Saieen loag

ہفتہ، 25 مئی، 2019

علم غائب اور اھل غلو....قسط نمبر:6

  • علم غیب والا عقیده آور اھل غلو کی خرافات
    1.                          
    2. قسط نمبر:6.         تحریر و تحقیق  : سائیں لوگ

    3. ویسے تو غلو ھر مذھب میں پایا جاتا ھے مگر اسلام میں اھلسنت بریلوی اور شیعه مذھب آپنا ثانی نھیں رکھتے جن میں ایک واقعه ھم درج کر رھے ھیں.

    4. تفسیر روح البیان میں ایک حدیث ھے که حضرت آدم علیه اسلام کو سات لاکھ زبانیں سکھائی گئیں .

    5. مگر جب ھم نے  اس مبالغه آمیز گپ کا حوالا کتاب تلاش کرنا چاھا تو نھیں مل پایا.

    6. اھل غلو ایک بات یه بھی کھتے ھیں که رسول الله ص کے علم کے دریا کے یا میدان کے مقابلے میں حضرت آدم ع کا علم کا ایک زره بھی نھیں ,

    7. بے شک ھمارا اس پر ایمان ھے مگر غالی کی اس خرافت کا کیابنے گا.

    8. اگر حضرت آدم ع کو سات لاکھ زبانیں سکھلائی گئیں تھیں تو پاک نبی ص کو تو لازما کھربوں زبانیں سکھائی گئیں ھوں گی .

    9. مگر امر واقع یه ھوا که آپ ص نے حضرت زید بن ثابت رض کو یھود کی سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا مجھے یھود پر اعتماد نھیں ھے.

    10.  چنانچه زید بن ثابت کھتے ھیں که میں نے نصف ماه سے کم مدت میں ان کی زبان سیکھ لی حضرت زید کھتے ھیں که اب میں ھی یھود سے خط و کتابت کرتا تھا.

    11. (بحوالا ترمذی باب العلم سریانی)
    12. اگر پاک نبی ص کو سریانی زبان آتی تھیں تو پھر یھود پر بداعتمادی کرتے ھوۓ حضرت زید کو زبان سیکھنے کا کیوں کھا.

    13.        ( غلو اور غالی مو ضوع جاری ھے)

    علم غائب کا عقیده اور عقلی دلائل ...قسط نمبر :5

    علم غائب والا دعوی آور عقلی دلائل  
                                      
    قسط نمبر :5.      تحریر و تحقیق: سائیں لوگ

    نوٹ : تحریر عقلی دلائل پر ھے لھذا فکر کر کے جواب دیا جاۓ ناکه تنقید اور ھٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ھوۓ پرانی فطرت گالی گلوچ کا تبادله نھیں.

    اب چیده چیده چند آیات کی وضاحت آپنے عقلی دلائل سے اھل غلو سے جاننے کی توقع رکھتے ھیں.

    علم غائب کے ثبوت میں اھل غلو فرماتے ھیں.
     وعلم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملائکة.
     (سوره بقره ع :31)

    ترجمه :
    الله تعالی نے آدم کو تمام نام سکھا کر فرشتوں کے سامنے پیش کیۓ.

    اس بحث سے پهلے ھم
      اس روایت پر بحث کرتے ھیں که سارۓ انبیاء کرام ع کا علم اور مخلوق کا علم حضور ص کو دیا گیا.

    تو جس چیز کا علم کسی مخلوق کو ھے وه سب رسول الله ص کو بھی ضرور ھے 
    بلکه سب کو جو علم ملا ھے وه حضور ص کی تقسیم سے ملا .

    جو علم شاگرد استاد سے لے ضروری ھے که استاد بھی اس کے جاننے والا ھو.

    قرآن کی آیت کا اھل غلو کچھ اس طرح مطلب لیتے ھیں که.

     وما ھوا علی الغیب بضنین.

     کا ترجمه یه کرتے ھیں که اور یه نبی ص غیب بتانے میں بخیل نھیں ھے.

    اب گزارش ھے که اگر حضور ص کو ساری مخلوقات کے علوم کا بھی علم تھا تو لازما آپ کو سائینسی ایجادت کا علم بھی ھوگا اور ایٹمی ھتھیاروں کا علم بھی ھو گا.

     تو پھر آپ ص نے یه سب کچھ اھلبیت ع یا صحابه کرام رض کو کیوں نه بتلا دیا تاکه پیھه جلدی ایجاد ھو جاتا اور مسلمان جلدی ترقی کر جاتے اور قرآن کی اس أیت کا حکم بھی پورا ھو جاتا .

    وعدو والھم ما استطتعتم من قوة .

    ترجمه : تم ان کے مقابله کیلۓ آپنی بھر پور 
    طاقت کی تیاری کرو.
    (سوره انفال ع :60.

    تو اس حکم کے بعد مسلمان کلاشنکوف بناتے,ایٹم بم بناتے,ھائیڈروجن بم بناتے بلکه اس آیت میں من قوة کے آگے ومن رباط الخیل کی بجاۓ یه ھونا چاھیۓ تھا ایف 16,جے ایف 17,7 تھنڈر بناؤ,بناؤ طیاره شکن توپیں بناؤ ,ٹینک بناؤ آبدوزیں بناؤ .

    بلکه حضرت آدم سے لے کر تمام انبیاء کرام اگر رسول الله ص شاگرد تھے اور آپ ان کے استاد تھے تو یه کام بهت پهلے کیا ھونا چاھیۓ تھا.

    اور کچھ نه ھی بناتے کم از کم دو نالی بندوق ھی بنا کر پاک نبی ص کفار و مشرکین سے مقابله کرتے کیونکه الله پاک دشمن کے مقابلے میں  بھر پور قوت کی تیاری کا حکم دے رھے ھیں.

     خلق خدا کو ایک جانے بوجھے علم سے محروم رکھنا کوئی خوبی نھیں ھے.

    یه تھی اس آیت کے زمن میں وضاحت که نبی ص غیب کے علم بتانے میں بخیل نھیں ھے.

    گزارش ھے که الله تعالی وحی بھیجنے والا ھے جبرائیل ع پهنچانے والے ھیں اور انبیاء کرام ع وصول کرنے والے ھیں درمیان میں نبی ص کی استاد والی بات کیسی کیا کسی جگه پر کسی نبی ع نے اعتراف کیا ھے که ھم آخری نبی ص کے شاگرد رھے ھیں.

    لیکن اھل غلو کھتے ھیں که علم غیب کامنکر آپنے دعوی پر دلائل قائم کرۓ تو ان باتوں کا خیال رکھے .

    1. :وه آیت قطعی الدلالت ھو جس کے معنی میں احتمال نه نکل سکتے ھوں. یعنی آیت محکم ھو جس کا مطلب غیر واضح نه ھو.

    2. :اور حدیث ھو تو متواتر ھو یه بھت اچھی بات ھے علم غیب کے مدعی خود بھی اس بات کا ادراک رکھتے ھوۓ  درج بالا تحریر کا رد پیش کریں.

    علم غائب اور عقل سلیم قسط نمبر :4

    علم غائب والا والا عقیده آور عقل سلیم  
                                                
    قسط نمبر :4.         تحریر و تحقیق :سائیں لوگ

    سائیں لوگ

    انبیاء کرام اور آئمه ع ممکن الوجود مخلوق ھیں عقل سلیم حاکم ھے کوئی بھی مخلوق ایک وقت میں ایک ھی طرف توجه کر سکتی ھے لھذا زمین و آسمان کے تمام پوشیده رازوں کا بلفعل جاننا اس کیلۓ ممکن نھیں ھے.

    الله تعالی کے علوم غیر متناھی اور غیر محدود ھیں مگر یه بزرگوار بوجه مخلوق ھونے کے متناھی و محدود ھیں لھذا عقل کسی طرح بھی یه باور نھیں کر سکتی که ایک متناھی و محدود مخلوق غیر متناھی علوم کی بالفعل حامل ھو .

    نیز یه حقیقت بھی آپنے مقام پر ثابت کی جا چکی ھے که علم خدا کی صفت زاتی (عین زات)ھے.لھذا اس کے من و عن کسی مخلوق کی طرف منتقل ھونے کا سوال ھی خارج از بحث ھے .

    اگر بتمام و کمال علم خدا کسی اور کی طرف منتقل ھو سکے تو یه انتقال انتقال زات توحید کے مترادف ھو گا.جو که عقلا و شرعا محال و ممکن ھے.

    عقل سلیم کی روشنی میں تسلیم کرنا پڑۓ گا که یه بزرگوار علم کی اتنی مقدار ھی جانتے ھیں جتنی علم بالازات ان کو بتاتا ھے ھم آپنے عقول ناقصه  سے اس کی حد بندی نھیں کر سکتے.

    نه دینے والے مبدا فیض میں کمی اور بخل ھے اور نه لینے والے حضرات کے دامن طلب میں تنگی بلکه اس میں وسعت و پهنائی ھے اس لیۓ دینے والا برابر دے رھا ھے.

     اور لینے والے رب زدنی علما کھتے ھوۓ دامن مراد بڑھا کر اس میں جواھر علمیه جمع کر رھے ھیں ان حضرات کی روحانی خلقت سے یه سلسله برابر جاری ھے اور خدا ھی بھتر جانتا ھے که کب تک جاری و ساری رھے گا.

    اگرچه عام مخلوق خدا کی نسبت ان کا علم کلی اور اس قدر زیاده ھےکه  ان کے درمیان کوئی نسبت ھی قائم نھیں کی جا سکتی ھے.

           (اگلی پوسٹ کا انتظار کیجیۓ)

    علم غائب اور علماۓ حقه.

    علم غیب والا عقیده اور علماۓ حقه
                                        
    "قسط نمبر :3.        تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ



    علم غیب کے موضوع پر یه آج تیسری قسط ھے.
    ھم نے جھاں تک اس موضوع کے تمام پهلوں پر ٹھنڈۓ دل و دماغ کے ساتھ غور خوض کیا ھے اور فریقین کے دلائل و براھین کا پوری دیانتداری اور غیر جانبداری سے جائزه لیا ھے تو ھم اس نتیجه پر پهنچے ھیں.

     که یه تمام ھاؤ ھو اور بحث و تمیحص صرف نذاع لفظی ھے یعنی فقط الفاظ کا ھیر پھیر اور تعبیر کا چکر ھے.

    وگرنه کوئی باھمی اختلاف و افتراق نھیں چاھے جیسے ھی سمجھ لو یه علم دین الله تعالی کی زات سے ھے.

    بعض افراد کی طرف سے عقیده غلو کے زمن میں اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ھے تاکه کچھ Awareness, دی جاۓ.

     کیونکه امام جعفر صادق ع کا فرمان ھے که شرک شرک ھے چاھے رائی برابر ھی کیوں نه ھو.

    اس موضوع پر بھت جید علماء حقه نے حقیقت کی ترجمانی کرتے ھوۓ اس کی وضاحت دی ھے. اور نبی و امام ع سے علم غیب کی نفی فرمائی ھے.

    ویسے تو جید علماء میں سے ایک کثیر تعداد ھے مگر ھم اختصار کے پیش نظر زیل میں چند علماء کی راۓ پیش کرنے کی کوشش کرتے ھیں:

    شیخ مفید رح نے آپنی کتاب اوائل المقالات ص,77,/طبع ایران میں تحریر فرماتے ھیں .
    ترجمه :یعنی یه کھنا که آئمه علیهم اسلام عالم الغیب ھیں بالکل فاسد اور باطل قول ھے. کیونکه اس وصف (عالم الاغیب ھونے)کا حقدار صرف الله کی زات ھے.وھی عالم ھو سکتا ھے.

    اسی عقیده پر مسلک شیعه  اثناۓ عشریه کا عقیده ھے ھاں غالی اور مفوضه اس کے قائل نھیں ھیں.
    یھی بات علامه مجلسی نے بھی بحار الانوار جلد ھفتم ص,415,
    پر بھی رقم کی ھے.

    حضرت سید مرتضی علم المھدی قدس سره نے آپنی کتاب الشافی میں قاضی عبدالجبار کا جواب دیتے ھوۓ لکھا ھے که ترجمه: یعنی قاضی نے یه بات تو درست کھی که جن چیزوں کا تعلق منصب امامت سے ھے ان کو جاننا امام کیلۓ ضروری نھیں ھے لیکن قاضی کا یه گمان غلط ھے ھم امام کیلۓ اس قسم کے علوم کو جاننا ضروری سمجھتے ھیں.

    علامه ابو الفتح کراجکی رح نے آپنی کتاب کنز اکفوائد ص,109 طبع ایران پر اعتقادات ایمانیه میں اپنا ایک مختصر رساله موسومه به البیان عن جمل اعتقاد اھل ایمان درج کیا ھے اس کے صفحه 110,میں لکھا که اھلبیت ع علم غیب نھیں جانتے مگر جس قدر خالق انھیں بتلا دے.

    فاضل جلیل جناب ابن قبه جو بھت بڑۓ علماء میں سے ھیں شرح الاصول من الکافی میں لکھتے ھیں یعنی جو آئمه اھلبیت ع کے متعلق علم غیب کا دعوی کرتا ھے وه مشرک ھے.

    عالم ربانی جناب شھر آشوب مازاندرانی آپنی کتاب متشابھات القرآن جلد 1,ص211,پر ایت مبارکه ولا اعلمه الغیب کے زمن میں لکھتے ھیں.

    ترجمه :امام علیھم اسلام کیلۓ عقلا شرعا یه واجب ھے که وه تمام علوم دین و شریعت کے عالم ھوں لیکن ان کیلۓ یه لازم نھیں که علم غیب اور ماکان ومایکون کا علم بھی رکھتے ھوں.
    کیونکه اس پر لازم آتا ھے که تمام معلومات خدا کے ساتھ شریک ھوں.حالنکه خدا کے علوم غیر متناھی ھیں.

    مجاھد کبیر علامه محسن الامین الحسینی قدس سره اعیان الشیعه آپنی کتاب مسطاب معاون الجواھر فی علوم الاوائل والااخراج ص,343,

    میں امام ع کے متعلق شیخ مفید اور سید مرتضی اور علامه حلی رح 
    کا کلام حق نقل کرنے کے بعد خود افاده فرماتے ھیں که امام سواۓ احکام کے تمام مایکون کے عالم نھیں ھوتے .

    سید مھدی الکاظمی القروزینی نے آپنی کتاب ظھور الحقیقیة طبع نجف اشرف ص,198 سے لے کر 214,تک آئمه اھلبیت ع کے عالم الغیب ھونے کی اور صاحب علم حضوری ھونے کی نفی پر علمی بحث فرمائی ھے.

    حضرت الفاضل شیخ محمد رضا المظفر النجفی نے رساله عقائد شیعه ص45,پر علم امام کے بارۓ لکھتے ھیں که جھاں تک  امام کا تعلق ھے وه معارف دینیه احکام الھیه اور دیگر تمام معاملات کو جناب رسول خدا اور سابق امام ع کے زریعے جانتے ھیں.اور جب نئ صورت حال رونما ھو تو قوت قدسیه کے زریعے الھام کے زریعه معلوم کر لیتے ھیں.

    مولا شیخ محمف اعجاز حسن بدایونی لکھنو آپنے رساله شمس الاعتقاد ص,56/57,
    طبع سرفراز لکھنو  ایجنسی,علم نبی و امام ع کے بارۓ لکھتے ھیں خدا نے واسطه مخلوق آپنے حبیب کو تعلیم عطا فرمائی اور اب سلسله فیض جاری ھے.
    اور آئنده بھی جاری رھے گا.آپنے رسول اور اھلبیت ع کو بقدر ضرورت و مشیت تعلیم دی.

    بعض لوگ علم تفصیلی کو معصومین ع کیلۓ کمال بتاتے ھیں یه انکی غلط فھمی ھے وگرنه اگر علم مذکوره کو باعث کمال مانا جاۓ گاتو کسی وقت بھی یه کمال متصور نه ھوں گے.
    اس لیۓ علم تفصیل کی تعلیم کسی بھی وقت بھی ختم نھیں ھوئی اور نه آئنده ختم ھو گی وجه اسکی وھی ھے که علوم الھیه غیر متناھی ھیں.
    پس جب تک تعلیم ختم نه ھو کمال حاصل نھیں ھو سکتا ھاں اجمالی تعلیم موجب کمال ھے وه بقدر ضرورت و مصلحت ھر زمانه میں جاری رھی جسکا خلاصه قرآن کی ایک آیت میں بیان ھوا یعنی علمک مالم تکن تعلم وکان فضل الله علیک عظیما,
     ترجمه:
    آۓ رسول تم کو الله نے وه چیزیں سکھا دیں جو تم نھیں جانتے تھے اور خدا کا فضل تم پر عظیم ھے.(القرآن)
    مذید اس عقیده کی درج زیل علماء تائید و توسیع فرماتے ھیں.

    سرکار نجم العلماء سید نجم الحسن صاحب.

    مولانا دید محمد باقر صاحب.

    حضرت مولا سید آقا حسن صاحب.

    جناب مولا ھادی رضوی صاحب.

    دید ابو الحسن صاحب.

    مفتی محمد علی صاحب قبله.

    مولانا سید ابن حسن اعلی الله مقامه

    آیت الله شیخ محمد حسین النجفی.

    آیت الله شیخ محسن النجفی قبله.

    حجةالاسلام سید محمد تقی نقوی قبله.

    اس سے ظاھر ھے که یه عقیده  متحده ھندوستان کے تمام علماء کا بھی ھے.

          (اگلی پوسٹ کا انتظار کیجیۓ)

    علم غائب کا عقیده ...قسط نمبر:2

    :علم غائب والا عقیده اور آئمه طاھرین
                                        
    "قسط نمبر :2.           تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ

    ھم نے آج سے کچھ عرصه قبل ایک پوسٹ کی تھی که یه باریکی اور متنازعه مسائل ھیں جو بدقسمتی سے چند غلو پسند علماء نے اسلام کی اصل کو بگاڑنے اور اختلاف کو اجاگر اور آپنے دنیاوی مقاصد کی خاطر شخصی شھرت اور واه واه اور پیسے بٹورنے کی خاطر پیدا کیۓ ھیں.

     بدقسمتی س کم علم اور لکیر فقیر قسم کی اکثریت عوام من و عن تسلیم کرتی گئی.
     اب یه مسائل اتنے سرایت اور  گھمبیر رخ اختیار کر چکے ھیں که اگر علماۓ حقه اسے چھیڑتے ھیں تو ان کا ٹکر پانی بند ھوتا ھے ساتھ کفر اور لعن تعن کا طبق بھی برداشت کرنا پڑتا ھے.

    ھماری پوسٹ پر وه بھائی کمنٹس کرۓ جو دینی معاملات میں تھوڑی بھت سمجھ بوجھ رکھتا ھو یا نھیں تو سوال معقول کرتے ھوۓ ھم سے آگاھی لے.

    میں نے دیکھا ھے اکثر بھائی پوسٹ پڑھے بغیر تنقید شروع کر دیتے ھیں وه لکھنے والے کو دیکھتے ھیں یه نھیں دیکھتے که لکھا کیا ھے.
      اس عمل بد سے پرھیز کریں.

    فضول اور پوسٹ کے غیر متعلقه  کمنٹس سے براه کرم پرھیز کیا جاۓ.

    کل ھم نے علم غیب پر قرآن مجید کی روشنی میں,19/ محکم آیات پیش کیں اور ایک آیت سوال کے طور پر چھوڑی.

     مگر بدقسمتی سے کسی نے رد نھیں پیش کیا بلکه پوسٹ سے ھٹ کر آپنی خرافات اور ھمیں تعن و تشنیع کے ساتھ فضول چیلنج کرتے رھے.

    جب ھم نے للکار دی تو سب گیدڑ کی طرح انتشاری کیفیت پیدا کرکے رفوچکر ھوگۓ.

    الحمد لله ھمارۓ پاس الله کا کلام اور مولا علی ع کا فرمان ھے ھمیں کوئی ڈر نھیں.

    علم غیب :

    نھج البلاغه میں مولا علی ع کے کئی خ
    طبات میں علم غیب کے متعلق بیان موجود ھیں.
    جن سے واضح ھوتا ھے که مولا ع نے جو دعوے کیۓ علم غیب کے ان کا اقرار بھی کیا که یه سب علم مجھے رسول الله ص سے ملا اور انھیں الله تعالی نے دیا.

    سب سے پهلے ھم رسول الله ص کا ارشاد مبارک پیش کریں گے.
    سوره الانعام کی آیت کی تفسیر کے زمن میں جو مفسر قرآن جلیل طبرسی نے مجمع البیان جلد 1,ص/377
    میں بیان کی ھے.

    یعنی میں وه علم غیب نھیں جانتا جس کا جاننا خدا کے ساتھ مختص ھے.
    ھاں میں تو اتنی مقدار میں جانتا ھوں جتنا خدا مجھے بتاتا ھے.
    جیسے بعث و نشور اور جنت و جھنم وغیره.
    کذافی الصافی میں ص/55.

    آیا اس علان رسول کو سن کر بھی کسی کلمه گو کو یه حق پهنچتا ھے که وه نفی غیب کی بجاۓ اثبات غیب کا اعتقاد رکھےصادق رسول ص نے کیسی وضاحت سے بیان کر دیا ھے که میں علم غیب نھیں جانتا.

    اب  ھم آتے ھیں علم غیب کے متعلق نھج البلاغه میں دیۓ گۓ مولا علی ع کے خطبات کی طرف.
    مولا علی ع سے سوال ھوا که مولا آپکو تو علم غیب عطا ھے.
    اس سوال پر مولا ھنس پڑۓ اور اس سے فرمایا:
    آۓ کلبی یه علم غیب نھیں بلکه یه رسول ص سے حاصل کی ھوئی باتیں ھیں.

    جو خزانه علم الھی تھے علم غیب تو قیامت کا وقت.ماں کے پیٹ میں کیا ھے بچی ھے یا بچه, سخی ھے یا بخیل شقی ھے یا نیک جنت جاۓ گا یا جھنم پس وھی علم غیب ھے جسے کوئی نھیں جانتا.
    رھا دوسری چیزوں کا علم وه مجھے رسول ص اور انکو الله نے عطا کیں.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :128.ص,446/445.

    اگر مجھ سے غیب کی خبریں سنو تو اشاره ایک دوسرۓ کی طرف نه کیا کرو میں یه سب نبی ص کی جانب سے خبر دیتا ھوں نه خبر دینے والا رسول جھوٹا ھے اور ناں سننے والا جاھل تھا.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :101,ص/370/371.

    مولا علی ع الله تعالی کی حمد و ثنا بیان کرتے ھوۓ فرماتے ھیں اس کا علم غیب پردوں میں سرایت کیۓ ھوۓ ھے اور عقیده کی گھرایوں کا احاطه کیۓ ھوۓ ھے.
    نھج البلاغه خطبه نمبر:108,ص:381.

    اس خطبه میں امام حق علی ع سردار دو جھان کی نعت بیان کرتے ھوۓ فرماتے ھیں .
    جو چیزیں تم سے پرده غیب میں لپیٹ کر رکھ دی ھیں اگر تم بھی جان لیتے جس طرح میں جانتا ھوں تو یعقینا بد اعمالیوں پر روتے ھوۓ سینے پیٹتے.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :116,ص/406/407.

    اس خطبه میں الله تعالی کی حمد و ثنا بیان کی ھے حالنکه وه مخلوقات جو ھماری نگاھوں سے اوجھل ھے اور جن تک پهنچنے سے نظریں عاجز اور عقلیں سیرانداخته ھیں اور ھمارے اور ان کے درمیان غیب کے پردے حائل ھیں وه ان سے کھیں زیاده عظیم و بزرگ ھیں.

    نھج البلاغه خطبه نمبر :159,ص:482/483.

    اس خطبه میں مولا علی ع نے کھا که خدا کی قسم اگر میں چاھوں تو ھر ایک شخص کو بتا سکتا ھوں که وه کھاں سے آیا ھے اور جاۓ گا.
    مجھے رسول ص نے ان تمام حالات اور ھلاک ھونے والوں کی ھلاکت اور نجات پانے والوں کی نجات اور اس امر خلافت کے انجام کی خبر دی ھے.

    نھج البلاغه خطبه نمبر
     :174,ص/517/518.

    مذکوره بالا ارشادات کے بعد اب ھم ایک واقعه پیش کرتے ھیں جسمیں مذکور ھے که ایک مرتبه امیر علیه اسلام خطبه دے رھے تھے که حسب معمول دعوی سلونی فرمایا تو حاضرین سے ایک شخص نے پوچھا این جبرائیل ھذا الوقت,
    تو امام ع نے فرمایا وعنی انظر  مجھے اتنی مھلت دو که میں دیکھ لوں  .
    آپ علیه ادلام فتنظر الی فوق والی الارض یمینه و یساره  :اوپر نیچے دائیں بائیں دیکھا اور فرمایا انت جبرائیل تو ھی جبرائیل ھے. نعره تکبیر  بلند ھوا اور پوچھا گیا حاضرین میں سے کسی نے یا امام ع آپ کو کیسے معلوم ھوا .

    ترجمه :امام علی ع نے جواب دیا  جب میں نے آسمان کی طرف پھر زمین اور دائیں بائیں دیکھا تو جبرائیل ع نظر نه آۓ اور فرمایا که یعقین ھو گیا که یھی جبرائیل ھیں.(انوار نعمانیه ص:13)

    اس سے ظاھر ھوتا ھے که امام کا علم توجه اور التفات کا محتاج ھوتا ھے تو یھاں پر ان غالی لوگوں کے گمان باطله بھی عیاں ھو جاتا ھے که عالم امکان کا زره زره ھر وقت امام کے سامنے حاضر ھے.
    بلکه یھاں واضح ھے که با علام الله اس طرح با آسانی سے معلوم کر لیتے ھیں.

    اب ھم آتے ھیں دیگر معصومین ع کے ارشاد مبارکه کی طرف که وه علم غیب کے متعلق کیا فرماتے ھیں.

    امام رضا علیه اسلام سے دریافت کیا گیا اتعلمون  الغیب ,کیا آپ علم غیب کے متعلق جانتے ھیں آپ آنجناب ع نے ارشاد فرمایا که ھمارۓ لیۓ جب علم کشاده کیا جاتا ھے تو جانتے ھیں جب بسته کر دیا جاتا ھے تو نھیں جانتے.

    اصول کافی میں پورا ایک باب ھے علم غیب کے متعلق جن میں ایک حدیث یه بھی ھے که سدیر بیان کرتے ھیں که ابو بصیر یحیی بزاز  اور داود کثیر امام جعفر صادق ع کی خدمت میں حاضر تھے که اچانک آنجناب ع آپنے دولت کده سے غضب ناک حالت میں برآمد ھوۓ جب آپنی نشست گاه پر بیٹھ گۓ تو فرمایا تعجب ھے ان لوگوں په جو یه گمان کرتے ھیں که ھم علم غیب جانتے ھیں.
     حالنکه خدا وند کے بغیر کوئی بھی نھیں جانتا.
    میں نے فلاح کنیز کو کسی جرم پر مارنا چاھا تو وه بھاگ کر گھر کے کسی کونے میں چھپ گئی اب معلوم نھیں که کس جگه ھے. 
    اصول کافی ص:128.

    امام عصر  والزمان علیه اسلام فرماتے ھیں اۓ محمد بن سمری رض یه غالی لوگ جو الله کی وصف بیان کرتے ھیں وه اس سے بلند و برتر ھے ھم تو اس کے علم میں اسکے شریک ھیں اور نه قدرت میں بلکه حقیقت یه ھے که علم غائب الله کے سوا کوئی نھیں جانتا.

    قرآن کی روشنی میں اور اب معصومین ع کے ارشاد مبارکه جامع اور محکم آیات و روایات سے ھم نے وضاحت دی .
    اس سلسله میں مذید کسی حدیث کے پیش کرنے کی ضرورت نھیں ھے .
    لھذا کل ھم علماۓ حقه کے علم کی روشنی میں علم غیب پر روشنی ڈالیں گے.
                                                           شکریه.

    علم غائب اور غالی مسلمان....قسط نمبر:1

    :علم غیب والا عقیده

                                     " قرآن اور اھل غلوغلو.     تحریر و تحقیق : " سائیں لوگ

    قسط نمبر :1

    علم غیب کا مسله اسلام کے آغاز سے ھی متنازه رھا ھے کچھ صدیاں قبل اس میں تب شدت آئی جب مسلمانوں کے دو گروه ایک اھل سنت میں سے اور ایک مذھب تشیع میں آپس میں مقابل آۓ ایک نے پاک نبی ص اور دوسرۓ نے مولا علی ع کی عظمت توحید تک جا ٹکرائی.

     انھیں کے مخالف ایک اور گروه ناصبی, وھابی معرض وجود میں آیا جس نے ان دونوں کے دعوی کی نفی کرتے ھوۓ نبی پاک ص اور آئمه معصومین ع کی تقصیر شروع کر دی.

     غلو والے گروه  جنھوں نے ان کفریه عقائد کی اشاعت شروع کی جو کلام الھی یعنی که قرآن مجید اور کلام پیغمبر ص یا آئمه معصومین ع کی تعلیمات سے یکسر متصادم تھے.

    اب یه غلو بڑھتے ھوۓ اوصیاء و اولیاء کرام حتی که فٹ پاتھ یا کسی دربار پر زنجیروں میں جکڑۓ بیٹھے ننگ دھڑنگ زمانے کے یا گھر کے ماحول کے ستاۓ ھوۓ فرضی و نقلی بزرگ تک بھی پهنچ چکی ھے.جو سائل کے حالات جان کر یا دست شناسی سے قیاس پر آنے والے دنوں کے حالات بتا دیتا ھے.

    درج زیل سورتوں میں علم غیب کی محکم آیات موجود ھیں:

    سوره آل عمران ع:179.
    سوره الانعام ع:58.
    سوره یونس ع:20.
    سوره نحل ع:77.
    سوره نمل ع:65.
    سوره لقمان ع:34.
    سوره فاطر ع:38.
    سوره جن ع:26/27.
    سوره الانعام ع:73.
    سوره الاعراف ع:187.
    سوره ھود ع:123.
    سوره الکھف ع:26.
    سوره سجده ع:6.
    سوره الاحزاب ع:63.
    سوره سباء ع:48.
    سوره الزمر ع:46.
    سوره الحجرات ع:18.
    سوره التغابن ع:18.
    سوره النازعات ع:43/44.

                      ***** علم غیب *****

    جہاں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اٹھارہ مختلف اسلوب و انداز سے 341, بار اپنے لئے صفتِ علم کا بیان اور علم غیب علم کُل علم محیط اور علم بسیط کا اثبات فرمایا ہے.

    وہاں اپنے سوا کسی برگزیدہ سے برگزیدہ مخلوق کسی فرشتہ یا ولی یا نبی حتیٰ کہ امام الانبیاء و المرسلین حضرت  ﷺ یا آئمه طاھرین ع کے لئے ایک دفعہ بھی اس کا ذکر نہیں فرمایا.

     بلکہ الٹا ان سے علم قیامت وغیرہ علوم کی نفی کی ہے علیٰ ہذا تمام ماسوی اللہ کے لئے علم غیب کی نفی فرمائی.

    غیب کے لغوی معنی:

    غیب کام معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ ھیں.
    المنجد،ص: 892.
    چھپی ہوئی اور پوشیدہ باتوں کا علم، پیشن گوئی کا علم، وہ علم جس سے گزشتہ یا آئندہ ہونے والی بات یا حالات معلوم کیے جائیں پوشیدہ باتوں یا چیزوں کاعلم.

    اصطلاحی معنی :

    علم غیب کے اصطلاحی معنی یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایسی باتوں کا علم جو حواس خمسہ اور اندازے سے معلوم نہ ہوسکیں.

    غیب ان امور کے جاننے کو کھتے ھیں جن کے علم و ادراک سے ھر قسم کے مادی حواس و ظاھری زرائغ قاصر ھوں.
    ان کا تعلق خواه زمانه حال سے ھو یا ماضی سے اور خواه مستقبل سے.
    (شرح اصول کافی از علامه مژندرانی)

    غیب کا علم صرف خدا تعالی ھی جانتا ھے مخلوق کا وه علم جو رمل و نجوم وغیره سے حاصل ھو یا کسی دوربین یا کسی اور زرائع سے حاصل ھو وه علم غیب نھیں ھے.

    آج ھم قرآن پاک کی ان محکم آیات کا زکر کریں گےجو علم غائب کے متعلق واضح ھیں.

    اس کے بعد نھج البلاغه و دیگر آئمه طاھرین ع کے ارشادات مبارکه , بعد میں علماۓ حقه اور عقل سلیم اور انبیاء و آئمه معصومین ع کےمختلف واقعات و حالات کی روشنی میں مکمل وضاحت دیں گے.

         ** علم غیب قرآن کی روشنی میں**

    ارشاد باری تعالی ھے:
    کھه دو که جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ھیں خدا کے سوا غیب کی باتیں نھیں جانتے اور نه جانتے ھیں که کب زنده کر کے اٹھائے جائیں گے.
    سوره نمل آیت :65.

    یونس، 10 : 61
    ’’ اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے.
    سوره یونس ع:61.

    قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں علم غیب کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ 
    اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی، کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ گرتے کو تنکے کا سہارا اور وہ ان لوگوں سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پرامید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ 

    اﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئیے قرآن میں فرمایا:

    النمل، 27 : 65
    ’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے.
    سوره نمل ع:65 .

    وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ
    الانعام، ع : 50
    ’’اور نہ میں اَز خود غیب جانتا ہوں.

    ترجمه :
    اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے.
    سوره نساء ع:113.

    (وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ 
    سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس رسول الله کے آگے اور پیچھے
     (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے.
    سوره جن ع:26/27.

    تو غیب کے خزانے اور کنجیاں سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ اور کسی کو ان تک رسائی نہیں ٗ غیب صرف اللہ جانتا ہے ٗ اس کے سوااور کسی کو غیب کا علم نہیں۔

    سوره الانعام ع:7.

    عِلم غیب ٗ عِلم کُل ٗ عِلم محیط و عِلم بسیط صرف  خاصہ خدا ہے۔ اس بارے میں آیات کریمہ توحید درج بالا و درج زیل ملحاظه فرمائیں.

    قُل لَا اَمْلِکُٔ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَ لَا ضَرًّا اِلَّا مَاشَاء اللہُ وَ لَوْکُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَکْثَرُتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَآ مَسَّنَی السُّوْئُ ج اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ۔ 

    (پارہ,9  سوره اعراف ع:23

    آپ کہہ دیجئے میں اپنی ذات کے لئے(بھی) نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتا ٗ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی مضرت مجھے مس نہ کرتی میں تو محض اہل ایمان کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں.

    بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی مینہ برساتا ہے۔ اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ بیشک اللہ سب باتوں کا جاننے والا ٗ سب خبر رکھنے والا ہے.

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے ان پانچ باتوں کو نہ تو کوئی مُقرب فرشتہ جانتا ہے اور نہ کوئی برگزیدہ نبی ٗ اگر کسی نے دعوی کِیا کہ ان میں سے کوئی بات جانتاہے تو اس نے قرآن کا انکار کیا کیونکہ قرآن کی مخالفت کی ٗ

    ھٰذِہٖ خَمْسَۃٌ لَا یَعْلَمُھَا مَلَکُٔ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌ مُصْ.

    عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo
    الجن، 72 : 26۔ 27
    ’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے.

    وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
    التکویر، 81 : 24
    ’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں.
    پاک نبی ص کے متعلق بتایا که ھم نے اسے جتنا  علم غیب دیا اتنا وه جانتے ھیں.
    یهی بات مولا علی ع فرماتے ھیں میں اتنا علم جانتا ھوں جتنا مجھے رسعل الله ص نے بتایا.
    جو ھم اگلی پوسٹ میں واضح کریں گے .

    یه سب پوسٹ پڑھنے کے بعد پھر بھی معترض سوال رکھتا ھے تو براه کرم وه ھمارۓ اس سوال کا جواب ضرور دے.
    جو سوره نساء ع:105,میں میرا سوال موجود ھے.

    جمعہ، 24 مئی، 2019

    اولیاء کے نام پر جانور پالنا اور زبح کرنا.قسط نمبر:15

    بزرگوں کے نام پر جانور پالنا اور مزاروں پر زبح کرنا:

                         قسط نمبر :15
    .
    کیا گیارھویں کا بکرا یا غوث پاک کی گاۓ وغیره شرعا حلال ھے جیسے که ولیمه کا جانور.

    پیر پرست اس بدعت میں بھی پیش پیش ھیں پر اکثر زنده پیر خود آ کے جانور لے جاتے ھیں اگر مرده ھوں تو پھر ان کی قبر پر زبح کردیۓ جاتے ھیں.

    ھو سکتا ھے آنے والے دنوں میں  اندھے پیر پرست  جانوروں کی نسل بھی مخصوص کر لیں,
     جیسے پولٹری فارم کی مرغی ڈیری فارم کا دودھ مکھن یا ساھییوال کی گاۓ یا اسٹریلیا  وغیره کی.

    یه خاص نسلیں انکی قربانی کیلۓ قبول ھو گی زنده یا زبح کرکے باقی سب حرام پیر کے ھاں قبول نه ھوں گی.

    مگر قرآن پاک میں الله پاک ایسی قربانیوں کو حرام کھه رھا ھے جو غیر خدا کے نام پر زبح ھوں .
    سوره انعام ع:21.سوره مائده ع:3,

    عالمگیر باب الزبح جلد,5ص:280
    میں ھے که مسلمان اگر مجوسی کی بکری جو ان کے آتش کده کیلۓ یا کافر کی انکے بتوں کیلۓ تھی زبح کی ھو وه حلال ھے کیونکه اس پر الله کا نام لیا ھے مگر یه کام مسلمانوں کۓ مکروه ھے.

    یه عجیب منطق ھے مگر الله کے کلام میں واضح ھے جو سوره انعام ع:21,
    میں ھے که اور ایسے جانور مت کھاؤ جن پر الله کا نام نه لیا گیا ھو اور یه کام فسق ھے.
    اس سے مراد یه که غیر الله کے نام پر زبیحه حرام ھے.

    سوره بقره ع:173,
    میں ھے سواۓ اس کے نھیں که حرام کیا اوپر تمھارۓ مردار اور لھو اور گوشت سور کا اور جو کچھ پکارا جاۓ اوپر اس کے واسطے غیر الله کے.

    معلوم ھوا زبح کے وقت غیر الله کا نام پکارا جاۓ یا زبح سے پهلے پکارا جاۓ ھر صورت وه شے حرام ھے.

    نیز فرمایا سوره مائده ع:3
    اور جو آستانوں پر زبح کیا گیا ھو.

    اس آیت سے واضح ھے که خواه الله تعالی کے نام سے ھی کیوں ناں پکارا جاۓ یا زبح کیا جاۓ یا وھاں زبح کیا جاۓ جھاں غیر الله کے نام پر پرستش ھوتی ھو,
     اور الله تعالی سے ھٹ کر کسی کی تعظیم و پرستش ھوتی ھو جیسے مزار,مندر,استھان, یه سب حرام ھے.

    ایک روایت ھے جو ابو داود اور مشکواة میں ھے که ایک صحابی نے بوانه کے مقام پرمنت مانی که میں وھاں اونٹ زبح کروں گا.
    تو آپ ص نے فرمایا اگر وھاں کسی بت کی پرستش یا میله نھیں لگتا تو آپنی منت پوری کر لو.

    فتاوی عزیزیه جلد 1,ص:47,
    میں ھے اگر نیت ھو که غیر الله کا تقرب حاصل ھو بے شک زبح کے وقت الله کا نام لے پھر بھی زبیحه حرام ھے.

    مجدد الف ثانی صوفی نے ایک زبردست بات لکھی آپنے مکتوب نمبر 41/میں که بزرگوں کیلۓ نذریں حیوانات کی جو مانے اور پھر مزار پر زبح کرۓ فقھی روایات سے یه شرک میں داخل ھے.

    قرآن میں ھے:
     ماجعل الله من بحیرة ولا سائبة ولا وصیلة ولا حام ولکن الذین کفروا یفترون علی الله کذاب.سوره مائده 103,
    ترجمه:
    الله تعالی نے بحیره کو مشروط کیا اور نه سائبه کو اور نه وحیله کو اور نا حام کو لیکن جو لوگ کافر ھیں وه الله پر جھوٹ لگاتے ھیں.

    یه چار جانور جو کفار بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے ان کو حرام سمجھتے تھے جدھر مرضی جائیں ,جدھر مرضی جس کی فصلوں میں کھاتے پیتے اور نقصان کرتے رھیں,کوئی کچھ نھیں کھتا تھا.
    انھوں نے زبح بتوں پر ھونا ھے قران نے اس کی تردید کی ھے.

    جبکه الله پاک فرماتے ھیں کھاؤ جو تمھے الله نے دیا ھے اور شیطان کے قدموں کی پیروی نه کرو.سوره انعام ع:142

    ھمارۓ مسلمان بھی مختلف بزرگوں کے نام پر بکرۓ گاۓ وغیره رکھ لیتے ھیں پھر انھیں مزاروں پر زبح کرکے پکاتے اور کھاتے ھیں.

    اسی طرح ھندو بھی سانڈھ بتوؤں کے نام پر چھوڑ دیتے ھیں.
    جبکه الله پاک اس عمل سےمنع کر رھا ھے.

    لھذا غوث پاک کی گاۓ اور شیخ سدو یا بابا مجنوں یا کھونڈی والی سرکار کے نام پر پالی گئی ساھیوال کی گاۓ ھو یا پھاڑی بکرا سب حرام ھے.

    مذید تفصیل کیلۓ درج بالا آیات کی تفسیر ملحاظه فرمائیں.

    انبیاء ,آئمه معصومین ع اور اولیاء کی قبور کی زیارت..قسط نمبر:14

    انبیاء کرام,آئمه معصومین ع اور اولیاۓ کرام و شھدا کرام کی قبور کی زیارت:

                      قسط نمبر :14

    ھم گزشته اقساط میں واضح کیا که ھم زیارت قبور انبیاء و معصومین ع اور بزرگ اولیاء کے خلاف نھیں ھیں  بلکه شعبده باز صوفیه  اور وھاں جو خرافات و بدعات قائم کی جاتی ھیں ان کے خلاف ھیں.

    کیونکه اگر ھم سب توقعات انھیں بزرگوں اور اھل قبور سے وابسطه کرلیں تو پھر الله پاک کے وجود و عظمت ھی کی نفی ھو جاتی ھے.
    آج ھم کچھ اس موضوع پر وضاحت پیش کریں گے.

    یا ایھا الذ ین آمنوا اتقوا اللہ و ابتغوا الیہ الوسیلة.
    (اے ایمان والو ! الله سے ڈرو اور قرب خدا کا وسیلہ تلاش کرو ).

    لیکن سوال یہ ھے کہ خدا وند عالم کا قرب کس طرح حاصل کریں ؟

    اس سلسلہ میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب بیان القرآن میں اس طرح لکھتے ہیں.
         
    (اطاعت کے ذریعہ )خدا تعالی ٰ کا تقرب ڈھو نڈو.

    وہابی علما ء کہتے ہیں کہ نیک اعمال کے ذریعہ یعنی نماز پڑھنا ، روزے رکھنا ،زکوٰة دینا ، حج کرنا وغیرہ ۔۔۔یہ سب تقرب الھی کا ذریعہ ہیں.

    لیکن وہابی علماء یہ بھول گئے کہ خدا وند عالم نے کچھ اور بھی نیک اعمال کا تذکرہ کیا ھے.
     ان میں سے یہ بھی ہے کہ خدا وند عالم کی نشانیوں کی تعظیم کرنا.

    خدا وند عالم کی نشانیوں میں صفاء و مروہ ، ناقہ صالح ، وہ اونٹ جو منیٰ کے میدان میں قربانی کے لئے لے جایا جاتا ھے اس کی تعظیم یہ ہے کہ اس قربانی کے اونٹ سے کوئی کا م نہ لیا جائے.اور وقت پر چارہ دیا جائے .
    اصحاب کہف کا شمار بھی اللہ کی نشانیوں میں ھوتا ھے.

    اور جو ان نشانیوں کا احترام نہ کرے اور ان کی تکذیب کرے اس کے لئے خدا وند عالم نے جہنم کو تیار کر رکھا ھے.

    چنانچہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ھے.
    ا ایھا الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی (ص) ترجمہ :
    ایمان والو خبر دار اپنی آواز کو نبی(ص) کی آواز پر بلند نہ کرو.

    یعنی ہمارے حبیب سے گفتگو کرتے وقت تعظیم کاخیال رکھنا بھی تقرب الھیٰ کاذریعہ ھے اگر کوئی اپنے کو رسول (ص) کے غلاموں میں ادنیٰ غلام ظاہر کرے تو اللہ اس شخص سے اتنا خوش ہوگا کہ اس کو فضیلتوں کا پیکر بنا کر علی  ابن ابی طالب بنا دیگا.

    رسول اللہ کی تعظیم کرنا بھی نیک اعمال میں سے ایک عمل ھے.

    تقرب الھی کے اسباب میںسے ایک سبب یہ ہیکہ ''مسلمانوں کو اعمال کے ساتھ انبیاء اور اولیاء کا وسیلہ بھی ڈھونڈنا چاہئے .

    اس لئے کہ اولیاء اور انبیاء ھی خدا تک پہونچنے کے دو ذریعے ہیں اور ان سے متمسک رہنا تقرب الھی کا ذریعہ ھے.

    پھر صاحب تفسیر نور العرفان وسیلہ کے سلسلہ میں یوں لکھتے ہیں ''کوئی متقی مومن بغیر وسیلہ کے رب تک نہیں پہونچ سکتاھے.

    مندرجہ بالا بیان سے ثابت ہوتا ھے کہ انسان کو خداکی بارگاہ میں وسیلہ ضرور قرار دینا چاہئے .
    یہ امر مسلم ھےکہ اللہ نے پیغمبر اکرم  ص کو تمام انبیا ء پر فضیلت اور عظمت بخشی ھے.
     اب سنت کا دم بھرنے والے ذرا سا غور و فکر کریں کہ جب خدا وند عالم نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی سے گفتگو کرتے وقت اتنی تاکید کی ھے تو پھر اگر خود رسول اسلام  کسی کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جائیں .
    اور اپنی جگہ پر بٹھائیں تو اس کی عظمت کا کون اندازہ لگا سکتا ھے.

    علماء اہلسنت نے اس شخصیت کا نام فاطمہ (س ) لکھا ہے اور اپنی مختلف کتابوں میں مندرجہ بالا حدیث کو نقل کیا ھے.

    مگر افسوس !کہ رسول کی آنکھ بند ہوتے ھی امتی ، رسول کی لاڈلی بیٹی فاطمہ (س)کے دروازے پر آگ لے کر آگئے اور ظلم کی انتہا کردی,
     یہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی آپ کو آزار واذیت پہونچا نے کی ہر ممکن کوشش کی گئی چناچہ :
    1344,ھ میں جب آل سعودنے مکہ ومدینہ کے گرد و نواح میں اپنا پورا تسلط جما یا تو مقدس مقامات ،جنت البقیع ، اصحاب اور خاندان رسالت کے آثار کو صفحہ ہستی سے محو کر دینے کا عزم کیا.

    رسول ص کے زمانے نے اس طرح کروٹ بدلی کہ حضرت امیر المونین  علی  کے حق کو غصب کر لیا گیانبی کی بیٹی فاطمہ (س)کو مرثیہ پڑھنا پڑا ،بعد رسول ۖ امام حسن  کو زہر دیا گیا اور وہ حسین  جس کی وجہ سے رسول ۖ نے سجدہ کو طول دیا تھا رسول ۖجس کے گلہ کا بوسہ لیتے تھے ان ہی کا کلمہ پڑھنے والوں نے سجدے کی حالت میں امام حسین  کا سر کاٹ کر نوک نیزہ پر چڑھادیا ۔
    اور اب ظالم (صدام )نے یہاں تک ظلم کیا کہ امام حسین  کے روضہ کی ہر طرح بے حرمتی کی یہ سب کیوں ھو ا.

    عام طورپر یہ دیکھا گیا ھے کہ اگر کسی کو کسی سے دشمنی ہوتی ھے تو مرنے کے بعد وہ دشمنی بھی ختم ہو جاتی ھے,لیکن اہلبیت  کے دشمن ، 
    آج تک سر گرم عمل ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل بیت  کا وہ عظیم کردار ہے جو لوگوں کو اپنا گرویدہ کئے ہوے ہے اور اس کے آثار آج تک ظالم اور استعمار سے دشمنی کی شکل میں موجود ہیں.

     لہٰذا پوری دنیا کے ظلم اور استعمار ہر ممکن طریقہ سے اہل بیت  اور عوام کے درمیان پائے جانے والے رابطوں کو نابود کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے قسم قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا تے ہیں.

    انہیں میں سے ایک ہتھکنڈہ اہل بیت ع کی قبروں کا نام ونشان مٹادینا ہے ،تاکہ ان میں اور عوام میںپائے جانے والے روحانی رابطے منقطع ہو جائیں.

    یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دشمنان اہل بیت  نے ہمیشہ اہل بیت کو صفحہ ہستی سے ہی ختم کرنا چاہا اور آج بھی یہ کوششیں جاری ہیں.

    اب چاہے قبور کو منہدم کرنا پڑے یا دین احمد ص میں تحریف کرکے شرک اور بدعت کے فتوے صادرکرنا پڑیں .

    جیسے دشمن اہل بیت ،ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد ابن القیم نے اولیاء خدا نیز پیغمبروں کی قبور پر عمارت بنانا حرام قرار دیا ھے.
     وہ اپنی کتاب ''زاد المعادفی ھدیٰ خیر العباد ''میں لکھتا ھے کہ :

    قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو ڈھانا واجب ہے اگر انہدام اور ویرانی ممکن ہو تو ایک دن بھی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے  ۔
    سورہ حجرات آیت ٢ کے تحت وہابی علماء نے رسول ص کی تعظیم کا خیال نہیں رکھا یعنی رسول ص کی زیارت کو شرک اور بدعت ثابت کیا ہے (جبکہ زیارت رسول ص کے لئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ جایا کرتے تھے ).

     اور رسول کا اس طرح دل دکھا یا کہ آل رسول ۖکے مزار جو جنت البقیع میں تھے ان کو بے سایہ کر دیا اور یہ امر مسلم ہے کہ رسول کا دل دکھانا عذاب الھی کا ذریعہ ھے.(جاری ھے)

    عرس ,مزار اور بیت رضوان کے درخت کی کٹائی.

    مزار,عرس اور بیعت رضوان کے درخت کی کٹائی :

                       قسط نمبر 13.

    جس درخت کے نیچے بیعت رضوان ھوئی تھی لوگوں نے اس کو زیارت گاه بنا لیا تھا اس وجه سے حضرت عمر نے  اس کو کٹوا دیا.

    اگر حضرت عمر نے اس وجه سے کٹوایا که وھاں لوگو ں نے حاجات کی مشکل کشائی  کا وسیله بنا لیا تو پھر ان بزرگوں کی قبروں کو حاجات کا مداوا سمجھنا فعل عمر کے خلاف ھے.

    ایک وجه یه بھی پیش کی جاتی ھے که اس درخت کو کٹوایا نھیں تھا بلکه لوگوں کی نگاھوں سے غائب ھو گیا لوگوں نے دھوکے میں دوسرۓ درخت کی زیارت شروع کر دی تھی .

    اب خانقاه پرست اس غلطی سے بچانے کیلۓ حضرت عمر تبرکات کی زیارت کے مخالف ھوتے تو حضور ص کے بال مبارک تهبند شریف اور قبر انور سب ھی تو زیارت گاه بنی ھوتی تھیں .ان کو کیوں باقی رھنے دیا.

    مگر یه جواب خود ان کے گلے پڑتا ھے اگر درخت کٹوایا ھی نھیں بلکه الله تعالی نے غائب کر دیا تو اس سے معلوم ھوا که الله پاک بھی نھیں چاھتے تھے که یه درخت زیارت گاه بنے.

    اگر حضرت عمر نے کٹوایا تھا تو وه بھی نھیں چاھتے تھے.
    درخت کا مخفی ھونا بھی یه نشانی ھے که یه فعل الله تعالی کو پسند نھیں تھا.

    اگر ولیوں کی قیام گاھوں کو زیارت بنانا الله تعالی کے نذدیک محبوب ھوتا تو پھر ایسا نه ھوتا.

    تبرکات کی بات دوسری ھے ان سے صرف حسین یادیں وابسطه ھوتی ھیں.

    زیارت گاھیں تو مرده ایام سے خانقاھیں بن جاتی ھیں اور آھسته آھسته غیر الله کو ماتھا ٹیکنا شروع ھو جاتا ھے .

    آنحضرت ص بھی اس سے محتاط تھے بلکه ایک سفر میں صحابه نے عرض کیا که

     اجعل لنا زات انواط کمالھم زات انوات.
    ھمارۓ لیۓ ایک زات انواط مقرر فرما دیجیۓ جیسے ان کیلۓ زات انواط ھے.

    تو آپ ص نے فرمایا جیسے قوم موسی نے کھا تھا .
    که ھمارۓ لیۓ ایک معبود مقرر کر دیجیۓ جیسے ان کیلۓ معبود ھے.
    تفسیر ابن کثیر جلد 3ص:242.

    اسی لیۓ تو حضرت عمر نے حجر اسود کو بوسه دیتے ھوۓ کھا اگر میں نے رسول الله ص کو بوسه دیتے ھوۓ نه دیکھا ھوتا تو میں تجھے بوسه نه دیتا.
    بخاری شریف.
    قبروں کی زیارت مسنون ھے ھاں ان پر میلا لگانا اور اس کیلۓ دور دراز کا سفر کرنا منع ھے.

    صوفیه کی قبروں پر دعاء کی نیت سے جانے والے زنا سے بھی بد فعل سرانجام دیتے ھیں.(شاه ولی الله)

    مذھب اھلسنت کے چاروں امام اور مذھب حقه اثناۓ عشریه کا اتفاق ھے که قبر نبوی ص اور آئمه معصومین علیھم اسلام کی زیارت سب سے بھتر کاموں میں سے ھے
    اور اسکی بھت فضیلت وارد ھوئی ھے.

                       قسط نمبر :12

    عرض ھے که  قبر نبوی ص اور آئمه معصومین علیھم اسلام کی زیارت کی فضیلت بھت اور آپنی جگه ھے .

    پر گفتگو زیارت کے بارۓ میں نھیں(شدر حال)یعنی دور دراز سفر کرکے صوفیه کے مزاروں پر آنے والوں کے بارۓ میں ھے.

    لادینی قوتیں اور اسلام دشمن عناصر خانقاه پرستوں نے اصل مقصد زیارات  قبور سے ھٹ کر یه کوشش کی ھے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کروائیں  تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر اﷲ کی تعظیم و ادب ختم کرتے ھوۓ آپنے دنیاوی فوائد کا حصول ممکن بنائیں,
    یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا.
    وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے.
    یه خرافت بھی لفظی اسلام کا نعره لگانے والے صوفیه پرست نے آپنے اندر بھی لے لی کثیر تعداد عرس پر آنے والوں کی یه سوچ رکھتی ھے که وھاں نفس کی خواھش کو عملی جامه پهنانے کیلۓ کسی بزرگ کے مزار پر عرس کی طرف سفر کیا جاۓ جھاں سب کچھ ایک چھت کے نیچے ملے گا.
    شراب,شباب,کباب,سنیماء,استاد الله بخش کا تھیٹر,لکی ایرانی سرکس,مرد و زن کا مخلوط دھمال وغیره.

    صوفیه کرام (بزرگوں)کی قبور کی زیارت کیلۓ دور دراز سے سفر کرنے کیلۓ جیسا که ھمارۓ زمانه میں معمول بن چکا ھے خانقاه پرست کھتے ھیں صاحب شریعت یا صاحب مذھب یا مشائخ سے نقل اور حواله کی ضرورت ھے.
     اور دور دراز کی قبروں کی زیارت پر قیاس کرنا جائز اور درست نھیں ھے.

    مگر بریلوی اور دیوبندی اور غالیوں کا یه امتیاز کیۓ بغیر حنفیه کا مسلک یھی ھے که قبروں کی طرف( شدر حال ) دور دراز کا سفر جائز ھے انبیاء معصومین ع کی قبروں کی طرف بھی.

    مگر مرقات شرح مشکواة شریف میں یه حدیث ھے که انبیاء و معصومین ع کے قبور کی زیارت منع نھیں ھے.

    ایک اعتراض کے جواب میں یه خانقاه پرست یه جواب بھی دیتے ھیں که ٹرین (ریل گاڑی)کو پکڑنے کیلۓ اسٹیشن جانا پڑتا ھے .

    دنیاوی مقاصد کیلۓ سفر کیوں کرتے ھو .....طبیب کے پاس بیمار سفر کر کے کیوں آتے ھیں.
    عرض ھے که یه سفر  اسباب کے مطابق ھیں مافوق السباب نھیں ھیں ,

    ان مقاصد کے حصول کیلۓ کبھی کھنڈروں یا یا مردوں کے پاس نھیں کیا.

    کشمیر کا سفر کیوں کرتے ھو وھاں کی آپ وھوا صحت بخش اور تندرستی اور مفید ھو مگر اولیاء الله کے مقامات کی آب و ھوا صحتند  کیوں نھیں.

    یه اس طرح کی بات ھے که دو پیسے کی گولی قبض کشا ھو سکتی ھے.
    تو مولا علی ع مشکل کشاء کیوں نھیں.

    میرۓ بھائیوں کشمیر خوبصورت مقام ھے وھاں پهاڑ  ھیں  جنگلات ھیں باغات ھیں,دریا ھیں وغیره وغیره .

    قبروں کا کیا ھے حدیث کے مطابق یه تو صرف موت یاد دلاتی ھیں.

    اور موت کو یاد کرنے کےلیۓ سفر کی ضرورت نھیں.

    قبرستان ھر جگه موجود ھیں.بلکه کوشش کریں ھر روز قبروں پر جائیں اور حقیقت ملحاظه کرتے ھوۓ عبرت پکڑیں اور گناھوں سے پرھیز کرنے کی یه بھی ایک عمده کوشش ھے.

    صوفیه کے عرس فتنه و بدعت ھیں.

    :
    عرس کیلۓ کیا جانے والا سفر

                    قسط نمبر :11

    عرس وغیره کا انعقاد کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان خانقاھ پرستوں کی ایک خاص تعداد صوفیوں بزرگوں کے سالانه عرس یا عام ایام میں کیۓ جانے والے سفر کو بھت سعادت اور کار ثواب و اجر عظیم قرار دیتے ھیں.

    تاکه عوام کی جوق در جوق شرکت کو یعقینی بنایا جاۓ اور متولی و سجاده نشین کا خاص مقصد نذر نیاز نذرانے چڑھاوۓ کے سلسله میں زیاده سے زیاد پیسه جمع اور مریدین کی تعداد میں اضافه کیا جا سکے.

    اور روایت دیتے ھیں که بزرگوں کی قبور و مزارات کی زیارت بدرجه اولی ثابت ھے 

    یه خواه مخواه ایسے ھی ھے جیسے کسی نے مختلف لوگوں سے قرضه وصول کرنا ھو اور کھے میں نے فلاں سے بھی لینا ھے فلاں سے بھی لینا ھے .

    اور ایک شخص جس سے نھیں لینا اسے بھی کھ دیں لھذا تم سے بھی لینا ھے.
    اور بدرجه اولی لینا ھے .

    جن لوگوں کے نذدیک زندگی اور موت میں وجود اور عدم میں ھونے اور نه ھونے میں فرق نه ھوا ان کا کیا علاج ھے.

    خانقاھ و صوفیه پرست یه سمجھتے ھیں یه حضرات طبیب روحانی ھیں اور ان کے مختلف فیوض ھیں ان کے مزار پر پھنچنے 
    سے شان الھی نظر آتی ھے.

    که الله والے بعد وفات بھی دنیا پر راج کرتے ھیں.یعنی غالیوں اور بریلویوں پر مردوں کا راج ھے.

    حقیقت یه ھے که اس قسم کے بودۓ اور مرده نظریات رکھ کر دنیا میں ان کا وجود و عدم یعنی ھونا اور نه ھونا برابر ھو گیا ھے.

    یه لوگ چلتے پھرتے مزار ھیں مقبرۓ ھیں,خانقاھیں ھیں,اگر مردۓ زنده ھیں تو یعقینا یه مرده ھیں.

    مقدمه شامی جلد ,1 ص:41,
    میں امام ابو حنیفه کے مناقب میم امام شافعی سے نقل ھے که میم ابو حنیفه سے برکت حاصل کرتا ھوں اور انکی قبر پر آتا ھوں.

    اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ھوتی ھے تو دورکعتیں پڑھتا ھوں اور انکی قبر کے پاس جا کر دعاء کرتا ھوں تو جلد حاجت پوری ھو جاتی ھے..

    مجھے یه محض گپ لگتی ھے جو امام شافعی کو امام ابوحنیفه کے مقابلے نیچا دکھلانے کیلۓ گھڑی گئ ھے.

    اگر امام صاحب کی قبر اتنی متبرک اور قاضی الحاجات تھی تو امام شافعی کو ان کے فقه سے اتنا شدید اختلاف اور متبرک کیوں نظر نه آئی.

    اس سے زیاده متبرک قبر تو امام ابو یوسف اور امام محمد کی ھونی چاھیۓ تھی.
    اس قسم کا مشرکانه قول تو انھوں نے بھی نھیں دیا.مطلب یه که یه قبر تو نه ھوئی بلکه خانه کعبه ھی ھو گیا جھاں کسی کی جائز  دعاء رد نھیں کی جاتی.

    بریلویوں کی ایک خاص تعداد ھند و پاک سے بغداد(عراق) جاتی رھتی ھے.

     اور کھا جاتا ھے که شیخ عبدالقادر جیلانی کا پاؤں تمام اولیاء کی گردن پر ھے.
     جو غوث اعظم ھیں انھوں نے تو آپنے ملک عراق کا کچھ نھیں سنوارا بلکه تباه و برباد کرکے رکھ دیا ھے.
     کوئی ایسی جگه نھیں جھاں انسانی خون  نه بھا  ھو.
    جو آپنے ملک کی قسمت نھیں سنوار سکا بلکه امن کی جگه ایک خونی جنگ و جدل کے میدان میں بدل کر رکھ دیا ھے.

    بزرگوں کی قبریں مسجد نبوی و روضه رسول ص کے ھم پلا....قسط نمبر:10

    پاک نبی ص نے فرمایا میری قبر پر عید یا میله نه لگانا بلکه درود بھیجنا تم جھاں کھیں ھو گے تمھارا درود مجھ تک پهنچ جاۓ گا  :مشکواة شریف.

                      قسط نمبر :10

    خانقاه پرستوں نے مردوں کی قبروں کو مسجد حرام اور مسجد نبوی ص کے ھم پلا قرار دیا ھے .

    پاک نبی ص نے زیارت قبور کے دو فائدۓ بیان کیۓ ھیں.
    ذھد فی الدنیا و تذکرالا خرة.
    حضرت ابن مسعود سے روایت ھے که زیارت قبور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کا زکر پیدا کرتی ھے.

    جبکه خانقاه پرست اس سوچ پر ان مردوں کی قبروں کی زیارت نھیں کرتے بلکه آپنے مقاصد اور غرض و غائت کی خاطر سینکڑوں میل سفر کر کے دنیاوی فوائد و حاجات کی قبولیت کو یعقینی بنانے کیلۓ حاضر ھوتے ھیں.

    ان کا یه کھنا که زیارات مدینه و مکه بھی ایک تاریخ پر ھوتے ھیں اسی لیۓ ھمارۓ بزرگوں کے عرس بھی مقرره وقت کو ھوتے ھیں لھذا جائز ھے.

    مگر یه یاد رھے که زیارات مدینه منوره روضه رسول ص,زیارات کربلا و نجف و مشھد کیلۓ بھی کوئی مخصوص وقت نھیں سارا سال لوگ شرف حاصل کرتے رھتے ھیں.

    ایک حدیث پاک نبی ص سے نقل کی جاتی ھے که میری قبر پر عید میلا نه لگانا.شور نه کرنا ھلڑ بازی سے پرھیز کرنا.

    باب زیارت القبور مشکواة شریف ص:86.

    ھم اسے درست سمجھیں تو اس کا مطلب ھے که میری زیارت پر آنے والے با ادب رھیں یھاں آ کر شور نه کرنا وه کام نه کرنا جس سے توحید کی زات پر حرف آۓ .

    مگر جب ھم عرس کے نام پر بزرگوں(مردوں) کی قبروں کی حالت کا معائنه کرتے ھیں .
    تو یھاں نرا شور ھی شور 
    ھے شرکیه نعرۓ ھیں,بھنگڑۓ لڈی ھے جمالو ھوتا ھے.قوالیاں,دھمالیں اور لمبی توت والے موت کے کنوئیں کے سپیکر پر زھریلے جذبات کو بھڑکانے والے گانے جو  کانوں کے پردۓ پھاڑتے ھیں.

    لکی ایرانی,جوبلی سرکس,استاد الله بخش اور گامن سچیار کا تھیٹر پنگھوڑۓ,بازار,کشتی کبڈی,کتوں کی لڑائی بندر کا کھیل اور بکرۓ کا ڈانس وغیره یه ھے بزرگوں کے عرس کی علامات ھیں  ان کے بغیر عرس منانا تصور ھی نھیں کیا جا سکتا.

    ھمارۓ ھاں اس طرح کے بھت عرس ھوتے ھیں اورة جو بھت مشھور بھی ھیں.
    مثلا قریبی سلطان ایوب قتال کا عرس ,
    شاه شھیداں ,بابا لنگڑۓ کا عرس,شاه جی محمد کی چوکی,چنن پیر مخدوم رشید کا عرس وغیره بھت مشھور ھیں.

    مسلمانوں کے عرس اور سکھوں کی بیساکھی میں قطعا کوئی فرق نھیں ھے.

    شاه ولی الله جھاں قبروں پر عرس کے حق میں ھیں وھیں قبروں پر بدعات کے مخالف بھی ھیں جیسے عرس کے نام پر میلے ٹھیلوں کی بدعات وغیره.
    ملحاظه کریں:
     تفھیمات الھیه ص:64.

    خانقاه پرست ایک یه بھی دلیل دیتے ھیں که خانه کعبه میں بت تھے اور کوه صفا و مروه پر بھی بت پرست تھے مگر بتوں کی وجه سے مسلمانوں نے طواف نه چھوڑا اور نه عمره ھاں جب الله تعالی نے ھمت دی تو بت توڑ ڈالے.
    عرض ھے که خانه کعبه وغیره میں بت تو مشرکوں نے رکھے اور مسلمانوں نے آ کر مٹا دیۓ .
    مگر عرسوں کے محرمات تو صوفیه و مشائخ  کے پیدا کرده ھیں اور انھیں ھی کے زیر سر پرستی چلتے ھیں بلکه اشتھاروں پر ان کے نام لکھے ھوتے ھیں.

     ٹھیکه صول کرتے ھیں اور ھر سٹال والے سے ایک کثیر رقم  بطور لتیے ھیں .

    انھیں کون مٹاۓ گا.بریلوی یا غالی نھیں کبھی نھیں انھیں توحید پرست شرک کے خلاف لڑنے والے خالص محبان   اھلبیت علیھم اسلام کے سچے پیروکار ایک دن ضرور ان جاھلانه ھندوانه مشرکانه رسموں کو ضرور مٹائیں گے لھذا سب عاشقان الھی و محبان محمد و آل مجمد علیھم اسلام پر لازم ھے وه جھاں کھیں بھی ھوں اقلیت یا اکثریت میں آپنے ماحول مطابق سیرت معصومین ع پر عمل کرتے ھوۓ ضرور ان کے خلاف آواز اٹھائیں اور خالص مومن ھونے کا ثبوت دیں. (شکریه)
                                 (جاری ھے.)

    خانقاھیں اور عرس پرستوں کی دقیانوسی

    :
    خانقاه اور عرس پرستوں کی دقیانوسی

                        قسط نمبر :9

    عرس پر جو صوفیه کے اجتماع ھوتے ھیں قبر پرست کھتے ھیں اس کے فوائد بھی بھت ھیں,
     مسلمان جو مسنون اجتماعات پنج وقته نمازوں کا اجتماع جمعه کا اجتماع عیدین کا اجتماع حج عمرۓ کا اجتماع کیا یه سب بے فائده ھیں.

    کیا  دیگر جائز  تقریبات  شرعی کا کوئی فائده نھیں ھے.

    کیا گدھوں ,چیلوں,اور کوؤں کی طرح ان قبور کے گرد گھومتے رھنا ھی اسلام ھے.

    بعض لوگ عرس کا فائده یه بھی بتاتے ھیں که طالبان حق کو پیر تلاش کرنے میں آسانی  ھوتی ھے.

    اب یھاں ان قبر پرست لوگوں کے زھن کی سوچ کا اندازه لگائیں,
     کیا ان پیروں شیخوں,قادریوں,نقشبندیوں,چشتیوں, سھروردیوں, اور قلندریوں پر مسجدوں اور مدرسوں کے دروازۓ بند ھیں.

    کیا ان پر نماز پنجگانه با جماعت فرض نھیں ھے کیا ,
    کیا ان لوگوں کیلۓ قرآن و حدیث کا علم شجر ممنوعه ھے.

    کیا ان مواقع پر حق پرست پیر کا انتخاب نھیں کیا جا سکتا.

    ھمارا ایک بچه دیناوی  تعلیم سے گھبرا کر جھنگ (شورکوٹ)میں قائم  ایک دربار پر روپوش ھو کر ساتویں سلطان الفقر کی بیعت کرکے ان کے گھوڑوں کی خدمت پر لگ گیا .

    والدین رابطه کرتے رھے پر اس نے واپسی کی راه نه لی جبکه قرآن والدین کی نافرمانی اور ناراضگی کو سخت عزاب سے یاد کرتا ھے.

    جب اس کے والد دربار پهنچے آپنے بیٹے کو لینے تو اس وقت مرشد کامل لوگوں سے بیعت لے رھے تھے مغریبین کا وقت تھا کچھ دیر بعد مغرب کی آزان ھوئی وه بھائی کھتے ھیں,

     ھم کافی لوگ نماز کی ادائیگی کیلۓ مسجد چلے گۓ اور سوچا چلو آج مرشد کامل ساتویں سلطان الفقر کی امامت میں نماز کی سعادت نصیب ھو گی.

     مگر ھوا کچھ اس کے متضاد مرشد تو نماز کی امامت تو دور نماز بھی پڑھنے کو نه آۓ ھم جب نماز پڑھ کے واپس گۓ تو وھیں براجمان تھے.

    تب سے ان لوگوں سے نفرت ھو گئی بڑی مشکل سے ایک دفعه تو بچے کو واپس لے آۓ مگر پھر بھاگ گیا,
     اب وه آپنے علاقه میں تنظیم العارفین کا مقامی جنرل سیکرٹری ھے.

    اس کا باپ لودھراں کے نصیر الدین شاه گیلانی کا مرید تھا یه دونوں گروه ایک دوسرۓ کی خامیاں نکالتے رھتے تھے.

    یه تو ھے ان لوگوں کی اصل حقیقت کس طرح نماز سے عاری ھیں.

    لھذا قبر پرست لوگوں کا یه نظریه کوئی معنی نھیں رکھتا,
     که ھم عرس پر موجود سب پیروں کو جو جمع ھوتے ھیں آپنی مرضی سے مرشد منتخب کرنے کا موقع ظائع نھیں جانے دیتے.
    اور سوچ سمجھ کر جسے اچھا سمجھا اسکی بیعت کر لی.
    اب میں ان لوگوں سے پوچھتا ھوں کیا یه علماء و صوفیه کوئی منڈی کا مال نھیں یا قربانی کے بکرۓ نھیں,

     جو ٹرکوں میں بھر کر مختلف مقامات میں سے لاۓ جاتے ھیں 
    جو بڑھیا نظر آۓ اسکی بیعت کی جاۓ اور جو کمتر لگے اس پر توھین آمیز اور چاه مگوئیاں شروع کر دیں.

    جبکه رسول اکرم ص کا ارشاد ھے :

    جو شخص خلاف شرع کام ھوتا دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے ہاتھ سے روکے.

    اگر اس کی طاقت نہ ھو تو پھر زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ھو تو تو پھر دل سے سے ھی برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجه ھے.

    ھمیں روزانه سوتے وقت ضرور آپنے اعمال کا محاسبه کرنا چاھیۓ که ھم نے آج کیا نیک اور برۓ کام کیۓ. 

                            (جاری ھے)

    خانقاھیں شرک کی بارگاھیں آور ھماری زمه داریاں.

    خانقاھیت(شرک) کی ترویج و ترقی میں ھمارۓ حکمران بھی شامل ھیں.پوری تفصیل جاننے کیلۓ مکمل پوسٹ کا مطالعه کریں:

                            قسط نمبر :8

     سرزمین ہندمیں تشریف لانے والے صحابہ کرام رض کی تعداد 25, تابعین کی تعداد 37/اور تبع تابعین کی تعداد 15/بتائی جاتی ھے.

    گویا پہلی صدی ہجری کے آغاز میں ھی اسلام برصغیر پاک وہند میں خالص کتاب وسنت کی شکل میں پہنچ گیا تھا اور ہندو مت کے ہزاروں سالہ پرانے اور گہرے اثرات کے باوجود صحابہ کرام رض تاریخی اور تبع تابعین رح کی سعی جمیلہ کے نتیجہ میں مسلسل وسعت پذیر تھا,

    جو بات تاریخی حقائق سے ثابت ھے وہ یہ کہ جب کبھی موحد اورمومن افراد برسر اقتدار آئے تو وہ اسلام کی شان وشوکت میں اضافے کا باعث بنے محمد بن قاسم کے سلطان سبکتگین ۔سلطان محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین غوری کا عہد (986 تا 1175ء )اس بات کا واضح ثبوت ھے ,
    کہ اس دور میں اسلام برصغیر کی ایک زبردست سیاسی اور سماجی قوت بن گیا تھا اس کے برعکس جب کبھی ملحد اور بے دین قسم کے لوگ سریر آرائے حکومت ہوئے تو وہ اسلام کی پسپائی اور رسوائی کا باعث بنے.

     اس کی ایک واضح مثال عہدِ اکبری ھے جس میں سرکاری طور پر لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ  أَکْبرُ خَلِیْفَۃُ اﷲِ مسلمانوں کا کلمہ قرار دیا گیا.

    اکبر کو دربار میں باقاعدہ سجدہ کیاجاتا ‘نبوت ‘وحی ‘حشر نشراور جنت دوزخ کا مذاق اڑایا جاتا ‘نماز ‘روزہ حج اور دیگر اسلامی شعائر پر کھل کھلا اعتراضات کئے جاتے ,
    سود‘جوا اور شراب حلال ٹھہرائے گئے سور کو ایک مقدس جانور قرار دیا گیا ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے گائے کا گوشت حرام قرار دیا گیا .

    دیوالی ‘دسہرہ‘راکھی‘پونم ‘شیوراتری جیسے تہوار ہندوانہ رسوم کے ساتھ سرکاری سطح پر منائے جاتے ہیں.

    ہندومذہب کے احیاء اور شرک کے پھیلاؤ کا اصل سبب ایسے ھی بے دین اور اقتدار پرست مسلمان حکمران تھے .

              تقسیم ہند کے بعد جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت اور بھی واضح ھوکر سامنے آتی ھے کہ شرک وبدعت اور لادینیت کو پھیلانے یا روکنے میں حکمرانوں کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ھے ہمارے نزدیک ہر پاکستانی کو اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاھیے,
     کہ آخر کیا وجہ ھے کہ دنیاکی وہ واحد ریاست جو کم وبیش نصف صدی قبل محض کلمہ توحید  لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُکی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئی تھی اس میں آج بھی کلمہ توحید کے نفاذ کا دور تک کوئی امکان نھیں.

    ملاحظہ ہو ’’اقلیم ہند میں اشاعت اسلام ‘‘از گازی عزیر .
      تجدید واحیائے دین از سید ابوالاعلیٰ مودودی صفحہ :80.

    اگر اس کا سبب جہالت قرار دیا جائے تو جہالت ختم کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں پر تھی اگر اس کا سبب نظام تعلیم قرار دیا جائے تو دین خانقاھی کے علمبرداروں کو راہ راست پر لانا بھی حکمرانوں کی ذمہداری تھی.

     لیکن المیہ تو یہ ھے کہ توحید کے نفاذ کے مقدس فریضہ کی بجاآوری تو رھی دور کی بات ‘ہمارے حکمران خود کتاب وسنت کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے آئے ہیں,
    سرکاری سطح پر شرعی حدود کو ظالمانہ قرار دینا ‘قصاص ‘دیت اور قانون شہادت کو دقیانوسی کہنا ‘اسلامی شعائر کامذاق اڑانا ‘سودی نظام کے تحفظ ے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا,

    عائلی قوانین اور فیملی پلاننگ جیسے غیر اسلامی منصوبے زبردستی مسلط کرنا ‘ثقافتی طائفوں ‘قوالوں ‘مغنیوں اور موسیقاروں کو پذیرائی بخشنا.

    سال نو او رجشن آزادی, جیسی تقاریب کے بہانے شراب وشباب کی محفلیں منعقد کرنا ہمارے عزت مآب حکمرانوں کا معمول بن چکا ھے.
     دوسری طرف خدمت اسلام کے نام پر حکمران(الا ماشاء اﷲ)جو کارنامے سرانجام دیتے چلے آرھے ہیں ان میں سب سے نمایا اور سرفہرست,

     دین خانقاھی سے عقیدت کا اظہار اور اس کا تحفظ شاید ہمارے حکمرانوں کے نزدیک اسلام کا سب سے امتیازی وصف یہی ھے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح رح سے لے کر زولفقار علی بھٹو,جنرل ضیاء الحق اعر بے نظیر بھٹو تک اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال رح سے لے کر حفیظ جالندھری تک تمام قومی لیڈروں کے خوبصوت سنگ مرمر کے منقش مزار تعمیر کرائے جائیں,

     ان پر مجاور (گارڈ)متعین کیے جائیں قومی دنوں میں ان مزاروں پر حاضری دی جائے .
    پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں سلامی دی جائے فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کے ذریعے انہیں ثواب پہنچانے کا شغل فرمایا جائے تو یہ دین اسلام کی بہت بڑی خدمت ھے .

              یاد رھے بانی پاکستان محمد علی جناح رح کے مزار کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے باقاعدہ ایک الگ مینجمنٹ بورڈ قائم ھے جسکے ملازمین سرکاری خزانے سے تنخواہ پاتے ہیں.

     گزشتہ برس مزار کے تقدس کے خاطر سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے مزار کے اردگرد 6/فرلانگ کے علاقہ میں مزار سے بلند کسی بھی عمارت کی تعمیر پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا .
    (روزنامہ جنگ 13/اگست 1991 ء.
    اور کل 27/فروری 2017 ء کو پھر نۓ سرۓ سے 2,کلو میٹر کے اندر ےمام اونچی عمارتوں کو گرانے کا سندھ حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ھے.

    ایک ضیافت میں وزیر اعظم نے پولیس بینڈ کی دلکش دھنوں سے خوش ہوکر بینڈ ماسٹر کو پچاس ہزار روپیہ  انعام دیا ۔(الاعتصام 5/جون 1992ء).

    یاد رھے مکہ معظمہ میں بیت اﷲشریف کی عمارت کے اردگرد بیت اﷲشریف سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں جو مسجد الحرام کے بالکل  قریب واقع ہیں.

     اسی طرح مدینہ منورہ میں روضه رسول ص کے اردگرد روضہ مبارک سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں,

     جن میں عام لوگ رہائش پذیر ہیں ۔علماء کرام کے نزدیک ان رہائشی عمارتوں کی وجہ سے نہ تو بیت االله شریف کا تقدس مجروح ہوتا ھے نہ روضه رسول ص کا. 

       1975ء میں شہنشاہ ایران نے سونے کا دروازہ سید علی ہجویری کے مزارکی نذر کیا .
    جسے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نے اپنے ہاتھوں سے دربار میں نصب فرمایا 1989ء میں وفاقی گورنمنٹ نے جھنگ میں ایک مزار کی تعمیر وتزئین کے لئے 68/لاکھ روپیہ کا عطیہ سرکاری خزانے سے ادا کیا.

    1991ء میں سید علی ہجویری کے عرس کے افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب نے مزار کو 40/من عرق گلاب سے غسل دے کر کیا.

     جبکہ امسال ’’داتا صاحب‘‘کے 975/ویں عرس کے افتتاح کے لئے جناب وزیر اعظم صاحب بنفس نفیس تشریف لے گئے مزارپر پھولوں کی چادر چڑھائی ‘فاتحہ خوانی کی ‘مزار سے متصل مسجد میں نماز عشاء ادا کی.

     اور دودھ کی سبیل کاافتتاح کیا نیز ملک میں شریعت کے نفاذ کشمیر اور فلسطین کی آزادی افغانستان,عراق,شام میں امن واستحکام اور ملک کی یک جہتی ترقی اور خوشحالی کے لئے دعائیں کیں.

     گزشتہ دنوں وزیر اعظم صاحب ازبکستان تشریف لے گئے جہاں انہوں نے چالیس لاکھ ڈالر (تقریبا ایک کروڑ روپیہ پاکستانی )امام بخاری رحمہ اﷲ کے مزار کی تعمیر کے لئے بطور عطیہ عنایت فرمائے.
     (۴)
              مذکورہ بالا چند مثالوں کے بین السطور ‘اہل بصیر ت کے سمجھنے کے لئے بہت کچھ موجود ھے ایسی سرزمین جس کے فرمانروا خود ’’خدمتِ اسلام‘‘سر انجام دے  رھے ھوں وہاں کے عوام کی اکثریت اگر گلی گلی ‘محلہ محلہ ‘گاؤں گاؤں ‘شب وروز مراکز شرک قائم کرنے میں مصروف عمل ھوں ,
    تو اس میں تعجب کی کونسی بات ھے کہاجاتا ہے  الناس علی دین ملوکھم (یعنی عوام اپنے حکمرانوں کے دین پر چلتے ہیں)
    یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ھے.

       صنم کدہ ھے جہاں لاالہ الاﷲ.

    علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

     بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...