Saieen loag

جمعہ، 24 مئی، 2019

گستاخ رسول ص کی سزا ,سر تن سے جدا

  • .برادران اھلسنت کے ھاں ایک نعره پر سب گروه متفق ھیں اور عام لگایا جاتا ھے


 بلکه ھم بھی اس نعره پر عملدرآمد کے حق میں ھیں که:

گستاخ نبی ص کی سزا...
         
                          سر تن سے جدا.....

آج ھم ایک نام نھاد مسلمانوں کے خلیفه و صحابی کا زکر کرتے ھیں جس نے ھر جگه پاک نبی ص کے احکامات کی خلاف ورزی اور گستاخی کی..

جبکه قرآن پاک سوره نجم ع :3/4,میں الله تعالی فرماتے ھیں ھیں که رسول ص آپنی خواھش سے نھیں بولتے وه تو وھی کھتے ھیں جو وحی ھوتا ھے.

جبکه دوسری جگه فرمایا که میرۓ رسول ص کے آگے اونچی زبان سے مت بولو ھمیشه آپنی آواز دھیمی رکھو.

اب ھم  تاریخ کے اوراق پلٹتے ھیں که کس نے اور کھاں کھاں گستاخی کی.

صلح حدیبیه ھو. یا بدری صحابی کا سر قلم کرنے کا واقعه.

منافق عبدالله ابی کا جنازه پڑھنا ھو یا جنگ احد میں خاموش رھنے کا حکم ,

ھر جگه پاک نبی ص کے احکام کی مخالفت کی گئی.
چند گستاخیاں تو ایسی شدید کیں که ان کے آزاله کیلۓ ساری عمر صدقه خیرات و استغفار کرتے رھے.

تفصیل ملحاظه فرمائیں پیش کرده کتب کے اورجنل سکین میں.

حوالاجات تاریخ کی معتبر ترین کتب کے ھیں جنھیں جھٹلایا نھیں جا سکتا.

البدایه والنھایه...رحیق المختوم یه کتاب اسلامی دنیا سے تین ایوارڈ جیت چکی ھے.
اور سعودی ڈاکٹر علی محمد الصلابی کی سیرت سیدنا عمر بن خطاب.

اور برصغیر پاک و ھند کی سیرت النبی ص پر معتبر کتاب مدارج النبوت.

گستاخ رسول ص کا تعین اگر چوده سال پهلے سے کر لیا جاتا تو آج کسی بدبخت کو توھین رسالت کی جرات نه ھوتی.

گستاخ رسول ص,..رام سیتا..اور ارسطو,

رات ھم نے مسلمانوں کے نام نھاد خلیفه کے متعلق کچھ رسول الله ص کی گستاخی کے متعلق ثبوت دیۓ یه عام باتیں ھیں بلکه برادران آپنی تقریروں میں فخریه بیان بھی کرتے ھیں.

کچھ بھائی دفاع کیلۓ بھی سامنے آۓ شاید وه تاریخ سے ناواقف ھیں.

اگر ھم باریکی سے ان کتب کا مطالعه کریں تو پتا نھیں اور کتنے مواقع پر اس طرح کی گستاخی کی گئی.

اگر غیر مسلم  شان پیغمبر ص میں گستاخی کرۓ یا اس پر الزام لگا دیا جاۓ تو ھم  احتجاج کرتے ھوۓ سڑکوں پر آ جاتے ھیں,

سزاۓ موت کا مطالبه کرتے ھیں بلکه پچھلے کچھ عرصه میں انکی آبادیوں تک کو آگ کے ساتھ  زنده کچھ لوگوں کو آگ  میں بھی دھونس دیا.

مگر ھمارا مسلمان اگر اس طرح کی حرکت کر لے تو ھمیں ناگ سونگھ جاتا ھے.

ھزاروں سال قبل سکندر آعظم کے استاد اور سقراط و افلاطون کے شاگرد,

                          " ارسطو "

کا جو 322/قبل مسیح وفات پا گۓ تھے یونان میں کیس ری اوپن کیا گیا,

 تاکه اس کی موت کی وجوھات جان کے قاتل کی سزا کا تعین کیا جا سکے.

اسی طرح کا ھزاروں سال پرانا ایک اور کیس شھر پٹنه ریاست بھار انڈیا کی عدالت میں بھی کھولا گیا.

                " رام اور سیتا"

کا ,  رام کے بھائی لکشمن پر لگے الزام میں رام کو قصور وار ٹھرا کر منافقت کھا گیا.

پاکستان میں بھی آج سے 45/سال قبل کا زوالفقار علی بھٹو کا کیس پیپلز پارٹی دوباره سماعت کرانا چاھتی ھے تاکه جھوٹ اور سچ کا تعین کیا جاۓ حالنکه قاتل بھی مر چکے ھیں.

اس طرح کے اور بھی بھت کیسز ھیں جو دوباره سماعت کرکے مجرمین کی سزا کا تعین کیا گیا.

 بھت سے کیس مسلمانوں میں بھی زیر التوا ھیں جن کا تعین کرنا باقی ھے.

شان رسالت ص میں گستاخی کے بارۓ پاکستان کا قانون سزاۓ موت کی سزا تجویز کرتا ھے.

جھاں بھت سے گستاخان رسالت ص کو مسلمانوں کی منافقت نے سزا  سے بچایا ھے,

 بلکه اس طرح کے لوگوں کو احترام کا درجه دیتے ھوۓ ملت اسلامیه کا خلیفه بھی چن لیا گیا.

صرف ایک مذھب ھے مذھب حقه اثناۓ عشریه جو مسلسل چوده سو سال سے احتجاج پر ھے .اور مطالبه کر رھا ھے

که گستاخ پیغمبر ص جو بھی ھو بلا تفریق جو حیات ھیں انھیں بھی اور جو مر گۓ ھیں قبروں سے ان کی باقیات مراد بوسیده ھڈیوں کو بھی گٹھڑی میں باندھ کر علامتی سولی چڑھایا جاۓ.

تاکه آنے والے وقتوں میں کسی کو شان رسالت ص میں نازیبا الفاظ ادا کرنے کی جرات نه ھو.

اگر عمل نه کیا تو پھر ھمارا کیس الله تعالی کی عدالت میں ھے جھاں زره بھر بھی ناانصافی کا اندیشه نھیں ھے.

ھمارا یه مطالبه عالم اسلام کے صاحب طاقت حکمرانوں سے ھے.

که آۓ مسلمانوں الله کی ان آیات کی پاسداری کرو,

 جن میں فرمان الھی ھے.

قرآن مجید میں سورہ نحل کی آیت مبارکہ (90) میں ارشاد ربانی ھے, ترجمہ:

 بے شک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کا اور احسان کا.

بلکه قرآن میں 227/سورتوں میں عدل پر زور دیا گیا ھے.

چاھے تمھاری اولاد اور ماں باپ ھی کیوں نه ھوں.

جبکه پاک نبی ص نے سابقه قوموں کی تباھی کی وجه بھی عدل کا نه ھونا بتایا.

دیکھتے ھیں ھماری اس آواز کو کتنی تائید ملتی ھے.

حضرت عمر کھتے ھیں عورت کی حیثیت ایک کھلونا جیسی ھے.

عورت کی حیثیت ایک کھلونا  جیسی ھے جس سے کھیل کر پھر اسے  چھوڑ دیا جاتا ھے.
                                      (حضرت عمر)

حضرت عمر نے بیوی عاتکه بنت زید اور موسی اشعری کی پٹائی کیوں کی.

ابن عمر کا بیان ھے که ابو موسی اشعری نے میری ماں عاتکه بنت زید کو تقریبا ڈیڑھ گز کی چٹائی بطور ھدیه بھیجی جب میرۓ باپ نے وه تحفه میری ماں کے پاس دیکھا تو پوچھا یه تم کو کھاں سے ملا امی عاتکه جی نے جواب دیا ابو موسی اشعری نے دیا .

حضرت عمر نے وه چٹائی لی اور سر میں دے ماری یھاں تک که اس کا سر چکرا گیا اور کھا موسی اشعری کو بھی پیدل پکڑ کر لاؤ.

جب وه پیدل چل کر آۓ تو کافی تھک چکے تھے ابھی دروازه پر ھی تھے کھا یا امیرالمومینین میرۓ بارۓ جلدی نه کیجیۓ ,

حضرت عمر نے کھا تم ھماری عورتوں کو تحفے دیتے ھو,
 وھی چٹائی ان کے بھی سر پر دے ماری اور کھا اسے لے کر بھاگ جاؤ ھمیں تمھاری چٹائی کی ضرورت نھیں.

ماخوز:
یه واقعه سعودی عرب کے ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی, کی 848/صفحات پر مشتمل تاریخی کتاب

سیدنا عمر بن خطاب (سیرت و کارنامے).

باب :نامزدگی,نظام حکومت اور معاشرتی زندگی..,ص:225.   سے لیا گیا ھے.

مذھب شیعه کے ھر عمل کا ثبوت قرآن سے مانگنے والے آپنے ھر اعمال کو قرآن سے ثابت کرنے سے کیوں بھاگتے ھیں.

مذھب شیعه کے ھر عمل کا جواب قرآن سے مانگنے والے آپنے ھر اعمال کا جواب  کیوں نھیں دیتے.

حضرت عائشه کو صدیقه اور افضل النساء کھنے والوں کو قرآن سے اس فضیلت سے ھاتھ دھونے پڑیں گے.

 کیونکه وھاں خائن اور اصلاح کی وارننگ موجود ھے.

ھمارۓ ایک بھائی کی کاوش پیش فکر ھے.

اسلامی تورایخ  و کتب احایث سے انکار اور ہر معاملے کا حل قرآن سے حاصل کرنے کا نعرہ لگانا دراصل  بحث سے فرار کا حربہ ھے.

  قرآن سے  ہرحکم  تو خلفائے راشدین اخذ نہ کر پائے تو ہم جیسے  دال روٹی کے حصول  میں سرگرداں لوگوں کو قرآن کے  احکامات،  کتب اسلامی کی مدد کے بغیر بھلا کہاں ملے گے.

خصوصا وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی تعلیم کو پندرہ بیس سال تو دئیے مگر قرآنی تعلیم کو   شائد ایک سال بھی نہ دیا ھو.

مزید یہ کہ ہر خاص و عام اس بات پر متفق ھے کہ ہمارے پاس جو قرآن موجود ھے وہ ترتیب نزولی کے اعتبار مرتب نہیں ھے.

 جس کےباعث قرآن کو کتب اسلامی کی مدد کے بغیر سمجھنا ناممکن ھے.

دیکھا گیا ھے کہ مخالف فریق   مذہبی بحث میں   پہلے تو ہر  مأخذ سے دلائل پیش کرتا ھے مگر جب آبائی عقائد کا دفاع کرنے میں مشکل  ھوتی  ھے تو وہ گلی میں  کرکٹ کھیلنے والے بچوں کی طرح ہر بال پر اصول بدلنا شروع کر دیتا ھے.

 اور آخر میں فرار کا حتمی   طریقہ؛ کتب اسلامی سے انکار  اور معاملہ ختم.

خیال رھے کہ کتب اسلامی  سےاگر  انکار ھے تو پھر مکمل انکار ھونا چاہئے.

نہ کہ اپنی مرضی کے احکامات  کے لئے کتابیں منظور اور جب    انہیں  کتابوں سے اپنے عقائد کی نفی ھو تب کتابیں نا منظور.

ایسی دھاندلی نہیں چلے گی.

اگر ہم اس عام فرمائش کو مان کر کتب اسلامی  کو اپنی  ضروریات دین سے نکال کر خالص قرآن سے دینی معلومات لینا شروع کریں ( شیعہ تو گذارا کر لیں گے مگر باقی فرقوں کا ایک دن بھی نہیں گذرنا)

تو سب سے پہلے ہمیں کلمہ طیبہ سے ہاتھ دھونے پڑیں گے کیونکہ یہ قرآن میں ایک جگہ اکٹھا نہیں لکھا  ملتا.

 اسکے بعد وہ فرقے جن کے کلموں کی تعداد چھ تک جاتی ھے .

وہ اپنے باقی پانچ کلمے کہاں سے ثابت کریں گے.

 اسی طرح وضو میں سر کے نام پر گردن اور کندھوں تک کا مسح.
کُلّی۔ناک میں پانی,وضو کے بعد آسمان کی طرف انگلی کرنا.

حضرت محمد (ص) کا نام آنے پر انگوٹھے چومنا.

نماز کی ترتیب  اور رکعات کی تفصیل بھی قرآن سے ثابت نہیں.

کونسی نماز میں قرأت جہری ھے اور کونسی میں نہیں.

التحیات میں درود ابراہیمی.


اذان  کا الصلواۃ خیر من النوم تو دور پوری اذان بھی قرآن میں نہیں ھے.

بچے کے کان میں اذان.

 نکاح کا خطبہ.

جمعہ کی نماز کا خطبہ.

عید کی نماز کا خطبہ.

نماز جنازہ اور اسکی تکبیروں کی تعداد.

غسل میت غسل جنابت۔ غسل جمعہ۔غسل حیض.

خلفائے راشدین اور انکی شان میں نازل ہونے والی آیات.

 حضرت عمر کی فتوحات.

حضرت عثمان کی سخاوت.

اور خالد بن ولید کا سیف اللہ ھونا  بھی فقط کتب اسلامی سے ثابت ھو گا وگرنہ قرآن  سے تو  خالد  بن ولید کا دادا ولد الزنا ھی ثابت ہوگا. 

امہات المومنین کی تعداد اور ان کے فضائل .
حضرت عائشہ کہ دیگر ازاوج پر برتری صرف کتب اسلامی سے ھی ثابت ہو گی.

 ورنہ قرآن میں تو حضرت عائشہ کو توبہ کرنے کی وارننگ  موجود ھے .

اور نبی(ص) کو ان سے بہتر ، عبادت گذار پرہیزگار بیویوں کی پیشکش  ھی ملے گی.

 نبی پاک(ص) کے منہ سے شہد کی بدبو والی بات  اور بیویوں سے تنگ آکر 29 دن تک ’’ایلا‘‘ ((علیجدگی)) کتب اسلامی میں ملے گی.

پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرح ازواج النبی (ص) میں دھڑے بازی.


اگر کتب اسلامی سے انکار کر دیا جائے تو  ہمیں کون بتائے گا کہ قرآن  رسول اللہ (ص) کتابی شکل میں چھوڑ گئے تھے.

 یا  ہر خلیفے نے اپنے اپنے دؤر میں قرآن جمع کیا مگر جامع قرآن کا اعزاز ملی بھگت سے حضرت عثمان کو دے دیا گیا.

اس تحریر میں برادران پر تنقید,تعصب,یا اختلاف ابھارنا نھیں بلکه حقائق پر غور و  فکر دلانا مقصود ھے.

حضرت عمر نے آپنے دور خلافت میں بدعات کو فروغ دیا.

حضرت عمر نے آپنے دور خلافت میں جھاں بھت سے نۓ احکامات داخل کیۓ اور ایسی ایسی بدعات و خرافات داخل کیں جن پر شروع سے بھت سے اختلافات پیدا ھوۓ اور مذاھمت بھی کی گئی  وھی اختلافات آج تک چلے آ رھے ھیں.

.
جیسے نماز تراویح کا ایسا آغاز کیا اور شدت سے عمل کرنے پر مجبور کیا گیا که آج چوده سو سال کے بعد بھی لوگ روزه ترک کر لیتے ھیں مگر تراویح کو ترک نھیں کرتے حالنکه آپ نے خود بدعت تک کھا.

جبکه بدعت اسلام میں منع اور گناه عظیم ھے.
وھاں متعة الحج جیسی سنت کو بھی ترک کرایا گیا .

حالنکه ابن کثیر نے اس پر مکمل جرح کی ھے اور حضرت عائشه و حفصه اور حضرت علی ع  سمیت تمام مقتدر صحابه کی روایت کو اکھٹا کیا ھے.

 جن میں جابر بن عبدالله,ابن عباس,انس بن مالک,بکر بن عبدالله,ثابت البانی,حمید بن تیرویه,زید بن اسلم,حمید بن حلال,سالم بن ابی الجعد,سلمان بن طرخان,سوید بن حجیر,عبدالله بن زید, علی بن زید, قتاده بن دعامه,معصب بن سلیم,یحیی بن اسحاق, ابو الصقیل,ابو قدامه, الطراءبن عازب,سراقه بن مالک,سعد بن ابی وقاص,عبدالله بن ابی, عبدالله بن عباس,عبدالله بن عمر,عمران بن حصین, الرھاماس بن زیاد, وغیره .

یه سب متعة الحج کے قائل اور پاک نبی ص کی ادائیگی کی روایت کرتے ھیں.
حج کے ساتم عمره آپ نے آخری حج پر بھی ادا کیا ساتھ دو یا تین عمره کی ادائیگی کی روایات بھی ملتی ھیں.

اب کثیر  روایات  ھیں که حضرت عمر نے پابندی لگائی ھے .

جبکه دوسری جگه ایک روایت معاویه کے متعلق بھی ملتی ھے. .

مگر درج بالا روایات سے عمر کے متعلق ٹھوس ثبوت ھیں.

مگر ھم نے دونوں پیج سکین لگا دیۓ ھیں.

ھر راوی پر مکمل جرح اور  تفصیل جاننے کیلۓ .

البدایه والنھایه  جلد:5, ص:176 تا  237,
تک ملحاظه فرمائیں.

اونٹ تک زبح نه کر سکنے والے دین کی امامت کے اھل کیسے ھو گۓ.

:
برادران اھلسنت کو دعوت فکر

اونٹ تک زبح نه کر سکنے والے الله کے دین کی امامت  کیلۓ کیسے اھل ھو گۓ:

آخری حج پر قربانی ادا کرتے ھوۓ رسول الله ص نے سو انٹوں میں سے تریسٹھ اونٹ خود زبح کیۓ,

 باقی 37/ اونٹ  زبح کرنے کیلۓ سوا لاکھ اصحاب میں سے مولا علی ع کے سوا کسی کو  اھل نه پایا.

البدایه والنھایه:جلد:پنجم,ص:264/265.

دوسرا سکین:
رسول الله ص نے آخری حج کی واپسی پر غدیر خم کے مقام پر فضیلت حضرت علی ع پر ایک عظیم اور تاریخی خطبه دیا .

[(آخر یه خطبه دینے کی نوبت کیوں آئی اس پر ھم آنے والے دنوں میں البدایه ھی سے روشنی ڈالیں گے)]

آپ نے فرمایا آۓ لوگوں میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑ ۓ جا رھا ھوں قرآن و اھلبیت ع .

پھر آپ ص نے  فرمایا:

 الله میرا مولی ھے اور میں ھر مومن کا ولی ھوں.

 حضرت علی ع کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا جسے میں محبوب ھوں یه علی اس کا ولی ھے.

آۓ الله جو اس سے محبت کرۓ اس سے محبت کر جو عداوت رکھے اس سے عداوت رکھ.

بحواله :البدایه والنھایه:

 صفحه:290/291.

علامه ابن کثیر نے اسی خطبه پر آٹھ صفحات پر مختلف راویوں پر تفصیلی جرح کی ھے.

جبکه اسی واقعه غدیر پر اھلسنت کے عظیم مورخ اور مفسر قرآن ابو جعفر محمد  بن جریر طبری نے  دو جلدوں پر کتاب لکھی.

شیعه مذھب کے زوال کے اسباب

شیعه مذھب کے زوال کے اسباب:

کسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ھوسکتا ھے کہ ایک طرف تو وہ جھالت اور غربت و افلاس میں پس رھی ھو.

 اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ھو، وہ چیز جس نے آج شیعه قوم  کو بالکل بے بس بنا دیا ھے وہ قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات سے دوری اور آپس کا اختلاف ھے.

 سچ ھے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ھے: 

اگر تمھارے اندر اختلاف رھا تو اس کا نتیجہ یہ ھے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ھوجائے گی اور تم کسی قابل نہ رھو گے.
۔و اطیعوا الله و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ریحکم۔۔۔ انفال 46

مگر آج ھمارا حال یہ ھے کہ ھم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ھوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ھے کہ ھمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سیک رھا ھے اور ھمیں دکھا دکھا کر کھا رھا ھے اور ھم فقر و ناداری میں میں تڑپ رھے ھیں اور یہ نھیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ھورھا ھے.

امام خمینی رح اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ھیں:

 تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ھے چاھے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ھو 
6۔ صحیفہ نور ج8 ص 4

قرآنی تعلیمات سے دوری:

قرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ھی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ھے کہ انھیں خود بھی نھیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ھے.

 چنانچہ امام خمینی رح مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات سے دوری ھے.

 بدعات و خرافات کا رواج:

شیعت آج جن انگنت مسائل سے دوچار ھے ان میں ایک اھم مسئلہ یہ ھے کہ بدعتوں کو ھم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ھے گویا ھمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ھی نھیں ھوئی جو ھمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ھو، 

جو ھمارے لئے مشعل راہ ھو بلکہ جو کچھ ھے وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ھیں جنھیں ھمارا تقلیدی ذھن ھمیں انجام دینے پر اکساتا ھے .

اور ھم دین سے بے خبر بنا سوچے سمجھے انھیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رھے ھیں .
چنانچہ شھید مطھری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں: 
انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرھ پیمبر (ص) اور اھلبیت ع میں تحریف ھے.

 آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی ص 29.

لیکن ھمارا حال یہ ھے کہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ھوتا ھے جو ھمیں اچھا لگتا ھو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ھیں.

 حتیٰ که دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نھیں کرتے اور بے جا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رھتے ھیں کہ یہ چیز تو پھلے سے ھی اسلام میں موجود تھی .

کوئی نئی چیز نھیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ھے.

 اذا ظهرت البدعة فی امتی فلیظهر العالم علمه و الاّ فعلیه لعنة الله و الملائکة و الناس اجمعین، آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی نقل از سفینة البحار ج1 ص63.

حضرت علی (ع) کی سیرت آئینہ کی طرح شفاف ھے جس میں ھم اپنے اندر جو موجودہ نقائص کو آسانی کے ساتھ تلاش کرسکتے ھیں.

اسی لیۓ ھم تمام محبان اھلبیت ع کو قرآن و نھج البلاغه کی تعلیم پر زور دیتے رھتے ھیں.

کیونکه ھماری کامیابی کا رزا انھیں دو اھم آئینی کتب میں موجود ھے.

ھم ان کی تعلیمات پر عمل کرکے آپنی خامیوں کو دور کر سکتے ھین اور کامیابی کے راز بھی.

ھمیں دین و دنیا میں فلاح کی تلاش کرنا ھی کافی نھیں ھوگا جب تک ھم انھیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں اس لئے کہ آئینہ صرف نقائص کی طرف متوجہ کرتا ھے.

 اب اگر ھم متوجہ ھوکر بھی کوئی اقدام نہ کریں اور اپنے مسائل کے حل کرنے کے لئے تگ و دو نہ کریں تو پھر اپنی تمام بدبختیوں کے ذمہ دار ھم خود ھونگے.

شیعه مذھب کے زوال کے اسباب
شیعه مذھب کے زوال کے اسباب:

کسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ھوسکتا ھے کہ ایک طرف تو وہ جھالت اور غربت و افلاس میں پس رھی ھو.

 اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ھو، وہ چیز جس نے آج شیعه قوم  کو بالکل بے بس بنا دیا ھے وہ قرآن و اھلبیت ع کی تعلیمات سے دوری اور آپس کا اختلاف ھے.

 سچ ھے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ھے:

اگر تمھارے اندر اختلاف رھا تو اس کا نتیجہ یہ ھے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ھوجائے گی اور تم کسی قابل نہ رھو گے.
۔و اطیعوا الله و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ریحکم۔۔۔ انفال 46

مگر آج ھمارا حال یہ ھے کہ ھم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ھوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ھے کہ ھمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سیک رھا ھے اور ھمیں دکھا دکھا کر کھا رھا ھے اور ھم فقر و ناداری میں میں تڑپ رھے ھیں اور یہ نھیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ھورھا ھے.

امام خمینی رح اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ھیں:

 تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ھے چاھے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ھو
6۔ صحیفہ نور ج8 ص 4

قرآنی تعلیمات سے دوری:

قرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ھی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ھے کہ انھیں خود بھی نھیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ھے.

 چنانچہ امام خمینی رح مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات سے دوری ھے.

 بدعات و خرافات کا رواج:

شیعت آج جن انگنت مسائل سے دوچار ھے ان میں ایک اھم مسئلہ یہ ھے کہ بدعتوں کو ھم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ھے گویا ھمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ھی نھیں ھوئی جو ھمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ھو،

جو ھمارے لئے مشعل راہ ھو بلکہ جو کچھ ھے وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ھیں جنھیں ھمارا تقلیدی ذھن ھمیں انجام دینے پر اکساتا ھے .

اور ھم دین سے بے خبر بنا سوچے سمجھے انھیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رھے ھیں .
چنانچہ شھید مطھری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرھ پیمبر (ص) اور اھلبیت ع میں تحریف ھے.

 آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی ص 29.

لیکن ھمارا حال یہ ھے کہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ھوتا ھے جو ھمیں اچھا لگتا ھو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ھیں.

 حتیٰ که دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نھیں کرتے اور بے جا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رھتے ھیں کہ یہ چیز تو پھلے سے ھی اسلام میں موجود تھی .

کوئی نئی چیز نھیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ھے.

 اذا ظهرت البدعة فی امتی فلیظهر العالم علمه و الاّ فعلیه لعنة الله و الملائکة و الناس اجمعین، آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی نقل از سفینة البحار ج1 ص63.

حضرت علی (ع) کی سیرت آئینہ کی طرح شفاف ھے جس میں ھم اپنے اندر جو موجودہ نقائص کو آسانی کے ساتھ تلاش کرسکتے ھیں.

اسی لیۓ ھم تمام محبان اھلبیت ع کو قرآن و نھج البلاغه کی تعلیم پر زور دیتے رھتے ھیں.

کیونکه ھماری کامیابی کا رزا انھیں دو اھم آئینی کتب میں موجود ھے.

ھم ان کی تعلیمات پر عمل کرکے آپنی خامیوں کو دور کر سکتے ھین اور کامیابی کے راز بھی.

ھمیں دین و دنیا میں فلاح کی تلاش کرنا ھی کافی نھیں ھوگا جب تک ھم انھیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں اس لئے کہ آئینہ صرف نقائص کی طرف متوجہ کرتا ھے.

 اب اگر ھم متوجہ ھوکر بھی کوئی اقدام نہ کریں اور اپنے مسائل کے حل کرنے کے لئے تگ و دو نہ کریں تو پھر اپنی تمام بدبختیوں کے ذمہ دار ھم خود ھونگے.

پاکستان میں تشیع مشکلات کا شکار کیوں...

پاکستان بالعموم اور اس کے اندر بالخصوص تشیع گوناگوں مشکلات کا شکار ھے.

جن سے آپ سب برادران آگاه ھیں ان مشکلات میں سب سے بڑی وجه ایسی تعلیم کا فقدان ھے جو ھمارۓ سفر اور مسلکی مسائل کو حل کرنے کیلۓ بنیاد بن سکتی ھے.

وه ھے قرآن کی تعلیم جسکا خود الله تعالی نے اھتمام کیا ھے اور خود ھی اس کے معلم بھیجے ھیں.

سوره جمعه آیت :2, میں الله تعالی فرماتا ھےھے:
وھی ھے جس نے خوانده لوگوں میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ھے,

 اور انھیں پاکیزه کرتا ھے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے جبکه اس سے پهلے یه لوگ صریح گمراھی میں تھے .

اس تعلیم کے معلم خداوند نے خود چنے جسکا نصاب خود الله تعالی نے خود رکھا اور ان معلین کیلۓ طریقه تعلیم ,روش تعلیم,اور اس کا طریقه کار خود خداوند تعالی نے معین کیا اور اس طرح لوگوں کو گمراھی سے نکالا.

لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایک مخصوص طبقه جسکی آمدنی کا بڑا زریعه منبر حسین ع ھے.

یه لوگ اھل تشیع کی کثیر تعداد کو اس حقیقی تعلیم سے دور رکھ کر,

 آپنے کاروبار کو وسعت اور دفاع کرتے ھیں تاکه ان کا بزنس کسی مشکلات کا شکار نه ھو اور یھی کم علم اور سادۓ لوگ ان کے قیاسی اور فلسفانه ,خود ساخته عقائد و علم سے جڑۓ رھیں.

اور یه حقیقت ھے اس طبقه کی یه روش جو منبر سے جڑی ھے اصل میں ھمارۓ مذھب کی رسوائی, بدنامی اور پس ماندگی کا سبب ھیں .

یھاں ھم کچھ حقائق پیش کرتے ھیں.

وفاق المدارس ایک نیم سرکاری اداره ھے اس کے پانچ وفاق ھیں ان میں ایک شیعه مدارس کا  وفاق ھے.

گورنمنٹ کے ساتھ ان وفاق المدارس کا رابطه ھے انھیں کے ایک رکن کے بقول اھلسنت کے چار وفاق ھیں ایک اھلحدیث کا,ایک بریلوی,ایک دیوبند ,اور ایک جماعت اسلامی کا.اور ایک عام دیوبندی کا ھے جماعت اسلامی کا الگ وفاق ھے ان مدارس کا پورا حساب کتاب گورنمنٹ کے پاس ھے سواۓ جماعت اسلامی کے .

که کس وفاق کے پاس کتنے مدارس اور طلباء ھیں.

شیعه مدارس کی تعداد 470/اور ان میں طلباء کی تعداد شرمناک حد تک 3500/کے قریب ھے.

جبکه بریلوی مسلک کی دس لاکھ جو پاکستان کا اکثریتی مسلک ھے.
دیوبندی 25/لاکھ .

اور اسی طرح اھلحدیث  کی بھی 25 لاکھ سے زیاده ھے .

پانچواں وفاق جماعت اسلامی کا ھے جو خودمحتار ھے اس لیۓ اس کا ریکارڈ موجود نھیں ھے.

یه ھیں وه حقائق جن کی وجه سے ھم ان لوگوں سے کم منظم اور تفریق و اختلاف کا شکار ھیں اور آۓ دن منبر پر قابض کم علم لوگوں کا گروه  ھے جو نت نۓ نۓ عقائد و آفکار مذھب میں داخل کرتے جا رھے ھیں.

جنھیں ھماری بھولی بھالی قوم واه واه اور نعروں سے خیر مقدم کرتے ھوۓ آپنے ایمان  میں ڈھال رھے ھیں.

اور یه حالات مذید بگڑتے جا رھے ھیں کیونکه ھمارۓ ھاں قرآن و اھلبیت ع کی حقیقی تعلیم سے ھٹ کر خودساخته روایات و نظریات کے پرچار سے کفر و شرک بڑھ کر دوسرۓ مذاھب کے درمیان خلیج کا باعث بن رھا ھے.

اس طوفان کو روکنے کیلۓ منبر کے غلط استعمال کو روکنا اور علماء حقه کو آپنا کلیدی کردار ادا کرنا ھوگا.

اور مذھب میں داخل باطل نظریات و افکار کی مذمت کرتے ھوۓ حقیقی دینی تعلیم جو ھمیں قرآن و اھلبیت ع سے ملتی ھے عام کرنا ھوگی.

ھر قاری بھائی سے درخواست ھے وه شیعه عوام میں یه شعور اجاگر کریں اور پیار و محبت تحمل و بردباری سے ملت و مذھب میں باطل عقائد جدیدیه کے خلاف آواز اٹھائیں.

کیا اقرار ولایت علی ع کے بعد نماز,روزه,حج,زکواة واجبات الھیه معاف ھیں.

ھم خدا کے لئے حجت نہیں ھیں بلکه خدا کی حجت ھم اور تمام مخلوقات عالم پر ھے.
کیا اقرار ولایت اور معرفت اھلبیت ع کے بعد نماز,روزه,حج,زکواة معاف ھیں.

جو ایسا عقیده رکھے اس کا سر کچل دو فرمان امام علی نقی ع.

سھیل بن زیاد آدمی راوی ہیں کہ ہمارے دوستوں نے امام علی نقی  ع کے پاس خط لکھا: 
               اے میرے مولا و آقا

آپ پر ھماری جان فدا ھو، علی بن حسکه آپ کی ولایت (نیابت) کا دعویٰ کرتا ھے اور کہتا پھرتا ھے کہ آپ  اول و قدیم ہیں اور وہ آپ کا نبی نمائندہ ھے.

 اور آپ نے لوگوں کو اس بات کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا ھے، وہ یہ خیال کرتا ھے کہ نماز، حج، زکوٰة، اور یہ سب کے سب آپ کی حقیقت و معرفت ہیں.

 اور ابن حسکہ کی نبوت و نیابت جس کا وہ مدعی ھے اس کو قبول کرنے والا مومن کامل ھے.
 اور حج و زکوٰة و روزہ جیسی عبادات اس سے معاف ہیں,

اور شریعت کے دیگر مسائل اور ان کے معانی کو ذکر کیا ھے جو آپ کے لئے ثابت ہوچکا ھے .

اور بہت سارے لوگوں کا میلان بھی اس جانب ہصھے,
اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں تو کرم فرما کر ان کا جواب عنایت فرمائیں تاکہ آپ کے چاہنے والے ہلاکت سے بچ سکیں.

امام  نے جواب میں تحریر فرمایا:

 ابن حسکه جھوٹ بولتا ھے اس پر خدا کی لعنت ھو، تمہارے لئے یھی کافی ھے کہ میں اس کو اپنے چاہنے والوں میں شمار نہیں کرتا، اس کو کیا ہوگیا ھے؟.

            اس پر خدا کی لعنت ھو.

خدا کی قسم خدا نے محمد اکرم اور ان سے ماقبل رسولوں کو مبعوث نھیں کیا مگر یہ کہ دین نماز، زکوٰة ، روزہ، حج اور ولایت ان کے ہمراہ تھی،

 خدا نے خدا کی وحدانیت کے سوا کسی چیز کی دعوت نہیں دی اور وہ خدا ایک و لاشریک ھے،
 اسی طرح ہم اوصیاء (الٰہی) اس بندہ خدا کے صلب سے ہیں کبھی خدا کا شریک نہیں مانتے .

مگر ھم نے رسول  کی اطاعت کی تو خدا ہم پر رحمت نازل کرے اوراگر ان کی خلاف ورزی کی تو خدا عذاب سے دوچار کرے، 
ھم خدا کے لئے حجت نہیں ہیں بلکہ خدا کی حجت ہم اور تمام مخلوقات عالم پر ھے.

وہ جو کچھ کہتا ھے ان سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں اور اس قول سے دوری اختیار کرتے ہیں.

 خدا ان پر لعنت کرے ان سے دوری اختیار کرو، ان پر عرصہ حیات تنگ کردو اور ان کو کبھی گوشہ تنہائی میں پاو تو پتھر سے ان کا سر کچل دو.

ان باتوں سے بالکل واضح ھو جاتا ھے کہ دینی فرائض جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، حج، وغیرہ سے فرار کرنا غلو کی ایک قسم ھے.

بحار الانوار، ج:26,
 حدیث و محدثین، ہاشم حسنی,ص: 299.

جمعرات، 23 مئی، 2019

مسله خلافت , جانشین رسول ص کا حقدار کون..

اگر مسلمان خلافت کے مسله کو حل کرنا چاھیں تو صرف ان دو اھم واقعات کی روشنی میں تعصب اور ضد سے ھٹ کر  فیصله کر سکتے ھیں,

 که رسول الله ص کا حقیقی جانشین اور وارث کون ھے.

ایک وه موقع جب آپ نے آپنے واضح حکم سے غزوه تبوک کے موقع پر حضرت علی ع کو آپنا قائم مقام نائب بنایا.

 ساتھ یه بھی فرمایا که آۓ علی تمھیں مجھ سے وھی نسبت ھے جیسے ھارون کی موسی ع سے تھی ھاں مگر میرۓ بعد کوئی نبی نه ھو گا.

دوسرا موقع سوره برات کے نذول کا ھے جسمیں آپ ص نے حضرت ابوبکر کو بھیجا ,

مگر  الله کا حکم آنے  سے حضرت علی ع کو پیچھے بھیجا تاکه مشرکین تک اعلان برات کے پهنچانے کی زمه داری لیں.

 کیونکه الله تعالی کا حکم ھوا تھا که آپ آپنی اھلبیت میں سے حضرت علی ع کو بھیجیں.

اس واقعه سے برادران کی اس سوچ کی نفی ھوتی ھے که علی ع اصحاب میں سے ھیں, 

 بلکه یھاں  اھلبیت ع کے فرد ھونے کی وجه سے حکم الھی ھوا ھے.

دوسرا خلافت کا مسله حل ھوتا ھے جو الله پاک نے واضح کیا که آپ کا نائب یا قائم مقام وھی ھو سکتا ھے جو ھر لحاظ سے,علم سے تقوی سے شجاعت سے صلاحیت و اھمیت رکھتا ھو. 

بحواله: تاریخ ابن کثیر(البدایه والنھایه)جلد:5,ص:21,22/64,65.

:خلافت پر قبضه کیسے کیا گیا یه مکمل روداد ملحاظه فرمائیں 

بخاری شریف جلد:8, حدیث نمبر:6830.

 ص:182-183-184-185.
186-187-188-189-

حضرت عمر تسلیم کر رھے ھیں که ابوبکر کی بیعت اچانک ھو گئی تھی پھر چل بھی گئی.یه ناگھانی بیعت جو برائی تھی الله پاک نے ھمیں اسکی سزا سے بچاۓ رکھا. اور دعاء ھے که الله پاک ھمیں اس شر سے بچاۓ ھی رکھے.

حضرت عمر خود تسلیم کر رھے ھیں که یه خلافت جس پر ھم نے قبضه کیا یه ناں الله کے حکم پر ھوئی اور ناں ھی رسول الله ص کے حکم سے.

خدارا مسلمانوں عدل کرنا سیکھو اور تعصب و ضد سے اور دشمنی اھلبیت ع سے آپنی آخرت برباد نه کرو.

کتب بھی آپکی تحریر بھی آپکے چوٹی کے علما کی الفاظ بھی انھیں کے ھم نے صرف خبردار اور آگاه کیا ھے

یه سب رجم کے حکم پر دی گئی حدیث نمبر :6830/میں موجود ھے اھم صفات کے سکین لگا دیۓ ھیں.
ابو بریده بیان کرتے ھیں که میں حضرت علی ع سے ایسا بغض رکھتا تھا که اس قسم کا بغض میں نے کسی اور سے کبھی نھیں رکھا.

 اور میں نے قریش کے ایک آدمی سے محبت رکھی اور میں اس سے صرف بغض علی ع کی وجه سے محبت رکھتا تھا.

رسول الله ص نے کھا آۓ بریده کیا تم علی ع سے بغض رکھتے ھو میں نے عرض کی ھاں آپ نے فرمایا اس سے بغض نه رکھو اس کیلۓ خمس میں اس سے بھی زیاده حصه ھے.
اور سنو جس نے علی کو ازیت دی اس نے مجھے ازیت دی.مجھے حضرت علی سے بڑھ کر کوئی محبوب نھیں.

بحواله:
 البدایه والنھایه جلد:5/ص:152/153.

معلومات قرآن مجید

:معلومات قرآن

قرآن پاک میں حروف تھجی کا استعمال کونسا حرف کتنی مرتبه آیا ھے

قرآن پاک میں زبر:..39582,دفعه.

قرآن پاک میں پیش..88004.دفعه.

قرآن پاک میں مد:1771,دفعه.

قرآن پاک میں تشدید..1253,دفعه.

قرآن پاک میں کل اعراب(دو لاکھ دس ھزار تین سو اڑتیس) 210338,دفعه.

قرآن پاک میں نقطه :(ایک لاکھ پانچ ھزار چھ سو چوراسی).  105684,دفعه.

الف:ا.........48872,    دفعه.

ب......11428,   دفعه.

ت........10199,     دفعه

ث..........10277,

ج........3273,

ح........3993,     

خ........1416,    

د...........5642,   

ذ......4699,      

ر...........11799,   

ز.......1590,

س.........5891,

ش........2253,

ص........2013,

ض.........1607,

ط.......1274,

ظ.......842,

ع........9220,

غ........2208,

ف........8499,

ک.......9500,

ق.........6813,

ل..........30423,

م........26135,

ن.......26560,

و.......25536,

ه.......19570,

ی........25919,

ء......قرآن پاک میں بطور لفظ کھیں استعمال نھیں ھوا.

یه معلومات بستان العارفین اردو ص:661/662,

المعجم المفراس الالفاظ القرآن ص:783,

اور تدوین القرآن ص:124,

سے لی گئیں ھیں.

بدھ، 15 مئی، 2019

غالی ایک بھٹکی قوم ھے.

غالی امامت و ولایت کے معتقد تو ھیں لیکن ملتزم کس کے ھیں

یه بھٹکے لوگ زندگی کس کی ھدایت پر گزارتے ھیں ان کا آمر و فرمانروا کون ھے.
یه کن کے فرامین پر عمل کر رھے ھیں.

آیا جس امام ع کی محبت میں غلو تک کر جاتے کیا اس امام ع کے احکام پر عمل کرتے ھیں.

لیکن اگر اھل غلو صرف نظریه و عقیده رکھتے ھیں که ,
جناب علی ع الله کے ولی ھیں لیکن بات آپنے بابا,دادا کی اور محلے کے کسی شخص یا منبر پر قابض جاھل ناخوانده زاکر کی ماننی ھے,
تو پھر آپ ولایت کے ملتزم نھیں ھیں صرف معتقد ھیں.

لھذا صاف ظاھر ھے التزام کسی اور کی ولایت کا ھے اور اعتقاد کسی اور کی ولایت کایه صرف دھوکه  ھی دھوکه ھے.

   "تیری قسم کو مانوں
                             یا مرغے کی دم کو"

ایک آدمی نے مرغا چرایا اور آپنی چادر کے نیچے بغل میں چھپا لیا اور اس کا گله دبا لیا تاکه بولے نھیں.
جس کا مرغا تھا اس نے دیکھ لیا که یه مرغا چرا کر جا رھا ھے وه آگے بڑھا اور اس سے کھا که تو نے میرا مرغا چھپایا ھے.

تو اس نے قسم کھائی که میں نے نھیں چرایا چادر سے باھر مرغے کی دم لٹک رھی تھی.
 مگر یه شخص قسم کھا کر کھه رھا ھے که میں نے مرغا نھیں چرایا مگر مرغے کی دم بغل کے نیچے چادر سے ظاھر ھو رھی تھی.

مرغے کے مالک نے کھا که میں تیری قسم کو مانوں یا مرغے کی دم کو مانوں.یه متضاد بات ھے قسم کھه رھی ھے که مرغا نھیں ھے مگر دم ثابت کر رھی ھے مرغا تیری بغل میں ھے.

یه فارسی محاوره ھے که انسان کس چیز کو مانے,
 یھی قسم اور دم میں تضاد ھے .

اور یھی تضاد ھمیں غالیوں کے ظاھری دعوی محبت میں نظر آتا ھے,
 دعوی محبت اتنا که ھر عظمت و فضائل میں غلو نظر آتا ھے مگر مانتے مولا علی ع کی ایک نھیں.
مولا علی ع اور حسین ع نے  سجدے میں جان دی .
مگر یه نماز کو زنا سے تشبیح دیتے ھیں.

مولا علی ع فرماتے ھیں قرآن کی تعلیم پر فکر کرو مگر یه مانتے جاھل راگڑی زاکر کی ھیں.

مولا ع نے نماز کو ھی کامیابی کھا ھے مگر یه حقیقی نھیں بلکه رسمی عزاداری کو نماز پر ترجیح دیتے ھیں.

مولا ع کردار و عمل کو محبت قرار دیتے ھیں مگر یه لوگ مجلس میں واه واه نعرۓ اور گریه و ماتم کو ھی کافی,
 اور الفاظی,زبانی دعوی محبت کو زندگی کا  مقصد سمجھتے ھیں.

           ھر جگه تضاد ھی تضاد ھے.

زبان سے ولایت علی ع کا اقرار اور کردار علی ع سے انکار کرنے والے ھی اصل دشمن علی ع ھیں.

ولایت علی ع کی حقیقی گواھی سے مراد کیا ھے ؟ 

ھر انسان صبح سے شام تک بیسوں کام انجام دیتا ھے .

وہ دیکھتا ھے ، سنتا ھے ، بولتا ھے ، کام کاج کرتا ھے ، ملازمت ،تجارت ، زراعت ، کماتا ھے ، خرچ کرتا ھے ، بچت کرتا ھے ، دوستی کرتا ھے ، د شمنی کرتا ھے ، محبت اور نفرت کرتا ھے ، آرام اور تفریح کرتا ھے.

روحانی ترقی وتسکین کے لئے عبادت کرتا ھے. یہ سارے کام دنیا کا ھر انسان کرتا ھے گو اس کا تعلق کسی بھی مسلک ،، ملک ،، مذھب ۔ زبان یا نسل سے ھو.

 ولایت علی ع کے معنی یہ ھیں کہ ھم اپنے ان تمام افعال کو مولا علی ع کی سرپرستی میں انجام دیں اور ان تمام افعال میں حتیِ الامکان ان کی پیروی کریں.

گویا یہ ھمارے افعال ھیں جن کے ذریعے ھم گواھی دے رھے ھوتے ھیں کہ ھم علی کی ولایت میں ھیں یا کسی اور کی ولایت میں.

پس ولایت علی کی حقیقی گواھی ھمیں ان افعال اور کردار سے دینی ھے اگر ھم زبان سے علی ولی کھیں مگر اعمال میں کردار علی ع کا ذرا سا بھی رنگ نہ ھو,

تو ولایت علی ع کا دعویِ جھوٹا ھوگا.

اگر ھم نماز میں ان چیزوں کا اضافہ کر دیں جو مولا علی کی نماز میں نھیں تھی تو ھم ولایت علی ع کا دعوی کرنے کے باوجود عملی طور پر ولایت علی ع کی مخالفت کے مرتکب ھو رھے ھوں گے .

چونکہ آئمہ اپنی نماز میں شھادت ثالثه نہیں پڑھتے تھے .

لہِذا نماز میں شھادت ثالثه پڑھنا ولایت علی ع اور ولایت آئمہ کی کھلی خلاف ورزی ھے.

"
ازقلم :"سائیں لوگ

یاعلی مدد کھنا کھاں تک درست ھے.

سوال:   ھم ھر نماز میں ایاک نعبدو وایاک نستعین پڑھتے اور یا علی مدد اور ناد علی بھی پڑھتے ھیں,کیا یه شرک نھیں ھے.

جواب.....اگر الله کی بجاۓ کھتے ھیں تو پھر یه ضرور کھلا شرک ھے.

لیکن اگر الله کی بجاۓ نھیں کھتے بلکه الله کا وسیله سمجھ کر یا علی مدد کھتے ھیں تو پھر یه عبادت ھے.

مگر یا علی مدد کھاں کھنے کی ضرورت ھوتی ھے کیونکه علی ع تو مرد میدان ھیں ناکه ھم میں سے کوئی زیاده کھانا کھا لے پھر اٹھتے وقت کھے,

                            یا علی مدد

 حالنکه یه وقت یا میدان یا علی مدد کھنے کا نھیں بلکه احتیاط سے کھانے کا ھے .

اگر ھم سوئی میں دھاگه نه ڈال سکیں تو کھیں یا علی مدد.

تو یه کیسے ممکن ھے بلکه آجکل اکثریت یا علی مدد کھتے ھی ایسے کاموں میں ھیں,

 جب کوئی جواری جوا ھار رھا ھو تو کھے یا علی مدد یا چور دیوار پھیلانگے تو کھے یا علی مدد (نعوذ بالله) تو یه توھین یا علی مدد ھے.

سب سے پهلے یه شعور پیدا کرو که یا علی مدد کھنا کب چاھیۓ.یا علی مدد کھنے کیلۓ ھم کھڑۓ کھاں ھیں.
وه کونسا میدان ھے جھاں ھمیں یا علی مدد کھنا چاھیۓ.

ھمیں حق کیلۓ جب کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں,
 پنجه آزمائی کریں دشمن اسلام  سے نبرد آزما ھوں,
 اس وقت ضروری ھے ھم الله کی نصرت کے ساتھ مرد میدان کی زینت ھونے کے ناطے یا علی مدد کھیں,
 تو یعقینا مولا علی ع ھماری مدد فرمائیں بتوسط الله تعالی کیونکه سب سے بڑا مشکل کشاء تو صرف الله تعالی کی زات ھے .

اگر مولا علی ع ھماری مشکل کشائی کر سکتے ھیں تو یه بھی الله کی ھی طاقت سے ممکن ھے.

کیونکه الله پاک نے ھی ھماری مدد کی طاقت دی ھو ئی ھے.

مولا علی ع نے ھر میدان میں دشمن دین اسلام کو چت کیا ناکام کیا آپ ع نے فتح پائی,
 تو یعقینی ھے که ھم شیر خدا کو ھی مدد کیلۓ پکاریں گے جنھیں میدان جنگ میں کبھی شکست نھیں ھوئی.

مولا علی ع بھی انکی مدد کرتے ھیں جو حق و سچائی پر دیوار آھنی کی طرح ڈٹ جاتے ھیں جن کے اندر حوصله و ھمت ھوتی ھے
"ازقلم:" سائیں لوگ

الله تعالی کے علاوه کسی کو دین بنانے کا اختیار نھیں.

الله کے علاوه کسی کو دین بنانے کا حق نھیں ھے.

الله کا کام دین بنانا ھے لھذا ھدایت کے قانون الله تعالی نے بنانے ھیں انبیاء و آئمه علیھم اسلام نے اس دین کو پھنچانا و نافذ و لاگو کرنا ھے .

علماء نے اس دین کو سمجھنا ھے پھر اس دین کی تبلیخ کرنی ھے.

غالی بے عقل قوم میں کامیاب پیروپیگنڈۓ.

:غالی عقل سے عاری لشکر باطل جو آپنے ھی جھوٹ پر ایمان رکھتے ھیں

امیر المومینین ع نے جب مزاکرات کیلۓ آپنا قاصد شام بھیجا,
 که جا کر معاویه کو سمجھاؤ که جنگ سے باز آ جاۓ.

 اور میری اطاعت کرۓ یه قاصد گیا اور دربار شام میں پیغام پهنچایا قاصد اونٹ پر بیٹھ کر گیا تھا.

 ایک شامی نے کھا اس قاصد کے پاس اونٹ فلاں شامی کا ھے قاصد نے اونٹ چرایا ھے یه ایسے ھی ھے جیسے آپ گاڑی پر جائیں اور کوئی شخص کھے که یه گاڑی تو میری ھے.

یھی کچھ اسی قاصد کے ساتھ ھوا قاصد اونٹ پر گیا تو شامی نے کیس بنا دیا که,
 یه اونٹ فلاں شامی کا ھے جب جھگڑا بڑھا تو فیصله امیر شام معاویه کے پاس گیا.

 اب اس نکتے کو غور سے پڑھیں امیر شام نے فیصله کیا که یه اونٹ علی ع کے قاصد کا نھیں بلکه اسی شامی کا ھے.

 اور امیر المومینین ع کے قاصد نے چرایا ھے .

اسے جرمانه ھو گا اور اونٹ بھی واپس کرنا ھو گا.

قاصد نے معاویه سے کھا که شامی مالک سے یه پوچھ لیں که اونٹ نر تھا یا ماده.

جب اس شامی سے پوچھا گیا که تیرا اونٹ جو گم ھوا کیا تھا.

 شامی نے کھا وه اونٹنی(ماده) تھی.

جبکه قاصد والا اونٹ (نر) تھا قاصد نے کھا اسکی اونٹنی چوری ھوئی جبکه میرۓ پاس اونٹ ھے.
  سارا مجمع کھڑا ھو گیا معاویه نے لوگوں سے پوچھا بتاؤ یه اونٹ مذکر ھے یا مونث سب نے کھا یه اونٹنی ھے مونث ھے.

تو سوچیۓ یه کون لوگ ھیں جن کی عقل ان کی آنکھوں میں آ گئی ھے امیر شام نے وه اونٹ شامی کو دے دیا اور کھا یه تمھاری اونٹنی ھے اسے لے جاؤ.

اور قاصد کو کھا اب واپس کوفه پیدل جاؤ تمھے اونٹ یا اونٹنی کچھ بھی نھیں دیا جاۓ گا.

 اور جا کر یھی علی ع کو بتانا جو کچھ تم نے دیکھا ھے.

که سپاه معاویه اونٹ اور اونٹنی کی پھچان نھیں کر سکتی بھلا وه جناب امیر ع اور معاویه ملعون میں کیسے فرق کر سکیں گے.

اب یھی حالت مذھب حقه میں داخل غالیوں کی ھے جنھیں قرآن و احادیث و سیرت معصومین ع

( تفسیر قرآن)سمجھ نھیں آتی.

 قرآن کی حق بات کو جھوٹ سمجھتے ھوۓ ایک ناقص زھن کی قیاسی تشریح پر عقیدۓ بناۓ ھوۓ ھیں.

جب تک یه گروه قرآن کو نھیں سمجھ سکتے,
 تب تک الله تعالی اور مولا علی ع کی فضیلت کا ادراک نھیں کر  سکتے.

مولا علی ع کو سمجھنے کیلۓ قرآن اور قرآن کو سمجھنے کیلۓ جناب امیر ع کے زھد و تقوی,عبادت و یاضت اور  توحید, مناجات اور دعائیه خطبات کو سمجھنا ھو گا.

اگر درست عقیدۓ و کامل ایمان بنانا ھے تو پھر قرآن و کلام امام نھج البلاغه پر فکر کرنا ھو گی.

نھیں تو پھر ھماری حق بات پر مبنی پوسٹ پر بھی منفی کمنٹس کرتے رھو گے,

 اور ایسے گمراه راستے پر سفر سدا رواں رھے گا جسکی منزل نھیں.

پیر، 13 مئی، 2019

سائیں لوگ کی تمام مسلمان گروھوں سے درد مندانه اپیل.

دوسرے مسالک کے مقدسات کی توھین نھیں کرنا چاھیے،ان کے بزرگوں پر لعنت بھیجنا اور ان کو گالی دینا جائز نھیں ھے ،

اس لیے که یہ چیز ھم  کو اہل بیت ع اور ان کے معارف سے دور کیے جانے کا سبب بن رھی ھے.

ھمیں ایسی چند لوگوں کی  شر پسندی کا دانشمندی اور بصیرت سے مقابله  کرنا ھوگا.

جو اسلام کے مضبوط بازوں شیعه سنی اور مذھب حقه شیعه کے اندر  طاقتوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کرنا چاھتے ھیں.

 قائد اعظم محمد علی جناح شیعه ھو کر بھی سب مسالک کیلۓ محترم رھے.

انھوں نے ایسے پاکستان کے قیام کے لیے جدوجھد کی جس میں تمام مذاھب کو بلاتخصیص مکمل طور پر مذھبی آزادی حاصل ھو.

کچھ  لوگ تکفیری اور غالی  گروھوں کو مضبوط اور سرعام تکفیریت اور چند باھر بیٹھے غالیت کے لوگ  پاکستان کے مسلمانوں میں باھمی نفرت و انتشار کو فروغ دے رھے ھیں.

جو مقامی اور عالمی سطح پر وطن عزیز کی ساکھ کے لیے انتھائی نقصان دہ ھے.ان ملک دشمن عناصر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیۓ سب مسلمان برادران  کو مل کر جدوجھد کرنا ھو گی.

اختلاف رکھیں مگر توھین کا عنصر گفتگو کا حصه نه بنائیں ھماری شروع سے کوشش رھی ھے که علمی بحث مباحثه کے زریعے باھمی اختلاف کو قبول کیا جاۓ مگر چند لوگ آپنے ناقص علم کی وجه سے گالی گلوچ کی مدد سے آپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ھیں یه عمل سراسر بھت نقصان اور تکلیف ده ھے.

جمعرات، 2 مئی، 2019

آزواج رسول ص اھلبیت علیھم اسلام میں شامل نھیں.


"تحریر و تحقیق : "سائیں لوگ                                

تمام ناصبی,وھابی اور  ان برادران کو چیلنج ھے که صحیح مسلم,جامع ترمذی اور طبرانی کا رد پیش کریں که

    "اھلبیت ع سے مراد آزواج بھی ھیں"

سورہ احزاب میں ارشاد ھوتا ھے:

 إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا:

ترجمه:
بس اللہ کا ارادہ یہ ھے کہ( اے اھل بیت پیغمبر) تم سے ھر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے.

آیة شریفه کے پیش نظر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ اھل بیت(ع) سے مراد کون لوگ ھیں؟

یہ بات اپنی جگہ صحیح ھے کہ یہ آیة شریفہ ازواج پیغمبر کی شان میں نازل ھو نے والی آیات کے درمیان واقع ھے لیکن اس آیت کا انداز بدلا ھوا ھے جس سے اندازہ ھوتا ھے کہ اس آیت کا ایک دوسرا مقصد ھے،

کیونکہ اس سے پھلی اور بعد والی آیات میں جمع مونث کے صیغے استعمال ھوئے ھيں لیکن اس آیت میں جمع مذکر کا صیغہ استعمال ھوا ھے.

آیت کے شروع میں ازواج پیغمبر(ص)کو خطاب کیا گیا اور ان کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں رھیں، اور عرب کی جاھلیت کے رسم و رواج کی طرح لوگوں کے سامنے نہ نکلیں.

عفت کی رعایت کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں نیز خدا اور رسول کی اطاعت کریں،

<وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْاولَی وَاَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِینَ الزَّکَاةَ وَاطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَہُ.

آیت کے اس حصہ میں تمام چھ ضمیریں جمع مونث کی استعمال ھوئی ھیں غورکیجئے.

اس کے بعد لہجه بدل جاتا ھے اور ارشاد ھوتا ھے کہ اللہ کا صرف ارادہ یہ ھے کہ تم اھل بیت سے رجس کو دور رکھے اور تمھیں مکمل طور پر پاک رکھے.
اب رجس سے مراد ھر طرح کی پلیدی و ناپاکی ھے.
مگر چند آزواج کی خامیاں اور پلیدیاں سوره تحریم ,احزاب اور نور میں زکر ھیں.

إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا.س احزاب:33.

آیت کے اس حصہ میں دونوں ضمیریں جمع مذکر کے لئے استعمال ھوئی ھیں.

یہ بات صحیح ھے کہ عام طور پر آیت کا سیاق و سباق ایک مطلب کو بیان کرتا ھے لیکن یہ اس وقت ھوتا ھے جب اس کے برخلاف کوئی قرینہ اور شاھد نہ ھو، لہٰذا جو لوگ آیت کے اس حصہ کو بھی ازواج پیغمبر(ص)کی شان میں سمجھتے ھیں ان کا نظریہ ظاھر آیت اور اس میں موجود قرینہ کے برخلاف ھے.

یعنی ان دونوں حصوں میں ضمیریں مختلف ھیں لہٰذا دو جدا جدا مطلب ھیں.

اس کے علاوہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں بڑے بڑے سنی اور شیعہ علمانے خود پیغمبراکرم(ص)سے متعدداحادیث نقل کی ھیں.

اور فریقین کے معتبر منابع و مآخذ میں اس کو قبول کیا گیا ھے، اور ان روایات کی تعداد بھی بہت زیادہ ھے.

ھم نے آٹھ دس دن لگا کے جو کتب ھمارۓ پاس برادران اھلسنت کی تھیں ان میں سے چند اھم کتب کے اورجنل سکین بناۓ ھیں اور واضح کیا ھے که اھلبیت ع سے مراد پاک رسول ص,حضرت علی ع,پاک بی بی سیده زھرا س,اور امام حسن و حسین علیھم اسلام ھی ھیں.

مستند روایت جو ھمیں صحاح سته و دیگر کتب اھلسنت میں ملتی ھے وه ھے حضرت ابوسعید الخدری کی ھے که اھلبیت سے مراد یا چادر تطھیر کے نیچے یه پانچ ھستایاں تھیں .لھذا یه مستند روایت کے ھوتے ھوۓ حق سے روگردانی نھیں کی جا سکتی.

ان کے متعلق پاک نبی ص کا یه عمل رھا ھے که جھاں ابو سعید الخدری کی گواھی ھوتی تھی وھاں آپ دوسرۓ صحابه سے گواھی نھیں لیتے تھے اس سے مراد یه که ابو سعید سچے راوی ھیں.

سکین کے علاوه و دیگر اھلسنت کی کتب معتبره میں بھی تسلی کر سکتے ھیں.

سورہ احزاب ، آیت:33

الدرالمنثور ، جلد 5، صفحہ 194و 199

المیزان ، جلد 14، صفحہ 311۔

حاکم حسکانی نے شواھدالتنزیل ، جلد 2, صفحہ 54.
میں مذ کورہ حدیث کو ذکر کیا ھے.

 یہ چوتھی صدی کے آخر اور پانچوی صدی کے شروع میں زندگی بسر کرتے تھے ، جن کی تفسیر ,
تفسیر کبیر کے نام سے مشھور ھے.

مجمعالبیان ، سورہ احزاب آیت:33کے ذیل میں .

صحیح مسلم ، 

جامع ترمذی,(سکین موجود ھیں)

شواھدالتنزیل ، جلد 3، صفحہ 34، حدیث 384.

تفسیر فخر رازی ، جلد 8، صفحہ 80

مسند احمد ، جلد اول، صفحہ 330، جلد 4 صفحہ 107، اور جلد 4، صفحہ 292.
 ( نقل از فضائلالخمسة ، جلد اول، صفحہ 274).

شواھدالتنزیل ، جلد 2، صفحہ 11، 12، 13، 14، 15 ،92 .
(توجہ کریں کہ شواھدالتنزیل نے اس روایت کو متعدد طریقہ سے نقل کیا ھے)

شواھدالتنزیل ، جلد 2، صفحہ 28 .

واحقا قالحق، جلد 2، صفحہ 503 سے 548 تک.
فضائل صحابه امام احمد بن حنبل.
معجم الکبیر.
شھید ابن شھید (علامه صائم چشتی).
معجم الاوسط جلد دوم.

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...