Saieen loag

بدھ، 1 مئی، 2019

غالیوں کا جھوٹ پکڑا گیا...مولا علی ع خود آپنا رزق الله تعالی سے مانگ رھے ھیں.

غالی کا جھوٹ پکڑا گیا 

               مولا علی ع خود رزق الله تعالی

 سے مانگ رھے ھیں.

غالیوں کا ایک عقیده یه بھی ھے که رزق دینا اور تقسیم کرنا اللله پاک کا کام نھیں بلکه مولا علی ع کا کام ھے. بریلوی کھتے ھیں یه کام نه اللله کا ھے اور نه مولا علی ع بلکه پاک نبی ص کا کام ھے.

جب که قرآن مجید ان دونوں گرھووں کے عقیده کی نفی کرتا ھے اور اس عقیده کے لوگوں کو اللله کا شریک ٹھرانے پر مشرک قرار دیتا ھے.

ھم نے 13,سورتوں میں سے 19,کے قریب ایسی آیات تلاش کی ھیں.
(ابھی تلاش جاری ھے)
 جو غالیوں کے اس دعوی پر پانی پھیرتے ھوۓ شرک کے کٹھیرۓ میں لا کھڑا کرتی ھیں.
انکی وضاحت" رزق کا اختیار کس کے پاس ھے"
 کی پوسٹ میں ملحاظه کی جا سکیں گی.

مختصر یه که ھم نے نھج البلاغه میں ایک خطبه تلاش کیا ھے جسمیں مولاۓ کائینات ع نے غلو والوں کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ھے .اب ھونا تو یه چاھیۓ که جو نور ھے اسے رزق کی ضرورت ھی ناں ھو. دوسرا اگر عبد خدا ھے اور رزق دینا یا اسکا تقسیم کرنا مولا ع کے زمےھے تو پھر بارگاه الھی میں مناجات کیوں کر رھے ھیں که یا اللله مجھے رزق کے معامله میں بد کردار لوگوں کا محتاج نه کرنا.
دعائیه خطبات اور عاجزی کی مناجات اور بھی ھیں جو ضرورت پڑنے پر پیش کی جاسکتی ھیں. پر یه ھنگاما پوسٹ کی جا رھی ھے تاکه برادران اب غالیوں کی بدحواسی قیاس رنگینی,تاویلیں اور  فلسفه  جھالت ملحاظه فرما سکیں.

الله کے دین کی امامت کیلۓ اھل کون....

برادران اھلسنت کو دعوت فکر

اونٹ تک زبح نه کر سکنے والے الله کے دین کی امامت  کیلۓ کیسے اھل ھو گۓ

آخری حج پر قربانی ادا کرتے ھوۓ رسول الله ص نے سو انٹوں میں سے تریسٹھ اونٹ خود زبح کیۓ,

 باقی 37/ اونٹ  زبح کرنے کیلۓ سوا لاکھ اصحاب میں سے مولا علی ع کے سوا کسی کو  اھل نه پایا.

البدایه والنھایه:جلد:پنجم,ص:264/265.

دوسرا سکین:
رسول الله ص نے آخری حج کی واپسی پر غدیر خم کے مقام پر فضیلت حضرت علی ع پر ایک عظیم اور تاریخی خطبه دیا .

[(آخر یه خطبه دینے کی نوبت کیوں آئی اس پر ھم آنے والے دنوں میں البدایه ھی سے روشنی ڈالیں گے)]

آپ نے فرمایا آۓ لوگوں میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑ ۓ جا رھا ھوں قرآن و اھلبیت ع .

پھر آپ ص نے  فرمایا:

 الله میرا مولی ھے اور میں ھر مومن کا ولی ھوں.

 حضرت علی ع کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا جسے میں محبوب ھوں یه علی اس کا ولی ھے.

آۓ الله جو اس سے محبت کرۓ اس سے محبت کر جو عداوت رکھے اس سے عداوت رکھ.

بحواله :البدایه والنھایه:

 صفحه:290/291.

علامه ابن کثیر نے اسی خطبه پر آٹھ صفحات پر مختلف راویوں پر تفصیلی جرح کی ھے.

جبکه اسی واقعه غدیر پر اھلسنت کے عظیم مورخ اور مفسر قرآن ابو جعفر محمد  بن جریر طبری نے  دو جلدوں پر کتاب لکھی.

حقانیت کی علامت "سائیں لوگ"

چند احباب کا خیال ھے که ھم علماء پرست ھیں

جی بلکل ھم علماۓ حقه جو زھد و تقوی میں غرق ھیں انکی عزت و حرمت کے پابند ھیں بلکه خود خالق اکبر علم اور عالم کے بارۓ میں سوره زمر ع:9,
میں نصیت فرمائی ھے.

باقی پاک نبی ص نے فرمایا:
 شیعیه مذھب کی معتبر کتاب من لا یحضره الفقیه جلد دوم ص:205,
میں روایت ھے که عالم کے چھرۓ کی طرف دیکھنا بھی عبادت ھے.
( بحواله:مفاتیح الحیات از آیت الله جوادی آملی )

بلکه اتنا ثواب که ھزار غلاموں کو آزاد کرنے سے زیاده ھے جامع الاخبار میں بھی یه حدیث موجود ھے.

دوسری وضاحت یه که ھم علماء حقه کی قدر قرآن و احادیث نبوی ص اور ان کےع علم و ھدایت صالح اور تقوی کی بنا پر کرتے ھیں.

کیونکه وه ھمیں جینے,رھنے,سھنے, ادب و معرفت قرآن و اھلبیت ع کے متعلق آگاھی  دیتے ھیں لھذا ان کا ادب و احترام واجب ھے.

باقی کوئی وجه نھیں نه ھی ھمیں علماء کے جم گٹھا میں رھنے کا موقر ملا اور نه ھی علماء کی رفاقت ملی که ھم ان سے متاثر ھو کر انکی حرمت کے قائل ھیں نھیں بلکه ھم قرآن و اھلبیت ع کے فرامین کی روشنی میں انکی عزت و حرمت کے قائل ھیں.

باقی نه   کسی درس میں پڑھے ھیں نه پڑھایا دنیاوی تعلیم حاصل کی اور زریعه معاش کی خاطر آپنے کاروبار پر لگ گۓ.

برادران کیلۓ اصلاح عقائد پر تحریریں لکھنا اس میں کوئی زاتی,دنیاوی مفاد کا راز پوشیده نھیں.

جب وقت ملتا ھے تو آپ برادران کیلۓ کچھ لکھ لیتے ھیں خالی لعن و تعن اور اخباری تحریریں نھیں بلکه مقصد حاصل لکھتے ھیں تاکه مومنین کرام و دیگر مسالک کے برادران کو حق کی طرف غور و فکر پر دعوت دی جاۓ.

کچھ آپنے مذھب میں پیدا شده بدعات و عقائد پر بھی لکھنا لازم ھوتا ھے کیونکه دوسروں کو نیکی یا راه حق دکھلانے سے پهلے خود کو پهلے اس قابل بنایا جاۓ.

چنانچه اگر ھم دوسرۓ مذھب کی عبادات کو بدعت کھتے ھیں جیسے تراویح   و گیارھویں شریف وغیره .

تو لازم ھے که اس طرح کی خرافات ھم میں نه ھوں.

اگر ھم خود ان بدعات میں غرق ھوں تو پھر یه قطعا حق نھیں پهنچتا که ھم دورسروں کی عبادت پر انگلی اٹھائیں یا طنز و تنقید کریں.جبکه وھی عمل ھم خود کر رھے ھوں

اسی راه حق کی نشاندھی کرنے پر ھمیں گالی گلوچ اور لعن تعن کا نشانه بنایا جاتا ھے جو سراسر گناه کے سوا کچھ نھیں.

یه عمل کم علم اور منفی سوچ حضرات کرتے ھیں جن کے پاس علم و آگاھی پر ظرف برداشت کرنے کی صلاحیت بھت کم لیول پر ھوتی ھے.

یھی کثرت مخالفت ھمیں حق پر ھونے کا یعقین دلاتی ھے.

کثرت دشمن و شدت دشمنی یه سب سے بڑی حقانیت کی علامت ھے که ھم درست راه پر جا رھے ھیں.

اگرچه ھمیں یه پسند نھیں که ھمارۓ دشمن زیاده ھوں لیکن اگر دشمن کم کرنے ھوں تو پھر راه حق سے ھٹنا پڑۓ گا تو یعقینی طور پر دشمن کم ھو جائیں گے.

 لیکن دوسری طرف ھمیں حق سے محروم ھونا پڑۓ گا.

لھذا ھم کثرت دشمن سے خوفزده نھیں اور نه ھی فیس بک کی دوستی کو ھم ایمان اور راه فلاح پر قربان کرنے کا سوچ سکتے ھیں.

چونکه کلمه حق ھماری حقانیت کی علامت ھے اور دشمن اھلبیت ع کے آگے سرنگھوں ھونا ایک مومن کے شان شایان نھیں ھے.

بلکه بھولے بھالے برادران کی غیر زمه دارانه اور گالی گلوچ کے کمنٹس کو بالاۓ طاق رکھتے ھوۓ ھم صبر و استقامت سے قرآن و اھلبیت ع کی طرف سے پڑھایا گیا خالص سبق کا پرچار جاری رکھنے کا اعاده کرتے ھیں.

آنے والی ھر مشکلات کا حل بھی پاک پرودگار نے ھمیں دیا ھے ھم اس حل پر یعقین رکھتے ھیں جسکا رسول الله ص ,شھزادی کونینین سلام الله علیهه ,مولا علی ع اور شھداۓ کربلا نے تلاش کیا.

 ھم حقیقی پیروکار ھونے کے ناطے انھیں کی سیرت پر مشکلات کے حل کی تلاش میں ھیں. یعقینا وه دنیا میں ظاھری زلت اور آخروی نجات میں کامیابی کی صورت میں ملے گا.

امام ابن تیمیه :غالیوں کی وجه سے ناصبی گروه پیدا ھوا.

اھلسنت کے مشھور مورخ اور امام ابن تیمیه نے بھی ناصبیوں کی اھلبیت علیه اسلام سے دشمنی کا سبب شیعیه اثناۓ عشریه نھیں بلکه غالیوں کو قرار دے دیا.

مذید تشریح میں لکھتے ھیں جس طرح غالیوں نے عظمت مولا علی ع و دیگر اھلبیت ع میں غلو کیا ان کے رد عمل میں اھلسنت میں بھی ناصبی وجود میں آۓ انھوں عظمت گھٹانے اور اھلبیت ع سے دشمنی میں کوئی کسر نه چھوڑی.

اسی لیۓ امام علی ع نے پهلے ھی کھه دیا تھا جس نے مجھ سے محبت میں افراط و تفریط, غلو و تقصیر سے کام لیا اس بد بخت کا ستیا ناس ھو گیا.

بحواله نھج البلاغه:حکایت نمبر:117,
ارشاد نمبر:469,
خطبه نمبر:127.

شیخ ابن تیمیه آور غالی ,ناصبی

ابن تیمیه....اور  غالی و ناصبی

ناصبیوں کے وجود کے زمه دار غالی ھیں.
ابن تیمیه نے صاف صاف کھه دیا.

تصیح:
(پهلے غلط سکین پر تشریح چلی گئی) 

اھلسنت کے مشھور مورخ اور امام ,ابن تیمیه کا "غالی اور ناصبی سے براءت کا اظھار:

بحواله:شرح عقیده واسطیه مصنف ابن تیمیه. ص:502,

ابن تیمیه جس کی پهچان ایک دشمن اھلبیت ع کے طور پر جانی جاتی ھے بھت سے ایسے واقعات اور فضیلت اھلبیت ع پر اس مورخ نے گتھی الجھانے ,

اور بھت سی روایات کو جو اھلبیت ع کی فضیلت پر ھیں انھیں رد کرنے کی کوشش کی .

ھمیں انکی شخصیت اور تحقیق سے کافی اختلاف ھے یه وه مورخ ھے جس نے واقعه کربلا پر کافی اعتراض اور یذید کے حق میں کام کیا.

ان سب باتوں کے باوجود ایک بات انھوں نے بھت اچھی کی اھلبیت ع کی عظمت و فضیلت کا اقرار کیا

( جو  آگے ھم آنے والی پوسٹ میں بیان کریں گے) 

اب جو بات درست کی وه ھے غالی اور ناصبیوں سے اظھار براءت.

دونوں سے عاری ھیں اور دونوں کو باطل اور ان کے افکار کو رد کرتے ھیں.

یھی بات ھم خالص اثناۓ عشریه کے پیروکار دھراتے ھیں اور غالی,نصیری,مقصر,اور ناصبیوں سے اعلان براءت کے ساتھ ان سب پر کھلی لعنت کرتے ھیں.,

شیخ ابن تیمیه کا غالیوں سے بیزاری

:شیخ ابن تیمیه کا غالیوں سے اظھار بیزاری 

امام اھلسنت ابن تیمیه جیسے بغض اھلبیت ع میں غرق مورخ  نے بھی اھلبیت ع کو منتخب شده  عندالله مخلوق اور پسندیده لوگوں میں شمار کیا اور ان سے مجبت و نصرت لازم قرار دی.

 شیخ تیمیه نے بھی غالیوں سے نفرت اور بیزاری کا اظھار کیا ھے.
شرح عقیده واسطیه ص:497.
مصنف شیخ ابن تیمیه.

حضرت عمر کے ساتھ نکاح سیده ام کلثوم بنت علی ع أور مولانا جلال الدین سیوطی کی تحقیق.

نکاح سیده ام کلثوم بنت علی ع اور علامه جلال الدین سیوطی کی تحقیق

اصل میں جس ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے ھوا وه حضرت ابوبکر کی بیوی اسماء بنت عمیس سے تھیں جنھوں نے حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی سے نکاح کیا.

اس ام کلثوم کا نکاح حضرت عائشه کی پرزور سفارش پر عمر بن خطاب سے کیا.
بحوالا :ام کلثوم و شرح کنز مکتوم مولف :سید منشی سجاد حسین.
طراز المذھب مظفری مصنف مرزا عباسی.

اب ھم آتے ھیں اھلسنت کے عظیم مصنف و مورخ علامه جلاالدین سیوطی کی کتاب مسند فاطمه زھرا رض, 118/119/120,
مکمل سکین پیش ھیں.

عبارت ھو بھو پیش کی جاری ھے ھماری طرف سے ایک لفظ کی بھی کمی یا اضافه نھیں .

مستضل بن حصین رض سے مروی ھے که عمر بن خطاب نے مولا علی رض سے آنکی بیٹی کا رشته مانگا آپ نے نا بالغ ھونے کا عزر کیا مگر حضرت عمر نے اصرار کیا که وه با راده مجامعت نھیں کھتا بلکه فرمان رسول ص که میرۓ نسبی تعلق کے سوا قیامت کو ھر نسبی تعلق منقطع ھو جاۓ گا.
ھر مولود کا نسب باپ سے ھے لیکن اولاد  فاطمه کا باپ اور نسبی وارث میں ھوں.

وضاحت مزکوره روایت الفاظ و معنی کے تفاوت سے مختلف کتب حدیث اور سیرت و تاریخ میں مذکور ھے جن میں کتب اھلسنت کے علاوه تشیع کی کتاب فروع کافی,کتاب الابصار اور تھذیب الحکام وغیره بھی شامل ھیں.

اس مسله پر علماء و محقیقین نے بڑی بحث کی ھے اور رویتة و درایتة اسے محل نظر قرار دیا ھے.

اس کا خلاصه یه ھے که اس نکاح کا تذکره صحیح بخاری,عمدة القاتی,فتح الباری ,طبقات ابن سعد,معارف ابن قتیبه اور جمھرة انساب العرب وغیره معتبر کتب شامل ھیں جنمیں اس نکاح بارۓ انکار نھیں کیا.

علماۓ عرب نے بھی اس اثبات پر بھت کتابیں لکھیں ھیں.
مثلا سید احمد ابراھیم,ابو معاز اسماعیلی نے کتاب زوج عمر بن خطاب من الکلثوم بنت علی حقیقة لا افترا" 
جبکه وه علماء جو ان قائلین کے جواب میں کھتے ھیں که حدیث یا تاریخ کی کتاب میں کسی روایت کا مذکور ھونا ھرگز سچ ثابت ھونا نھیں که رویت معتبر ھو.

صحیح بخاری جو کتاب الله کے بعد سب سے افضل مانی جاتی ھے .
لیکن اس کے باوجود بھی بخاری کے بعض راویوں اور روایات پر امام حجر عسقلانی, نے فتح الباری,میں سندا ومتنا کلام کرکے بعض راویوں کو ضعیف اور فاسد العقیده لکھا ھے.

اسی طرح امام بدرالدین عینی حنفی نے بھی آپنی تصنیف"عمدة القاری" میں بخاری کے بعض راویوں کی روایات پر حکم ضعیف لگایا ھے.

اور جرح کی ھےمشھور سیرت نگار قاضی عبدالروف دانا پوری نے بھی اصح السیر میں بخاری شریف کی روایات پر کلام کیا ھے.اور لکھا ھے که امام بخاری کی احتیاط کے باوجود بھی کچھ روایات و راوی مجروح ھیں.علامه شامی حنفی نے شرح عقود رسم المفتی میں بھی یه بات تحریر کی ھے.

اس نکاح سے انکار والے بھی یھی کھتے ھیں که یه روایة اور داریة ھر دو طرح سے محل نظر ھے.
کیونکه امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں لکھا که ام کلثوم بنت علی ع سے عمر فاروق کا نکاح 17/ھ میں ھوا .

علامه شبلی نعمانی نے الفاروق میں امام ابن حبان کی تائید کی ھے اور 17/ھ ھی تسلیم کیا ھے.

نیز لکھا بوقت نکاح عمر پانچ سال کی تھی.زیر بحث روایت میں بھی یھی لکھا ھے.
اسی لیۓ امام علی ع نے نابالغ ھونے کا عزر پیش کیا.
11/ھ میں سیده فاطمه زاھره س کا انتقال ھوا ھے تو ماں کے وصال کے بعد بیٹی کی ولادت کس کھاتے میں جاۓ گی.

مولانا اکبر شاه خان نجیب آبادی نے تاریخ اسلام میں نکاح کا سال 7/ھ لکھا ھے.اور بطن سے رقیه و زید کی ولادت کا زکر بھی کیا ھے.
قابل غور یه ھے که یه نکاح 6/7 سال قبل ھوا اور ام کلثوم بعد میں پیدا ھوئیں.

امام عبدالباقی زرقانی نے شرح المواھب میں لکھا که حضرت عمر آپنی زوجه بنت علی کے بالغ ھونے سے قبل فوت ھوۓ.

سوچنے کی بات یه ھے که ایک نا بالغ بچی کس طرح ماں بن گئی ھے.

سنن نسائی کے باب تزوج المراة مثلھا فی السن کے تحت روایت کی ھے که شیخین نے جب رسول الله سے رشته مانگا تو آپ ص نے صغر سنی کا عزر پیش کیا اور انکار فرمایا.

وضاحت میں علامه سندی نے لکھا که خاوند اور بیوی میں باھمی محبت کیلۓ دونوں کا ھم عمر ھونا لازمی ھے.

سیده فاطمه س اور شیخین کی عمروں میں واضح فرق کا وجه انکار تھا.
اسی طرح کا عمر نے بھی ایک فیصله بھی کیا تھا.اور کھا که الله سے ڈرو ھم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کا نکاح کیا کرو.
سمجھ نھیں آتی که پھر حضرت عمر نے واضح سنت سے انحراف کیسے کیا.
که ایک نابالغ لڑکی سے نکاح پر اصرار کیا.
دوسرا پھر ام کلثوم سے اولاد کا ھونا بھی واضح تضاد ھے.
اس نکاح کے بعد بھت سی حیا سوز باتوں کا کتب میں بھی زکر ملتا ھے.
(یه میں خود ایک ریسرچ کے دوران پاکستان کی سب سے بڑی لائیبریری میں رکھی کتب میں واقعی پڑھ چکا ھوں جو ناقابل بیان ھیں).

اب صحیح بخاری کے اس روایت کے راوی سفیان بن وکیع ھے جو امام نسائی کے نذدیک ضعیف ھے امام حجر عسقلانی کے نذدیک ناقابل اعتبار,_امام ابو زرعه کے نذدیک جھوٹا اور ابن ابی حاتم کے مطابق اس کی روایت ناقابل اعتماد ھے.

دوسرا راوی ثعلبه بن ابی مالک ھے اسماء و رجال کی کتابوں میں اس کا کوئی زکر ھی نھیں اس لیۓ یه مجھول الحال راوی ھے.
لھذا سندا یه روایت ھی مجروح ھے.

قرآن کریم کی صریح آیات  میں نکاح کے مصالح مذکور ھیں مثلا خاوند بیوی کی باھمی محبت ایک دوسرۓ کی عزت و عفت کی حفاظت اولاد کی افزائش و تربیت جسمانی اور زھنی تدکین و اطمنیان گھر کے ماحول کو پر سکون بنانے کیلۓ ایک دوسرۓ سے تعاون,باھمی رازداری,نسل انسانی کی بقاء پر امن معاشرۓ کا قیام دنیا و آخرت میں کامیابی کیلۓ مخلصانه کوششیں وغیره قابل غور ھیں قابل غور امر یه ھے که جو بچی ابھی گڑیوں سے کھیلنے کی عمر ھو مذکوره بالا نکاح کے مصالح کس طرح پوری کر سکتی ھے.
پھر قرآن میں نساء سے نکاح کا حکم دیا گیا یه لفظ ایک بالغ عاقل اور باشعور عورت کیلۓ بولا جاتا ھے.

انھیں واقعات کو بنیاد بنا کر غیر مسلم پاک نبی ص سمیت اسلام کو بدنام کرتے ھیں که مسلمان نابالغه بچیوں سے شادی کو جائز سمجھتے ھیں.
لھذا مذکوره نکاح کی جمله روایات میں نظر ثانی اور حقائق و دلائل کو تسلیم کرنا چاھیۓ.

تشیع کے زوال کے اسباب

                                    :شیعه مذھب کے زوال کے اسباب


کسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ھوسکتا ھے کہ ایک طرف تو وہ جھالت اور غربت و افلاس میں پس رھی ھو.

 اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ھو، وہ چیز جس نے آج شیعه قوم  کو بالکل بے بس بنا دیا ھے وہ قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات سے دوری اور آپس کا اختلاف ھے.

 سچ ھے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ھے: 

اگر تمھارے اندر اختلاف رھا تو اس کا نتیجہ یہ ھے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ھوجائے گی اور تم کسی قابل نہ رھو گے.
۔و اطیعوا الله و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ریحکم۔۔۔ انفال 46

مگر آج ھمارا حال یہ ھے کہ ھم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ھوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ھے کہ ھمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سیک رھا ھے اور ھمیں دکھا دکھا کر کھا رھا ھے اور ھم فقر و ناداری میں میں تڑپ رھے ھیں اور یہ نھیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ھورھا ھے.

امام خمینی رح اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ھیں:

 تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ھے چاھے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ھو 
6۔ صحیفہ نور ج8 ص 4

قرآنی تعلیمات سے دوری:

قرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ھی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ھے کہ انھیں خود بھی نھیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ھے.

 چنانچہ امام خمینی رح مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات سے دوری ھے.

 بدعات و خرافات کا رواج:

شیعت آج جن انگنت مسائل سے دوچار ھے ان میں ایک اھم مسئلہ یہ ھے کہ بدعتوں کو ھم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ھے گویا ھمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ھی نھیں ھوئی جو ھمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ھو، 

جو ھمارے لئے مشعل راہ ھو بلکہ جو کچھ ھے وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ھیں جنھیں ھمارا تقلیدی ذھن ھمیں انجام دینے پر اکساتا ھے .

اور ھم دین سے بے خبر بنا سوچے سمجھے انھیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رھے ھیں .
چنانچہ شھید مطھری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں: 
انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرھ پیمبر (ص) اور اھلبیت ع میں تحریف ھے.

 آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی ص 29.

لیکن ھمارا حال یہ ھے کہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ھوتا ھے جو ھمیں اچھا لگتا ھو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ھیں.

 حتیٰ که دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نھیں کرتے اور بے جا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رھتے ھیں کہ یہ چیز تو پھلے سے ھی اسلام میں موجود تھی .

کوئی نئی چیز نھیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ھے.

 اذا ظهرت البدعة فی امتی فلیظهر العالم علمه و الاّ فعلیه لعنة الله و الملائکة و الناس اجمعین، آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی نقل از سفینة البحار ج1 ص63.

حضرت علی (ع) کی سیرت آئینہ کی طرح شفاف ھے جس میں ھم اپنے اندر جو موجودہ نقائص کو آسانی کے ساتھ تلاش کرسکتے ھیں.

اسی لیۓ ھم تمام محبان اھلبیت ع کو قرآن و نھج البلاغه کی تعلیم پر زور دیتے رھتے ھیں.

کیونکه ھماری کامیابی کا رزا انھیں دو اھم آئینی کتب میں موجود ھے.

ھم ان کی تعلیمات پر عمل کرکے آپنی خامیوں کو دور کر سکتے ھین اور کامیابی کے راز بھی.

ھمیں دین و دنیا میں فلاح کی تلاش کرنا ھی کافی نھیں ھوگا جب تک ھم انھیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں اس لئے کہ آئینہ صرف نقائص کی طرف متوجہ کرتا ھے.

 اب اگر ھم متوجہ ھوکر بھی کوئی اقدام نہ کریں اور اپنے مسائل کے حل کرنے کے لئے تگ و دو نہ کریں تو پھر اپنی تمام بدبختیوں کے ذمہ دار ھم خود ھونگے.

پاکستان میں تشیع مشکلات کا شکار کیوں....

پاکستان بالعموم اور اس کے اندر بالخصوص تشیع گوناگوں مشکلات کا شکار ھے.

جن سے آپ سب برادران آگاه ھیں ان مشکلات میں سب سے بڑی وجه ایسی تعلیم کا فقدان ھے جو ھمارۓ سفر اور مسلکی مسائل کو حل کرنے کیلۓ بنیاد بن سکتی ھے.

وه ھے قرآن کی تعلیم جسکا خود الله تعالی نے اھتمام کیا ھے اور خود ھی اس کے معلم بھیجے ھیں.

سوره جمعه آیت :2, میں الله تعالی فرماتا ھےھے:
وھی ھے جس نے خوانده لوگوں میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ھے,

 اور انھیں پاکیزه کرتا ھے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے جبکه اس سے پهلے یه لوگ صریح گمراھی میں تھے .

اس تعلیم کے معلم خداوند نے خود چنے جسکا نصاب خود الله تعالی نے خود رکھا اور ان معلین کیلۓ طریقه تعلیم ,روش تعلیم,اور اس کا طریقه کار خود خداوند تعالی نے معین کیا اور اس طرح لوگوں کو گمراھی سے نکالا.

لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایک مخصوص طبقه جسکی آمدنی کا بڑا زریعه منبر حسین ع ھے.

یه لوگ اھل تشیع کی کثیر تعداد کو اس حقیقی تعلیم سے دور رکھ کر,

 آپنے کاروبار کو وسعت اور دفاع کرتے ھیں تاکه ان کا بزنس کسی مشکلات کا شکار نه ھو اور یھی کم علم اور سادۓ لوگ ان کے قیاسی اور فلسفانه ,خود ساخته عقائد و علم سے جڑۓ رھیں.

اور یه حقیقت ھے اس طبقه کی یه روش جو منبر سے جڑی ھے اصل میں ھمارۓ مذھب کی رسوائی, بدنامی اور پس ماندگی کا سبب ھیں .

یھاں ھم کچھ حقائق پیش کرتے ھیں.

وفاق المدارس ایک نیم سرکاری اداره ھے اس کے پانچ وفاق ھیں ان میں ایک شیعه مدارس کا  وفاق ھے.

گورنمنٹ کے ساتھ ان وفاق المدارس کا رابطه ھے انھیں کے ایک رکن کے بقول اھلسنت کے چار وفاق ھیں ایک اھلحدیث کا,ایک بریلوی,ایک دیوبند ,اور ایک جماعت اسلامی کا.اور ایک عام دیوبندی کا ھے جماعت اسلامی کا الگ وفاق ھے ان مدارس کا پورا حساب کتاب گورنمنٹ کے پاس ھے سواۓ جماعت اسلامی کے .

که کس وفاق کے پاس کتنے مدارس اور طلباء ھیں.

شیعه مدارس کی تعداد 470/اور ان میں طلباء کی تعداد شرمناک حد تک 3500/کے قریب ھے.

جبکه بریلوی مسلک کی دس لاکھ جو پاکستان کا اکثریتی مسلک ھے.
دیوبندی 25/لاکھ .

اور اسی طرح اھلحدیث  کی بھی 25 لاکھ سے زیاده ھے .

پانچواں وفاق جماعت اسلامی کا ھے جو خودمحتار ھے اس لیۓ اس کا ریکارڈ موجود نھیں ھے.

یه ھیں وه حقائق جن کی وجه سے ھم ان لوگوں سے کم منظم اور تفریق و اختلاف کا شکار ھیں اور آۓ دن منبر پر قابض کم علم لوگوں کا گروه  ھے جو نت نۓ نۓ عقائد و آفکار مذھب میں داخل کرتے جا رھے ھیں.

جنھیں ھماری بھولی بھالی قوم واه واه اور نعروں سے خیر مقدم کرتے ھوۓ آپنے ایمان  میں ڈھال رھے ھیں.

اور یه حالات مذید بگڑتے جا رھے ھیں کیونکه ھمارۓ ھاں قرآن و اھلبیت ع کی حقیقی تعلیم سے ھٹ کر خودساخته روایات و نظریات کے پرچار سے کفر و شرک بڑھ کر دوسرۓ مذاھب کے درمیان خلیج کا باعث بن رھا ھے.

اس طوفان کو روکنے کیلۓ منبر کے غلط استعمال کو روکنا اور علماء حقه کو آپنا کلیدی کردار ادا کرنا ھوگا.

اور مذھب میں داخل باطل نظریات و افکار کی مذمت کرتے ھوۓ حقیقی دینی تعلیم جو ھمیں قرآن و اھلبیت ع سے ملتی ھے عام کرنا ھوگی.

ھر قاری بھائی سے درخواست ھے وه شیعه عوام میں یه شعور اجاگر کریں اور پیار و محبت تحمل و بردباری سے ملت و مذھب میں باطل عقائد جدیدیه کے خلاف آواز اٹھائیں.

شیخ عبدالقادر جیلانی آور واقعه کربلا (سائیں لوگ)

شیخ عبدالقادر جیلانی اور واقعه کربلا

قم مقدس سے ھمیں تین کتب ملیں ایک "تاریخ اسلام"جید علماء کی تصنیف,دوسری

 "منتخب حکمت نامه پیغمبر اکرم ص" علامه محمد محمدی ری شھری مدظله العالی کی,اور تیسری

 "حقائق عاشوره کے مخفی پهلو "
مولف جناب آیت الله سید علی سیستانی میلانی مدظله العالی ,

ناشر مرکز الحقائق اسلامی قم مقدس.

اس کتاب میں واقعه کربلا کو زنده رکھنے کی اھلبیت ع کی کوششوں اور اھلسنت کی واقعه کربلا کو مٹانے  ناکام کوششوں پر تحقیق کی گئی ھے.

سب سے پهلے جس صاحب کا زکر موجود ھے وه ھیں اھلسنت کے مشھور بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی جن کا مزار بغداد میں موجود ھے.

وه کھتے ھیں ترجمه حاضر ھے مگر کتاب میں مکمل عربی متن بھی موجود ھے.
پیش کرده سکین میں دیکھا جاسکتا ھے.

ترجمه:
بعض لوگ اھلسنت پر اعتراض کرتے ھیں که تم لوگ روز عاشور روزه کیوں رکھتے ھو یه صحیح کام نھیں ھے کیونکه اس دن نواسه رسول ص حسین ابن علی ع کو شھید کیا گیا ھے.

اور فرزند رسول کی مصیبت کے دن سزا وار ھے که تمام افراد عزاداری برپا کریں لیکن اھلسنت حضرات نے اس دن کو خوشی و سرور کا دن قرار دیا ھے.

اور لوگوں کو خوشی و شادمانی کی محافل برپا کرنے اور نئی پوشاکیں اور ایسی غذا تناول کرنے کی ترغیب دلاتے ھیں جو عید کے ساتھ مناسبت رکھتی ھے.
یه کام صحیح نھیں ھے اس کے بعد وه یوں لکھتے ھیں که 

اعتراض کرنے والے نے اشتباه کیا ھے اور اس کا عقیده صحیح نھیں ھے کیونکه خالق اکبر نے سبط رسول ص کو شھادت کے اعلی منزل پر فائز کیا ھے.

 اس لیۓ روز عاشور کو روز مصیبت قرار دینا معقول نھیں ھے کیونکه اس دن عاشق کو آپنے معشوق کا وصال نصیب ھوا ھے اس لیۓ خوشی و سرور کا دن قرار دینا چاھیۓ.

عبدالقادر شیخ مذید لکھتے ھیں اگر یه طے پا جاۓ که روز عاشور کو روز عزا و ماتم قرار دیا جاۓ تو پھر بدرجه اولی سوموار کے دن کو روز غم قرار دیں کیونکه اس دن پیغمبر اکرم ص اور ابوبکر کی رحلت ھوئی تھی.

یه حوالا جات شیخ عبدالقادر کی کتب غنیةالطالبین صفحه:684,تا,687 اور نفحاتالازھار :4,/245.عربی ایڈیشن میں ملحاظه کیۓ جا سکتے ھیں.

معاویه کا یوم وفات 22/رجب نھیں ھے.

معاویه کا یوم مرگ 22/رجب نھیں ھے اکثر مورخین ماه رجب کے آوائل 4,رجب یا 15,رجب روایت کرتے ھیں

"تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ.                            

معاویه واحد بنو امیه کا خلیفه ھے جسکی نماز جنازه بیٹے یذید نے نھیں,

 بلکه ایک مسجد کے عام مسلی الضحاک بن قیس نے ظھر کی نماز کے بعد دمشق کی جامع مسجد میں پڑھائی.

78/80,سال کی عمر میں وفات پائی اس وقت یذید الحوارین میں تھا.

الضحاک بن قیس نے حوارین میں جاکر یذید کو اطلاع دی,

 اور قبرستان دارلامارت الخضرا دوسری روایت باب الصغیر کے قبرستان میں دفن کیا.

البدایه والنھایه جلد ھشتم صفحه:187.

جیسے غالیوں سے تشیع کو ٹھیک اسی طرح قادیانیوں سے اسلام کو خطره ھے.

جیسے شیعت کو اندر کا دشمن غالی نقصان پهنچا رھا ھے ایسے ھی اسلام کو قادیانیت

عرفان محمود برق صاحب سابق قادیانی کا قبول اسلام کا دلچسپ واقعه

ایک قادیانی گھرانے میں پیدا ھونے والے نوجوان نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو ھر طرف قادیانی یعنی باپ,بھائی,والده,دادا,دادی,چچا, پھوپھا, غرض یه که سب قادیانی تھے اور دور دور تک مسلمان نظر نھیں آتا تھا.
بچپن سے مطالعه اور راه حق کی تلاش نے جب عقل و شعور کو بیدار کیا تو قادیانیت کا باریکی سے مطالعه شروع کر دیا.

جب مطالعه بڑھا آنکھیں وار ھوتی گئیں اور دل کی گرھیں کھلتی گیں تو سیرت نبوی ص کا ایسا اثر ھوا که اسلام کے چمنستان میں داخل ھو گیا.

مسلمان ھونے کے بعد والد نے سر توڑ کوشش کی بڑۓ بڑۓ مرزائی  مربیوں کو بلا کر واپس قادیانیت کی طرف لانے کی کوششیں کیں.
 لیکن برق صاحب مناظره میں ھر مربی کو چاروں شانے چت کرتا گیا.

آخر کا ر لاھور سے سب سے بڑۓ مربی
( ماھر قادیانیت) کو دعوت دی جب مناظره شروع ھوا تو عرفان محمود برق نے پهلا سوال کیا که آپ کبھی سنیما گۓ ھیں.

مربی نے جواب دیا که سنیما دیکھنے عیاش,بدمعاش لوگ جاتے ھیں.میرا کیا کام.

عرفان محمود صاحب نے فورا مرزا غلام احمد قادیانی کے نام نھاد صحابی مفتی محمد صادق کی کتاب "زکر حبیب" دکھائی جسمیں لکھا تھا که مرزا صاحب قادیانی سنیما دیکھنے جاتا تھا.

یه سن کر مربی کا رنگ پیلا پڑ گیا ھونٹ خشک اور ماتھے پر پسینه آ گیا اٹھا اور عرفان کے والد کو کھا که یه کیس خراب ھو گیا ھے آپکا بچه نا قابل اصلاح ھے .

اس کے بعد عرفان برق نے آپنی والده کو مسلمان کیا جب وه شیخ زید ھسپتال لاھور میں داخل تھی.
 جب وقت آخیر آیا تو سب رشته داروں کو کمرۓ سے باھر نکال دیا اور ماں سے ختم نبوت کا اقرار کروایا اور ماں نے بھی قادیانیت سے بیزاری اور آپنے ایمان کی گواھی دی.

انکی والده کی نماز جنازه مولانا غلام حسین کلیالوی نے پڑھائی تھی.

اور یونیورسٹی انجنیئرنگ لاھور کے سامنے بدھوآوا قبرستان میں سپرد خاک کیا.

برق صاحب آپنے بھائی عمران محمود  کو بھی مسلمان کر چکا ھے .
اور جرات و دانشمندی سے تبلیخ کا سلسله جاری رکھے ھوۓ ھے.

اس کا دعوی ھے جیسے  صحابه رض کے قبول اسلام کے بعد بیٹھ نه گۓ بلکه آپنے خاندان رشته داروں کو دعوت اسلام دی میں بھی اسی طرح یه تبلیخ جاری رکھوں گا.

عرفان محمود برق صاحب قادیانیت کے خلاف ایک دھکتا ھوا آتش فشاں ھیں.

اب وه قادیانیوں سے انتقام لینے کیلۓ میدان میں نکل کھڑا ھوا ھے.

جانیۓ مذید حقائق آنے والی پوسٹ میں.

قادیانی کھتے ھیں اگر مسلمان حضرت عیسی ع کا زنده ھونا ثابت کر دیں ھم ایمان لے آئیں گے.

قادیانی حضرات کھتے ھیں حضرت عیسی کا زنده ھونا ثابت کردو ھم دعوت حق قبول کر لیں گے
 "تحریر و تحقیق :" سائیں لو گ                                 

اس پوسٹ میں ھم نے قرآن,بائیبل اور سائنس سے ثابت کیا ھے. 

لعیق بابر اعوان نے دعوی کیا که اگر آپ سیدنا عیسی ع کا زنده ھونا  ثابت کر دیں تو قادیانی آپنی موت آپ ھی مر جایں گے.

بلکه اسی بات کا اظھار قادیانی آپنی کتاب اظھار الحق کے صفحه :13,پر بھی کرتے ھیں.

مگر ھم نے ان کے دعوی کا رد پیش کرنے کیلۓ قرآن کی اھلسنت کی تفاسیر ابن کثیر اور تفسیر عثمانی,
ساتھ شیعه مسلک کی تفاسیر تفسیر کوثر اور تفسیر نمونه کو چنا ھے.

قران کی سوره نساء ع:155,تا-158
کا سب سے پهلے ترجمه لکھتے ھیں.

که ھم نے(یھود) قتل کیا  مسیح ع مریم س کے بیٹے کو  جو رسول تھا الله کا.
اور انھوں نے نه اس کو مارا اور نه سولی چڑھایا .
لیکن وھی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ھیں تو وه لوگ شبه میں پڑۓ ھوۓ ھیں.

کچھ نھیں خبر ان کو صرف اٹکل پر چل رھے ھیں.اور اس کو قتل نھیں کیا بلکه اس کو اٹھا لیا الله نے آپنی طرف.
دیکھیۓ .

سوره نساء ع:154,/158.
تفسیر ابن کثیر, جلد دوم ص:11,تا-26.
تفسیر عثمانی,تفسیر کوثر ,تفسیر نمونه.

بلکه اس واقعه کا تفصیلی زکر البدایه والنھایه میں بھی موجود ھے.
اب واضح ھے که عیسی کو نھیں بلکه ان کے ایک صحابی کی شبھیه جس کا نام یودس بن کریا یوطا کو سولی چڑھا گیا اور حضرت عیسی ع کو زنده ھی اٹھالیا گیا.

اب سوره آل عمران ع:55,

 میں بھی گواھی ھے که آۓ عیسی میں تم سے وعده پورا لوں گا.
اور تجھے آپنی جانب اٹھانے والا ھوں.اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ھوں.
تفسیر ابن کثیر جلد دوم .
تفسیر درمنشور,
امام فحر الدین رازی تفسیر کبیر جلد:7ص:69/70 

میں بھی ھے که آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا.
مذید آپ قادیانی شبھات کے جوابات جلد دوم ص:100,
تفسیر جلالین علامه سیوطی,
تفسیر مظھری,
تفسیر مواھب الرحمن,
تفسیر ابی سعود جلد:2ص:42,
طبقات کبری
اور محدث دھلوی کی تاویل الاحادیث ص:60, میں ملحاظه فرما سکتے ھیں.

بلکه ایک عیسائی جارج سیل مورخ نے بھی اسی شباھت کے حامل شخص کو سولی چڑھنے پر لکھا ھے.
اور عیسی ع کو زنده اٹھاۓ جانے کا واقعه لکھا ھے.

اب عیسائی عقیده ھے که عیسی ع کو صلیب چڑھایا گیا آپنی جان دے کر امت کے گناھوں کا کفاره ادا کیا.

دفن  کے تین دن بعد زنده ھوۓ اور آسمان 
کی طرف گیاره شاگرد نے گلیل کے پهاڑ سےجاتے دیکھا.
عیسائیت کا بھی عقیده ھے که آپ آسمان پر زنده ھیں.
ملحاظه فرماهیں.
لوقا13:24,
یوحنا,11:20,
یوحنا,22:21.
متی,16:28.
اعمال,10:11:1.
اب بائیل کی درج بالا آیات بھی مسیح ع کے زنده آسمان کی طرف جانے کا واضح بیان دیتی ھیں.

دوباره نزول کے متعلق قرآن کی سوره نساء ع:159,
میں ھے که اھل کتاب میں سے ایک بھی ایسا نھیں بچے کا جو عیسی ع کی موت سے پهلے ان پر ایمان نه لا چکے اور قیامت کے دن ان پر گواه نه ھوں گے.

آمد ثانی کے متعلق ھم دوسری پوسٹ دیں گے.کیونکه تحریر لمبی ھو جاۓ گی.

اب ھم سائینسی نقطه نظر سے دیکھتے ھیں که کیا اتنی طویل عمر زنده رھا جا سکتا ھے.
حضرت عیسی ع جلیل القدر نبی ھیں آپکی عمر پیدائش سے لے کر رفع آسمانی تک اور آخری زمانے میں نزول تک عجائبات و حارق عادات باتوں سے لبریز ھے.

ھم نے سوره آل عمران میں ثابت کیا که الله نے فرمایا آۓ عیسی  میں تمھاری مدت  پوری کروں گا.

یعنی که آپ کی آمد ثانی ھو گی اب قادیانی کھتے ھیں که یه کیسے ممکن ھے که بغیر کھاۓ پیۓ زنده رھیں.
ازاله اوھام ص:47/50.

مرزائیوں کی دوسری کتاب راھنماۓ امتحان مبتدی ص:18,
میں ھے که یه کیسے ممکن ھے که سینکڑوں سال بغیر کھاۓ پیۓ زنده رھیں.

اگر جو الله پاک لفظ کن سے کائینات کو وجود دے سکتا ھے کیا وه بغیر خوراک آپنے ایک نبی کو زنده نھیں رکھ سکتا.

جو الله اصحاب کھف کو سینکڑوں برس بن کھاۓ حیات دے سکتا ھے پتھر سے پانی کا چشمه جاری کر سکتا ھے.18/سال معراج پر آن واحد میں تخلیقات و انوار الھیه کا مشاھده کرا سکتا ھے.

کیا حضرت عیسی کا زنده رکھنا اس کے اختیار میں محال ھے.

جدید سائنس بھی اسے ممکن کھتی ھے.

اور اس پر تجربے بھی ھو رھے ھیں.
جنیاتی سائنس کے ماھر ڈاکٹر پروفیسر ٹام کرگ بھی کھتے ھیں انسان کیلۓ اب غیر فانی ھونا ممکن نھیں رھا.DNA
میں موجود جینز کا ھمارۓ غیر فانی ھونے سے بڑا گھرا تعلق ھوتا ھے.

ڈاکٹر گیلارڈ ھاؤزر کھتے ھیں جسم کی غدودیں جوان ھیں آپ بھی جوان ھیں 
فرانس کے سائنس دان چارلس ایڈورڈ کا خیال ھے ھمیشه زنده رھا جا سکتا ھے.

انھوں نے ریڑھ ھڈی میں ایک خاص تجربه کیا ھے.
کبھی نه رکنے والا دائمی دل بھی بنا رھے ھیں جو طویل مدت دھڑکتا رھے گا.
ابن جریر جلد:5,
میں ھے رسول الله ص نے فرمایا عیسی ع زنده ھیں اور موت کا زائقه ضرور چکھیں گے.
مذید بخاری ,مسلم,مشکواة,ترمذی,مسند احمد اور البدایه والنھایه میں بھی زنده اور آمد ثانی کی احادیث موجود ھیں.

اگر قادیانی آئن سٹائن کے نظریه اضافت (Theory of Realitvity),کو ھی سمجھ لیں تو عیسی ع کی حیات کا عقلی جواب بھی خود بخود مل جاۓ گا.

یه تحقیقات حقیقت عین الیعقین کا درجه رکھتی ھیں.
عیسی ع کیلۓ کاروان وقت پر جمود طاری کر دیا گیا اور ان کیلۓ ھزاروں سال محض ایک ساعت کا درجه رکھتی ھیں.

اب دیکھتے ھیں بغیر خوراک کے کیسے زنده ره سکتے ھیں.

جرمنی کے ایک شھر کونرس روتھ میں ایک خاتون تھر سیا نیو مان اس نے 1927/سے آج تک کچھ بھی نھیں کھایا.
صرف عشایه ربانی پر ایک پتلا سا کاغزی ٹوسٹ لیتی ھے.
اس پر بھت سی کتب بھی لکھی جا چکی ھیں.
سرجن یونس نے آپنی کتاب "بھوتوں کی کھوج"میں بھی اس کا زکر کیا ھے.

انڈیا کے ایک باشندۓ نے 1949,میں ایک غیبی اشاره کے بعد کھانا پینا ترک کر دیا تھا.
چار ماه زنده رھا.

میں(سائیں لوگ) نے خود 1995/میں بی بی سی اردو سے انڈیا کے صوبه پنجات کے شھر جالندھر میں ایک نوجوان کی تیس سال بغیر کھاۓ پیۓ خبر سنی اور وه زنده ھے روحانی غزا سے جبکه الٹراساؤنڈ میں اس کے معده و دیگر اعضاء کی نشاندھی نه ممکن ھے.

ایک خاتون ایوفلچن 1597/سے 1621ءتک گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے زنده رھی.

ان تحقیقات کے بعد قادیانیوں کیلۓ کسی قسم کی گنجائش نھیں که حضرت عیسی ع پر بھوک کا اثر ھو .

اتنے مضبوط شواھد کے بعد حق شناسی یھی ھے که تمام قادیانی بشمول لعیق بابر اعوان کے یه عقیده قائم رکھیں ,
که عیسی ع بغیر کھاۓ پیۓ آسمان پر زنده ره سکتے اور  ھیں.اور ان کا نزول ھو گا.
اس تحریر کے بعد فکر کرتے ھوۓ مذید حقائق کا ھماری طرف سے انتظار فرمائیں.

قادیانیوں کا یه اعتراض بھی غلط ھے که عیسی ع آسمان سے مع جسم عنصری اتریں گے بلکه لفظ نزول ایک محاوره ھے جو صرف روحانی انسان کی بعثت پر دلالت کرتا ھے.
حقانیت احمدیت مصنف مولوی محمد صادق سماٹری قادیانی ص:264.

الله پاک قادر مطلق ھے اس کیلۓ کوئی چیز بھی ناممکن نھیں ھے.
ھم نے 2/30,گھنٹے کی محنت سے یه ثابت کیا که حضرت عیسی ع آسمان پر زنده ھیں اور نزول من السماء کے بعد,40/سال دنیا میں قیام  ھو گا. امام مھدی استقبال کریں گے اور امام مھدی ع کے پیچھے ھی نماز پڑھیں گے.
دجال کو قتل کریں گے صلیب کو توڑیں گے.
 حج,عمره کریں گے شادی ھو گی دو لڑکے پیدا ھوں گے ایک کا نام احمد اور دوسرۓ کا موسی ھو گا.بحوالا چوده ستارۓ ص:490,.سراج القلوب ص:77

.اور پاک رسول کے روضه میں دفن ھوں گے.

میعار نبوت ...آور مرزا غلام آحمد قادیانی.

کیا. ...مرزا غلام آحمد قادیانی....میں صفات نبوت تھیں.ملحاظه فرمائیں مختصر تعارف و میعار نبوت
"تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ.          بببببب                    
                       

1839/ء میں پیدا ھوۓ 1864/ء میں انگریز حکمرانی کے دور میں سیالکوٹ میں بطور اھلمد ملازمت اختیار کی ترقی کے خیال میں 1868/ء میں مختاری کا امتحان دیا .

مگر فیل ھو گۓ اس ناکامی پر بد دل ھو کر  ملازمت چھوڑ کر واپس وطن قادیان چلے گۓ.

یه وه وقت تھا جب عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے اسلام پر اعتراض اٹھ رھے تھے.

موقع غنیمت سمجھتے ھوۓ پڑھے لکھے تو تھے ھی 1880/ء میں براھین احمد یه نامی کتاب لکھنا شروع کی اسلام چندۓ کے نام پر.

اس پر مرزا صاحب کو کافی شھرت ملی چنانچه 1891/ء میں مسیح اور مھدی ھونے کا اعلان کر دیا.
اس کو ناکافی سمجھتے ھوۓ 1901/ء میں صریح الفاظ میں نبوت کا دعوی کیا
عیسائیوں کا مسیح اور مسلمانوں کا امام مھدی اور نبی بننے کے بعد آپ نے ھندؤوں پر بھی کرم فرمائی ضروری سمجھی.
چنانچه 1904/ءمیں کرشن اوتار ھونے کا دعوی کر دیا.

یه تھا مختصر تعارف مرزا صاحب کا اب ھم دیکھتے ھیں که نبوت کا دعوی کرنے والے پر کیا صفات و خصوصیات ھونی چاھیں.

کیونکه نبی یا امام الله تعالی کا خلیفه قائم مقام ھوتا ھے.
خدا ھی کی طرف سے مبعوث ھوتا ھے لوگ ووٹنگ یا منتخب چند لوگوں کی کمیٹی کرکے منتخب نھیں کرتے جیسے سقیفه بنی ساعده میں بعد از وصال رسول الله ص چند مفاد پرست منافقین نے طریقه آپنایا.

کیونکه الله تعالی نے فرمایا که آۓ پی3مبر لوگوں سے اس وقت کا تذکره کرو جب تمھارۓ پروردگار نے فرشتوں سے کھا که میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ھوں.

تو فرشتے بولے کیا تو زمین میں ایک ایسے شخص کو نائب بناتا ھے جو اس میں فساد پھیلاۓ اور خون ریزیاں کرتا پھرۓ.
(سوره بقره)

جب مقدس و نورانی پاک مخلوق فرشتوں کا اجماع و کمیٹی نامنظور ھوئی.

تو ناقص العقل غیر معصوم انسانوں کے اجماع و شوره سے بھلا کیسے رسول یا امام بن سکتا ھے.

لاکھوں اندھے مل کر ایک بینا آنکھوں والا نھیں بنا سکتے.کروڑوں جاھل و ناقص العقل لوگ کمیٹی کرکے ایک عقلمند بنا سکتے.

ناقصوں کا مجموعه ناقص ھوتا ھے.اجماع و کمیٹی والے ھمیشه انتخاب میں دھڑۓ بندی,پارٹی فلیگ, اور دوستی رشته داری کا لحاظ کرتے ھوۓ اور رعب و لحاظ سے ووٹ دیا کرتے ھیں.

جیسے سوره بقره میں ھے :
آۓ پیغمبر بنی اسرائیل کا وه وقت یاد دلاؤ  جب ابراھیم کو ان کے پرور دگار نے چند  باتوں میں آزمایا اور انھوں نے ان کو پورا کر دکھایا.

دوسری جگه فرمایا ھم نے ھر امت میں کوئی نا کوئی رسول بھیجا.

ایک اور مقام پر الله تعالی نے فرمایا :
آۓ داود ھمبنے تجھ کو  زمین میں خلیفه اور نائب بنا کر بھیجا.

سوره بقره میں فرمایا آۓ پیغمبر ھم نے تجھ کو دین حق دے کر مدلمانوں کو نجات اور خوشخبری دینے والا  اور کافروں کو عزاب آخرت سے بچانے والا بنا کر بھیجا.

سوره مزمل میں ھے لوگوں جس طرح ھم نے فرعون کی طرف موسی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا تمھاری طرف بھی جناب محمد کو رسول بنا کر بھیجا...

اب اتنے واضح محکم شواھد کی روشنی میں کوئی قادیانی یه بتا سکتا ھے که مرزا صاحب کے متعلق الھی احکامات بطور خلیفه یا نبی صادر ھوۓ ھیں.

دوسری صفت وحی نزول جبرائیل ع ھے.

ملحاظه فرمائیں اگلی قسط میں.

سائیں لوگ نے غالی و نصیریوں کے باطل عقائد پر کیوں لکھنا شروع کیا.



سائیں لوگ"..کا شیعه مذھب میں گھسے غالیوں سے اختلاف کیوں"

یه لوگ توحید کے منکر اور واضح شرک و کفر کے مرتکب ھوتے ھیں

آئمه معصومین ع کو ایک علیحده انواح میں تقسیم کرتے ھیں.بلکه الله تعالی کو ان ھستیوں کا محتاج سمجھتے ھیں.

واجبات و شرعی احکامات مثلا نماز,روزه,حج,زکواه کی ادائیگی کے منکر ھیں.
اھلبیت ع پر من گھڑت روایات کی مدد سے بھتان اور جھوٹ باندھتے ھیں.

گالی,گلوچ اور لعن تعن ان کے ھاں اجر کبیره ھے.
قرآن و نھج البلاغه کی تعلیمات کے سراسر اختلاف رکھتے ھیں.

اور آپنے پرائمری پاس زاکر یا خطیب کے ناقص زھن کی قیاسی و فلسفه حامل باتوں سے  الھی آیات کو رد کرتے ھیں.

یه لوگ مذھب اھلبیت ع کی تعلیمات کو ناقص سمجھتے ھوۓ واضح ان سے انحرافات کرتے ھیں.

جبکه اھلبیت ع نے ان غالیوں سے بیزاری اور زنده جلانے کے فرامین صادر کیۓ ھیں تو پھر ھم کون ھوتے ھیں ان کو مذھب اھلبیت ع کا حصه سمجھنے والے.

ھم بھی اھلبیت ع کی تعلیمات کی روشنی میں ان سے بیزاری اور مسلمنان عالم پر واضح کرتے ھیں که انھیں مذھب شیعه اثناۓ عشریه کا حصه نه سمجھا جاۓ.

جبکه:            "سائیں لوگ"

 کا عقیده  روز روشن کی طرح واضح ھے. 
ہم گواھی دیتے ھیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نھیں اور محمد اللہ کے رسول ھیں.

2-  ھم ایمان رکھتے ھیں الله،یوم آخرت،ملائکہ ،آسمانی کتب اور تمام انبیاء پر اور ولایت علی ع پر که بعد از رسول الله علی ع و دیگر آئمه معصومین ع ھی قوم کے ھادی و رھبر ھیں.

3-   ھم عقیدہ رکھتے ھیں منھج اسلامی کا التزام اور عبادات و احکام و اخلاق کو.

4-  ھم عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ھیں جیسا کہ قرآن میں آیا ھے.

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا.
الأحزاب ع: 30 

اور محمد ص کے بعد رسالت اسلامی ختم ھوا.
اور وحی کا نزول بھی آپ پر ھی ختم ھوا.

اور لوگ اب کتاب الله اور سنت صحیحہ,اور سیرت اھلبیت ع اور عقل سلیم کی پیروی کرنے کے مکلف ھیں.

 5- ھم ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ ھﯿﮟ که ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮬﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽﺗﺤﺮﯾﻒ،ﺗﻼﻋﺐ،ﺍﻭﺭ ﮐﻤﯽﻭ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ھﮯ.
اﻭﺭ ﺍﻟﻠه ﻧﮯ ﺑﮯ ﺷﮏﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺎ ﺧﻮﺩﺫﻣﮧ ﻟﯿﺎ ھﮯ.
ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ھﮯ.
  سورہ حجر آیت 9.
 ْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ .

 ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻗﺪﯾﻢ ﮐﺘﺐﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ھﮯ ﺟﻮ ﺿﻌﯿﻒ ﯾﺎﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕ روایات ھیں.

جن کو غلاۃ(شیعہ کا غلو کرنے والا طبقہ) نے اھل بیت ع کے نام سے گھڑا ھے.

اور تاریخ میں علمائے شیعہ نے ان روایات پر تنقید اور ان سے لاتعلقی کا اظھار کیا ھے.

افسوس کا مقام ھے که بعض شیعہ مخالف گروہ ان تاریخی جھوٹی روایات تحریف کو بنیاد بنا کر شیعوں پر تحریف قرآن کا الزام لگاتے ہیں.

اور ان کو قتل کرنے اور کافر اور منحرف عقیدہ قرار دیتے ھیں.
جس کی بنیاد یھی من گھڑت غالیوں کے روایات ہیں.

مذھب تشیع امامیه کو اصل خطره کن سے ھے.

 :بیداری ملت وقت کی ضرورت

ایک دور تھا جب شیعه مذھب حقه  پاکیزه , امن,محبت اور احترام کا مذھب سمجھا جاتا تھا.

افسوس کے ساتھ جب سے مجالس عزا کی آڑ میں جاھل زاکر اور تاجر خطیب نے قبضه کیا اور گمراه کن باطل عقائد جو مومینین سے واه واه اور فیس کے چکر میں غلو پھیلایا.

 اور لعن تعن اور دوسرۓ مذاھب کے مقدسات کی توھین شروع ھوئی تو اب دیگر مذاھب میں شیعت کی پهچان لعن تعن اور گالی گلوچ والا مذھب کے طور پر ھوتی ھے.

منبر کے بعد بدقسمتی سے سوشل میڈیا بھی اس روش سے محفوظ نھیں رھا جھاں پر بھی چند شر پسند اور گمراه استعمار کے ایجنٹ فضائل اھلبیت ع کے زمن میں وھی جاھلانه توھین آمیز اور گالی گلوچ کلچر کو فروغ دے کر مذھب و اھلبیت ع کیلۓ بدنامی کا سبب بن رھے ھیں.

آج سے ھم جھاں ان لوگوں کے خلاف علمی جنگ شروع کر رھے ھیں وھاں مذھب حقه کی حقیقی تعلیم کی تشریح کے زمن میں ھر غالی و نصیری کو گرفت میں لینے اور عقائد باطله پر وضاحت لینے کا پلان ترتیب دیا ھے. 

آنے والے دنوں میں نا ختم ھونے والا یه سلسله شروع کیا جاۓ گا.
اور ھر دن ایک نۓ غالی کو جرح کی دعوت اور عقیده باطله کو ثابت کرنے کی وضاحت طلب کی جاۓ گی.

اس طریقه سے ھم یه ثابت کریں گے که کون حقیقی اھلبیت ع کی تبلیخ کر رھا ھے اور کون باطل قوتوں کے ھاتھوں اھلبیت ع اور مذھب کی زلت کا سبب.

کوه طور پر تجلی نور سے مراد کون .?الله تعالی یا مولا علی ع ...غالیوں کے باطل عقیده کا رد

 :غالی,نصیری کے باطل عقائد کا رد
 ?حضرت موسی ع اور تجلی نور سے مراد کون

 "تحریر و تحقیق  :" سائیں لوگ                                            

مذھب حقه اثناۓ عشریه ایک سچا مذھب جو دراصل اسلام کا ھی دوسرا نام  ھے

یه مذھب قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات پر قائم ھے

 مگر چند لوگوں کی وجه سے جنھوں نے محبت و عقیدت کے نام پر آئمه معصومین ع کو مقام ربوبیت تک پهنچا کر  اتنا نقصان کیا ھے جتنا ایک دشمن بھی نھیں کر سکتا.

حالنکه اگر ھم آئمه معصومین ع کی سیرت مبارکه کا غور سے مطالعه فرمائیں تو پوری کائینات میں سب سے بڑھ کر عظمت اور پرستش توحید کی قائل یھی ھستیاں ھیں .

جنکی بارگاره ایذدی میں عبادت و ریاضت اور انکساری و عاجزی کی مثال نھیں ملتی.
نھج البلاغه میں مولا علی ع کی مناجات و دعائیں بھترین ثبوت ھیں خطبه قاصه انھیں میں سے ایک ھے.جسمیں عاجزی کا سمندر موجزن ھے.

مقام افسوس ھے باطل عقائد جن میں غالی,نصیری,قدریه,اخباری,تفویضی یه سب باطل مذھب حقه اثناۓ عشریه میں اس طرح زم ھو گۓ ھیں که خالص عقائد کی پهچان مشکل مسله بن گئی ھے.

 بلکه اب یه فاسد کفر و شرکیه عقیدۓ تشیع کی تعلیمات بنیادی کا حصه بن گۓ ھیں.
اگر کوئی ان باطل عقائد پر آواز اور اصلاح کی کوشش کرتا ھے تو اس پر دشمن شیعت کا لیبل لگا کر بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ھے.اور لعنت و غلیظ گالی گلوچ سے اسے مقصد سے ھٹانے کی کوشش کی جاتی ھے.

ان میں سے ایک یه عقیده بھی ھے که کوه طور پر جب حضرت موسی ع نے دیدار الھی کی خواھش کا اظھار کیا اور جو تجلی نور پھاڑ پر پڑی وه حضرت علی ع کا نور تھا.

اب ھم قرآن و نھج البلاغه کی محکم آیات کی مدد سے جواب لینے کی کوشش کرتے ھیں.

حضرت موسی ع کا زکر قرآن میں,136/مرتبه 34/سورتوں میں آیا ھے سب سے زیاده سوره بقره ,سوره الاعراف,طه,شعرا,القصص,میں آیا ھے.

مگر ھم نے سوره عراف ع :143/کو موضوع بحث بنایا ھے جسمیں دیدار الھی کی خواھش اور یه شرف حضرت موسی ع کو نصیب فرمایا گیا کا زکر ھے.

اور جب ھمارۓ مقرره وقت پر موسی ع آیا اور اس کے پروردگار نے اس سے کلام کیا موسی ع نے کھا آۓ میرۓ رب تو مجھے دکھلا که میں تجھے دیکھ لوں فرمایا :
تو مجھے لیکن تو پھاڑ کی طرف نظر کر پس تو اگر آپنی جگه ٹھرا رھا تو مجھے تو عنقریب دیکھ لے گا.
پس جب اس کے پروردگار نے جب آپنے نور کا چمکار ڈالا تو اسے ریزه ریزه کر دیا اور موسی بے ھوش ھو گیا.

پھر جب اسے ھوش آیا تو کھنے لگا آۓ الله تو پاک ھی ھے میں نے تیری طرف رجوع کر لیا ھے.اور میں سب سے پهلے ایمان لانے والا ھوں.

تفسیر صافی ص:81,
پر ھے که حضرت موسی ع نے کھا تھا که آۓ خداوند مجھے آپنی زات دکھا تاکه میں تیرۓ نور کامل کو مکمل دیکھ سکوں.
جب الله نے آپنے نور کی تجلی پھاڑ پر چمکار دی تو موسی ع سے برداشت نه ھو سکا.
اور بے ھوش ھو گۓ.
عیون اخبار الرضاء میں بھی ایک حدیث امام رضا ع سے منسوب ھے.حضرت موسی کلیم الله تھے مگر اتنا نھیں سمجھتے تھے که رویت کا سوال کر بیٹھے انھیں نھیں معلوم تھا که الله کی زات دیکھنے سےمنزه ھے.که تیری زات حاسه بصر کی محدودیت میں سما جاۓ.

حضرت موسی ع کے ساتھ الله کے دیدار اور کلام کو سننے کی خواھش رکھنے والے سات لاکھ تھے مگر حضرت موسی ع نے سات ھزار چنے پھر بھی ان میں سے صرف ستر,70/منتخب ھوۓ حضرت موسی ع پهاڑ پر چڑھ گۓ اور کلام کیا ایک درخت میں تکلم کی قوت بخشی.مگر ساتھی دیدار پر بضد رھے جب الله کے نور کی تجلی گری تو پھر سب بے ھوش ھو گۓ.

اب اس حدیث میں بھی امام رضا ع نے کھیں بھی زکر نھیں کیا که وه نور مولا علی ع کا تھا. 
تفسیر متقین ص:197/198,پر یه تشریح موجود ھے.سکین لگا دیے ھیں.

یھی تفسیر, تفسیر نجفی آیت الله شیخ محسن نجفی صاحب نے سوره اعراف ع:143/ص:224/پر کی ھے.

تفسیر نمونه,آیت الله سید مکارم شیرازی,جلد:دوم, تشریح سوره الاعراف ع:143/ص;258,259,260,261,262,

 پر کی ھے وه تجلی نور اللله تعالی ج کی ھی تھی.

 (فلما تجلی ربه للجبل جعله دکا).مکمل تشریح سکین میں ملحاظه فرمائیں.

تفسیر موضوعی قرآن کا دائمی منشور جلد:11/12, ص:592,593,594,595,596,597,598,
میں مکمل جرح موجود ھے.اورجنل  سکین لگا دیۓ ھیں ملحاظه فرمائیں.

آیت الله جعفر سبحانی نے بھی اس موضوع پر مکمل جرح کی ھے که حضرت موسی ع اور رویت کی درخواست,
 تجلی نور الھی تھی ناکه تجلی نور علی ع حالنکه الله تعالی نے برملا کھا که موسی ع "لن ترانی" تو مجھے ھرگز نھیں دیکھ سکے گا.
اور ایسا ھی ھوا جب تجلی نور الھی پڑی تو موسی ع بے ھوش اور پهاڑ ریزه ریزه ھو گیا.
ھم نے آیت قرآن محکم اور حدیث امام رضا ع سے واضح ثابت کیا که تجلی نور سے مراد الھی نور تھا ناکه حضرت علی ع کا نور جیسا که غالی, نصیری کا عقیده ھے.

اب ھم ایک اور محکم ثبوت قرآن کی سوره قصص سے دیتے ھیں ویسے اس کے زمن میں سوره آل عمران ع:44,
سوره یوسف ع:102/103,
سوره قصص ع:44,
میں واضح یه ثبوت موجود ھے که ان اواقات میں رسول الله ص موجود نه تھے جو سینکڑوں ھزاروں سال قبل ھوۓ.

که مریم س کے قرعه کے وقت که پرورش کون کرۓ گا.
حضرت یوسف ع کے برادر جب تدبیریں کر رھے تھے رسول الله ص اس وقت موجود نه تھے.

اس بحث کی متعلقه دیدار الھی کے, جب موسی ع کو عطا کیا گیا.

آۓ رسول ص تم طور کی دوسری طرف اس وقت موجود نه تھے  جب ھم نے موسی ع کو آواز دی تھی.
سوره قصص ع:44,/45/46,تفسیر نجفی کے سکین اور مکمل ترجمه و تشریح موجود ھے.

اب جب ابو الائمه  پاک نبی ص جو مولا علی ع کے آقا ھیں,

 واقعه کوه طور پر موجود نه تھے تو بڑی تعجب کی بات ھے که مولا علی ع جو رسول الله ص کے غلاموں میں سے ایک غلام ھیں کیسے موجود تھے .

اس محکم آیت سے بھی اھل غلو کے دعوی کی نفی ھو جاتی ھے.

اب ھم آتے ھیں نھج البلاغه میں مولا علی ع کے خطبه نمبر:181,ص:536.

کی طرف جسمیں مولا علی ع نے بھی اس واقعه پر توحید کی عظمت و فضیلت پر روشنی ڈالی ھے.
وه خدا جس نے بغیر اعضاء و جوارح کے اور بغیر گویائی اور حلق کے کوؤں کے موسی ع سے کلام کیا اور انھیں عظیم نشانیاں(آیات)دکھائیں.

یھاں پر بھی مولا علی ع نے کوئی یه زکر نھیں کیا که وه کلام اور نور کی تجلی کرانے والا میں تھا.

بلکه اس سے پهلے اور بعد میں عظمت توحید بیان کی ھے که الله تعالی کا قیاس انسانوں پر نھیں کیا جا سکتا اور نه ھی اس کا ادراک انسانی اعضا و جوارح سے کیا جا سکتا ھے.وه ان باتوں سے قطعا محتاج نھیں .
جبرائیل و میکائیل ع اور مقرب فرشتے سر خم کیۓ ھو ۓ خالق کی توصیف کرنے میں انکی عقلیں حیران و ششدر ھیں.

برادران ھم نے مکمل تحقیق پهنچا دی ھے اب فیصله آپ نے کرنا ھے که قرآن و اھلبیت ع (حق و سچ)کی خالص تعلیم کی اشاعت کون کر رھا ھے.

اور معصوم لا علم مومن بھائیوں کے ایمان کو کون برباد کر رھا ھے.
جو آۓ دن کفر و شرک پر نۓ عقائد و نظریات متعارف کرا رھے ھیں.

روزه افطار کرنے کا درست وقت.



 جھاں برادران اسلام نے دیگر  مسائل میں قرآن و سنت سےھٹ کر مذھب تشیع کے خلاف . عمل کیا ھے
          "تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ                       

وھاں ایک روزه کھولنے کا وقت میں اختلاف بھی ھے
شیعه مذھب چونکه دین اسلام کی فطرت پر قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات پر عمل پیرا مذھب ھے,
 لھذا دیگر مذاھب نے یھاں بھی قرآن کے واضح احکام پر شیعه مذھب کے متضاد ھی عمل کیا.

برادران اسلام وضوء کی طرح روزه افطاری کا وقت بھی اللله پاک نے(س بقره ع 187)
میں واضح حکم دیا پر مفادی ملاں نے مسلمانوں کو اس واضح حکم میں بھی تقسیم کرکے اسلام کی اھم ترین عبادات کو ضائع و برباد کر دیا.

نماز کی بیس وضوء اور روزه کی بیس افطاری اور سحری کی پابندی وقت پرتھوڑۓ سے وقت کی خاطر سارۓ دن کی بھوک پیاس کو دین فروش ملاں نے مسلمانوں کی عبادت کو ضائع کر دیا.

کلام مجید میں اللله تعالی رات کا حکم دے رھا ھے جب که ملاں شفق شام کی سرخی کو افطار کرا رھا ھے.
کیونکه دن کے باره 12,حصے قرآن میں آۓ ھیں.اور رات کے بھی 12,حصوں کا علیحده علیحیده زکر
 آیا ھے.  
                 "دن کے حصے یه"
 ھیں.شرق,بکور,غدر,ضحی,ھاجره,ضمیره,رواح,عصر,قصر,احیل,غشی,غروب.
          "رات کے باره حصے یه ھیں"

شفق,شام کی سرخی.(یه وه وقت ھے جب برادران روزه افطار کر دیتے ھیں.)جبکه حکم لیل کا ھے.
غسق,عقد,سرور,جھمد,زقد,زاخر,بھره,فجر,صباح,سحر,غروب آفتاب.
جب برادران روزه افطارکرتے ھیں اس وقت شام ھوتی ھے.کیونکه سرخی واضح دیکھی جاسکتی ھے.
اس وقت کا زکر سوره شفق ع 16.پ30.میں ملحاظه فرمائیں.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...