Saieen loag

جمعہ، 24 مئی، 2019

بزرگوں کے مزار شرک کے مراکز ...قسط نمبر:2

ان الاشرک لظلمه العظیم :

                      قسط نمبر :2

شرک کے مختلف رائج الوقت اسباب
یوں تو نہ معلوم ابلیس کن کن اور کیسے کیسے دیدہ ونادیدہ طریقوں سے شب وروز اس شجرہ خبیثہ ’’ شرک‘‘ کی آبیاری میں مصروف ھے.

 اور نہ معلوم جاہل عوام کے ساتھ ساتھ بظاہر کتنے نیک سیرت درویش ‘پاک طینت بزرگان دین ‘صاحب کشف وکرامت اولیاء عظام‘ ترجمان شریعت علماء کرام ‘ملک وقوم کے سیاسی نجات دہندگان اور خادم اسلام حکمران بھی حضرت ابلیس کے قدم بقدم اس ’’ کارخیر‘‘ میں شرکت فرمارھے ہیں.

بقول سیدنا عبداﷲبن مبارک رح فرماتے ھیں.
  فَھَلْ أَفْسَدَ الدِّ یْنَ اِلَّا الْملُوک   وَأَحْبَارُ سُوْء وَ رُھْبَانُھا

 ترجمہ: 
کیا دین بگاڑنے والوں میں بادشاھوں ‘علماء اور درویشوں کے علاوہ کوئی اور بھی ھے.

  اس لئے ایسے اسباب وعوامل کا ٹھیک ٹھیک شمار کرنا تو مشکل ھے تاہم جو اسباب شرک کی ترویج کا باعث بن رھے ہیں ان میں سے اہم ترین اسباب درج ذیل ہیں.

(1) جہالت 
(2)ہمارے صنم کدے (تعلیمی ادارے) .
(3) دین خانقاھی
 (4) فلسفہ وحدت الوجود ‘ وحدت الشہوداور حلول.
 (5) برصغیر ہندوپاک کا قدیم ترین مذہب‘ ہندومت.
 (6) حکمران طبقہ
 1:جہالت
 کتاب وسنت سے لاعلمی وہ سب سے بڑا سبب ھے جو شرک کے پھلنے پھولنے کاباعث بن رہا ھے .
اسی جہالت کے نتیجے میں انسان آباء واجداد اور رسم ورواج کی اندھی تقلید کا اسیر ہوتا ھے.
 اسی جہالت کے نتیجے میں انسان ضعفِ عقیدہ کا شکار ہوتا ھے اسی جہالت کے نتیجے میں انسان بزرگان دین اور اولیاء کرام سے عقیدت میں غلو کا طرز عمل اختیار کرتا ھے درج ذیل واقعات اسی جہالت کے چند کرشمے ہیں.

۱۔دھنی رام روڈ لاہور میں کچھ عرصه قبل تجاوزات پر جوتیر چلا ان کی زد سے بچنے کے لئے میو ہسپتال کے نزدیک ایک میڈیکل اسٹور کے منچلے مالک نے اپنے اسٹور کے بیت الخلاء پر رات کے اندھیرے میں
              
                  ’’شاہ عزیز اﷲ‘‘

کے نام سے ایک فرضی مزار بناڈالا اس مزار پر دن بھر سینکڑوں افراد جمع ہوئے جو مزار کا دیدار کرتے اور دعائیں مانگتے رہے ‘‘(نوائے وقت 19جولائی 1990  )

2:  اختلاف امت کا المیہ کے مصنف حکیم فیض عالم صدیقی صاحب لکھتے ہیں.
میں آپ کے سامنے ایک واقعہ حلفیہ پیش کرتا ھوں چند روز ھوئے میرے پاس ایک عزیز رشتہ دار آئے جو شدت سے کشتہ پیری ہیں میں نے باتوں باتوں میں کہا کہ فلاں پیر صاحب کے متعلق چار عاقل بالغ گواہ پیش کردوں جنہوں نے انہیں زنا کاارتکاب کرتے ہوئے دیکھا ھو تو پھر ان کے متعلق کیا کہو گے.

کہنے لگے ’یہ بھی کوئی فقیری کا راز ھوگا جو ہماری سمجھ میں نہ آتا ہوگا پھر ایک پیر صاحب کی شراب خوری اور بھنگ نوشی کا ذکر کیا توکہنے لگے بھائی جان یہ باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں وہ بہت بڑے ولی ہیں.
( اختلاف امت کا المیہ صفحہ :96).

ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں کوٹلی کے ایک پیر صاحب (نہواں والی سرکار)کے چشم دید حالات کی رپورٹ کا ایک اقتباس ملاحظہ ھو.
صبح آٹھ بجے حضرت صاحب نمودار ہوئے اردگرد (مرد وخواتین )مرید ہولئے کوئی ہاتھ باندھے کھڑا تھا کوئی سرجھکائے کھڑا تھا کوئی پاؤں پکڑ رہا تھا.

 بعض مرید حضرت کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے چل رھے تھے جبکہ پیر صاحب نے صرف ایک ڈھیلی ڈھالی لنگوٹی باندھے ہوئے تھے چلتے چلتے نہ جانے حضرت کو کیا خیال آیا کہ اسے بھی لپیٹ کر کندھے پر ڈال  لیا ,
خواتین نے جن کے محرم (بھائی بیٹے یا باپ)ساتھ تھے شرم کے مارے سر جھکالیا لیکن عقیدت کے پردے میں یہ ساری بے عزتی برداشت کی جارہی تھی .

 مجلہ الدعوۃ ‘لاھور مارچ 1992,صفحہ:4.

                        (جاری ھے).

بزرگوں کے مزاروں پر عرس برائی کے مرکز ...قسط نمبر:1

یه درست ھے جھاں صوفیه نے آپنی زندگی میں اسلامی شریعت کا دیا پاچا ایک کیا اور بدعات و خرافات کی بھرمار کی وھاں انکے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی یه سلسله نه تھما ,

اور ان کے ھڈ حرام کام چور مریدوں چیلوں نے کوئی کسر نه چھوڑی.

صوفیه اور ان کے مزاروں پر عرس:
 کیونکه لازم و ملزوم ھیں لھذا چاھا صوفیه کے بعد اب ان پر لکھ کر ناسمجھ مسلمانوں کو اس گمراھی کے مراکز کے بارۓ قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات کی روشنی میں باخبر کیا جاۓ.

ھم اولیاء الله کےمزاروں پر ھدایت و عبرت کیلۓجانے والوں کے خلاف نھیں بلکه وھاں ھونے والی فرسوده بدراه رسومات کے خلاف ھیں.

ھماری ان تحریروں کا مقصد کسی کی توھین و تضحیک نھیں بلکه اصلاح کا راز پوشیده ھے.
                
                 قسط نمبر :1

              بسم اللہ الرحمن الرحیم​
جب تک مسلمان دینِ اسلام کی اصل قرآن و حدیث پر رھے متحد اور مجتمع رھے.

 جیسے ھی لوگوں کے فہم و فلسفہ کو اپنایا تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور دینِ محمد ص میں اپنی من مانی جب بھی کی جائے گی اس اُمت میں انتشار کا ھی باعث بنے گی.

ایک لمبے عرصہ تک ہم لوگ ہندؤوں کے ساتھ رھےہیں جس کی وجہ سے ہندؤوں کے مذہب کی کافی باتیں اور رسم و رواج کو اسلام سمجھ چکے ہیں.

 اور ان پر بہت سختی کے ساتھ کاربند بھی ہیں اور جو ایسے رسم و رواج کے خلاف بات کرئے اس پر فتوے لگ جاتے ہیں جہاں اور بھی بہت سی جاہلانہ رسمیں ہیں ان میں ایک رسم ھے درگاھوں,درباروں آستانوں پر میلوں کا انقاد،
 ہمارے مولوی لوگ اس کو اسلام کا نام دیتے ہیں مگر جب ان سے کہا جاے کہ مولوی صاحب یہ کہاں کا اسلام ہے کہ جہاں گانے باجے بجتے ھوں، کھسرے تو کھسرے عورتیں اور مرد بھی ڈانس کرتے ھوں.

جہاں اذان و اقامت اور نماز کے اوقات میں بھی گانے، قوالیاں بجتی رہتی ہیں قبرستانوں کے اندر موت کے کنوئیں لگا کر نور جھاں اور نصیبو لال کے سیکسی گانوں کی کان کے پردۓ پھاڑ سپیکروں کی آواز میں کھسرۓ ناچتے ھوں.
اور لواطت و زنا کا بازار گرم ھو کیا یه اسلام کی تعلیمات ھیں.

عرس کے لغوی معنی ھیں,شادی,اسی لیۓ دولھا دلھن کو عروس کھتے ھیں .بزرگان کی تاریخ وفات کو اس لیۓ عرس کھتے ھیں که مشکواة باب اثبات عذاب القبر ص:25, جب نکیرین میت کا امتحان لیتے ھیں اور وه کامیاب ھوتا ھے تو کھتے ھیں :
ثم کنو مة العروس الذی لا یو قظه الا احب اھله الیه .
ترجمه پیش ھے:
سو جا اس دولھا کی طرح جسے صرف اس کا محبوب جگاتا ھے.

تو چونکه اس دن نکیرین نے عروس کھا اس لیۓ وه دن روز عروس کھلایا.

عرض یه که نکیرین میت کی نیند کو عروس کی نیند سے تشبیه دیتے ھیں.

عرس یعنی بزرگان کی شادی میں شرکت کے شائقین آنے والے دولھا یا دلھن کیلۓ دولھا بھی ثابت کرنا پڑے گا.
پھر جب وه شب زفاف منائیں گے پھر غسل جنابت کیلۓ انکی قبر میں پانی کا پائپ بھی لگانا پڑۓ گا.

پھر دعوت ولیمه بھی ھو گی پھر بچے بھی پیدا ھوں گے اور ان کے ختنے عقیقے وغیره کا بندوبست بھی کرنا پڑۓ  گا وغیره وغیره.
پھر یه بزرگوں یا سجاده نشینوں تک محدود نھیں رھے گی.
نکیرین تو ھر موحد اور متبع سنت مسلمان کو یه خوشخبری سناتے ھیں .

لھذا آپنے مسلک کے مطابق انھیں چاھیۓ که ھر مسلمان کی قبر پر ھر سال اس کے روز وفات پر عرس منایا کریں.

کیونکه وه اس کی شادی کا دن ھوتا ھے صرف بزرگوں کا عرس منانا کانی ونڈ ھے....
عجیب بات ھے زندگی میں تو یه لوگ بزرگوں کی شادی والے دن سالانه عرس نھیں مناتے مرنے والے دن کا عرس مناتے ھیں.

اس سے معلوم ھوا عرس منانے والوں کو جینے کی نھیں مرنے کی خوشی زیاده ھوتی ھے. 
شاید اس لیۓ ان استخواں فروشوں کے نذدیک مرنے والے کی ھڈیاں زیاده نفع کا سودا ھوتی ھیں.
پھر ان مخصوص قسم کے بزرگوں کو سمجھ لینا بھی تو محل نظر ھے.ھو سکتا ھے جنھیں یه بزرگ سمجھتے ھوں وه محض ان کا حسن ظن ھو اور جن کو انھوں نے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا درحقیقت وه اولیاءالله  ھوں.

شرح فقه اکبر ص:131 پر ھے ترجمه:
پیغمبر اکرم ص کے علاوه علماء اور صلحاء کی بابت متعین طور پر بالجزم یه نھیں کھه سکتے که انکی موت ایمان پر ھوئی ھے.
اگرچه ان خوارق عادات کمال حالات اور جمال انواع طاعات ظھور پذیر ھوۓ ھوں.
کیونکه یعقینی خبر کی بنیاد مشاھده پر ھے اور یه مشاھده انسانی افراد سے مستور ھے.
نکیرین کسی کو عروس کی نیند سلاتے ھیں اور کسی کی ھڈی پسلی ایک کر دیتے ھیں یه برزخی ھے اسے جاننا شائقین عرس کے بس کی بات نھیں ھے عین ممکن ھے بزرگوں نے کان پکڑۓ ھوۓ ھوں اور یه براتی ان پر شھنائیاں بجا کر انھیں زھنی طور پر دوھری ازیت میں مبتلا کر رھے ھوں.
ملحاظه کیجیۓ شرح فقه اکبر ص:131.
شاه عبدالعزیز صاحب نے فتاوی عزیزیه ص:45/ پر لکھتے ھیں یه قسم (یعنی عرس) رسول الله ص اور خلفاۓ راشدین کے دور میں مروج نه تھی اگر کوئی کرۓ  تو حرج نھیں.
زبدة النصائح فی مسائل الزبائح میں بھی کچھ اسی طرح کی تشریح موجود ھے.

عرس کی مناسبت سے مجھے ایک واقعه یاد آیا ھے 1994/ء میں ھمارۓ اسلامیات کے پروفیسر نے ایک واقعه سنایا جو جلال پور پیروالا میں پیش آیا.
ایک آدمی کا گدھا بھت ھی لائق اور فرمانبردار سمجھ والا, مالک اور گدھا ایک دوسرۓ سے بھت مانوس تھے یه فطری عمل تھا دوران سفر کسی وجه سے گدھا راستے میں مر گیا.

 چونکه مالک کو بھت پیارا تھا اس نے اسکی لاش کو کھیتوں میں عریاں پھینکنے کی بجاۓ ایک گڑھا کھود کر سڑک کنارۓ دفن کر دیا ,
تاکه اسکی تذلیل نه ھو.

کچھ عرصه بعد وھاں سے اس شخص کا دوباره گزر ھوا کیا دیکھتا ھے قبر بناکر سبز رنگ کی چادر ڈالے ایک باریش بنده بیٹھا ھے اور آنے جانے والوں پر دم کر رھا ھے اور لوگ منتیں مان رھے ھیں شرینیاں تقسیم ھو رھی ھیں چڑھاوۓ چڑھاۓ جا رھے ھیں نذر نیاز کا زور ھے .

اس نے مختلف لوگوں سے پوچھا ماجرا کیا ھے کچھ عرصه پهلے یھاں کچھ نه تھا اب سب کچھ ھے لوگوں نے بتایا یه بزرگ بیٹھے ھیں ان کے والد کا مزار ھے اور وه آپنے وقت کے پهنچے ھوۓ ولی تھے بیٹے کو زیارت ھوئی ھے که میری قبر کی نشاندھی کی جاۓ اور روزنه ختم قرآن پڑھا جاۓ.

ایک دفعه تو وه شخص چونک گیا پھر اس جگه کا تعین کرنے لگا که واقعی یھی جگه ھے جھاں اس نے آپنا پیارا گدھا دفن کیا تھا یعقین ھونے پر اور نذر نیاز اور چڑھاوۓ دیکھ کر,
 اس کے جی میں بھی لالچ پیدا ھوا اس نے مجاور کو کھا که یهاں  تو میرا باپ دفن تھا متولی نے کھا بھائی یه تو میرۓ ابا جی تھے معامله بڑھ گیا ,
مجبورا متعلقه تھانه کو اطلاع کی گئی اب دونوں دعوی دار تھے اور بضد تھے که اس کے والد مدفن ھیں تو فیصله کیا گیا که قبر کشائی کی جاۓ .
تاکه معامله کو سلجھایا جاۓ جب قبر کشائی ھوئی تو عوام کی کثیر تعداد جمع ھو گئی که آج روحانی بابا کی قبر کھودی جا رھی تو آج بابا کے چھره انور کی زیارت ھوگی.
اب پریشان دونوں دعویدار تھے که معامله کو نه دبایا جا سکتا ھے اور نه ھی منحرف ھوا جا سکتا ھے.
جب قبر کھودنا شروع ھوئی تو ھر آدمی کی زبان پر کلمه اور درود کا ورد تھا جیسے ھی تھوڑی گھرائی پر گۓ تو سیاه بال اور لمبی لمبی ھڈیاں برأمد ھونا شروع ھو گئیں مگر جب گدھے کے سر کو باھر نکالا گیا اس وقت ھر انسان انگشت حیرت بدنداں تھا که یه کیا ماجرا ھوا .

تشویش پر گدھے کے مالک نے سب حقیقت بیان کر دی .
اب یه تو حالت ھے ان بزرگ پرست مسلمانوں کی جو گدھوں کو پوجنا شروع کر دیا ھے.                     (جاری ھے.)

جانشین پیغمبر ص کون.....البدایه والنھایه

.....
جانشین پیغمبر ص کون

برادران اسلام کو دعوت فکر که وه راه حق کا انتخاب کریں:

تبلیخ اسلام کے آوائل میں ھی آپ ص نے 
مولا علی ع کو آپنا وزیر و جانشین اور اسکی اطاعت واجب قرار دے دی تھی.

ابلاغ رسالت کیلۓ جب حکم خدا وندی ھوا تو آپ ص کوه صفا پر تشریف لاۓ اور باآواز بلند لوگوں کو بلایا جب سب جمع ھو گۓ تو آپ نے فرمایا:

آۓ بنی عبدالمطلب ,بنی فھر,اور آۓ بنی کعب مجھے حکم ھوا ھے که میں آپنے عزیز و اقربا کو الله کے خوف سے ڈرا کر قبول اسلام کی ھدایت کروں.

آپ ص نے حضرت علی ع کو حکم دیا که ایک بڑۓ برتن ایک صاع (تقریبا ایک سیر)کھانه لاؤ اور ایک برتن میں دودھ تاکه ھم انھیں اسلام کی دعوت سے قبل کچھ کھلا پلا سکیں.

آپکے ارشاد کی تعمیل میں تقریبا 40/لوگ بنی عبدالمطلب کے جمع ھوۓ جن میں حضرت حمزه,حضرت ابو طالب اور ابو لھب بھی شامل تھے.

سب کو پیٹ بھر کے کھانا کھلایا اور حضرت علی ع سے فرمایا اب انھیں  دودھ پلاؤ.

تھوڑا سا کھانا اور دودھ کی برکت جب لوگوں نے دیکھی تو کھنے لگے یه جادوگر ھیں اور آپنے معجزه سے لوگوں کو بھکاتا ھے.

جب بات کرنے کا وقت آتا تو سب چلے جاتے مسلسل تین دن ایسے ھوا تیسرۓ دن کھانے کے بعد حضرت ابوطالب نے سب کا راسته روکا,
 اور ھر حال میں دعوت اور بلانے کی وجه سماعت کرنے پر ضد کی,

 چونکه آپ ص نے فرمایا مجھے الله تعالی کی طرف سے حکم ھوا ھے که میں تمھیں الله کی طرف بلاؤں اب بتائیں اس سلسله میں میری کون مدد کرۓ گا.

سب نے بڑی اعتنائی سے منه پھیر لیا اس حضرت علی ع نے کھا میں آپکی مدد و نصرت کیلۓ تیار ھوں.

یه سن کر رسول الله ص نے حضرت علی ع کی کلائی پکڑ کر فرمایا :

یه(علی ع)میرا بھائی اور میرا وزیر ھے اب تم اسکی بات سنو اور اطاعت کرو.

آپکی یه بات سن کر سب ھنسنے لگے اور ابو طالب سے بولے کیا اب تمھارۓ بھتیجے کے علاوه بیٹے کی بات بھی سننی اور اطاعت کرنی واجب ھے.

امام احمد فرماتے ھیں که یه اس لیۓ کیا که اگر ارسول الله ص کو خدا نا خواسته ابلاغ رسالت کے دوران آپکو قتل یا وفات ھو جاتی ھے تو آپکی جگه کون لے گا.

اس لیۓ آپ نے تبلیغ اسلام کے آوائل ھی میں یه سعادت مولا علی ع کو سونپ دی تھی.

که میرۓ بعد میرا وزیر و وصی میرا بھائی علی ع ھے اسکی بات سننا اور اطاعت کرنا تم پر واجب ھے.

جبکه عملی طور پر ایسا نھیں ھوا بلکه آپکی آخیر زندگی میں ان سب احکامات کی دھجیاں بکھیر دی گئیں.
بعد میں کیا ھوا سب آپ برادران کے علم میں ھے.

جب دعوت زوالعشیره پر مولا علی ع نے مدد و نصرت کیلۓ وعده کیا اس وقت آپکی عمر مختلف روایات ھیں سات سال مگر مستند ھے دس سال تھی.
سب سے پهلی نماز بھی حضرت علی ع نے آپ ص کی اقتدا میں پڑھی.

البدایه میں ھے که اس وقت اڑتیس صحابه مسلمان ھو چکے تھے جن میں حضرت ابو بکر بھی شامل تھے.

مگر دعوت أاڑانے کے بعد آپ ص کی  مدد کی درخواست پر مولا علی ع آگے بڑھے.

یه تحریر تاریخ اسلام کی مایه ناز اھلسنت کی کتاب تاریخ ابن کثیر(البدایه والنھایه)جلد سوم ص:61,62,63,64/سے ماخوز ھے.

پاک نبی ص نے مواخات کے موقع پر حضرت علی ع کو آپنا بھائی قرار دیا.(البدایه والنھایه)

پاک نبی ص نے مولا علی ع کو آپنا بھائی قرار دیا:

 مواخاة اسلامی کیلۓ جو تلقین یا عملی مظاھره کیا آپ ص نے حضرت انس کے گھر مھاجرین و انصار میں فردا فردا اخوت اسلامی کی بنیاد رکھی اور ھر صحابی مھاجر کو انصار کے ساتھ بھائی بنانے کا حلف لیا.

جب سب ایک دوسرۓ کے بھائی بنا دیۓ گۓ تو مولا علی ع کا ھاتھ آپنے ھاتھ میں لے کر فرمایا:
ھذا اخی(یه میرا بھائی ھے).
چنانچه اس طرح رسول الله ص جو سید المرسلین,امام المتقین,اور رسول الرب العالمین تھے اور جن کا کوئی دوسرا عدیل و مثیل نھیں ھے اس اجتماع میں ,

تو آپ ص نے حضرت علی بن ابی طالب ع کو آپنا بھائی قرار دیا.

اس معامله میں بھی ناصبی نے یه حقیقت ضائع کرنے کی کوشش کی مگر علامه ابن کثیر کی راۓ کے مطابق اس میں کسی طرح شک و شبه کی گنجائش نھیں اور نه اسکی صحت سے علماۓ کرام انکار کرتے ھیں.

دوسری بات یه که البدایه والنھایه ص:224 پر بحث کرتے ھوۓ ابن کثیر لکھتے ھیں که آنحضرت ص اور حضرت علی ع کے درمیان بھائی بندی کی روایت سے اس لیۓ انکار نھیں کیا جا سکتا که آپ ص حضرت علی کے حقیقی عم زاد تھے.

اور چچا ا وطالب ع کی زندگی ھی میں آپ ص نے حضرت علی کو آپنی پرورش ,نگھداشت اور تربیت میں لے لیا تھا.

گستاخ رسول ص کی سزا ,سر تن سے جدا

  • .برادران اھلسنت کے ھاں ایک نعره پر سب گروه متفق ھیں اور عام لگایا جاتا ھے


 بلکه ھم بھی اس نعره پر عملدرآمد کے حق میں ھیں که:

گستاخ نبی ص کی سزا...
         
                          سر تن سے جدا.....

آج ھم ایک نام نھاد مسلمانوں کے خلیفه و صحابی کا زکر کرتے ھیں جس نے ھر جگه پاک نبی ص کے احکامات کی خلاف ورزی اور گستاخی کی..

جبکه قرآن پاک سوره نجم ع :3/4,میں الله تعالی فرماتے ھیں ھیں که رسول ص آپنی خواھش سے نھیں بولتے وه تو وھی کھتے ھیں جو وحی ھوتا ھے.

جبکه دوسری جگه فرمایا که میرۓ رسول ص کے آگے اونچی زبان سے مت بولو ھمیشه آپنی آواز دھیمی رکھو.

اب ھم  تاریخ کے اوراق پلٹتے ھیں که کس نے اور کھاں کھاں گستاخی کی.

صلح حدیبیه ھو. یا بدری صحابی کا سر قلم کرنے کا واقعه.

منافق عبدالله ابی کا جنازه پڑھنا ھو یا جنگ احد میں خاموش رھنے کا حکم ,

ھر جگه پاک نبی ص کے احکام کی مخالفت کی گئی.
چند گستاخیاں تو ایسی شدید کیں که ان کے آزاله کیلۓ ساری عمر صدقه خیرات و استغفار کرتے رھے.

تفصیل ملحاظه فرمائیں پیش کرده کتب کے اورجنل سکین میں.

حوالاجات تاریخ کی معتبر ترین کتب کے ھیں جنھیں جھٹلایا نھیں جا سکتا.

البدایه والنھایه...رحیق المختوم یه کتاب اسلامی دنیا سے تین ایوارڈ جیت چکی ھے.
اور سعودی ڈاکٹر علی محمد الصلابی کی سیرت سیدنا عمر بن خطاب.

اور برصغیر پاک و ھند کی سیرت النبی ص پر معتبر کتاب مدارج النبوت.

گستاخ رسول ص کا تعین اگر چوده سال پهلے سے کر لیا جاتا تو آج کسی بدبخت کو توھین رسالت کی جرات نه ھوتی.

گستاخ رسول ص,..رام سیتا..اور ارسطو,

رات ھم نے مسلمانوں کے نام نھاد خلیفه کے متعلق کچھ رسول الله ص کی گستاخی کے متعلق ثبوت دیۓ یه عام باتیں ھیں بلکه برادران آپنی تقریروں میں فخریه بیان بھی کرتے ھیں.

کچھ بھائی دفاع کیلۓ بھی سامنے آۓ شاید وه تاریخ سے ناواقف ھیں.

اگر ھم باریکی سے ان کتب کا مطالعه کریں تو پتا نھیں اور کتنے مواقع پر اس طرح کی گستاخی کی گئی.

اگر غیر مسلم  شان پیغمبر ص میں گستاخی کرۓ یا اس پر الزام لگا دیا جاۓ تو ھم  احتجاج کرتے ھوۓ سڑکوں پر آ جاتے ھیں,

سزاۓ موت کا مطالبه کرتے ھیں بلکه پچھلے کچھ عرصه میں انکی آبادیوں تک کو آگ کے ساتھ  زنده کچھ لوگوں کو آگ  میں بھی دھونس دیا.

مگر ھمارا مسلمان اگر اس طرح کی حرکت کر لے تو ھمیں ناگ سونگھ جاتا ھے.

ھزاروں سال قبل سکندر آعظم کے استاد اور سقراط و افلاطون کے شاگرد,

                          " ارسطو "

کا جو 322/قبل مسیح وفات پا گۓ تھے یونان میں کیس ری اوپن کیا گیا,

 تاکه اس کی موت کی وجوھات جان کے قاتل کی سزا کا تعین کیا جا سکے.

اسی طرح کا ھزاروں سال پرانا ایک اور کیس شھر پٹنه ریاست بھار انڈیا کی عدالت میں بھی کھولا گیا.

                " رام اور سیتا"

کا ,  رام کے بھائی لکشمن پر لگے الزام میں رام کو قصور وار ٹھرا کر منافقت کھا گیا.

پاکستان میں بھی آج سے 45/سال قبل کا زوالفقار علی بھٹو کا کیس پیپلز پارٹی دوباره سماعت کرانا چاھتی ھے تاکه جھوٹ اور سچ کا تعین کیا جاۓ حالنکه قاتل بھی مر چکے ھیں.

اس طرح کے اور بھی بھت کیسز ھیں جو دوباره سماعت کرکے مجرمین کی سزا کا تعین کیا گیا.

 بھت سے کیس مسلمانوں میں بھی زیر التوا ھیں جن کا تعین کرنا باقی ھے.

شان رسالت ص میں گستاخی کے بارۓ پاکستان کا قانون سزاۓ موت کی سزا تجویز کرتا ھے.

جھاں بھت سے گستاخان رسالت ص کو مسلمانوں کی منافقت نے سزا  سے بچایا ھے,

 بلکه اس طرح کے لوگوں کو احترام کا درجه دیتے ھوۓ ملت اسلامیه کا خلیفه بھی چن لیا گیا.

صرف ایک مذھب ھے مذھب حقه اثناۓ عشریه جو مسلسل چوده سو سال سے احتجاج پر ھے .اور مطالبه کر رھا ھے

که گستاخ پیغمبر ص جو بھی ھو بلا تفریق جو حیات ھیں انھیں بھی اور جو مر گۓ ھیں قبروں سے ان کی باقیات مراد بوسیده ھڈیوں کو بھی گٹھڑی میں باندھ کر علامتی سولی چڑھایا جاۓ.

تاکه آنے والے وقتوں میں کسی کو شان رسالت ص میں نازیبا الفاظ ادا کرنے کی جرات نه ھو.

اگر عمل نه کیا تو پھر ھمارا کیس الله تعالی کی عدالت میں ھے جھاں زره بھر بھی ناانصافی کا اندیشه نھیں ھے.

ھمارا یه مطالبه عالم اسلام کے صاحب طاقت حکمرانوں سے ھے.

که آۓ مسلمانوں الله کی ان آیات کی پاسداری کرو,

 جن میں فرمان الھی ھے.

قرآن مجید میں سورہ نحل کی آیت مبارکہ (90) میں ارشاد ربانی ھے, ترجمہ:

 بے شک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کا اور احسان کا.

بلکه قرآن میں 227/سورتوں میں عدل پر زور دیا گیا ھے.

چاھے تمھاری اولاد اور ماں باپ ھی کیوں نه ھوں.

جبکه پاک نبی ص نے سابقه قوموں کی تباھی کی وجه بھی عدل کا نه ھونا بتایا.

دیکھتے ھیں ھماری اس آواز کو کتنی تائید ملتی ھے.

حضرت عمر کھتے ھیں عورت کی حیثیت ایک کھلونا جیسی ھے.

عورت کی حیثیت ایک کھلونا  جیسی ھے جس سے کھیل کر پھر اسے  چھوڑ دیا جاتا ھے.
                                      (حضرت عمر)

حضرت عمر نے بیوی عاتکه بنت زید اور موسی اشعری کی پٹائی کیوں کی.

ابن عمر کا بیان ھے که ابو موسی اشعری نے میری ماں عاتکه بنت زید کو تقریبا ڈیڑھ گز کی چٹائی بطور ھدیه بھیجی جب میرۓ باپ نے وه تحفه میری ماں کے پاس دیکھا تو پوچھا یه تم کو کھاں سے ملا امی عاتکه جی نے جواب دیا ابو موسی اشعری نے دیا .

حضرت عمر نے وه چٹائی لی اور سر میں دے ماری یھاں تک که اس کا سر چکرا گیا اور کھا موسی اشعری کو بھی پیدل پکڑ کر لاؤ.

جب وه پیدل چل کر آۓ تو کافی تھک چکے تھے ابھی دروازه پر ھی تھے کھا یا امیرالمومینین میرۓ بارۓ جلدی نه کیجیۓ ,

حضرت عمر نے کھا تم ھماری عورتوں کو تحفے دیتے ھو,
 وھی چٹائی ان کے بھی سر پر دے ماری اور کھا اسے لے کر بھاگ جاؤ ھمیں تمھاری چٹائی کی ضرورت نھیں.

ماخوز:
یه واقعه سعودی عرب کے ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی, کی 848/صفحات پر مشتمل تاریخی کتاب

سیدنا عمر بن خطاب (سیرت و کارنامے).

باب :نامزدگی,نظام حکومت اور معاشرتی زندگی..,ص:225.   سے لیا گیا ھے.

مذھب شیعه کے ھر عمل کا ثبوت قرآن سے مانگنے والے آپنے ھر اعمال کو قرآن سے ثابت کرنے سے کیوں بھاگتے ھیں.

مذھب شیعه کے ھر عمل کا جواب قرآن سے مانگنے والے آپنے ھر اعمال کا جواب  کیوں نھیں دیتے.

حضرت عائشه کو صدیقه اور افضل النساء کھنے والوں کو قرآن سے اس فضیلت سے ھاتھ دھونے پڑیں گے.

 کیونکه وھاں خائن اور اصلاح کی وارننگ موجود ھے.

ھمارۓ ایک بھائی کی کاوش پیش فکر ھے.

اسلامی تورایخ  و کتب احایث سے انکار اور ہر معاملے کا حل قرآن سے حاصل کرنے کا نعرہ لگانا دراصل  بحث سے فرار کا حربہ ھے.

  قرآن سے  ہرحکم  تو خلفائے راشدین اخذ نہ کر پائے تو ہم جیسے  دال روٹی کے حصول  میں سرگرداں لوگوں کو قرآن کے  احکامات،  کتب اسلامی کی مدد کے بغیر بھلا کہاں ملے گے.

خصوصا وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی تعلیم کو پندرہ بیس سال تو دئیے مگر قرآنی تعلیم کو   شائد ایک سال بھی نہ دیا ھو.

مزید یہ کہ ہر خاص و عام اس بات پر متفق ھے کہ ہمارے پاس جو قرآن موجود ھے وہ ترتیب نزولی کے اعتبار مرتب نہیں ھے.

 جس کےباعث قرآن کو کتب اسلامی کی مدد کے بغیر سمجھنا ناممکن ھے.

دیکھا گیا ھے کہ مخالف فریق   مذہبی بحث میں   پہلے تو ہر  مأخذ سے دلائل پیش کرتا ھے مگر جب آبائی عقائد کا دفاع کرنے میں مشکل  ھوتی  ھے تو وہ گلی میں  کرکٹ کھیلنے والے بچوں کی طرح ہر بال پر اصول بدلنا شروع کر دیتا ھے.

 اور آخر میں فرار کا حتمی   طریقہ؛ کتب اسلامی سے انکار  اور معاملہ ختم.

خیال رھے کہ کتب اسلامی  سےاگر  انکار ھے تو پھر مکمل انکار ھونا چاہئے.

نہ کہ اپنی مرضی کے احکامات  کے لئے کتابیں منظور اور جب    انہیں  کتابوں سے اپنے عقائد کی نفی ھو تب کتابیں نا منظور.

ایسی دھاندلی نہیں چلے گی.

اگر ہم اس عام فرمائش کو مان کر کتب اسلامی  کو اپنی  ضروریات دین سے نکال کر خالص قرآن سے دینی معلومات لینا شروع کریں ( شیعہ تو گذارا کر لیں گے مگر باقی فرقوں کا ایک دن بھی نہیں گذرنا)

تو سب سے پہلے ہمیں کلمہ طیبہ سے ہاتھ دھونے پڑیں گے کیونکہ یہ قرآن میں ایک جگہ اکٹھا نہیں لکھا  ملتا.

 اسکے بعد وہ فرقے جن کے کلموں کی تعداد چھ تک جاتی ھے .

وہ اپنے باقی پانچ کلمے کہاں سے ثابت کریں گے.

 اسی طرح وضو میں سر کے نام پر گردن اور کندھوں تک کا مسح.
کُلّی۔ناک میں پانی,وضو کے بعد آسمان کی طرف انگلی کرنا.

حضرت محمد (ص) کا نام آنے پر انگوٹھے چومنا.

نماز کی ترتیب  اور رکعات کی تفصیل بھی قرآن سے ثابت نہیں.

کونسی نماز میں قرأت جہری ھے اور کونسی میں نہیں.

التحیات میں درود ابراہیمی.


اذان  کا الصلواۃ خیر من النوم تو دور پوری اذان بھی قرآن میں نہیں ھے.

بچے کے کان میں اذان.

 نکاح کا خطبہ.

جمعہ کی نماز کا خطبہ.

عید کی نماز کا خطبہ.

نماز جنازہ اور اسکی تکبیروں کی تعداد.

غسل میت غسل جنابت۔ غسل جمعہ۔غسل حیض.

خلفائے راشدین اور انکی شان میں نازل ہونے والی آیات.

 حضرت عمر کی فتوحات.

حضرت عثمان کی سخاوت.

اور خالد بن ولید کا سیف اللہ ھونا  بھی فقط کتب اسلامی سے ثابت ھو گا وگرنہ قرآن  سے تو  خالد  بن ولید کا دادا ولد الزنا ھی ثابت ہوگا. 

امہات المومنین کی تعداد اور ان کے فضائل .
حضرت عائشہ کہ دیگر ازاوج پر برتری صرف کتب اسلامی سے ھی ثابت ہو گی.

 ورنہ قرآن میں تو حضرت عائشہ کو توبہ کرنے کی وارننگ  موجود ھے .

اور نبی(ص) کو ان سے بہتر ، عبادت گذار پرہیزگار بیویوں کی پیشکش  ھی ملے گی.

 نبی پاک(ص) کے منہ سے شہد کی بدبو والی بات  اور بیویوں سے تنگ آکر 29 دن تک ’’ایلا‘‘ ((علیجدگی)) کتب اسلامی میں ملے گی.

پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرح ازواج النبی (ص) میں دھڑے بازی.


اگر کتب اسلامی سے انکار کر دیا جائے تو  ہمیں کون بتائے گا کہ قرآن  رسول اللہ (ص) کتابی شکل میں چھوڑ گئے تھے.

 یا  ہر خلیفے نے اپنے اپنے دؤر میں قرآن جمع کیا مگر جامع قرآن کا اعزاز ملی بھگت سے حضرت عثمان کو دے دیا گیا.

اس تحریر میں برادران پر تنقید,تعصب,یا اختلاف ابھارنا نھیں بلکه حقائق پر غور و  فکر دلانا مقصود ھے.

حضرت عمر نے آپنے دور خلافت میں بدعات کو فروغ دیا.

حضرت عمر نے آپنے دور خلافت میں جھاں بھت سے نۓ احکامات داخل کیۓ اور ایسی ایسی بدعات و خرافات داخل کیں جن پر شروع سے بھت سے اختلافات پیدا ھوۓ اور مذاھمت بھی کی گئی  وھی اختلافات آج تک چلے آ رھے ھیں.

.
جیسے نماز تراویح کا ایسا آغاز کیا اور شدت سے عمل کرنے پر مجبور کیا گیا که آج چوده سو سال کے بعد بھی لوگ روزه ترک کر لیتے ھیں مگر تراویح کو ترک نھیں کرتے حالنکه آپ نے خود بدعت تک کھا.

جبکه بدعت اسلام میں منع اور گناه عظیم ھے.
وھاں متعة الحج جیسی سنت کو بھی ترک کرایا گیا .

حالنکه ابن کثیر نے اس پر مکمل جرح کی ھے اور حضرت عائشه و حفصه اور حضرت علی ع  سمیت تمام مقتدر صحابه کی روایت کو اکھٹا کیا ھے.

 جن میں جابر بن عبدالله,ابن عباس,انس بن مالک,بکر بن عبدالله,ثابت البانی,حمید بن تیرویه,زید بن اسلم,حمید بن حلال,سالم بن ابی الجعد,سلمان بن طرخان,سوید بن حجیر,عبدالله بن زید, علی بن زید, قتاده بن دعامه,معصب بن سلیم,یحیی بن اسحاق, ابو الصقیل,ابو قدامه, الطراءبن عازب,سراقه بن مالک,سعد بن ابی وقاص,عبدالله بن ابی, عبدالله بن عباس,عبدالله بن عمر,عمران بن حصین, الرھاماس بن زیاد, وغیره .

یه سب متعة الحج کے قائل اور پاک نبی ص کی ادائیگی کی روایت کرتے ھیں.
حج کے ساتم عمره آپ نے آخری حج پر بھی ادا کیا ساتھ دو یا تین عمره کی ادائیگی کی روایات بھی ملتی ھیں.

اب کثیر  روایات  ھیں که حضرت عمر نے پابندی لگائی ھے .

جبکه دوسری جگه ایک روایت معاویه کے متعلق بھی ملتی ھے. .

مگر درج بالا روایات سے عمر کے متعلق ٹھوس ثبوت ھیں.

مگر ھم نے دونوں پیج سکین لگا دیۓ ھیں.

ھر راوی پر مکمل جرح اور  تفصیل جاننے کیلۓ .

البدایه والنھایه  جلد:5, ص:176 تا  237,
تک ملحاظه فرمائیں.

اونٹ تک زبح نه کر سکنے والے دین کی امامت کے اھل کیسے ھو گۓ.

:
برادران اھلسنت کو دعوت فکر

اونٹ تک زبح نه کر سکنے والے الله کے دین کی امامت  کیلۓ کیسے اھل ھو گۓ:

آخری حج پر قربانی ادا کرتے ھوۓ رسول الله ص نے سو انٹوں میں سے تریسٹھ اونٹ خود زبح کیۓ,

 باقی 37/ اونٹ  زبح کرنے کیلۓ سوا لاکھ اصحاب میں سے مولا علی ع کے سوا کسی کو  اھل نه پایا.

البدایه والنھایه:جلد:پنجم,ص:264/265.

دوسرا سکین:
رسول الله ص نے آخری حج کی واپسی پر غدیر خم کے مقام پر فضیلت حضرت علی ع پر ایک عظیم اور تاریخی خطبه دیا .

[(آخر یه خطبه دینے کی نوبت کیوں آئی اس پر ھم آنے والے دنوں میں البدایه ھی سے روشنی ڈالیں گے)]

آپ نے فرمایا آۓ لوگوں میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑ ۓ جا رھا ھوں قرآن و اھلبیت ع .

پھر آپ ص نے  فرمایا:

 الله میرا مولی ھے اور میں ھر مومن کا ولی ھوں.

 حضرت علی ع کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا جسے میں محبوب ھوں یه علی اس کا ولی ھے.

آۓ الله جو اس سے محبت کرۓ اس سے محبت کر جو عداوت رکھے اس سے عداوت رکھ.

بحواله :البدایه والنھایه:

 صفحه:290/291.

علامه ابن کثیر نے اسی خطبه پر آٹھ صفحات پر مختلف راویوں پر تفصیلی جرح کی ھے.

جبکه اسی واقعه غدیر پر اھلسنت کے عظیم مورخ اور مفسر قرآن ابو جعفر محمد  بن جریر طبری نے  دو جلدوں پر کتاب لکھی.

شیعه مذھب کے زوال کے اسباب

شیعه مذھب کے زوال کے اسباب:

کسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ھوسکتا ھے کہ ایک طرف تو وہ جھالت اور غربت و افلاس میں پس رھی ھو.

 اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ھو، وہ چیز جس نے آج شیعه قوم  کو بالکل بے بس بنا دیا ھے وہ قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات سے دوری اور آپس کا اختلاف ھے.

 سچ ھے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ھے: 

اگر تمھارے اندر اختلاف رھا تو اس کا نتیجہ یہ ھے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ھوجائے گی اور تم کسی قابل نہ رھو گے.
۔و اطیعوا الله و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ریحکم۔۔۔ انفال 46

مگر آج ھمارا حال یہ ھے کہ ھم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ھوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ھے کہ ھمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سیک رھا ھے اور ھمیں دکھا دکھا کر کھا رھا ھے اور ھم فقر و ناداری میں میں تڑپ رھے ھیں اور یہ نھیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ھورھا ھے.

امام خمینی رح اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ھیں:

 تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ھے چاھے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ھو 
6۔ صحیفہ نور ج8 ص 4

قرآنی تعلیمات سے دوری:

قرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ھی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ھے کہ انھیں خود بھی نھیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ھے.

 چنانچہ امام خمینی رح مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات سے دوری ھے.

 بدعات و خرافات کا رواج:

شیعت آج جن انگنت مسائل سے دوچار ھے ان میں ایک اھم مسئلہ یہ ھے کہ بدعتوں کو ھم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ھے گویا ھمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ھی نھیں ھوئی جو ھمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ھو، 

جو ھمارے لئے مشعل راہ ھو بلکہ جو کچھ ھے وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ھیں جنھیں ھمارا تقلیدی ذھن ھمیں انجام دینے پر اکساتا ھے .

اور ھم دین سے بے خبر بنا سوچے سمجھے انھیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رھے ھیں .
چنانچہ شھید مطھری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں: 
انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرھ پیمبر (ص) اور اھلبیت ع میں تحریف ھے.

 آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی ص 29.

لیکن ھمارا حال یہ ھے کہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ھوتا ھے جو ھمیں اچھا لگتا ھو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ھیں.

 حتیٰ که دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نھیں کرتے اور بے جا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رھتے ھیں کہ یہ چیز تو پھلے سے ھی اسلام میں موجود تھی .

کوئی نئی چیز نھیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ھے.

 اذا ظهرت البدعة فی امتی فلیظهر العالم علمه و الاّ فعلیه لعنة الله و الملائکة و الناس اجمعین، آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی نقل از سفینة البحار ج1 ص63.

حضرت علی (ع) کی سیرت آئینہ کی طرح شفاف ھے جس میں ھم اپنے اندر جو موجودہ نقائص کو آسانی کے ساتھ تلاش کرسکتے ھیں.

اسی لیۓ ھم تمام محبان اھلبیت ع کو قرآن و نھج البلاغه کی تعلیم پر زور دیتے رھتے ھیں.

کیونکه ھماری کامیابی کا رزا انھیں دو اھم آئینی کتب میں موجود ھے.

ھم ان کی تعلیمات پر عمل کرکے آپنی خامیوں کو دور کر سکتے ھین اور کامیابی کے راز بھی.

ھمیں دین و دنیا میں فلاح کی تلاش کرنا ھی کافی نھیں ھوگا جب تک ھم انھیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں اس لئے کہ آئینہ صرف نقائص کی طرف متوجہ کرتا ھے.

 اب اگر ھم متوجہ ھوکر بھی کوئی اقدام نہ کریں اور اپنے مسائل کے حل کرنے کے لئے تگ و دو نہ کریں تو پھر اپنی تمام بدبختیوں کے ذمہ دار ھم خود ھونگے.

شیعه مذھب کے زوال کے اسباب
شیعه مذھب کے زوال کے اسباب:

کسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ھوسکتا ھے کہ ایک طرف تو وہ جھالت اور غربت و افلاس میں پس رھی ھو.

 اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ھو، وہ چیز جس نے آج شیعه قوم  کو بالکل بے بس بنا دیا ھے وہ قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات سے دوری اور آپس کا اختلاف ھے.

 سچ ھے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ھے:

اگر تمھارے اندر اختلاف رھا تو اس کا نتیجہ یہ ھے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ھوجائے گی اور تم کسی قابل نہ رھو گے.
۔و اطیعوا الله و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ریحکم۔۔۔ انفال 46

مگر آج ھمارا حال یہ ھے کہ ھم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ھوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ھے کہ ھمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سیک رھا ھے اور ھمیں دکھا دکھا کر کھا رھا ھے اور ھم فقر و ناداری میں میں تڑپ رھے ھیں اور یہ نھیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ھورھا ھے.

امام خمینی رح اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ھیں:

 تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ھے چاھے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ھو
6۔ صحیفہ نور ج8 ص 4

قرآنی تعلیمات سے دوری:

قرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ھی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ھے کہ انھیں خود بھی نھیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ھے.

 چنانچہ امام خمینی رح مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات سے دوری ھے.

 بدعات و خرافات کا رواج:

شیعت آج جن انگنت مسائل سے دوچار ھے ان میں ایک اھم مسئلہ یہ ھے کہ بدعتوں کو ھم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ھے گویا ھمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ھی نھیں ھوئی جو ھمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ھو،

جو ھمارے لئے مشعل راہ ھو بلکہ جو کچھ ھے وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ھیں جنھیں ھمارا تقلیدی ذھن ھمیں انجام دینے پر اکساتا ھے .

اور ھم دین سے بے خبر بنا سوچے سمجھے انھیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رھے ھیں .
چنانچہ شھید مطھری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرھ پیمبر (ص) اور اھلبیت ع میں تحریف ھے.

 آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی ص 29.

لیکن ھمارا حال یہ ھے کہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ھوتا ھے جو ھمیں اچھا لگتا ھو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ھیں.

 حتیٰ که دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نھیں کرتے اور بے جا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رھتے ھیں کہ یہ چیز تو پھلے سے ھی اسلام میں موجود تھی .

کوئی نئی چیز نھیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ھے.

 اذا ظهرت البدعة فی امتی فلیظهر العالم علمه و الاّ فعلیه لعنة الله و الملائکة و الناس اجمعین، آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی نقل از سفینة البحار ج1 ص63.

حضرت علی (ع) کی سیرت آئینہ کی طرح شفاف ھے جس میں ھم اپنے اندر جو موجودہ نقائص کو آسانی کے ساتھ تلاش کرسکتے ھیں.

اسی لیۓ ھم تمام محبان اھلبیت ع کو قرآن و نھج البلاغه کی تعلیم پر زور دیتے رھتے ھیں.

کیونکه ھماری کامیابی کا رزا انھیں دو اھم آئینی کتب میں موجود ھے.

ھم ان کی تعلیمات پر عمل کرکے آپنی خامیوں کو دور کر سکتے ھین اور کامیابی کے راز بھی.

ھمیں دین و دنیا میں فلاح کی تلاش کرنا ھی کافی نھیں ھوگا جب تک ھم انھیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں اس لئے کہ آئینہ صرف نقائص کی طرف متوجہ کرتا ھے.

 اب اگر ھم متوجہ ھوکر بھی کوئی اقدام نہ کریں اور اپنے مسائل کے حل کرنے کے لئے تگ و دو نہ کریں تو پھر اپنی تمام بدبختیوں کے ذمہ دار ھم خود ھونگے.

پاکستان میں تشیع مشکلات کا شکار کیوں...

پاکستان بالعموم اور اس کے اندر بالخصوص تشیع گوناگوں مشکلات کا شکار ھے.

جن سے آپ سب برادران آگاه ھیں ان مشکلات میں سب سے بڑی وجه ایسی تعلیم کا فقدان ھے جو ھمارۓ سفر اور مسلکی مسائل کو حل کرنے کیلۓ بنیاد بن سکتی ھے.

وه ھے قرآن کی تعلیم جسکا خود الله تعالی نے اھتمام کیا ھے اور خود ھی اس کے معلم بھیجے ھیں.

سوره جمعه آیت :2, میں الله تعالی فرماتا ھےھے:
وھی ھے جس نے خوانده لوگوں میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ھے,

 اور انھیں پاکیزه کرتا ھے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے جبکه اس سے پهلے یه لوگ صریح گمراھی میں تھے .

اس تعلیم کے معلم خداوند نے خود چنے جسکا نصاب خود الله تعالی نے خود رکھا اور ان معلین کیلۓ طریقه تعلیم ,روش تعلیم,اور اس کا طریقه کار خود خداوند تعالی نے معین کیا اور اس طرح لوگوں کو گمراھی سے نکالا.

لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایک مخصوص طبقه جسکی آمدنی کا بڑا زریعه منبر حسین ع ھے.

یه لوگ اھل تشیع کی کثیر تعداد کو اس حقیقی تعلیم سے دور رکھ کر,

 آپنے کاروبار کو وسعت اور دفاع کرتے ھیں تاکه ان کا بزنس کسی مشکلات کا شکار نه ھو اور یھی کم علم اور سادۓ لوگ ان کے قیاسی اور فلسفانه ,خود ساخته عقائد و علم سے جڑۓ رھیں.

اور یه حقیقت ھے اس طبقه کی یه روش جو منبر سے جڑی ھے اصل میں ھمارۓ مذھب کی رسوائی, بدنامی اور پس ماندگی کا سبب ھیں .

یھاں ھم کچھ حقائق پیش کرتے ھیں.

وفاق المدارس ایک نیم سرکاری اداره ھے اس کے پانچ وفاق ھیں ان میں ایک شیعه مدارس کا  وفاق ھے.

گورنمنٹ کے ساتھ ان وفاق المدارس کا رابطه ھے انھیں کے ایک رکن کے بقول اھلسنت کے چار وفاق ھیں ایک اھلحدیث کا,ایک بریلوی,ایک دیوبند ,اور ایک جماعت اسلامی کا.اور ایک عام دیوبندی کا ھے جماعت اسلامی کا الگ وفاق ھے ان مدارس کا پورا حساب کتاب گورنمنٹ کے پاس ھے سواۓ جماعت اسلامی کے .

که کس وفاق کے پاس کتنے مدارس اور طلباء ھیں.

شیعه مدارس کی تعداد 470/اور ان میں طلباء کی تعداد شرمناک حد تک 3500/کے قریب ھے.

جبکه بریلوی مسلک کی دس لاکھ جو پاکستان کا اکثریتی مسلک ھے.
دیوبندی 25/لاکھ .

اور اسی طرح اھلحدیث  کی بھی 25 لاکھ سے زیاده ھے .

پانچواں وفاق جماعت اسلامی کا ھے جو خودمحتار ھے اس لیۓ اس کا ریکارڈ موجود نھیں ھے.

یه ھیں وه حقائق جن کی وجه سے ھم ان لوگوں سے کم منظم اور تفریق و اختلاف کا شکار ھیں اور آۓ دن منبر پر قابض کم علم لوگوں کا گروه  ھے جو نت نۓ نۓ عقائد و آفکار مذھب میں داخل کرتے جا رھے ھیں.

جنھیں ھماری بھولی بھالی قوم واه واه اور نعروں سے خیر مقدم کرتے ھوۓ آپنے ایمان  میں ڈھال رھے ھیں.

اور یه حالات مذید بگڑتے جا رھے ھیں کیونکه ھمارۓ ھاں قرآن و اھلبیت ع کی حقیقی تعلیم سے ھٹ کر خودساخته روایات و نظریات کے پرچار سے کفر و شرک بڑھ کر دوسرۓ مذاھب کے درمیان خلیج کا باعث بن رھا ھے.

اس طوفان کو روکنے کیلۓ منبر کے غلط استعمال کو روکنا اور علماء حقه کو آپنا کلیدی کردار ادا کرنا ھوگا.

اور مذھب میں داخل باطل نظریات و افکار کی مذمت کرتے ھوۓ حقیقی دینی تعلیم جو ھمیں قرآن و اھلبیت ع سے ملتی ھے عام کرنا ھوگی.

ھر قاری بھائی سے درخواست ھے وه شیعه عوام میں یه شعور اجاگر کریں اور پیار و محبت تحمل و بردباری سے ملت و مذھب میں باطل عقائد جدیدیه کے خلاف آواز اٹھائیں.

کیا اقرار ولایت علی ع کے بعد نماز,روزه,حج,زکواة واجبات الھیه معاف ھیں.

ھم خدا کے لئے حجت نہیں ھیں بلکه خدا کی حجت ھم اور تمام مخلوقات عالم پر ھے.
کیا اقرار ولایت اور معرفت اھلبیت ع کے بعد نماز,روزه,حج,زکواة معاف ھیں.

جو ایسا عقیده رکھے اس کا سر کچل دو فرمان امام علی نقی ع.

سھیل بن زیاد آدمی راوی ہیں کہ ہمارے دوستوں نے امام علی نقی  ع کے پاس خط لکھا: 
               اے میرے مولا و آقا

آپ پر ھماری جان فدا ھو، علی بن حسکه آپ کی ولایت (نیابت) کا دعویٰ کرتا ھے اور کہتا پھرتا ھے کہ آپ  اول و قدیم ہیں اور وہ آپ کا نبی نمائندہ ھے.

 اور آپ نے لوگوں کو اس بات کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا ھے، وہ یہ خیال کرتا ھے کہ نماز، حج، زکوٰة، اور یہ سب کے سب آپ کی حقیقت و معرفت ہیں.

 اور ابن حسکہ کی نبوت و نیابت جس کا وہ مدعی ھے اس کو قبول کرنے والا مومن کامل ھے.
 اور حج و زکوٰة و روزہ جیسی عبادات اس سے معاف ہیں,

اور شریعت کے دیگر مسائل اور ان کے معانی کو ذکر کیا ھے جو آپ کے لئے ثابت ہوچکا ھے .

اور بہت سارے لوگوں کا میلان بھی اس جانب ہصھے,
اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں تو کرم فرما کر ان کا جواب عنایت فرمائیں تاکہ آپ کے چاہنے والے ہلاکت سے بچ سکیں.

امام  نے جواب میں تحریر فرمایا:

 ابن حسکه جھوٹ بولتا ھے اس پر خدا کی لعنت ھو، تمہارے لئے یھی کافی ھے کہ میں اس کو اپنے چاہنے والوں میں شمار نہیں کرتا، اس کو کیا ہوگیا ھے؟.

            اس پر خدا کی لعنت ھو.

خدا کی قسم خدا نے محمد اکرم اور ان سے ماقبل رسولوں کو مبعوث نھیں کیا مگر یہ کہ دین نماز، زکوٰة ، روزہ، حج اور ولایت ان کے ہمراہ تھی،

 خدا نے خدا کی وحدانیت کے سوا کسی چیز کی دعوت نہیں دی اور وہ خدا ایک و لاشریک ھے،
 اسی طرح ہم اوصیاء (الٰہی) اس بندہ خدا کے صلب سے ہیں کبھی خدا کا شریک نہیں مانتے .

مگر ھم نے رسول  کی اطاعت کی تو خدا ہم پر رحمت نازل کرے اوراگر ان کی خلاف ورزی کی تو خدا عذاب سے دوچار کرے، 
ھم خدا کے لئے حجت نہیں ہیں بلکہ خدا کی حجت ہم اور تمام مخلوقات عالم پر ھے.

وہ جو کچھ کہتا ھے ان سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں اور اس قول سے دوری اختیار کرتے ہیں.

 خدا ان پر لعنت کرے ان سے دوری اختیار کرو، ان پر عرصہ حیات تنگ کردو اور ان کو کبھی گوشہ تنہائی میں پاو تو پتھر سے ان کا سر کچل دو.

ان باتوں سے بالکل واضح ھو جاتا ھے کہ دینی فرائض جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، حج، وغیرہ سے فرار کرنا غلو کی ایک قسم ھے.

بحار الانوار، ج:26,
 حدیث و محدثین، ہاشم حسنی,ص: 299.

جمعرات، 23 مئی، 2019

مسله خلافت , جانشین رسول ص کا حقدار کون..

اگر مسلمان خلافت کے مسله کو حل کرنا چاھیں تو صرف ان دو اھم واقعات کی روشنی میں تعصب اور ضد سے ھٹ کر  فیصله کر سکتے ھیں,

 که رسول الله ص کا حقیقی جانشین اور وارث کون ھے.

ایک وه موقع جب آپ نے آپنے واضح حکم سے غزوه تبوک کے موقع پر حضرت علی ع کو آپنا قائم مقام نائب بنایا.

 ساتھ یه بھی فرمایا که آۓ علی تمھیں مجھ سے وھی نسبت ھے جیسے ھارون کی موسی ع سے تھی ھاں مگر میرۓ بعد کوئی نبی نه ھو گا.

دوسرا موقع سوره برات کے نذول کا ھے جسمیں آپ ص نے حضرت ابوبکر کو بھیجا ,

مگر  الله کا حکم آنے  سے حضرت علی ع کو پیچھے بھیجا تاکه مشرکین تک اعلان برات کے پهنچانے کی زمه داری لیں.

 کیونکه الله تعالی کا حکم ھوا تھا که آپ آپنی اھلبیت میں سے حضرت علی ع کو بھیجیں.

اس واقعه سے برادران کی اس سوچ کی نفی ھوتی ھے که علی ع اصحاب میں سے ھیں, 

 بلکه یھاں  اھلبیت ع کے فرد ھونے کی وجه سے حکم الھی ھوا ھے.

دوسرا خلافت کا مسله حل ھوتا ھے جو الله پاک نے واضح کیا که آپ کا نائب یا قائم مقام وھی ھو سکتا ھے جو ھر لحاظ سے,علم سے تقوی سے شجاعت سے صلاحیت و اھمیت رکھتا ھو. 

بحواله: تاریخ ابن کثیر(البدایه والنھایه)جلد:5,ص:21,22/64,65.

:خلافت پر قبضه کیسے کیا گیا یه مکمل روداد ملحاظه فرمائیں 

بخاری شریف جلد:8, حدیث نمبر:6830.

 ص:182-183-184-185.
186-187-188-189-

حضرت عمر تسلیم کر رھے ھیں که ابوبکر کی بیعت اچانک ھو گئی تھی پھر چل بھی گئی.یه ناگھانی بیعت جو برائی تھی الله پاک نے ھمیں اسکی سزا سے بچاۓ رکھا. اور دعاء ھے که الله پاک ھمیں اس شر سے بچاۓ ھی رکھے.

حضرت عمر خود تسلیم کر رھے ھیں که یه خلافت جس پر ھم نے قبضه کیا یه ناں الله کے حکم پر ھوئی اور ناں ھی رسول الله ص کے حکم سے.

خدارا مسلمانوں عدل کرنا سیکھو اور تعصب و ضد سے اور دشمنی اھلبیت ع سے آپنی آخرت برباد نه کرو.

کتب بھی آپکی تحریر بھی آپکے چوٹی کے علما کی الفاظ بھی انھیں کے ھم نے صرف خبردار اور آگاه کیا ھے

یه سب رجم کے حکم پر دی گئی حدیث نمبر :6830/میں موجود ھے اھم صفات کے سکین لگا دیۓ ھیں.
ابو بریده بیان کرتے ھیں که میں حضرت علی ع سے ایسا بغض رکھتا تھا که اس قسم کا بغض میں نے کسی اور سے کبھی نھیں رکھا.

 اور میں نے قریش کے ایک آدمی سے محبت رکھی اور میں اس سے صرف بغض علی ع کی وجه سے محبت رکھتا تھا.

رسول الله ص نے کھا آۓ بریده کیا تم علی ع سے بغض رکھتے ھو میں نے عرض کی ھاں آپ نے فرمایا اس سے بغض نه رکھو اس کیلۓ خمس میں اس سے بھی زیاده حصه ھے.
اور سنو جس نے علی کو ازیت دی اس نے مجھے ازیت دی.مجھے حضرت علی سے بڑھ کر کوئی محبوب نھیں.

بحواله:
 البدایه والنھایه جلد:5/ص:152/153.

معلومات قرآن مجید

:معلومات قرآن

قرآن پاک میں حروف تھجی کا استعمال کونسا حرف کتنی مرتبه آیا ھے

قرآن پاک میں زبر:..39582,دفعه.

قرآن پاک میں پیش..88004.دفعه.

قرآن پاک میں مد:1771,دفعه.

قرآن پاک میں تشدید..1253,دفعه.

قرآن پاک میں کل اعراب(دو لاکھ دس ھزار تین سو اڑتیس) 210338,دفعه.

قرآن پاک میں نقطه :(ایک لاکھ پانچ ھزار چھ سو چوراسی).  105684,دفعه.

الف:ا.........48872,    دفعه.

ب......11428,   دفعه.

ت........10199,     دفعه

ث..........10277,

ج........3273,

ح........3993,     

خ........1416,    

د...........5642,   

ذ......4699,      

ر...........11799,   

ز.......1590,

س.........5891,

ش........2253,

ص........2013,

ض.........1607,

ط.......1274,

ظ.......842,

ع........9220,

غ........2208,

ف........8499,

ک.......9500,

ق.........6813,

ل..........30423,

م........26135,

ن.......26560,

و.......25536,

ه.......19570,

ی........25919,

ء......قرآن پاک میں بطور لفظ کھیں استعمال نھیں ھوا.

یه معلومات بستان العارفین اردو ص:661/662,

المعجم المفراس الالفاظ القرآن ص:783,

اور تدوین القرآن ص:124,

سے لی گئیں ھیں.

بدھ، 15 مئی، 2019

غالی ایک بھٹکی قوم ھے.

غالی امامت و ولایت کے معتقد تو ھیں لیکن ملتزم کس کے ھیں

یه بھٹکے لوگ زندگی کس کی ھدایت پر گزارتے ھیں ان کا آمر و فرمانروا کون ھے.
یه کن کے فرامین پر عمل کر رھے ھیں.

آیا جس امام ع کی محبت میں غلو تک کر جاتے کیا اس امام ع کے احکام پر عمل کرتے ھیں.

لیکن اگر اھل غلو صرف نظریه و عقیده رکھتے ھیں که ,
جناب علی ع الله کے ولی ھیں لیکن بات آپنے بابا,دادا کی اور محلے کے کسی شخص یا منبر پر قابض جاھل ناخوانده زاکر کی ماننی ھے,
تو پھر آپ ولایت کے ملتزم نھیں ھیں صرف معتقد ھیں.

لھذا صاف ظاھر ھے التزام کسی اور کی ولایت کا ھے اور اعتقاد کسی اور کی ولایت کایه صرف دھوکه  ھی دھوکه ھے.

   "تیری قسم کو مانوں
                             یا مرغے کی دم کو"

ایک آدمی نے مرغا چرایا اور آپنی چادر کے نیچے بغل میں چھپا لیا اور اس کا گله دبا لیا تاکه بولے نھیں.
جس کا مرغا تھا اس نے دیکھ لیا که یه مرغا چرا کر جا رھا ھے وه آگے بڑھا اور اس سے کھا که تو نے میرا مرغا چھپایا ھے.

تو اس نے قسم کھائی که میں نے نھیں چرایا چادر سے باھر مرغے کی دم لٹک رھی تھی.
 مگر یه شخص قسم کھا کر کھه رھا ھے که میں نے مرغا نھیں چرایا مگر مرغے کی دم بغل کے نیچے چادر سے ظاھر ھو رھی تھی.

مرغے کے مالک نے کھا که میں تیری قسم کو مانوں یا مرغے کی دم کو مانوں.یه متضاد بات ھے قسم کھه رھی ھے که مرغا نھیں ھے مگر دم ثابت کر رھی ھے مرغا تیری بغل میں ھے.

یه فارسی محاوره ھے که انسان کس چیز کو مانے,
 یھی قسم اور دم میں تضاد ھے .

اور یھی تضاد ھمیں غالیوں کے ظاھری دعوی محبت میں نظر آتا ھے,
 دعوی محبت اتنا که ھر عظمت و فضائل میں غلو نظر آتا ھے مگر مانتے مولا علی ع کی ایک نھیں.
مولا علی ع اور حسین ع نے  سجدے میں جان دی .
مگر یه نماز کو زنا سے تشبیح دیتے ھیں.

مولا علی ع فرماتے ھیں قرآن کی تعلیم پر فکر کرو مگر یه مانتے جاھل راگڑی زاکر کی ھیں.

مولا ع نے نماز کو ھی کامیابی کھا ھے مگر یه حقیقی نھیں بلکه رسمی عزاداری کو نماز پر ترجیح دیتے ھیں.

مولا ع کردار و عمل کو محبت قرار دیتے ھیں مگر یه لوگ مجلس میں واه واه نعرۓ اور گریه و ماتم کو ھی کافی,
 اور الفاظی,زبانی دعوی محبت کو زندگی کا  مقصد سمجھتے ھیں.

           ھر جگه تضاد ھی تضاد ھے.

زبان سے ولایت علی ع کا اقرار اور کردار علی ع سے انکار کرنے والے ھی اصل دشمن علی ع ھیں.

ولایت علی ع کی حقیقی گواھی سے مراد کیا ھے ؟ 

ھر انسان صبح سے شام تک بیسوں کام انجام دیتا ھے .

وہ دیکھتا ھے ، سنتا ھے ، بولتا ھے ، کام کاج کرتا ھے ، ملازمت ،تجارت ، زراعت ، کماتا ھے ، خرچ کرتا ھے ، بچت کرتا ھے ، دوستی کرتا ھے ، د شمنی کرتا ھے ، محبت اور نفرت کرتا ھے ، آرام اور تفریح کرتا ھے.

روحانی ترقی وتسکین کے لئے عبادت کرتا ھے. یہ سارے کام دنیا کا ھر انسان کرتا ھے گو اس کا تعلق کسی بھی مسلک ،، ملک ،، مذھب ۔ زبان یا نسل سے ھو.

 ولایت علی ع کے معنی یہ ھیں کہ ھم اپنے ان تمام افعال کو مولا علی ع کی سرپرستی میں انجام دیں اور ان تمام افعال میں حتیِ الامکان ان کی پیروی کریں.

گویا یہ ھمارے افعال ھیں جن کے ذریعے ھم گواھی دے رھے ھوتے ھیں کہ ھم علی کی ولایت میں ھیں یا کسی اور کی ولایت میں.

پس ولایت علی کی حقیقی گواھی ھمیں ان افعال اور کردار سے دینی ھے اگر ھم زبان سے علی ولی کھیں مگر اعمال میں کردار علی ع کا ذرا سا بھی رنگ نہ ھو,

تو ولایت علی ع کا دعویِ جھوٹا ھوگا.

اگر ھم نماز میں ان چیزوں کا اضافہ کر دیں جو مولا علی کی نماز میں نھیں تھی تو ھم ولایت علی ع کا دعوی کرنے کے باوجود عملی طور پر ولایت علی ع کی مخالفت کے مرتکب ھو رھے ھوں گے .

چونکہ آئمہ اپنی نماز میں شھادت ثالثه نہیں پڑھتے تھے .

لہِذا نماز میں شھادت ثالثه پڑھنا ولایت علی ع اور ولایت آئمہ کی کھلی خلاف ورزی ھے.

"
ازقلم :"سائیں لوگ

یاعلی مدد کھنا کھاں تک درست ھے.

سوال:   ھم ھر نماز میں ایاک نعبدو وایاک نستعین پڑھتے اور یا علی مدد اور ناد علی بھی پڑھتے ھیں,کیا یه شرک نھیں ھے.

جواب.....اگر الله کی بجاۓ کھتے ھیں تو پھر یه ضرور کھلا شرک ھے.

لیکن اگر الله کی بجاۓ نھیں کھتے بلکه الله کا وسیله سمجھ کر یا علی مدد کھتے ھیں تو پھر یه عبادت ھے.

مگر یا علی مدد کھاں کھنے کی ضرورت ھوتی ھے کیونکه علی ع تو مرد میدان ھیں ناکه ھم میں سے کوئی زیاده کھانا کھا لے پھر اٹھتے وقت کھے,

                            یا علی مدد

 حالنکه یه وقت یا میدان یا علی مدد کھنے کا نھیں بلکه احتیاط سے کھانے کا ھے .

اگر ھم سوئی میں دھاگه نه ڈال سکیں تو کھیں یا علی مدد.

تو یه کیسے ممکن ھے بلکه آجکل اکثریت یا علی مدد کھتے ھی ایسے کاموں میں ھیں,

 جب کوئی جواری جوا ھار رھا ھو تو کھے یا علی مدد یا چور دیوار پھیلانگے تو کھے یا علی مدد (نعوذ بالله) تو یه توھین یا علی مدد ھے.

سب سے پهلے یه شعور پیدا کرو که یا علی مدد کھنا کب چاھیۓ.یا علی مدد کھنے کیلۓ ھم کھڑۓ کھاں ھیں.
وه کونسا میدان ھے جھاں ھمیں یا علی مدد کھنا چاھیۓ.

ھمیں حق کیلۓ جب کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں,
 پنجه آزمائی کریں دشمن اسلام  سے نبرد آزما ھوں,
 اس وقت ضروری ھے ھم الله کی نصرت کے ساتھ مرد میدان کی زینت ھونے کے ناطے یا علی مدد کھیں,
 تو یعقینا مولا علی ع ھماری مدد فرمائیں بتوسط الله تعالی کیونکه سب سے بڑا مشکل کشاء تو صرف الله تعالی کی زات ھے .

اگر مولا علی ع ھماری مشکل کشائی کر سکتے ھیں تو یه بھی الله کی ھی طاقت سے ممکن ھے.

کیونکه الله پاک نے ھی ھماری مدد کی طاقت دی ھو ئی ھے.

مولا علی ع نے ھر میدان میں دشمن دین اسلام کو چت کیا ناکام کیا آپ ع نے فتح پائی,
 تو یعقینی ھے که ھم شیر خدا کو ھی مدد کیلۓ پکاریں گے جنھیں میدان جنگ میں کبھی شکست نھیں ھوئی.

مولا علی ع بھی انکی مدد کرتے ھیں جو حق و سچائی پر دیوار آھنی کی طرح ڈٹ جاتے ھیں جن کے اندر حوصله و ھمت ھوتی ھے
"ازقلم:" سائیں لوگ

الله تعالی کے علاوه کسی کو دین بنانے کا اختیار نھیں.

الله کے علاوه کسی کو دین بنانے کا حق نھیں ھے.

الله کا کام دین بنانا ھے لھذا ھدایت کے قانون الله تعالی نے بنانے ھیں انبیاء و آئمه علیھم اسلام نے اس دین کو پھنچانا و نافذ و لاگو کرنا ھے .

علماء نے اس دین کو سمجھنا ھے پھر اس دین کی تبلیخ کرنی ھے.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...