصل کرتے رھتے ھیں.

ایک حدیث پاک نبی ص سے نقل کی جاتی ھے که میری قبر پر عید میلا نه لگانا.شور نه کرنا ھلڑ بازی سے پرھیز کرنا.

باب زیارت القبور مشکواة شریف ص:86.

ھم اسے درست سمجھیں تو اس کا مطلب ھے که میری زیارت پر آنے والے با ادب رھیں یھاں آ کر شور نه کرنا وه کام نه کرنا جس سے توحید کی زات پر حرف آۓ .

مگر جب ھم عرس کے نام پر بزرگوں(مردوں) کی قبروں کی حالت کا معائنه کرتے ھیں .
تو یھاں نرا شور ھی شور 
ھے شرکیه نعرۓ ھیں,بھنگڑۓ لڈی ھے جمالو ھوتا ھے.قوالیاں,دھمالیں اور لمبی توت والے موت کے کنوئیں کے سپیکر پر زھریلے جذبات کو بھڑکانے والے گانے جو  کانوں کے پردۓ پھاڑتے ھیں.

لکی ایرانی,جوبلی سرکس,استاد الله بخش اور گامن سچیار کا تھیٹر پنگھوڑۓ,بازار,کشتی کبڈی,کتوں کی لڑائی بندر کا کھیل اور بکرۓ کا ڈانس وغیره یه ھے بزرگوں کے عرس کی علامات ھیں  ان کے بغیر عرس منانا تصور ھی نھیں کیا جا سکتا.

ھمارۓ ھاں اس طرح کے بھت عرس ھوتے ھیں اورة جو بھت مشھور بھی ھیں.
مثلا قریبی سلطان ایوب قتال کا عرس ,
شاه شھیداں ,بابا لنگڑۓ کا عرس,شاه جی محمد کی چوکی,چنن پیر مخدوم رشید کا عرس وغیره بھت مشھور ھیں.

مسلمانوں کے عرس اور سکھوں کی بیساکھی میں قطعا کوئی فرق نھیں ھے.

شاه ولی الله جھاں قبروں پر عرس کے حق میں ھیں وھیں قبروں پر بدعات کے مخالف بھی ھیں جیسے عرس کے نام پر میلے ٹھیلوں کی بدعات وغیره.
ملحاظه کریں:
 تفھیمات الھیه ص:64.

خانقاه پرست ایک یه بھی دلیل دیتے ھیں که خانه کعبه میں بت تھے اور کوه صفا و مروه پر بھی بت پرست تھے مگر بتوں کی وجه سے مسلمانوں نے طواف نه چھوڑا اور نه عمره ھاں جب الله تعالی نے ھمت دی تو بت توڑ ڈالے.
عرض ھے که خانه کعبه وغیره میں بت تو مشرکوں نے رکھے اور مسلمانوں نے آ کر مٹا دیۓ .
مگر عرسوں کے محرمات تو صوفیه و مشائخ  کے پیدا کرده ھیں اور انھیں ھی کے زیر سر پرستی چلتے ھیں بلکه اشتھاروں پر ان کے نام لکھے ھوتے ھیں.

 ٹھیکه صول کرتے ھیں اور ھر سٹال والے سے ایک کثیر رقم  بطور لتیے ھیں .

انھیں کون مٹاۓ گا.بریلوی یا غالی نھیں کبھی نھیں انھیں توحید پرست شرک کے خلاف لڑنے والے خالص محبان   اھلبیت علیھم اسلام کے سچے پیروکار ایک دن ضرور ان جاھلانه ھندوانه مشرکانه رسموں کو ضرور مٹائیں گے لھذا سب عاشقان الھی و محبان محمد و آل مجمد علیھم اسلام پر لازم ھے وه جھاں کھیں بھی ھوں اقلیت یا اکثریت میں آپنے ماحول مطابق سیرت معصومین ع پر عمل کرتے ھوۓ ضرور ان کے خلاف آواز اٹھائیں اور خالص مومن ھونے کا ثبوت دیں. (شکریه)
                             (جاری ھے.)

خانقاھیں اور عرس پرستوں کی دقیانوسی

:
خانقاه اور عرس پرستوں کی دقیانوسی

                    قسط نمبر :9

عرس پر جو صوفیه کے اجتماع ھوتے ھیں قبر پرست کھتے ھیں اس کے فوائد بھی بھت ھیں,
 مسلمان جو مسنون اجتماعات پنج وقته نمازوں کا اجتماع جمعه کا اجتماع عیدین کا اجتماع حج عمرۓ کا اجتماع کیا یه سب بے فائده ھیں.

کیا  دیگر جائز  تقریبات  شرعی کا کوئی فائده نھیں ھے.

کیا گدھوں ,چیلوں,اور کوؤں کی طرح ان قبور کے گرد گھومتے رھنا ھی اسلام ھے.

بعض لوگ عرس کا فائده یه بھی بتاتے ھیں که طالبان حق کو پیر تلاش کرنے میں آسانی  ھوتی ھے.

اب یھاں ان قبر پرست لوگوں کے زھن کی سوچ کا اندازه لگائیں,
 کیا ان پیروں شیخوں,قادریوں,نقشبندیوں,چشتیوں, سھروردیوں, اور قلندریوں پر مسجدوں اور مدرسوں کے دروازۓ بند ھیں.

کیا ان پر نماز پنجگانه با جماعت فرض نھیں ھے کیا ,
کیا ان لوگوں کیلۓ قرآن و حدیث کا علم شجر ممنوعه ھے.

کیا ان مواقع پر حق پرست پیر کا انتخاب نھیں کیا جا سکتا.

ھمارا ایک بچه دیناوی  تعلیم سے گھبرا کر جھنگ (شورکوٹ)میں قائم  ایک دربار پر روپوش ھو کر ساتویں سلطان الفقر کی بیعت کرکے ان کے گھوڑوں کی خدمت پر لگ گیا .

والدین رابطه کرتے رھے پر اس نے واپسی کی راه نه لی جبکه قرآن والدین کی نافرمانی اور ناراضگی کو سخت عزاب سے یاد کرتا ھے.

جب اس کے والد دربار پهنچے آپنے بیٹے کو لینے تو اس وقت مرشد کامل لوگوں سے بیعت لے رھے تھے مغریبین کا وقت تھا کچھ دیر بعد مغرب کی آزان ھوئی وه بھائی کھتے ھیں,

 ھم کافی لوگ نماز کی ادائیگی کیلۓ مسجد چلے گۓ اور سوچا چلو آج مرشد کامل ساتویں سلطان الفقر کی امامت میں نماز کی سعادت نصیب ھو گی.

 مگر ھوا کچھ اس کے متضاد مرشد تو نماز کی امامت تو دور نماز بھی پڑھنے کو نه آۓ ھم جب نماز پڑھ کے واپس گۓ تو وھیں براجمان تھے.

تب سے ان لوگوں سے نفرت ھو گئی بڑی مشکل سے ایک دفعه تو بچے کو واپس لے آۓ مگر پھر بھاگ گیا,
 اب وه آپنے علاقه میں تنظیم العارفین کا مقامی جنرل سیکرٹری ھے.

اس کا باپ لودھراں کے نصیر الدین شاه گیلانی کا مرید تھا یه دونوں گروه ایک دوسرۓ کی خامیاں نکالتے رھتے تھے.

یه تو ھے ان لوگوں کی اصل حقیقت کس طرح نماز سے عاری ھیں.

لھذا قبر پرست لوگوں کا یه نظریه کوئی معنی نھیں رکھتا,
 که ھم عرس پر موجود سب پیروں کو جو جمع ھوتے ھیں آپنی مرضی سے مرشد منتخب کرنے کا موقع ظائع نھیں جانے دیتے.
اور سوچ سمجھ کر جسے اچھا سمجھا اسکی بیعت کر لی.
اب میں ان لوگوں سے پوچھتا ھوں کیا یه علماء و صوفیه کوئی منڈی کا مال نھیں یا قربانی کے بکرۓ نھیں,

 جو ٹرکوں میں بھر کر مختلف مقامات میں سے لاۓ جاتے ھیں 
جو بڑھیا نظر آۓ اسکی بیعت کی جاۓ اور جو کمتر لگے اس پر توھین آمیز اور چاه مگوئیاں شروع کر دیں.

جبکه رسول اکرم ص کا ارشاد ھے :

جو شخص خلاف شرع کام ھوتا دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے ہاتھ سے روکے.

اگر اس کی طاقت نہ ھو تو پھر زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ھو تو تو پھر دل سے سے ھی برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجه ھے.

ھمیں روزانه سوتے وقت ضرور آپنے اعمال کا محاسبه کرنا چاھیۓ که ھم نے آج کیا نیک اور برۓ کام کیۓ. 

                        (جاری ھے)

خانقاھیں شرک کی بارگاھیں آور ھماری زمه داریاں.

خانقاھیت(شرک) کی ترویج و ترقی میں ھمارۓ حکمران بھی شامل ھیں.پوری تفصیل جاننے کیلۓ مکمل پوسٹ کا مطالعه کریں:

                        قسط نمبر :8

 سرزمین ہندمیں تشریف لانے والے صحابہ کرام رض کی تعداد 25, تابعین کی تعداد 37/اور تبع تابعین کی تعداد 15/بتائی جاتی ھے.

گویا پہلی صدی ہجری کے آغاز میں ھی اسلام برصغیر پاک وہند میں خالص کتاب وسنت کی شکل میں پہنچ گیا تھا اور ہندو مت کے ہزاروں سالہ پرانے اور گہرے اثرات کے باوجود صحابہ کرام رض تاریخی اور تبع تابعین رح کی سعی جمیلہ کے نتیجہ میں مسلسل وسعت پذیر تھا,

جو بات تاریخی حقائق سے ثابت ھے وہ یہ کہ جب کبھی موحد اورمومن افراد برسر اقتدار آئے تو وہ اسلام کی شان وشوکت میں اضافے کا باعث بنے محمد بن قاسم کے سلطان سبکتگین ۔سلطان محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین غوری کا عہد (986 تا 1175ء )اس بات کا واضح ثبوت ھے ,
کہ اس دور میں اسلام برصغیر کی ایک زبردست سیاسی اور سماجی قوت بن گیا تھا اس کے برعکس جب کبھی ملحد اور بے دین قسم کے لوگ سریر آرائے حکومت ہوئے تو وہ اسلام کی پسپائی اور رسوائی کا باعث بنے.

 اس کی ایک واضح مثال عہدِ اکبری ھے جس میں سرکاری طور پر لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ  أَکْبرُ خَلِیْفَۃُ اﷲِ مسلمانوں کا کلمہ قرار دیا گیا.

اکبر کو دربار میں باقاعدہ سجدہ کیاجاتا ‘نبوت ‘وحی ‘حشر نشراور جنت دوزخ کا مذاق اڑایا جاتا ‘نماز ‘روزہ حج اور دیگر اسلامی شعائر پر کھل کھلا اعتراضات کئے جاتے ,
سود‘جوا اور شراب حلال ٹھہرائے گئے سور کو ایک مقدس جانور قرار دیا گیا ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے گائے کا گوشت حرام قرار دیا گیا .

دیوالی ‘دسہرہ‘راکھی‘پونم ‘شیوراتری جیسے تہوار ہندوانہ رسوم کے ساتھ سرکاری سطح پر منائے جاتے ہیں.

ہندومذہب کے احیاء اور شرک کے پھیلاؤ کا اصل سبب ایسے ھی بے دین اور اقتدار پرست مسلمان حکمران تھے .

          تقسیم ہند کے بعد جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت اور بھی واضح ھوکر سامنے آتی ھے کہ شرک وبدعت اور لادینیت کو پھیلانے یا روکنے میں حکمرانوں کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ھے ہمارے نزدیک ہر پاکستانی کو اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاھیے,
 کہ آخر کیا وجہ ھے کہ دنیاکی وہ واحد ریاست جو کم وبیش نصف صدی قبل محض کلمہ توحید  لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُکی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئی تھی اس میں آج بھی کلمہ توحید کے نفاذ کا دور تک کوئی امکان نھیں.

ملاحظہ ہو ’’اقلیم ہند میں اشاعت اسلام ‘‘از گازی عزیر .
  تجدید واحیائے دین از سید ابوالاعلیٰ مودودی صفحہ :80.

اگر اس کا سبب جہالت قرار دیا جائے تو جہالت ختم کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں پر تھی اگر اس کا سبب نظام تعلیم قرار دیا جائے تو دین خانقاھی کے علمبرداروں کو راہ راست پر لانا بھی حکمرانوں کی ذمہداری تھی.

 لیکن المیہ تو یہ ھے کہ توحید کے نفاذ کے مقدس فریضہ کی بجاآوری تو رھی دور کی بات ‘ہمارے حکمران خود کتاب وسنت کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے آئے ہیں,
سرکاری سطح پر شرعی حدود کو ظالمانہ قرار دینا ‘قصاص ‘دیت اور قانون شہادت کو دقیانوسی کہنا ‘اسلامی شعائر کامذاق اڑانا ‘سودی نظام کے تحفظ ے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا,

عائلی قوانین اور فیملی پلاننگ جیسے غیر اسلامی منصوبے زبردستی مسلط کرنا ‘ثقافتی طائفوں ‘قوالوں ‘مغنیوں اور موسیقاروں کو پذیرائی بخشنا.

سال نو او رجشن آزادی, جیسی تقاریب کے بہانے شراب وشباب کی محفلیں منعقد کرنا ہمارے عزت مآب حکمرانوں کا معمول بن چکا ھے.
 دوسری طرف خدمت اسلام کے نام پر حکمران(الا ماشاء اﷲ)جو کارنامے سرانجام دیتے چلے آرھے ہیں ان میں سب سے نمایا اور سرفہرست,

 دین خانقاھی سے عقیدت کا اظہار اور اس کا تحفظ شاید ہمارے حکمرانوں کے نزدیک اسلام کا سب سے امتیازی وصف یہی ھے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح رح سے لے کر زولفقار علی بھٹو,جنرل ضیاء الحق اعر بے نظیر بھٹو تک اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال رح سے لے کر حفیظ جالندھری تک تمام قومی لیڈروں کے خوبصوت سنگ مرمر کے منقش مزار تعمیر کرائے جائیں,

 ان پر مجاور (گارڈ)متعین کیے جائیں قومی دنوں میں ان مزاروں پر حاضری دی جائے .
پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں سلامی دی جائے فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کے ذریعے انہیں ثواب پہنچانے کا شغل فرمایا جائے تو یہ دین اسلام کی بہت بڑی خدمت ھے .

          یاد رھے بانی پاکستان محمد علی جناح رح کے مزار کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے باقاعدہ ایک الگ مینجمنٹ بورڈ قائم ھے جسکے ملازمین سرکاری خزانے سے تنخواہ پاتے ہیں.

 گزشتہ برس مزار کے تقدس کے خاطر سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے مزار کے اردگرد 6/فرلانگ کے علاقہ میں مزار سے بلند کسی بھی عمارت کی تعمیر پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا .
(روزنامہ جنگ 13/اگست 1991 ء.
اور کل 27/فروری 2017 ء کو پھر نۓ سرۓ سے 2,کلو میٹر کے اندر ےمام اونچی عمارتوں کو گرانے کا سندھ حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ھے.

ایک ضیافت میں وزیر اعظم نے پولیس بینڈ کی دلکش دھنوں سے خوش ہوکر بینڈ ماسٹر کو پچاس ہزار روپیہ  انعام دیا ۔(الاعتصام 5/جون 1992ء).

یاد رھے مکہ معظمہ میں بیت اﷲشریف کی عمارت کے اردگرد بیت اﷲشریف سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں جو مسجد الحرام کے بالکل  قریب واقع ہیں.

 اسی طرح مدینہ منورہ میں روضه رسول ص کے اردگرد روضہ مبارک سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں,

 جن میں عام لوگ رہائش پذیر ہیں ۔علماء کرام کے نزدیک ان رہائشی عمارتوں کی وجہ سے نہ تو بیت االله شریف کا تقدس مجروح ہوتا ھے نہ روضه رسول ص کا. 

   1975ء میں شہنشاہ ایران نے سونے کا دروازہ سید علی ہجویری کے مزارکی نذر کیا .
جسے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نے اپنے ہاتھوں سے دربار میں نصب فرمایا 1989ء میں وفاقی گورنمنٹ نے جھنگ میں ایک مزار کی تعمیر وتزئین کے لئے 68/لاکھ روپیہ کا عطیہ سرکاری خزانے سے ادا کیا.

1991ء میں سید علی ہجویری کے عرس کے افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب نے مزار کو 40/من عرق گلاب سے غسل دے کر کیا.

 جبکہ امسال ’’داتا صاحب‘‘کے 975/ویں عرس کے افتتاح کے لئے جناب وزیر اعظم صاحب بنفس نفیس تشریف لے گئے مزارپر پھولوں کی چادر چڑھائی ‘فاتحہ خوانی کی ‘مزار سے متصل مسجد میں نماز عشاء ادا کی.

 اور دودھ کی سبیل کاافتتاح کیا نیز ملک میں شریعت کے نفاذ کشمیر اور فلسطین کی آزادی افغانستان,عراق,شام میں امن واستحکام اور ملک کی یک جہتی ترقی اور خوشحالی کے لئے دعائیں کیں.

 گزشتہ دنوں وزیر اعظم صاحب ازبکستان تشریف لے گئے جہاں انہوں نے چالیس لاکھ ڈالر (تقریبا ایک کروڑ روپیہ پاکستانی )امام بخاری رحمہ اﷲ کے مزار کی تعمیر کے لئے بطور عطیہ عنایت فرمائے.
 (۴)
          مذکورہ بالا چند مثالوں کے بین السطور ‘اہل بصیر ت کے سمجھنے کے لئے بہت کچھ موجود ھے ایسی سرزمین جس کے فرمانروا خود ’’خدمتِ اسلام‘‘سر انجام دے  رھے ھوں وہاں کے عوام کی اکثریت اگر گلی گلی ‘محلہ محلہ ‘گاؤں گاؤں ‘شب وروز مراکز شرک قائم کرنے میں مصروف عمل ھوں ,
تو اس میں تعجب کی کونسی بات ھے کہاجاتا ہے  الناس علی دین ملوکھم (یعنی عوام اپنے حکمرانوں کے دین پر چلتے ہیں)
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ھے.

   صنم کدہ ھے جہاں لاالہ الاﷲ.

واجبات الھیه بارۓ غالی شیعه و غالی صوفیه کا عقیده.

براه کرم یه پوسٹ ضرور مطالعه فرمائیں اس تحریر نے خانقاھی ایوانوں میں ھلچل اور کھلبلی مچاتے ھوۓ,صوفیه و خانقاھ پرستوں کے عقیده و مقاصد کو تباه و برباد کرکے رکھ دیا ھے.

پاکستان بھر میں منعقد ہونے والے عرسوں کے اعدادو شمار:
                           قسط نمبر :7

قمری مہینوں میں عرسوں کی تعداد: 439/بنتی ھے.
عیسوی مہینوں میں عرسوں کی تعداد  88/بنتی ھے.
بکری مہینوں میں عرسوں کی تعداد 107/بنتی ھے.
قمری ‘عیسوی اور بکری مہینوں کے حساب سے سال بھر میں منعقد ہونے والے عرسوں کی کل تعداد:  634/بنتی ھے.

 یه محکمه اوقاف کے رجسٹر مزاروں کے اعداد و شمار ھیں جو اسلامی قانون کی ڈائری سے نقل کیۓ گۓ ھیں یه اعداد وشمار 1992/ء کے ھیں,
 جو اب ڈبل ٹرپل خانقاھیں وجود میں آ چکی ھوں گی.
کیونکه آبادی کی طرح ان مزاروں کی تعداد میں بھی بڑی تیزی سے اضافه ھو رھا ھے.
        عرسوں کے انعقاد میں قابل ذکر بات یہ ھے کہ یہ سلسلہ دوران رمضان المبارک بھی پورے زور وشور سے جاری رہتا ھے.

 اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ دین خانقاھی میں اسلام کے بنیادی فرائض کا کس قدر احترام پایا جاتا ھے ؟.

یاد رھے رمضان المبارک کے روزوں کے بارے میں حدیث شریف میں ھے کہ نبی اکرم ص نے روزہ خوروں کو جہنم میں اس حالت میں دیکھا کہ الٹے لٹکے ھوئے ہیں ان کے منہ چیرے ھوئے ہیں جن سے خون بہہ رہا ھے.

(ابن خزیمہ) ہندوستان کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت بوعلی قلند ؒ کا عرس شریف بھی اسی مبارک مہینے (13/رمضان)میں پانی پت کے مقام پر منعقد ہوتا ھے .

دین خانقاھی میں رمضان کے علاوہ باقی فرائض کا کتنا احترام پایا جاتا ھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ھے کہ صوفیاء کے نزدیک تصور شیخ (تصور شیخ یہ ھے کہ دوران نماز اپنے مرشد کا تصور ذہن میں قائم کیا جائے) کے بغیر ادا کی گئی نماز ناقص ہوتی ھے ‘حج کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ مرشد کی زیارت حج بیت اﷲسے افضل ھے.

دین اسلام کے فرائض کے مقابلے میں دین خانقاھی کے علمبردار کا خانقاھوں‘مزاروں ‘درباروں اور آستانوں کو کیا مقام اور مرتبہ دیتے ہیں اس کا اندازہ خانقاھوں میں لکھے گے کتبوں ‘یا اولیاء کرام کے بارے میں عقیدتمندوں کے لکھے ہوئے اشعار سے لگایا جاسکتا ھے ‘چند مثالیں ملاحظہ ھوں :

1:       مدینہ  بھی  مطہر  ھے  مقدس ھے  علی پور.
        ادھر جائیں تو اچھا ھے ادھر جائیں تو اچھا  ھے.

2:      مخدوم   کا  حجرہ  بھی  گلزار   مدینہ   ھے
        یہ   گنج   فریدی   کا   ا نمول   نگینہ  ھے.

3:      دل تڑپتا ھے جب  روضے کی زیارت کے لئے
        پاک پتن تیرے حجرے کو میں  چوم  آتا  ھوں.

4:      آرزو  ھے کہ موت آئے تیرے  کوچے  میں
        رشک  جنت  تیرے  کلیر  کی  گلی پاتا ھوں.

5:     چاچڑ وانگ  مدینہ دسے تے کوٹ مٹھن بیت ا  ﷲ.

        ظاہر دے وچ پیر فریدن تے باطن دے وچ ا  ﷲ.

ترجمہ:
چاچڑ (جگہ کا نام )مدینہ کی طرح ھے اور کوٹ مٹھن (جگہ کانام)بیت اﷲشریف کی طرح ھے ‘ہمارا مرشد ‘پیر فرید ظاہر میں تو انسان ھے لیکن باطن میں اﷲھے.

         بابا فریدگنج شکر کے مزار پر  زبدۃ الانبیاء (یعنی تمام انبیاء کرام کا سردار) کا کتبہ لکھا گیا ھے.

 سید علاؤ الدین احمد صابری کلیری کے حجرہ شریف (پاک پتن )پر یہ عبارت کندہ ہے سلطان الاولیاء قطب عالم ‘غوث الغیاث ‘ہشت دہ ہزار عالمین (ولیوں کا بادشاہ ‘سارے جہان کا قطب‘اٹھارہ ہزار جہانوں کے فریاد رسوں کا سب سے بڑا فریاد رس).

 حضرت لال حسین لاھور کے مزار پر ’’غوث الاسلام والمسلمین (اسلام اور مسلمانوں کا فریاد رس)کا کتبہ لگا ھوا ھے.

 سید علی ہجویری کے مزار پر لگایا گیا کتبہ قرآنی آیات کی طرح عرسوں میں پڑھا اتا ھے .

گنج بخش ‘فیض عالم ‘مظہر نورِخدا (خزانے عطاکرنے والا ‘ساری دنیا کو فیض پہنچانے والا ‘خدا کے نور کے ظہور کی جگہ).

        غورفرمائیے جس دین میں توحید ‘رسالت‘نماز ‘روزے اور حج کے مقابلے میں پیروں ‘بزرگوں ‘عرسوں ‘مزاروں اور خانقاھوں کو یہ تقدس اور مرتبہ حاصل ھو وہ دین محمد ص سے بغاوت نہیں تو اور کیا ھے .

شاعر مشرق علامہ اقبال رح نے ارمغان حجاز کی ایک طویل نظم :

         "ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘

میں ابلیس کے خطاب کی جو تفصیل لکھی ھے اس میں ابلیس مسلمانوں کو دین اسلام کا باغی بنانے کے لئے اپنی شوری کے ارکان کو جو ہدایت دیتا ھے ان میں سب سے آخری ہدایت دین خانقاہی پر بڑا جامع تبصرہ ھے۔ملاحظہ فرمائیں :

مست رکھو ذکر وفکر صبح گاہ میں اسے پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے
        ہمارے جائزے کے مطابق متذکرہ بالا
364/خانقاھوں یاآستانوں میں سے بیشترگدیاں ایسی ہیں جو وسیع وعریض جاگیروں کے مالک ہیں.

 صوبائی اسمبلی ‘قومی اسمبلی حتی کہ سینیٹ میں بھی ان کی نمائندگی موجود ہوتی ھے .
جیسے گولڑه شریف ,سلطان باھو کے سجاده نشین ,شاه جیونه کے فیصل صالح حیات,مری کے لا ثانی سرکار وغیره.

صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں ان کے مقابل کوئی دوسراآدمی کھڑا ہونے کی جراء ت نہیں کرسکتا .

          کتاب وسنت کے نفاذ کے علمبرداروں اور اسلامی انقلاب کے داعیوں نے اپنے راستے کے اس سنگ گراں کے کے بارے میں بھی کبھی سنجیدگی سے غور کیا ھے یا نھیں ؟

بزرگوں کے مزارات پر کچھ شرمناک واقعات کی جھلک قسط نمبر:6


صوفی بزرگوں کے مزارات پر منعقده سالانه عرس کے متعلق چونکا دینے والے کچھ شرمناک حالات و واقعات

ات

                      قسط نمبر :6

خانقاھوں پر ھونے والے عرس میں جھاں بدعات اور مشرکانه کاموں کی بھر مار ھوتی ھے وھاں بے حیائی, عریانی,فحاشی کے غیر اخلاقی و غیر شرعی کاموں کی بھی کوئی کسر نھیں چھوڑی جاتی,

 دھمال کے نام پر سب مخلوط مرد و زن چرس اور بھنگ کے نشے میں بدمست, عاشق مزاج,جنونی,بدحال مرد تو مرد ساتھ ساتھ عورتوں کے رقص ‘طوائفوں کے مجرے,
ٹھیٹر اور فلموں کے مظاہر عام نظر آتے ہیں.

دین خانقاھی کی انہی رنگ رلیوں اور عیاشیوں کے باعث گلی گلی ‘محلے محلے ‘گاؤں گاؤں ‘شہر شہر ‘نت نئے مزار تعمیر ہورھے ہیں.

اور آجکل یه دھنده ایک بزنس کا روپ دھار چکا ھے,
 کچھ لوگوں نے پلاننگ کے تحت مختلف علاقوں میں فرضی بزرگوں کی قبریں راتو رات تیار کرکے نذر ونیاز,شرینی اور چادروں اور پھولوں کو بار بار ری سیل کرکے اسے منافع بخش تجارت سمجھتے ھوۓ,
جعلی  مزارات میں اضافه کا سبب بن رھے ھیں.

رحیم یارخان (ضلع پنجاب پاکستان )میں دین خانقاھی کے علمبرداروں نے پیشہ ور ماہرین آثار قدیمہ سے بھی زیادہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے,
 چودہ سو سال بعد رانجھے خاں کی بستی کے قریب بر لب سڑک ایک صحابی رسول ﷺ کی قبر تلاش کرکے اس پر نہ صرف مزار تعمیر کرڈالا بلکہ ’’صحابی رسول خمیر بن ربیع کا روضہ مبارک ‘‘کا بورڈ لگا کر اپنا کاروبار بھی شروع کردیا ھے.

 گزشتہ چند سالوں سے ایک نئی رسم دیکھنے میں آرھی ھے وہ یہ کہ اپنی خانقاھوں کی رونق بڑھانے کے لئے بزرگوں کے مزارات پر رسول الله ص کے اسم ِ مبارک سے عرس منعقد کئے جانے لگے ہیں.

 مسلمانوں کی اس حالت زار پر آج علامہ اقبال رح کا یہ تبصرہ کس قدر درست ثابت ھورہا ھے .

ھونکه نام جو قبروں کی تجارت کرکے 
کیا  نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے.

دین خانقاھی کی تاریخ میں یہ دلچسپ اور انوکھا واقعہ بھی پایا جاتا ھے کہ ایک بزرگ شیخ حسین لاھور (سنہ 10053ھ)ایک خوبصورت برہمن لڑکے ’’مادھولال ‘‘ پر عاشق ھوگئے.

 پرستاران اولیاء کرا م نے دونوں بزرگوں کا مزار شالیمار باغ لاھور کے دامن میں تعمیر کردیا ,
جہاں ہر سال 8/جمادی الثانی کو دونوں بزرگوں کے مشترک نام ’’مادھولال حسین ‘‘ سے بڑی دھوم دھام سے عرس منعقد کرایا جاتا ھے.

 جسے زندہ دلان لاھور عرف عام میں میلہ چراغاں کہتے ہیں.

حضرت مادھولال کے دربار پر کندہ کتبہ بھی بڑا انوکھا اور منفرد ھے
 جس کے الفاظ یہ ہیں ’’مزار پر انوار‘مرکز فیض وبرکات ‘راز حسن کا امین‘معشوق محبوب نازنین‘محبوب الحق ‘حضرت شیخ مادھو قادری لاھوری.

یوں تو یہ مزار اور مقبرے تعمیر ھی عرسوں کے لئے کئے جاتے ہیں چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں نہ معلوم کتنے ایسے عرس منعقد ھوتے ہیں,

 جو کسی گنتی اور شمار میں نہیں آتے.

 لیکن جو عرس ریکارڈ پر موجود ہیں ان پرایک نظر ڈالئے اور اندازہ کیجئے کہ دین خانقاھی کا کاروبار کس قدر وسعت پذیر ھے.
اور حضرتِ ابلیس نے جاہل عوام کی اکثریت کو کس طرح اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھا ھے.

کچھ عرصه قبل کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے اندر 436/عرس شریف منعقد ھوتے ہیں.

 گویا ایک مہینے میں 53/یا دوسرے الفاظ میں روزانہ 1.74,
یعنی پونے دو عرس منعقد ھوتے ہیں. جو عرس ریکارڈ پر نہیں یا جن کا اجراء دوران سال ھوتا ھے ان کی تعداد بھی شامل کی جائے تو یقینا یہ تعداد دوعرس یومیہ سے بڑھ جائے گی.

 ان اعداد وشمار کے مطابق مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر اب ایسا کوئی سورج طلوع نہیں ہوتا جب یہاں عرسوں کے ذریعے شرک وبدعت کا بازار گرم کرکے اﷲتعالیٰ کے غیض وغضب کو دعوت نہ دی جاتی ھو.

ھماری یه تحریریں,بزرگ کے مزار پر عرس کی حقیقت کا سلسله جاری ھے.

کوشش کریں گے کل مکمل عرس کے متعلق اعداد و شمار کی رپورٹ آپ برادران تک پهنچائیں جو محمکه اوقاف کی ترتیب شده ھے.

کیونکه اس تجارت سے حکومت بھی خوب فائده اٹھا رھی ھے اور پیسے کے لالچ میں جاھل عوام کے ایمان و عقائد برباد کرنے میں برابر کی شریک ھے.

مزاروں پر سالانه عرس جھاں ھر برائی ملے گی...قسط نمبر:5

:بزرگوں کے مزاروں پر عرس کے دوران کی کیفیت
                
  قسط نمبر :5

خانقاھوں کے گدی نشینوں اور مجاوروں کے حجروں میں جنم لینے والی حیاء سوز داستانیں سنیں توکلیجہ منہ کو آتا ھے.

ان خانقاھوں پر منعقد ہونے والے سالانہ عرسوں میں مردوں ‘عورتوں کا کھلے عام اختلاط ‘عشقیہ اور شرکیہ مضامین پر مشتمل قوالیاں,

ڈھول ڈھمکے کے ساتھ نوجان ملنگوں اور ملنگنیوں کی دھمالیں ‘کھلے بالوں کے ایک بے حیائی کا منظر پیش کرتے ھیں.

قوالی کے بارے میں کہا جاتاھے کہ ہندوؤں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے اولیاء کرام نے قوالی کاسہارا لیا اور یوں برصغیر میں قوالی اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بنی,
نامور قوال نصرت فتح علی خان نے اپنے انٹرویو میں دعوی کیاص کہ اسپین ‘فرانس ‘اور دوسرے بہت سے ممالک میں لاتعداد لوگ ہماری قوالی سننے کے بعد مسلمان ہوگئے .
نوائے وقت فیملی میگزین 12تا 18مئی 1993 .

چنانچہ ہم نے چند نامور قوالوں کے کیسٹ حاصل کرکے سنے بھی ھیں اور بچپن سے انھیں سنتے بھی آ رھے تھے.
جن کے بعض حصے بطور نمونہ یہاں نقل کئے جارھے ھیں,
ان قوالیوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوالیوں کے ذریعہ اولیاء کرام کس قسم کے اسلام کی تبلیغ فرمایا کرتے تھے.

 اور آج اگر لاتعداد لوگ مغربی ممالک میں قوالیاں سن کر واقعی مسلمان ہوئے ہیں تو وہ کس قسم کے مسلمان ھوئے ہیں.

قوالی سن کر اور ریسرچ کرکے مسلمان ھونے میں اتنا فرق ھے,
 جیسے تلوار کے زریعے پھیلے اسلام اور سیرت اھلبیت علیھم اسلام کے حسن اخلاق اور پیار و محبت سے متاثر ھو کر اسلام لانے والوں میں فرق ھے.

ان قوالیوں کے ابتدائی بول کچھ اس طرح ھیں.

جاگنے کو مقدر ھے انسان کا عرس ھے آج محبوب سبحان کا.

 ہر طرف آج رحمت کی برسات ھے ‘ آج کھلنے پر قفل مہمات ھے.

ہر سو جلوہ آرائی ذات ھے  ‘ کوئی بھرنے پہ کشکول حاجات ھے. 

 مظہر ذات رب قدیرآپ ہیں ‘دستگیر آپ ہیں
شاہ بغداد پیران پیر آپ ہیں ‘ دستگیر آپ ہیں.

 پوری سرکار سب کی تمنا کرو
ہر بھکاری کی داتا جی جھولی بھرو.

 کسے شئے دی نئیں داتا کول تھوڑ اے ‘ پوری کرداں سوالیاں دی لوڑ اے.

گل جھوٹ نہیں اﷲدی سونہہ میری ‘  توں سچے دلوں دیکھ منگ کے.

 دل گناہ گار کا نہیں توڑدا  ‘ خالی داتا کدے وی نہیں موڑدا.

جھولی بھر دے گا مراداں نال تیری توں ‘    سچے دلوں دیکھ منگ کے.

علی ساڈے دلا وچ ‘علی ساڈے ساھوا ں وچ ‘علی ساڈے آسے پاسے‘علی اے نگاھواں وچ.

علی داں ملنگ میں تے علی دا ملنگ میں تے علی دا ملنگ.

 نظر کرم دی کردہ سوہنا ‘ خالی جھولیاں بھردا سوہنا.

جیہڑا وی ایہہ ورد پکاندا ‘ مرشد بیڑی پار لنگھادا.
 ھفت روزہ الاعتصام لاھور 18,مئی 1990ء.

نعتیہ اَشعار کا پڑھنا سننا تو بہت اچھی بات ھے،
 بشرطیکہ مضامین خلافِ شریعت نہ ھوں لیکن جھاں تک قوّالی میں ڈھول، باجا اور آلاتِ موسیقی کا استعمال ہوتا ھے، یہ جائز نہیں.
اور اولیاء اللہ کی طرف ان چیزوں کو منسوب کرنا، ان بزرگوں پر تہمت ھے.

 راگ کا سننا شرعاً حرام اور گناہِ کبیرہ ھے، شریعت کا مسئلہ جو آنحضرت ص سے ثابت ھو وہ ہمارے لئے دِین ھے.

اگر کسی بزرگ کے بارے میں اس کے خلاف منقول ھو، اوّل تو ھم نقل کو غلط سمجھیں گے.
 اور اگر نقل صحیح ھو تو اس بزرگ کے فعل کی کوئی تأویل کی جائے گی، اور قوّالی کی موجودہ صورت قطعاً خلافِ شریعت اور حرام ھے، اور بزرگوں کی طرف اس کی نسبت بالکل غلط اور جھوٹ ھے.

مزاروں پر مناسک حج اور جنت کی ٹکٹ کا اجراء...قسط نمبر :4

.تحلکه خیز پوسٹ......مت نظر انداز کریں

یه پوسٹ حقائق پر ھے معترض کا اعتراض اسکی کم علمی اور کم عقلی کا عکاس ھو گا.
                         قسط نمبر :4 

حضرت مجدد الف ثانی.....کے عرس شریف میں شامل ھونے والے پاکستانی وفد کے سربراہ سید افتخار الحسن ممبر صوبائی اسمبلی نے اپنی تقریر میں سرھند کو کعبہ کا درجه دیتے ھوئے,
 دعوی کیا کہ.  ’’ہم نقشبندیوں کے لئے مجدد الف ثانی ...... کا روضہ حج کے مقام (بیت اﷲشریف)کا درجہ رکھتا ھے.

 (نوائے وقت ,11اکتوبر 1991,جمعہ میگزین صفحہ:5).

صدر مملکت,کابینہ کے ارکان,فوج کے جرنیل ‘عدلیہ کے جج اور اسمبلیوں کے ممبر سبھی حضرات وطن عزیز کے تعلیمی اداروں کے سند یافتہ اور فارغ التحصیل ھیں .

ان کے عقیدے اور ایمان کا افلاس پکار پکار کر یہ گواھی دے رہا ھے کہ ہمارے تعلیمی ادارے درحقیقت علم کدے نہیں صنم کدے ھیں.

جہاں توحید کی نہیں شرک کی تعلیم دی جاتی ھے .
اسلام کی نہیں جہالت کی اشاعت ہورھی ھے,
جہاں سے روشنی نہیں تاریکی پھیلائی جارہی ھے,
 حکیم الامت علامہ اقبال رح نے ہمارے تعلیمی اداروں پر کتنا درست تبصرہ فرمایا ھے.

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا           کہاں سے آئے صدا  لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ.

        مذکورہ بالا حقائق سے اس تصور کی بھی مکمل نفی ہوجاتی ھے کہ قبر پرستی اور پیر پرستی کے شرک میں صرف ان پڑھ ‘جاہل اور گنوار قسم کے لوگ مبتلا ہوتے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ اس سے محفوظ ہیں.

3 :۔دین خانقاھی:
اسلام کے نام پر دین خانقاھی درحقیقت ایک کھلی بغاوت ھے,دین محمد ص کے خلاف‘عقائد وافکارمیں بھی اور اعمال وافعال میں بھی امر واقعہ یہ ھے کہ دین اسلام کی جتنی رسوائی خانقاھوں مزاروں,درباروں اور آستانوں پر ھورھی ھے.
 شاید غیر مسلموں کے مندروں,گرجوں اور گردواروں پر بھی نہ ہوتی ھو.

 بزرگوں کی قبروں پر قبے تعمیر کرنا,ان کی تزئین وآرائش کرنا,ان پر چراغاں کرنا ‘پھول چڑھانا.
انہیں غسل دینا,ان پر مجاوری کرنا,ان پر نذرونیاز چڑھانا,
وہاں کھانا اور شیرینی تقسیم کرنا,جانور ذبح کرنا,وہاں رکوع وسجود کرناہاتھ باندھ کر باادب کھڑے ھونا.

ان سے مرادیں مانگنا,ان کے نام کی چوٹی رکھنا,
ان کے نام کے دھاگے باندھنا,ان کے نام کی دھائی دینا,
تکلیف اورمصیبت میں انہیں پکارنا ‘مزاروں کا طواف کرنا,طواف کے بعد قربانی کرنا.

اور سر کے بال مونڈوانا,مزار کی دیواروں کو بوسہ دینا وہاں سے خاک شفا حاصل کرنا,ننگے قدم مزار تک پیدل چل کرجانا اور الٹے پاؤں واپس پلٹنا .

یہ سارے افعال تو وہ ھیں جو ھر چھوٹے بڑے مزار پر روز مرہ کا معمول ھیں اور جو مشہور اولیاء کرام کے مزار ہیں,
 ان میں سے ھر مزار کا کوئی نہ کوئی الگ امتیازی وصف ھے.

 مثلاً:  خانقاھوں پر بہشتی دروازے تعمیر کئے گئے ہیں.
 جہاں گدی نشین اور سجادہ نشین نذرانے وصول کرتے اورجنت کی ٹکٹیں تقسیم فرماتے ہیں.
 کتنے ھی امراء ‘وزراء‘اراکین اسمبلی ‘سول اور فوج کے اعلیٰ عہدیدار سر کے بل وہاں پہنچتے ہیں.
 اور دولت دنیا کے عوض جنت خریدتے ھیں,بعض ایسی خانقاھیں بھی ھیں جہاں منا سک حج ادا کئے جاتے ھیں.

مزار کا طواف کرنے کے بعد قربانی دی جاتی ھے,بال کٹوائے جاتے ہیں ‘اور مصنوعی آب زم زم نوش کیا جاتا ھےبعض ایسی خانقاھیں بھی ھیں,
 جہاں نومولود معصوم بچوں کے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں ‘بعض ایسی خانقاہیں بھی ھیں جہاں کنواری دوشیزائیں خدمت کے لئے وقف کی جاتی ھیں.

بعض ایسی خانقاھیں ھیں جہاں اولاد سے محروم خواتین ’’نوراتا‘‘بسر کرنے جاتی ھیں.
(ملتان کے علاقہ میں ایسی بہت سی خانقاہیں ھیں جہاں بے اولاد خواتین نوراتوں کے لئے جاکر قیام کرتی ھیں اور صاحب مزار کے حضور نذر ونیاز پیش کرتی ہیں .
مجاوروں کی خدمت اور سیوا کرتی ھیں اور یہ عقیدہ رکھتی ھیں کہ اس طرح صاحب مزار انہیں اولاد سے نواز دے گا.
 (عرف عام میں اسے نوراتا کہا جاتا ھے)

(سائیں لوگ بھی زمانه جاھلیت میں اس طرح کی بدعات کا حصه رھا ھے)

 انہی خانقاھوں میں سے بیشتر بھنگ چرس,افیون,گانجا اور ہیروئن جیسی منشیات کے کاروبار ی مراکز بنی ہوئی ھیں.
زمانه کی ترقی کے ساتھ ساتھ اب خانقاھوں پر شیشه کا نشه بھی دستیاب ھے.

 بعض خانقاھوں میں فحاشی بدکاری اور ھوس پرستی کے اڈے بھی بنے ہوئے ھیں.

بعض خانقاہیں مجرموں اور قاتلوں کی محفوظ پناہ گاہیں تصور کی جاتی ہیں.

اس طرح کا اڈا سائیں لوگ نے زمانه طالب علمی میں خیر پور ٹامیوالی میں واقع مزار خواجه خدا بخش کے عرس کے موقع پر بھی دیکھا جو موت کے کنواں سے ملحق تھا.

 (ویسے تو اخبارات میں آئے دن مزاروں اور خانقاھوں پر پیش آنے والے المناک واقعات لوگوں کی نظروں سے گزرتے ھی رہتے ہیں.

 ہم یہاں مثال کے طور پر صرف ایک خبر کا حوالہ دینا چاہتے ہیں:
 جو روزنامہ ’’خبریں ‘‘مورخہ 15,اکتوبر 1993ء میں شائع ھوئی ھے.

 وہ یہ کہ ضلع بہاولپور میں خواجہ حکیم الدین میرائی کے سالانہ عرس پر آنے والی بہاولپور اسلامیه یونیورسٹی اولڈ کیمپس  کی دوطالبات کو سجادہ نشین کے بیٹے نے اغوا کرلیا.
 جبکہ ملزم کا باپ سجادہ نشین منشیات فروخت کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا.

(مذید حانقاھوں کے متعلق چونکا دینے والے حقائق جاننے کیلۓ  "سائیں لوگ"
کی پوسٹوں سے جڑۓ رھیۓ)

ننگے دھڑنگے پیروں کی پوجا جھالت کی انتھاء

جھوٹے پیر اور مشھور صوفیه سے منصوب قصوں اور کرامات کا ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تعلیم کے زریعے بچوں پر اثر:

                       قسط نمبر :3

 کسی ملک کے تعلیمی ادارے اس قوم کا نظریہ اور عقیدہ بنانے یا بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں.

 ہمارے ملک اور قوم کی یہ بدنصیبی ھے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم ہمارے دین کی بنیاد عقیدہ توحید سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی.

 ایسے ایسے صوفیه کے حالات زندگی اور کرامات کو بڑھا چڑھا کر لکھا جاتا ھے که,

مضامین کو پڑھنے کے بعد دس بارہ سال کے خالی الذهن بچے پر جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں وہ یہ ہیں:

1 : بزرگوں کے مزار اور مقبرے تعمیر کرنا ان پر عرس اور میلے لگانا ان کی زیارت کرنا نیکی اور ثواب کا کام ھے .

2 :۔ بزرگوں کے عرسوں میں ڈھول تاشے بجانا ‘دھمال اور لڈی ڈالنا,رنگ دار کپڑے کے جھنڈے اٹھاکر چلنا بزرگوں کی عزت اور احترام کا باعث ھے .

3 : بزرگوں کے مزاروں پر پھول چڑھانا ‘فاتحہ پڑھنا ‘چراغاں کرنا ‘کھانا تقسیم کرنا او روہاں بیٹھ کر عبادت کرنا نیکی اور ثواب کا کام ھے .

4  : مزاروں اور مقبروں کے پاس جاکر دعا کرنا قبولیت دُعا کا باعث ھے.

5 : فوت شدہ بزرگوں کے مزاروں سے فیض حاصل ہوتا ھے اور اس ارادے سے وہاں جانا کارِ ثواب ھے.

اس تعلیم کا نتیجہ یہ ھے کہ ملک کے کلیدی عہدوں پر جو لوگ فائز ہوتے ہیں وہ عقیدہ توحید کی اشاعت یا تنقید کے مقدس فریضہ کو سرانجام دینا تو درکنار ‘شرک کی اشاعت اوراس کی ترویج کا باعث بنتے ہیں ,
چند تلخ حقائق ملاحظہ فرمائیں :

 (1)  صدر ایوب خاں ایک ننگے پیر
 (بابا لال شاہ)کے مرید تھے جومری کے جنگلات میں رہا کرتا تھا اور اپنے معتقدین کو گالیاں بکتا تھا,
 اور پتھرمارتا تھا اس وقت کی آدھی کابینہ اورہمارے بہت سے جرنیل بھی ا س کے مرید تھے.
(پاکستان میگزین 28,فروری 1992ء  )

 (2) ہمارے معاشرے میں ’’جسٹس‘‘ کو جو مقام اور مرتبہ حاصل ھے اس سے ہر آدمی واقف ھے ,
محترم جسٹس محمد الیاس صاحب ‘حضرت سید کبیر الدین المعروف
 شاہ د ولہ (گجرات)کے بارے میں ایک مضمون لکھتے ہوۓ رقمطراز ہیں:

 آپ کا مزار اقدس شہر کے وسط میں ھے اگر دنیا میں نہیں تو برصغیر پاک وہند میں یہ واحد بلند ہستی ہیں جن کے دربار پُر انوار پر انسان کا نذرانہ پیش کیاجاتا ھے,

وہ اس طرح کہ جن کے ہاں اولاد نہ ھو وہ آپ کے دربار مبارک پر حاضر ہوتے ہیں اور اولاد کے لئے دعا کرتے ہیں.
 ساتھ ہی یہ منت مانتے  ہیں کہ جو پہلی اولاد ہوگی وہ ان کی نذر کی جائے گی اس وجه سے جو اولین بچہ پیدا ہوتا ھے اسے عرف عام میں ’’شاہ دولہ ‘‘  کا چوہا کہا جاتا ھے .

اس بچے کو بطور نذرانہ دربار اقدس میں چھوڑدیا جاتا ھے اور پھر اس کی نگہداشت دربار شریف کے خدام کرتے ہیں بعد میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں.

 وہ عام بچوں کی طرح تندرست ہوتے ہیں روایت ھے کہ اگر کوئی شخص متذکرہ بالا منت مان کر پوری نہ کرے تو پھر اولین بچے کے بعد پیدا ہونے والے بچے بھی پہلے بچے کی طرح ہوتے ہیں.
(نوائے وقت 26,مارچ 1991ء).
میں نے 2012,میں بی بی سی کی ایک تحقیقی ویڈیو دیکھی جو اسی دربار کے متعلق ھے اس میں انھوں نے مکمل ھسٹری بتائی ھے بلکه چند شاه دوله چوھوں کے انٹرویو بھی پیش کیۓ ھیں.

جھاں تک ان چوھوں کے سر کا تعلق ھے جو بچے وھاں بیٹھے درباری چیلوں کی نذر کیۓ جاتے ھیں ان معصوم بچوں کے سر پر لوھے کا ایک خول چڑھا دیا جاتا ھے جسکی وجه سے انکا سر بڑھ نھیں پاتا اسی طرح ایک تندرست بچے کو معزور کرکے ملک کے طول و عرض میں چنده اور نذر نیاز جمع کرنے کیلۓ بھیج دیا جاتا ھے.

ھمارۓ علاقه جنوبی پنجاب کے پسمانده مضافات تک انکی مار دیکھی گئی ھے.

نوٹ.  :
ھم حکومت پاکستان سے مطالبه کرتے ھیں که اس دربار کو منھدم اور معصوم بچوں کو پوری زندگی کیلۓ محتاج کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکا کر  نشان عبرت بنایا جاۓ.

 (3)  جناب جسٹس عثمان علی شاہ صاحب مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک انتہائی اعلیٰ اور اہم منصب  ’’وفاقی محتسب اعلیٰ‘‘  پر فائز ہیں ایک انٹرویومیں انہوں نے یہ انکشاف فرمایا ’’میرے دادا بھی
فقیر تھے ان کے متعلق یہ مشہور تھاکہ اگر بارش نہ ھو تو اس مست آدمی کو پکڑ کر دریا میں پھینک دو تو بارش ہوجائے گی انہیں دریا میں پھینکتے ھی بارش ہوجاتی تھی,
 آج بھی ان کے مزار پر لوگ پانی کے گھڑے بھربھر کرڈالتے ہیں.
(اردو ڈائجسٹ ستمبر 1991ء).

(یه دلچسپ موضوع ابھی جاری ھے)

بزرگوں کے مزار شرک کے مراکز ...قسط نمبر:2

ان الاشرک لظلمه العظیم :

                      قسط نمبر :2

شرک کے مختلف رائج الوقت اسباب
یوں تو نہ معلوم ابلیس کن کن اور کیسے کیسے دیدہ ونادیدہ طریقوں سے شب وروز اس شجرہ خبیثہ ’’ شرک‘‘ کی آبیاری میں مصروف ھے.

 اور نہ معلوم جاہل عوام کے ساتھ ساتھ بظاہر کتنے نیک سیرت درویش ‘پاک طینت بزرگان دین ‘صاحب کشف وکرامت اولیاء عظام‘ ترجمان شریعت علماء کرام ‘ملک وقوم کے سیاسی نجات دہندگان اور خادم اسلام حکمران بھی حضرت ابلیس کے قدم بقدم اس ’’ کارخیر‘‘ میں شرکت فرمارھے ہیں.

بقول سیدنا عبداﷲبن مبارک رح فرماتے ھیں.
  فَھَلْ أَفْسَدَ الدِّ یْنَ اِلَّا الْملُوک   وَأَحْبَارُ سُوْء وَ رُھْبَانُھا

 ترجمہ: 
کیا دین بگاڑنے والوں میں بادشاھوں ‘علماء اور درویشوں کے علاوہ کوئی اور بھی ھے.

  اس لئے ایسے اسباب وعوامل کا ٹھیک ٹھیک شمار کرنا تو مشکل ھے تاہم جو اسباب شرک کی ترویج کا باعث بن رھے ہیں ان میں سے اہم ترین اسباب درج ذیل ہیں.

(1) جہالت 
(2)ہمارے صنم کدے (تعلیمی ادارے) .
(3) دین خانقاھی
 (4) فلسفہ وحدت الوجود ‘ وحدت الشہوداور حلول.
 (5) برصغیر ہندوپاک کا قدیم ترین مذہب‘ ہندومت.
 (6) حکمران طبقہ
 1:جہالت
 کتاب وسنت سے لاعلمی وہ سب سے بڑا سبب ھے جو شرک کے پھلنے پھولنے کاباعث بن رہا ھے .
اسی جہالت کے نتیجے میں انسان آباء واجداد اور رسم ورواج کی اندھی تقلید کا اسیر ہوتا ھے.
 اسی جہالت کے نتیجے میں انسان ضعفِ عقیدہ کا شکار ہوتا ھے اسی جہالت کے نتیجے میں انسان بزرگان دین اور اولیاء کرام سے عقیدت میں غلو کا طرز عمل اختیار کرتا ھے درج ذیل واقعات اسی جہالت کے چند کرشمے ہیں.

۱۔دھنی رام روڈ لاہور میں کچھ عرصه قبل تجاوزات پر جوتیر چلا ان کی زد سے بچنے کے لئے میو ہسپتال کے نزدیک ایک میڈیکل اسٹور کے منچلے مالک نے اپنے اسٹور کے بیت الخلاء پر رات کے اندھیرے میں
              
                  ’’شاہ عزیز اﷲ‘‘

کے نام سے ایک فرضی مزار بناڈالا اس مزار پر دن بھر سینکڑوں افراد جمع ہوئے جو مزار کا دیدار کرتے اور دعائیں مانگتے رہے ‘‘(نوائے وقت 19جولائی 1990  )

2:  اختلاف امت کا المیہ کے مصنف حکیم فیض عالم صدیقی صاحب لکھتے ہیں.
میں آپ کے سامنے ایک واقعہ حلفیہ پیش کرتا ھوں چند روز ھوئے میرے پاس ایک عزیز رشتہ دار آئے جو شدت سے کشتہ پیری ہیں میں نے باتوں باتوں میں کہا کہ فلاں پیر صاحب کے متعلق چار عاقل بالغ گواہ پیش کردوں جنہوں نے انہیں زنا کاارتکاب کرتے ہوئے دیکھا ھو تو پھر ان کے متعلق کیا کہو گے.

کہنے لگے ’یہ بھی کوئی فقیری کا راز ھوگا جو ہماری سمجھ میں نہ آتا ہوگا پھر ایک پیر صاحب کی شراب خوری اور بھنگ نوشی کا ذکر کیا توکہنے لگے بھائی جان یہ باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں وہ بہت بڑے ولی ہیں.
( اختلاف امت کا المیہ صفحہ :96).

ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں کوٹلی کے ایک پیر صاحب (نہواں والی سرکار)کے چشم دید حالات کی رپورٹ کا ایک اقتباس ملاحظہ ھو.
صبح آٹھ بجے حضرت صاحب نمودار ہوئے اردگرد (مرد وخواتین )مرید ہولئے کوئی ہاتھ باندھے کھڑا تھا کوئی سرجھکائے کھڑا تھا کوئی پاؤں پکڑ رہا تھا.

 بعض مرید حضرت کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے چل رھے تھے جبکہ پیر صاحب نے صرف ایک ڈھیلی ڈھالی لنگوٹی باندھے ہوئے تھے چلتے چلتے نہ جانے حضرت کو کیا خیال آیا کہ اسے بھی لپیٹ کر کندھے پر ڈال  لیا ,
خواتین نے جن کے محرم (بھائی بیٹے یا باپ)ساتھ تھے شرم کے مارے سر جھکالیا لیکن عقیدت کے پردے میں یہ ساری بے عزتی برداشت کی جارہی تھی .

 مجلہ الدعوۃ ‘لاھور مارچ 1992,صفحہ:4.

                        (جاری ھے).

بزرگوں کے مزاروں پر عرس برائی کے مرکز ...قسط نمبر:1

یه درست ھے جھاں صوفیه نے آپنی زندگی میں اسلامی شریعت کا دیا پاچا ایک کیا اور بدعات و خرافات کی بھرمار کی وھاں انکے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی یه سلسله نه تھما ,

اور ان کے ھڈ حرام کام چور مریدوں چیلوں نے کوئی کسر نه چھوڑی.

صوفیه اور ان کے مزاروں پر عرس:
 کیونکه لازم و ملزوم ھیں لھذا چاھا صوفیه کے بعد اب ان پر لکھ کر ناسمجھ مسلمانوں کو اس گمراھی کے مراکز کے بارۓ قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات کی روشنی میں باخبر کیا جاۓ.

ھم اولیاء الله کےمزاروں پر ھدایت و عبرت کیلۓجانے والوں کے خلاف نھیں بلکه وھاں ھونے والی فرسوده بدراه رسومات کے خلاف ھیں.

ھماری ان تحریروں کا مقصد کسی کی توھین و تضحیک نھیں بلکه اصلاح کا راز پوشیده ھے.
                
                 قسط نمبر :1

              بسم اللہ الرحمن الرحیم​
جب تک مسلمان دینِ اسلام کی اصل قرآن و حدیث پر رھے متحد اور مجتمع رھے.

 جیسے ھی لوگوں کے فہم و فلسفہ کو اپنایا تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور دینِ محمد ص میں اپنی من مانی جب بھی کی جائے گی اس اُمت میں انتشار کا ھی باعث بنے گی.

ایک لمبے عرصہ تک ہم لوگ ہندؤوں کے ساتھ رھےہیں جس کی وجہ سے ہندؤوں کے مذہب کی کافی باتیں اور رسم و رواج کو اسلام سمجھ چکے ہیں.

 اور ان پر بہت سختی کے ساتھ کاربند بھی ہیں اور جو ایسے رسم و رواج کے خلاف بات کرئے اس پر فتوے لگ جاتے ہیں جہاں اور بھی بہت سی جاہلانہ رسمیں ہیں ان میں ایک رسم ھے درگاھوں,درباروں آستانوں پر میلوں کا انقاد،
 ہمارے مولوی لوگ اس کو اسلام کا نام دیتے ہیں مگر جب ان سے کہا جاے کہ مولوی صاحب یہ کہاں کا اسلام ہے کہ جہاں گانے باجے بجتے ھوں، کھسرے تو کھسرے عورتیں اور مرد بھی ڈانس کرتے ھوں.

جہاں اذان و اقامت اور نماز کے اوقات میں بھی گانے، قوالیاں بجتی رہتی ہیں قبرستانوں کے اندر موت کے کنوئیں لگا کر نور جھاں اور نصیبو لال کے سیکسی گانوں کی کان کے پردۓ پھاڑ سپیکروں کی آواز میں کھسرۓ ناچتے ھوں.
اور لواطت و زنا کا بازار گرم ھو کیا یه اسلام کی تعلیمات ھیں.

عرس کے لغوی معنی ھیں,شادی,اسی لیۓ دولھا دلھن کو عروس کھتے ھیں .بزرگان کی تاریخ وفات کو اس لیۓ عرس کھتے ھیں که مشکواة باب اثبات عذاب القبر ص:25, جب نکیرین میت کا امتحان لیتے ھیں اور وه کامیاب ھوتا ھے تو کھتے ھیں :
ثم کنو مة العروس الذی لا یو قظه الا احب اھله الیه .
ترجمه پیش ھے:
سو جا اس دولھا کی طرح جسے صرف اس کا محبوب جگاتا ھے.

تو چونکه اس دن نکیرین نے عروس کھا اس لیۓ وه دن روز عروس کھلایا.

عرض یه که نکیرین میت کی نیند کو عروس کی نیند سے تشبیه دیتے ھیں.

عرس یعنی بزرگان کی شادی میں شرکت کے شائقین آنے والے دولھا یا دلھن کیلۓ دولھا بھی ثابت کرنا پڑے گا.
پھر جب وه شب زفاف منائیں گے پھر غسل جنابت کیلۓ انکی قبر میں پانی کا پائپ بھی لگانا پڑۓ گا.

پھر دعوت ولیمه بھی ھو گی پھر بچے بھی پیدا ھوں گے اور ان کے ختنے عقیقے وغیره کا بندوبست بھی کرنا پڑۓ  گا وغیره وغیره.
پھر یه بزرگوں یا سجاده نشینوں تک محدود نھیں رھے گی.
نکیرین تو ھر موحد اور متبع سنت مسلمان کو یه خوشخبری سناتے ھیں .

لھذا آپنے مسلک کے مطابق انھیں چاھیۓ که ھر مسلمان کی قبر پر ھر سال اس کے روز وفات پر عرس منایا کریں.

کیونکه وه اس کی شادی کا دن ھوتا ھے صرف بزرگوں کا عرس منانا کانی ونڈ ھے....
عجیب بات ھے زندگی میں تو یه لوگ بزرگوں کی شادی والے دن سالانه عرس نھیں مناتے مرنے والے دن کا عرس مناتے ھیں.

اس سے معلوم ھوا عرس منانے والوں کو جینے کی نھیں مرنے کی خوشی زیاده ھوتی ھے. 
شاید اس لیۓ ان استخواں فروشوں کے نذدیک مرنے والے کی ھڈیاں زیاده نفع کا سودا ھوتی ھیں.
پھر ان مخصوص قسم کے بزرگوں کو سمجھ لینا بھی تو محل نظر ھے.ھو سکتا ھے جنھیں یه بزرگ سمجھتے ھوں وه محض ان کا حسن ظن ھو اور جن کو انھوں نے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا درحقیقت وه اولیاءالله  ھوں.

شرح فقه اکبر ص:131 پر ھے ترجمه:
پیغمبر اکرم ص کے علاوه علماء اور صلحاء کی بابت متعین طور پر بالجزم یه نھیں کھه سکتے که انکی موت ایمان پر ھوئی ھے.
اگرچه ان خوارق عادات کمال حالات اور جمال انواع طاعات ظھور پذیر ھوۓ ھوں.
کیونکه یعقینی خبر کی بنیاد مشاھده پر ھے اور یه مشاھده انسانی افراد سے مستور ھے.
نکیرین کسی کو عروس کی نیند سلاتے ھیں اور کسی کی ھڈی پسلی ایک کر دیتے ھیں یه برزخی ھے اسے جاننا شائقین عرس کے بس کی بات نھیں ھے عین ممکن ھے بزرگوں نے کان پکڑۓ ھوۓ ھوں اور یه براتی ان پر شھنائیاں بجا کر انھیں زھنی طور پر دوھری ازیت میں مبتلا کر رھے ھوں.
ملحاظه کیجیۓ شرح فقه اکبر ص:131.
شاه عبدالعزیز صاحب نے فتاوی عزیزیه ص:45/ پر لکھتے ھیں یه قسم (یعنی عرس) رسول الله ص اور خلفاۓ راشدین کے دور میں مروج نه تھی اگر کوئی کرۓ  تو حرج نھیں.
زبدة النصائح فی مسائل الزبائح میں بھی کچھ اسی طرح کی تشریح موجود ھے.

عرس کی مناسبت سے مجھے ایک واقعه یاد آیا ھے 1994/ء میں ھمارۓ اسلامیات کے پروفیسر نے ایک واقعه سنایا جو جلال پور پیروالا میں پیش آیا.
ایک آدمی کا گدھا بھت ھی لائق اور فرمانبردار سمجھ والا, مالک اور گدھا ایک دوسرۓ سے بھت مانوس تھے یه فطری عمل تھا دوران سفر کسی وجه سے گدھا راستے میں مر گیا.

 چونکه مالک کو بھت پیارا تھا اس نے اسکی لاش کو کھیتوں میں عریاں پھینکنے کی بجاۓ ایک گڑھا کھود کر سڑک کنارۓ دفن کر دیا ,
تاکه اسکی تذلیل نه ھو.

کچھ عرصه بعد وھاں سے اس شخص کا دوباره گزر ھوا کیا دیکھتا ھے قبر بناکر سبز رنگ کی چادر ڈالے ایک باریش بنده بیٹھا ھے اور آنے جانے والوں پر دم کر رھا ھے اور لوگ منتیں مان رھے ھیں شرینیاں تقسیم ھو رھی ھیں چڑھاوۓ چڑھاۓ جا رھے ھیں نذر نیاز کا زور ھے .

اس نے مختلف لوگوں سے پوچھا ماجرا کیا ھے کچھ عرصه پهلے یھاں کچھ نه تھا اب سب کچھ ھے لوگوں نے بتایا یه بزرگ بیٹھے ھیں ان کے والد کا مزار ھے اور وه آپنے وقت کے پهنچے ھوۓ ولی تھے بیٹے کو زیارت ھوئی ھے که میری قبر کی نشاندھی کی جاۓ اور روزنه ختم قرآن پڑھا جاۓ.

ایک دفعه تو وه شخص چونک گیا پھر اس جگه کا تعین کرنے لگا که واقعی یھی جگه ھے جھاں اس نے آپنا پیارا گدھا دفن کیا تھا یعقین ھونے پر اور نذر نیاز اور چڑھاوۓ دیکھ کر,
 اس کے جی میں بھی لالچ پیدا ھوا اس نے مجاور کو کھا که یهاں  تو میرا باپ دفن تھا متولی نے کھا بھائی یه تو میرۓ ابا جی تھے معامله بڑھ گیا ,
مجبورا متعلقه تھانه کو اطلاع کی گئی اب دونوں دعوی دار تھے اور بضد تھے که اس کے والد مدفن ھیں تو فیصله کیا گیا که قبر کشائی کی جاۓ .
تاکه معامله کو سلجھایا جاۓ جب قبر کشائی ھوئی تو عوام کی کثیر تعداد جمع ھو گئی که آج روحانی بابا کی قبر کھودی جا رھی تو آج بابا کے چھره انور کی زیارت ھوگی.
اب پریشان دونوں دعویدار تھے که معامله کو نه دبایا جا سکتا ھے اور نه ھی منحرف ھوا جا سکتا ھے.
جب قبر کھودنا شروع ھوئی تو ھر آدمی کی زبان پر کلمه اور درود کا ورد تھا جیسے ھی تھوڑی گھرائی پر گۓ تو سیاه بال اور لمبی لمبی ھڈیاں برأمد ھونا شروع ھو گئیں مگر جب گدھے کے سر کو باھر نکالا گیا اس وقت ھر انسان انگشت حیرت بدنداں تھا که یه کیا ماجرا ھوا .

تشویش پر گدھے کے مالک نے سب حقیقت بیان کر دی .
اب یه تو حالت ھے ان بزرگ پرست مسلمانوں کی جو گدھوں کو پوجنا شروع کر دیا ھے.                     (جاری ھے.)

جانشین پیغمبر ص کون.....البدایه والنھایه

.....
جانشین پیغمبر ص کون

برادران اسلام کو دعوت فکر که وه راه حق کا انتخاب کریں:

تبلیخ اسلام کے آوائل میں ھی آپ ص نے 
مولا علی ع کو آپنا وزیر و جانشین اور اسکی اطاعت واجب قرار دے دی تھی.

ابلاغ رسالت کیلۓ جب حکم خدا وندی ھوا تو آپ ص کوه صفا پر تشریف لاۓ اور باآواز بلند لوگوں کو بلایا جب سب جمع ھو گۓ تو آپ نے فرمایا:

آۓ بنی عبدالمطلب ,بنی فھر,اور آۓ بنی کعب مجھے حکم ھوا ھے که میں آپنے عزیز و اقربا کو الله کے خوف سے ڈرا کر قبول اسلام کی ھدایت کروں.

آپ ص نے حضرت علی ع کو حکم دیا که ایک بڑۓ برتن ایک صاع (تقریبا ایک سیر)کھانه لاؤ اور ایک برتن میں دودھ تاکه ھم انھیں اسلام کی دعوت سے قبل کچھ کھلا پلا سکیں.

آپکے ارشاد کی تعمیل میں تقریبا 40/لوگ بنی عبدالمطلب کے جمع ھوۓ جن میں حضرت حمزه,حضرت ابو طالب اور ابو لھب بھی شامل تھے.

سب کو پیٹ بھر کے کھانا کھلایا اور حضرت علی ع سے فرمایا اب انھیں  دودھ پلاؤ.

تھوڑا سا کھانا اور دودھ کی برکت جب لوگوں نے دیکھی تو کھنے لگے یه جادوگر ھیں اور آپنے معجزه سے لوگوں کو بھکاتا ھے.

جب بات کرنے کا وقت آتا تو سب چلے جاتے مسلسل تین دن ایسے ھوا تیسرۓ دن کھانے کے بعد حضرت ابوطالب نے سب کا راسته روکا,
 اور ھر حال میں دعوت اور بلانے کی وجه سماعت کرنے پر ضد کی,

 چونکه آپ ص نے فرمایا مجھے الله تعالی کی طرف سے حکم ھوا ھے که میں تمھیں الله کی طرف بلاؤں اب بتائیں اس سلسله میں میری کون مدد کرۓ گا.

سب نے بڑی اعتنائی سے منه پھیر لیا اس حضرت علی ع نے کھا میں آپکی مدد و نصرت کیلۓ تیار ھوں.

یه سن کر رسول الله ص نے حضرت علی ع کی کلائی پکڑ کر فرمایا :

یه(علی ع)میرا بھائی اور میرا وزیر ھے اب تم اسکی بات سنو اور اطاعت کرو.

آپکی یه بات سن کر سب ھنسنے لگے اور ابو طالب سے بولے کیا اب تمھارۓ بھتیجے کے علاوه بیٹے کی بات بھی سننی اور اطاعت کرنی واجب ھے.

امام احمد فرماتے ھیں که یه اس لیۓ کیا که اگر ارسول الله ص کو خدا نا خواسته ابلاغ رسالت کے دوران آپکو قتل یا وفات ھو جاتی ھے تو آپکی جگه کون لے گا.

اس لیۓ آپ نے تبلیغ اسلام کے آوائل ھی میں یه سعادت مولا علی ع کو سونپ دی تھی.

که میرۓ بعد میرا وزیر و وصی میرا بھائی علی ع ھے اسکی بات سننا اور اطاعت کرنا تم پر واجب ھے.

جبکه عملی طور پر ایسا نھیں ھوا بلکه آپکی آخیر زندگی میں ان سب احکامات کی دھجیاں بکھیر دی گئیں.
بعد میں کیا ھوا سب آپ برادران کے علم میں ھے.

جب دعوت زوالعشیره پر مولا علی ع نے مدد و نصرت کیلۓ وعده کیا اس وقت آپکی عمر مختلف روایات ھیں سات سال مگر مستند ھے دس سال تھی.
سب سے پهلی نماز بھی حضرت علی ع نے آپ ص کی اقتدا میں پڑھی.

البدایه میں ھے که اس وقت اڑتیس صحابه مسلمان ھو چکے تھے جن میں حضرت ابو بکر بھی شامل تھے.

مگر دعوت أاڑانے کے بعد آپ ص کی  مدد کی درخواست پر مولا علی ع آگے بڑھے.

یه تحریر تاریخ اسلام کی مایه ناز اھلسنت کی کتاب تاریخ ابن کثیر(البدایه والنھایه)جلد سوم ص:61,62,63,64/سے ماخوز ھے.

پاک نبی ص نے مواخات کے موقع پر حضرت علی ع کو آپنا بھائی قرار دیا.(البدایه والنھایه)

پاک نبی ص نے مولا علی ع کو آپنا بھائی قرار دیا:

 مواخاة اسلامی کیلۓ جو تلقین یا عملی مظاھره کیا آپ ص نے حضرت انس کے گھر مھاجرین و انصار میں فردا فردا اخوت اسلامی کی بنیاد رکھی اور ھر صحابی مھاجر کو انصار کے ساتھ بھائی بنانے کا حلف لیا.

جب سب ایک دوسرۓ کے بھائی بنا دیۓ گۓ تو مولا علی ع کا ھاتھ آپنے ھاتھ میں لے کر فرمایا:
ھذا اخی(یه میرا بھائی ھے).
چنانچه اس طرح رسول الله ص جو سید المرسلین,امام المتقین,اور رسول الرب العالمین تھے اور جن کا کوئی دوسرا عدیل و مثیل نھیں ھے اس اجتماع میں ,

تو آپ ص نے حضرت علی بن ابی طالب ع کو آپنا بھائی قرار دیا.

اس معامله میں بھی ناصبی نے یه حقیقت ضائع کرنے کی کوشش کی مگر علامه ابن کثیر کی راۓ کے مطابق اس میں کسی طرح شک و شبه کی گنجائش نھیں اور نه اسکی صحت سے علماۓ کرام انکار کرتے ھیں.

دوسری بات یه که البدایه والنھایه ص:224 پر بحث کرتے ھوۓ ابن کثیر لکھتے ھیں که آنحضرت ص اور حضرت علی ع کے درمیان بھائی بندی کی روایت سے اس لیۓ انکار نھیں کیا جا سکتا که آپ ص حضرت علی کے حقیقی عم زاد تھے.

اور چچا ا وطالب ع کی زندگی ھی میں آپ ص نے حضرت علی کو آپنی پرورش ,نگھداشت اور تربیت میں لے لیا تھا.

گستاخ رسول ص کی سزا ,سر تن سے جدا

  • .برادران اھلسنت کے ھاں ایک نعره پر سب گروه متفق ھیں اور عام لگایا جاتا ھے


 بلکه ھم بھی اس نعره پر عملدرآمد کے حق میں ھیں که:

گستاخ نبی ص کی سزا...
         
                          سر تن سے جدا.....

آج ھم ایک نام نھاد مسلمانوں کے خلیفه و صحابی کا زکر کرتے ھیں جس نے ھر جگه پاک نبی ص کے احکامات کی خلاف ورزی اور گستاخی کی..

جبکه قرآن پاک سوره نجم ع :3/4,میں الله تعالی فرماتے ھیں ھیں که رسول ص آپنی خواھش سے نھیں بولتے وه تو وھی کھتے ھیں جو وحی ھوتا ھے.

جبکه دوسری جگه فرمایا که میرۓ رسول ص کے آگے اونچی زبان سے مت بولو ھمیشه آپنی آواز دھیمی رکھو.

اب ھم  تاریخ کے اوراق پلٹتے ھیں که کس نے اور کھاں کھاں گستاخی کی.

صلح حدیبیه ھو. یا بدری صحابی کا سر قلم کرنے کا واقعه.

منافق عبدالله ابی کا جنازه پڑھنا ھو یا جنگ احد میں خاموش رھنے کا حکم ,

ھر جگه پاک نبی ص کے احکام کی مخالفت کی گئی.
چند گستاخیاں تو ایسی شدید کیں که ان کے آزاله کیلۓ ساری عمر صدقه خیرات و استغفار کرتے رھے.

تفصیل ملحاظه فرمائیں پیش کرده کتب کے اورجنل سکین میں.

حوالاجات تاریخ کی معتبر ترین کتب کے ھیں جنھیں جھٹلایا نھیں جا سکتا.

البدایه والنھایه...رحیق المختوم یه کتاب اسلامی دنیا سے تین ایوارڈ جیت چکی ھے.
اور سعودی ڈاکٹر علی محمد الصلابی کی سیرت سیدنا عمر بن خطاب.

اور برصغیر پاک و ھند کی سیرت النبی ص پر معتبر کتاب مدارج النبوت.

گستاخ رسول ص کا تعین اگر چوده سال پهلے سے کر لیا جاتا تو آج کسی بدبخت کو توھین رسالت کی جرات نه ھوتی.

گستاخ رسول ص,..رام سیتا..اور ارسطو,

رات ھم نے مسلمانوں کے نام نھاد خلیفه کے متعلق کچھ رسول الله ص کی گستاخی کے متعلق ثبوت دیۓ یه عام باتیں ھیں بلکه برادران آپنی تقریروں میں فخریه بیان بھی کرتے ھیں.

کچھ بھائی دفاع کیلۓ بھی سامنے آۓ شاید وه تاریخ سے ناواقف ھیں.

اگر ھم باریکی سے ان کتب کا مطالعه کریں تو پتا نھیں اور کتنے مواقع پر اس طرح کی گستاخی کی گئی.

اگر غیر مسلم  شان پیغمبر ص میں گستاخی کرۓ یا اس پر الزام لگا دیا جاۓ تو ھم  احتجاج کرتے ھوۓ سڑکوں پر آ جاتے ھیں,

سزاۓ موت کا مطالبه کرتے ھیں بلکه پچھلے کچھ عرصه میں انکی آبادیوں تک کو آگ کے ساتھ  زنده کچھ لوگوں کو آگ  میں بھی دھونس دیا.

مگر ھمارا مسلمان اگر اس طرح کی حرکت کر لے تو ھمیں ناگ سونگھ جاتا ھے.

ھزاروں سال قبل سکندر آعظم کے استاد اور سقراط و افلاطون کے شاگرد,

                          " ارسطو "

کا جو 322/قبل مسیح وفات پا گۓ تھے یونان میں کیس ری اوپن کیا گیا,

 تاکه اس کی موت کی وجوھات جان کے قاتل کی سزا کا تعین کیا جا سکے.

اسی طرح کا ھزاروں سال پرانا ایک اور کیس شھر پٹنه ریاست بھار انڈیا کی عدالت میں بھی کھولا گیا.

                " رام اور سیتا"

کا ,  رام کے بھائی لکشمن پر لگے الزام میں رام کو قصور وار ٹھرا کر منافقت کھا گیا.

پاکستان میں بھی آج سے 45/سال قبل کا زوالفقار علی بھٹو کا کیس پیپلز پارٹی دوباره سماعت کرانا چاھتی ھے تاکه جھوٹ اور سچ کا تعین کیا جاۓ حالنکه قاتل بھی مر چکے ھیں.

اس طرح کے اور بھی بھت کیسز ھیں جو دوباره سماعت کرکے مجرمین کی سزا کا تعین کیا گیا.

 بھت سے کیس مسلمانوں میں بھی زیر التوا ھیں جن کا تعین کرنا باقی ھے.

شان رسالت ص میں گستاخی کے بارۓ پاکستان کا قانون سزاۓ موت کی سزا تجویز کرتا ھے.

جھاں بھت سے گستاخان رسالت ص کو مسلمانوں کی منافقت نے سزا  سے بچایا ھے,

 بلکه اس طرح کے لوگوں کو احترام کا درجه دیتے ھوۓ ملت اسلامیه کا خلیفه بھی چن لیا گیا.

صرف ایک مذھب ھے مذھب حقه اثناۓ عشریه جو مسلسل چوده سو سال سے احتجاج پر ھے .اور مطالبه کر رھا ھے

که گستاخ پیغمبر ص جو بھی ھو بلا تفریق جو حیات ھیں انھیں بھی اور جو مر گۓ ھیں قبروں سے ان کی باقیات مراد بوسیده ھڈیوں کو بھی گٹھڑی میں باندھ کر علامتی سولی چڑھایا جاۓ.

تاکه آنے والے وقتوں میں کسی کو شان رسالت ص میں نازیبا الفاظ ادا کرنے کی جرات نه ھو.

اگر عمل نه کیا تو پھر ھمارا کیس الله تعالی کی عدالت میں ھے جھاں زره بھر بھی ناانصافی کا اندیشه نھیں ھے.

ھمارا یه مطالبه عالم اسلام کے صاحب طاقت حکمرانوں سے ھے.

که آۓ مسلمانوں الله کی ان آیات کی پاسداری کرو,

 جن میں فرمان الھی ھے.

قرآن مجید میں سورہ نحل کی آیت مبارکہ (90) میں ارشاد ربانی ھے, ترجمہ:

 بے شک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کا اور احسان کا.

بلکه قرآن میں 227/سورتوں میں عدل پر زور دیا گیا ھے.

چاھے تمھاری اولاد اور ماں باپ ھی کیوں نه ھوں.

جبکه پاک نبی ص نے سابقه قوموں کی تباھی کی وجه بھی عدل کا نه ھونا بتایا.

دیکھتے ھیں ھماری اس آواز کو کتنی تائید ملتی ھے.

حضرت عمر کھتے ھیں عورت کی حیثیت ایک کھلونا جیسی ھے.

عورت کی حیثیت ایک کھلونا  جیسی ھے جس سے کھیل کر پھر اسے  چھوڑ دیا جاتا ھے.
                                      (حضرت عمر)

حضرت عمر نے بیوی عاتکه بنت زید اور موسی اشعری کی پٹائی کیوں کی.

ابن عمر کا بیان ھے که ابو موسی اشعری نے میری ماں عاتکه بنت زید کو تقریبا ڈیڑھ گز کی چٹائی بطور ھدیه بھیجی جب میرۓ باپ نے وه تحفه میری ماں کے پاس دیکھا تو پوچھا یه تم کو کھاں سے ملا امی عاتکه جی نے جواب دیا ابو موسی اشعری نے دیا .

حضرت عمر نے وه چٹائی لی اور سر میں دے ماری یھاں تک که اس کا سر چکرا گیا اور کھا موسی اشعری کو بھی پیدل پکڑ کر لاؤ.

جب وه پیدل چل کر آۓ تو کافی تھک چکے تھے ابھی دروازه پر ھی تھے کھا یا امیرالمومینین میرۓ بارۓ جلدی نه کیجیۓ ,

حضرت عمر نے کھا تم ھماری عورتوں کو تحفے دیتے ھو,
 وھی چٹائی ان کے بھی سر پر دے ماری اور کھا اسے لے کر بھاگ جاؤ ھمیں تمھاری چٹائی کی ضرورت نھیں.

ماخوز:
یه واقعه سعودی عرب کے ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی, کی 848/صفحات پر مشتمل تاریخی کتاب

سیدنا عمر بن خطاب (سیرت و کارنامے).

باب :نامزدگی,نظام حکومت اور معاشرتی زندگی..,ص:225.   سے لیا گیا ھے.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...