Saieen loag

ہفتہ، 20 اپریل، 2019

مقام صحابه اور شیعه مسلمان قسط/11

"مقام صحابه,اور شیعه مسلمان".          تحریر : سائیں لوگ"


قسط نمبر :11
اگر کوئی بھائی دس اقساط نه پڑھ سکا ھو تو صرف یه قسط پڑھ کے صحابی اور منافق صحابی کا فرق جان سکتا ھے.سمندر کو کوزۓ میں بند کیا گیا ھے,
معترض کو دعوت ھے اس پوسٹ کو چیلنج کرۓ.
جو کهتے ھیں سب صحابه مقام عدل,اور ھدایت کا مرکزھیں.
براه کرم وه خداره لازمی پڑھیں تاکه آپنی سوچ پر نظر ثانی کر سکیں.اور حقیقت ظاھر ھو.شکریه.
صحابی کی تعریف پر اہل سنت کا جو اجماع ہے وہ یہاں بیان ہوا ہے۔
اس تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ :
ایسا شخص "صحابی" متصور نہیں ہوگا جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو۔ 
بحوالہ : الإصابة في تمييز الصحابة : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، ج:1 ، ص:7-8

بخاری اور مسلم میں کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بھی "صحابی" کے لفظ سے یاد کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے .
سوال یہ ہے کہ کیا یہ منافقین یا مرتدین ۔۔۔۔ ان احادیث کی رو سے "صحابی" کی اصطلاحی تعریف میں شمار ہوتے ہیں؟
یعنی ۔۔۔۔
اسی سوال کے ایک دوسرے رُخ کے مطابق ۔۔۔۔
کیا بعض صحابہ منافق تھے ؟؟

صحیح بخاری سے اسی سلسلے کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:

النبي صلى الله عليه وسلم قال
يرد على الحوض رجال من اصحابي فيحلئون عنه فاقول يا رب اصحابي. فيقول انك لا علم لك بما احدثوا بعدك، انهم ارتدوا على ادبارهم القهقرى.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حوض (کوثر) پر میرے صحابہ کی ایک جماعت آئے گی۔ میں عرض کروں گا ، میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں ، یہ الٹے پاؤں (اسلام سے) واپس لوٹ گئے تھے (مرتد ہو گئے)۔
صحيح البخاري , كتاب الرقاق , باب في الحوض , حديث:6666

کتاب الرقاق کے اسی باب "فی الحوض" میں اسی نوعیت کی بہت سی احادیث ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ بخاری کی روایت میں "اصحابي" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی ۔۔۔
نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں دیکھ کر "میرے صحابہ" کہیں گے ، اس طرح ان منافقین کے "صحابی" ہونے کی گواہی دیں گے
تو اس کا جواب درج ذیل قرآنی آیت ہے :

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے :
وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْاور
آپ کے گرد وپیش اعرابیوں میں سے منافقین بھی ہیں اور اہل مدینہ میں سے بھی چند لوگ نفاق تک پہنچ چکے ہیں ، تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔
( التوبة:9 - آيت:101 )
اس آیت سے دو باتیں واضح‌ طور پر ثابت ہو رہی ہیں :
1۔ منافقین میں مکہ کے اعرابی بھی شامل تھے اور مدینہ کے چند لوگ بھی
2۔ تمام منافقین کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے بلکہ ان کی اصل تعداد کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

اس آیت میں منافقین کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) تمام منافقین کو نہیں جانتے۔ اور روزِ حشر تو خود حوض کوثر کے قریب اللہ تعالیٰ فرما دے گا کہ یہ متذکرہ منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے۔

ہم کسی بھی مسلمان کو ظاہری طور پر پرکھ کر ہی مسلمان کہتے ہیں۔ کسی کے دل کا حال سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔
اسلام کو ظاہری طور پر قبول کرنے (کلمۂ طیبہ پڑھ لینے والے) کو ہی مسلمان کہتے ہیں۔ اس بات کی دلیل یہ آیت ہے:
قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں
( الحُجُرات:49 - آيت:14 )
اور حافظ ابن کثیر بھی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ :
اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں کہئے کہ "تم یوں نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے۔۔۔" ۔۔۔ ایمان اسلام سے مخصوص چیز ہے۔ حدیث جبریل بھی اسی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں ۔۔۔۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ :
بخاری کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جن ساتھیوں کا بیان ہو رہا ہے ، آیا وہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے اسلام لانے والے منافقین تھے یا (اصطلاحی) صحابی تھے؟

اس بات کی وضاحت میں  اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ ۔۔۔۔
درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بسا اوقات کلمہ "اصحابه" سے وہ تمام لوگ مراد لیے ہیں جو قبول اسلام کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی یعنی امتی بنے۔
ہماری اس توجیہ کے بعض مضبوط دلائل ہیں ، جو آپ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

1۔ بخاری کی ایک حدیث میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کی گردن مار دینے کی اجازت جب حضرت عمر نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے طلب کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ :
دعه لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه
کہیں یوں نہ کہا جانے لگے کہ محمد اپنے صحابه کو قتل کرتا ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب التفسیر

بتائیے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کیا آج تک کسی مسلمان نے "صحابی" کا درجہ دیا ہے؟

2۔ بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے متعلق اللہ کا کلام جاننے کے بعد ان منافقین سے فرمائیں گے:
سحقاً سحقاً (تمہاری ہلاکت ہو)
صحیح بخاری ، کتاب الفتن

3۔ تیسری دلیل أمتي أمتي کے الفاظ والی حدیثِ بخاری ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب التوحید

پس ثابت ہوا کہ بخاری کی اس روایت میں "اصحابي" سے مراد اصطلاحی صحابی نہیں بلکہ عرفاً صحابی مراد ہے۔ جیسا کہ بخاری ہی کی ایک روایت میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے "اپنے ساتھی" کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔

منافقین ہر دور میں رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔

اس کے علاوہ ۔۔۔۔۔۔
مسلم کی یہ حدیث دیکھئے جس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے :
في أصحابي اثنا عشر منافقاً لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها
میرے ساتھیوں میں 12 منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے اور نہ اس کی خوشبو پائیں گے
صحيح مسلم ، كتاب صفات المنافقين وأحكامهم

بھلا بتائیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی نبی سے ایسی بیشمار متواتر روایات منقول ہوں جن میں سچےصحابہ کرام کے فضائل و کرام بیان کئے گئے حتیٰ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ تک کہے کہ :
لا تسبوا أصحابي
میرے صحابہ کو برا نہ کہو
صحيح بخاری ، كتاب فضائل الصحابة

 نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)  اپنے سچے صحابہ کو برا نہ کہنے کی نصیحتیں کرتا ہے .

 جھوٹ قطعاً نہیں کہتے کیونکہ صحیحین کی ان روایات پر اجماع امت ہے۔ لہذا ہمارے علماء و ائمہ ومحدثین نے یہی تطبیق دی ہے کہ :
متذکرہ منافقین عرفاً نبی کے ساتھی تھے [یعنی کہ بالکل ویسے ہی جیسے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو نبی نے اپنے "أصحابي" میں شمار کیا]، اصطلاحی و شرعی معنوں میں وہ "صحابی" نہیں تھے ، کیونکہ صحابی کی اجماعی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ وفات "ایمان" پر ہوئی ہو!
اور جن منافقین کو اللہ تعالیٰ خود کہہ چکا ہے کہ وہ "مرتد" ہو چکے ، وہ بھلا کس طرح "صحابی" کی تعریف میں شمار ہو سکتے ہیں؟؟

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو سچے وفادار حبِّ صحابہ سے بھر دے اور ہمیں اتنی توفیق عطا فرمائے کہ ناموسِ صحابہ کی خاطر قصرِ صحابیت پر کئے جانے والے ہر حملے کا موثر دفاع کر سکیں ، آمین!

at-10:57 AM

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...