Saieen loag

جمعہ، 8 مارچ، 2019

منبر پر چیخنے کی منطق.

جھوٹ یا سچ پر مبنی آپنی بات منوانے کیلۓ چیخنے و چلانے کا کتنا دخل ھے.

ایک زمانه تھا جب ھر بنده,عالم,زاکر مھذب,خوش اخلاقی,آرام سے آھسته سے سمجھا سمجھا کر خطاب کرتے تھے.

مگر اب جب تک پورا زور اور چیخ کر بات نه کی جاۓ کوئی بات کا وزن ھی نھیں لیتا.

پهلے سپیکر بھی نه تھے اس دور میں زاکر,عالم آرام سے آپنی بات آخری مومن تک پهنچاتے,بات میں اثر ھوتا تھا مومینین سمجھتے اور عمل کرتے تھے.

اب ایک نھیں کئی ساونڈ سپیکر ھوتے ھیں,
 پھر بھی زاکر یا خطیب کھتا ھے ساونڈ سسٹم والے کو که زرا آواز بڑھا دو.

کیونکه وه شور بڑھا کر چیخ چلا کر گرج دار آواز سے خوب داد اور واه واه سمیٹنا چاھتا ھے.

اور حاضرین مجلس بھی چلائی بات پر زیاده توجه  اور یعقین کرتے ھیں.  

بدقسمتی سے ھمارۓ منبروں پر یه روش قائم ھو گئی ھے,

 جب تک آپنی بات پورا پھیپھڑوں کا زور,پیٹ کا زور,

تمام تلی کا زور,دل کا زور,جگر کا زور,معدۓ کا زور اور انتڑیوں کا زور نه لگائیں بات کی اھمیت کو قبول ھی نھیں کیا جاتا.

اس میں خطیب,زاکر اور حاضر سامیعین دونوں عادی ھیں.

یه وه لوگ ھیں جن کی عقل کانوں میں آ گئی ھے.

جو بھت چیخ کر بات کرۓ تو ھم کھتے ھیں که یه سچی بات ھے ورنه اتنا زور نه لگاتا.

ایک زاکر کو طبیب نے کھا اتنا زور کیوں لگاتے ھو تمھاری انتڑیاں پھٹ جائیں گی.
اتنا زور لگانے کی ضرورت نھیں آرام سے بولو اتناکه تمھاری بات آخری بندۓ تک پهنچ جاۓ.

مگر خطیب اتنا زور اس لیۓ لگاتا ھے که اگر ھم زور سے بولیں گے تو حاضرین مجلس متاثر ھوں گے وه سمجھیں گے که بات درست بیان کی جا رھی ھے.

اگر آرام سے بولیں گے تو یه مطلب لیں گے که بات صحیح نھیں کر رھا اس لیۓ ڈھیلی آواز میں بات کر رھا ھے.

مگر برادران آپ سوچیں یه کون لوگ ھیں جو اگر کوئی زور سے بولیں تو مان لیتے ھیں.
اگر زور سے نه بولیں تو نھیں مانتے.

یه وه لوگ ھیں جنکی عقل ان کے کانوں میں آ گئی ھے.
وگرنه اگر عقل میں ھوتے تو پھر سن کے سوچتے که جو کچھ بیان کیا جا رھا ھے یه درست ھے یا غلط.
"
ازقلم :"سائیں لوگ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...