Saieen loag

جمعرات، 25 جولائی، 2019

تصوف آور بھنگ نوشی و کھانت وغیره.

:کرامات صوفی ,بھنگ,اور غالی

                    "قسط نمبر:13 ---------------تحریر:  "سائیں لوگ

ڈاکٹر  زکی مبارک نے آپنی تصنیف "التصوف الاسلامی" میں شیخ حیدر صوفی کے متعلق ایک عجیب و غریب واقعه نقل کیا ھےوه لکھتے ھیں که یه بزرگوار خراسان میں رھتے تھے.

انھوں نے پهاڑ میں آپنے لیۓ خانقاه بنوائی تھی جس میں وه دس سال قیام پذیر رھے دس سال بعد ایک سخت گرم دن میں وه آپنی خانقاه سے نکلے اور صحرا میں اکیلے چل پڑۓ.

گرمی کی شدت تھی اور ھوا بھی بند تھی کچھ دیر کے بعد آپ خوش خوش واپس آۓ آپ کے چھرۓ پر طمانیت تھی مریدوں نے اس بشاشت کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا که میں آپنی خانقاه میں بیٹھا تھا که اچانک میرۓ دل میں خیال آیا که مجھے  خانقاه سے نکل کر صحرا کی طرف جانا چاھیۓ .

چنانچه میں صحرا میں گیا که صحرا کی ھر بوٹی پر سکوت مرگ سا چھایا ھوا ھے.

میں بوٹیوں کو دیکھتا جا رھا تھا که میں نےایک بوٹی دیکھی جس کے پتے چکنے چکنے تھے,
 اور وه آرام سے هل رھی تھی میں نے اس کے پتے چنے اور کھا گیا اس بوٹی کے پتے کھانے سے میں ھشاش بشاش ھو گیا .
پھر میں نے وه بوٹی آپنے مریدوں کو دکھائی اور ان سے کھا که عوام سے اس راز کو مخفی رکھا جاۓ خدا نے اس بوٹی کے پتے تمھارۓ لیۓ بناۓ ھیں.اس سے تمھارۓ غم زائل ھوں گے,

اور تمھیں فکری جلا نصیب ھوگی پھر شیخ حیدر صوفی نے فرمایا که جب میں مر جاؤں تو میری قبر کے ارد گرد اس بوٹی کو کاشت کرنا 
(اور وه بھنگ بوٹی تھی).

شعرا نے بھی اس بھنگ بوٹی پر بڑی نظمیں لکھیں ھیں.
انھوں نے اس کا نام شیخ حیدر کا مشروب رکھا ھے.
محمود شقی لکھتے ھیں نظم کا ترجمه عرض ھے .
مقصد یه ھے که شراب چھوڑ دو اور شیخ  حیدر کی بھنگ استعمال کرو.

جب تم خوبصورت ساقی لڑکے کے ھاتھ سے بھنگ کا پیالا لو گے تو تمھیں یوں لگے گا جیسے گلابی رخسار پر کوئی عبارت لکھی ھو.

کتاب التصوف الاسلامی کے مصنف لکھتے ھیں که صوفیه کی محافل میں بھنگ کو فروغ حاصل ھوا,
 اور صوفیه نے بھنگ کو مصر سے لے کر فارس تک رائج کیا.

یه بھی تاریخ میں ملتا ھے که مصر کے  ارباب منبر خطبه جمعه سے پهلے بھنگ پیتے تھے.

صوفیه کی انوکھی کرامات سے اسلام کے خلاف جگ ھنسائی کی مذموم کوشش کی گئی ھے.
دشمنان اسلام کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع دیا.

شعرانی نے آپنی کتاب میں صوفیه ابراھیم ,_مبتولی,شیخ عمری,شمس الدین حنفی,بدوی,_فرغلی,دسوتی,یوسف,
شوستری,جیسے صوفیه کی کرامات سے سینکڑوں صفحات سیاه کیۓ ھیں.

صوفیه کی کچھ کرامات کا تعلق کھانت اور کچھ کا تعلق ھپناٹزم سے ھے.

مگر ھماری نظر میں یه سب کچھ جھوٹ ھے جھاں ھم صوفیه کی کرامات کے منکر ھیں وھاں ھم انبیاء ع کے معجزات کے قائل ھیں.
کیونکه انبیاء ع کے معجزات کی قرآن سے تصدیق ھوتی ھے.اور قرآن ھی ھمارۓ لیۓ حجت ھے.

انبیاء ع کے بعد اھلبیت ع کے ھاتھوں سے بھی 
 معجزات ظاھر ھوۓ تھے.آئمه اھلبیت ع نے جب بھی الله تعالی سے دعاء کرتے تو الله تعالی ان کی دعاء قبول فرماتے لیکن اھلبیت ع نے بھی اس وقت معجزات پیش کیۓ جب اس کے بغیر کوئی چاره نه ھوتا.

دوسرا ھم یه بھی تسلیم کرتے ھیں که اھل تشیع میں معجزات کے موضوع پر جتنی بھی کتب لکھی گئی ھیں ان میں غلو اور اسراف پایا جاتا ھے .

اگر ھم اس غلو کی نشاندھی کریں تو جو ھوش سنبھالتے ھی زاکرین سے معجزات و واقعات سنتے آ رھے ھیں وه بھلا کب اب حق سمجھ پائیں گے بلکه نیا طوفان کھڑا ھو جاۓ گا.
جس سے ھم آپنی پوسٹوں میں لکھنے سے گریز کر رھے ھیں.

اسلام نے دعوت الی الله کا سارا دارو مدار معجزات پر نھیں رکھا.

رسول خدا ص نے تو خلاف فطرت معجزات نھیں دکھاۓ تھے لیکن صوفیه آپنی شیطانی طاقت سے عجیب و غریب کرامات  دکھا کر لوگوں کو گرویده بناتے ھیں.

اسلام آپنے پیروں کا معجزات کی دعوت کے بجاۓ کون و مکان میں غور و فکر کی دعوت دیتا ھے,

اور توجه دلاتا ھے که کائینات کی تنظیم و ترتیب کسی مدبر اور حکیم خالق کے بغیر ممکن نھیں ھے.
                               (جاری ھے)

صوفیه کے مشرکانه و کفرانه نظریات.

:صوفیه اور عجیب و غریب کرامات

"قسط نمبر :12--------- تحریر : "سائیں لوگ

سراج ,کتاب اللمع فی تصوف کے
 صفحه :382,پر لکھتے ھیں که بایذید بسطامی کھا کرتے تھے که خدا نے ایک مرتبه مجھے بلند کیا اور سامنے لا کھڑا کیا اور فرمایا که میری مخلوق تجھے دیکھنا چاھتی ھے .
دوسری جگه لکھتے ھیں که بایذید بسطامی کھتے ھیں جب میں مقام وحدانیت پر پهنچا تو سب پهلے میں نے ایسے پرندۓ کی شکل اختیار کی جس کا جسم احدیت کا تھا اور پر دیموت (ھمیشگی )کے تھے.
دس برس میں اسی کیفیت میں محو پرواز  رھا.اس کے بعد ایسی ھوا میں هھنچا جو اس سے ایک لاکھ گنا زیاده طاقتور تھی.
چنانچه اس میں اڑتا رھا یھاں تک که مقام ازلیت میں پهنچا اور شجر احدیت کا مشاھده کیا.

ابو بکر شبلی صوفیه کے مشھور قطب ھو گزرۓ ھیں.یه فقه مالکیه کے پیروکار تھے اور بغداد میں دفن ھیں.
یه بھی بسطامی اور حلاج جیسی شطحات منقول ھیں جو حلول و اتحاد پر قائم ھیں.

جابان بھی ایک صوفی تھے وه کھتے ھیں شبلی مریدوں کو کھا کرتے تھے که میں وقت ھوں اور میرا وقت بھت قیمتی ھے اور وقت میں میرۓ سوا کچھ بھی نھیں.

جنید بغدادی بھی کھتے که تصوف یه ھے که حق تجھے تجھ سے موت دے دے اور پھر اس کے زریعے تجھے زندگی عطا کرۓ.

سھیل شوستری صوفی کھتے تھے که جو چالیس دن تک دنیا سے بے رغبت ھو جاۓ تو الله کی طرف سے ھاتھوں پر کرامت کا اظھار ضروری ھو جاتا ھے.

کتاب اللمع فی تصوف کے مصنف نے اولیاۓ صوفیه کی ایک ھزار عجیب و غریب حکایات و کرامات جمع کی ھیں.  
شعرانی آپنی کتاب طبقات میں ابو العباس احمد نقاب پوش صوفیه کے کتب ھیں انکی ھر پشین گوئی پوری ھوا کرتی تھی.

شعرانی نے ایک اور صوفی ابو عبدالله قرشی کے بارۓ لکھتے ھیں که وه حضرت خضر سے ملا کرتے تھے.
ابو عبدالله قریشی کے دوست نے بیوی سے کھا آج کیا کھاؤ گی تمھاری خواھش پوری ھو گی بیوی نے کھا بیٹی سے پوچھتی ھوں بیٹی نے جواب دیا اگر خواھش پوری کرنی ھے تو میری شادی ابو عبدالله قرشی سے کردو جو نابینا اور جذام کا مریض تھا کوئی بھی عورت اس سے شادی نھیں کرنا چاھتی تھی مگر اس لڑکی کی شادی کر دی گئی.
جب تمام عورتیں چلی گئیں میاں بیوی ره گۓ تو جب قرشی باتھ روم میں گیا واپس آیا تو بھت حسین و جمیل بے ریش نوجوان شکل کے تھے.

 دلھن نے جوان کو دیکھا تو منه چھپا لیا عبدالله قرشی نے کھا منه نه چھپاؤ میں تمھارا خاوند ھوں.جب قسم کھا کر  یعقین دلوایا .
تو دلھن کو کھا که گھر میں میں اسی شکل میں رھوں گا اور باھر نابینا شکل میں.
بشرط لوگوں کو نه بتانا.
تو بیوی نے کھا نھیں مجھے تم نابینا,جزام,برص کی شکل میں ملو جیسے دوسرۓ لوگوں سے ملتے ھو.

ایک اور صوفی احمد طابرانی سر خسی سے کسی نے کھا که کوئی کرامت دکھاؤ.
کھتے ھیں ایک دفعه مجھے استنجا کیلۓ ڈھیلے کی ضرورت پڑ گئی تو ڈھیلا نظر نه آیا میں نے مٹھی میں ھوا کو پکڑ لیا اور استنجا کرکے پھینک دیا تو وه موتی بن گۓ.

ابوالحس بصری کھتے ھیں که ابادان میں ایک سیاه فام رھتا تھا وه انتھائی مفلس تھا میں کچھ دینے کیلۓ اس کے گھر گیا تو میرۓ اراده کو بھانپ کر زمین کی طرف اشاره کیا تو سب سونا چمکتا دکھائی دیا.

ابو سلمان الخواص صوفی کھتا ھے مین ایک مرتبه گدھے پر سوار ھو کر کھیں جا رھا تھا گدھے کو مکھیاں تنگ کر رھیں تھیں میں اسے مارنا چا رھا تھا که گدھے نے مجھے دیکھ کر کھا جتنا مرضی مار لے یه ڈنڈے تیرۓ سر پر بھی لگیں گے.

زرا ابن سبعین صوفی کھا کرتے تھے که پاک نبی ص نے لانبی بعدی کھه کر وسیع چیز کو محدود کر دیا ھے.
ابن کثیر کھتے ھیں ابن سبعین غار حرا میں جا کر اعتکاف کرتے تھے که شاید کھیں ان پر وحی آ جاۓ اور نبی بن کر باھر آ جاۓ.

زوالنون بھی صوفیه کے ولی تھے وه کھا کرتے تھے که الله نے صوفیه کیلۓ ساری کائینات کو مسخر کر دیا ھے.
زولنون کھتے ھیں انھوں نے مگر مچھ کے پیٹ سے ایک بچه نکلوایا تھا.

ابراھیم بن ادھم کھتے ھیں که امام جعفر صادق ع درندوں کو لوگوں کیلۓ راستے سے ھٹا دیتے تھے.

معروف کرخی میلوں کا فاصله چند منٹوں میں کر لتے تھے.

مختصر یه که صوفیه کی داستان بھت طویل ھے اگر سب لکھنے پر آؤں تو پھر سینکڑوں پوسٹ لگانا پڑیں گی.
صوفیه نے آپنے اولیاء کیلۓ ایسے ایسے معجزات و کرامات بیان کیں ھیں که ایسے معجزات انبیاء ع اور اھلبیت ع نے بھی صادر نھیں فرماۓ.

الغرض صوفیه نے واردات کے زریعے خورشید اسلام کو گھنا دیا اور اسلام جو که حقائق مبنی دین ھے .پر اسے صوفیه نے بازیچه اطفال بنا دیا.
جو تصوف کو  شیعه سے جوڑنا چاھتے ھیں وه سچ بیان نھیں کرتے تصوف دوسری صدی ھجری کے نصف اول میں شروع ھوا اور اھلسنت ھی کی صفوں سے نمودار ھوا تھا.
پھر آھسته آھسته اس میں الحاد,شعبده بازی,اور اسلام کے بنیادی عقائد سے انحراف شامل ھو گیا.

                        (جاری ھے)

کرامات اھلبیت علیھم ,صوفیه آور غالی شیعه

کرامات اھلبیت ع و صوفیه

پوسٹ نمبر:11-------------- تحریر : سائیں لوگ

کرامات صوفیه ایک ایسا عنوان ھے جس پر بھت سے مولفین نے کتابیں لکھی ھیں اور صوفیه کی محبت میں ڈوب کر ایسی ایسی باتیں نقل کی ھیں که ان کی کرامات کے سامنے انبیاء ع کے معجزات اھمیت نھیں رکھتے.

اور نه ھی کسی غالی نے بھی اھلبیت ع سے ایسے معجزات بیان کیۓ ھوۓ ھوں سب صوفیه پرست حوالا دیتے ھیں چشم دید گواھی نھیں دے پاتے که فلاں بزرگ یا ولی نے ایسے انوکھی کرامات دکھائیں کچھ شعبده باز صوفی مریدوں کو گمراه بھی شعبده بازی سے کرتے ھوۓ ان کے دلوں پر آپنی فضیلت کی ڈھاک بٹھاتے ھیں.

میرۓ خود زاتی تجربه میں بھی ایسے واقعات گزرۓ ھیں.
کافی عرصه مجھے میرۓ احباب مختلف گندی گالی دینے والے پیروں کے آستانے پر لے کے جاتے رھے ھیں میں بھی تجربه کیلۓ ان کے ساتھ خوشی سے چل پڑتا تھا.

 وھاں جاکر جن مشرکانه افعال کا مشاھده کیا وه میری ھدایت کا سبب بنے.

انبیاء ع نے جو معجزات باامر مجبوری پیش کیۓ وه کلام الھی میں درج ھیں.
ایسے نھیں تھا که جو بھی کافر,مشرک معجزه چاھتا اور انبیاء ع پیش کر دیتے .

سوره بنی اسرائیل میں مشرکین مکه کا یه مطالبه ضرور ھے که آپ مکے کی طبیعی حالت بدل دیں اور پھاڑ ھٹ جائیں یھاں درخت اور نھریں وجود میں آ جائیں.

آپ کیلۓ سونے کا گھر ھو آپ ھمارۓ سامنے آسمان کی جانب پرواز کریں وغیره 
تو آپ ص نے جواب میں یھی کھا تھا که 
سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا.

میرا رب پاک ھے میں تو بس ایک بشر ھوں جسے رسول بنا کر بھیجا گیا ھے.
سوره بنی اسرائیل ع:93..

مگر جھاں سخت ضرورت پڑی آپ ص نے الله پاک کے حضور درخوست کی اور معجزات پیش ھوۓ.
اسی طرح اھلبیت ع نے بھی لوگوں کے سامنے معجزات پیش کیۓ تھے جو شیعه معتبر کتب بشمول یعقوب کلینی رح نے آپنی کتابوں میں رقم کیۓ ھیں.

اھلبیت ع نے جو معجزات دکھاۓ سو دکھاۓ لیکن افسانه طرازیوں غالیوں نے صحیح معجزات کے پهلو به پهلو سینکڑوں غلط معجزات تراش لیۓ اور اھلبیت ع کی طرف منسوب کر دیۓ.

اس نظریه سے تشیع پر کاری ضرب لگائی گئی اور نه ھی اھلبیت ع کے ساتھ بھلائی کی ھے.
اور دشمنان تشیع و اھلبیت ع کو بھت کچھ کھنے کے مواقع فراھم کیۓ ھیں.
اور شیعت کا مذاق آڑایا ھے.

یه بھی حقیقت ھے یه روایات زیاده تر غالی اور کازب راویوں سے منسوب ھیں.
ایسی بھت سی روایات اھلبیت ع کے دور میں بھی شروع ھو گئیں تھیں.
اور اھلبیت ع نے آپنے حقیقی ماننے والوں ثقه ساتھیوں کو ھوشیار کر دیا اور ان کازب لوگوں سے دور رھنے کی نصیت کی.
اور بیزاری کا اعلان کیا.

اس موضوع پر اھل تشیع کے نامور عالم سید ھاشم معروف الحسنی کی کتاب "الموضاعات" کا مطالعه کریں.

مختصر گزارش یه ھے که اھلبیت ع خدا کی قدرت سے معجزات دکھاۓ اور جھاں حالات کا تقاضه ھوتا الله تعالی سے دعاء کرتے اور خدا ان کے ھاتھوں پر ھی معجزات ظاھر کر دیتے.

دوسرا یه که معجزات و کرامات کا عقیده مذھب تشیع کی ضروریات سے نھیں ھے.
اھلبیت ع کی سوانح حیات پڑھنے والا شخص جانتا ھے که وه آپنے دور کے عظیم اور ممتاز ترین افراد تھے.

مگر افسوس ھے دشمنان شیعت نے اھلبیت ع کے معجزات و کرامات کو صوفیه کے کرامات سے جوڑنے کی کوشش کی ھے.
جیسے ڈاکٹر شیبی نے شیعت سے اور قیشری نے کرامات صوفیه کو انبیاء ع سے جوڑا ھے.
مذید رساله قیشری ص:664,کا مطالعه کریں.

قیشری کھتا ھے معجزه انبیاء ع کا خاصه اور کرامات صوفیه کا خاصه ھیں.

انھوں نے حضرت عمر کا ایک واقعه لکھا که مدینه میں ممبر پر بیٹھے ھوۓ دوران خطبه کھا یا ساریه الجبل الجبل 
ساریه پهاڑ کی طرف دیکھو پوچھا گیا آپ نے بے ربط جملے کیوں کھے فرمایا خطبے کے دوران میری نظر ایرانی لشکر پر پڑی جو پهاڑ کی سمت مسلمانوں کی طرف بڑھ رھا تھا.
مسلمانوں کی فوج کا سالار ساریه اس سے غافل تھا اس لیۓ میں نے آواز دی.
اور اس نے ھزاروں میل دور سے آواز سنی.

اسی زمن میں ڈاکٹر شیبی مولا علی ع پر لکھی کتاب خصائص امیرالمومینین ع کے حوالے سے لکھا که یهی عقیده شیعه رکھتے ھیں ایک مرتبه کسی مجبوری کی وجه سے آپکی نماز قضا ھو گئی تو آپ نے اسم آعظم پڑھا اور سورج ظھر کے مقام پر پلٹ آیا.

حالنکه اس طرح کا واقعه حضرت موسی ع کے جانشین و وصی یوشع بن نون کے ساتھ پیش آیا تھا.

یه سچ ھے که شیعه علماء نے یه روایت کثرت سے نقل کی ھے مگر امام علی کی فضیلت اس کرامت کی محتاج نھیں اور نه ھی تصوف کا سر چشمه ولایت آئمه قرار پا سکتی ھے.

اب ڈاکٹر شیبی اسے حضرت موسی ع کے وصی کی طرف منسوب کرتے ھیں مگر اھلسنت کی اکثریت اسے رسول الله ص سے منسوب کرتے ھیں جبکه شیعه امام علی ع کی طرف.

مگر افسوس ھے کافی اھلسنت مولفین نے رد شمس کے کئی واقعات لکھے ھیں جیسے حضرت ابوبکر کیلۓ سورج لوٹ آیا.عمر کیلۓ اور کئی صوفیه و شیوخ کیلء بھی روایات ھیں.
ایک بات واضح ھے که شیعه مذھب محتاج معجزات نھیں .

جبکه صوفیه کیلۓ کرامات پر ایمان رکھنا لازم ھے اور کرامات بھی ایسی که انبیاء و اھلبیت ع بھی نه دکھا سکے جو صوفیه نے دکھائیں.

وه اس لیۓ که صوفی الله سے براه راست فیض لیتے ھیں وحی کا چکر نھیں ھوتا خدا سے متحد اور خدا ان میں حلول کر جاتا ھے.

اسی وجه سے ساری کائینات ان صوفیوں کے تصرف میں آ جاتی ھے.
جیسے سراج ,شبلی,بسطامی,غوث آعظم,اور حلاج جیسے صوفی بزرگ .

ان صوفیه کی انوکھی کرامات کی تفصیل اگلی پوسٹ میں ملحاظه فرمائیں.

                       (جاری ھے)

تصوف اور نظریه حلول کفر و شرک پر عقیده

تصوف ایک باطل عقیده ھے

                    "قسط نمبر:10.            تحریر:  "سائیں لوگ

پوری کائینات کا علم اور لوح محفوظ کا مطالعه کرنے والے صوفیه اس لفظ کے اشتقاق پر اختلاف رکھتے ھیں اور درست مفھوم نھیں جان پاۓ

                           قسط نمبر:10

 بعض کے مطابق صحابہ میں سے جو لوگ اہلِ صفہ کہلاتے تھے، یہ ان کی طرف منسوب ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا ماخذ صفا ہے.
 بعض کے نزدیک صف، لیکن قاعدہ اشتقاق کی رو سے یہ تینوں باتیں غلط ہیں۔ شبلی کہتے ہیں تصوف صوف سے ماخوذ ھے.
 جس کے معنی پشمینہ کے ہیں.

لیکن پشمینی پوش ہونا اس فرقے کی کوئی خصوصیت نہیں۔ علی ہجویری کی رائے ان سب سے مختلف ہے.
 ان کی تحقیق کے مطابق لباس صوف، اہلِ تصوف کا امتیازی نشان تھا۔ اس سلسلے میں وہ مشہور اصحاب رسول کا ذکر کر کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ سب لباس صوف کو محبوب رکھتے تھے.

 شیخ سہروردی بھی اسی خیال کی تاکید کرتے ہوئے حسن بصری کا قول پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ستر اہلِ صفا کو دیکھا تھا (گویا وہ صوفی تھے) جن کی پوشاک صوف تھی.

پھر کشف المحجوب میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ ہمیشہ صالحین اور زہاد اور متقین اور عباد کو صوف کا ہی لباس مرغوب اور مطبوع رہا ہے.
اس کے یہ معنی ہوئے کہ گر عہدِ نبوی کے عزلت نشیں اور زہد پسند بزرگوں کو اولین صوفیاء میں تسلیم کر لیا جائے تو تصوف آسانی کے ساتھ صوف سے مشتق قرار دیا جا سکتا ہے.

مشترقانِ یورپ نے بھی زیادہ تر اسی نظریہ کی حمایت کی ہے.
لیکن تصوف کا لفظ اصل میں ‘سین’ سے تھا۔ جس کا مادہ سوف تھا۔ جس کے معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں.
 دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کا ترجمہ ہوا تو یہ لفظ عربی زبان میں آیا۔

اور چونکہ حضراتِ صوفیا میں اشراقی حکماء (اشراقیت جدید neo-platonism کے صوفیاء) کا انداز پایا جاتا تھا.

 اس لئے لوگوں نے ان کو سوفی یعنی حکیم کہنا شروع کر دیا.
 رفتہ رفتہ سوفی سے صوفی ہو گیا.

 مرکس (merx) کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ لفظ یونانی (sogos) سے پیدا ہوا ہے.
یعنی سوف سے صوف ہوا۔ پھر بعد میں صوفہ ہو گیا۔ علامہ ابو ریحان البیرونی نے اس بات کی تائید کی.
ڈاکٹر نکلسن نے بھی تصوف کو صوف سے مشتق قرار دیا ہے۔ اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایران میں صوفی کو پشمینہ پوش بھی کہتے ہیں اور یہ محض صوف کی رعایت ھے.
100/سو ہجری تک لباسِ صوف کو اسی بنا پر مذہبی عیسوی کا نشان سمجھ کر عرب میں سخت ناپسند کیا گیا. لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں ‘تصوف’ اور ‘صوفی’ اشراقیت جدید سے متاثر ہو کر وارد ہوئے،

 جس بنا پر پہلے پہل صوفی اور تصوف کو عالمِ اسلام میں سخت نا پسند کیا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ انہیں قبول
 کر لیا گیا.

تصوف کو ایک روحانی اور وجدانی مسلک کی صورت میں پھیلانے کی کامیاب کوشش کی گئی.
 اسلام کا تصوف اسلام کا اپنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس تصوف کو اسلامی کرنے میں غزالی جیسے علماء کا ہاتھ ہے.

جنہوں نے عقلیت پسندی کا راستہ مثالیت پسندی سے روکنا چاہا، اور اس میں کامیاب بھی رھے.

تصوف میں عجیب و غریب قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں، مثلاً اکثر صوفیا نظریہ حلول کے قائل ہیں، کے کائنات میں رواں دواں ایک سرمدی ہستی ان میں حلول کر گئی ہے.

 چنانچہ اب کائنات امور وہ سرمدی ہستی انہی میں بیٹھ کر سر انجام دے رہی ہے. یعنی وہ خود کو خدا بتاتے ہیں.

 وہ سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کوئی آسمانی شے ان میں ہمہ وقت موجود رہتی ھے.
خدا ان کے جسم میں تشریف فرما ہے.

 مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی گدھے کا تصور کرے، دن رات گدھے کے مقدس خیال میں ڈوبا رہے، تو کیا وہ گدھا ہو گیا؟ یقیناً نہیں۔ پھر ان تصوف کے نمائندوں کا کہنا ہے کے انہیں کُل کائناتی امور کا بدرجہ اتم علم ہے.
 کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا علم ان کے اندر سما گیا ہے، ہستیِ مطلق نے انہیں کل کائنات کے ہر قسم کے علم کی کنجی تھما دی ہے، اور وہ علم کیا ہے؟ لاتعداد عجیب و غریب واقعات، بے سروپا باتیں، علامات، فرشتوں اور خدا سے ہمکلامی، ملاقات، ولیوں سے شبِ وصل،

 پیغمبروں کی غائبانہ محافل میں دو زانو ہو کر ‘تعلیم’ حاصل کرنا، غرض جنہیں عقل بے ہنگم باتیں قرار دے دے.

 اس پر طرہ یہ کے اس ‘علم’ کو خواص تک محدود رکھا جائے۔ عام نہ کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ.

جس طرح تصوف کی تعریف ناقابلِ یقین ہے، اسی طرح اس کی وجہ تسمیہ بھی اختلافِ خیال کا مرکز بنی ہوئی ہے.
ڈیوڈ  بیریٹ کہتے ہیں:

‘تصوف باطنی اسلام ہے لیکن حقیقت میں اس سے زیادہ کچھ ہے.
صوفیوں نے راسخ العقیدہ مسلمانوں میں احترام اور خوف کا ایک غیر راحت بخش جذبہ پیدا کیا.

صوفی کے لفظ کا مطلب عربی زبان میں ‘صوف نامی کھردرا کپڑا پہننے والا’ بنتا ہے۔۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی مرتض اور باطن پرست بھی کھردرا اونی چغہ پہنا کرتے تھے.

عربی کے ‘صفا’ یعنی پاکیزگی کے ساتھ بھی لفظ صوفی کا تعلق ہوگا.
عبرانی میں ‘عین صوف’ کا مطلب ھے اختتام’ ھے جو ناقابلِ معلوم خدا کیلیے اقبالی اصطلاح تھی.

 قرآن کی صوفی تفسیر باطنی اور تشبیہاتی ھے.
 صوفیا نے تمام چیزوں سے برتر خدا کے شخصی و انفرادی وصال کی خواہش کے ذریعے خود کو رسمی اسلام کی درجہ بندیوں کے کنٹرول سے ماوراء کر لیا.              
                 (جاری ھے)

صوفیه,غالی تشیع اور دجالی عیسائیت میں گھری مماثلت

غالی صوفیه اور دجالی عیسائیت


قسط نمبر :9.         تحریر : سائیں لوگ

ڈاکٹر  زکی مبارک آپنی کتاب,
 التوف الاسلامی فی الادب والاخلاق
میں لکھتے ھیں که غالی صوفیه کے ھاں "حقیقت محمدیه" کا جو نظریه پیش کیا گیا ھے وه نصرانیت کے اصول سے ماخوز ھے .

نصرانی حضرت عیسی ع کو ابن الله مانتے ھیں اور اس سے مراد یه ھے که وه خدا اور وجود کے درمیان واسطه ھیں .

میں برسوں کی سوچ بچار کے بعد اس نتیجه پر پهنچا ھوں که صوفیه نے  آپنے تئیں یه کوشش کی تھی که حضرت عیسی ع کیلۓ عیسائیوں نے جو اعزاز تراشا تھا وه اس اعزاز کو حضرت عیسی ع سے لے کر حضرت رسول خدا ص کو دیدیں جب عیسائیوں نے حضرت عیسی ع کو یه اعزاز دیا ھے تو رسول خدا ص کو اس اعزاز سے کیوں محروم رکھا جاۓ حالنکه آپ ص حضرت عیسی سے افضل ھیں,

اس اعزاز پر ھم پوسٹ نمبر :8 میں مختصرا وضاحت پیش کر چکے ھیں.

چنانچه صوفیه نے یه عقیده آپنایا که رسول خدا ص ھر چیز پر قادر ھیں اور آپکی زات اصل وجود ھے.

اگر آپ نه ھوتے تو کائینات میں کچھ بھی نه ھوتا.
یه روایت سلمان بن عساکر سے مروی ھے.
لوامع انوار الکوکب الدری جلد:1,ص:15.
الخصائص الکبری جلد:1ص:7.
کنزالعمال حدیث نمبر:32025.
الانوار نعمانیی جلد:1,ص243.

اب شیعه عالم علامه محمد حسن جعفری جس نے تصوف اور تشیع میں فرق ,
کتاب کا ترجمه کیا ھے وه لکھتے ھیں حدیث لولاک اس کا متن اور حوالاجات ملتے ھیں .
مگر اسکی اسناد حدیث رجال کے علماء کی تحقیق سے دستیاب نھیں ھو سکی اس بات سے علامه عسکری اور شیخ معتصم سید احمد سوڈانی بھی متفق ھیں.بلکه نھج البلاغه میں عظمت اھلبیت ع کے خطبات میں بھی یه بات پڑھنے کو نھیں ملی.

اس سے معلوم ھوتا ھے که یه نظریه حقیقت محمدیه ص صوفیه کا خود ساخته پرداخته اور عیسائی نظریه کا چربه  ھے .
صفئیوں نے یه نظریه فلاسفه یونان سے لیا تھا.

جنھوں نے قوتوں کو عقول میں تقسیم کیا تھا ظاھری طور پر یه بات قرین قیاس دکھائی نھیں دیتی که صوفیه یونانی فلاسفے سے متاثر ھوۓ ھوں .
لیکن جس کسی نے بھی فلسفیانه افکار کا مطالعه کیا ھے اس کیلۓ اس میں کوئی اچنبا نھیں پایا جاتا.

صوفیه میں یونانیوں اور مصریوں کے کچھ ادھام دانسته یا نا دانسته داخل ھو گۓ ھیں.

اھل یونان یه خیال کرتے ھیں که ھر وقت کا علیحیده علیحده دیوتا ھے اور مصری بت پرستوں کا  اعتقاد تھا که سورج کو ایک دیوتا  یا ایک فرشتے نے اٹھا رکھا ھے اور وه اسے مشرق سے مغرب کی طرف دھکیلتا ھے.
 یهی مصری عقیده تصوف میں بھی پایا جاتا ھے صوفیه کھتے ھیں اولیاء اور صوفیه کی کبھی کبھی سورج پر ڈیوٹی لگا دی جاتی ھے.اور وه اسے کھینچتے رھتے ھیں.

طبقه غلات شیعوں اور صوفیوں دونوں میں پایا جاتا ھے اور باطنی امور ان دونوں کے ملتے جلتے ھیں.

جیسے ڈاکٹر شیبی نے غلو کے پس منظر میں جو علل و اسباب لکھے ھیں ان میں یه واقعه بھی لکھا که پاک نبی ص کے وصال پر حضرت عمر نے بھی غلو کیا اور تلوار لے کر باھر آ گۓ اور کھا جس نے بھی وصال پیغمبر ص کا کھا اس کی گردن اڑا دی جاۓ گی.
 کیونکه آنحضرت عام انسانوں کی طرح نھیں ان پر عام افراد کی طرح موت واقع نھیں ھو سکتی.

یه کیفیت دیکھ کر حضرت ابو بکر نے انھیں سمجھایا اور قرآن کی ایک آیت پڑھی کل نفس زائقةالموت پھر انھیں جا کر کھیں تسلی ھوئی.

حضرت عمر کے اس غالیانه رویۓ سے بعد میں مسلمانوں میں یه رویه عام ھو گیا اور ھر طرف سے معجزات پر کتابیں لکھیں گئیں جن میں یه بتایا گیا که سنگریزۓ آپکے ھاتھ پر تسبیح اور درخت آپ ص سے کلام کرتے تھے.
جھاں تک که ڈاکٹر شیبی خود تسلیم کرتے ھیں.

جھاں تک ھماری تحقیق ھے که امام علی ع اور اولاد علی ع کے متعلق غلو بعد میں شروع ھوا غلو کی شروعات امام علی ع کے مخالفین سے ھوئیں.

جیسے جب جنگ جمل میں حضرت عائشه جس اونٹنی پر سوار ھو کر آئیں تو قبیله ضبه اور قبیله ازد کے لوگ جو حفاظت پر مامور تھے .اور اونٹ کے چاروں طرف حصار بناۓ ھوۓ تھے .
وه اس اونٹ کی مینگنیاں اٹھا اٹھا کر کھتے که کتنی اچھی خوشبو ھے مشک سے بھی زیاده خوشبودار.

جب امام علی ع کے حامیوں نے مخالفین کے اس غلو عمل کو دیکھا تو وه بھلا کیسے پیچھے ره سکتے تھے.
 جبکه مولا علی ع کے حق میں بے شمار مناقب و فضائل بھی تھے چنانچه انھوں نے بھی ان مقدس ھستیوں کی شان میں غلو کرنا شروع کر دیا.

اگر تاریخی حقیقت دیکھی جاۓ تو غالی شیعه بھی برملا امیر شام معاویه ملعون کو کافر اور حضرت عثمان و دیگر منافقوں پر لعنت کرتے ھیں جو موحول کو خراب اور قتل غارت کی طرف لے جاتے ھیں.

بعد میں حضرت مختار ثقفی کے رویۓ سے ان افکار کو فروغ ملا تو کوفیوں نے آئمه اھلبیت ع کو علیحده روح کا حامل ,علم الدنی کا مالک اور صفات الھیه سے متصف قرار دیا.
پھر محمد بن حنفیه رض اور ان کے بعد ان کے فرزند ابو ھاشم آۓ تو انھوں نے علم مخفی سے آئمه اھلبیت ع کو متصف قرار دیا.
انھیں عقائد کی وجه سے حضرت زید  بن امام زین العابدین ع اور محمد بن حنفیه میں اختلاف ھوا.

اور کھا ھر ظاھر کا کچھ نا کچھ  باطن ھوتا ھے .
ابو ھاشم کے بعد محمد بن علی بن عبدالله بن عباس کی ولی عھدی کے بعد منظم غلو کا آغاز ھوا.
                            (جاری ھے)

کیا بعض صوفی شیعه تھے.....

:کیا بعض صوفیه شیعه تھے

                 قسط نمبر:8.         تحریر : سائیں لوگ

اھلسنت کے مشھور مورخ اور بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر کامل مصطفی شیبی جنھوں نے آپنی 
کتاب" الصلة بین التصوف والتشیع "میں
 یه الزام لگایا,

 که تصوف شیعه مذھب کی پیداوار ھے مگر ان کی اس کوشش کو مذھب شیعه کے بلند پایه عالم سید ھاشم معروف الحسنی (لبنان)
نے تار و پود بکھیر کے رکھ دیا.

 پروفیسر شیبی نے حسن بصری کو امام علی ع اور معروف کرخی کو امام رضا ع کے ھاتھوں مسلمان اور باطنی تعلیم دینے کا استاد مانا ھے کیونکه کرخی پهلے مجوسی یا عیسائی المذھب تھا.

صوفی کھتے ھیں معروف کرخی کرامات کے بزرگ تھے اور یه تمام کرامات امام رضا ع کی برکت سے نصیب ھوئیں.

ڈاکٹر شیبی کے علاوه علامه سلمی نے طبقات صوفیه میں ,شعرانی نے آپنی طبقات اور سید محمود ابوالفیض نے جمھرة الاولیاء میں بھی یهی بات نقل کی ھے که یه فیض امام رضا ع سے حاصل کیا.

مگر معروف کرخی نے 200/ھجری میں وفات پائی اور بغداد میں دفن ھوۓ جبکه اس دوران امام رضا ع آپنے والد کی شھادت کے بعد 200/ھجری تک مدینه میں قیام پذیر رھے.

کسی مصنف نے نھیں لکھا که آپ بغداد آۓ ھوں.
بعض صوفیه با یذید بسطامی کو بھی جنھوں نے شرک و کفر کی تمام حدیں کراس کیں ھیں انھیں امام جعفر صادق سے ملاقات جوڑنے کی کوشش کی ھے تاکه تصوف کو ھر ممکن شیعت سے جوڑا جاۓ .

بسطامی نے 261/ھجری میں وفات پائی تیس سال سفر کیا 103/مشائخ کی خدمت کی ,
مگر 148/ھجری میں امام جعفر صادق ع وفات پا گۓ تھے.
احمد محمود صبحی کی کتاب نظریة الامامة.
بسطامی کی عمر 120/سال تھی ساری زندگی چاک و چوبند رھے اگر دیکھا جاۓ تو سات سال بنتے ھیں اس عمر میں ایک بچه کتنا شعور مند ھوتا ھے اور کتنا فیض یاب ھو سکتا دوسرا بسطامی کا ھر دعوی توحید کے رد اور شرکیه ھے.
زوالنون مصری صوفیه کا اسماعیلی فرقه کے چند لوگوں سے اٹھنا بیٹھنا تھا اسے بھی شیعه ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ھے.یه ماھر کیمیا تھا.

جابر بن حیان بھی امام جعفر صادق ع کا شاگرد تھا اور وه شیعه تھا لھذا زوالنون بھی ماھر کیمیا تھا لھذا وه بھی شیعه ھوا
ان لوگوں نے ھر ممکن تصوف کو جھوٹ پر شیعه سے جوڑنے کی سر توڑ کوشش کی ھے مگر صوفیه کا عقیده اھلبیت ع کے عقیده کے بر خلاف ھے.

حسین بن منصور حلاج جو غالی اسماعیلی تھا اور یه شخص شعبده باز تھا اسے بھی شیعه بنانے کی کوشش کی ھے مگر ان لوگوں کو معلوم ھونا چاھیۓ اسماعیلی غالیوں کو شیعه کافر قرار دیتے ھیں.

یه حلول کا عقیده رکھتا تھا اس نے الوھیت اور مھدویت کا دعوی بھی کیا تھا
حسین بن منصور کا مشھور جمله ھے 
انا الحق لیس فی جبتی غیر الله.
یعنی میں حق ھوں اور میرۓ جبے میں الله کے سوا کچھ نھیں.

حلاج نے یه بھی دعوی کیا که میں نے آپنے رب کو آپنی رب کی نگاه سے دیکھا تو میں نے پوچھا تو کون ھے اس نے کھا میں تو ھی ھوں.

حلاج نے کھا تھا که میں نے ھی عاد و ثمود کو ھلاک کیا جیسے غالی کھتے ھیں که مولا علی ع نے عاد و ثمود کو ھلاک کیا .

مختصر یه که حلاج ,بسطامی وغیره عقیده حلول کے قائل تھے جبکه اھلبیت ع عقیده حلول کو کفر قرار دیتے ھیں.

یھی وجه ھے شیعه علما ء نے اس وقت ان کے عقیده حلول پر کفر کا فتوی دیا تھا.

مذید تفصیل کیلۓ اداره مطبوعه جامع تعلیمات اسلامی کی شائع کرده کتاب سیرت آئمه اھلبیت ع جلد دوم کا مطالعه کریں.جسمیں ان شعبده بازوں کا تفصیلی زکر ھے.

ابن عربی کا عقیده بھی شیعه سے جوڑا جاتا ھے حالنکه یه سراسر بھتان ھے.
شیعه آج بھی ان لوگوں سے نفرت اور مشرک جانتے ھیں.

ان صوفیه کا عقیده تخلیق رسول الله ص  غلو پر ھے ابن عربی کھتا ھے سب سے پهلے روح محمد ص کو مدبر کے طور پر پیدا کیا اسکی حرکات کے نتیجے میں دوسری ارواح پیدا ھوئیں.ان ارواح کا وجود عالم الغیب میں تھا.تمام ارواح نے محمد ص کے آنے کی بشارت دی.

ساتھ الله نے تمام انبیاء پر واضح کیا که وجود محمد ص تم سب سے پهلے کا ھے.
وه سائل بھی خود تھا مسول بھی خود داعی بھی اور مجیب بھی خود تھا.عطاکنده بھی عطا حاصل بھی حقیقت محمدیه کو آپنے فیصلے کی صورت میں پایا.پھر اسے شب غیبت میں سے کھینچ لیا.
پھر دن کی شکل دی پھر اس میں سے چشمے دریا جاری ھوۓ پھر عالم کو برآمد کیا تو وه بارش برسانے والا آسمان بن گیا پھر اس کے نور چشم سے جو متصل تھا ایک ٹکڑا جدا کیا پھر جب وه وه ٹکڑا صورت کے  مقابل آیا تو اس سے حضرت  محمد ص کو پیدا کیا.

ابن عربی نے یه نظریه شیعه مذھب کی معتبر کی کتاب اصول کافی کی ایک حدیث سے لیا اسی لیۓ اسے شیعه مذھب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ھے.

که آسمان  و زمین کی پیدائش سے پهلے پاک نبی ص اور حضرت علی ع کو روح بلا بدن  کی شکل میں پیدا کیا.
پھر دونوں کی روح کو جمع کرکے ایک روح بنا دیا پھر وه روح خدا کی تھلیل و تمجید و تقدیس کرتی رھی پھر اسے تقسیم کیا مذید دو روحیں بنائیں اور وه چار ھوگئیں محمد ص علی ع حسن ع حسین ع پھر الله نے ایک اور نور سے فاطمه زاھر س روح بلا بدن کی صورت میں پیدا کیا پھر اس نے ھمیں آپنے دائیں ھاتھ سے مس کیا تو نور چمکنے لگا.

 ڈاکٹر شیبی کھتا ھے اس طرح ابن عربی,کلینی ,اور جیلی کا نظریه یکساں ھے لھذا شیعه اور صوفیه کا عقیده مشترک ھے که نفس محمد ص غیر فانی ھے بلکه غالی شیعوں میں یه نظریه بھی ھے که آئمه اھلبیت ع بھی غیر فانی ھیں یه غالیوں کا اھم عقیده ھے.

حالنکه غالی شیعه اور غالی صوفیه نے حقیقت محمدیه کا جو عقیده پیش کیا ھے.یه اصول اسلام سے متصادم ھے اور اصول دین کے ساتھ عقائد اسلامی کو مسخ کرتا ھے.

یه شیعه اثناۓ عشریه کا نھیں نصیریوں کا عقیده ھے.

کیونکه قرآن نے بڑی وضاحت سے واضح کیا ھے که پیغمبر اسلام ص بھی دوسرۓ انسانوں کی طرح ایک افضل انسان ھیں کھاتے پیتے اور بازار بھی جاتے ھیں.

خدا نے بنی نوح انسان میں سے انتخاب کیا اور انھیں ھر طرح کی ناپاکی سے دور رکھا اور آپنی رسالت عظمی کی تبلیخ کی زمه داری سونپی.

سوره آل عمران ع:144,

سوره کھف ع:110

سوره ق ع:2

سوره جمعه ع:2,

سوره بنی اسرائیل ع:93.

ابن عربی اور پیرو عبدالکریم جیلی کا عقیده ان آیات کے مفھوم سے متصادم ھے.
اور کلینی رح کی حدیث کو درست نھیں سمجھا گیا.
                         (جاری ھے)
:کیا بعض صوفیه شیعه تھے

                
قسط نمبر:8.    تحریر:  "سائیں لوگ

اھلسنت کے مشھور مورخ اور بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر کامل مصطفی شیبی جنھوں نے آپنی 
کتاب" الصلة بین التصوف والتشیع "میں
 یه الزام لگایا,

 که تصوف شیعه مذھب کی پیداوار ھے مگر ان کی اس کوشش کو مذھب شیعه کے بلند پایه عالم سید ھاشم معروف الحسنی (لبنان)
نے تار و پود بکھیر کے رکھ دیا.

 پروفیسر شیبی نے حسن بصری کو امام علی ع اور معروف کرخی کو امام رضا ع کے ھاتھوں مسلمان اور باطنی تعلیم دینے کا استاد مانا ھے کیونکه کرخی پهلے مجوسی یا عیسائی المذھب تھا.

صوفی کھتے ھیں معروف کرخی کرامات کے بزرگ تھے اور یه تمام کرامات امام رضا ع کی برکت سے نصیب ھوئیں.

ڈاکٹر شیبی کے علاوه علامه سلمی نے طبقات صوفیه میں ,شعرانی نے آپنی طبقات اور سید محمود ابوالفیض نے جمھرة الاولیاء میں بھی یهی بات نقل کی ھے که یه فیض امام رضا ع سے حاصل کیا.

مگر معروف کرخی نے 200/ھجری میں وفات پائی اور بغداد میں دفن ھوۓ جبکه اس دوران امام رضا ع آپنے والد کی شھادت کے بعد 200/ھجری تک مدینه میں قیام پذیر رھے.

کسی مصنف نے نھیں لکھا که آپ بغداد آۓ ھوں.
بعض صوفیه با یذید بسطامی کو بھی جنھوں نے شرک و کفر کی تمام حدیں کراس کیں ھیں انھیں امام جعفر صادق سے ملاقات جوڑنے کی کوشش کی ھے تاکه تصوف کو ھر ممکن شیعت سے جوڑا جاۓ .

بسطامی نے 261/ھجری میں وفات پائی تیس سال سفر کیا 103/مشائخ کی خدمت کی ,
مگر 148/ھجری میں امام جعفر صادق ع وفات پا گۓ تھے.
احمد محمود صبحی کی کتاب نظریة الامامة.
بسطامی کی عمر 120/سال تھی ساری زندگی چاک و چوبند رھے اگر دیکھا جاۓ تو سات سال بنتے ھیں اس عمر میں ایک بچه کتنا شعور مند ھوتا ھے اور کتنا فیض یاب ھو سکتا دوسرا بسطامی کا ھر دعوی توحید کے رد اور شرکیه ھے.
زوالنون مصری صوفیه کا اسماعیلی فرقه کے چند لوگوں سے اٹھنا بیٹھنا تھا اسے بھی شیعه ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ھے.یه ماھر کیمیا تھا.

جابر بن حیان بھی امام جعفر صادق ع کا شاگرد تھا اور وه شیعه تھا لھذا زوالنون بھی ماھر کیمیا تھا لھذا وه بھی شیعه ھوا
ان لوگوں نے ھر ممکن تصوف کو جھوٹ پر شیعه سے جوڑنے کی سر توڑ کوشش کی ھے مگر صوفیه کا عقیده اھلبیت ع کے عقیده کے بر خلاف ھے.

حسین بن منصور حلاج جو غالی اسماعیلی تھا اور یه شخص شعبده باز تھا اسے بھی شیعه بنانے کی کوشش کی ھے مگر ان لوگوں کو معلوم ھونا چاھیۓ اسماعیلی غالیوں کو شیعه کافر قرار دیتے ھیں.

یه حلول کا عقیده رکھتا تھا اس نے الوھیت اور مھدویت کا دعوی بھی کیا تھا
حسین بن منصور کا مشھور جمله ھے 
انا الحق لیس فی جبتی غیر الله.
یعنی میں حق ھوں اور میرۓ جبے میں الله کے سوا کچھ نھیں.

حلاج نے یه بھی دعوی کیا که میں نے آپنے رب کو آپنی رب کی نگاه سے دیکھا تو میں نے پوچھا تو کون ھے اس نے کھا میں تو ھی ھوں.

حلاج نے کھا تھا که میں نے ھی عاد و ثمود کو ھلاک کیا جیسے غالی کھتے ھیں که مولا علی ع نے عاد و ثمود کو ھلاک کیا .

مختصر یه که حلاج ,بسطامی وغیره عقیده حلول کے قائل تھے جبکه اھلبیت ع عقیده حلول کو کفر قرار دیتے ھیں.

یھی وجه ھے شیعه علما ء نے اس وقت ان کے عقیده حلول پر کفر کا فتوی دیا تھا.

مذید تفصیل کیلۓ اداره مطبوعه جامع تعلیمات اسلامی کی شائع کرده کتاب سیرت آئمه اھلبیت ع جلد دوم کا مطالعه کریں.جسمیں ان شعبده بازوں کا تفصیلی زکر ھے.

ابن عربی کا عقیده بھی شیعه سے جوڑا جاتا ھے حالنکه یه سراسر بھتان ھے.
شیعه آج بھی ان لوگوں سے نفرت اور مشرک جانتے ھیں.

ان صوفیه کا عقیده تخلیق رسول الله ص  غلو پر ھے ابن عربی کھتا ھے سب سے پهلے روح محمد ص کو مدبر کے طور پر پیدا کیا اسکی حرکات کے نتیجے میں دوسری ارواح پیدا ھوئیں.ان ارواح کا وجود عالم الغیب میں تھا.تمام ارواح نے محمد ص کے آنے کی بشارت دی.

ساتھ الله نے تمام انبیاء پر واضح کیا که وجود محمد ص تم سب سے پهلے کا ھے.
وه سائل بھی خود تھا مسول بھی خود داعی بھی اور مجیب بھی خود تھا.عطاکنده بھی عطا حاصل بھی حقیقت محمدیه کو آپنے فیصلے کی صورت میں پایا.پھر اسے شب غیبت میں سے کھینچ لیا.
پھر دن کی شکل دی پھر اس میں سے چشمے دریا جاری ھوۓ پھر عالم کو برآمد کیا تو وه بارش برسانے والا آسمان بن گیا پھر اس کے نور چشم سے جو متصل تھا ایک ٹکڑا جدا کیا پھر جب وه وه ٹکڑا صورت کے  مقابل آیا تو اس سے حضرت  محمد ص کو پیدا کیا.

ابن عربی نے یه نظریه شیعه مذھب کی معتبر کی کتاب اصول کافی کی ایک حدیث سے لیا اسی لیۓ اسے شیعه مذھب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ھے.

که آسمان  و زمین کی پیدائش سے پهلے پاک نبی ص اور حضرت علی ع کو روح بلا بدن  کی شکل میں پیدا کیا.
پھر دونوں کی روح کو جمع کرکے ایک روح بنا دیا پھر وه روح خدا کی تھلیل و تمجید و تقدیس کرتی رھی پھر اسے تقسیم کیا مذید دو روحیں بنائیں اور وه چار ھوگئیں محمد ص علی ع حسن ع حسین ع پھر الله نے ایک اور نور سے فاطمه زاھر س روح بلا بدن کی صورت میں پیدا کیا پھر اس نے ھمیں آپنے دائیں ھاتھ سے مس کیا تو نور چمکنے لگا.

 ڈاکٹر شیبی کھتا ھے اس طرح ابن عربی,کلینی ,اور جیلی کا نظریه یکساں ھے لھذا شیعه اور صوفیه کا عقیده مشترک ھے که نفس محمد ص غیر فانی ھے بلکه غالی شیعوں میں یه نظریه بھی ھے که آئمه اھلبیت ع بھی غیر فانی ھیں یه غالیوں کا اھم عقیده ھے.

حالنکه غالی شیعه اور غالی صوفیه نے حقیقت محمدیه کا جو عقیده پیش کیا ھے.یه اصول اسلام سے متصادم ھے اور اصول دین کے ساتھ عقائد اسلامی کو مسخ کرتا ھے.

یه شیعه اثناۓ عشریه کا نھیں نصیریوں کا عقیده ھے.

کیونکه قرآن نے بڑی وضاحت سے واضح کیا ھے که پیغمبر اسلام ص بھی دوسرۓ انسانوں کی طرح ایک افضل انسان ھیں کھاتے پیتے اور بازار بھی جاتے ھیں.

خدا نے بنی نوح انسان میں سے انتخاب کیا اور انھیں ھر طرح کی ناپاکی سے دور رکھا اور آپنی رسالت عظمی کی تبلیخ کی زمه داری سونپی.

سوره آل عمران ع:144,

سوره کھف ع:110

سوره ق ع:2

سوره جمعه ع:2,

سوره بنی اسرائیل ع:93.

ابن عربی اور پیرو عبدالکریم جیلی کا عقیده ان آیات کے مفھوم سے متصادم ھے.
اور کلینی رح کی حدیث کو درست نھیں سمجھا گیا.
                         (جاری ھے)

تصوف آور مذھب تشیع

تصوف اور مذھب شیعه

                            قسط نمبر:7.           تحریر : سائیں لوگ


صوفیه کی تعلیمات کا اگر بغور مطالعه کرتے ھیں تو ان کے قیاسی خیالات قرآن پاک کی تعلیمات کے خلاف ھیں.

ترجمه یعنی قیامت کے دن متقیوں کو جمع کرکے رحمن کی بارگاه میں احترام کے ساتھ لے جایا جاۓ گا.
سوره مریم ع:85.

اس کے متعلق صوفیه کھتے ھیں که یه اجسام کا مشھور ھونا مراد نھیں کیونکه اجسام کی حقیقت مٹھی بھر خاک سے زیاده نھیں ھے.
ساتھ یه بھی فرماتے ھیں ارواح بھی مراد نھیں کیونکه متقین کی ارواح پهلے ھی بارگاه احدیت میں موجود ھیں اگر یه سب سمجھ لیں تو پھر آیت کا مفھوم کیا ھے.

صوفی بایذید بسطامی کھا کرتے تھے که جنت صرف دھوکه ھے حقیقت نھیں کیونکه وه کھتے ھیں میں نے شجر احدیت کا طواف کرچکا ھوں وھاں کچھ بھی نھیں تھا.

بعض صوفیه کھتے ھیں یه صرف لالچ ھے جس طرح بڑۓ بچوں کو لالچ دیا کرتے ھیں.
جبکه بڑوں کا بچوں کو وه چیز دینے کا اراده نھیں ھوتا.

خدا نے متقین کو جنت کا لالچ دیا ھے حقیقت کچھ بھی نھیں.

اب بات یه ھے که ڈاکٹر شیبی ابن خلدون,ڈاکٹر صبحی و دیگر ھم خیال  نے تمام مذاھب کی برائیاں شیعوں سے منسوب کرنے کی کوشش کی.
 حالنکه علی ع اور اولاد علی ع میں ان صوفیوں جیسی کوئی ایک خرافت بھی عقائد کے لحاظ سے نه تھی.

ابن خلدون صوفی حسن بصری کو شیعه رنگ میں دکھاتے ھیں حالنکه حسن بصری اسی(80) سال کی عمر میں 110/ھجری میں وفات پائی .
جبکه مولا علی ع 40/ھجری میں شھید ھوۓ تھے اگر ایک سو دس سال منھا کریں تو حسن بصری 30/ھجری میں پیدا ھوۓ جب علی ع  شھید ھوۓ انکی عمر دس سال بنتی ھے تو دس سال کا بچه کتنی سمجھ بوجھ رکھتا ھے اور مولا علی ع سے کتنا علمی استفاده حاصل کر سکتا ھے.

صوفیه ایک بات یه بھی کرتے ھیں که یه خرقه ولایت حضرت ابراھیم ع سے شروع ھوئی جب آپ ع کو نمرود نے آگ میں ڈالا تھا.
تمام کپڑۓ اتار کر عریاں کر دیا اس وقت حضرت جبرائیل ع جنت کی بنی قمیض لاۓ اور انھوں نے وه قمیض ابراھیم ع کو پهنائی.
حضرت ابراھیم نے وه قمیض اسحاق ع کو پھر یعقوب ع کو میراث ملی اس طرح حضرت یوسف کی گردن میں بطور تعویز گلے میں لٹکائی گئی.
جب بھائیوں نے کنویں میں ڈالا وھی قمیض جبرائیل ع نے یوسف ع کو پهنائی.
صوفیه کھتے ھیں اس میں جنت کی خوشبو تھی.

ابن عربی صوفی یه عقیده رکھتے تھے که  خرقه ولایت حضرت خضر  کے ھاتھوں سے اولیاء کو پهناتے ھیں.
ابن عربی نے آپنے متعلق لکھا ھے که انھوں نے  خرقه ولایت تقی الدین عبدالرحمن بن علی بن میمون بن نورزی سے پهنا تھا.
انھوں نے صدرالدین محمد بن حمویه نے جو که مصر کے شیخ الشیوخ تھے خرقه ولایت پھنایا تھا.
ان کے دادا کو حضرت خضر نے آپنے ھاتھوں سے پهنایا تھا.
بحوالا ابن عربی فتوحات مکیه ص:243.

ابن عربی جو صوفیه بانیوں میں سے ھیں کھتے ھیں جب محفل سماع میں صوفی پر وجد آتا ھے وه خرقه اتار پهینکتے ھیں اسوقت اختیار سلب ھو جاتا ھے  تو احتیار  حاضرین  آپس میں بانٹ لیتے ھیں.

وجد کے دوران خرقه کو پھاڑنا اثر ھے اس میں حق سبحانه کو فضل ھوتا ھے.

جبور عبدالنور کی کتاب

" الصوف عند العرب "

کے حوالے سے لکھا ھے که اس خرقه کا اسلام سے کوئی تعلق نھیں بلکه یه اثر بدھ مت سے لیا گیا ھے .

کیونکه بدھ بھکشو بننے کیلۓ دنیا سے بے رغبتی,افلاس بھری زندگی سر منڈوانا اور زرد خرقه پهننا شرط ھے.

مگر ڈاکٹر شیبی بضد ھے که جھاں تصوف امام علی ع سےمنسوب کرتے ھیں وھاں معروف کرخی کے تصوف کو بھی امام رضا ع سے منسوب کرتے ھیں.
 وھاں صوفی کتب کے حوالے بھی دیۓ ھیں مگر صوفی اور اھلبیت ع کی تعلیمات میں ربط نھیں بلکه یه شیعه دشمنی کا نتیجه ھے .

لھذا تصوف کا مذھب شیعه سے دور تک کا واسطه نھیں ھم آنے والی تحریروں میں یه ثابت کریں گے.
                             (جاری ھے)

بدھ، 26 جون، 2019

تصوف اور اھلبیت علیھم اسلام

تصوف اور اھلبیت ع

                         قسط نمبر :6.    تحریر : سائیں لوگ


ڈاکٹر مصطفی شیبی جو بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر ھیں جنھوں نے تصوف کو شیعت سے نتھی کرنے کی ناکام کوشش کی .
انھوں نے آپنی کتاب الصلة بین التصوف والتشیع میں یه لکھا که صوفیه اھلبیت ع کے ھم مشرب تھے .
چنانچه مشھور صوفی جنید بغدادی کو جو تصوف کے بانیوں میں شمار ھوتے ھیں ان کے خیال که حضرت علی ع جنگوں میں مصروف رھنے کے باوجود بھی ایسے کلمات ارشاد فرماۓ جنھیں لوگ سننے کی طاقت نھیں رکھتے تھے.

 الله تعالی نے انھیں علم,حکمت اور کرامت میں سے وافر حصه عطا فرمایا تھا .

جب حضرت علی ع سے پوچھا گیا که آپ نے خدا کو کیسے پهچانا تو آپ ع نے جواب دیا جب میں نے یه جانا که میں عبد ھوں تو اس سے میں نے اس کے معبود ھونے کو پهچانا اور میں نے جان لیا که وه ایسا معبود ھے که کوئی بھی چیز اس کی مثیل نھیں اور مخلوق کے ساتھ اس کا قیاس نھیں.

جنید بغدادی کے اس اظھار عقیدت پر تصوف کو شیعت سے ڈاکٹر شیبی نے جوڑنے کی کوشش کی.

یه سچ ھے که حضرت علی ع اور اسکی نسل پاک آئمه اھلبیت ع کائینات کے سب سےبڑۓ زاھد تھے لیکن ان کا زھد و اطاعت تقوی صوفیه سے ھٹ کر تھا.

اھلبیت ع کی اطاعت خدا,
 اطاعت  رسول ص کے دائرۓ تک محدود تھی انھوں نے آپنی پوری زندگی غریبوں کی دست گیری کی تھی اور ان کی نظر میں دنیا اس پتے سے بھی زیاده بے وقعت تھی جو کسی ٹڈی کے منه میں ھو اور وه اسے چبا رھی ھو.

اس زھد و اطاعت کے باوجود وه خود بھی رزق حلال کی جستجو کیا کرتے تھے تاکه اس سے وه ضرورت مندوں کی مدد کر سکیں.
آئمه اھلبیت ع ساری زندگی کاھل اور کام چوروں کی مذمت کرتے رھے اور ان کو کام کی ترغیب دیتے رھے.
بلکه رزق حلال کو عبادت قرار دیا مگر صوفیه محنت مشقت کو چھوڑ کر جنگلوں کی طرف بھاگتے ھیں.

کئ صوفیه فرقاقه کو بھی عبادت سمجھتے ھوۓ درختوں کے پتے کھا کر تنھائی میں خلق خدا سے دور ھو کر خدا کو تلاش کرنے  کی کوشش کرتے ھیں.جو سرا سر تعلمیات خداوندی اور معصومین ع کے خلاف ھے.

 جو سراسر سیرت معصومین ع اور تعلیمات خدا کےخلاف ھے.
اگر تنھائی میں جنگلوں میں ره کر خدا کو ڈھونڈھنا ھے تو پھر اس رنگین اور بارونق دنیا کا مقصد فضول ھے.

معصومین ع اچھا کھاتے اور پھنتے تھے جب که صوفیه ایک موٹے کپڑۓ یا جبه میں رھنے کو ترجیح دیتے ھیں.
بلکه چالیس چالیس روز کھانے سے گریز اور کھاتے ھیں تو صرف زنده رھنے کیلۓ,

 عبدالحمن شوستری سے پوچھا گیا آپ کئ کئی کئ دن کھانا نھیں کھاتے وجه ,
جواب دیا الله کا نور میری بھوک مٹا دیتا ھے چالیس روز کے بعد پھر یه صوفیه 72/گھنٹے کی پریکٹس بھی کرتے ھیں. 

پیٹ پر پتھر باندھ کر نعمات خدا وندی سے دور رھتے ھیں جن میں عظمت خدا پوشیدا ھے بلکه سوره رحمان میں سب نعمات خداوندی گنوائیں گئی ھیں .

آئمه اھلبیت ع عورتوں سے نکاح کرتے تھے جبکه صوفیه شادی نه کرکے آپنی جنسی خواھشات کا قتل کرتے ھوۓ الله کے حکم کی عدولی کرتے ھیں .

آئمه ع کسی کے آگے ھاتھ نه پھیلانے والے کو بروز قیامت چودھویں کے چاند کی طرح روشن چھره قرار دیتے ھیں جب صوفیه مریدوں سے نذر نیاز اور ھدیه کے بھانے آستانے پر تاک  لگاۓ بیٹھے رھتے ھیں.

امام علی ع اور دیگر معصومین ع رزق حلال کمانے کو ھرگز معیوب نھیں سمجھتے تھے اور لذت دنیا کو استعمال کرنے کو ممنوع قرار نھیں دیتے تھے.
 البته انھوں نے ھر شخص سے اس بات کا مطالبه ضرور کیا تھا که انسان آپنی انسانیت کے شرف کو برقرار رکھتے ھوۓ دنیا طلب کرۓ مگر انسان کو دنیا طلبی کا آله نھیں بننا چاھیۓ اور نکته نظر یه نه ھو که وه ھر قیمت دولت حاصل کرۓ مگر صوفیه نے جائیدادیں بنائی ھوئی ھیں جتنے بھی مشھور صوفیه یا موجوده گدی نشین ھیں ھزاروں ایکڑ اراضی اور جائدادیں رکھتے ھیں.
موھره شریف,لاثانی سرکار,گولڑه شریف,سلطان باھو,بھاولدین زکریا ملتانی,غلام فرید شکر گنج,وغیره وغیره سب آپنے وقت کے روسا میں سے تھے.

امام علی ع اور آئمه اھلبیت ع نے جو توحید کا تعارف پیش کیا ھے اس میں تصوف کی ھلکی سی بھی تعلیم نھیں جھلکتی آئمه ع کے خطبات توحید صوفیه,غلات,مشبھه اور مجسمه کے عقیده کے بر خلاف ھیں.

جبکه حسین حلاج,شبلی,خطابیه,نصیریه جیسے گمراه فرقوں کے نظریات سے متصادم ھیں.

حضرت علی ع فخر سے کھتے تھے .
انا عبد لمحمد وانا خاصف النعل,
ترجمه:
میں محمد ص کا غلام اور جوتا گانٹھنے والا ھوں.
جبکه صوفی شبلی کھتا تھا میرا مقام شفاعت رسول ص کے مقام شفاعت سے افضل ھے .
امام علی ع نے جس طرح توحید الھی کو بیان کیا وه خطبات توحید نھج البلاغه میں موجود ھیں.
 جبکه صوفیه میں عبدالرحمن سلمی کھتے ھیں خدا کرۓ وه آنکھ اندھی ھو جاۓ جو مجھے دیکھے کیونکه میرۓ اندر غیر معمولی آثار قدرت ھیں.
صوفیه عقیده حلول,اتحاد,تناسخ کے قائل ھیں اور آپنے کو رب اور آپنے نام کے کلمے پڑھاۓ ھیں بلکه صوفیه میں سے یذید بسطامی کھتے تھے آۓ الله پهلے میں تجھے پکارتا تھا اب تو مجھے پکارتا ھے.اب تو میرۓ اندر آپنی صورت دیکھ جبکه پهلے میں تجھ میں آپنی صورت دیکھتا تھا.

صوفیه کے شطحات سے خدا کی وحدانیت اور اس کے اسماء و صفات بھی محفوظ نھیں ھیں.
صوفیه کے مذید کفر اور مشرکانه حقائق جاننے کیلۓ ھم سے جڑۓ رھیۓ.

                          (جاری ھے)

پیر، 24 جون، 2019

تصوف آور تشیع

 :تصوف کی حقیقت

                                    قسط نمبر:5.         تحریر : سائیں لوگ


بدقسمتی سے ھم نے کل اور آج دو پوسٹ تصوف اور اھلبیت ع پر لکھیں مگر دونوں ھی نیٹ کی خرابی کی نذر ھو گئیں.

انشاءالله کل پھر اھلبیت ع اور تصوف پر لکھیں گے آج یه پوسٹ ملحاظه فرمائیں.

دین کا معاملہ یوں ھے کہ جب بهی کوئی چیز بیان ہو گی تو اس کا ماخذ پوچها جائے گا.
ایک عالم آپ کو کہتا ہے نماز فرض ھےآپ پوچهتے ہیں کہاں بیان ہوا کہ فرض ہے…وه آپ کو بتائے گا کہ قرآن میں بیان ہوا..آپ کہتے ہیں قرآن نے توصرف کہا ہے نماز قائم کرو یہ جو آپ نماز بتا رہے ہیں اس کا تو قرآن میں کوئی ذکرنہیں ھے.

وه بتائے گا کہ قرآن محمد مصطفی ﷺ پر اتری اور انہوں نے یہ نماز پڑھ کرسکهائی بهی اور بتائی بهی….آپ پوچهتے ہیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وه ایسی نمازتهی.
وه بتائے گا کہ یہ نماز رسول اللہ ﷺ پڑهاتے تهے…ان کو ہزاروں لوگوں نےپڑهاتے ہوئے دیکها تها .

اور ان کے ساتھ یہ نماز پڑهی تهی…پهر ان لوگوں نے اس نمازکو بالجمیعت نہ صرف امت کو منتقل کیا بلکہ اس کی ایک ایک تفصیل کتابوں میں بهی نقل کر دی……
یہ علم اور دلیل کی دنیا ھے.
 یہ آیت ہے  اس کا مفہوم ھے.
یہ اس کا شان نزول ہے یہ اس کے مخاطبین ہیں..
یہ فلاں حکم ہے اس کا حوالہ قرآن اور محمد رسول اللہ تک پہنچایا جائے گا اور مستند طریقے سے پہنچایا جائے گا تو وه دین قرار پائے گا.

صوفیاء کے یہاں ایسا نہیں ہے….صوفیاء نے جب اپنا فلسفہ کلام مرتب کیا تو اس پر سوال اٹهے….کہ بهئی یہاں تک تو معاملہ ٹهیک تها کہ دین کو اس کےباطن میں دیکهنا چاہیے…بندے کو خدا کے ساتھ ایک تعلق استوار کرنا چاہیے زہد وتقوی کی کوشش کرنی چاہیے…باطنی رزائل سے دور ہونا چاہیے…لیکن یہ جو آپ نے پوراایک فلسفہ بیان کیا کہ صوفیاء کی توحید عوام سے الگ ہے….ان کے نبوت کا کانسیپٹ الگ ہے…ان کا عرش سے براه راست رابطہ ہے…..ان کے پاس لوح محفوظ پڑهنے کی صلاحیتیں ہیں…
یہ آپ نے کہاں سے حاصل کیا؟ تو وه جواب دیتے ہیں.

ابوالقاسم عبدالکریم القشیری اپنی کتاب قشیریہ میں لکهتے ہیں 
اِس راہ کے سالک کو یہ سارا عالم اُس کے اپنے ہی نور سے روشن دکھائی دیتا ہے ، یہاں تک کہ اُس کی کوئی چیز اُس کی نگاہوں سے چھپی نہیں رہتی۔ وہ آسمان سے زمین تک یہ ساری کائنات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے ۔ ہاں ، مگر دل کی آنکھوں کے سامنے .
(ترتیب السلوک 67)
ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہےاُن کے علم کی شان یہ ہوتی ہے کہ اُن میں سے کوئی اگر کسی شخص کا نقش قدم بھی دیکھ لے تو اُسےمعلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اہل جہنم میں سے یا اہل جنت میں سے .

ابن عربی مواقع النجوم” میں لکھتے ہیں…
”صوفیوں میں سے وہ بھی ہیں ، جن کی نگاہیں ہمیشہ لوح محفوظ ہی پر لگی ہوتی ہیں۔ 

شاه ولی اللہ “فیض الحرمین” میں اپنے بارے میں لکهتے ہیں.
‘میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے قائم الزماں کے منصب پر فائزکیا گیا ہے ۔ اِس سے میری مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نظام خیر میں سے کسی چیز کا ارادہ کریں گے تو اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے آلۂ کار مجھے بنائیں گے.

ایک تو دین ہے اور اس کے ماخذ ہیں…اور ایک یہ لطائف فنا و بقا ھیں جو صوفیاء کا ایک مکمل فلسفہ حیات ہے….ان کے بارے میں ان کا استدلال ہے کہ یہ براه راست وہیں سے ہم اخذ کرتے ہیں جہاں سے فرشتے اور انبیاء اخذ کرتے ہیں…ایک تو یہ مکتبہ فکر ہے…ان کی تحاریر پر جب اعتراض ہوتا ہےتو کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے اپنے مشاہدات ہیں جو عوام سے تعلق نہیں رکهتے اور عوام سمجھ بهی نہیں سکتی….
اب اس علم کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچائیں گے تو بات بنے گی…کیسےپہنچاتے ہیں؟صوفی ڈسکورس میں علم تصوف کے سند کا اتصال جسے کم و بیش ہر جگہ نقل کیا گیا هے وه یوں ہے…کہ یہ علم یعنی حقیقت الحقائق تک پہنچنے کا علم رسول اللہ ﷺ سے کیسے منتقل ہوا.

وہ کہتے ہیں یہ علم رسول اللہ ﷺ سے ان کی صحبت کے انوار وبرکات کی وجہ سے صحابہ کرام کو خود بخود منتقل ہوا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اسکے امین ٹھہرے…پهر ان سے خواجہ حسن بصری نے حاصل کیا….
لیکن یہاں محدثین نے اعتراض کیا کہ خواجہ حسن بصری کی تو ان سےملاقات ہی ثابت نہیں ہے….اب کیا کیا جائے؟ یہ سوال قائم رہا حتی کہ تصوف کے آخری بڑے عالم شاه ولی اللہ نے پهر اس کا ایک بالکل دوسرے زاویے سے جواب دیا…
وه اپنی کتاب “الطاف القدس” میں لکهتے ہیں کہ یہ علم سب سے پہلے سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی نے حاصل کیا اور رسول اللہ ﷺ ہی سے حاصل کیا..لیکن کیسے حاصل کیا اس کے لیے وه ایک مثال دیتے ہیں.

وه کہتے ہیں جس طرح خربوزه اپنی نشوونما کے لیے سورج کا محتاج ہوتا ہے اور اپنی نشو ونما کے لیے سورج سے کسب فیض کرتا ہے لیکن اس طرح کہ نہ تو سورج کو پتہ ہوتا ہے کہ وه زمین میں خربوزے کی نشو ونما کر رہا اور نہ ہی خربوزے کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ نشو ونما سورج نے کی ہے….یہ علم جنید بغدادی نے اسی طرح محمد ﷺ رسول اللہ سے حاصل کیا جس طرح خربوزے نے سورج سے فیض حاصل کیا….
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا هے کہ پهر پتہ کیسے چلا کہ یہ علم حاصل ہو گیا…تو شاه صاحب اس کا بهی جواب دیتے ہیں.

وه کہتے ہیں یہی طریقہ ہے جس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے…جب خدا زمین پر اپنا پیغمبر اتارتا ہے تو اس سے دو طرح کے علوم صادر ہوتے ہیں ایک وه علم ہے جو شعوری ہے اور جسے پیغمبر کی شریعت کہا جاتا ہے اور ایک علم وه ہےجو اس کی ذات سے صادر تو ہوتا ہے لیکن اسے نہ خود اس کی خبر ہوتی ہے اور نہ فیضیاب ہونے والے کو…البتہ کائنات میں جو ذکی طبعیتیں ہوتی ہیں وه اس عنایت کو پہچان لیتی ہیں..لیکن یہاں کوئی پیغام و کلام بیچ میں نہیں آتا.

( گویا خود نبیﷺ ذکی طبیعت نہیں ھوتے کہ ان کو خبر نہیں ھوتی کہ ان سے کیا صادر ھو رھا ھے ، نبی سے بھی ذکی طبیعتیں ھو سکتی ھیں . )
یعنی بات یوں ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدور میں یہ آپ کی صحبت ہی سے حاصل ہو جاتا تھا، لیکن آپ کے بعد جب اِس کا حصول لوگوں کے لیے مشکل ہوا تو یہ ارباب تصوف تھے جنھوں نے اپنے اجتہاد سے اِس کے طریقےدریافت کیے ، اور بالآخر ایک فن کی صورت میں اِسے بالکل مرتب کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جسے ہم طریقت کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں.

تصوف آور اسلام

:تصوف اور اسلام 

                              " قسط نمبر :4.       تحریر   "سائیں لوگ


ایک محقق جب بھی تصوف پر بحث کرتا ھے تو اس کیلۓ سب سے پهلی مشکل یه ھوتی ھے که لفظ تصوف کا ماده اشتقاق کیا ھے جس سے یه لفظ وجود میں آیا اور ایک نیا فرقه نمودار ھوا.

 جس نے ابتدائی دور میں وه عقائد و افکار پیش کیۓ جو عامة المسلیمین کے ھاں رائج نھیں تھے.

   “تصوف” درحقیقت“ صوف” سے ہے اور “صوف” کے معنی پشم( اون)  ہیں.

۔یہ ایک ایسا مکتب ہے جس کی بنیاد صوفیوں یا پشمینہ پوشوں نے ڈالی ہے جو معنوی خود سازی اور ظواہر دنیوی سے دوری کا دعوی کرتے ہیں.

 اور پوری تاریخ میں اس طرز تفکر کے گونا گوں فرقے پیدا ھوئے ہیں۔ “ تصوف” کی تعلیمات کو نہ کلی طور پر قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ سو فیصدی مسترد کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی تعلیمات “ صحیح دینی تعلیمات” اور“ غلط سلیقوں کی بدعتوں” پر مشتمل ایک ترکیب ہے.

یہ ترکیب غلط ہے افسوس کہ اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ خود سازی کے مراحل سے گزر کر قرآن مجید کے مطابق صحیح دینی تعلیمات پر عمل کرنے والوں پر، بعض سطحی فکر رکھنے والوں اور ظاہر بینوں کی طرف سے درویش مآبانہ تصوف کا الزام لگایا جاتا ہے.

 لیکن امام خمینی رح  کے بیانات اور اس نظریہ کے بارے میں ان کے موقوف کی تحقیق کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ جس قدر امام خمینی معنوی خودسازی پر تاکید فرماتے ہیں اسی قدر موصوف صوفی نما افراد اور ان کی بدعت پر مشتمل تفکرات کی شدید تنقید کرتے ہیں.

اگر ھم اسکی مکمل تشریح اور صوفیه کی صف بندی پر کھوج لگائیں تو تحریر طول پکڑ جاۓ گی مگر ھم اختصار کا دامن ترک نه کرتے ھوۓ طولانی تحریر جو قاری کیلۓ بوجھ یا پھر نه پڑھنے کی زحمت بن جاتی ھے کوشش کریں گے که جامع اور مختصر لکھا جاۓ.

اگر میں تصوف کی مکمل تشریح بیان کرنا چاھوں تو کئی پوسٹ لکھنی پڑیں گی.
لیکن آپ نے مختصر تشریح میں بھت کچھ سمجھنے کی کوشش کرنی ھے.

لفظ تصوف کے ماده اشتقاق کو تلاش کرنا ایک مشکل معامله ھے اور آج تک صوفیه بھی اسے تلاش کرنے میں کامیاب نھیں ھو سکے.
سیر حاصل تشریح کیلۓ عبدالله بن علی سراج کی اللمع فی تصوف اور علامه ابن جوزی کی "تلبیس ابلیس"کا مطالعه فرمائیں جو بنده نا چیز کے مطالعه سے گزر چکی ھیں.

بعض مولفین اس بات سے اکتفا کرتے ھیں صوفی کا لفظ سب سے پهلے حسن بصری کی زبان سے ادا ھوا ھے.
لیکن کوئی مستند دلیل موجود نھیں.

اگر صوف جسے ریشم کا کرته کھتے ھیں پهننے کی وجه سے اس گروه کا لقب ھے تو پھر اسے اسلام سے قبل بھی ھونا چاھیۓ تھا کیونکه یھود و نصاره کے راھبان و احبار بھی یه لباس پهنا کرتے تھے.

اس عنوان پر خامه فرسائی کرنے والے جمله مولفین اس بات پر متفق ھیں که تصوف ایک فرقے کے طور پر دوسری صدی ھجری یا وسط یا آخر میں منظر عام پر آیا ھے.

عبالقادر سھروردی کی بھی یهی راۓ ھے.
عوارف الموارف ص:59.

کچھ لوگوں کا خیال ھے صوفی صف سے مشتق ھے کیونکه یه لوگ آپنی بلند ھمتی,اخلاص اور قلب اور خدا کے رازوں کے امین ھوتے ھیں اس لیۓ انھیں صوفی اور صوفیه کھا گیا ھے.

لیکن بعض مولف اسے صفویین سے جوڑتے ھیں جو پھر آھسته آھسته صوفی ھو گیا.

کچھ اسے پهلے ابتدا میں لفظ صفوی سے جوڑتے ھیں جو بعد میں صوفی بن گیا.
کچھ اسے اصحاب صفه کی طرف لے جاتے ھیں.جو دور دراز سے مسلمان آۓ اور مدینه میں ٹھرنے والی جگه پر چبوتره بنایا گیا اسے عربی زبان میں صفه کھتے ھیں.

اسی لیۓ ان اصحاب کو اصحاب صفه کھتے ھیں.ان کا زکر قرآن میں آیا ھے.
سوره بقره ع:273,

جھاں تک لفظ صوفیه کا تعلق ھے تو یه اسماء و صفات کا جامع نام ھے.

لفظ صوفیه کی وجه تسمیه جو بھی ھو مگر یه حقیقت ھے که صوفی گروه آپنی تعلیم کے لحاظ سے باقی امت سے جدا ھے یه لفظ اس وقت داخل ھوا جب مسلمانوں میں اجنبی عناصر شامل ھوۓ.

حسن بصری کھتے ھیں که میں نے ایک صوفی کو طواف کرتے دیکھا تو میں نے اسے کچھ رقم دینا چاھی اس نے کھا میرۓ پاس چار دوانیق موجود ھیں لھذا مجھے تمھاری اس سخاوت کی ضرورت نھیں ھے.

ثفیان ثوری کھتا ھے دنیا میں ابو ھاشم صوفی نه ھوتے تو میں ریاکاری کی باریکیاں نه جان سکتا.

عبدالله بن علی سراج نے ایک کتاب لکھی اس میں انھوں نے محمد بن اسحاق بن یسار سے روایت نقل کی که میں مکه میں داخل ھوا تو ایک صوفی دور سے مکه آتا اور کعبه کا طواف کرکے لوٹ جاتا تھا.

بصری اور اس روایت میں لفظ صوفی استعمال ھوا ھے یه درست ھی نھیں کیونکه ماقبل اسلام لفظ صوفی تو تھا ھی نھیں.

اگر پشمینه پوشی کی وجه  سے صوفی کھا جاتا ھے تو پھر بھت سے انبیاء و اصحاب بھی پشمینه پوش تھے اصحاب بھت زاھد بھی تھے انھیں صوفیه کیوں نه کھا گیا.انھوں نے صوفی کی بجاۓ لفظ صحابی کو ترجیح کیوں دی.

استاد عبدالرحمن بدوی تاریخ تصوف میں لکھتے ھیں یه درست نھیں که پهلی یا دوسری صدی میں لفظ صوفی رائج ھوا ھےیه بات البیان والتبیین اور رساله قیشریه میں بھی مرقوم ھے.

ابن جوزی کھتے ھیں ایک جماعت دوسری صدی میں پیدا ھوئی وه زھد و عبادت کی شیدائی بن گئی اور دنیا سے تعلق نه رکھتی تھی وه لوگ غوث بن مره کے مشابه بن گۓ.پھر ان کے پیروکاروں کو یعنی متصوف کو بھی صوفیه کھنے لگے.

لیکن ھندوستان ایران سے بھی اس کا تعلق جوڑتے ھیں که صوفیه کا تعلق ان جوگیوں سے ھے جو ننگ دھڑنگ ایک صحرائی بوٹی پر گزاره کرتے تھے اور کم قیمت نباتات سبزیات کے مقابلے میں زیاده پسند تھی.
بعض اس بوٹی کو صوفانه بھی کھتے ھیں.اسی کی نسبت انھیں صوفی کھا جاتا ھے.
کچھ محقق اسے یونانی لفظ سوفس یا سوفیا سے بھی مشتق کرتے ھیں.

پروفیسر نیکل سن (Nicholson) کھتے ھیں که متصوف کو فارسی میں پشمینه پوش کھتے ھیں یعنی اونی لباس پھننے والا.
قدیم مسلمان زاھد قسم کے افراد موٹا کھردرا لباس پھنتے تھے انھوں نے یه لباس عیسائی راھبوں کی پیروی میں پهنا تھا.

ماسینیو کے بقول لفظ صوفی کا اطلاق دوسری صدی ھجری کے وسط میں شروع ھوا.صوفی کا لفظ صرف اھل کوفه کیلۓ مخصوص تھا.
99/ھجری میں اسکندریا میں ایک چھوٹا سا فتنه پیدا ھوا جس کے بعد صوفی جمع صوفیه کا لفظ منظر عام آیا جب لفظ صوفی کو پچاس برس گزرۓ تو پھر تمام زاھاد  کو صوفیه کھا جانے لگا.

یه ایک حقیقت ھے که لفظ صوفی کے معنی یا ماده اشتقاق کو تلاش کرنا مشکل کام ھے میری نظر میں یه سب آرا حدس اور استحسان پر مبنی ھیں عوارف الموارف میں ان پر بحث قیاس آرائی پر کی گئی ھے.

ھماری نظر میں لفظ صوفی  اور صوفیه کے متعلق قریب ترین احتمال یهی ھے که سابقه ادیان کے بھت پیروکاروں نے ترک دنیا کی اور انھوں نے اونی لباس کو آپنا شعار بنایا اور ان پوشوں میں بدھ مت ,مانوی,زرتشی,اور عیسائی راھب شامل تھے

 میں خود (Saieen Loag)عرصه دراز سے عیسائی,بدھ مت اور ھندوں میں ره رھا ھوں تو اس بات کا میں خود چشم دید گواه ھوں که یه رھبانیت اور ترک دنیا اور جنگلوں میں ریاضت کا تصور ھمارۓ صوفیه نے انھیں قوموں سے لیا ھے

 سری لنکا میں دور دراز پھاڑوں اور جنگلوں میں باقاعده مراکز قائم ھیں جھاں سال کا زیاده عرصه لوگ جا کر دنیا کے اغراض و مقاصد سے لا تعلق ھو کر صرف الله تعالی کی طرف لو لگا کر أنکھیں بند کرکے آپنے مذھب کے مطابق چلتے ھوۓ اور سجده کی حالت میں مختلف طریقوں سے عبادت کرتے ھیں.

 گوشت نھیں کھاتے سبزیات اور درختوں کے پتوں کو ترجیح دیتے ھیں سب کچھ توکل الله کرتے ھیں بلکه میرۓ ایک دوست ھیں وه ھر سال آسٹریلیا کے شھر ایڈیلیڈ کے جنگلوں میں جا کر ایک ماه کیلۓ گمنام عبادت و ریاضت کرتے ھیں.

 یه بدھ ازم میں ھے ھندو اور عیسائی بھی ملتے جلتے ایسے ھی عبادت کرتے ھیں.
چونکه یه بھت قدیمی مذاھب ھیں ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں بھی اون پوش طبقه وجود میں آیا ,
مگر یه لوگ اھلبیت ع کے علم و حکمت سے متاثر ھو کر ان کو زیر اور انکی علمی اھمیت ختم کرنے کیلۓ مقابل کے طور پر ابھرۓ .

کیونکه  تنھائی کی عبادت و ریاضت اور روحانی بیداری سے انسان مراقبه کی منزل پر پهنچ کر یه تمام خوبیاں حاصل کر سکتا ھے.
ان کا دل بینا ھوجاتا ھے وه وه سب کچھ کر اور دیکھ سکتے ھیں جو عام انسان نھیں دیکھ پاتا.

جو یه سب کچھ اپنی دنیاوی شھرت و فائده کیلۓ کرتے ھیں پھر یه شیطانی عمل بن جاتا ھے مگر اس منزل پر آ کر اکثر صوفی گمراه ھوۓ ھیں مرزا غلام احمد ,گوھر شاھی یوسف کذاب فیصل آباد کے مھدی معود بھاولپور کے یونس جنھوں نے نبوت کا دعوی کیا ھے حال میں بلکه ھزاروں مشاھدات موجود ھیں.

ان صوفیه کے جھوٹے اور گمراه کن دعووں پر ھم تفصیلی روشنی ڈالیں گے تو یه سب کچھ جاننے کیلۓ براه کرم ھم سے جڑۓ رھیے.
  
سابقه ادیان قدیمی کے دیکھا دیکھی مسلمان  صوفیه کا باقاعده ایک گروه فرقه وجود میں آ گیا جس کا سلسله آج تک جاری ھے.
مگر جن کی منزل قرب الھی اور تعلیمات اھلبیت ع پر عمل کرتے ھوۓ دنیا سے لا تعلق نه ھوتے ھوۓ عبادت و ریاضت کرنا ھے ان صوفیه کی اسلام میں گنجائش ھے
آنے والی پوسٹوں میں وضاحت پیش کی جاۓ گی.

لیکن ایک بات واضح ھے که موجوده تصوف ان سابقه ادیان اور انکی عادات کا پهیلاؤ ھے.
 ان سابقه ادیان کے چربے نے تصوف کی شکل اختیار کی جس نے اسلامی مملکت کے اکثر شھروں کو آپنی لپیٹ میں لے لیا ھے.

        (لفظ صوفیه پر بحث جاری ھے)

ہفتہ، 22 جون، 2019

صوفیه کی مذمت فرامین معصومین علیھم اسلام کی روشنی میں. قسط نمبر:3

:

صوفیه کی مذمت کلام معصومین ع کی روشنی میں

                         " قسط نمبر:3.          تحریر : "سائیں لوگ

صوفیه کی مذمت میں آئمه طاھرین علیھم اسلام کے اس قدر فرامین ھماری مستند کتابوں میں موجود ھیں که جن کا عدو احصا مشکل ھے.
 پر یھاں بطور نمونه دو چار ارشادات پیش کیۓ جاتے ھیں.

علامه مقدس اردبیلی آپنی جلیل القدر کتاب حدیقة القدر الشیعه میں با سناد خود رقم ھیں که حضرت امام جعفر صادق ع کی خدمت میں عرض کیا گیا که زمانه حاضره میں ماضی قریب میں ایک قوم پیدا ھوئی ھے جسے صوفیه کھا جاتا ھے آپ اس بارۓ میں کیا فرماتے ھیں

 فرمایا انھم ادائنا.ھم عربی متن کی بجاۓ اردو ترجمه پیش کرتے ھیں:

لاریب یه لوگ ھم اھلبیت و رسالت ع کے دشمن ھیں پس جو شخص انکی طرف مائل ھو اور ان سے محبت رکھے وه بھی ان میں سے شمار ھو گا اور وه ان کے ساتھ محشور ھو گا.

فرمایا بھت جلد ھی کچھ ایسے لوگ پیدا ھوں گے جو ھماری محبت اور دوستی کا دعوی کریں گے.
 اور باوجود اس کے وه صوفیوں کی طرف مائل ھوں گے لباس اور اس لقب میں ان کی مشابھت اختیار کریں گے اور ان کے کافرانه اور مشرکانه اقوال کی تاویل کریں گے.
 لھذا وه ھم میں سے نھیں ھوں گے ھم ان سے بیزار ھیں جو شحص ان کی نفرت اور انکار کرۓ گا.

اور جو ان کے اس خیالات کی تردید کرۓ گا اس کا ثواب ایسے شخص کی مانند ھو گا جس نے نبی ص کے ھمراه جھاد کرنے کا شرف حاصل کیا ھے.

(حدیقة الشیعه ص:562/563 طبع جدید)

حضرت امام جعفر صادق علیه اسلام نے یه فرما کر کھا که :
الصوفیه لکھم من اعدائنا و طریقتھم مبائینه بطریقتا.
ترجمه: سب صوفی ھمارۓ دشمن ھیں اور ان کا طریقه ھمارۓ طریقه کے مغائر و منافی ھے .

مولا صادق ع کے اس فرمان نے ان کے مکروه چھره کو بے نقاب کر دیا ھے.

نیز جناب مقدس اردبیلی حضرت شیخ مفید کے حوالا سے یه واقعه نقل کرتے ھیں که امام علی نقی ع مسجد نبوی ص میں آپنے اصحاب کے ھمراه تشریف فرما تھے که اچانک صوفیوں کا ایک گروه وارد ھوا اور مسجد نبوی ص میں ایک طرف دائره کی شکل میں بیٹھ کر تھلیل (لااله الاالله)
کا ورد کرنے میں مشغول ھو گیا تو آپ نے فرمایا ان فریب کاروں کی طرف توجه نه کرو یه شیطان کے خلیفے ھیں.

یه صوفیوں کا پست ترین گروه ھے اور تمام صوفیه ھمارۓ مخالف ھیں اور ان کا راسته ھمارۓ راستے سے جدا ھے اور یه اس امت کے نصاره اور مجوسی ھیں .

حدیقة الشیعه ص602,

تصوف اور تشیع طبع لبنان.

بعض اخبار و آثار سے واضح آشکار ھوتا ھے که خود بانی اسلام ص نے ان بد عقیده و بدعمل گروه کی پیدائش کی پیشگوئی فرما دی تھی.

چنانچه محدث شیخ عباس قمی حضرت شیخ بھائی رح سے روایت کرتے ھیں که پیغمبر اکرم ص نے فرمایا که قیامت سے پهلے  میری امت میں ایک جماعت پیدا ھوگی .

جس کا نام صوفیه ھو گا اور زکر کیلۓ حلقه بنا کر بیٹھیں گے اور آواز بلند کریں گے.
 وه درحقیقت میری امت سے نھیں ھوں گے بلکه وه یھود سے شمار ھوں گے اور وه کفار سے بھی بدتر ھوں گے.

 اور جھنمی ھوں گے اور گدھوں کی طرح آوازیں بلند کریں گے.

سفینة البحار جلد:2,ص:58.
مذید آپ "تشیع اور تصوف میں فرق"
 میں تفصیلی ملحاظه فرما سکتے ھیں.

تصوف آور تشیع قسط نمبر:2

تصوف اور تشیع

"قسط نمبر:2.           تحریر : "سائیں لوگ

فکر و نظر کے اس ظلمت کده میں ھم چراغ طور جلا رھے ھیں تاکه یه دکھا سکیں که تشیع کا دامن ان صفوات سے پاک ھے.
 ھم یه واضح کر چکے ھیں که شیعت کی نشونما اسلام کے ساتھ ھوئی ھوئی ھے اور شیعت اسلام کے علاوه کچھ نھیں.
مخالفین کا یه الزام غلط بیانی ھے که تشیع بھی دوسرۓ فرقوں کی طرح معروضی حالات کا رھین منت ھے.

مگر ھم اس الزام کی تردید کریں گے که شیعت تصوف کا ماخذ نھیں.

تصوف جسے آجکل جدت پسند لوگ

                      "عرفان"

اور بدنامی سے بچنے کیلۓ صوفیه کو عرفاء کھتے ھیں کی عمارت کا سنگ بنیاد وحدت الوجود بلکه وحدت الموجود اور ھمه اوست جیسے غیر اسلامی بلکه سراسر مشرکانه و کافرانه نظریات پر قائم ھے.
 پھر یه اسلام میں تصوف کس طرح داخل ھوا ?
اور اسے کس طرح مشرف با اسلام کیا گیا یه ایک خونچکاں داستان ھے.

جس کا خلاصه یه ھے که وفات نبی ص کے بعد خاندان رسالت سے ظاھری اقتدار چھینے کے بعد بنی امیه کے دور میں اس خانواده عصمت و طھارت کے روحانی اقتدار پر شب خون مارنے کی خاطر بظاھر تارک دنیا اور نه باطن سگ دنیا قسم کا ایک صوف پوش گروه تیار کیا گیا اور اسے حکومتی سرپرستی سے نوازا گیا .

اسکی خود ساخته کشوف و کرامات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تاکه عامة الناس کو خاندان نبوت ص کے دروازه سے ھٹایا جاۓ اور ان لوگوں کے دروازه پر جھکایا جاۓ.
(انوار نعمانیه)
                                           (جاری ھے)

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...